باسمہ تعالیٰ
(انہدام جنۃالبقیع کے چار ماہ بعد لکھی گئی ایک تحریر)
جنۃ البقیع
عالیجناب مولانا سید ظفر حسن صاحب عاصیؔ امروہوی طاب ثراہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی
جنت البقیع کیا ہے؟
جنت البقیع مدینۂ منورہ کا وہ متبرک و مقدس قبرستان ہے جس کو ہمارے رسولؐ کی پیاری بیٹی جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا نے اپنے پدر بزرگوار کی وفات کے بعد ’’بیت الحزن‘‘ بنایا تھا یعنی شفیق پدر سے جدا ہوکر زندگی کے بقیہ دن اس طرح گزارے کہ صبح و شام بیٹوں کا ہاتھ پکڑ کر جنت البقیع میں تشریف لے جاتیں اور گھنٹوں یاد رسولؐ میں پھوٹ پھوٹ کر روتیں اس مقام سے اس معصومہؑ کو ایک خاص انس ہوگیا تھا۔ اسی وجہ سے بعد وفات امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے اُسی قبرستان میں دفن کیا اور اس خطۂ زمین کو رشک فردوسِ بریں بنایا۔ علاوہ جناب سیدہ خاتون جنتؑ کی قبرِ منور کے اس جنت البقیع رشک دہِ روضۂ رضواں میں اولاد رسولؐ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور جناب رقیہ و امّ کلثوم ختمی مرتبت کی (منہ بولی) بیٹیاں اور حضرت عباسؓ عم رسول اللہؐ اور گلزار رسالت کے چند پھول یعنی امام حسن، امام زین العابدین، امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیہم السلام آرام فرما ہیں۔ و نیز ازواج مطہرات و امہات الامۃ جناب عائشہ و امّ سلمہؓ ( و صحابیٔ رسول عثمان بن مظعون) بھی گلزار محمدی کے پھولوں کے ساتھ ہیں اور جناب عثمان خلیفۂ سوم بھی وہیں (قبرستان کے باہری حصہ حش کوکب میں )مدفون ہیں(جنھیں حاکم شام نے بقیع میں شامل کردیا تھا)
جنت البقیع پر کیا حادثہ نازل ہوا؟
ابن سعود نجدی وہابی فرقہ کا ایک بادشاہ ہے کچھ عرصہ سے حرمین شریفین یعنی مکہ و مدینہ کا حکمراں بن گیا ہے۔ چونکہ اُس کے مذہب کی رو سے قبروں کا زمین سے بلند کرنا اور اُن پر قبوں کا بنانا بدعت اور شرک باللہ ہے لہذا اپنے علماء کے فتاوی کے موافق اس نے تمام مشاہد مقدسہ اور مآثر متبرکہ کو منہدم کرادیا اور کسی پیشوائے دین کا کوئی مقبرہ باقی نہ رکھا۔ ان وحشیانہ مظالم کا شکار جنت البقیع کے قُبّے اور قبور ہوگئے۔ جہاں صبح و شام ہزارہا آدمی زیارت کی غرض سےجایا کرتا تھا اور ہجوم خلائق سے میلہ سا لگا رہتا تھا۔ تسبیح و تہلیل کی آوازیں آیا کرتی تھیں۔ وہاں اب ایک شہر خموشاں نظر آتا ہے۔ جس میں بجز حسرت و یاس کوئی آنے جانے والانہیں، کسی شخص کی مجال نہیں کہ شکستہ دیواروں، ٹوٹے پھوٹے قُبّوں اور پامال قبروں پر جاکر درد بھرے دل سے ایک آہ بھی کھینچ سکے، یا اس جاں شکن مصیبت کے تصور میں دو آنسو بھی آنکھ سے نکال لے۔جو شخص ان قبور کا حامی اور اس ظلم کا شاکی نظر آتا ہے اس پر حکم شاہی کی بنا پر طرح طرح سے تشدّد کیا جاتا ہے بلکہ جان تک لینے سے باک نہیں ہوتا۔ خدا کی شان دیکھو جس رسولؐ کی بدولت مسلمان مسلمان کہلائے اور توحید پرست بنے، عرب و عجم کے مالک ہوئے، معرفت و حقانیت کے پتلے بنے اُسی رسولؐ کی بیٹی اور دیگر مزارات کے ساتھ وہ عملدرآمد کیا گیا جس کو شائد یہود و نصارےٰ بھی روا نہ رکھتے۔ کیا اُن لوگوں کے کانوں میں حدیث: فاطمۃ بضعۃ منّی من اذاھا فقد آذانی (فاطمہؑ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھ کو اذیت دی) نہیںپڑی تھی؟! کیا اس ظلم شدید سے روح مطہر جناب سیدہؑ کو کوئی صدمہ نہیں پہنچا؟کیا اس بے حرمتی سے روحِ رسولؐ کو اذیت نہیں ہوئی؟کیا کوئی مسلمان جس کے دل میں ذرّہ بھر بھی رسولؐ و اولادِ رسولؐ کی محبت ہے اس کا جواب نفی میں دے سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ بالیقین اس کے منہ سے یہی نکلے گا کہ اس بے ادبی و گستاخی نے صرف قلب رسولؐ ہی پر چوٹ نہیں ماری بلکہ تمام خاندان رسولؐ کی ارواحِ طیبہ کو مضطر و بیچین بنا دیا۔
جناب والا! آج ایک معمولی حیثیت کا آدمی بھی اس ذلت و خواری کو گوارا کرنے کے لئے تیار نہ ہوگا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے کسی عزیز کی قبر پر کدال اور پھاؤڑا چلایا جائے اور قبہ کی اینٹ سے اینٹ بجائی جائے کیونکہ قبر کی توہین درحقیقت صاحب قبر کی توہین ہوتی ہے۔ اور چونکہ صاحب قبر انتہائی بیکسی اور بے بسی کے عالم میں ہوتا ہے لہٰذا اس کی آبرو کا تحفظ اس کے اعزا پر موقوف ہوتا ہے۔ اور اسی بنا پر اس کی توہین تمام قبیلہ کی توہین خیال کی جاتی ہے۔ پس اے مسلمانو! مقام انصاف ہے کہ جب معمولی قبر کی توہین کا اثر سارے قبیلہ پر پڑ جائے لیکن تمہارے رسولؐ کی بیٹی اور عزیزوں کی قبریں اکھاڑنے والے اکھاڑ کر پھینک دیں اور اس سے نہ کسی دل پر چوٹ لگے اور نہ کسی خاندان و قبیلہ کی بدنامی و رسوائی ہو؟!۔ اگر رسولؐ اور اولاد رسولؐ تمہارے جانوں اور تمہارے جملہ عزیزوں سے پیارے ہیں تو ان کی توہین کو تمام اسلام کی توہین سمجھنا چاہئے۔ جس حادثہ نے ہمارے رسولؐ اور ہمارے ائمہؑ کے قلوب کو برما دیا ہے اگر ہم اس کو خاموش بیٹھ کر سنیں اور اظہار افسوس میںلب تک نہ ہلائیں تو وائے ہم پر اور ہماری مسلمانی پر۔
رسول اللہﷺ کے جلیل القدر صحابی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی قبر مبارک کے ساتھ جو سلوک یزید کے ہاتھوں ہوا، اہل بصیرت پر مخفی نہیں۔ جب قسطنطنیہ کے محاصرہ کے وقت ان کا انتقال فوج اسلامی کے کیمپ میں ہوا تو مسلمانوں نے اس صحابیٔ رسول اور بوڑھے مجاہد اسلام کو نہایت تزک و احتشام اور عزت و احترام سے دفن کیا اور قبر بنادی ۔ تو سپہ سالار یزید نے اس بزرگ کی قبر پر گھوڑے دوڑا کر نشان قبر مٹادینے کا حکم دیا چنانچہ قبر کو بالکل بے نشان کردیا گیا۔ غالباً وہی یزیدی روح نجدیوں میں حلول کرا ٓئی ہے۔
(کتاب استیعاب جلد ۲ صفحہ ۵۳۸ علامہ عبد البر مکی و مدارج النبوۃ شاہ عبد الحق دہلوی جلد ۲ صفحہ ۶۱۶و۶۱۷)
مسلمانو! اب وہ پہلا سا مکہ اور مدینہ نہیں رہا۔ جہاں تم آزادی کے ساتھ اعمال حج بجالاکر شوق بھرے دل سے اپنے پیارے رسولؐ کی آستان مبارک کی طرف لپکتے تھے اور گھنٹوں جبین نیاز کو روضہٗٔ اقدس کی خاک پاک پر رکھے پڑے رہتےتھے۔ کبھی یا رسول اللہؐ کے نعرے مارتے تھے اور کبھی حرم مبارک کا طواف کرتے تھے۔ اب اس کی کایا پلٹ ہوگئی ۔ اب وہ رسولﷺ کا مدینہ نہیں رہا۔ بلکہ نجدیوں کا مدینہ بن گیا۔ اب وہاں اتنی بھی اجازت نہیں کہ کوئی مسلمان’’ یا رسول اللہؐ‘‘ بھی پکار آئے۔ اب روضۂ رسولﷺ مرکز معرفت و حقانیت نہیں سمجھا جاتا۔ بلکہ اس کو صنم اکبر (بڑا بت) کا خطاب دیا جاتا ہے۔ اب حرم مبارک اور روضۂ مطہر کے گرد مسلمانوں کو آزادی سے طواف کرنا نصیب نہیں ۔ بلکہ جو اس ارادے سے جاتا ہے اس کو سنگینوں کی نوکوں سے ہٹا یا جاتا ہے۔ اب ڈنکے کی چوٹ منبروں پر بیٹھ بیٹھ کر یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام حقیقی دنیا میں اب آیا ہے۔ اب تک کفر اسلام کے پردے میں جھلک رہا تھا۔ گویا ان کے خیال میں خلفائے نامدار، صحابۂ کبار اور ائمۂ اطہارؑ کی تعلیم کفر و شرک کی نجاست سے آلودہ تھی اور کسی کی تعلیم اسلام کی سچی تعلیم کہے جانے کے قابل نہ تھی۔ صرف ایک ذات عبد الوہاب نجدی کی جس نے غالباً بارہویں صدی ہجری میں جنم لیا تھا، ایسی تھی جس نے توحید کے اصلی معنی کو سمجھا تھا اور اسلام کے حقیقی مفہوم تک رسائی پیدا کی تھی۔ باقی اور سب یونہی ہوائی فائر کرنے والے تھے۔ اجی جناب ابھی تو دبی زبان سے اتنا ہی کہا جاتا ہے کچھ دن گزرنے پر یہ آواز بھی سن لینا کہ ہم سے بہتر توحید کو رسول اللہﷺ نے بھی نہ سمجھاتھا۔ آج دختر رسولؐ، زوجۂ رسول، اہلبیتؑ ، عم رسولﷺ ، صحابیٔ رسولﷺ ، فاطمہ بنت اسد مادر حضرت علی علیہ السلام کے روضہ ہائے مقدسہ اور قبہ ہائے متبرکہ کو منہدم کیا گیا ہے۔ کل روضۂ رسولﷺ کا نمبر ہے اور پرسوں خانہ کعبہ پر دھاوا ہے ۔ ابھی مسلمانوں کی حمیت و غیرت کا اندازہ کیا جارہا ہے۔ جس وقت خدانخواستہ ہمتیں پست اور حوصلے ڈھیلے نظر آئیں گے سب الااللہ کہہ کر اصحاب فیل کی طرح خانہ کعبہ پر چڑھ دوڑیں گے۔ اور وہی عمل کریں گے جو آج جنت البقیع اور دیگر مزارات کےساتھ کیا ہے۔
سب سے زیادہ پر لطف بات یہ ہے کہ ان تمام بد اعمالیوں کی پردہ پوشی کے لئے آیات اور احادیث رسولﷺ کی آڑ ڈھونڈی گئی ہے گویا ان کا ہر فعل حکم خدا و رسولﷺ کے موافق ہورہا ہے۔ سبحان اللہ ؎
چہ دلاور است دزدے کہ بہ کف چراغ دارد
اس حادثہ نے مسلمانوں پر کیا اثر کیا؟
جنت البقیع کے واقعہ ہائلہ نے اسلامی دنیا میں جو ہل چل ڈالی ہے اس کا اندازہ اخباروں کے کالموں اور ان جلسوں کی کاروائیوں سے ہوسکتا ہے جو اسلامی آبادیوں میں آج تک ہوئے اور ہورہے ہیں۔ جابجا ابن مسعود کی ان وحشیانہ کاروائیوں کے متعلق اظہار نفرت کے رزولیوشن پاس ہورہےہیں سنی (حنفی) اور شیعہ دونوں فرقے متحدہ حیثیت سے اس ماتم کے عزادار اور اس غم کے سوگوار بنے ہوئے ہیں ۔ فریقین کے مبلغین و واعظین عام جلسوں میں ابن مسعود کے مظالم پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے اس کے مذہب کی قلعی کھول رہے ہیں۔ ماہ گزشتہ میں ایک بہت بڑا جلسہ عام مسلمانوں کا لکھنؤ میں ہوا۔ جس میں اکابر علمائے سنی و شیعہ نے شریک ہوکر اس واقعہ کے متعلق اظہار حزن وملا ل کیا اور عام مسلمانوں کو اس غم میں حصہ لینے کی فہمائش کی۔ حضرات علماء کی تحریک کی بنا پر ایک انجمن بنا م’’ خدام الحرمین‘‘ قائم ہوئی جس میں شیعہ و سنی دونوں فریق کے ممبر داخل کئے گئے۔ اور یہ تجویز ہوا کہ اشتہارات کے ذریعہ سے ہر شہر و قصبہ کے مسلمانوں سے یہ درخواست کی جائے کہ وہ اس کی شاخیں اپنے اپنے یہاں قائم کریں۔ چنانچہ اسی بنا پر ایک شاخ قصبہ امروہہ ضلع مراد آباد میں بھی قائم ہوئی۔ اور عام مسلمانوں کے متعدد جلسے شہر کے مختلف محلوں میں ہوئے۔ ہر جلسہ میں ایک سنی اور ایک شیعہ واعظ کی تقریر ہوتی تھی۔ حضرات اہل سنت کی طرف سے حکیم اسرار الحق صاحب کا انتخاب عمل میں آیا تھا اور شیعہ حضرات کی طرف سے راقم الحروف کا ۔یہ تمام جلسے بحمد اللہ بہت کامیابی کے ساتھ ہوتے رہے۔
حادثۂ جنت البقیع سے اسلام پر کیا مصیبت نازل ہوئی؟
اہل بیت رسولﷺ پر مسلمانوں کے ہاتھوں سے یوں تو ہر زمانہ میں مصیبت کے پہاڑ ٹوٹا کئے ہیں۔ مگر اس حادثۂ عظمیٰ سے ایک نئی مصیبت اسلام پر نازل ہوئی اور وہ یہ کہ زمانۂ سابق میں جو متوکل عباسی نے قبر امام حسین علیہ السلام کو منہدم کرادیا تھا تو اس کی علت غائی یا تو خاندان رسالتؐ سے عداوت تھی یا اس امر پر حسد تھا کہ بعد شہادت بھی لوگوں کے دلوں میں ان کی اس قدر توقیر باقی ہے کہ اطراف و اکناف عالم سے لوگ آ آکر ان کی قبور کی زیارت کرتے اور ان کے آستان مبارک پر اپنی جبین نیاز رکھتے ہیں لیکن انہدام مقابر جنت البقیع کا سبب صرف اتنا ہی نہیں تھا۔ بلکہ اس فعل شنیع کے ارتکاب کا قوی مؤید یہ ناپاک خیال تھا کہ ان مقابر کی تعظیم کرنا شرک باللہ ہے۔ نیز یہ کہ شریعت اسلام میں قبور کا بلند کرنا اور ان پر قبے بنانا حرام ہے۔ یہ حضرات ہر گز اس قابل نہیں کہ ان سے شفاعت طلبی کی جائے یا اپنی مدد کے لئے پکارا جائے۔ خواہ وہ رسولﷺ ہوں یا اولاد رسولﷺ یا اصحاب رسولﷺ،۔ یہ ہے وہ زہر قاتل جو اسلامی رگوں میں دوڑانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر عداوتاً ہی یہ انہدام عمل میں آتا تو اس کی امید ہوسکتی تھی کہ نجدی آندھی کا زورگھٹ جانے کے بعد پھر صاف آسمان دکھائی دینے لگے گا۔ اور گرے قبے پھر کھڑے ہوجائیں گے لیکن اس عقیدے کی ترویج یہ بتارہی ہے کہ اگر مسلمانوں نے اس کی طرف کافی توجہ نہ کی تو یہ زہر بجلی کی طرح تمام بلاد اسلامیہ میں دوڑ جائے گا۔ اور ہ بات رسم اسلام اور سنت الٰہی بن جائے گی، کہ جہاں کسی بزرگ دین کا مقبرہ پاؤ بے تامل اس کو گرادو۔ خواہ وہ عرب میں ہو یا عجم میں۔ کابل میں ہو یا ہندوستان میں نیز یہ کہ آئندہ کسی بزرگ دین کی کوئی اس قسم کی یادگار روئے زمین پر قائم نہ ہونے دو کیونکہ یہ شرک باللہ اور بدعت ہے۔
بس اے مسلمانو! ہم کو صرف سب سے بڑا رونا اس بات کا ہے کہ یہ عقیدۂ فاسد بہت جلد دنیا میں پھیلنے والاہے۔ اگر تم نے اس کے نیست و نابود کرنے میں کافی حصہ نہ لیا تو پھر روئے زمین پر تم کو کوئی مقبرہ یا روضہ کسی بزرگ دین کا نظر نہ آئے گا۔ اور حامیان دین اور ہادیان شرع مبین کی قبروں پر بھی اسی طرح سگ و خوک گزرتے دکھائی دیں گے جس طرح عام قبروں پر۔ وہاں بھی وہی سنسانی اور ویرانی برسے گی جیسے دنیا کے تمام قبرستانوں میں ۔ پھر تم کو ڈھوندھے بھی کوئی ایسی زیارت گاہ نہ ملے گی جہاں جاکر اپنے ایمانی عہد کو تازہ کرسکو یا دنیا کے کسی عظیم الشان واقعہ کو یاد کرکے اپنے ایمان کو جلادے سکو یا کسی محسن دین و ملت کے شکریہ میں جبین شکر کو جھکا سکو۔ اگر یہی شرک باللہ کی کڑکتی چمکتی بجلیاں ہیں تو نہ روضۂ رسولﷺ کی خیر ہے نہ خانۂ کعبہ کی نہ کوئی حج کرسکے گا نہ عمرہ و طواف ہوسکے گا نہ زیارت۔
علماء کا فرض ہے کہ اس وقت نازک میں اپنے قلم سے پورا پورا کام لیں اور امداد کریں ۔ واعظین و مقررین کو چاہئے کہ کچھ مدت تمام مضامین کو ترک کرکے صرف اسی ایک مضمون کو اپنا مقصد وعظ قرار دیں کیونکہ وہابیت کی تحریک نہایت جوش کےساتھ کی جارہی ہے۔
اہلبیتِ رسولﷺ ہمیشہ اسلام کی مصیبت اپنے سر لیتے رہے
تاریخ اسلام بتارہی ہے کہ جب کبھی کوئی برا وقت اسلام پر آیا ہے اور شریعت رسولﷺ کی کشتی ڈگمگائی ہے تو اہلبیتؑ رسولﷺ میں سے کوئی نہ کوئی اپنی جان پر کھیل کر اس کا ناخدا بن گیا ہے۔ اور ڈوبتے بیڑے کو سنبھال لیا ہے۔ انہوں نے کبھی اس راہ میں جان و مال دینے اور انواع و اقسام کے مصائب جھیلنے سے رو گردانی نہیں کی۔ کربلا کا واقعہ شاہد ہے کہ حسینؑ مظلوم نے کس بیکسی و بے بسی سے اپنی اور اپنے احباب و اصحاب کی جانوں کی قربانیاں کربلا کی جلتی بلتی ریت پر چڑھادیں، گھر بار لٹا دیا، اپنی ناموس کی ہتک گوارا کرلی، مگر دین اسلام پر آنچ نہ آنے دی۔ ان کی حق بین آنکھوں اور عقیدت آگیں دلوں سے یہ نہ دیکھا گیا کہ یزید جیسا فاسق شخص جس نے حلال محمدﷺ کو حرام اور حرام محمدؑ کو حلال قرار دے دیا ہے شریعت مقدسہ اسلام کا پیشوا بن کر اس میں من مانا تصرف کرتا رہے اور اسلام کے صاف و شفاف دامن پر بدعا ت و فواحشات کے ہزار ہا بد نما دھبے لگا کر بانی اسلام کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا دے۔ ان کو اپنی عزیزہستیوں اور قابل قدر وجودوں کا فنا کردینا پسند آیا۔ مگر دین کی تباہی و بربادی پسند نہ آئی۔ غرض کہ جب دنیا میں ان کی ذوات مقدسہ باقی رہیں اسلام کی ہر آئی بلا کو اپنے سرلیتے رہے۔ آج بھی اسلام کے اوپر ایک سخت وقت آگیا تھا اور اس بلا کا سر لینے والاکوئی نظر نہ آتا تھا لہٰذا انہی قبور کی اینٹوں نے وہ مصیبت کا پہاڑ اپنے اوپر لے لیا اور ہدایت کے دروازے کو مسدود نہ ہونے دیا۔ ’’فرقہ وہابی‘‘ مدت دراز سے اپنے عجیب و غریب عقائد رفتہ رفتہ سیدھے سادھے مسلمانوں کے دلوں میں اتار رہا تھا اور لوگوں کو ان عقائد باطلہ اور خیالات فاسدہ کی طرف مطلق توجہ نہ تھی۔ عام مسلمانوں کی اس غفلت ورزی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو اپنے مقصد میں ایک حد تک کامیابی ہوگئی تھی وہ دوست نما دشمنوں کی طرح بظاہر تو خیرخواہ دین و ملت بنا ہوا تھا اور آپ کو اعلیٰ درجہ کا موحّد دکھا رہا تھا۔ لیکن بباطن اسلام کی بیخ کنی پر آستینیں چڑھی ہوئی تھیں۔ لہٰذا شدید ضرورت اس امر کی تھی کہ اس کے استیصال کی طرف لوگ متوجہ ہوں اور دوست و دشمن میں تمیز کریں۔ پس جنت البقیع کے واقعہ نے یکایک مسلمانوں کو خواب غفلت سےبیدارکیا اور لوگ اس مذہب کی تحقیق اور اس کے عقائد کے رد کی طرف مائل ہوئے۔چنانچہ یاروں کی شعبدہ بازی ہوا ہونی شروع ہوگئی۔ اب ہر دین دار مسلمان ان سے متنفر اور بے زار ہوتا جارہا ہے۔
اگر یہ واقعہ اس وقت پیش نہ آتا تو خدا جانے اس فرقہ کی ریشہ دوانیاں کہاں تک پہنچتیں۔ اور نہ معلوم کیا زہر فضائے اسلام میں پھیلا دیتیں۔ مسلمانو! اچھی طرح پہچان لو۔ یہ وہی فرقہ ہے جو ہر سال نئے نئے عنوان سے ذکر رسولﷺ و آل رسولؑ میں رکاوٹیں پید اکیا کرتا تھا۔ اور کبھی مولود کو بدعت اور تعزیہ داری کو بت پرستی بتاتا تھا۔ کبھی مجالس میں رونا حرام بتاتا تھا کبھی نذر نیاز سے لوگوں کو روکتا تھا۔ محرم کا چاند نمودار ہوتے ہی لمبے چوڑے اشتہارات شائع کرکے مسلمانوں کو شریک عزائے حسینؑ مظلوم ہونےسے باز رکھتا تھا طعن و طنز کی باتیں کرکے جابجا شیعہ سنیوں میں فساد و خونریزی کا باعث ہوتا تھا۔ اس فرقہ کی پنہانی کوششوں اور خفیہ ریشہ دوانیوں کا یہ نتیجہ تھا کہ ایک مدت دراز سے شیعوں اور سنیوں کے درمیان کشاکش چلی آرہی تھی اور ایک دوسرے سے اس درجہ متنفر ہوگیا تھا کہ پاس بیٹھنا گوارا نہ کرتا تھا۔ شیعہ سنیوں کی ضد میں نہ معلوم کیا کیا کہتے تھے اور سنی شیعوں کی ضدمیں نہ معلوم کیا کیا کرتے تھے۔ اہل سنت نے شیعوں کی مجالس میں شرکت بند کردی تھی اور شیعوں نے اہل سنت کی محفلوں میں جانا چھوڑ دیا تھا۔ رفتہ رفتہ اس بغض و عناد نے یہاں تک ترقی کی کہ معاشرتی اور تمدنی خرابیاں ظہور پذیر ہونے لگیں جس سے مقاصد اسلام کو سخت ضرر پہنچا اور دشمنان اسلام کو اس باہمی دہول جوتی میں اپنی تبلیغ کا کافی موقع مل گیا ۔ خدا کا شکر ہے کہ حادثہ جنت البقیع کے تصدق میں وہ کالابادل جس نے دن کو رات بنا رکھا تھا یکایک پھٹ گیا اور دوست و دشمن میں امتیاز ہونے لگا۔ اب یہ بات پائے تحقیق کو پہنچ گئی کہ اہل سنت کے پردہ میں وہ کونسا گروہ تھا جو ہمیشہ سے رسولﷺ و اہل بیت رسولﷺ کا جانی دشمن بنا رہا۔ کیونکہ آج ہم دیکھ رہے کہ ہمارے حنفی بھائی وہابیوں کے اس طرز عمل سے انتہائی نفرت و بیزاری کو تحریراً اور تقریراً ظاہر کررہے ہیں اور وہ عزائے اہلبیتؑ میں نہایت خلوص کے ساتھ حضرات شیعہ کے شریک ہیں۔ اور اسلامی شان کے ابھارنے میںکوشاں ہیں۔ چنانچہ امسال امروہہ کی عزاداری میں تمام حنفی صاحبان شریک عزائے مظلوم کربلارہے۔ پٹیالہ میں میں نے بچشم خود اپنے بہت سے حنفی بھائیوں کو سرو پا برہنہ آٹھویں اور دسویں محرم کو دلدل و تعزیہ کے ساتھ پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا حسین علیہ السلام جس طرح شیعوں کے نزدیک ایک ہادی برحق تھے اہل سنت کے نزدیک بھی تھے۔ ان کی مظلومیت سے کس کو انکار ہوسکتا ہے۔ ان کی بے نظیر نصرت اسلامی پر کون سا انصاف پسند مسلمان پردہ ڈال سکتا ہے۔ اہل سنت کی کتابیں ان کے فضائل و مناقب سے بھری پڑی ہیں۔ یہ تو ہمارے مخالفوں کی چالبازی سے عناد و عداوت کا بازار گرم ہورہا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ حیلہ سازی و مکاری کا طلسم ٹو ٹ گیا اور محبت کی پری آزادی کی ہوا میں اڑنے لگی۔
مسلمانوں کا اب کیا فرض ہے؟
یہ وقت تو ضرور ایسا ہی تھا کہ ہر دیندار مسلمان اپنی جان کو نذر کردیتا اور اسلام کو اس ضغطہ سےبچالیتا لیکن ہم چونکہ ان مقامات سے بہت دور ہیں اور موانع کے صد ہا عظیم الشان خلیج ہمارے درمیان حائل ہیںلہٰذا اس وقت تک کہ ہم کسی داعی کی آواز پر لبیک کہنے کےلئے اٹھیں بہترین نصرت اور حمایت یہ ہے کہ سب مسلمان متحدہ حیثیت سے اس بداعتقادی کا سد باب کریں جس سے یہ حادثہ عظیم ظہور پذیر ہوا تاکہ آنے والی نسلوں کو ہماری طرح پھر ان مصائب کا از سر نو مقابلہ کرنا نصیب نہ ہو۔
(ماہ صفر المظفر ۱۳۴۵ھ مطابق ماہ اگست ۱۹۲۶ء) از ماہنامہ اصلاح، لکھنؤ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں