جمعہ، 8 مئی، 2020

مایوس یا ناامید نہ ہوں mayus ya naummeed na hon

مایوس یا ناامید نہ ہوں
سید محمد حسنین باقری
خدائے واحد و یکتا کا حقیقی ماننے والا نہ تو کبھی ناامید ہوتا ہے اور نہ کبھی مایوس۔ اس لیے کہ خدا وند عالم ہی ایسی ذات ہے جو تمام امیدوں کا مرکز ہے، جس بارگاہ میں ناامیدی و مایوسی کا تصور نہیں ہے۔ پُر امید رہنا اور مایوس نہ ہونا ایک ایسی طاقت ہے جو بڑے سے بڑے مرحلہ سے گزرنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے اور سخت سے سخت منزل میں بھی گھبرا کر قدم پیچھے ہٹا لینے کے بجائے ہمت و حوصلہ عطا کرتی ہے کہ زندگی کو آگے بڑھایا جاسکے اور جینے کے راستے ہموار کیے جاسکیں۔ دنیا میں سختیاں بھی آتی ہیں، مصائب و مشکلات سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے، پریشانیاں و دشواریاں بھی گھیرتی ہیں، وبائیں و بیماریاں بھی اپنی چپیٹ میں لیتی ہیں،دشوار گزار و کٹھن مراحل بھی سامنے آتے ہیں، گناہ و معصیت تاریک وہولناک مناظر نگاہوں کے سامنے لاتے ہیں، لغزشیں و خطائیں دنیا و آخرت کی تباہی و بربادی کے مناظر نگاہوں کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ ان تمام صورتوں میں اگر کوئی سہارا دینے والا، نجات کا راستہ، امید کا مرکز،مشکل سے نکالنے والا، حوصلہ و ہمت عطا کرنے والا ہے تو صرف و صرف خداوند عالم کی ذات ہے۔
’’مایوسی، کفر کے ناپاک آثار کا لازمہ اور رب العزت کی عظمت و شان سے انکار کے مترادف ہے۔ جس نے اللہ تعالیٰ کو اس کی قدرت کاملہ ، فضل و کرم اور علم و رزاقیّت سے پہچان لیا اور جانتا ہے کہ وہ سارے عوالمِ امکان کا پیدا کرنے والا اور تمام عوالمِ وجود کو تربیت دینے والا ہے۔ اس کی قدرت لا محدود، اس کی حکمت و رحمت لا متناہی ہے۔ تمام ممکنات کے ہر فرد کو جو کچھ ضرورت ہے اسی کریم کا فیضانِ رحمت ہے۔ چنانچہ ناامیدی کے عالم میں متحیّر و غمگین رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ نا امیدی کو گناہ کبیرہ شمار کیا گیا ہے۔‘‘
خوف خدا لازم و ضروری ہے اس کی عظمت و بزرگی کے اقرار کا ایک مطلب اس سے خوف بھی ہے لیکن اس طرح کا خوف و ڈر جو اس کی رحمت سے مایوس کردے، قابل مذمت اور بدترین چیز ہے۔
(البتہ ایسی امید جو خدا سے بے خوف اور اس کی مخالفت پر جری بنادے نیز انتہائی مذموم و بدترین چیز ہے۔ اس لیے کہ کسی سے امیدوار رہنے کا مطلب یہی ہے کہ اس کی مخالفت نہ ہو )۔
جہاں قرآن کریم نے متعدد آیات میں خدا سے ڈرنے کا حکم دیا اور اس کو خدا والوں کی صفت بیان کی وہیں اس کی رحمت سے ناامیدی کو گمراہی شمار کیا ہے اس سلسلہ میں اعلان ہوتا ہے:
 قَالَ وَمَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ 
(سورہ حجر، آیت۵۶)۔
’’(ابراہیمؑ‘ نے) کہا کہ رحمت خدا سے سوائے گمراہوں کے کون مایوس ہوسکتا ہے‘‘
اسی طرح سورہ یوسف میں رحمت خدا سے مایوسی کو کافروں کا عمل قرار دیتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:
۔۔۔ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّـهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ ۔
 ( آیت ۸۷)۔’’خدا کی رحمت سے کافر قوم کے علاوہ کوئی مایوس نہیں ہوتا ہے‘‘
خدا وندعالم نے قرآن کریم میں اپنے بندوں کے لیے اپنے کو بہت سی صفات کے ساتھ پہچنوایا ہے۔ جن میں سے ہر صفت جمال و جلال الٰہی کو پیش کررہی ہے۔ رحمت خدا بھی انھیں صفات میں سے ایک ہے جس کا تذکرہ تقریبا پانچ سو آیات میں ہوا ہے:
۱۔ تکرار:
قرآن میں لفظ ’’الرحمٰن‘‘ ۱۵۷ مرتبہ اور ’’الرحیم‘‘، ’’رحیم‘‘ ، ’’رحیما‘‘ ۱۶۶ مرتبہ ذکر ہوئے ہیں، قرآن میں یہ الفاظ خدا کی صفت کے عنوان سے بیان ہوئے ہیں لیکن ایک جگہ پر سورہ توبہ آیت ۱۲۸ میں کلمہ ’’رحیم‘‘ پیغمبر اکرمﷺ کی صفت بیان ہوئی ہے۔چار جگہوں پر خدا سے رحمت طلب کی گئی ہے جنمیں سے تین میں پیغمبروں کی جانب سے اور ایک جگہ پر مخلص بندوں کی طرف سے: سورہ بقرہ، آیت ۲۸۶ ، اعراف ۱۵۱ و ۱۵۵، مؤمنون ۱۰۹۔ چار جگہوں پر خدا ’’ارحم الراحمین‘‘ سے متصف ہوا ہے:اعراف ۱۵۱، یوسف ۶۴، یوسف ۹۲ و انبیاء ۸۳  اور ایک جگہ پر ’’خیر الراحمین ‘‘ کہا گیا ہے: مؤمنون ۱۱۸۔
۲۔ بعض آیات میں رحمت الہی:
وَرَبُّکَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ۔(سورہ کہف، آیت۵۸)۔’’آپ کا پروردگار بڑا بخشنے والا اور صاحبِ رحمت ہے ‘‘
کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ۔(انعام، ۱۲ و ۵۲)۔
’’تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو لازم قرار دے لیا ہے ‘‘
وَرَحمَتِی وَسِعَت کُلَّ شَیء۔(اعراف،۱۵۶)۔
’’میری رحمت ہر شے پر وسیع ہے‘‘
إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِیبٌ مِنَ الْمُحْسِنِینَ۔(اعراف،۵۶)۔
’’خدا کی رحمت صاحبان حسن عمل سے قریب تر ہے‘‘
قُلْ یا عِبَادِی الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ۔(سورہ زمر، ۵۳)
’’پیغمبر آپ پیغام پہنچادیجئے کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا ‘‘
وَمَنْ یقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ۔(حجر ۵۶)۔
’’ رحمت خدا سے سوائے گمراہوں کے کون مایوس ہوسکتا ہے‘‘
مَایفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِکَ لَهَا وَمَایمْسِکْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ۔(فاطر ۲)
’’اللہ انسانوں کے لئے جو رحمت کا دروازہ کھول دے اس کا کوئی روکنے والا نہیں ہے اور جس کو روک دے اس کا کوئی بھیجنے والا نہیں ہے‘‘۔
۳۔ مومنین کے درمیان رحمت:
اصحاب الیمین کی خصوصیات میں ایک دوسرے کو رحمت کی سفارش کرنا ہے:
 ... وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ أُولَئِکَ أَصْحَابُ الْمَیمَنَةِ۔(سورہ بلد، ۱۷،۱۸)
’’ انہوں نے صبر اور مرحمت کی ایک دوسرے کو نصیحت کی؛ یہی لوگ خو ش نصیبی والے ہیں‘‘
وَالَّذِینَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَینَهُمْ۔(فتح ۲۹)
’’محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئے سخت ترین اور آپس میںانتہائی رحمدل ہیں ‘‘
وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ۔(بنی اسرائیل،۲۴)۔
’’اور ان کے لئے خاکساری کے ساتھ اپنے کاندھوں کو جھکا دینا ۔‘‘
... وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا کَمَا رَبَّیانِی صَغِیراً۔(بنی اسرائیل،۲۴)
’’اور ان کے حق میں دعا کرتے رہنا کہ پروردگار اُن دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فرما جس طرح کہ انہوں نے بچپنے میں مجھے پالا ہے‘‘
بندوں کی بنسبت وسیع رحمت الٰہی کو بیان کرنے والی آیت:
بعض روایات کے مطابق امید و رحمت الٰہی کے حوالے سے سب سے اہم آیت یہ ہے:
قُل یا عِبادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلی أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعاً إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ»؛ (زمر، ۵۳) ۔
’’پیغمبر آپ پیغام پہنچادیجئے کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا اللہ تمام گناہوں کا معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے‘‘۔
مندرجہ بالا تعبیرات میں غور کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کریم کی یہ آیت گنہ گاروں کے لیے سب سے زیادہ امید دلانے والی ہے اور اس کی وسعت اتنی زیادہ ہے کہ اسے ’’أوسَعُ الآیات‘‘ کہا گیا ہے۔
۱): پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا:مجھے پسند نہیں کہ دنیا و مافیہا میں جو کچھ ہے وہ اس آیت کے بدلے میں مجھے مل جائے:
یا عِبادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلی أَنْفُسِهِمْ...
ایک شخص نے کہا:اے اللہ کے رسولؐ! جس نے شرک کیا ہے (کیا وہ بھی اس آیت میں شامل ہوگا؟) پیغمبرﷺ کچھ دیر خاموش رہے پھر تین مرتبہ فرمایا: شرک کرنے والے کے علاوہ 
(أبوبکر بیہقی، أحمد بن حسین، شعب الایمان، ج۹، ص۳۴۰ و ۳۴۱)
۲): امام علی علیہ السلام نے فرمایا: 
قرآن میں اس آیت سے زیادہ وسعت رکھنے والی دوسری آیت نہیں ہے: یا عِبادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلی أَنْفُسِهِمْ...
 (طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج۸، ص۷۸۴)
۳): کہا گیا ہے کہ یہ آیت جناب حمزہ ؑکے قاتل غلام وحشی کے لیے نازل ہوئی جب اس نے چاہا کہ اسلام قبول کرے۔ نبی اکرمﷺ سے سوال ہوا: اے اللہ کے رسولؐ! یہ آیت اس غلام سے مخصوص ہے یا تمام مسلمانوں کو شامل ہوگی؟ پیغمبرﷺ نے فرمایا: تمام مسلمانوں کو شامل ہے 
(طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج۸، ص۷۸۵)
اس آیت کی وسعت اور سب کو شامل ہونے کی دلیل واضح ہے اس لیے کہ:
۱۔ ’’یا عبادی‘‘ (اے میرے بندو)کی تعبیراس لطف و مہربانی کو شروع کرنے والی جو پروردگار کی جانب سے ہے۔
۲۔ ظلم و گناہ و جرم کے بجائے اسراف کا لفظ استعمال کرنا بھی لطف پروردگار ہے۔
۳۔ عَلی أَنْفُسِهِمْ۔ کی تعبیر سے یہ واضح ہورہا ہے کہ انسان کے گناہ خود اسی کی طرف پلٹتے ہیں، یہ بھی خدا کی محبت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جس طرح اپنے بیٹے سے بہت زیادہ محبت کرنے والا ایک باپ اپنے بیٹے سے کہے کہ اتنا زیادہ اپنے اوپر ظلم نہ کرو۔
۴۔ ’’لاتقنطوا‘‘ (مایوس نہ ہو) کی تعبیر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ’’قنوط‘‘ در حقیقت خیر و بھلائی سے مایوس نہ ہونے کے معنی میں ہے(راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ القرآن ، ص ۶۸۵) ، یہ تنہا ہی اس بات پر دلیل ہے کہ گنہ گاروں کو الطاف الہی سے مایوس نہ ہونا چاہیے۔
۵۔ ’’مِنْ رَحْمَةِ اللهِ‘‘ کی تعبیر، جملۂ ’’لا تقنطوا‘‘ کے بعد اس بھلائی و محبت پر مزید تاکید ہے۔
۶۔  جملۂ ’’إِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ‘‘ کا آغاز حرف تاکید سے ہوا ہے اور کلمۂ ’’الذنوب‘‘ (جمع با الف و لام) تمام گناہوں کو بغیر استثنا کے شامل ہےجس سے دریائے رحمت الٰہی کی وسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
۷۔ جب ’’جمیعا‘‘ کے ذریعہ دوسری تاکید ذکر ہوتی ہے تو امیدواری آخری مرحلہ کو پہنچ جاتی ہے۔
۸ و ۹۔ آیت کے آخر میں ’’غفور‘‘ و ’’رحیم‘‘ جیسے پُر امید کرنے والے اوصاف کے ذریعہ خداوند عالم کی توصیف نا امیدی و مایوسی کو مکمل ختم کردیتی ہے۔ (تفسیر نمونہ، ج۱۹، ص۴۹۹  و۵۰۰)۔
نتیجہ نکلا کہ مذکورہ بالا آیت قرآن کریم کی ایسی آیت ہے جو تمام گناہوں و خطاؤں کو شامل کیے ہوئے ہے اسی وجہ سے قرآن کی سب سے زیادہ امید دلانے والی اور مایوسی و ناامیدی سے محفوظ رکھنے والی آیت ہے۔ اس آیت کی جلوہ گری انسان کی واقعی توبہ میں ہے۔ 
شیطان کا رحمت الٰہی کی طمع کرنا:
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس سلسلے میں فرمایا:
إذا کانَ یَوْمُ الْقِیامَةِ نَشَرَ اللّهُ تَبارَک وَتَعالی رَحْمَتَهُ حَتّی یَطْمَعَ إبْلیسُ فی رَحْمَتِهِ. 
قیامت میں جب خدا اپنی رحمت کا سایہ کرے گا یعنی اسکی وسیع رحمت کا نمونہ سامنے آئے گا تو شیطان بھی حق تعالیٰ کی اس رحمت کو دیکھ کر رحمت کی امید کرے گا۔(بحار الأنوار،۷؍۲۸۷، باب۱۴، حدیث۱؛ الأمالی، شیخ صدوق،۲۰۵، حدیث۲)
سب سے زیادہ امید دلانے والی آیت: 
ابوحمزہ ثمالیؓ نے امام زین العابدین یا امام محمدباقر علیہماالسلام سے نقل کیا ہے کہ ایک دن امام علی‎علیہ السلام نے لوگوں سے سوال فرمایا کہ تمہاری نظر میں قرآن کریم کی کون سی آیت سب سے زیادہ امید دلانے والی ہے؟ بعض نےکہا:
إِنَّ اللَّهَ لا یَغْفِرُ أَنْ یُشْرَکَ بِهِ وَ یَغْفِرُ ما دُونَ ذلِکَ لِمَنْ یَشاء؛ (نساء ،۴۸)۔
’’اللہ اس بات کو معاف نہیں کرسکتا کہ اس کا شریک قرار دیا جائے اور اس کے علاوہ جس کو چاہے بخش سکتا ہے اور جو بھی اس کا شریک بنائے گا اس نے بہت بڑا گناہ کیا ہے‘‘
امام علیؑ نے فرمایا: بہترین آیت ہے لیکن یہ مقصود نہیں ہے۔ بعض نے جواب دیا:
وَ مَنْ یَعْمَلْ سُوءاً أَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللَّهَ یَجِدِ اللَّهَ غَفُوراً رَحیما؛ (نساء، ۱۱۰)
’’اور جو بھی کسی کے ساتھ برائی کرے گا یا اپنے نفس پر ظلم کرے گا اس کے بعد استغفار کرے گا تو خدا کو غفور اور رحیم پائے گا‘‘
امیرالمومنینؑ نے فرمایا: بہت اچھی آیت ہے لیکن یہ وہ نہیں ہے۔ بعض دوسرے افراد نے کہا:قُلْ یا عِبادِیَ الَّذینَ أَسْرَفُوا عَلى‏ أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمیعاً إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحیم‏؛(زمر، ۵۳)
علی علیہ السلام نے فرمایا: بہترین آیت تو ہے لیکن یہ منظور نہیں ہے۔ پھر سوال کیا کہ کیا تمہاری نظر میں کوئی اور آیت نہیں ہے جو سب سے زیادہ امیدوار کرنے والی ہو؟ اصحاب نےکہا: نہیں اے امیرالمومنین، ہم کو تو نہیں معلوم ہے۔ امامؑ نے فرمایا: میں نے اپنے حبیب رسول خدا ﷺ سے سنا کہ آپ نے فرمایا:قرآن مجید میں سب سے زیادہ امید دلانے والی یہ آیت ہے:
وَ أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَیِ النَّهارِ وَ زُلَفاً مِنَ اللَّیْلِ إِنَّ الْحَسَناتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّئاتِ ذلِکَ ذِکْری‏ لِلذَّاکِرِینَ؛ (ہود، ۱۱۴)
’’اور پیغمبر آپ دن کے دونوں حصّو ں میں اور رات گئے نماز قائم کریں کہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردینے والی ہیں اور یہ ذکر خدا کرنے والوں کے لئے ایک نصیحت ہے‘‘
پھر پیغمبرﷺ نے فرمایا: یَا عَلِیُّ وَ الَّذِی بَعَثَنِی بِالْحَقِّ بَشِیراً وَ نَذِیراً إِنَّ أَحَدَکُمْ لَیَقُومُ إِلَى وُضُوئِهِ فَتَسَاقَطُ عَنْ جَوَارِحِهِ الذُّنُوب۔  اے علی! اس خدا کی قسم جس نے مجھےبشیر و نذیر بنایا اور مجھے رسول بناکر اس کائنات میں بھیجا، اگر تم میں کوئی وضو کے ساتھ نماز قائم کرے تو تمہارے اعضائے وضو کے گناہ ختم ہوجائیں گے۔
فَإِذَا اسْتَقْبَلَ اللَّهَ بِوَجْهِهِ وَ قَلْبِهِ لَمْ یَنْفَتِلْ عَنْ صَلَاتِهِ وَ عَلَیْهِ مِنْ ذُنُوبِهِ شَیْ‏ءٌ کَمَا وَلَدَتْهُ أُمُّهُ فَإِنْ أَصَابَ شَیْئاً بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ کَانَ لَهُ مِثْلُ ذَلِک.
جب اپنے چہرے اور دل کے ساتھ خدا کی طرف توجہ کرےتو ابھی نماز ختم بھی نہیں ہوگی کہ تمام گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاؤ گے جیسے ماں کے شکم سے دنیا میں قدم رکھا ہے اور دو نمازوں کے درمیان اگر کسی گناہ کے مرتکب ہوگئے تو وہ بھی خدا معاف کرے گا۔
آنحضرتؐ نے اسی طرح نماز پنجگانہ کو بیان فرمایا۔ پھر فرمایا:
 یَا عَلِیُّ إِنَّمَا مَنْزِلَةُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ لِأُمَّتِی کَنَهَرٍ جَارٍ عَلَى بَابِ أَحَدِکُمْ فَمَا ظَنَّ أَحَدُکُمْ لَوْ کَانَ فِی جَسَدِهِ دَرَنٌ ثُمَّ اغْتَسَلَ فِی ذَلِکَ النَّهَرِ خَمْسَ مَرَّاتٍ فِی الْیَوْمِ أَ کَانَ یَبْقَى فِی جَسَدِهِ دَرَنٌ فَکَذَلِکَ وَ اللَّهِ الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ لِأُمَّتِی.»
 اے علیؑ! میری امت کے لیے پنجگانہ نماز کی منزلت اس نہر کی طرح ہے جو تمہارے گھر کے سامنے ہو ، اگر تم میں سے کسی کے بدن میں کوئی میل و گندگی ہو اور روزانہ پانچ مرتبہ اس نہر میں نہائے تو کیا بدن میں کوئی میل کچیل باقی رہے گا؟ خدا کی قسم میری امت کے لیے پنجگانہ نماز اسی طرح ہے۔
(بحار الانوار، علامہ مجلسی، جلد ۷۹، صفحہ۲۲۰  از تفسیر عیاشی و مجمع البیان)
خدائے رحیم و کریم جیسی ذات کے ماننے والے ہوکر اور اس کی طرف سے نماز جیسی عبادت کے ہوتے ہوئے نہ کبھی مایوسی ہوسکتی ہے اور نہ کبھی ناامیدی۔ اسی لیے اس ذات باری کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہم سب کو واقعی معنی میں اپنی ذات پر بھروسہ کرنےاور امید وار رہنے اور مایوس نہ ہونے کی توفیق عنایت فرمائے؛ ایسی امید و بھروسہ جس میں کسی طرح کی معصیت و گناہ نہ ہو۔خخخ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں