جمعہ، 15 مئی، 2020

اصل و اصول شیعہ اردو

باسمہ تعالیٰ
اصل و اصول شیعہ
شیعیت کو پہچانیے 
علامہ محمد حسین آل کاشف الغطاءؒ
ترجمہ علامہ سید ابن حسن نجفیؒ

شیعیت کی ابتدا اور ارتقاء
تاریخ آغاز:
 تشیع کوئی نیا مذہب نہیں۔ جہاں سے اسلام شروع ہوتا ہے وہیں سے شیعیت کی بھی ابتدا ہوتی ہے ۔ چمن آرائے شریعت یعنی سرکار خاتم الانبیاء ﷺ نےا سلام کے ساتھ ہی ساتھ اپنے ہی ہاتھوں یہ پودا لگایا۔ آبیاری کی اور خود حضورؐ ہی اس کی نگہداشت فرماتے رہے۔ پودا بڑھ کر ہرا بھرا درخت ہوا اور رسول مقبولؐ کی زندگی میں پھولنے بھی لگا مگر پھلنے نہ پایا تھا کہ چراغ نبوت گل ہوگیا۔ 
حدیث دیگراں:
اس دعوے میںہم منفرد نہیں بلکہ سواد اعظم کے بڑے بڑے علماء بھی ہمارے ساتھ شریک ہیں۔
 چنانچہ علامہ سیوطی اپنی مشہور تفسیر ’’ در منثور‘‘ میں بضمن قول باری تعالیٰ ’’ ہم خیر البریۃ ‘‘ رقم طراز ہیں :
 ’’ ابن عساکر، جابر ابن عبد اللہ کی زبانی بیان کرتےہیں ہم رسالت مآبؐ کی خدمت میں حاضر تھے کہ سامنے سے علیؑ نمودار ہوئے ۔ 
پیغمبرؐ نے علیؑ کو دیکھ کر فرمایا :’’ قسم ہے اس پاک پروردگار کی جو میری جان کا مالک ہے کہ قیامت میں یہ اور اس کے شیعہ ہی کامیاب رہیں گے‘‘۔
ابن عدی ابن عباس سے ناقل ہیں کہ جب آیۂ وافی ھدایۃ’’ ان الذین آمنوا وعملو الصالحات ‘‘ نازل ہوئی تو حضرت ختمی مرتبتﷺ نے علی ابن ابی طالبؑ سے ارشاد فرمایا کہ ’’ اس سے مراد تم اور تمہارے شیعہ ہیں جو قیامت میں خوش و خرم ہوں گے‘‘۔
ابن مردویہ نے خود حضرت علی علیہ السلام کی زبانی اس حدیث کی رویات کی ہے۔ حضرتؐ کا بیان ہے کہ ’’سرور عالم ؐ نے مجھ سے فرمایا : اے علیؑ ! کیا تم نے خداوند عالم کا یہ ارشاد نہیں سنا : ’’ا ن الذین آمنو ا وعملوا الصالحات اُولٰئک ہم خیر البریۃ ‘‘۔اس سے تم اور تمہارے شیعہ ہی مراد ہیں میرا اور تم لوگوں کا وعدہ حوض کوثر پر پورا ہوگا اور اس وقت جب کہ تمام امتیں حساب پیش کرنے کے لئے حاضر ہوں گی تم لوگ تابندہ جبیں، روشن قدم کہہ کر بلا ئے جاؤ گے۔ یہ سیوطی کی ترمیم کردہ روایتیں تھیں۔
 (الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، سیوطی،ج۶،ص۳۷۹ )
ابن حجر مکی نے بھی ان میں سے بعض احادیث کو دار قطنی کے حوالے سے ’’صواعق محرقہ، صفحہ ۹۶‘‘ میں درج کیا ہے اور جناب ام سلمہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ’’ اے علیؑ تمہیں اورتمہارے شیعوں کو جنت نصیب ہوگی۔(یا علی انت و اصحابک فی الجنّۃ۔)
ابن اثیر نے بسلسلہ ٔ لفظ ’’قمح‘‘ لکھا ہے کہ رسول کریمؐ نے حضرت علیؑ سے فرمایا: بارگاہ ایزدی میں جب حاضری ہوگی تو تمہارے ساتھ تمہارے شیعہ بھی شاد کام آئیں گے اور دشمنوں کا یہ حشر ہوگا کہ غضب میں متبلا اور ہاتھ پس گردن سے بندھے ہوئے ہوں گے‘‘۔ اس کے بعد آنحضرتﷺ نے اپنے دونوںہاتھوںکو گردن کے پیچھے لے جاکر بتایا کہ دیکھو ! یوں بندھے ہوں گے(و فی حدیث علی قال لہ النّبی ستقدم علی اللہ انت و شیعتک راضین مرضیّین و یقدم علیہ عدوّک غضاباً مقمحین۔ ثم جمع یدہ الیٰ عنقہ لیریھم کیف الاقماح۔)(النھایۃ ج۴،ص۱۰۶)
غالباً یہ حدیث ابن حجر نے ’’ صواعق محرقہ‘‘ میں بھی درج کی ہے اور دوسرے علماء نے بھی مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے جو اس کی شہرت کاثبوت ہے۔ 
(اس مطلب کے لئے سید مرتضیٰ حسینی کی کتاب ’’فضائل الخمسۃ من الصحاح الستۃ‘‘  اور شہید ثالث کی کتاب ’’احقاق الحق و ازھاق الباطل‘‘ وغیرہ کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے جن میں اہل سنت کی معتبر کتب سے اس طرح کی بہت زیادہ روایات کو پیش کیا گیا ہے)
زمخشری کی ’’ ربیع الابرابر، جلد۱، صفحہ ۸۰۸ ‘‘ میں سرکار دو عالمﷺ کا یہ ارشاد نظر آتا ہے ۔ ’’ اے علیؑ ! قیامت کے دن دامن رحمت باری میرے ہاتھ میں ہوگا۔ اور میرا دامن تمہارے ہاتھ میں تمہارا دامن تمہاری اولاد تھامے گی اور تمہاری اولاد کے شیعہ ان کے دامن سے متمسک ہوں گے
(قال: یا علی اذا کان یوم القیامۃ اخذت بحجزۃ اللہ و اخذت انت بحجزتی و اخذ ولدک بحجزتک واخذت شیعۃ ولدک بحجزتھم فتری این یؤمر بنا)
اس کے بعد دیکھنا ہمارے لئے کیا حکم ہوتا ہے ۔ مزید اطمینان کے لئے مسند احمد حنبل اور خصائص نسائی وغیرہ کا مطالعہ سود مند ہوگا۔ جن میںایسی حدیثوں کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
قابل غور:
مذکورہ احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلامﷺ بارہا شیعیان علیؑ کا ذکر کرتے ہیں ا ور ان کی اس خصوصیت کی جانب بھی اشارے فرماتے ہیںکہ یہ قیامت کے دن محفوظ رہیں گے۔ کامیاب ہوں گے اور خوش خوش نظر آئیں گے۔ 
اب قابل غور بات یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو ختم المرسلینؐ کو پیکر صداقت اور آیۂ ’’ وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحیٌ یوحی ‘‘
(سورہ نجم، آیت۵۳) 
کا مصداق سمجھتا ہوگا کم از کم اس نے تو ان اقوال کو ضرور سرمایۂ ایمان تصور کیا ہوگا اور اگر کسی وجہ سے رسولؐ کی پوری محفل علیؑ کا ساتھ دینے کے لئے نہ تیار ہوئی ہوگی تو کچھ صحابی تو یقیناً ان اوصاف سے متصف ہونے کے لئے علیؑ کا دم بھرنے لگے ہوں گے۔ 
 تاریخی واقعات کی چھان بین کی جائے تو اس مفروضے کی خاصی تائید ہوتی ہے۔ 
 ہم دیکھتے ہیںکہ عہد نبوی ہی میں اصحاب کرام کا ایک گروہ جناب امیرؑ کےساتھ وابستہ ہوجاتا ہے پھر یہی نہیں بلکہ اس جماعت کا ہر فرد حضرتؑ کو اپنا روحانی پیشوا، تعلیم رسولؐ کا حقیقی مبلغ، نیز احکام و اسرار نبوت کا واقعی شارح و مفسر تسلیم کرتا ہے اور ’’شیعہ‘‘ کے نام سے شہرت پاتا ہے۔ 
 ارباب لغت بھی اس حقیقت کے حامی ہیں۔ مشہور فرہنگ ’’نہایہ،جلد۲،صفحہ۵۱۹‘‘ اور ’’ لسان العرب، ج۸،ص۱۸۹‘‘؛القاموس المحیط ج۳،ص۴۷؛اقرب الموارد،ج۱،ص۶۲۷؛مجمع البحرین،ج۴،ص۳۵۶؛تاج العروس، ج۵،ص۴۰۵  اٹھا کر دیکھئے۔ شیعہ کے معنی ہی یہ ملیں گے کہ یہ اس فرقہ کا اسم خاص ہے: ’’جو علیؑ اور اولاد علیؑ کا چاہنےاور ان کی پیروی کرنے والا ہو‘‘۔ 
اب اگر ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ شیعہ سے مراد ہر وہ شخص ہے جو علیؑ سے محبت کرے یا آپ کا دشمن نہ ہو تو پھر اس لفظ کا استعمال ہی بے موقع ہوجائے گا کیونکہ صرف چاہنے یا عداوت نہ رکھنے سے ایک شخص دوسرے شخص کا شیعہ نہیں کہلایا جاسکتا۔ جب تک اس میں التزام کے ساتھ اقتداء اور اتباع کی خصوصیت نہ پائی جائے ۔ اور یہ ایک ایسی کھلی ہوئی بات ہے جسے عربی ادب کا معمولی سا ذوق رکھنے والے بھی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ غالباً ان حقائق کے پیش نظر ہر معقول انسان مذکورہ احادیث پر توجہ دینے کے بعد یہی نتیجہ نکالے گا کہ لفظ شیعہ سے مقصود عام مسلمان نہیں بلکہ ایک خاص گروہ ہے جو حیدر کرارؑ سے خصوصی تعلق رکھتا ہے۔ 
معاون اشارے:
اور اس تصریح کے بعد شاید ہی کوئی منصف مزاج یہ نتیجہ نکالنے کی جرأت کرے کہ مندرجہ صدر احادیث اور اس مفہوم کی دوسری روایتوں میں ایک ایسی جماعت کےو جود کی نمایاں دلیلیں نہیں ہیں جو مولائے متقیان سے خصوصی ارتباط کے سبب اس وقت کے تمام مسلمانوں سے جو سب کے سب آپ سے اظہار محبت کیا کرتے تھے ممتاز نہ ہوگی۔ 
میں ذاتی طور پر اس اعتراف کے موقف میں نہیں ہوں کہ وہ صحابہ جو یہ راہ نہیں اختیار کرسکے انہوں نے شعوری انداز میں ارشاد رسولؐ کی خلاف ورزی کی ۔ ممکن ہے ان میں سے بہت سوں نے یہ فرامین نہ سنے ہوں یا  جن لوگوں نے شرف سماعت حاصل کیا وہ منشائے رسالت ہی نہ سمجھ سکے ہوں۔
علاوہ ازیں سرور عالمؑ کے وہ ارشادات جن کے ذریعہ حضورؐ نے امیر المومنینؐ اہل بیت اطہارؑ اور ان کے شیعوں کے مدارج و مراتب کا اعلان فرمایا ہے اگر ان کے سمجھنے میں ذرا وسعت نظر سے کام لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان  روایات میں صرف عمومی فضائل ہی نہیں بلکہ ’’ دبستان تشیع‘‘ کے صدر اعلیٰ کی معرفت ، حیثیت ، صلاحیت اور اس مکتب کے قیام و حقانیت کی جانب بھی واضح اشارے کئے گئے ہیں۔
 مثلاً علیؑکو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارونؑ کو موسیٰؑسے تھی
(علیّ منّی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ)۔
(صحیح بخاری۵؍۲۵؛سبب ابن ماجہ۱؍۴۲؍۱۱۵؛صحیح مسلم۴؍۲۴۰۴؛ سنن ترمذی۵؍۶۳۸؍۳۷۲۴ و ۶۴۰؍۳۷۳۱؛ اسد الغابۃ۵؍۶؛ریاض النضرۃ۳؍۱۱۷؛تاریخ بغداد۴؍۲۰۴؛ حلیۃالاولیاء۷؍۱۹۴؛ ترجمۃالامام علی علیہ السلام من تاریخ دمشق۱؍۱۲۴)
اے علیؑ تمہارا دوست مومن ہے اور دشمن منافق
 (لایحبک الا مومن و لا یبغضک الا منافق)
(صحیح مسلم۱؍۸۶؍۱۳۱؛صحیح ترمذی۵؍۶۳۵؍۳۷۱۷؛ سنن ابن ماجہ ۱؍۴۲؍۱۱۴؛ تاریخ بغداد۲؍۲۵۵ و ۸؍۴۱۷ و ۱۴؍۴۲۶؛ حلیۃالاولیاء۴؍۱۸۵؛ الریاض النضرۃ۳؍۱۸۹)۔
 امت والو! میں تم میں دو گراں بہا چیزیں چھوڑے جارہا ہوں۔ اللہ کی کتاب اور میری عترت میرےا ہل بیت
 (انّی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی واھل بیتی)
(سنن ترمذی۵؍۶۲۲؍۳۷۸۶ و ۶۶۳؍۳۷۸۸؛ مسند احمد ۳؍۱۷ و ۵؍۱۸۱؛ مستدرک حاکم ۳؍۱۰۹ و ۱۴۸؛ اسد الغابۃ۲؍۱۲)۔
’’ حدیث طائر‘‘ پروردگار! اپنے محبوب ترین بندے کو بھیج دے 
(اللھم ائتنی باحب خلقک الیک)
(سنن ترمذی۵؍۶۳۶؍۳۷۱۲؛ اسد الغابۃ۴؍۳۹؛ مستدرک حاکم۳؍۱۳۰؛ ریاض النضرۃ۳؍۱۱۴؛ حلیۃالاولیاء؛تاریخ دمشق۲؍۱۵۱۱۵؛تذکرۃالخواص ؍۴۴)۔
کل یہ علم اس مرد کو دوں گا جو خود بھی اللہ اور رسول کا چاہنے والا ہوگا اور اللہ اور رسولؐ بھی اس کےچاہنے والے 
(لاعطین الرایۃ غداً رجلا یحب اللہ و رسولہ و یحبہ اللہ و رسولہ)
(صحیح بخاری۴؍۶۵ و ۷۴؛ سنن ترمذی۵؍۴۳۸؍۳۷۲۴؛ سنن ابن ماجہ۱؍۴۵؍۱۲۱؛ مسند احمد ۴؍۵۲؛سنن بیہقی۹؍۱۳۱؛ تاریخ الکبیر، بخاری، ۷؍۲۶۳؛ المصنف،عبدالرزاق۵؍۲۸۷؍۹۶۳۷) ۔
علیؑ حق کےساتھ ہے اور حق علیؑ کے ساتھ 
(علیّ مع الحق و الحقّ مع علیّ)
(تاریخ بغداد۱۴؍۳۲۱؛مستدرک حاکم۳؍۱۲۴؛تاریخ دمشق۳؍۱۱۷؍۱۵۹)۔
یہ اقوال زیادہ تر صحیح بخاری اور صحیح مسلم کےخود ہیں اور ایسی ہی ہزاروں صحیح السند روایتیں موجود ہیں اس مختصر سے رسالے میں اتنی گنجائش کہاں جو تفصیل کو جگہ دی جائے۔ شوق تحقیق رکھنے والے علامہ سید حامد حسین صاحب لکھنوی کی مشہور کتاب ’’ عبقات الانوار‘‘ کا مطالعہ کرسکتے ہیں جو بلحاظ ضخامت اور افادیت صحیح بخاری سے وہ چند بڑی اور ہمارے تحقیقی مساعی کا صرف ایک شاہکار ہے۔ 
رسولﷺ کے بعد:
لیکن جب نبوت کا چراغ بجھ گیا تو صحابہ کے ایک فریق نے یہ کوششیں شروع کردیں کہ کسی طرحی خلافت علیؑ کو نہ ملنے پائے ۔ اس مخالفت کا سبب خواہ آپ کی صغر سنی ہو یا قریشیوں کا یہ جذبۂ رشک کہ نبوت و امامت بنو ہاشم کے گھر میں نہ جمع ہونے پائے یا اور کچھ اسباب ہوں جن کے تذکرے کا یہ موقع نہیں۔ 
لیکن باتفاق فریقین جب مسلمانوں سے بیعت لی جارہی تھی اس وقت علیؑ نے ابوبکر کے اقتدار کو تسلیم نہیں کیا۔ اور بقول فاضل بخاری صحیح بخاری باب غزوہ خیبر۵؍۱۱۷ 
(نیز صحیح مسلم کتاب الجہاد و السیر۵؍۱۵۲؛ الامامۃ والسیاسۃ۱؍۱۱؛ مروج الذھب۲؍۳۰۲؛تاریخ طبری ۳؍۲۰۸؛ الکامل فی التاریخ ۲؍۳۲۷؛ الصواعق المحرقہ ۱۳)
آپ نے چھ ماہ تک بیعت نہیں کی جس کا فوری اثر یہ ہوا کہ نبیؐ کے بڑے بڑے صحابی جیسے زبیر، عمار، مقداد وغیرہ نے بھی بیعت سے انکار کردیا۔ یہ واقعہ ہے کہ تقریباً ہر شخص اس حقیقت سے آگاہ تھا کہ علیؑ کو نہ ریاست کی ہوس  ہے نہ سلطنت کی تمنا۔ 
’ذوقار‘‘ میں ابن عباس سے جو گفتگو ہوئی تھی(عبداللہ ابن عباس کہتے ہیں کہ میں ذی قار میں امیرالمومنینؑ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپؑ اپنی جوتیاں ٹانک رہے تھےآپؑ نے مجھ سے فرمایا: اس جوتی کی کیا قیمت ہے؟ میں نے کہا: اس کی تو کوئی بھی قیمت نہیں ہے۔ آپؑ نے فرمایا:واللہ لھی أحب الیّ من امرتکم الا أن أقیم حقا،أو أدفع باطلا۔۔۔شرح نہج البلاغہ،شیخ محمد عبدہ۱؍۷۶؍۳۲ یعنی خدا کی قسم یہ جوتیاں مجھے تمہاری حکومت سے زیادہ محبوب ہیں مگر یہ کہ حق قائم ہو یا باطل کو دفع کیا جائے) وہ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ فرزند ابو طالبؑ کس جادہ پر گامزن تھا۔ امیر المومنینؑ کے پیش نظر صرف ایک مقصد تھا اور وہ یہ کہ دین سلامت رہے۔ حق کا سکہ چلے اور باطل فنا ہوجائے۔ صاحب ذو الفقار ان ہی بلند احساسات کے زیر اثرمحض احتجاج پر اکتفا کرتے  ہیں اور مسند خلافت کو الٹنے کی کوئی تدبیر نہیں اختیار فرماتے ۔ بلکہ مصالح رشد و ہدایت کے پیش نگاہ بقائے اسلام اور نشر احکام کے سلسلہ میں ہمیشہ حکومت وقت کو اپنے زریں مشوروں سے مستفید کرتے رہے اور اگر علیؑ یہ مسلک نہ اختیار فرماتے تو نہ صرف اسلامی وحدت کا شیرازہ منتشر ہوجاتا بلکہ عوام پھر جاہلیت کی بھول بھلیوں میں گم ہوجاتے۔ 
 شیعہ بھی اپنے امیر کی روش پر چلتے رہے۔ تقاضائے وقت ہی یہ تھا کہ تفریق سے کام نہ لیا جائے۔ اسی بنا پر خلفائے ثلاثہ کے دور میں اس فرقہ نے بحیثیت فرقہ ابھرنے کی کوشش نہیں کی۔ البتہ دوستان علیؑ ہر حکمران کے طریق کار اور زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کا خاموش مطالعہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ قوم نے خود ہی علیؑ کو منتخب کرلیا۔ امیر المومنینؑ تخت امارت پر متمکن ہوئے لیکن معاویہ بغاوت پر آمادہ ہوگئے۔ اور انہوں نے صفین میں اپنی فوجیں بھردیں۔ 
نشر و اشاعت:
صحابہ کی ایک جماعت تو پہلے ہی سے نفس رسولؐ کے ساتھ تھی ۔ یہ شورش دیکھ کر بقیہ اصحاب نے بھی آپ کی معیت اختیار کرلی۔ عمار یاسر خزیمہ ذو الشہادتین اور ابو ایوب انصاری جیسے اسّی سربر آوردہ صحابی جو تقریباً سب کے سب بدری اور عقبی تھے ابو تراب کی جماعت میں شامل ہوگئے اور ان میں سے اکثر وں نے اپنی جانیں امام پر نثار کردیں۔ 
 بہرحال لڑائیاں ہوتی رہیں اور ساتھ ہی معاویہ کی ریشہ دوانیاں بھی بڑھتی گئیں۔ نتیجتاً علیؑ نے جام شہادت نوش فرمایا۔حاکم دمشق نے اطمینان کی سانس لی۔ مگر اب پانی سر سے اونچا ہوچکا تھا۔ معاویہ کے شاہی ایوانوں سے اسلام رخصت اور قیصر و کسریٰ کی روایتیں پروان پڑھنے لگیں۔ ایک طرف علیؑ کا مقدس طریق حیات ، زاہدانہ اطوار، اعلیٰ کردار اور اس کے مقابل معاویہ کے بگڑے ہوئے رنگ ڈھنگ ، عمر و عاص اور مصر کی تولیت ، یزید اور حادثہ استلحاق زیاد اور واقعہ استحقاق یہ ایسے غیر آئینی امور تھے جن سے معاویائی ذہنیت بری طرح آشکار ہوچکی تھی۔ پھر عیش و عشرت کے بڑھتے ہوئے طوفان نے تو گوشہ گوشہ نمایاں کردیا۔ 
اللہ اللہ ! کہاں اسلام کا بتایا ہوا سیدھا سادہ آئین زندگی اور کہاں فرزند ابو سفیان کا باز نطینی طمطراق۔ 
معاویہ کے شاہانہ ارمان مسلمانوں کی گاڑھی کمائی سے پورے ہورہے تھے اموی راج محل کا ’’ سب رس‘‘ یعنی وہ پر تکلف دسترخوان جو آج بھی ضرب المثل ہے شاہ جم جاہ کی لذت پرستی کا چنا ہوا ثبوت تھا۔ 
وزیر ابو سعید منصور ابن حسین آبی متوفی ۴۲۲ھ؁ نے اپنی تالیف ’’ نثر الدرر،ج۱،ص۳۰۵‘‘ میں ایک واقعہ لکھا ہے۔ موصوف تحریر فرماتے ہیں :
’’ احنف ابن قیس کہا کرتے تھے ایک دفعہ میں معاویہ کے پاس گیا تو انہوں نے میرے آگے انواع و اقسام کی اتنی غذائیں رکھ دیں جن کا شمار مشکل تھا میں دیکھ دیکھ کر حیران تھا کہ کھاتے کھاتے انہوں نے ’’ خاصے‘‘ کی ایک چیز میری طرف بڑھائی جسےمیں پہچان نہ سکا۔ دریافت کیا یہ کیا ہے ؟ جواب ملا۔’’ بھیجا بھری ہوئی بطخ کی آنتیں ہیں جنہیں پستے کے تیل میں تل کر اوپر سے مصالحہ چھڑک دیا گیا ہے ‘‘۔احنف کا بیان ہے کہ میں سن کر رونے لگا معاویہ نے پوچھا روتے کیوں ہو؟ میں نے کہا ۔ اس وقت مجھے علیؑ یاد آگئے۔ ایک دن کی بات ہے خدمت اقدس میں حاضر تھا۔ افطار کا وقت آگیا۔ حضرت نے ٹھہرنے کا حکم دیا اتنے میں ایک سربمہر تھیلی لائی گئی۔ میں نے سوال کیا۔ حضورؐ اس میں کیا ہے؟ ارشاد ہوا جوکے ستو ! عرض کی۔ امیر المومنینؑ چوری کا اندیشہ تھا ، یا شدت اقتصاد کے باعث تھیلی پر مہر لگائی ہے؟ فرمایا۔ ان میں سے کوئی وجہ نہیں۔ اس احتیاط کا سبب صرف یہ خیال ہے کہ کہیں میرے فرزند حسنؑ و حسینؑ ان ستوؤں میں گھی یا روغن زیتون نہ ملادیں۔ میں نے پھر استفسار کیا۔ مولا کیا گھی یا روغن زیتون حرام ہے؟ ارشاد ہوا حرام تو نہیں لیکن ائمہ حق کے لئے ضروری ہے کہ وہ خستہ حال عوام کی صفوں سے وابستہ رہیں تاکہ عسرت و افلاس اس فلاکت زدہ طبقہ کو باغی نہ بنادے۔ معاویہ نے کہا احنف تم نے اس وقت ایسے شخص کی یاد تازہ کردی جس کے فضائل کا انکار مشکل ہے۔ 
 زمخشری کی ’’ ربیع الابرابر‘‘ وغیرہ میں ایسے اور بھی واقعات موجود ہیں۔
(ربیع الابرار۱؍۹۰،۹۲،۸۰۷،۸۳۵ و ۲؍۶۹۳،۷۳۰ و ۲؍۷۷،۸۰ و ۴؍۲۳۹،۲۴۲)
ہاں !معاویہ کے فساد نفس کو صرف ان ہی بے ضابطگیوں سے بھلا کہاں قرار مل سکتا تھا۔ بد اعمالیوں کے منتہیٰ تک پہنچنے کی آرزو دل میں چٹکیاں لے رہی تھی چنانچہ انہوں نے امام حسن ؑ سے جتنے عہد و پیمان کئے تھے سب کی خلاف ورزی کی اور بالآخر رسولؐ کےلخت جگر کو زہر دلوا دیا
 (مقاتل الطالبین،۷۳؛ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید معتزلی ۱۶؍۴۹؛ الاستیعاب، حاشیہ الاصابۃ ۱؍۳۷۵؛ مروج الذھب ۳؍۱۸۲؍۱۷۶۰)۔
 اس روش اور ان حادثات کا رد عمل یہ ہوا کہ اسلامی حلقوں میں ’’شام‘‘ کی سیاست کو نفرت وحقارت کی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ اور کم از کم ارباب دیانت کو یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ معاویہ قطعی طور پر صرف ایک دنیا داری آدمی ہیں۔ 
بلکہ وہ خود اس حقیقت کے معترف تھے فاضل زمخشری کی ’’ربیع الابرابر‘ میں تاجداردمشق کا یہ قول اب بھی موجود ہے :
 ’’ ابو بکر نے دنیا سے بچنا چاہا اور دنیا ان سے بچتی رہی عمر نے دنیا کو آزمایا اور دنیا نے ان کی آزمائش کی ۔ رہے عثمان تو انہوں نے دنیا پر خوب قبضہ جمایا مگر دنیا بھی ہاتھ دھوکر ان کے پیچھے پڑ گئی اور میں تو اسے فرش راحت بنانے کے لئے قدم قدم پر جان بچھاتا رہا۔ پایان کارمیں دنیا کا ہوگیا اور دنیا میری ہوگئی‘‘۔
(ربیع الابرار،ج۱،ص۹۰) 
مختصر یہ کہ ایک طرف تو لوگوں کے رجحانات بدل رہے تھے اور دوسری جانب پیغمبرؐ کے موجود الوقت صحابی جمہور اسلام کو علیؑ اور اولاد علیؑ کے ان فضائل سے واقف کرارہے تھے جو انہوں نے رسولؐ کی زبان فیض ترجمان سے سنے تھے۔ ان خصوصیات کا انکشاف کررہے تھے جو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی تھیں۔  وہ منظر کسے یاد نہ ہوگا کہ حبیب خدا ؐ اپنے چہیتے نواسوں کو پشت مبارک پر بٹھائے ہوئے ہیں اور فرماتے جارہے ہیں ’’ کیا کہنا تمہاری سواری کا بہترین سواری ہے اور کیا کہنا تمہارا بہترین سوار ہو‘‘۔ نیز قالب وحی میں ڈھلے ہوئے یہ الفاظ کہ ’’حسنؑ و حسینؑ جوانان جنت کے سردار ہیں ‘‘ کیا رہ رہ کر اپنی اپنی اشاعت کا تقاضا نہ کرتے ہوں گے۔ 
حقیقتیں پھیلنے کا حق رکھتی ہیں اور احساس حق رکھنے والے انہیں پھیلانے کے آرزو مند تھے۔ 
 اس صورت حال کا یہ اثر ہوا کہ عام کلمہ گو تشیع کی جانب مائل ہونے لگے اور اس فرقے کے لئے ترقی کی راہیں کھل گئیں۔ 
سب سے بڑا سبب: 
لیکن در حقیقت شیعیت کےفروغ کا سب سے بڑا سبب وہ خونچکاں واقعہ ہے جس نے اسلامی دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا کردیا۔ ۶۱ھ؁ کا یہ درد ناک سانحہ جسے المیۂ کربلا کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اپنی نوعیت کے لحاظ سے بڑا موثر ثابت ہوا۔ شہادت حسینؑکے اثرات نے عمومیت اختیار کرلی۔ زید ابن ارقم ، جابر ابن عبد اللہ انصاری، سہل ابن سعد ساعدی اور انس ابن مالک جیسے صحابہ بھی زندہ تھے۔ فرط درد سے تڑپ اٹھے اور بتقاضائے فرض و محبت فضائل اہل بیت ؑ کی تشہیر میں انہوں نے اپنی سرگرمیاں اور  تیز کردیں ۔ اموی جفاؤں نے ان کا پیچھا کیا اور یہ بقیۃ الصحابہ بھی ’’ سیف و سم‘‘ کا شکار ہوگئے لیکن : ’’ آہ مظلوم اثر رکھتی ہے ‘‘
 یہ واقعات ایسے نہیں تھے کہ قوم ان پر غور نہ کرتی ۔ غور کیا اور اچھی طرح جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ لوگ جوق در جوق علیؑ اور اولاد علیؑ کا دم بھرنے لگے۔ نیز شیعوں کی عددی قوت میں غیر معمولی اضافہ ہونے لگا جس سرعت سے بنو امیہ کا ظلم بڑھ رہا تھا اسی رفتار سے عام قلوب میں اہل بیتؑ کی محبت جاگزیں ہوتی جارہی تھی۔ آل امیہ نے بہت ستایا۔ جی بھر کے ستم ڈھائے لیکن ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے ۔ اموی مظالم کا بھی رد عمل ہوا۔ اور بڑی شدت سے ۔ 
شعبی اپنے لڑکے سے کہتے ہیں :’’ بیٹا! دین نے جن قدروں کو بلند کیا دنیا ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ مگر دنیا نے جن چیزوں کو بنایا سنوارا انہیں دین نے مٹا کر رکھ دیا۔ علیؑ اور اولاد علیؑ ہی کے حالات پر غور کرلو، امیہ زادوں نے کیا کچھ نہیں کیا؟ ان کی فضیلتوں پر پردے ڈالے ، حقیقتوں کو چھپانے کی کوشش کی اور اپنے اسلاف کے گن گانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا مگر ’’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں ‘‘یعنی آل امیہ کی آبرو مٹی میں مل گئی اور آل محمدؐ کا نام روشن سے روشن تر ہوگیا۔ 
 شعبی باوجودیکہ علیؑ کے دشمن کی حیثیت سے شہرت رکھتے تھے مگر یہ کلمۂ حق ان کی زبان سے نکلا اور تاریخوں میں محفوظ ہوگیا۔ 
مزید اسباب:
زمخشری نے ’’ ربیع الابرابر،ج۱،ص۴۹۴‘‘ میں شعبی کا یہ بیان درج کیا ہے :
 ’’عجیب کشمکش کا عالم تھا ، علیؑ سے محبت کرتے تو قتل کا اندیشہ تھا ، اور عداوت باندھتے تو ہلاکت کا یقین ‘‘۔
 غرض کہ مصائب و آلام کا تانتا بندھا رہا۔ یہاں تک کہ سفیانی تخت مروانی حاکم عبد الملک کے قبضے میں چلا گیا۔ معلوم ہے یہ عبد الملک کون تھا؟
اُف ! وہ شقی جس کے حکم سے حجاج نے خانۂ کعبہ کو ڈھاکر اس میں آگ لگائی۔ جوارِ حرم میں رہنےو الوں کو بے جھجک تہ تیغ کیا۔ عبد اللہ ابن زبیر کو مسجد الحرام میں قتل کرکے اس مقدس زمین کی حرمت کو خاک میں ملایا۔ اپنے ابن عم عمرو بن سعید الاشدق سے عہد و پیمان کرکے اس کی جان لی۔ 
سچ کہنا کلمہ گویو! ایسے سنگین جرائم کاارتکاب کرنے والے کو مسلمان بھی کہا جاسکتا ہے۔ چہ جائیکہ خلیفۃ المسلمین ؟ الحاصل آل مروان کی پوری حکومت اسی ڈگر پر چلتی رہی اور عمر ابن عبد العزیز کے علاوہ سب کے یہی نقشے رہے اس کے بعد بنو العباس کا دور شروع ہوتا ہے۔ ان کے زمانے نے تو اس عصر ستم کو بھی مات کردیا۔ اس کا ایک شاعر کہتا ہے 
(ترجمہ):
’’ کاش ہم ہمیشہ آل مروان جفائیں سہتے رہتے اور خدا کرے کہ ان عباسیوں کا عدل و انصاف جہنم واصل ہو‘‘۔
 کس بے دردی سے سادات کا خون بہایا گیا؟ کن کن طریقوں سے انہیں ملیا میٹ کرنے کی کوششیں کی گئیں؟ اس وقت کا ادب دیکھنے سے وہ تصویریں آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں۔ شعراء نے مختلف پہلوؤں سے ان کے مظالم کو بے نقاب کیا ہے۔ عہد متوکل کے ایک سخنور نے کتنی سچی تصویر کھینچی ہے کہتا ہے :
(ترجمہ)
’’ خدا گواہ ہے کہ اگر آل امیہ نے رسول ؐ کے نواسے کو ظلم سے شہید کرڈالا تو یہ عباسی جو اپنے تئیں عم رسولؐ کی اولاد کہتے ہیں کسی طرح بھی ستم آرائی میں اموی خاندان سے پیچھے نہیں رہے دیکھونا ! ان جفاکاروں نے توقبر تک منہدم کرڈالی‘‘۔
ہاں ہاں! بنی عباس پچھتاتے ہیں۔ دست تاسف ملتے ہیں کہ انہوں نے بنو امیہ کے دوش بدوش حسینؑ کا خون نا حق بہانے میں کیوں حصہ نہ لیا۔ اور اب مظلوم کی لحد مسمار کرکے تلافی مافات کی کوشش کی ہے۔
 بنو امیہ آل مروان اور سلاطین عباسیہ کی سیرت کے یہ چند نمونے تھے ۔ اب اگر اس کے مقابل آپ علیؑ اور اولاد علیؑ کی پاکیزہ زندگی پر ایک نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ شیعیت کیوں پھیلی  اور کیونکر پھیلی؟ نیز یہ حقیقت بھی واضح ہوجائے گی کہ تشیع ایرانیوں کی جدت طرازی اور سبائیوں کی کرشمہ سازی ہے یا اسلام اور محمدؐ کا بتایا ہوا سیدھا سادا راستہ ۔ 
فرزندان علیؑ:
سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے بعد علوی خاندان کے راس و رئیس امام زین العابدین علیہ السلام ہوئے۔ دنیا جانتی ہے کہ واقعۂ کربلا کےا ثر سے آپ بالکل گوشہ نشین ہوگئے تھے۔ زندگی کا بیشتر وقت یا تو عبادت الٰہی میں گزرتا یا تربیت اخلاق اور تہذہب نفس کا درس دیتے رہتے تھے۔ 
حسن بصری ، طاؤس یمانی ، ابن سیرین اور عمر و ابن عبید جیسے مشہور زاہد و عارف اسی مکتب کے فیض یافتہ ہیں۔ 
 اس سلسلہ میں یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ سید سجادؑ کی اخلاقی درسگاہ سے مسلمانوں کو بر وقت اور زبردست مدد ملی۔ کیونکہ ابنائے زمانہ حق اور حقیقیت کے رستوں سے کوسوں دور پڑ گئے تھے۔  امام زین العابدین علیہ السلام کے بعد آپ کے جانشین امام محمد باقرؑ ہوئے اور اسی نیک سیرت کے نمونے پیش کرتے رہے آپ کا ورثہ امام جعفر صادق علیہ السلام کو ملا۔ 
عہد زریں:
صادق آل محمدؐ کا زمانہ نسبتاً کافی موافق تھا کیونکہ اموی اور عباسی طاقتیں تھک چکی تھیں۔ اضمحلال پیدا ہوگیا تھا۔ علانیہ ظلم و ستم کے مواقع جاتے رہے تھے بنا بر یں دبی ہوئی صداقتیں اور چھپی ہوئی حقیقتیں سورج کی طرح ابھریں اور روشنی کی طرح پھیل گئیں۔ 
خوف و خطر کے باعث جو لوگ تقیہ میں تھے وہ بھی کھل گئے۔ فضا موافق تھی اور راہیں ہموار۔ امام عالی مقام نے تبلیغ و تلقین میں رات دن ایک کردیئے ہاں تبلیغ و تلقین کا وہ سلسلہ جس کا تعلق محمد ؐ و آل محمدؐ کی تعلیمات سے تھا۔ درس حق عام ہوا اور لوگ جوق در جوق مذہب جعفری قبول کرنے لگے،۔ اسے عہد تشیع کی نشر و اشاعت کا زریں دور کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ قبل ازیں اس کثرت  سے اور کھلم کھلا مسلمان شیعیت کی جانب رجوع نہیںہوئے تھے۔ دریائے فیض جاری تھا تشنگان معرفت خود بھی سیراب ہوتے تھے اور دوسروں کی بھی پیاس بجھاتے تھے۔ 
 بقول ابو الحسن و شاء میں نے اپنی آنکھوں سے مسجد کوفہ میں چار ہزار علماء کا مجمع دیکھا ہے اور سب کو یہ کہتے سنا کہ ’’ حدثنی جعفر ابن محمد ‘‘ یعنی یہ روایت مجھ سے جعفر صادق علیہ السلام نے بیان فرمائی ہے۔ 
(رجال نجاشی،ج۴۰،ص۸۰)
بہر کیف بنو امیہ اور بنو العباس کی بے پناہ جاہ طلبی ، طوفانی تشدد، حد سے گزری ہوئی دنیا پرستی پھر غیر محدود رنگ رلیاں اور اس کے برعکس فرزندان علیؑ کی علم دوستی ، عبادت گزاری، حق پسندی اور غلط سیاست سے احترازیہ ایسے صریح اور قوی موثر ات تھے جو تشیع کےد امن کو وسیع سے وسیع تر کرتے گئے ۔
دیکھئے! یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ دنیا والے جی بھر کر دنیا پر جان چھڑکتے ہیں۔ لیکن اس کےباوجود ان کے دلوں میںعلوم و معارف اور امور دین کی عظمت کا کافی احساس ہوتا ہے۔ اور ہم جس زمانے کا تذکرہ کررہے ہیں وہ تو عہد رسالت سے قریب بھی تھا۔ نیز مسلمانوںکے دل و دماغ ان تاثرات سے مملو تھے کہ اسلامی نظام زندگی بے شمار برکتوں کا حامل ہے۔ قرآنی تعلیم سے انہیں وہ فیوض حاصل ہوئے جن کا تصور بھی قبل ازیں ان کے لئے محال تھا۔ قیصر و کسریٰ کو اسلام ہی نے فتح کیا۔ اسلام ہی کے نام پر وہ شرق و غرب عالم کے مالک بنے۔ علاوہ اس کے وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس مذہب میں کافی حد تک وسعت نظر موجود ہے۔ طریقے جائز ہوں تو یہ دنیوی مال و متاع حاصل کرنے سے بھی کسی کو نہیں روکتا۔ یہ دین کیا ہے سراپا رحمت ہے! 
غرضیکہ یہ قلبی احساسات چھپے ہوئے ٹہو کے تھےجوعوام کو علوم دین کی جانب متوجہ کرتے رہے۔ 
رغبت کامل نہ سہی لیکن قدرے شوق ضرور ہوگا۔ کچھ چاہتے ہوں گے کہ ہم اپنی حیات اجتماعی کو احکام شریعت کی روشنی میں سنوارلیں۔ بعضوں کی یہ تمنا ہوگی ہمارا معاشرہ اسلامی رنگ میں رنگ جائے اور کسی کو یہ ارمان ہوگا کہ کم از کم ہماری گھریلو زندگی ہی صحیح قوانین کے مطابق ہوجائے۔ مگریہ معارف حاصل کہاں سے کرتے؟ ان کج کلاہوں کےد ربار سے جو خلیفۃ المسلمین کے تمغے لگائے ہوئے تھے اور بس ؟ لیکن وہاں تو ان قدروں کا گزر بھی نہ تھا۔ 
پھر کہاں پاتے؟ ہاں! جنہوں نے تلاش کی ان کی مراد پوری ہوئی۔ آل محمدؐ قرآن کا مخزن اور دانش و آگاہی کا معدن تھے۔ان ہی خوبیوں کے باعث عوامی ذہنیت پر نہ صرف ان کی برتری کے نقوش ثبت ہوگئے ۔ بلکہ یہ عقیدہ بھی مسلمانوں کے دل نشین ہوتا گیا کہ رسولؐ مقبول کے سچے وارث یہی ہیں اور امامت ان ہی کا حق ہے۔ 
 خلوص کامل:
پھر یہ عقیدہ اس درجہ مستحکم ہوتا گیا کہ اس جماعت میں شریک ہونے والے دنیا کے ہر خطرے کو ہیچ سمجھنے لگے۔ اکثر شیعہ تو عملی طور پر اتنے جری ، جانباز اور احساس فدویت سے سرشار نظر آتے ہیں کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ مثلاً حجر ابن عدی کندی ، عمرو ابن حمق خزاعی ، رشید ہجری ، میثم تمار اور عبد اللہ ابن عفیف ازدی وغیرہم یہ وہ بزرگ ہیں جنہوں نے مختلف مواقع پر باطل پرستوں سے باقاعدہ ٹکر لی۔ اچھا خاصہ مقابلہ کیا اگر چہ کہ مخالف عنصر مادی اعتبار سے کافی قوی تھا۔ مگر ان کی اخلاقی قوت نے وہ کردکھایا جو بڑے سے بڑے لشکر سے بھی نہ ہوسکتا۔ یعنی ان کی قربانیوں سے ایک طرف تو قصر ستم میں زلزلہ آگیا اور دوسری جانب عوامی ذہن و فکر کےر خ بدل گئے۔ 
اب کوئی بتائے کہ یہ سرفروش کیوںاس طرح موت سے کھیلتے رہے؟ آل محمدؐ سے کسی دنیوی فائدے کی امید تھی؟ یا جان و مال کا خوف لاحق تھا؟ تاریخ دونوں سوالوں کا جواب نفی میں دے گی۔ کیونکہ فرزندان مرتضیٰ تو مادی وسائل کے اعتبار سے خود ہی بے چارگی کے عالم میں تھے پھر کیا دیتے اور کیا لیتے؟ کچھ نہیں۔ ایمان کی بات تو یہ کہ ان مجاہدوں کے نورانی دل یقین محکم اور خلوص کامل کے پاکیزہ جذبوں سے معمور تھے اور یہی جذبے وقت پر بھرے دریا کی طرح امنڈنے لگتے تھے۔ علاوہ ازیں پہلی صدی اور دوسری صدی ہجری کے ادباء پر ایک نگاہ ڈال کر دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ امید و بیم کے باوجود شعرائے وقت شاہان عصر اور ان کی بے راہ روی سے بے زاری کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اہل بیت مصطفوی کی تعریف میں رطب اللسان ۔
حالانکہ شاعر اپنے بنتے بگڑتے کو زیادہ دیکھتا ہے ۔ مگر بایں ہمہ اس کے افکار خلفائے زمانہ کے خلاف اور ائمہ حق کے موافق ظاہر ہوتے ہیں ! فرزدقؔ ، کمیتؔ، سید حمیریؔ، دعبلؔ، دیک الجنؔ اور ابو تمامؔ بحتری سے لے کر ابو فراس حمدانی تک غور کرتے چلے آئیے۔ سب کے سب عترت طاہرہ ؑکی مدح و ثنا میں ڈوبے ہوئے ملیں گے۔ ابو فراس کے مقبول عام قصیدے کا یہ شعر: 
الدین محترم والحق مہتضمٌ
 وفی آل رسول اللہ مقتسم
(دین ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ۔ حق نشانۂ ستم بن گیا اور آل رسولؐ کا حصہ آپس میں بانٹ لیا گیا۔)
زبان حال سے واضح کررہا ہے کہ اس عہد کے ادیبوں پر کیا اثر تھا۔ 
دعبلؔ کہتے ہیں کہ چالیس برس سے میں اپنی موت کا سامان لئے پھر رہا ہوں مگر ابھی تک کسی نے قاتل بننا منظور نہیں کیا۔ دعبلؔ نے رشید، امین ، مامون اور معتصم کی خوب خوب ہجو کی اور اس کے برعکس امام جعفر صادق علیہ السلام ، امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اور امام رضا علیہ السلام کی شان میں بڑے بڑے قصیدے نظم کئے ۔ جو کافی مشہور ہیں۔ 
 آخر یہ تمام کے تمام بے سبب اپنی جان جوکھوں میں ڈال رہے تھے؟ بے مقصد اپنے عیش و آرام کو سپرد خاک کررہے تھے؟ کوئی تو وجہ ہوگی؟
جب ہم اسباب و علل کا جائزہ لیتے ہیں تو آثار اس کے سوا اور کچھ نہیں بتاتے کہ یہ آل رسولؐ کی صداقت تھی جو سوچنے سمجھنے والے دماغوں کو سر بفلک زریں ایوانوں سے متنفر اور آیۂ مودت کی جانب مائل کرتی جارہی تھی۔ 
 یہ سلسلہ اور آگے بڑھ سکتا ہے مگر ایضاح مطلب کے لئے مزید خامہ فرسائی کی ضرورت نہیں، بس! اس تمہید کا مقصد یہ تھا کہ تشیع کی ابتداء اور ارتقا کے متعلق چند حقائق معلوم ہوجائیںا ور غالباً اس ضمن میں کوئی بات مبہم نہیں رہی ایک سچی روداد تھی جسے نہایت اختصار کے ساتھ ہم نے پیش کردیا۔ اور پھر اعادہ کئے دیتے ہیں کہ شیعیت کا آغاز خود نبی اکرمؐ کے ہاتھوں ہوا۔ اور اس کی نشر و اشاعت حالات ، واقعات کا ایک زنجیرہ ہے جس کی ہر کڑی دوسری کڑی سے مربوط اور اسباب و علل کا ایک سلسلہ ہے جس کا ہر حلقہ دوسرے حلقہ سے متصل ۔

شیعوں کے بنیادی عقائد
چند ضروری باتیں: 
قبل اس کے کہ ہم اصول و فروع کو جدا جدا مباحث میں بیان کریں مجموعی طور پر تمام مسائل کو عمومی اعتقاد کے مطابق پانچ کلیات پر منقسم کرتےہیں :
 (۱) خالق کی معرفت، (۲) اس کےمبلغ کی شناخت، (۳) مسائل عبادت اور طریق عمل کی پہچان، (۴) نیکیوں کا حصول اور برائیوں سے اجتناب، (۵) معاد اور سزاو جزا کا اعتقاد۔
اس لحاظ سے دین کے دو شعبے ہوئے ’’ نظری‘‘ اور ’’عملی‘‘ ۔عام اعتبار سے ’’ اسلام و ایمان ‘‘ مرادف ہیں۔ 
توحید، نبوت اور معاد اسلام کے تین بنیادی رکن ہیں۔ اگر کوئی شخص ان ارکان میںسےکسی رکن کا منکر ہو تو نہ وہ مسلم ہے نہ مومن اور اگر ان ارکان پر ایمان لے آئے تو حسب ارشاد باری ’’ من آمن باللہ و رسولہ والیوم الآخر‘‘ (وہ جو اللہ اس کے رسولؐ اور آخرت پر ایمان لایا ہو)اس کا شمارمسلمانوں میں ہوگا۔ اور اسے مسلمانوں کے جملہ حقوق حاصل ہوں گے ۔ لیکن بمفاد آیۂ وافی ھدایہ من آمن باللہ و رسولہ و عمل صالحاً ‘‘ (جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانےکےساتھ عمل صالح بھی بجا لائے)اور حسب تصریح ’’الایمان اعتقاد بالجنان و اقرار باللسان و عمل بالارکان‘‘
(نہج البلاغہ؛ جامع الاخبار۱۰۳؍۱۷۲؛ سنن ابن ماجہ ۱:۲۵؍۶۵۱) 
(قلبی اعتقاد ، زبانی اقرار اور ارکان پر عمل کرنے کا نام ہے ایمان۔)لفظ اسلام و ایمان سے ایک خاص مفہوم پیدا ہوجاتاہے۔ 
اور اسی کے ساتھ مزید ایک رکن کا اضافہ ۔ یعنی ان فرائض کی تعمیل جن پر اسلامی نظام کا دار و مدار ہے۔ ان فرائض کی پانچ قسمیں ہیں:
 نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، جہاد،
’’ اسلام و ایمان‘‘ کے سلسلہ میں ہم نے عام و خاص کے الفاظ استعمال کئے ہیں اس کی وجہ یہ ہےکہ اسلام و ایمان کی دو قسمیں ہیں :
 اسلام و ایمان عام اور اسلام و ایمان خاص ۔ یہ تقسیم پروردگار عالم کی اس ہدایت پر مبنی ہے: قالت الاعراب امنا قل لم تومنوا ولکن قولوا اسلمنا ولما یدخل الایمان فی قلوبکم(سورہ حجرات؍۱۴) (اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، میرے رسولؐ ! انہیں سمجھا دو کہ تم جسے ایمان کہہ رہے ہو وہ ایمان نہیںا سلام ہے، ایمان کا تو تمہارے دلوںمیں گزر بھی نہیںہوا۔ )مزید توضیح کےلئے دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے : انما المومنون الذین آمنوا باللہ و رسولہ ثم لم یرتابوا و جاھدوا باموالھم و انفسھم فی سبیل اللہ اولٰئک ھم الصادقون ۔(سورہ حجرات؍۱۵)
( حقیقتاً ایمان دار تو وہ ہیں جو خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے اور اس کے بعد کبھی انہوں نے شک نہیں کیا۔ نیز اللہ کی راہ میں جان ومال سے جہاد کرتے رہے وہی سچے مومن ہیں)۔
 اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ در اصل قول، یقین اور عمل کے مجموعے کا نام ہے ایمان ! یہ تو تھا جمہور اسلام کے اساسی نظریات کا خلاصہ شیعوں نے ان ارکان کے ساتھ ایک اور رکن بڑھا کر پانچ اصول کردیئے یہ بنیادی مسئلہ عقیدۂ امامت ہے ۔ 
منصب الٰہی: 
شیعی نقطۂ نظر کے مطابق امامت ، نبوت کی طرح ’’ منصب الٰہی ‘‘ ہے جس طرح خداوند عالم اپنے بندوںمیں سے جسے چاہتا ہے نبوت و رسالت کے جلیل القدر عہدہ کے لئے منتخب کرتا ہے اسی طرح امامت کے معاملے میں بھی کسی کو کوئی اختیار نہیں۔ خود رب العزت نبی کو حکم دیتا ہے کہ وہ شخص منتخب کی امامت کا اعلان کردے ۔ پیغمبرؐ حسب الحکم فرائض شریعت کی تکمیل کے لئے نص کے ذریعہ اس چنی ہوئی ہستی کو خلق کا پیشوا بنا دیتا ہے نبی اور امام میں فرق صرف یہ ہے کہ نبی پر وحی نازل ہوتی ہے اور امام خصوصی توفیق کے ساتھ رسول سے احکام حاصل کرتا ہے۔ 
پس رسول خدا کا پیام رساں ہے اور امام رسول کا پیام بر ۔ 
انحصار:
امامت بارہ ذوات مقدسہ میں منحصر ہے۔ ہر امامؑ نے ہونے والے امامؑ کو نص کے ذریعہ مقرر کیا۔ 
عصمت : 
انبیاءؑ کی طرح ائمہ بھی معصوم ہوتے ہیں تاکہ امکان خطا باقی نہ رہے۔فرمان خداوندی : إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ۔(سورہ بقرہ؍۱۲۴)’’ عصمت امامؑ ‘‘ کی روشن دلیل ہے۔ 
فضیلت: 
علاوہ ازیں امامؑ تمام علوم و صفات کے لحاظ سے سارے زمانے پر فوقیت رکھتا ہے۔ کیونکہ مقصد امامت یہ ہے کہ انسانی دنیا کو منزل کمال تک پہنچایا جائے۔ اور نفوس بشری کو علم و عمل صالح سے سنوارا جائے۔ 
نبوت کے سلسلہ میں ارشاد ہوا ہے: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ۔(سورہ جمعہ؍۲)اس کا انطباق امامؑ پر بھی ہوتا ہے کیونکہ کوئی ناقص کسی کو کامل نہیں بنا سکتا۔ جو خود کچھ نہ رکھتا ہو وہ دوسروںکو کیا دے گا؟ :
 لہٰذا امام کمالات کے اعتبار سے نبی سےکچھ کم اور بشر سے بہت بلند ہوتا ہے۔ 
مومن و مسلم:
چنانچہ مذکورہ مفہوم کے مطابق اگر کوئی شخص امامت کا قائل ہو تو وہ شیعی روایات کے لحاظ سے خاص معنوںمیںمومن کہلاتا ہے۔ اور اگر ان ہی چار ارکان کا مقر ہوجو عام مسلمانوں کا مرکز اعتقاد ہیں تو اسے عام معنوں میں ’’ مسلم و مومن‘‘ کہیں گے اور جیسا کہ قبل ازیں بیان کیاجاچکا ہے کہ تمام احکام اسلام اس پر مرتب ہوں گے۔ اس کی جان ، مال اور عزت و آبرو وغیرہ کا احترام فرض ہے۔ 
صرف امامت کا اقرار نہ کرنے سے کوئی فرد اسلام کےد ائرہ سے خارج نہیں ہوسکتا۔ البتہ قیامت کے دن معلوم ہوگا اور قرب و کرامت کی منزلوں میں یہ اعتقاد اپنا اثر دکھائےگا۔ 
دنیا میں تمام مسلمان یکساں ہیں اور ایک دوسرے کے کفو، ہاں آخرت میں ضروردرجوں کا تفاوت ہوگا۔ عمل اور نیت کے اعتبار سے مقامات ملیں گے خیر آخری فیصلہ تو خدا کے ہاتھ ہے ہم ان بحثوں میں کیوں پڑیں؟
 امامیہ :
اچھا! تو ابھی یہ وضاحت کی جارہی تھی کہ عام مسلمانوں میں شیعوں کو جوامتیازی حیثیت حاصل ہے وہ اس وجہ سے کہ یہ ائمہ اثنا عشر کی امامت کے معتقد ہیں اور اسی بنا پر اس فرقہ کو امامیہ کہتے ہیں ۔ 
اس کا خیال رہےکہ تمام شیعہ ’’ امامیہ‘‘ نہیں ہیں۔ کیونکہ لفظ شیعہ کا اطلاق زیدیہ، اسماعیلیہ، واقفیہ اور فطحیۃ وغیرہم پر بھی ہوتا ہے۔ اور یہ تو وہ فرتے ہیں جو مسلمانوں میںشامل ہیں لیکن اگر ہم دامن نظر کو ذرا اور پھیلا دیں تو بہت سے ایسے فرقے بھی ملیں گے جو دائرہ اسلام سے قطعاً خارج ہیں مگر پھر بھی شیعہ کے نام سے موسوم ہیں۔ مثلاً خطابیہ وغیرہ اور اس طرح سو بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ فرقوں کی فہرست تیار ہوجائے گی۔ 
لیکن موجودہ زمانے میں شیعہ کا نام امامیہ فرقے ہی سے مختص ہوچکا ہے ۔ جو سنیوں کے بعد عالم اسلام کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ 
ائمہ اثنا عشر:
اسلامیات میں ائمہ اثنا عشر کا عقیدہ کچھ نیا نہیں۔ مسلمانوں کی جملہ معتبر و مستند کتابوںمیں یہ ذکر خیر موجود ہے۔ امام مسلم و بخاری نےاپنے ’’ صحاح‘‘ میںمتعدد طریقوں سے حدیث اثنا عشر کو بیان کیا ہے ان میں سے چند حدیثیں درج کی جاتی ہیں:
 جابر ابن سمرہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ اپنے باپ کےساتھ پیغمبر اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ یہ ’’نظام اس وقت تک ختم ہونے والا نہیں جب تک کہ بارہ خلیفہ نہ گزر جائیں‘‘ اس کے بعد حضور ؐنے آہستہ سے کچھ فرمایا جو میں سن نہیں سکا۔ اپنے باپ سے دریافت کیا کہ اس کے آگے سرکاررسالت ؐ نے کیا ارشاد فرمایا؟ جواب ملا۔ نبی کریمؐ کا فرمان ہے کہ ’’ یہ سب قریش سے ہوں گے ‘‘ 
دوسری روایت ہے کہ ’’ جب تک بارہ مقتدر ہیں گے یہ معاشرہ یونہی بر قرار رہے گا ۔
نیز جب تک بارہ خلفاء ہیں اسلام کی شان و شوکت باقی رہے گی۔ (صحیح بخاری(کتاب الاحکام؛ صحیح مسلم(کتاب الامارۃ؛ سنن ترمذی(کتاب الفتن)) 
خدا جانے یہ بارہ خلیفہ کون ہیں؟ سواد اعظم میں تو رسالت مآبؐ کا یہ قول مشہور ہےکہ ’’ میرے بعد خلافت تیس برس رہے گی پھر حرص و آز اور مکرو فریب کی آماجگاہ بن جائے گی۔ (فتح الباری۸:۷۷۔البدایۃ والنھایۃ۳۰:۳۱۹)
یہاں ہمیں بحث و استدلال سے مطلب نہیں صرف عقائد سے غرض ہے مگر کوئی ائمہ اثنا عشر کی امامت کا تفصیلی ثبوت چاہتا ہے تو ان ہزاروں مجلدات کا مطالعہ کرسکتا ہے جو ’’ علم کلام‘‘ میںآپ اپنی نظیر ہیں۔ 
بنیادی مسائل:
شیعہ نقطہ نظر سے مذہب دو شاخوں میںتقسیم ہوتا ہے: علم اور عمل
یعنی کچھ مسئلوں کا تعلق عقل سے ہے اور کچھ مسائل جسم سے متعلق ہیں۔ وہ مسئلے جن کا علاقہ علم یعنی عقل سے ہے ۔ انہیں ’’اصول دین‘‘ سے موسوم کیا جاتا ہے اور ان کی تعداد پانچ ہے: (۱) توحید، (۲) نبوت، (۳) امامت (۴) عدل ، (۵) معاد۔ اب ہم ہر مبحث پر علاحدہ روشنی ڈالتے ہیں۔ 
توحید :
امامیہ اعتقادات کے لحاظ سے ہر ہوش مند کا عقلی فرض ہےکہ وہ اپنے آفریدگار کو پہچانے ، اس کی معرفت حاصل کرے اور اس کی وحدانیت والوہیت کا معتقد ہو۔ ربوبیت میںکسی کو اس کا شریک نہ قرار دے۔ اس کا یقین رکھے کہ خلق و رزق ، موت و حیات اور ایجاد و اعدام اسی کی ذات سے متعلق ۔ بلکہ اس عالم ’’ہست و بود‘‘ میں صرف اسی کی قدرت کاملہ کا عمل دخل ہے۔ 
اور اگر رزق وخلق یا موت و حیات کو کوئی شخص خدا کے علاوہ کسی اور سے منسوب کرے تواسے کافر و مشرک اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھا جائے گا۔ 
اسی طرح اطاعت و عبادت میں اخلاص ضروری ہے۔ یعنی اگر کوئی معبود مطلق کے ساتھ کسی اور شئے کی عبادت بجالائے اس کے سوا کسی اور کی پرستش کرے نیز اسے تقرب کا وسیلہ بنائے تو وہ بھی امامیہ مذہب کے حکم سے کافر متصور ہوگا۔ 
سوائے خدائے وحدہ لا شریک کے کسی کی عبادت جائز نہیں۔ نیز بجز ذات باری ، انبیا کرام اور ائمہ اطہارؑ کسی کی اطاعت بھی روا نہیں۔ 
انبیاء اور ائمہ کی اطاعت بھی بالواسطہ خدا کی اطاعت ہے کیونکہ یہ احکام الٰہی کے مبلغ ہیںلیکن خدا کی عبادت سمجھ کر ان کی اطاعت ناجائز ہے اور قطعاً شیطانی فریب!
 البتہ ان ذوات مقدسہ سے طلب برکت اور انہیں اپنے اور اپنے معبود کے درمیان وسیلہ قرار دینا نیز ان کے مزاروں پر اللہ کی عبادت بجالانا جائز ہے کیونکہ یہ پرستش ان کی نہیں خدا کی ہے۔ اور یہ ایک واضح سا فرق ہے حسب ارشاد باری تعالیٰ فی بیوت اذن اللہ ان ترفع و یذکر فیھا اسمہ (سورہ نور؍۳۶)( وہ گھر جنہیں اللہ نے بلند ہونے کی اجازت دی اور ان میں اس کا ذکر ہوتا ہے )
ان پاکیزہ بارگاہوں میں معبود برحق کی عبادت درست ہے یہ ہے امامیہ فرقے کا ’’عقیدۂ توحید‘‘ جس پر ہمارے تمام علماء متفق و متحد ہیں بلکہ ہم نے جتنا بیان کیا ہے، مسئلہ وحدانیت اس سےکہیں زیادہ اہم ہے۔ اس کے کئی درجے قرار دیے گئے ہیں۔ مثلاً توحید ذات، توحید صفات ، توحید افعال وغیرہ ۔چونکہ ہمیں اختصار کا لحاظ ہے بنا بریں طوالت سے دامن بچا رہے ہیں۔ 
نبوت:
 نبوت کے بارےمیں امامیہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ وہ انبیاءؑ جو منصوص من اللہ ہیں وہ سب کے سب خدا کے فرستادہ اور اس کے برگزیدہ بندے ہیں۔ یہ سب دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث کئے گئے اور حضرت محمدمصطفیٰﷺ خاتم الانبیاء اور سید المرسلین ہیں۔ آپ بالکل معصوم تھے۔ نہ کوئی گناہ سرزد ہوا نہ لغزش ۔ زندگی بھر حضورؐ مرضیٔ حق کے مطابق عمل کرتے رہے۔ اور مالک مطلق نے آپ کو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک کی سیر کرائی۔ وہاں سے آپ اپنے جسم مبارک کے ساتھ عرش و کرسی نیز ماورائے حجب و سرادق تک پہنچے اپنے معبود سے اتنے قریب ہو گئے کہ ’’قاب قوسین‘‘ بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ 
وہ کتاب جو اس وقت مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے یہ وہی ہدایت نامہ ہے جسے پروردگار عالم نے معجزہ بنا کر نازل کیا۔ اور اسکے ذریعہ احکام دین کی تعلیم دی۔ نہ اس میںکوئی کمی ہوئی نہ زیادتی ۔ مسلمانوں میں جو لوگ تحریف کے قائل ہیں وہ خطا پر ہیں کیونکہ اس اعتقاد سے ’’ نص کتاب ‘‘ انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون ‘‘ (سورہ حجر؍۹)کی تردید ہوتی ہے۔ 
 تمام علماء کا اس پر اجماع ہے۔ اور اگر اس کے خلاف کوئی روایت ملے بھی تو غیر معتبر ہوگی۔ کیونکہ جو حدیثیں طریق احاد سے دستیاب ہوتی ہیں وہ مفید علم و عمل نہیں قرار پاسکتیں۔ بالفاظ دیگر ان کا کوئی اعتبار نہیں!۔۔۔ نیز شیعہ امامیہ کا یہ عقیدۂ راسخہ ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے بعد جو شخص بھی نبوت یا نزول وحی کا دعویٰ کرے وہ کافر ہے اور واجب القتل۔ 
امامت: 
امامت! یہی وہ امتیازی مسئلہ ہے جسکی بنا پر شیعہ فرقہ عام فرقوں سے الگ تھلگ نظر آتا ہے اور یہی وہ اساسی اور بنیادی فرق ہے جو اس مکتب خیال کو عام مکاتب سے علاحدہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جو اختلافات ہیں ان کی حیثیت اصولی نہیں بلکہ فروعی ہے۔ اس قسم کے ذیلی اور ضمنی اختلافات خود سواد اعظم کے ائمہ اجتہاد میں پائے جاتے ہیں ۔ مثلاً حنفیوں کے بہت سے مسائل شافعیوں سے میل نہیں کھاتے اور ان کے ان سے۔ امامیہ فرقہ کے نزدیک امامت وہ منصب الٰہی ہے جو نبوت کی طرح پروردگار عالم کی جانب سے ہدایت خلق کےلئے عطا ہوتا ہے۔ اور ان کا یہ عقیدہ ہے کہ جناب باری عزّ اسمہ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ وہ علیؑ ابن ابی طالبؑ کو اپنا جانشین کریں۔ تاکہ ’’ختم نبوت‘‘ کے بعد کار تبلیغ جاری رہے۔ 
رسول اکرمﷺ کو معلوم تھا کہ یہ عہدہ لوگوں کو کھٹکے گا۔ اکثر اسے بھائی کی چاہت اور داماد نوازی پر محمول کریں گے۔ 
اور یہ کھلی ہوئی بات ہے کہ اس زمانے سے لے کر آج تک مسلمان رسولؐ کی واقعی بے لوثی اور حقیقت عصمت کے معاملے میں متحد الایمان نہیںنظر آتے لیکن قدرت نے اس کی بھی پرواہ نہیں کی۔ اور بالکل صاف صاف لفظوں میں حکم دیا۔ یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ(سورہ مائدہ؍۶۷) ( اے رسول ! تمہیں جو حکم دیا گیا ہے اس کا فوراً اعلان کردو اور اگرمفوضہ کام کی انجام دہی میں ذرا بھی تساہل برتا تو یہ سمجھا جائے گا کہ تم نے کار رسالت انجام ہی نہیں دیا) اس صورت میں سوائے تعمیل حکم کے اور کیا چارہ تھا ؟ چنانچہ آپ نے حجۃ الوداع کے بعد ’غدیر خم‘‘ میںلوگوں کو جمع کرکے فرمایا ’’ الست اولیٰ بالمومنین من انفسھم ‘‘ کیا میں تما م مومنین سے اولیٰ نہیںہوں؟ یعنی میرا نفس سب پرمقدم نہیں ہے؟
پورے اجتماع نے ایک زبان ہوکر جواب دیا: بے شک رسول مقبولؐ آپ ہم سب سے اولیٰ ہیں۔ 
 ان گواہیوں کے بعد پیغمبرؐ نے فرمایا ’’ من کنت مولاہ فھٰذا علیٌ مولاہ‘‘ جن لوگوں نے میری ولایت کو تسلیم کیا یہ علیؑ بھی ان کا ’’ولی امر ‘‘ ہے ۔ تا آخر خطبہ۔
(سنن ابن ماجہ۱:۴۳؍۱۱۶ و ۴۵؍۱۲۱؛ سنن ترمذی ۵:۶۳۲؍۳۷۶۳؛ خصائص الامام علی علیہ السلام، نسائی ۹۶؍۷۹ و ۹۹؍۸۳؛ مسند احمد حنبل ۱:۸۴،۸۸ و ۴:۳۶۸،۳۷۲ و ۵:۳۶۶،۴۱۹؛ تاریخ بغداد۷:۳۷۷ و ۸:۲۹۰ و ۱۲:۳۴۳؛ اسد الغابہ ۲:۲۳۳ و ۳:۹۳؛ الاصابۃ ۱:۳۰۴؛ مستدرک حاکم۳:۱۰۹،۱۱۰،۱۱۴؛۔۔۔) 
اس کے علاوہ بھی مختلف مواقع پر اس حقیقت کی توضیح و تصریح فرمائی ہے۔ گاہے اشاروں اشاروں میں اور کبھی کھلم کھلا حضورؐ نے اپنا فرض ادا کردیا۔ حکم خدا کی تعمیل ہوگئی۔ لیکن ختم المرسلین کی آنکھ بند ہوتے ہی بعض دیدہ دلیر مسلمان حقیقت پر پردہ ڈالنے کے درپے ہوگئے۔ نص صریح کی تاویل کی اور اپنے اجتہاد سے احکام میں تغیر و تبدل کرنےلگے نتیجۃًجو ہوا ظاہر ہے۔ 
بہرحال ! علیؑ اور ان کا گروہ جو بڑے بڑے جلیل القدر صحابیوں پر مشتمل تھا اس خود ساختہ روش سے علیحدہ رہا اور بیعت سے انکار کردیا۔ 
چنانچہ امیر المومنینؑ مصالح دینی کے پیش نظر ایک زمانے تک تو خاموش رہے۔ مگر جب معاویہ نے اسلامی حکومت و اقتدار کو اپنے زیر نگیں کرنا چاہا۔ اور اس ضمن میں اس نے مختلف تخریبی کارروائیں شروع کردیں تو علی بن ابی طالبؑ معارض ہوئے ۔ کیونکہ معاویہ جیسے شخص کی موافقت اور اس کے غلط طرز حکمرانی کو طرح دینا اسلامی مفاد کےلئے زہر ہلاہل تھا۔ اور دین الٰہی کی حفاظت علیؑ کا سب سے بڑا فرض!
مختصر یہ کہ امامیہ حضرات اس امر کے معتقد ہیں کہ ہم علیؑ کےساتھی ہیں اور آپ ہی کے پیرو۔ علیؑ جس کے دوست ہم اس کے دوست اور علیؑ جس کے دشمن ہم اس کے دشمن۔ 
یہ اعتقاد پیغمبر اکرمؐ کے اس ارشاد پر مبنی ہے: اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ
’’پروردگار! جو علیؑ کا دم بھرے تو اسے دوست رکھ اور جو علیؑ سے بغض باندھے تو اس سے دشمنی کر‘‘۔
امامیہ شیعوںکا عقیدہ ہےکہ خلاق عالم صفحۂ گیتی کو کبھی کسی نبی یا وصی کے وجود سے خالی نہیں رکھتا۔ عام اس سے کہ یہ ’’ حجت‘‘ ظاہر ہو یا غائب۔ 
سرورکائناتؐ نے ’’ نص صریح‘‘ کے ذریعہ علی مرتضیٰؑ کو اپنا وصی بنایا۔ علیؑ نے حسن مجتبیٰ ؑکو جانشین کیا۔ اور امام حسنؑ نے اپنے بھائی سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کو یہ امانت سپرد کی۔ اس طرح یہ سلسلہ گیارہویں امامؑ تک پہنچا گیارہویں رہبر امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے صاحب زادے بارہویں امام حضرت ’’مہدیٔ منتظر ‘‘ سلام اللہ علیہ کو صاحب الامر قرا ردیا۔ 
یہ اعتقاد شیعوںکی اپج نہیں بلکہ ایک سنتِ الٰہیہ‘‘ ہے جو آدمؑ سے چلی اور خاتمؑ تک پہنچی۔ 
اس موضوع پر اعاظم علما ءکی بےشمار کتابیں موجود ہیں۔ ہم قرون اولیٰ اور صدر اول کے ان چند ممتاز علماء کے نام درج کرتےہیں جنہوں  نےوصیت کے عنوان پر قلم فرسائی کی ہے:
(۱) الوصیۃ ہشام ابن الحکم، (۲) الوصیۃ حسین ابن سعید، (۳) الوصیۃ حکم ابن مسکین، (۴) الوصیتہ علی ابن مغیرہ۔ (۵) الوصیتہ علی ابن الحسین ابن الفضل۔ (۶) کتاب الوصیتہ محمد ابن علی ابن الفضل۔ (۷) کتاب الوصیتہ ابراہیم ابن محمد ابن سعید۔ (۸) الوصیتہ احمدا بن محمد خالد البرقی صاحب ’’ المحاسن‘‘۔ (۹) الوصیتہ مورخ جلیل عبد العزیز ابن یحییٰ الجلمودی۔ 
ان میں سے اکثر لکھنے والے قرن اول اور قرن ثانی سے تعلق رکھتے ہیں۔ تیسری صدی ہجری کے مؤلفات کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے : مثلاً
(۱) الوصیتہ یحییٰ ابن مستفاد، (۲) الوصیتہ محمد ابن ا حمد الصابونی، (۳) الوصیتہ علی ابن رئاب ، (۴) الوصیتہ محمد ابن الحسن ابن فرخ ۔ (۵) ’’ کتاب الوصیۃ والامامۃ ‘‘ مورخ شہیر علی ابن الحسین المسعودی صاحب ’’ مروج الذہب ۔ (۶) الوصیتہ شیخ الطائفہ محمد ابن الحسن الطوسی۔ (۷) الوصایا محمد ابن علی الشلمغانی۔، (۸) الوصیتہ موسیٰ ابن الحسن ابن عامر۔ 
اور چوتھی صدی ہجری کے بعد جو کتابیں تالیف ہوئی ہیں ان کا تو شمار ہی مشکل ہے۔ مسعودی اپنی مشہور کتاب ’’ اثبات الوصتیہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’ہر نبی کے بارہ وصی ہوئے‘‘۔ مؤلف نے سب کے نام اور مختصر حالات بھی قلم بند کئے ہیں۔ اور آخر میں ائمہ اثنا عشر کا ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب ایران میںچھپ چکی ہے۔ 
وجود حجت:
البتہ وجودِ حجت کے سلسلہ میں مسلم اور غیر مسلم دونوں حلقوں سے شیعوں پر اعتراضات کی بوچھار کی جاتی ہے۔ لہٰذا چند جملوں میںہم اس حقیقت کی بھی توضیح کرتے چلیں:
 معترضین کا خیال ہےکہ شیعہ ایک بے بنیاد مضحکہ خیز عقیدے کے قائل ہیں لیکن جب ہم اعتراض کرنےوالوںکے عقیدہ کا تجزیہ کرتےہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونافہمیدہ سوالوں پر مبنی ہے۔ 
پہلا سوال یہ کہ طبعی طور پر ایک شخص ہزار برس سے زیادہ کیسے جی سکتا ہے؟
دوسرا سوال یہ کہ آپ کے غائب ہونےمیںکون سی مصلحت کار فرماہے؟
 اور ایک ’’ غائب امام‘‘ کے وجود سے فائدہ؟ ہونانہ ہونا دونوں برابر۔
پہلے اشکال کےمتعلق ترقیم ہے کہ ذرا عمر نوح ؑکا خیال رہے۔
قرآنی تصریحات کےمطابق جناب نوحؑ نے نو سوبرس اپنی قوم میں گزارے(سورہ عنکبوت کی آیت ۱۴ کی طرف اشارہ ) اور علماء نے آپ کی عمر کا جو اندازہ لگایا ہے وہ کم سے کم ایک ہزار چھ سو سال ہے اور بہت سے دیدہ اور افاضل توتین ہزار برس کی خبر لائے ہیں۔
(تفسیر کشاف ، زمخشری ۳:۳۰۰تفسیر ابن کثیر ۳:۴۱۸)
حضرت نوحؑ کے علاوہ بھی جمہور کے علمائے حدیث دوسری ہستیوں کی درازیٔ عمر کا اقبال کرتے ہیں۔ محدث کبیرنودی اپنی کتاب ’’ تہذیب الاسماء‘‘ میں ذکر فرما تے ہیں کہ جناب خضر ؑکی عمر اور نبوت کے ضمن میںاگر چہ علماء مختلف الرائے ہیںلیکن محققین کی اکثریت اس امر کی معرفت ہے کہ جناب خضرؑ موجود ہیں۔اور صوفیائے کرام تو بالاتفاق آپ کی حیات پر مصر ہیں۔ چنانچہ آپ کے دیدار، ملاقاتوں اور سوال و جواب وغیرہ کی ان گنت حکایات مشہور ہیں۔ 
شیخ ابو عمر ابن صلاح نے اپنے فتاویٰ میں تحریر کیا ہے کہ جناب خضر ؑکے بارےمیں جمہور علماء کا یہ فیصلہ ہے کہ آپ زندہ ہیں لیکن بعض محدثین اس کا اقرار نہیں کرتے اور خیال پڑتا ہےکہ ایک دوسرے موقعہ پر موصوف یوں رقم طراز ہیں : نیز زمخشری نے ’’ ربیع الابرار‘‘ میں بھی تحریر کیاہے کہ ’’ تمام مسلمان متفقاً چار انبیاء کی حیات اور وجود کے قائل ہیں۔ ان میں سے دو آسمان پر ہیں یعنی عیسیٰؑ اور ادریس ؑ اور دو زمین پر اور یہ ہیں خضر ؑ و الیاسؑ۔ 
جناب خضرؑ حضرت ابراہمؑ کے زمانے میں پیدا ہوئے تھے۔ اور ایسی بہت سی شخصیتیں ہیں جنہوں نے عمر طبعی کی حدیں گزار کر زندگی کی سینکڑوں بہاریں دیکھیں۔ 
 علامہ سید مرتضیؒ نے اپنی کتاب ’’ امالی‘‘(ج۱ص۲۳۲۔۲۷۲) میں کچھ لوگوں کا ذکرکیاہے اور صدوق علیہ الرحمہ نے ’’ اکمال الدین ‘‘  (صفحہ ۵۵۵۔۵۷۵)میں اس سے بھی زیادہ طویل فہرست درج فرمائی ہے۔ 
 عہد حاضر میں بھی ایسے اشخاص مل جاتےہیں جنہوں نے ایک سو تیس سال اور بعضوں نے اس سے بھی کچھ زیادہ زندگیاں پائی ہیں۔ 
 اور دیکھئے اگر آپ منطقی طور پر سوچیں گے تو معلوم ہوگا کہ جو شخص ایک دن کی زندگی بچانے کی صلاحیت پیدا کرسکتا ہے ۔ وہ حفاظت حیات کے سلسلہ کو کئی ہزار سال تک بھی طول دے سکتا ہے۔ آپ زیادہ سے زیادہ اسے ’’ خرق عادت‘‘ قرار دیں گے۔ اچھا ، یہی سہی ، توکیا انبیاء و اولیاء کے معاملات میں ’’خرق عادت‘‘ کوئی عجیب و غریب بات ہے؟
 ’’ مجلۃ المقتطف‘‘ کے پرانے شمارے اٹھاکر دیکھئے۔ اس موضوع پر علمائے مغرب کے مقالے بھرے پڑے ہیں۔ جن میںانہوں نے سائنٹفک طریقوں سے ثابت کیا ہے کہ انسان دنیا میں حیات جاوداں حاصل کرسکتا ہے اور بعض مغربی مفکر کہتے ہیں کہ :
 ’’ اگر ابن ملجم کی تلوار نہ ہوتی تو علی ابن ابی طالبؑ حیات ابدی کےمالک تھے‘‘۔
 کیونکہ کمال و اعتدال کی جملہ صفتیں آپ کی ذات میں جمع تھیں۔ اس مبحث میں بہت کچھ شامل کیاجاسکتا ہے۔ مگر زیادہ گنجائش نہیں۔ 
دوسرے ایراد کے سلسلہ میں نگارش ہےکہ صاحب ! کیا یہ قوم خدا کی تمام حکمتوں اور مصلحتوں سے آگاہ ہونا چاہتی ہے؟ جملہ اسرار تکوینی و تشریعی سے واقفیت مطلوب ہے ؟ اگر یہی منشاء ہے تو پھر بسم اللہ ۔۔۔ مگر اتنا ضرور غور کرلینا چاہئے کہ حجاب مصلحت میںاسکے علاوہ تو اور کوئی راز پوشیدہ نہیں۔ 
پارۂ سنگ نہ تو کوئی نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان لیکن اس کے باوجود حجر اسود کو بوسہ دیا جاتا ہے۔ بتائیے کون سی حکمت مستور ہے؟
مغرب کی نماز تین رکعتوں میں ادا ہوجاتی ہے ۔ عشاء کی چار رکعتیں پڑھ نا پڑتیہیں صبح کو دو ہی رکعت میں فرض پورا ہوجاتاہے کہئے اس میںکیا مصلحت ہے؟
نیز یقین مانیے بہت سے ایسے امور بھی ہیں جن کا علم نہ کسی ملک مقرب کو ہے اور نہ نبی مرسل کو۔ مثلاً ’’ علم الساعۃ ‘‘ بقول باری تعالیٰ ’’ان اللہ عندہ علم الساعۃ و ینزل الغیث‘‘(لقمان ۳۴)علاوہ ازیں اور باتیں بھی ہیں جو پردۂ خفا میں رکھی گئی ہیں اور مصلحت نا معلوم۔ مثال کے طور پر اسم اعظم، شب قدر، ، ساعت استجابت دعا وغیرہ۔ 
 اس تمہید سے ہمارا مقصد یہ ہےکہ باری تعالیٰ کے ان احکام و افعال کے سلسلہ میں جن کی حکمت غیر ظاہر ہو حیرت زدہ ہونےکی ضرورت نہیں بلکہ دیکھنا یہ چاہئے کہ آیا وہ حکم یا فعل وجود رکھتا ہے یا نہیں ؟
 اب اگر پیغمبرؐ اکرم اور ان کے اوصیاء معصومینؑ کے اقوال صحیحہ سے یہ ثابت ہے تو ہمیں صرف تسلیم کرنا پڑے گا اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں بحث حکمت لا حاصل اور لم کی تلاش بے سود۔ 
 امکانی طور پر ہم نے کوشش کی ہےکہ اس مختصر سے رسالے میں دلائل و براہین کا انبار نہ لگنے پائے۔ کیونکہ سیر حاصل بحث کےلئے بڑی بڑی کتابیں موجود ہیں  اور قائم آل محمدؐ کےمتعلق فریقین کے علمی خزانوں میں مستند احادیث کا کافی ذخیر ہ محفوظ ہے۔ 
مصالح غیبت کے سلسلہ میں اگر چہ کہ ہم اس حقیقت کے معترف ہیںکہ ’’ خدا اپنی حکمت خود بہتر جانتا ہے ‘‘ پھر بھی بعض شیعہ مفسروں کے جواب میں بہت سے معقول وجوہ پیش کئے جاچکے ہیں جن کے اعادے کی یہاں وسعت نہیں۔ 
 نیز اس ضمن میں فیصلہ کن بات یہ ہے کہ ہر ’’ زمانے میں امام کا ہونا ضروری ہے ‘‘،۔ دنیا حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی ہے۔ اس کا وجود بھی ’’لطف‘‘ ہے اور تصرف بھی ’’ لطف‘‘ ۔ لہٰذ امصلحت کا سوال ساقط ۔ اور غیبت کا اقرار لازم۔ 
عدل:
خداوند عالم کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ اور نہ اس سے کوئی ایسا فعل سرزد ہوتا ہےجسے عقل سلیم برا سمجھے۔ اس اعتقاد کا نام ہے ’’عدل‘‘۔ 
عدل باری تعالیٰ کی صفتوں میں سے ایک صفت ہے جس کا وجود جامعیت صفات کمال و جمال الٰہیہ کے لئے ضروری اور شان توحید کے واسطے لازم سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن اشاعرہ نے اس مسئلہ میں امامیہ اور معتزلہ کی مخالفت کی ( امامیہ اور معتزلہ کو عدلیہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ) اور وجہ مخالفت یہ تھی کہ اشاعرہ ’’’ حسن و قبح‘‘ کے عقلی ہونے کے منکر ہوکر یہ کہنے لگے کہ حسن ( اچھی) وہ شئے ہے جسے شریعت حسن کہے اور قبیح ( بری) وہ چیز ہے جسے شرع قبیح قرار دےیہاں تک کہ انہوں نے معرفت صانع اور پیغمبروں کی پہچان کے لئے معجزات کی جانچ پڑتال کو بھی سمع و شرع کے طریقوں پر محمول کیا نیز حکم خرد کو بالکل ساقط کردیا نتیجتہً وہ ’’ دور اور استحالے‘‘ کے چکر میں پڑ گئے۔ 
لیکن عدلیہ یعنی امامیہ اور معتزلہ اس عقیدےپر قائم رہے کہ ان نظریات میں فیصلہ عقل کے ہاتھ ہے۔ شریعت کو کوئی دخل نہیں البتہ شرعی احکام سے تاکید اور ہدایت ہوتی ہے۔ 
عقل بعض افعال کو اچھا سمجھتی ہے اور بعض کو برا اور اسی عقل کا یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ ’’فعل قبیح‘‘ ذات باری کے لئے محال ہے۔ کیونکہ وہ حکیم ہے اور فعل قبیح منافیٔ حکمت ۔ 
فرماں بردار کو مبتلائے عذاب کرنا ظلم ہےا ور ظلم فعل قبیح جو پروردگار عالم سے نہیں واقع ہوسکتا۔ 
نظر برایں امامیہ فرقہ نے مسئلہ عدل پر خصوصیت کے ساتھ توجہ دی۔ نیز خداوند عالم کی اس صفت کو اصول دین میں شامل کرلیا ۔ ہاںیہاں یہ بات قابل ذکر ہےکہ اشاعرہ خود بھی عدل کے منکر نہیں ہیں البتہ اس ضمن میں ان کا عقیدہ یہ ہےکہ ایزد متعال خواہ کچھ کرے بہرحال ’’ عدل و خوبی‘‘ میں فرق نہیں آسکتا۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ بھلا عقل کی کیا ہستی جو یہ فیصلہ کرے کہ خدا کے لئے یہ مناسب تھا اور یہ نامناسب۔ 
لیکن امامیہ اس حقیقت کو ثابت کرتےچلے آرہے ہیں کہ ہر چیز کی اچھائی برائی پرکھنے کا صحیح معیار عقل ہے۔ اسی کے ذریعے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ذات باری کو ہر خوبی سے متصف اور ہر بدی سے منزہ ہونا چاہئے۔ اسی نظر یہ حسن و قبح عقلی کی اساس پر علم کلام کے اور بھی قواعد مرتب ہوئے ۔ مثلاً قاعدۂ لطف و وجوب شکر منعم اور معجزے میں وجوب نظر، نیز مسئلہ جبر و اختیار کی بنیاد بھی یہی ہے۔ 
جبر و اختیار ان غیر معمولی مسائل میں ہے جن پر ایک زمانے تک بحث ہوتی رہی۔
اشاعرہ جبر کے قائل تھے اور معتزلہ و امامیہ کا خیال تھا کہ ہر انسان آزاد اور خودمختار ہے۔ اپنے ارادے سے سب کچھ کرسکتا ہے۔ اور اپنی مشیت سے اپنے اعمال بجالاتا ہے۔ نفس وجود کی طرح ملکہ اختیار بھی اللہ کی دین ہے خالق کائنات نے بندوںکو پیدا کیا اور انہیں اختیارات دے دیئے۔ البتہ اختیار عام یا اختیار کلی خدا ہی کو حاصل ہے لیکن جزئیات میںہم بالکل آزاد ہیں۔ 
پروردگار عالم نہ کسی انسان کو کسی کام کے واسطے مجبور کرتا ہے اور نہ اس کے ترک کے لئے، بلکہ فرزندانِ آدم من مانی کرتے ہیں۔ 
اسی بنا پر عقل اور عقل مندوں نے ان کی مدح و ذم کو جائز سمجھا ہے اور سزا و جزا کو درست ، اگر کسی نے کوئی نیک کام کیا ہے تویقیناً اس کی تعریف کی جائے گی۔لیکن غلط کاروں کو قرار واقعی سزا سے کیونکر چھٹکارا مل سکتا ہے؟
پھر اگرہمک  اس قاعدے کو نہ مانیں تو ثواب و عتاب کا نظریہ ہی باطل ہوا جاتا ہے بعثت انبیاء و نزول کتب بے سود اور وعدہ و عید لا حاصل ۔ 
ان صفحات میں اس سے زیادہ گنجائش نہیں۔ ہم اپنی کتاب ’’الدین والاسلام‘‘ کے حصہ اول میںکافی روشنی ڈال چکے ہیں۔ مختصر یہ کہ اس مسئلہ میں مذہب امامیہ کا یہ عقیدہ ہےکہ اللہ عادل ہے اور انسان آزادو خود مختار ۔ 
معاد:
عام مسلمانوں کی طرح شیعوں کا بھی یہ عقیدہ ہےکہ پیدا کرنےو الا سزا و جزا اور حساب و کتاب کے لئے قیامت کے دن تمام خلق کو زندہ محشور کرے گا۔ 
معاد کے معنی یہ ہیں کہ ہر شخص بذات خود بعینہ اپنے جسم و روح کے ساتھ میدان حشر میں اس طرح حاضر ہوگا کہ پہچاننے والا دیکھ کر کہہ دے : ہاں یہ فلاں آدمی ہے۔ 
 اس سلسلہ میں یہ جاننا ضروری نہیں کہ یہ واپسی کس انداز سے ہوگی۔ اعادۂ معدوم کے طور پر ؟ ظہور موجود کی قبیل سے؟ یا کوئی اور طریقہ ہوگا؟ نیز حشر و نشر کے ضمن میں کتاب خدا اور احادیث صحیحہ میں جو کچھ ارشاد ہوا ہے وہ سب جز و ایمان ہے۔ جیسے عقیدۂ دوزخ و بہشت ، برزخ کی آسائش اورعذاب  میزان، صراط، اعراف، اور وہ اعمال نامہ جو زندگی کا مرقع ہوگا۔ 
علاوہ ازیں شیعہ اس کے بھی معترف ہیںکہ ہر شخص اپنے اعمال کے لحاظ سے سزا و جزا کا مستحق ہوگا۔ نیکی کا بدلہ نیکی اور بدی کا بدی۔ 
فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ﴿٧﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ﴿٨﴾(سورہ زلزال)

نظام عمل
پیش لفظ: 
امامیہ شیعوںکا یہ عقیدہ ہے کہ شریعت اسلامی کی روسے زندگی کے جملہ معاملات میں پروردگار عالم کا کوئی نہ کوئی فرمان موجود ہے۔ قانون الٰہی نے معمولی سی خراش کی دیت کو بھی نظر اندازنہیںکیا۔ 
غرض کسی مکلف کا کوئی عمل بھی ایسا نہیں ملے گا جو مندرجہ ذیل احکام میں سے کسی حکم کےد ائرے میں نہ ہو:
واجب، حرام، مستحب، مکروہ، مباح
لین دین ہو یا قول و قرار ، شرع ضرور بتائے گی کہ یہ درست ہے یا نا درست ۔
 سرچشمہ: 
پیغمبرؐ کی ذات بابرکات تمام احکام الٰہیہ کا سر چشمہ ہے۔ باری تعالیٰ نے وحی و الہام کے ذریعہ یہ احکام سرکار ختمی مرتبتؐ کو ودیعت فرمائے۔ آپ نے حسب تقاضا ئے حال لوگوں کو واقف کرایا ۔ اور خاص طور سے ان اصحاب کو جو ہمہ وقت حاضر بارگاہ رہتے تھے تاکہ بمصداق آیۂ مبارکہ ’’لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدا‘‘(بقرہ، ۱۴۳) وہ پوری دنیا میں تبلیغ کرتے رہیں۔ 
مگر بہت سے حکم ایسے بھی تھے جن کی تعلیم نہیں دی جاسکی۔ خواہ اس وجہ سے کہ ان کےلئے موقع نہ تھا۔ یا اس لئے کہ پیغمبرؐ کے زمانے میں ان ضوابط کی ضرورت نہیں پڑی۔ اور یہ بھی ممکن ہےکہ کسی مصلحت کی بناء پر عام کئے گئے ہوں اسی لئے کچھ احکام مشہور ہوگئے اور کچھ مستور رہے۔ لیکن نبی کریمؐ نے ان پوشیدہ احکام کو اپنےاوصیا ء کے سپرد فرمادیا۔ بعد ازاں ہر وصی اپنے جانشین کو بتاتا رہا کہ حسب اقتضائے زمانہ اور مناسبت وقت ان کی اشاعت ہوتی رہے۔ 
اختلاف: 
رسول مقبولؐ نے جس طرح اور جس قدر مناسب سمجھا، بیان فرمایا۔ اور صحابہ نے بھی اپنی اپنی فہم کے مطابق جو سمجھ میں آیا وہ سمجھا۔ ابر رحمت تو کھل کر برسا مگر فیض حاصل کرنے والوں کا اپنا اپنا ظرف۔ ۔۔۔! پھر سب کی ذہنی توانائیاں یکساں بھی تو نہیںہوتیں :
من و طوبیٰ و سرد و وقامتِ یار
فکرِ ہر کس بقدرِ ہمت اوست
ایسا بھی ہوا کہ ایک صحابی کسی معاملہ میں مثبت حکم پاتا ہے اور دوسرے اسی سے ملتے جلتے واقعہ میں منفی حکم سنتے ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فعل ایک اور احکام دو۔ یہ کتنا صریحی اختلاف ہوا؟ اچھا ! اب اس اختلاف کا سبب کیا ہے ؟ بات یہ ہوگی کہ ان دونوں مواقع میں سے کسی ایک میں کوئی خاص پہلو ہوگا۔ نقل کرنےوالے یا تو اس تخصیص کی طرف متوجہ نہیںہوئے۔ یا توجہ تو کی مگر خصوصیت کا ذکر نہیں کیا۔ لہٰذا حدیثوں میں ظاہری فرق تو نظر آسکتا ہے لیکن واقعی اختلاف کا شائبہ تک نہیں۔ 
اجتہاد:
اسی قبیل کے مختلف اسباب پیدا ہوئے جس کی وجہ سے صحیح حکم شناسی میں دقتیں پیش آنے لگیں۔ بنابریں اور تو اور خود وہ اصحاب جنہیں رسولؐ کی خدمت کا شرف حاصل تھا’’ اجتہاد‘‘ کا سہا را لینےلگے۔ چنانچہ حدیثوں کے تقابل اور انضمام کا خیال دامن گیر ہوا۔ قرائن کی چھان بین ہونے لگی ۔ کیونکہ بسااوقات یہ بھی دیکھا گیا کہ حدیث کا ظاہری مطلب کچھ اور شارع کا مقصد و منشاء کچھ اور ہوتا ہے۔ قبل ازیں اشارہ کیا جاچکا ہے کہ اس تفاوت کے اسباب میں نقل کی خامی یا ناقلوں کی کوتاہی کو بڑا دخل ہے۔ 
مجتہد:
رسالت مآبؐ کے وہ اصحاب جو صائب الرائے اور اہل روایت تھے انہوں نے بھی کبھی تو پیغمبرؐ کے قول کو بعینہ ان ہی الفاظ میں دہرادیا جن لفظوں میں سنا تھا۔ اور گاہے نفس حدیث کی جگہ وہ حکم بیان کردیا جو متعلقہ حدیث سے اخذ کیا تھا۔ 
پہلی صورت میں ان کی حیثیت راوی اور محدث کی ہوتی ہے اور دوسری شکل میں وہ مفتی اور صاحب رائے کی شان رکھتےہیں جنمیں یہ ملکہ ہو انہیں مجتہد کہا جاتا ہے۔ 
مقلد:
اور وہ عام مسلمان جو اس مرتبہ پر فائز نہ ہوں اور مجتہد کی رائے پر عمل پیرا ہوں انہیں مقلد کا نام دیا جاتا ہے۔ 
الحاصل اگر نظر غائر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ آنحضرتؐ کے زمانے ہی میں اجتہاد کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ا ور خود آپ کےا صحاب اس پر عامل تھے۔ البتہ اس عہد میں اجتہاد اتنا توانا نہیں تھا جتنا اب ہے۔ کیونکہ لوگ براہ راست پوچھ سکتے تھے قرائن وافر تھے۔ علم قطعی حاصل کرنے کے تمام ذرائع موجود تھے۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا عصر نبوت سے دوری ہوتی گئی۔ عربوں اورعجموں میں میل جول بڑھا۔ عربی زبان کے صحیح مطالب سمجھنے میں دقتیں ہونے لگیں۔ احادیث و روایات کی بہتات ہوئی۔ جن میں بہت سی مشکوک اور موضوع روایتیں بھی تھیں۔ کثرت سے جھوٹے اقوال پیغمبرؐ کی جانب منسوب ہونےلگے اس منزل پر احکام شریعت کا پرکھنا آسان کام نہ تھا۔ نظر برایں ’’ اجتہاد‘‘ نے قوت حاصل کی۔ استنباطی طریقوں میں زور آیا۔ صحیح و سقیم میںامتیاز ہوا اصول ترجیح سے کام لیاگیا۔ بہر کیف ضرورتیں بڑھتی گئیں۔ مجتہد کاوش فرماتے رہے اور دامن استنباط پھیلتا گیا۔ امامیہ فرقہ کے ہاں اب تک یہ نعمت موجود ہے۔ 
دیکھئے! ہمارا  آپ کا مشاہدہ بتاتا ہےکہ تمام انسان دو گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں باسواد، بے سواد ( خواندہ و ناخواندہ) نیز قدرتی طور پر بے سواد جماعت کو اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے باسواد طبقہ کی مدد حاصل کرنا پڑتی ہے ۔
اسی طرح شریعت کی دنیا میں بھی دو فریق ہیں عالم مجتہد اور جاہل مقلد ضابطہ کے لحاظ سے دوسرے طبقہ کو مسائل سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے پہلے طبقہ کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ 
 عام مسلمانوں کی طرح شیعہ بھی یہ اعتقاد رکھتےہیںکہ احکام شرع کا دار و مدار ’’کتاب و سنت‘‘ اور اس کے بعد ’’ عقل و اجماع‘‘ پر ہے۔ البتہ امامیہ فرقہ حسب ذیل راستوں میں دوسروں کا ساتھ نہیںدے سکتا:
۱): قیاس:
شیعہ کبھی قیاس پر عمل نہیں کریں گے کیونکہ تواتر کے ساتھ ان کے ائمہؑ نے ارشاد فرمایا ہے : ان الشریعۃ اذا قیست محق الدین ۔ اگر شرعی معاملات میں قیاس آرائیاں ہونے لگیں تو دین کا نقشہ بگڑ جائے گا۔ عمل بالقیاس کی خرابیوں کو ہم واضح کرتے مگر موقعہ نہیں ۔ 
۲): روایتِ غیر معتبر:
یعنی اگر حدیث رسولؐ اہل بیت اطہارؑ کی وساطت سےملے گی تو لائق اعتبار ورنہ ناقابل تسلیم غیر معتبر ، ابوہریرہ ، سمرہ بن جندب، مروان بن حکم، عمران بن حطان خارجی اور عمر و بن عاص و غیرہم کے روایات کی ہمارے ہاں کوئی وقعت نہیں اور شیعوں ہی پر کیا منحصر خود علمائے اہل سنت نے بھی ان راویوں کی دھجیاں اڑائی ہیں ، خوب خوب پول کھولے ہیں۔ 
۳): عدم تقلید:
 ابھی ذکر ہوچکا ہے کہ شیعوں کے ہاں اجتہاد کا دروازہ آج تک کھلا ہوا ہے اور ہمیشہ کھلا رہے گا۔ بر خلاف اس کے سواد اعظم میں ابواب استنباط مقفل ہیں۔ یہ عمل کب اور کس دلیل سے ہوا؟۔ اس سلسلہ میں غالباً خود ان کے علماء بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں رکھتے۔ ان امور کےعلاوہ باقی اختلافات فروعی ہیں۔ 
منصب اجتہاد:
دلائل و براہین میں رچ کر جو شخص احکام شرعیہ کے اخذ و استنباط کی قوت حاصل کرلے اسے منصب اجتہاد پر فائز سمجھنا چاہئے۔ مگر صحت تقلید کے لئے اس کے علاوہ بھی کچھ شرطیں ہیں سب سے اہم شرط عدالت ہے۔ عدالت سے مراد وہ باطنی جوہر ہے جس کے ہونے سے انسان زندگی سے بچپنے اور واجبات کی انجام دہی پر قدرت حاصل کرسکتا ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ خوف خدا کی وہ کیفیت جوہر حال میں دل و دماغ پر طاری رہے اس کے کئی درجے ہیں سب سے بڑا درجہ عصمت ہے جسے امامت کی شرط قرار دیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں ’’ ضروریات‘‘ ( وہ امور جن کا تعلق علم قطعی سے ہے ) میں نہ تقلید ہے نہ اجتہاد! جیسے وجوب صوم و صلوٰۃ وغیرہ۔ اسی طرح اصول دین بھی تقلید و اجتہاد کی حدوں سے باہر ہیں۔ کیونکہ ان کا تعلق ہر مکلف کے شخصی علم و تحقیق سے ہے اور جن حقائق کی واقفیت ہر شخص کی اپنی سمجھ بوجھ اور ذاتی دانش و آگہی پر منحصر ہوا انہیں دوسروں کی رائے پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ ان کے سوا باقی جتنے بھی فروعی مسائل ہیں وہ سب اجتہاد و تقلید کے دائرےمیں ہیں۔  نیز مکلفوں کے اعمال ہی احکام شریعت کا موضوع ہیں۔ لہٰذا ان کا جاننا نہایت ضروری ہے اور جاننے کے بس دو ہی طریقے ہیں تقلید یا اجتہاد۔ یاد رکھنا چاہئے کہ ان طریقوں میں سے اگر کسی طریقہ سےمعرفت حاصل نہ کی تو قیامت کے دن سز ابھگتنا پڑے گی۔ اعمال کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ :(الف) کچھ عمل تو خدا اور بندے سے متعلق ہیں یہ ’’عبادت‘‘ کہلاتے ہیں۔ ان کی صحت خدا سےقریب ہونےکی نیت پر موقوف ہے۔ عبادتیں یا تو جسمانی ہوتی ہیں جیسے نماز روزہ ، حج یا مالی جیسے خمس و زکوٰہ و کفارات۔ (ب) اور کچھ فرد اور سماج سے تعلق رکھتےہیں ان کی بھی دو صورتیں ہیں دو فریقوں سے وابستہ مثلاً لین دین شادی بیاہ ، ایک ہی فریق سے مختص ، جیسے طلاق اور عتق وغیر۔ (ج) نیز بعض اعمال بالکل شخصی اور ذاتی ہوتے ہیں جیسے کھانا پینا، پہننا اوڑھنا ۔
فقہ
ان تمام اعمال کے جملہ احکام سے چار ابواب میں بحث کرتی ہے:عبادات، معاملات ، ایقاعات ، احکام:
 اہم ترین عبادتیں چھ ہیں دونری جسمانی یعنی : نماز، روزہ ۔ دو خالص مالی یہ ہیں :خمس وزکوٰۃ ۔اور دو ملی جلی جنہیں حج و جہاد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ 
ارشاد باری ہے : جَاھَدُوا بِاَمْوالِکُم وَاَنْفُسِکُم‘‘ (سورہ توبہ، ۴)’’تم اپنی جان و مال دونوں سے جہاد کرو‘‘۔ 
اورکفارات ، چند خاص جرائم کی مخصوص سزائیں ہیں۔ 
نماز:
تمام مسلمانوں کی طرح شیعہ بھی ’’ نماز‘‘ کو دین کا رکن سمجھتے ہیں۔ یہ عبادت بندے کو خدا سے نزدیک کرنے کا ایک وسیلہ ہے جو کہیں یہ عمل چھوٹ جائے تو عبد و معبود کا رشتہ ہی ٹوٹ جائے۔ 
اسی واسطے اہل بیت علیہم السلام کی احادیث میں وارد ہوا ہے کہ’’ انہ لیس بین المسلم و بین الکفر باللہ العظیم الا ترک فریضۃ او فریقین (مسائل الشیعہ جز رابع ، باب نبوت الکفر) ایک دو نمازوںکا چھوڑنا ہی کفر و اسلام کا درمیانی فرق ہے۔ 
شریعت کی رو سے نماز کو بڑی اہمیت حاصل ہے کوئی عبادت بھی اس کے مقابل نہیں اور بالاتفاق فرقہ امامیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ ’’ تارک الصلوٰۃ‘‘ فاسق ہے اسلامی معاشرے میں اس کا کوئی مقام نہیں ہے۔ نہ وہ قابل اعتبار ہے نہ لائق اعتماد نیز اس کی غیبت بھی جائز ہے۔ نماز کے سلسلہ میں بڑے سخت احکام ہیں ۔
اصولاً پانچ قسم کی نمازیں واجب ہیں :
فرائض پنجگانہ ، نماز جمعہ، نماز عیدین، نماز آیات، نماز طواف ۔لیکن بعض وقت خود مکلف کسی وجہ سے اپنے اوپر نماز واجب کرلیتا ہے۔مثلاً نذر مان کر ،قسم کھا کر یا پڑھنے کی اجرت لے کر۔ ان کے علاوہ باقی سب نوافل ہیں۔ 
ہمارے یہاں نوافل میں سب سے اہم روزانہ نمازوں کے نافلے ہیں جو شمار میں واجب نمازوں سے دوگنے ہیں۔ 
فرائض و نوافل روزانہ کی مجموعی تعداداکیاون رکعت ہے۔ 
 ایک واقعہ :
یہاں ہمیں ایک پُر تکلف واقعہ یاد آگیا ۔ راغبؔ اصفہانی اپنی وقیع تصنیف ’’ المحاضرات‘‘ میں لکھتے ہیںکہ ’’ احمد بن عبد العزیز کے زمانے کی بات ہے ۔ اصفہان میںکنانی نامی ایک شخص تھا جس سے احمد پیش نماز ی کے آداب سیکھتا تھا۔ اتفاقاً ایک دن احمد کی ماں نے جھانک کر دیکھا اور دیکھتے ہی کنانی سے کہنے لگی: اے ہدایت کار! تونے تو میرے لڑکے کو ’’رافضی‘‘ بنادیا۔ 
کنانی نے برجستہ جواب دیا۔ نادان عورت! رافضی تو روزانہ اکیاون اکیاون رکعتیں پڑھتے ہیں اور تیرا لڑکا اکیاون دن میں ایک رکعت بھی نہیں ادا کرتا۔ یہ رافضی کیسے ہوسکتا ہے؟(محاضرات الادباء ۴/۴۴۸۔۴۴۹)
آمد م بر سر مطلب،اچھا! ان نمازوں کےعلاوہ ماہِ رمضان کے نوافل کو بڑی عظمت و اہمیت حاصل ہے جن کی تعداد ایک ہزار رکعت ہے۔ ہمارے سنی بھائی بھی یہ نمازیں پڑھتے ہیں مگر جماعت کے ساتھ جو ان کے ہاں ’’تراویح‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ 
 اور شیعی نقطۂ نظر سے ان نمازوں میں جماعت مشروع نہیں۔ کیونکہ کلیہ یہ ہےکہ ’’جماعت صرف واجب نمازوں کے لئے ہے ‘‘۔
 تفصیلات کے واسطےہماری فقہ کے وہ ہزاروں مجلدات دیکھے جاسکتے ہیں جو علمی دنیا میں آپ اپنی نظیر ہیں۔ ان میں کمال شرح وبسط کے ساتھ نماز کے تمام متعلقہ احکام، آداب ، اذکار ،  اوراد و ادعیہ وغیرہ درج ہیں۔ 
 قانونی طور پر ہمارےہاں صحیح نماز کی حقیقت کے ثبوت کا دارومدار ان تین امور پر ہے:
 ۱): شرائط نماز:
وہ اضافی قدریںجو چند بیرونی حقائق سےماخوذ ہیں اگر چہ ان میں سے کوئی بھی نفسِ نماز میں داخل نہیں ۔لیکن یہ سب ایسی بندھی ٹکی صفتیں ہیں جن کے نہ ہونے سے نماز بالکل باطل ہوجاتی ہے۔ ان کی تعداد چھ ہے :
طہارت، وقت، قبلہ، ساتر، نیت، مقام (نماز کی جگہ)  کو اگر چہ کہ رکن کی حیثیت نہیں حاصل ہے لیکن اس کا مباح ہونا ضروری ہے۔ نیز اسی طرح ’’جائے سجدہ‘‘ کی پاکیزگی بھی لازم ہے۔ 
۲): اجزائے وجودی:
وہ عناصر جن سے نماز کی صورت گری ہوتی ہے۔ ان کی دو قسمیں ہیں :رُکنی ۔ غیر رُکنی
رُکنی______جن کے بغیر مطلق طور پر نماز باطل ہوجاتی ہے۔ یہ پانچ ہیں : نیت، تکبیرۃ الاحرام، قیام ، رکوع، سجود۔
 غیر رُکنی یہ ہیں : قرأت ، ذکر، تشہد، سلام۔طمانیت ان سب میں ضروری ہے۔
اذان و اقامت ، مستحب موکد ہیں بلکہ اقامت کا وجوب وقت ہونے کی صورت میں قوت سے خالی نہیں۔ 
۳)موانع:
وہ امور جن کے ہوتے ہوئے نماز باطل ہوجاتی ہے ۔یہ بھی دو قسم کے ہیں : 
رُکنی ___مطلقاً باطل کردینے والے۔ یہ تعداد میں تین ہیں:حدث، استدبار (پشت بقبلہ ہونا)، عمل کثیر پرجس سے صورت نماز ختم ہوجائے۔ 
غیر رُکنی___جنہیں قصداً اختیار کرنے سے نماز باطل ہوتی ہے۔ ان کی فہرست حسب ذیل ہے:
بولنا، آواز سے ہنسنا اور اسی طرح رونا، دائیں بائیں  دیکھنا، کھانا، پینا۔ 
طہارت سے مراد وضو اور غسل ہے ان میں سے ہر ایک کے واجب ہونےکے کچھ اسباب ہیں لیکن پانی کی نا میسری یا کسی اور مجبوری  جیسے بیماری ، زیادہ سردی یا تنگیٔ وقت و غیرہ کے باعث اس کا استعمال ممکن نہ ہو تو پھر ان کا بدل تیمم ہے (فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا)(سورہ نساء ۴۳، سورہ مائدہ ۶)۔ فقہا ء اور ارباب لغت نے صعید کے معنوںمیں اختلاف کیا ہے۔ کچھ تو کہتے ہیں کہ اس سے مقصود صرف مٹی ہے بعض کے خیال میں بغیر کسی قید و شرط کے روئے زمین مراد ہے جس میں ریت، سنگریزے ، پتھر اور غیر سوختہ معدنی اشیاء وغیرہ سب شامل ہیںکہ ان پر سجدہ جائز ہے۔ اور یہی صحیح بھی ہے۔ 
 نماز کےبارےمیں یہ مختصر سی گفتگو تھی۔ اس سلسلہ میں بڑے زبردست اور طویل مباحث ہیں جن کے لئے جلدیں کی جلدیں درکار ہیں۔ 
روزہ :
امامیہ عقیدے کے مطابق ’’ روزہ‘‘ شریعت اسلامیہ کا ایک رکن ہے۔ احکام کے لحاظ سے صیام کی چار قسمیں ہیں:  واجب ، مستحب ، حرام ، مکروہ ۔واجب روزے دو قسم کے ہوتے ہیں :
 (۱) شرع کے واجب کردہ۔ یہ ہیںماہِ رمضان کے روزے۔ 
(۲) جو کسی سبب سے واجب ہوگئے ہیں : جیسے صوم کفارہ، بدل ہدی(قربانی کے بدلے) ، نیابت اور نذر وغیرہ کے روزے۔ 
رجب وشعبان کے روزے مستحب ہیں۔ نیز ان کے علاوہ اس زمرے میں اور بہت سے ہیں۔ 
 عیدین اور ایام تشریق کے روزے حرام ہیں۔ نیز صوم عاشور اور عرفہ کے دن  کے بارےمیں کہا گیا ہے کہ اس کا روزہ رکھنا مکروہ ہے اور نِسبی ہے۔ 
صیام کے کچھ شرائط ہیں ، واجبات و مبطلات ہیں اور آداب و اذکار ہیں اس موضوع پر بھی ہزاروں کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ رمضان المبارک کے روزوں کا شیعہ اس قدر التزام کرتےہیں جس کی کوئی حد نہیں۔ بہت سے لوگ تو مرض موت اور جان لیوا پیاس میں بھی اس عبادت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ نماز اور روزہ خالص جسمانی عبادتیں ہیں۔ 
 زکوٰۃ:
شیعوں کے نزدیک نماز کے بعد ’’ زکوٰۃ‘‘ کا مرتبہ ہے بلکہ ائمہ اطہار علیہم السلام کی بعض حدیثوں میںیہ مضمون ملتا ہے کہ ’’ جو زکوٰۃ نہ دے اس کی نماز ہی درست نہیں ‘‘۔(کافی جلد ۳ ص ۴۹۷۵۹۲۔ الفقیہ جلد ۲ ص۸/۲۶)
 عام مسلمانوں کی طرح امامیہ حضرات بھی نو چیزوں پر زکوٰۃ واجب سمجھتےہیں:
 مواشی( جانوروں میں) ____اونٹ، گائے ، گوسفند
غلوں میں_____گیہوں، جو، خرما، مویز( کشمش)
نقدی میں_____طلائی سکے، نقرئی سکوکات
ان کےعلاوہ تجارتی سامان، گھوڑوں نیز زمین سے پیدا ہونےوالی تمام اشیاء جیسےدالوں اور ترکاریوں وغیرہ کی زکوٰۃ نکالنا مستحب ہے۔ 
وجو ب استحباب کے کچھ شرائط وضوابط ہیں جو اپنے اپنے مقامات پر مذکورہ ہیں اس سلسل میں تمام قواعد ’’ مذاہب اربعہ‘‘ یعنی حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی فقہ کےمطابق ہیں۔ 
 زکوٰۃ کے مستحق حسب ارشاد باری تعالیٰ : اِنْما الصّدقاتُ لِلفُقراء وَ المساکین۔۔۔ تا آخر آیت( سورہ توبہ /۶۰) فقرا و مساکین  ہی ہیں۔ 
زکوٰۃ و فطرہ :
فطرہ ہر اس بالغ و عاقل شخص پر واجب ہے جو خود مکتفی نیز اپنے اہل و عیال اور دوسرے تمام متعلقین کا معاشی بار اٹھانے کی سکت رکھتا ہو۔ 
 اس کی مقدار ہر فرد کی جانب سے گیہوں، جو یا کھجوروں کا ایک صاع (۳کلو)ہے۔ یہاں بھی شیعی مسائل سنیوں سے مختلف نہیںہیں۔ 
 خمس:
خمس سات چیزوں پر واجب ہوتی ہے: دار الحرب کا مالِ غنیمت، غواصی ( غوطہ زنی) سے حاصل شدہ جواہر و معادن  ونباتات، پوشیدہ خزانے ، معدنی اشیاء،حلال حرام آمیز کاروبار کے منافع، مسلم سے ذمی کو منتقل شدہ آراضی۔ 
 خمس کی اصل و اساس پروردگار عالم کا یہ ارشاد ہے :
  وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ
’’ آگاہ ہو کہ جو اموال بطور غنیمت تمہیںد ستیاب ہوں ان کا پانچواں حصہ خدا رسولؐ ، ذوی القربیٰ، ایتام ، مساکین اور پردیسیوں کا ہے ‘‘ ۔ 
( سورہ انفال آیت ۴۱)
اس ضمن میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ’’ خمس‘‘ وہ حق ہے جسے خداوند کریم نے آلِ محمدؐ کے لئے مختص فرمایا ہے۔ کیونکہ نبی زادوں پر صدقہ حرام ہے۔ لہٰذا وہ ’’ زکوٰۃ‘‘ لے نہیں سکتے۔ پروردگار عالم کی یہ عنایت اسی کا ’’ نعم البدل‘‘ ہے۔ 
خمس کے چھ حصے قرار پائے ہیں:تین اللہ ،رسول اور ذی القربیٰ کے جنہیں موجودگی کی صورت میں امام علیہ السلام کی خدمت اقدس میں پیش کرنا واجب ہے۔ اور غیبت کی شکل میں نائب امام یعنی مجتہد عادل کے حوالے ہوں گے۔ تاکہ ان محاصل سے وہ دین مبین کی حفاظت اور ملت غرّا کے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل فرما سکیں۔ یہ ہے اس کا حقیقی مصرف۔۔۔ نہ کہ وہ جسے سید محمود آلوسی کی ذہنی بدعت کہنا چاہئے۔ 
سید صاحب مذکور اپنی تفسیر میں ایک جگہ پر مزاحاًتحریر فرماتے ہیںکہ اس زمانے میں تو ایسے حقوق کو سرداب میں رکھ دینا چاہئے‘‘۔(روح المعانی ۱۰/۵)
 یہ دراصل اشارہ ہے اس غلط افسانے کی طرف جو ان کے باپ دادا سے نقل ہوتا چلا آرہا ہے۔ اس قوم کے ہر چھوٹے بڑے سے سن لیجئے: ’’ شیعہ کہتے ہیں۔۔۔ ان کے امام سرداب میں غائب ہوگئے‘‘۔ حالانکہ سرداب کو غیبت سے کوئی علاقہ ہی نہیں۔ اثنا عشری حضرات تو اسی لئے سامرہ کے تہہ خانے کی زیارت کو جاتے ہیںکہ یہ امام ؑہمام کے تہجد کی جگہ تھی۔ نیز حضورؑکے پدر بزرگوار اور جدعالی تبار بھی اسی مقام پر عبادت الٰہی میں مشغول رہتے تھے۔ 
 خمس کے باقی تین حصص ہاشمی محتاجوں کا حق ہیں۔ 
یہ تھے امامیہ مذہب کے احکام خمس جو عہد رسولؐ سے لے کر اب تک نافذ العمل ہیں۔ لیکن آنحضرتؐ کے بعد مسلمانوں نے آل ہاشمؑ کا حق چھین کر ’’ بیت المال‘‘ میں جمع کردیا۔ یہ گھرانہ زکوٰۃ تو لے ہی نہیں سکتا تھا خمس سے بھی محروم ہوگیا۔ 
 امام شافعی نے اپنی کتاب ’’ الام‘‘ کے صفحہ ۶۹پر اس جانب اشارہ کیا ہے کہ آل محمدؐ جن کے لئے صدقہ کی جگہ خمس مقرر ہوئی تھی ، نہ انہیں مقررہ صدقات میں سے کچھ مل سکتا ہے اور نہ وہ لے سکتے ہیں۔ نیز اگر دینےو الا جاننے کے باوجود دے بھی دے تو اسے ثواب سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ 
آگے چل کر آپ فرماتے ہیں: ’’ اگر حق خمس سے انہیں محروم کردیا گیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیںکہ صدقہ وغیرہ جو ان کےلئے حرام ہے وہ اس جہت سے حلال ہوجائے گا‘‘۔ 
ہاں! چونکہ مہربانوں نے حق ہی ساقط کردیا ، اس لئے سواد اعظم کے فقہی مجموعوں میں سرے سے یہ موضوع ہی ناپید ہے۔ اور انتہا یہ کہ خود امام شافعی کی کتاب بھی اس مبحث سے خالی ہے۔ 
البتہ شیعوں کی ہر چھوٹی بڑی تصنیف میں زکوٰۃ وغیرہ کی طرح خمس کو بھی ایک مستقل عنوان کی حیثیت حاصل ہے{ FR 62 }۔
حج:
شیعہ عقائد میں ’’ حج‘‘اسلام  کا بہت بڑ ا ستون ہے۔ اس فریضہ کے ترک کرنےوالے کو پاداشِ جرم میں یا تو یہودیوں کی طرح مرنا ہوگا یا نصاریٰ کی سی موت قبول کرنا پڑے گی۔ اس سے روگردانی کفر کی حدوں کو پہنچادیتی ہے۔ آیۂ مبارکہ :وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ  ۔ { FR 63 } کا اشارہ  اسی جانب ہے۔ حج ایک قسم کا مالی اور جسمانی جہاد ہے بلکہ حج کو واقعی جہاد اور جہاد حقیقی کو حج کہنا چاہئے۔ ذرا غورو فکر سے کام لیا جائے تو ان دونوں کی یگانگت سمجھ میں آجائے گی۔ 
بلوغ ، عقل ، آزادی، بالخصوص استطاعت ، صحت ، بدن اور اطمینان راہ اس کے عمومی شرائط ہیں جن کی تکمیل پر اس فریضہ کے اقسام درج ذیل ہیں :
 (۱) حجِ افراد:
 حسب ارشاد :وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا۔
جو لوگ پہنچنے کی قدرت رکھتے ہوں خدا کے واسطے ان پر حج واجب ہے ۔( آل عمران۹۷)
(۲) حج قِران :
 جس کی اس آیت میں تصریح ہے : وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّـهِ ۔خدا کے لئے حج اور عمرہ کو پورا کرو۔ ( البقرہ۱۹۶)
(۳) حج تمتّع:
بمفاد آیۂ کریمہ : فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۔پس جو شخص حج تمتع کا عمرہ بجالائے اسے جو قربانی میسر ہو وہی پیش کردے۔ (البقرہ ۱۶۹)
ان میں سے ہر ایک کے بڑے بڑے مباحث اور طول طویل احکام ہیں جو فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ 
 ہم علمائے اہل سنت کی بہت سی کتابوں کا مطالعہ کرنےکے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیںکہ بدیں سلسلہ ان کے اکثر مسئلے ہمارے مسائل سے میل کھاتےہیں۔ ہاں کہیں کہیں اختلاف ہے مگر بہت کم۔ شیعہ حج کو کافی اہمیت دیتےہیں اور ادائیگی فرض کاحد درجہ خیال رکھتے ہیں جس زمانےمیں جان ہتھیلی پر رکھ کر یہ راہیں طے کرنا پڑتی تھیں قدم قدم پر ان لوگوں سے سابقہ پڑتا تھا جو ان کے خون کے پیاسے اور عزت و ناموس کے دشمن تھے۔ ان دقتوں میں بھی اس مخلص گروہ نے خطروں سے بے  پروا ہوکر لاکھوں کی تعداد میں خانۂ کعبہ کا طواف کیا۔ جان و مال کے اندیشوں سے ہمتیں نہیں پست ہوئیں۔ واجبات کا احساس قدم بڑھاتا ہی رہا ۔ حج کیا اور بڑی بڑی قیمتیں دے کرکیا۔ 
 مگر افسوس اس کے باوجود یہ ناروا الزام لگایا جاتا ہےکہ :’’ شیعہ اسلام کی تخریب چاہتےہیں ‘‘۔
 جہاد:
’’ جہاد‘‘ اسلام کی عالی شان عمارت کا سنگ بنیاد ہے۔ یہ نہ ہوتا تو دین حق نہ دنیا کےلئے وجہ رحمت بنتا اور نہ انسانیت کے واسطے باعث برکت ثابت ہوتا۔ 
ظلم اور ظالموں کی مقاومت اور فتنہ و فساد کی روک تھام کے لئے جان و مال کو راہ خدا میں قربان کردینے کا نام جہاد ہے۔ 
مذہب شیعہ میں اس کی دو قسمیں ہیں: جہاد اکبر، جہادِ اصغر
اس باطنی دشمن کا مقابلہ جسے ’’ نفس‘‘ کہتے ہیں اور اس کے برے اثرات یعنی جہالت ، بزدلی ، جو روجفا، اور رشک و نخوت وغیرہ سے برسر پیکار ہونا جہاد اکبر ہے ۔ ’’سب سے بڑا دشمن وہ نفس ہے جو تمہارے پہلو سے لگا ہوا ہے ‘‘۔ اور ’’جہاد اصغر‘‘ سے مراد اس ظاہری دشمن کی مدافعت ہے جسے عدل و انصاف امن و شرافت اور دین  حقیقت سے بیر ہو۔ 
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر:
واجباتِ شرعیہ کا اہم ترین عنوان فرائض عقل کا سب سے بڑا موضوع حق و حقیقت کی طرف بلانےکا موثر ذریعہ، کفر و باطل کو مٹانے کا کامیاب حربہ ! جس قوم نے بھی اس مقدس قانون سے غفلت برتی وہ آپ اپنے ہاتھوں برباد ہوئی۔ بلکہ ستم گاروں اور فریب کاروں کی جولانگاہ بن کر رہ گئی۔ 
 اسی لئے صاحبِ شریعت صلوات اللہ علیہ اور ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام نے اس ضمن میں بہت تاکید فرمائی ہے جگہ جگہ اس کی پابندی کے فوائد اور نظر انداز کردینے کے پر ہول عواقب سے آگاہ کیا ہے۔ آج ہم ان ارشادات کی صداقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں سامنےکی باتیں ہیں عیاں را چہ بیاں۔ 
بہر حال ’’ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ کو تو ہم چھوڑ ہی بیٹھے ۔ مگر کاش یہ غفلت یہیں تک رہے۔ اس منزل کو نہ پہنچنےپائے کہ ’’ معروف‘‘ منکر اور ’’منکر‘‘ معروف ہوجائے۔ اور امر بالمروف کرنے والا نیکیوں کو چھوڑدے اور نہی عن المنکر کرنےوالا برائیوں کو انجام دے۔ آگے خدا حافظ ہے۔ اِنّا لِلہِ وَاِنّا اِلیہِ راجِعُونَ۔ اب تو یہ اندیشہ لاحق ہے کہ کہیں خود رہنما نہ بھٹک جائیں۔ ظہر الفساد فی البر والبحر’’(سورہ روم /۴۱) برو بحر میں فساد رونما ہوگیا‘‘۔ نتیجتاً تباہی اور مکمل تباہی۔ خداوند عالم بے عمل ناصحوں اور بدکردار واعظوں پر لعنت بھیجتا ہے۔ { FR 64 }؎
شیعی مسلک میں مذکورہ عبادتیں ’’ اُمہات العبادات‘‘ بزرگ ترین عبادتیں کہلاتی ہیں۔ جن کے سلسلہ میںہم نے صرف اشارےکئے ہیں۔ تفصیل مطلوب ہو تو صدر اول سے لیکر علمائے عصر حاضر تک کی قابل قدر عظیم تصنیفات کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ ہمارے شاہکار مٹنےکے باوجود اب بھی لاکھوں مجلدات کی صورت میں فیض رساں ہیں۔ 

معاملات
معاملوں میں دو فریقوں کا ہونا ضروری ہے۔ ایک قبلوانے والا اور دوسرا قبولنے والا ( ایجاب و قبول شرط لازم ہے) ’’معاملات‘‘ کبھی تو صرف مالی قسم کی نوعیت کے ہوتے ہیں جیسے خرید و فروخت ، اجارہ  ورہن، قرض و ہبہ اور اجرت وغیرہ۔ 
فقہ کی تمام کتابوںمیںپوری شرح و بسط کے ساتھ ان کے جملہ متعلقات کا ذکر موجودہے۔ 
معاملات کی دوسری شکل میں مال و دولت تو ضمنی حیثیت رکھتےہیں ۔ اور اصل مقصد تدبیر منزل، افزائش نسل اور بنائے نوع ہوتا ہے۔جیسے عقود زواج‘‘ یعنی ازدواجی معاہدے ، ہمارےیہاں ان معاہدوں کی دو قسمیں ہیں:
 ۱: عقد دوام، ۲: عقد منقطع۔ عقد دوام کہتے ہیں اس نکاح کو جو مطلق و مرسل ہو۔ بالفاظ دیگر اس میں کسی وقت وغیرہ کی شرط موجود نہ ہو بمفاد آیۂ مبارکہ  وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (سورہ نور،۳۲)۔ اور عقد منقطع کا مفہوم یہ ہے کہ وہ مقیّد و موقّت ہو۔ یعنی اس میں کسی مدت کا لحاظ رکھا جائے۔
نکاح کی پہلی قسم سے تو تمام مسلمان متفق ہیں۔ مگر دوسری قسم کو جسے حسب فرمان کریم : ۔۔۔فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً۔۔۔(سورہ نساء،۲۴) ، نکاح متعہ بھی کہا جاتا ہے، سوائے شیعوں کے اور کوئی جائز نہیں سمجھتا۔ صرف شیعہ ہی اس کی مشروعیت کے قائل ہیں۔ نیز عہد صحابہ سے لے کر اب تک یہ مسئلہ موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔ چنانچہ معاملے کی اہمیت کے پیش نظر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم بعض پہلوؤں کو اجاگر کرتے چلیں۔ 
 بحث متعہ!:
حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ شخص جسے ذرا بھی مذہب اسلام کو سمجھنے کا موقعہ ملا ہے اور جس نے بھی دینی قوانین کے مطالعہ میں زندگی کے کچھ لمحے صرف کئے ہیں وہ اس حقیقت سے قطعاً انکار نہیں کرسکتا کہ متعہ کے معنی وہ عقد ہے جو ایک بندھے ہوئے وقت کے لئے ہو۔ 
 خود پیغمبر اکرمؐ نے اس قسم کے عقد کو رائج کیا، مباح فرمایا اور حیات رسولؐ میں بڑے بڑے صحابہ اس پر عمل پیرا ہوئے۔ نیز آنحضرتؐ کی وفات کے بعد بھی صحابۂ کرام قانون کی اس شق سے جی بھر کر متمتع ہوتے رہے۔ 
چنانچہ عبد اللہ بن عباس، جابر ابن عبد اللہ انصاری، عمر ابن الحصین ابن مسعود اور ابی ابن کعب وغیر ہم یہ تمام اعاظم و مشاہیر متعہ کے جواز کا فتویٰ دیتے تھے۔ اور آیت متعہ کو اس طرح پڑھتے تھے:فما استمعتم بہ منھن ا لیٰ اجل مسمیٰ۔(جامع البیان، طبری،ج۵،ص۹؛تفسیر ابن کثیر، ج۱،ص۴۷۴؛ تفسیر کشاف، زمخشری،ج۱،ص۵۱۹، الجامع لاحکام القرآن، قرطبی،ج۲،ص۱۴۷؛ السنن الکبری، بیہقی،ج۷،ص۲۰۵)
لیکن ہماری رائے میںیہ یقین کرنا درست نہ ہوگا کہ یہ حضرات اللہ کے کلام میں کسی نقص و تحریف کے قائل تھے ( معاذ اللہ) نہیں! بلکہ غالباً سخن شناس ہونے کی وجہ سے تفسیر کے طور پر اس جزو سے آیت کا منشاء بیان کرتے ہوں گے چونکہ عرصۂ دراز تک یہ بزرگ شمع نبوت کا طواف کرتے رہے، معارف قرآنی کو زبان رسالتؐ سے سننے اور سمجھنے کا موقع ملا لہٰذا جب لوگ ان سے دریافت کرتے ہوں گے تو اس آیت کے سلسلہ میں ختمی مرتبتؐ سے حاصل کردہ مفہوم کو ظاہر کردینے میں انہیں کوئی تامل نہ ہوتا ہوگا۔ 
 حالانکہ ابن جریر نے اپنی تفسیر کبیر میں جو روایتیں درج کی ہیں ان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ الیٰ اجل مسمیٰ والا ٹکڑا جزو آیت ہے۔ چنانچہ موصوف ابو نضرہ کی زبانی نقل کرتے ہیں کہ میں نے اس آیت کو ابن عباس کے سامنے پڑھا تو آپ نے فرمایا : ’’ الیٰ اجلٍ مُّسمّیٰ‘‘ میں نے عرض کی کہ میں تو یوں نہیں پڑھتا ۔ اس پر ابن عباس نے تین مرتبہ فرمایا‘‘:’’ بخدا یہ آیت اسی طرح نازل ہوئی ہے‘‘(جامع البیان، طبری، ج۵ص۹)۔ لیکن یہاں بھی ہم عرض کریں گے کہ رئیس ملت حضرت ابن عباس کا مقام ان نقائص سے بہت بلند ہے۔ یہ روایت اگر صحیح ہے تو غالباً رسولؐ کے اس جلیل القدر صحابی کا مقصود یہ ہوگا کہ پروردگار عالم نے اس کی تفسیر یوں نازل فرمائی ہے۔ 
بہر حال اجماع و یقین متعہ کی صحت و مشروعیت کا بین ثبوت ہیں۔ اب رہا مخالف نظریہ رکھنےو الوں کا ادّعا تو اس میں وزن ہی کیا ۔ کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ یہ قانون نافذ ہوکر منسوخ ہوگیا۔ حالانکہ نقل کے طریقے میں جو اختلافات نمایاں ہیں وہ قطع و یقین تو درکنار ظن و تخمین کے لئے بھی ناکافی ہیں۔ دیکھئے بنیادی قاعدہ یہ ہے کہ حکم قطعی کی تنسیخ کے لئے دلیل قطعی کا ہونا ضروری ہے۔ اور ان حضرات کا ارشاد ہے کہ تنسیخ سنت کے طریقہ سے عمل میں آئی۔ سرکار رسالتؐ نے مباح فرما کر حرام قرار دے دیا{ FR 80 }۔ بعض فرماتے ہیں کہ نہیں کتاب خدا کے ذریعہ حرمت کے پہرے بیٹھ گئے۔ نیز اس منزل پر بھی اتحاد فکر عنقا ہے۔ کیونکہ ایک گروہ آیت طلاق{ FR 81 } کو ناسخ سمجھتا ہے{ FR 82 } اور دوسرا  آیۂ مواریث{ FR 83 } کو{ FR 84 } اب ان پریشان خیالیوں کی جو قیمت ہوسکتی ہے وہ ظاہر ہے۔ بنا بر ایں یہاں مزید خامہ فرسائی کی ضرورت نہیں۔ آگے چل کر قدرے توضیح کی جائے گی۔ 
ہاں۔ اور اکثر بزرگ اس آیت سے سے  متعہ پر خط نسخ پھیرتے ہیں{ FR 85 }:
 ( الاعلیٰ ازواجھم او ما ملکت ایمانھم) (سورہ مومنون،۶؛ معارج۳۰)آیت میں حلیت کے دو سبب بتائے گئے ہیں:
(۱) زوجیت۔  (۲) ملکیت(ملک یمین)
چنانچہ اس موقع پر سیدآلوسی ترمیم فرماتے ہیںکہ ’’ شیعہ حضرات ممتوعہ کو مملوکہ ( کنیز) قرار نہیںدے سکتے۔ یہ تو ایک کھلی ہوئی بات ہے۔ اور زوجہ کہہ نہیں سکتے کیونکہ اس میں زوجیت کے شرائط یعنی میراث ، عدہ اور نفقہ و طلاق کا فقدان ہے‘‘۔(روح المعانی،ج۵،ص۷)
  غور فرمائیے ! دلیل میںکتنا زبردست مغالطہ ہے۔ اب ذرا تجزیہ کیجئے پہلی چیز میراث۔ اگر زوجیت کے لئے اس شرط کو عمومی انداز میں پیش کیا گیا ہے یعنی اکثر ایساہوتا ہے کہ زوجہ ورثہ پاتی ہے تب تو ٹھیک ہے۔ لیکن غالباً سید صاحب کا یہ منشاء نہیں اور اگر یہ مراد ہےکہ میراث شرط لازم و دائم ہے یعنی بہر صورت ورثہ ملنا چاہئے تو یہ قطعی طور پر خلاف آئین ہے۔ کیونکہ شریعت میں اکثر ایسے مواقع آتے ہیں جہاںمیراث ختم ہوجاتی ہے مثلاً زوجہ کا فرہ اور قاتلہ کو ورثہ نہیںملتا۔ نیز ایسی عورت جو کسی مریض کے عقد میں چلی جائے اوردخول سے پہلے اس کے شوہر کا انتقال ہوجائے تو وہ بھی محروم ہوجاتی ہے۔ نیز بر خلاف اس کے اگر کوئی شخص بیماری کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور اسی مرض کے عالم میں اس کا انتقال ہوجائے تو عدہ کی مدت گزارنےکے باوجود دوران سال میںمطلقہ ورثہ کی حقدار ہوگی۔ غرضیکہ دونوں رخ سامنے ہیں اور صاف ظاہر ہے کہ ارث کو لازمۂ زوجیت نہیں قرار دیا جاسکتا۔ 
رہا عدت کا لزوم تو امامیہ مذہب میں بالاتفاق ثابت ہے بلکہ جو بھی مشروعیت متعہ کا قائل ہے وہ عدت کو واجب قرار دیتا ہے۔ تیسری چیز نفقہ ہے، اسے بھی شرط زوجیت نہیں بنایا جاسکتا۔ اطمینان کے لئے ’’ زن ناشزہ‘‘ کے احکام کو دیکھ  لیجئے کہ وہ زوجیت میں تو ہوتی ہے مگر بالاتفاق اس کے نفقہ کو کوئی واجب نہیںسمجھتا ۔ باقی، طلاق کا معاملہ، تو اس سلسلہ میںمدت کا بخش دینا کافی ہے۔ 
دوسری بات یہ کہ ازواج کی اہمیت سے متعہ کی منسوخی محال ہے۔ کیونکہ آیت متعہ سورۂ نساء میں ہے جو مدنی { FR 86 }ہے اور آیۂ ازواج سورۂ مومنین و معارج میں ہے اور یہ دونوں مکی ہیں{ FR 87 }۔ بنا بر یں نسخ ثابت ہی نہیںہوسکتا ۔ کیونکہ منسوخ پر ناسخ کا تقدم غیر ممکن ہے۔ 
 تیسرے یہ کہ اکابر اہل سنت بیان فرماتے ہیں کہ آیت متعہ منسوخ نہیںہوئی ملاحظہ ہو ’’ کشاف‘‘ زمخشری ابن عباس سے نقل کرتے ہیںکہ متعہ کی آیت محکمات میں سے ہے(الکشاف، ۱؍۵۱۹)۔ دوسروں نے روایت کی ہے کہ حکم ابن عتیہ سے دریافت کیا گیا کہ آیت متعہ کیا منسوخ ہوگئی ہے ؟ جواب ملا: نہیں(الدرالمنثور،سیوطی، ج۲،ص۱۴۰)۔
غرض کہ پہلے تو جمہور اسلام نے اس کی مشروعیت کا اعتراف کیا ۔ لیکن بعد میں منسوخ ہونے کے دعوے کرنے لگے اور رطریق نسخ میںجو قیاس آرائیاں فرمائی ہیں وہ بھی قابل دید دشنید ہیں۔ کبھی تو آیت کو آیت کے ذریعہ منسوخ فرمانےکی کوششیں ہوئیں ( ضعف دلیل کی جانب اشارہ کیاجاچکا ہے) گاہے آیت کو حدیث سے ختم کرنے کی سعی فرمائی گئی۔ اس ضمن میں صحیح بخاری و مسلم کی اس روایت سے استشہاد کیا جاتا ہے کہ فتح مکہ ، فتح خیبر ، یاغزوۂ اوطاس(صحیح بخاری ۷؍۱۶؛ صحیح مسلم ۲؍۱۰۲۳؍۱۸ و ۱۰۲۷؍۲۹،۳۰۔ اس کی جانب اشارہ گزرچکا ہے۔) میںآنحضرتؐ نے اسے ممنوع قرار دے دیا تھا اور یہی وہ مقام ہے جہاںیہ معاملہ آماجگاہ اختلاف بنتا ہے۔ نہ جانے کتنے رنگ چڑھتے ہیں اور کیا کیا پینترے بدلے جاتے ہیں۔ 
 چنانچہ قاضی عیاض کی زبانی بیان کیاجاتا ہے ’’ بعض علماء کا ارشاد ہے، کہ نکاح متعہ دو دفعہ حرام، مباح اور منسوخ ہوا(شرح صحیح مسلم، نووی۹؍۱۸۱؛ التفسیر العظیم، ابن کثیر ۱؍۴۷۴ )۔ لیکن آنکھ بھر کر دیکھنے والے جانتے ہیں کہ ان حضرات نے اپنی علمی دنیا میں کیا کیا گل کھلائے ہیں۔ 
 بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ حجۃ الوداع ۱۰ھ؁ میں منسوخ کیا گیا { FR 88 }۔ دوسرے مصنفات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہیں۔ غزوہ تبوک ۹ھ؁ میں تنسیخ ہوئی{ FR 89 }۔ کچھ قلم کاروں نے غزوہ اوطاس اور غزوہ حنین شوال ۸ھ؁ کا حوالہ دیا ہے(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳)۔ مگر ایک اور گرو ہ فتح مکہ رمضان ۸ھ؁ کا واقعہ بتاتا ہے{ FR 90 }۔ 
 نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آنحضرتؐ نے فتح مکہ کے موقع پر جائز قرار دیاتھا اور پھر چنددن کے بعد وہیں اس کی حرمت کا حکم صادر فرمادیا{ FR 91 }۔ البتہ شہرت اور غالب رائے یہ ہےکہ متعہ کی تنسیخ غزوہ خیبر ۷ھ؁یا عمرۃ القضاء ذی الحجہ  ۷ھ؁ میں عمل میں آئی۔(سنن ابن ماجہ ۱؍۶۳۰؍۱۹۶۱؛ صحیح مسلم ۲؍۱۰۲۷)
بہر کیف اس محشر خیال سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دو یا تین دفعہ نہیں ( جیسا کہ نووی شارح مسلم  وغیرہ نے ترقیم فرمایا ہے ) بلکہ پانچ چھ مرتبہ حرام حلال ہوتا رہا۔۔۔۔(شرح صحیح مسلم نووی ۹؍۱۸۰) کیوں؟ علمائے اسلام ! بازی بازی با دین خدا ہم بازی؟ یہ کیا اندھیر ہے؟ سچ کہنا اس درجہ فکری انتشار کے ہوتے ہوئے تمہارے ادعائے نسخ میںکوئی جان باقی رہ جاتی ہے؟
 یہ ناقابل انکار حقائق ہیں کہ :۱: ۔ قرآنی احکام اخبار آحاد سے منسوخ نہیںہوسکتے۔ 
۲:۔ نسخ کی دلیلیں خود سوا د اعظم کی روایات عدم نسخ سے متصادم ہوتی ہیں۔ 
۳:۔ صحیح بخاری کی روایت: ابو رجاء عمران بن حصین سے ناقل ہیںکہ آیۂ متعہ قرآن میں موجود ہے۔ رسولؐ کے ہوتے ہوئے ہم نے اس پر عمل کیا ۔ 
 پھر نہ قرآن نے اس کی حرمت کا حکم دیا اور نہ آخر وقت تک آنحضرتﷺ نے ممانعت فرمائی۔ ہاں! ایک شخص نے من مانی کی جو چاہا کہہ دیا۔ محمد کا قول ہےکہ اس حرکت کو حضرت عمر کی جانب منسوب کیا گیا ہے‘‘۔{ FR 92 }
 نیز صحیح مسلم میں عطا کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’ ایک مرتبہ جابر ابن عبد اللہ انصاری عمرہ بجالانےکےلئے آئے تو ہم سب ان کی قیام گاہ پر پہنچ گئے لوگوں نے ان سے مختلف مسائل پوچھے ۔ چنانچہ متعہ کے متعلق بھی دریافت کیا ۔ جابر نے کہا ۔ ہاں ۔ عہد رسالت میں ہم نےمتعہ کیا اور ابو بکر و عمر کے زمانے میں بھی ‘‘۔(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳؍۱۵)
مسلم کی ایک اور روایت ہے اور حضرت جابر ہی کی زبانی ، فرماتے ہیں: دور نبوی میں تو ہم ایک مٹھی کھجور اور مٹھی بھرستّو دے کر متعہ کرلیا کرتے تھے۔ اور یہی طریقہ ابوبکر کے زمانے میں بھی جاری رہا پھر عمر نے عمرو بن حریث کے سلسلے میں اس سے منع کیا۔(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳؍۱۶)
علاوہ ازیں صحیح مسلم کے اوراق میںیہ بھی موجود ہے ۔’’ ابو نضرہ بیان کرتےہیںکہ میں جابر ابن عبد اللہ انصاری کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک اور آدمی آگیا اور آتے ہی کہنے لگا۔ دونوں متعوں کے بارےمیں تو ابن عباس اور ابن زبیر کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا ہے؟ جابر نے فرمایا ۔ رسالت مآبؐ کی موجودگی میں تو ہم ان پر عمل پیرا تھے۔ لیکن بعد میںعمر نے دونوں متعوں سے ممانعت کردی۔ اس لئے پھر نہ کرسکے۔(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳؍۱۷) 
جی ہاں! اس لئے پھر نہ کرسکے کہ حضرت عمر متعہ کرنےوالوں کو سنگسار کروا دیتے تھے۔ 
واقعہ یہ کہ صحیح مسلم کے اس حصہ کو اگر غور سے دیکھا جائے تو تضاد بیانی کے ایسےایسے عجوبے نظر آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ادھر مثبت حدیثیں ادھر منفی روایتیں ۔یہاں نسخ کے دعوے وہاں عدم نسخ کے ثبوت اور سنیے ۔ جہنی فرماتے ہیںکہ فتح مکہ کے موقع پر خود آنحضرتؐ نے ہمیںمتعہ کا حکم دیا تھا۔ لیکن ہم وہاں سے نکلنے بھی نہ پائے تھےکہ سرکار رسالت مآبؐ نے اس کی ممانعت فرمادی‘‘۔(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳؍۲۲)
 تنسیخ کی نسبت کبھی پیغمبر اکرمؐ کی طرف گاہ حضرت عمر کی جانب ۔ مزید بر ایں عہد نبوی اور پہلی خلافت کے زمانےمیں رائج تھا۔ اور یہ بھی کہ یہ حضرت علی علیہ السلام نے متعدد مواقع پر جناب ابن عباس کو متعہ کے بارےمیں گفتگو کرنےسے منع فرمایا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں انہوں نے اپنی رائے بدل دی۔ (المصنف، عبدالرزاق ۷؍۵۰۱؛ الکشاف، زمخشری۱؍۵۱۹)
 مگر اس کے ساتھ یہ روایت بھی ملتی ہے کہ ابن زبیر نے ایک مرتبہ مکہ میں اٹھ کر فرمایا تھا ’’ کچھ ایسے لوگ بھی ہیںکہ خداوند عالم نے جس طرح ان کی  بصارت چھینی اسی طرح ان کی بصیرت بھی سلب کرلی۔ وہ متعہ کا فتویٰ دیتے پھرتے ہیں۔ ‘‘۔ ( یہ اشارہ ابن عباس کی طرف تھا جو نا بینا ہوگئے تھے) اس پر ابن عباس نے آواز لگائی کیوں۔۔۔’’ قسم کھا کر کہتا ہوں کہ متعہ امام المتقین کے زمانے تک رائج تھا‘‘{ FR 93 }۔ اس سے صاف ظاہر ہےکہ عبد اللہ ابن عباس نے کبھی بھی اپنی رائے نہیں بدلی بلکہ وہ زندگی بھر تا دور خلافت ابن زبیر اپنے فتوے پر قائم رہے۔ 
 اور سب سےز یادہ پر لطف بات تو یہ ہےکہ امتناعی حکم کو جناب امیر علیہ السلام سے بھی منسوب کیا گیا ہے۔ حالانکہ عقد متعہ کو جائز قرار دینا اہل بیت علیہم السلام کا امتیازی مسلک ہے۔ پھر خصوصیت سے اس ضمن میں امیر المومنینؑ کا یہ ارشاد کہ’’لولا انّ عمر نھی الناس عن المتعۃ ما زنی الاشقی او شفا‘‘(معنی کے لئے دیکھئے: الصحاح ۶؍۲۳۹۳؛ لسان العرب ۱۴؍۴۳۷۔)۔ ’’ اگر عمر نےمتعہ کو ممنوع نہ کیا ہوتا تو بس گنتی کے ( یا گئے گزرے) کچھ لوگ زنا کے مرتکب ہوتے‘‘، ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے طبری نے اپنی تفسیر میں بھی اس روایت کو نقل کیا ہے{ FR 94 } اس سلسلہ میں باوثوق ذرائع سے امام جعفر صادق علیہ السلام کا یہ قول ملتا ہے کہ ’’ثلاث لا اتقی فیھن احدا: متعۃالحج و متعۃالنساء و المسح علی الخفین‘‘{ FR 95 }’’ تین مسئلوں میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔ متعۃ الحج، متعۃ النساء اور مسح بر کفش۔
بہرطور فنی قاعدوں اور اصول فقہ کے مقرر ضوابط کی رو سے یہ طے شدہ بات ہےکہ ادھر روایتوں میں تضاد پیدا ہوا اور ادھر وہ درجہ اعتبار سے ساقط ہوئیں۔ کیونکہ مشکوک روایتیں قابل انکار اور ان کےمقابلے میں محکم حدیثیں لائق عمل ہوتی ہیں۔ 
 نیز جبکہ علمائے اسلام کے متفقہ فیصلے اور فقہی تکنیک کےمطابق متعہ کی مشروعیت اور اس کا جواز ثابت ہوچکا ہے ۔ تو آج بھی اس کی اباحت کاا قرار کرنا پڑے گا۔ 
مسئلہ کا واحد حل!:
اب اگر ہم حقائق کی روشنی میں جائزہ لیں ۔ معاملہ کی پوری چھان بین کریں اور اس کی تمام کڑیوں کو ملا کر صحیح نتیجہ نکالنا چاہیں تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ حضرت عمر نے اپنےد ور حکومت میں کسی خاص مصلحت کے پیش نظر اپنی رائے سے متعہ کو ممنوع قرار دے دیا تھا۔ لیکن یہ ممانعت قطعی طور پر سماجی حالات اور وقتی تقاضوں پر مبنی تھی ۔ دین و مذہب کا اس سے کوئی سرورکار ممکن نہیں۔ چنانچہ تواتر کے ساتھ آپ کا یہ قول نقل ہوتا چلا آرہا ہے کہ’’متعتان کانتا علی عھد رسول اللہ أنا أحرمھما و أعاقب علیھما‘‘(دیکھئے: السنن الکبریٰ، بیہقی۷؍۲۰۶؛ زادالمعاد، ابن قیم جوزی۳؍۴۶۳؛ المبسوط، سرخسی ۴؍۲۷۔) ’’ رسول کے زمانےمیں دو متعہ جائز تھےمگر میں انہیں حرام قرار دیتا ہوں اور خلاف ورزی پر سزا دوں گا‘‘۔
 یہاں غور طلب چیز یہ ہے کہ خلیفۂ ثانی نے حرمت یا تنسیخ کے حکم کو سرکار رسالتؐ کی جانب نہیںمنسوب کیا۔ بلکہ خود اپنی ذات کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ نیز سزا کا تعلق بھی اپنے ہی سے رکھا ۔ خدا سے کوئی واسطہ نہیں ۔ یہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے۔ ورنہ پھر ان خطوط پر سوچنا پڑے گا کہ حضرت عمر جیسی شخصیت اور دین الٰہی میں بے محابانہ کتربیونت ! لیکن مسلمانوں کی تاریخ میں آپ کے مقام کو دیکھتے ہوئے اس انداز فکر کا اختیار کرنا کس قدر مشکل ہے۔ 
 کیا حضرت عمر یہ نہیں جانتے تھے کہ حضرت محمدؐ کا حلال قیامت تک حلال، اور حضور ؐنے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے وہ تا حشر حرام رہیں گی۔ 
 خداوند عالم خود اپنے حبیب ؐ سے فرماتا ہے کہ : ’’وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ﴿٤٤﴾ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ﴿٤٥﴾ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ﴿٤٦﴾ فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ ﴿٤٧﴾‘‘( سورہ حاقہ ۴۴۔۴۷)
’’اگر رسولؐ ہمارے متعلق کچھ باتیں گھڑ لیتا تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے اور پھر گلا کاٹے بغیر نہ چھوڑتے اور پھر یہ بھی ممکن نہیں تھا ، کہ تم میں سے کوئی آکر بچا لیتا ‘‘
بہر طور بہتر یہی تھا کہ حضرت عمر کے امتناعی حکم کو مذہبی حیثیت دینےکے بجائے اسے سیاسی یا سماجی قدغن قرر دیا جاتا۔ مگر کیا کہا جائے کہ آپ کے بعض معاصرین نیز بعد کے کچھ سادہ لوح محدثوں نے اس باریک نکتہ پر غور نہیں کیا اور فرط عقیدت میں اپنے قائد کے اقدام کو صحیح ثابت کرنےکےلئے نسخ کی دلیل تراشی اور اسے آنحضرتؐ کی جانب منسوب کردیا۔ نتیجتاً ان کے دبستانِ فکر میں وہ خلفشار پیدا ہوا کہ پناہ بخدا!
فی الواقع یہ حضرات اگر وہ موقف اختیار کرتےجس کی ہم نےنشاندہی کی ہے تو اتنی الجھنوں میں نہ پڑتے۔ 
صحیح مسلم کے حوالے سے جابر ابن عبد اللہ انصاری کی روایت کاتذکرہ کیا جاچکا ہے ، کہ ’’ دور نبویؐ اور عہد ابوبکر میں تو ہم ایک مٹھی کھجور اور مٹھی بھر ستو دے کر متعہ کرلیا کرتےتھے۔ لیکن عمر و بن حریث کے سلسلہ میں عمر نے ممانعت کردی‘‘(اکمال المعلم شرح مسلم،وشتانی آبی)۔ یہ بڑا واضح ثبوت ہے کہ ایک خاص واقعہ کے سلسلہ میں حضرت عمر نے اپنی ذاتی ناپسندیدگی کے باعث اسے ممنوع قرار دے دیا تھا۔اور ممکن ہے کہ کوئی اس سے بھی زیادہ ناگوار معاملہ پیش ہوا اور آپ نےاپنی تیز مزاجی سے مجبور ہوکر ممانعت کا عام حکم صادر کردیا ہو۔ 
 ورنہ متعہ کے سلسلہ میں نص قرآنی، سنت رسولؐ عمل صحابہ نیز حضرت ابو بکر کے زمانہ کا تعامل اور خود حضرت عمر کے آغاز خلافت تک متعہ کا رواج یہ سب ایسے حقائق ہیں جو بحث و تمحیص سے بالاتر ہیں۔ تاریخ و حدیث کی کتابیں شاہد ہیں کہ عہد رسالت میںبڑے بڑے صحابی اور خاندان قریش کے مشہور افراد دھڑلے سے متعہ کیا کرتے تھے اور اس قسم کے عقد سے ان کی نسل چلی بڑھی ، اورپروان چڑھی۔ 
 چنانچہ سواد اعظم کے معتبر و مستند عالم راغب اصفہانی اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’ المحاضرات‘‘ میں ترقیم فرماتے ہیںکہ متعہ کو حلال کہنے کے سلسلہ میں ایک مرتبہ عبد اللہ ابن زبیر نے جناب عبد الہ ابن عباس کو طعنہ دیا ۔ اس پر ابن عباس نے فرمایا : ’’ اچھا ذرا  اپنی والدہ سے تو پوچھو کہ ان میں اور تمہارے والد بزرگوار میں جو برابر کی آگ لگی ہوئی تھی ‘‘ خیریت سے وہ لگی کیسے؟ عبد اللہ ابن زبیر نے جاکر ماں سے پوچھا بتائیے کہ کیا قصہ ہے؟ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ’’ بیٹا! تم متعہ سے پیدا ہوئے ہو‘‘۔ (محاضرات الادباء۳؍۲۱۴۔)
 آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ عبد اللہ کی والدہ جناب اسماء ذات النطاقین حضرت ابو بکر صدیق کی صاحب زادی اور ام المومنین جناب عائشہ کی بہن تھیں جنہیں صحابیٔ رسولؐ زبیر ابن العوام نےمتعہ کے ذریعہ اپنی جیون ساتھی بنایا تھا۔ 
انکار کرنے والے دیکھئے اب کیا فرماتے ہیں؟
 اس واقعہ کے بعد راغب اصفہانی نے ایک اور روایت لکھی ہے اور وہ یہ کہ بصرہ کے کسی بزرگ نے یحییٰ ابن اکثم سے دریافت کیا کہ جو از متعہ کے سلسلہ میں جناب کس کی پیروی فرماتے ہیں:؟ یحییٰ نے جواب دیا۔ عمر ابن خطاب کی ! سائل نے کہا ، یہ کیسے! وہ تو اس معاملہ میں بڑے ہی سخت گیر تھے۔ یحییٰ نے کہا ۔ ہاں! مگر یہ ثابت ہوچکا ہے کہ حضرت عمر نے ایک دفعہ برسرِ منبر اعلان فرمایا تھا کہ’’یا ایھاالناس، متعتان أحلھما اللہ و رسولہ لکم و أنا أحرمھما علیکم و أعاقب علیہما، فقبلنا شھادتہ و لم نقبل تحریمہ‘‘(محاضرات الادباء ۳؍۲۱۴) ’’ لوگو! اللہ اور اس کے رسولؐ نے دو متعہ حلال کئے تھے ، مگر میں انہیںحرام قرار دیتا ہوں۔ نیز خلاف ورزی کرنے والوں کو سزادوں گا‘‘۔ لہٰذا ہم ان کی گواہی کو تو قابل قبول سمجھتے ہیںلیکن موصوف کا حکم ہمارے نزدیک لائق تعمیل نہیں ‘‘۔
 عبد اللہ ابن عمر کے بیان کا بھی تقریباً یہی مفہوم ہے(سنن ترمذی ۳؍۱۸۵؍۸۲۴)۔ البتہ اس ضمن میں خلیفہ ثانی کا جو جملہ شہرت عام رکھتا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں : ’’ متعتان کانتا علیٰ عھد رسول اللہ وانا احرمھما‘‘’’عہد رسالت میںدو متعہ تھے اور میں انہیںحرام کرتا ہوں‘‘
یہاں مکرر عرض ہےکہ اگر حضرت عمر کی ممانعت اسی قسم کی تھی جس پر ہم روشنی ڈال چکے ہیں۔ تب تو معاملہ قدرے آسان ہے ورنہ سخت مشکل ۔ 
اس منزل پر ہمیں پانچویں صدی ہجری کے محقق کامل محمد ابن ادریس حلیؒ کا بھی ایک شہ پارہ یاد آگیا جسے مطابقت اور توضیح مزید کے خیال سے نقل کیا جاتا ہے علامہ ممدوح جنہیں ہمارے علمائے متقدمین میں بہت بڑا درجہ حاصل ہے اپنی بلند پایہ تصنیف ’’ السرائر‘‘ میں ارشا د فرماتے ہیں:
 ’’ نکاح موقت شریعت اسلامی میں جائز ہے۔ اور کتاب خدا، نیز مسلمانوں کے مسلسل اتفاق سے از روئے سنت بھی اس کی مشروعیت ثابت ہے۔ البتہ کچھ لوگوں نے منسوخ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ مگر اس کی درستی محتاج دلیل ہے۔ علاوہ ازیں صحیح دلائل سے یہ بات تسلیم کی جاچکی ہے کہ ہر سود مند کام جس سے حال و استقبال میں کسی نقصان کا اندیشہ نہ ہو، وہ عقلی طور پر مباح ہے اور نکاح متعہ میں یہ وصف موجود ہے۔ بنا بریں عقلاً اس کےجواز کا اقرارضروری ہے اب اگر کوئی صاحب فرمائیں کہ مستقبل میں اس کے ضرر رساں نہ ہونےکی کیا دلیل ہے۔۔ جبکہ اس بارے میں مخالف آرا بھی موجود ہیں۔ تو اس کا جواب یہ کہ بار ثبوت اس پر ہے جو امکان ضرر کا مدعی ہے علاوہ ازیں مسلمانوں کا اجماع بھی اس کا واضح ثبوت ہے اور یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں کہ عقد متعہ آنحضرتؐ کے زمانے میں مباح تھا۔ مگر بعد میں حرمت و تنسیخ کے دعوے ہونے لگےجو ثابت نہیںکئے جاسکے۔ اور اباحت متفقہ طور پر ناقابل انکار لہٰذا مدعیان نسخ و تحریم کی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب ملنا چاہئے ۔ اب اگر وہ ان روایات کو دہراتے ہیں جن میں حکم امتناعی پیغمبر اکرمﷺ کی جانب منسوب ہے۔ تو پھر انہیںیہ سننا پڑے گا کہ اس قماش کی تمام حدیثیں ( بشرطیکہ صحیح بھی ہوں ) اخبار آحاد ہیں جو شریعت کی دنیا میں علم و عمل کا موجب نہیں قرار پاسکتیں اور نہ ایسی روایتوں کی بنیاد پر حقائق ثابتہ سے روگردانی جائز ہے۔ 
 محرمات کے تذکرے کے بعد خداوند عالم اپنی کتاب اقدس میں ارشار فرماتا ہےکہ :وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ ۔(ان عورتوں کےعلاوہ دوسری عورتیں تمہارے لئے جائز ہیں مگر شرط یہ کہ بدکاری نہیں بلکہ عفت اخلاق کی غرض سے زر مہردے کر نکاح کرنا چاہو۔ ہاں جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہو انہیں معینہ مہر ادا کر دو اور مہرکے بارےمیں اگر آپس میں مفاہمت کر لو تو کوئی حرج نہیں ( سورہ نساء،۲۴))
آیۂ وافی ھدایۃ میں بحث طلب لفظ’’ استمتعتم ‘‘ہے جس کے بس دو معنی ہیں: ( ۱) انتفاع (۲) التذاذ۔ دوسرامفہوم لغوی ہے اور پہلا اصطلاحی جس سے مراد وہ موقت اور مخصوص عقد ہے جو مقصود شرع ہے۔ 
اب یہاں لغو ی مفہوم تو قابل اعتناء ہونے سے رہا۔ کیونکہ اصول فقہ کےمطابق مسلمہ قاعدہ یہ ہے کہ اگر قرآن کے کسی لفظ سے دو مطلب نکلتے ہوں ایک لغوی اور دوسرا  وہ جسے شریعت نے رائج کیا ہو تو ایسی صورت میںلغت پر اعتبار نہیں کیا جائے گا ۔ شریعت کی بات ماننا پڑے گی اور یہی وجہ ہے کہ لفظ صلوٰۃ ، زکوٰۃ ، صیام اور حج کے سلسلہ میں کسی فرہنگ پر نہیں بلکہ عرف شرع پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ 
نیز اس سے پہلےصراحت ہوچکی ہے کہ صحابہ و تابعین کا ایک مشہور و معروف گروہ اباحت متعہ کا قائل تھا۔ جیسےامیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ ، عبد اللہ ابن عباس جو اس موضوع پر ابن زبیر سے مناظرے فرماتے رہے۔ اور ان مناظروں کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ نہ صرف زباں زد عام ہوئے بلکہ اس زمانے کے شعراء نے بھی طبع آزمائی کی چنانچہ ایک سخنور کہتا ہے :
اقول للشیخ لما طال مجلسہ یا شیخ ھل لک فی فتویٰ ابن عباس
نیز عبد اللہ ابن مسعود، مجاہد، عطا، جابر ابن عبد اللہ انصاری ، سلمہ ابن الاکوع ، ابو سعید خدری، مغیرہ ابن شعبہ، سعید ابن جبیر اور ابن جریح وغیرہم یہ سب کے سب جواز کا فتویٰ دیتے تھے۔ لہٰذا عقد منقطع کے خلاف جانے والوں کا ادعاء صحیح نہیں ہے۔ (السرائر ۲؍۶۱۸۔۶۲۰)
 ارباب بصیر ت ہی اندازہ لاسکتے ہیںکہ اس  بحث میںکتنی متانت پختگی ، اور قوت پائی جاتی ہے۔ خیر! یہاں تک تو اس موضوع پر صرف دینی اور تاریخی حیثیت سے روشنی ڈالی گئی۔ اب آئیے ذرا اخلاقی اور اجتماعی نقطہ نظر سے بھی جائزہ لیتے چلیں: 
 اسلام دنیا کےلئے بہت بڑی نعمت ثابت ہوا۔ توحید کے رسیلے نغمے امرت بن کر برسے جن سے غم نصیب انسانیت کو بے پایاں سکون حاصل ہوا جس طرح یہ مانی ہوئی بات ہے اسی طرح اس حقیقت کا اعتراف بھی لازم ہے کہ دین مبین ہر زمانے کا ساتھ دیتا ہے۔ ہر وقت کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ نیز عالم بشری کی جملہ ضروریات دنیوی و اخروی کا کفیل اور ہرگونہ فلاح و بہبود کا ضامن ہے۔ آئین رحمت میں زحمت کا سوال ہی نہیں۔ آنکھوں سکھ کلیجے ٹھنڈک ۔ ایک دنیا کیا تمام عالموں کےلئے برکت۔ اسی لئے تو یہ کامل ترین مذہب اور آخر شریعت بننے کا حقدار ٹھہرا۔ کون نہیں جانتا کہ قانون الٰہی نے انسانی معاشرہ کو ایسا سنوارا کہ کسی اور دستور کی حاجت نہ رہی۔ 
اتنا جاننےکے بعد اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افراد انسانی کو کبھی سفر کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ نفی میں جواب ممکن نہیں کیونکہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ لوگ عموماً سفر کرتے ہیں بلکہ غائر نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ جب سے انسان نے ہوش سنبھالا اور اپنے شعور سے کام لینا شروع کیا ۔ اس وقت سے اس نے اپنی معاش کےلئے جو وسیلے اختیار کئے ان میں سفر کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ مختلف ضرورتیں آدمی کو راہ غربت طے کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ مثلاً تجارت ، ملازمت ، تحصیل علم، یا جنگ اور دفاع وغیرہ اور یہ بھی مسلم ہے کہ مذکورہ اغراض کے سلسلہ میں نوجوان یا کم از کم توانا افراد ہی دور دراز ملکوں کا عزم کرسکتےہیں۔ 
اور کسے نہیںمعلوم کہ اس حکیم مطلق نے بقائے نسل و حفظ نوع کےلئے ہیکل انسانی میںجنسی خواہش بھی ودیعت فرمائی ہے۔ اور یہ بھی ظاہرہے کہ ایک مسافر آدمی عقد دائم کے تقاضے پورے کرنےسے قاصر ہوتا ہے۔ نیز لونڈیوں، باندیوں کی فراہمی بھی آسان نہیں۔ ( آج کل تو ناممکن ہے ) لہٰذا ان حالات میں اس مدت کے بچھڑے ہوئے پردیسی کو کیاکرنا چاہئے جو اتفاق سے نو عمر بھی ہو اور مجبور بھی ؟ بس دو ہی صورتیں ممکن ہیں: ضبط نفس یا بدکاری۔ 
۱:۔ مگر ضبط نفس میں نہ صرف مہلک قسم کی مختلف بیماریاں پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے بلکہ نسل کا منقطع ہوجانا بھی کچھ بعید نہیں۔ا ور یہ منافی حکمت ہے۔ شریعت اسلامی بڑی آسان اور آرام دہ شریعت ہے۔ 
سہولت چاہئے ہے شدت نہیں مقصود{ FR 96 } دین میں کسی پہلو تکلیف نہیں{ FR 97 } (قرآن)
۲: جنسی بے راہ روی سے خدا محفوظ رکھے آج دنیا کے بیشتر حصے اس کا خمیازہ بھگت رہےہیں۔ 
 خداگواہ ہے اگر مسلمان صحیح طریقہ سے شرعی قوانین پر عامل پیرا ہوجائیں تو حسب وعدہ خداوندی یہ کائنات ان کےلئے سراپا رحمت بن جائے۔ اور اچھے دن پھرواپس آجائیں۔ 
 متعہ بھی دین اسلام کا ایک سود مند قانون ہے۔ اگر مسلمان اس کے شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے یعنی عقد عدہ اور محافظت نسل پر نظر رکھ کر عمل پیرا ہوتے تو بڑی حد تک بدکاریوں کا انسداد ہوجاتا۔ عزتیں محفوظ رہتیں۔ حلال نسلیں بڑھتیںدنیا ناجائز بچوں سے نجات پاتی اور اخلاقی قدروں کو فروغ حاصل ہوتا۔ ’’لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ‘‘، (اعراف ۹۶)
 رئیس ملت حضرت عبد اللہ ابن عباس کے اس جاودانی قول کی تعریف نہیں ہوسکتی ۔ فرماتے ہیں ’’ متعہ ایک رحمت تھا جس سے خداوند عالم نے امت محمدیہ کو نوازا تھا،ا ور اگر اس سے منع نہ کیاجاتا تو سوائے گئے گزرے لوگوںکے اور کوئی زنا کا مرتکب نہ ہوتا‘‘۔ ( ملاحظہ ہو نہایہ ابن اثیر، ج۲،ص۴۸۸ اور الفائق زمخشری،ج۲،ص۲۵۵)
 ابن عباس کے اس پر مغزبیان میں ان کے جلیل القدر استاد اور مربی کلیم الٰہی امیر المومنینؑ کی تعلیم کے اثرات جھلک رہے ہیں اور حقیقت یہ کہ عالم اسلامی نے اس کی نیکی سےمنہ موڑ کر اپنی بدنصیبی کا سامنا کیا ہے۔ ولا حول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم          
فقہ
معاملوںمیں دو فریقوں کا ہونا ضروری ہے۔ ایک قبلوانے والا اور دوسرا قبولنے والا ( ایجاب و قبول شرط لازم ہے) ’’معاملات‘‘ کبھی تو صرف مالی قسم کی نوعیت کے ہوتے ہیں جیسے خرید و فروخت ، اجارہ  ورہن، قرض و ہبہ اور اجرت وغیرہ۔ 
فقہ کی تمام کتابوںمیںپوری شرح و بسط کے ساتھ ان کے جملہ متعلقات کا ذکر موجودہے۔ 
معاملات کی دوسری شکل میں مال و دولت تو ضمنی حیثیت رکھتےہیں ۔ اور اصل مقصد تدبیر منزل، افزائش نسل اور بنائے نوع ہوتا ہے۔جیسے عقود زواج‘‘ یعنی ازدواجی معاہدے ، ہمارےیہاں ان معاہدوں کی دو قسمیں ہیں:
 ۱: عقد دوام، ۲: عقد منقطع۔ عقد دوام کہتے ہیں اس نکاح کو جو مطلق و مرسل ہو۔ بالفاظ دیگر اس میں کسی وقت وغیرہ کی شرط موجود نہ ہو بمفاد آیۂ مبارکہ  وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (سورہ نور،۳۲)۔ اور عقد منقطع کا مفہوم یہ ہے کہ وہ مقیّد و موقّت ہو۔ یعنی اس میں کسی مدت کا لحاظ رکھا جائے۔
نکاح کی پہلی قسم سے تو تمام مسلمان متفق ہیں۔ مگر دوسری قسم کو جسے حسب فرمان کریم : ۔۔۔فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً۔۔۔(سورہ نساء،۲۴) ، نکاح متعہ بھی کہا جاتا ہے، سوائے شیعوں کے اور کوئی جائز نہیں سمجھتا۔ صرف شیعہ ہی اس کی مشروعیت کے قائل ہیں۔ نیز عہد صحابہ سے لے کر اب تک یہ مسئلہ موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔ چنانچہ معاملے کی اہمیت کے پیش نظر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم بعض پہلوؤں کو اجاگر کرتے چلیں۔ 
 بحث متعہ!:حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ شخص جسے ذرا بھی مذہب اسلام کو سمجھنے کا موقعہ ملا ہے اور جس نے بھی دینی قوانین کے مطالعہ میں زندگی کے کچھ لمحے صرف کئے ہیں وہ اس حقیقت سے قطعاً انکار نہیں کرسکتا کہ متعہ کے معنی وہ عقد ہے جو ایک بندھے ہوئے وقت کے لئے ہو۔ 
 خود پیغمبر اکرمؐ نے اس قسم کے عقد کو رائج کیا، مباح فرمایا اور حیات رسولؐ میں بڑے بڑے صحابہ اس پر عمل پیرا ہوئے۔ نیز آنحضرتؐ کی وفات کے بعد بھی صحابۂ کرام قانون کی اس شق سے جی بھر کر متمتع ہوتے رہے۔ 
چنانچہ عبد اللہ بن عباس، جابر ابن عبد اللہ انصاری، عمر ابن الحصین ابن مسعود اور ابی ابن کعب وغیر ہم یہ تمام اعاظم و مشاہیر متعہ کے جواز کا فتویٰ دیتے تھے۔ اور آیت متعہ کو اس طرح پڑھتے تھے:فما استمعتم بہ منھن ا لیٰ اجل مسمیٰ۔(جامع البیان، طبری،ج۵،ص۹؛تفسیر ابن کثیر، ج۱،ص۴۷۴؛ تفسیر کشاف، زمخشری،ج۱،ص۵۱۹، الجامع لاحکام القرآن، قرطبی،ج۲،ص۱۴۷؛ السنن الکبری، بیہقی،ج۷،ص۲۰۵)
لیکن ہماری رائے میںیہ یقین کرنا درست نہ ہوگا کہ یہ حضرات اللہ کے کلام میں کسی نقص و تحریف کے قائل تھے ( معاذ اللہ) نہیں! بلکہ غالباً سخن شناس ہونے کی وجہ سے تفسیر کے طور پر اس جزو سے آیت کا منشاء بیان کرتے ہوں گے چونکہ عرصۂ دراز تک یہ بزرگ شمع نبوت کا طواف کرتے رہے، معارف قرآنی کو زبان رسالتؐ سے سننے اور سمجھنے کا موقع ملا لہٰذا جب لوگ ان سے دریافت کرتے ہوں گے تو اس آیت کے سلسلہ میں ختمی مرتبتؐ سے حاصل کردہ مفہوم کو ظاہر کردینے میں انہیں کوئی تامل نہ ہوتا ہوگا۔ 
 حالانکہ ابن جریر نے اپنی تفسیر کبیر میں جو روایتیں درج کی ہیں ان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ الیٰ اجل مسمیٰ والا ٹکڑا جزو آیت ہے۔ چنانچہ موصوف ابو نضرہ کی زبانی نقل کرتے ہیں کہ میں نے اس آیت کو ابن عباس کے سامنے پڑھا تو آپ نے فرمایا : ’’ الیٰ اجلٍ مُّسمّیٰ‘‘ میں نے عرض کی کہ میں تو یوں نہیں پڑھتا ۔ اس پر ابن عباس نے تین مرتبہ فرمایا‘‘:’’ بخدا یہ آیت اسی طرح نازل ہوئی ہے‘‘(جامع البیان، طبری، ج۵ص۹)۔ لیکن یہاں بھی ہم عرض کریں گے کہ رئیس ملت حضرت ابن عباس کا مقام ان نقائص سے بہت بلند ہے۔ یہ روایت اگر صحیح ہے تو غالباً رسولؐ کے اس جلیل القدر صحابی کا مقصود یہ ہوگا کہ پروردگار عالم نے اس کی تفسیر یوں نازل فرمائی ہے۔ 
بہر حال اجماع و یقین متعہ کی صحت و مشروعیت کا بین ثبوت ہیں۔ اب رہا مخالف نظریہ رکھنےو الوں کا ادّعا تو اس میں وزن ہی کیا ۔ کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ یہ قانون نافذ ہوکر منسوخ ہوگیا۔ حالانکہ نقل کے طریقے میں جو اختلافات نمایاں ہیں وہ قطع و یقین تو درکنار ظن و تخمین کے لئے بھی ناکافی ہیں۔ دیکھئے بنیادی قاعدہ یہ ہے کہ حکم قطعی کی تنسیخ کے لئے دلیل قطعی کا ہونا ضروری ہے۔ اور ان حضرات کا ارشاد ہے کہ تنسیخ سنت کے طریقہ سے عمل میں آئی۔ سرکار رسالتؐ نے مباح فرما کر حرام قرار دے دیا{ FR 133 }۔ بعض فرماتے ہیں کہ نہیں کتاب خدا کے ذریعہ حرمت کے پہرے بیٹھ گئے۔ نیز اس منزل پر بھی اتحاد فکر عنقا ہے۔ کیونکہ ایک گروہ آیت طلاق{ FR 134 } کو ناسخ سمجھتا ہے{ FR 135 } اور دوسرا  آیۂ مواریث{ FR 136 } کو{ FR 137 } اب ان پریشان خیالیوں کی جو قیمت ہوسکتی ہے وہ ظاہر ہے۔ بنا بر ایں یہاں مزید خامہ فرسائی کی ضرورت نہیں۔ آگے چل کر قدرے توضیح کی جائے گی۔ 
ہاں۔ اور اکثر بزرگ اس آیت سے سے  متعہ پر خط نسخ پھیرتے ہیں{ FR 138 }:
 ( الاعلیٰ ازواجھم او ما ملکت ایمانھم) (سورہ مومنون،۶؛ معارج۳۰)آیت میں حلیت کے دو سبب بتائے گئے ہیں:
(۱) زوجیت۔  (۲) ملکیت(ملک یمین)
چنانچہ اس موقع پر سیدآلوسی ترمیم فرماتے ہیںکہ ’’ شیعہ حضرات ممتوعہ کو مملوکہ ( کنیز) قرار نہیںدے سکتے۔ یہ تو ایک کھلی ہوئی بات ہے۔ اور زوجہ کہہ نہیں سکتے کیونکہ اس میں زوجیت کے شرائط یعنی میراث ، عدہ اور نفقہ و طلاق کا فقدان ہے‘‘۔(روح المعانی،ج۵،ص۷)
  غور فرمائیے ! دلیل میںکتنا زبردست مغالطہ ہے۔ اب ذرا تجزیہ کیجئے پہلی چیز میراث۔ اگر زوجیت کے لئے اس شرط کو عمومی انداز میں پیش کیا گیا ہے یعنی اکثر ایساہوتا ہے کہ زوجہ ورثہ پاتی ہے تب تو ٹھیک ہے۔ لیکن غالباً سید صاحب کا یہ منشاء نہیں اور اگر یہ مراد ہےکہ میراث شرط لازم و دائم ہے یعنی بہر صورت ورثہ ملنا چاہئے تو یہ قطعی طور پر خلاف آئین ہے۔ کیونکہ شریعت میں اکثر ایسے مواقع آتے ہیں جہاںمیراث ختم ہوجاتی ہے مثلاً زوجہ کا فرہ اور قاتلہ کو ورثہ نہیںملتا۔ نیز ایسی عورت جو کسی مریض کے عقد میں چلی جائے اوردخول سے پہلے اس کے شوہر کا انتقال ہوجائے تو وہ بھی محروم ہوجاتی ہے۔ نیز بر خلاف اس کے اگر کوئی شخص بیماری کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور اسی مرض کے عالم میں اس کا انتقال ہوجائے تو عدہ کی مدت گزارنےکے باوجود دوران سال میںمطلقہ ورثہ کی حقدار ہوگی۔ غرضیکہ دونوں رخ سامنے ہیں اور صاف ظاہر ہے کہ ارث کو لازمۂ زوجیت نہیں قرار دیا جاسکتا۔ 
رہا عدت کا لزوم تو امامیہ مذہب میں بالاتفاق ثابت ہے بلکہ جو بھی مشروعیت متعہ کا قائل ہے وہ عدت کو واجب قرار دیتا ہے۔ تیسری چیز نفقہ ہے، اسے بھی شرط زوجیت نہیں بنایا جاسکتا۔ اطمینان کے لئے ’’ زن ناشزہ‘‘ کے احکام کو دیکھ  لیجئے کہ وہ زوجیت میں تو ہوتی ہے مگر بالاتفاق اس کے نفقہ کو کوئی واجب نہیںسمجھتا ۔ باقی، طلاق کا معاملہ، تو اس سلسلہ میںمدت کا بخش دینا کافی ہے۔ 
دوسری بات یہ کہ ازواج کی اہمیت سے متعہ کی منسوخی محال ہے۔ کیونکہ آیت متعہ سورۂ نساء میں ہے جو مدنی { FR 139 }ہے اور آیۂ ازواج سورۂ مومنین و معارج میں ہے اور یہ دونوں مکی ہیں{ FR 140 }۔ بنا بر یں نسخ ثابت ہی نہیںہوسکتا ۔ کیونکہ منسوخ پر ناسخ کا تقدم غیر ممکن ہے۔ 
 تیسرے یہ کہ اکابر اہل سنت بیان فرماتے ہیں کہ آیت متعہ منسوخ نہیںہوئی ملاحظہ ہو ’’ کشاف‘‘ زمخشری ابن عباس سے نقل کرتے ہیںکہ متعہ کی آیت محکمات میں سے ہے(الکشاف، ۱؍۵۱۹)۔ دوسروں نے روایت کی ہے کہ حکم ابن عتیہ سے دریافت کیا گیا کہ آیت متعہ کیا منسوخ ہوگئی ہے ؟ جواب ملا: نہیں(الدرالمنثور،سیوطی، ج۲،ص۱۴۰)۔
غرض کہ پہلے تو جمہور اسلام نے اس کی مشروعیت کا اعتراف کیا ۔ لیکن بعد میں منسوخ ہونے کے دعوے کرنے لگے اور رطریق نسخ میںجو قیاس آرائیاں فرمائی ہیں وہ بھی قابل دید دشنید ہیں۔ کبھی تو آیت کو آیت کے ذریعہ منسوخ فرمانےکی کوششیں ہوئیں ( ضعف دلیل کی جانب اشارہ کیاجاچکا ہے) گاہے آیت کو حدیث سے ختم کرنے کی سعی فرمائی گئی۔ اس ضمن میں صحیح بخاری و مسلم کی اس روایت سے استشہاد کیا جاتا ہے کہ فتح مکہ ، فتح خیبر ، یاغزوۂ اوطاس(صحیح بخاری ۷؍۱۶؛ صحیح مسلم ۲؍۱۰۲۳؍۱۸ و ۱۰۲۷؍۲۹،۳۰۔ اس کی جانب اشارہ گزرچکا ہے۔) میںآنحضرتؐ نے اسے ممنوع قرار دے دیا تھا اور یہی وہ مقام ہے جہاںیہ معاملہ آماجگاہ اختلاف بنتا ہے۔ نہ جانے کتنے رنگ چڑھتے ہیں اور کیا کیا پینترے بدلے جاتے ہیں۔ 
 چنانچہ قاضی عیاض کی زبانی بیان کیاجاتا ہے ’’ بعض علماء کا ارشاد ہے، کہ نکاح متعہ دو دفعہ حرام، مباح اور منسوخ ہوا(شرح صحیح مسلم، نووی۹؍۱۸۱؛ التفسیر العظیم، ابن کثیر ۱؍۴۷۴ )۔ لیکن آنکھ بھر کر دیکھنے والے جانتے ہیں کہ ان حضرات نے اپنی علمی دنیا میں کیا کیا گل کھلائے ہیں۔ 
 بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ حجۃ الوداع ۱۰ھ؁ میں منسوخ کیا گیا { FR 141 }۔ دوسرے مصنفات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہیں۔ غزوہ تبوک ۹ھ؁ میں تنسیخ ہوئی{ FR 142 }۔ کچھ قلم کاروں نے غزوہ اوطاس اور غزوہ حنین شوال ۸ھ؁ کا حوالہ دیا ہے(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳)۔ مگر ایک اور گرو ہ فتح مکہ رمضان ۸ھ؁ کا واقعہ بتاتا ہے{ FR 143 }۔ 
 نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آنحضرتؐ نے فتح مکہ کے موقع پر جائز قرار دیاتھا اور پھر چنددن کے بعد وہیں اس کی حرمت کا حکم صادر فرمادیا{ FR 144 }۔ البتہ شہرت اور غالب رائے یہ ہےکہ متعہ کی تنسیخ غزوہ خیبر ۷ھ؁یا عمرۃ القضاء ذی الحجہ  ۷ھ؁ میں عمل میں آئی۔(سنن ابن ماجہ ۱؍۶۳۰؍۱۹۶۱؛ صحیح مسلم ۲؍۱۰۲۷)
بہر کیف اس محشر خیال سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دو یا تین دفعہ نہیں ( جیسا کہ نووی شارح مسلم  وغیرہ نے ترقیم فرمایا ہے ) بلکہ پانچ چھ مرتبہ حرام حلال ہوتا رہا۔۔۔۔(شرح صحیح مسلم نووی ۹؍۱۸۰) کیوں؟ علمائے اسلام ! بازی بازی با دین خدا ہم بازی؟ یہ کیا اندھیر ہے؟ سچ کہنا اس درجہ فکری انتشار کے ہوتے ہوئے تمہارے ادعائے نسخ میںکوئی جان باقی رہ جاتی ہے؟
 یہ ناقابل انکار حقائق ہیں کہ :۱: ۔ قرآنی احکام اخبار آحاد سے منسوخ نہیںہوسکتے۔ 
۲:۔ نسخ کی دلیلیں خود سوا د اعظم کی روایات عدم نسخ سے متصادم ہوتی ہیں۔ 
۳:۔ صحیح بخاری کی روایت: ابو رجاء عمران بن حصین سے ناقل ہیںکہ آیۂ متعہ قرآن میں موجود ہے۔ رسولؐ کے ہوتے ہوئے ہم نے اس پر عمل کیا ۔ 
 پھر نہ قرآن نے اس کی حرمت کا حکم دیا اور نہ آخر وقت تک آنحضرتﷺ نے ممانعت فرمائی۔ ہاں! ایک شخص نے من مانی کی جو چاہا کہہ دیا۔ محمد کا قول ہےکہ اس حرکت کو حضرت عمر کی جانب منسوب کیا گیا ہے‘‘۔{ FR 145 }
 نیز صحیح مسلم میں عطا کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’ ایک مرتبہ جابر ابن عبد اللہ انصاری عمرہ بجالانےکےلئے آئے تو ہم سب ان کی قیام گاہ پر پہنچ گئے لوگوں نے ان سے مختلف مسائل پوچھے ۔ چنانچہ متعہ کے متعلق بھی دریافت کیا ۔ جابر نے کہا ۔ ہاں ۔ عہد رسالت میں ہم نےمتعہ کیا اور ابو بکر و عمر کے زمانے میں بھی ‘‘۔(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳؍۱۵)
مسلم کی ایک اور روایت ہے اور حضرت جابر ہی کی زبانی ، فرماتے ہیں: دور نبوی میں تو ہم ایک مٹھی کھجور اور مٹھی بھرستّو دے کر متعہ کرلیا کرتے تھے۔ اور یہی طریقہ ابوبکر کے زمانے میں بھی جاری رہا پھر عمر نے عمرو بن حریث کے سلسلے میں اس سے منع کیا۔(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳؍۱۶)
علاوہ ازیں صحیح مسلم کے اوراق میںیہ بھی موجود ہے ۔’’ ابو نضرہ بیان کرتےہیںکہ میں جابر ابن عبد اللہ انصاری کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک اور آدمی آگیا اور آتے ہی کہنے لگا۔ دونوں متعوں کے بارےمیں تو ابن عباس اور ابن زبیر کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا ہے؟ جابر نے فرمایا ۔ رسالت مآبؐ کی موجودگی میں تو ہم ان پر عمل پیرا تھے۔ لیکن بعد میںعمر نے دونوں متعوں سے ممانعت کردی۔ اس لئے پھر نہ کرسکے۔(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳؍۱۷) 
جی ہاں! اس لئے پھر نہ کرسکے کہ حضرت عمر متعہ کرنےوالوں کو سنگسار کروا دیتے تھے۔ 
واقعہ یہ کہ صحیح مسلم کے اس حصہ کو اگر غور سے دیکھا جائے تو تضاد بیانی کے ایسےایسے عجوبے نظر آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ادھر مثبت حدیثیں ادھر منفی روایتیں ۔یہاں نسخ کے دعوے وہاں عدم نسخ کے ثبوت اور سنیے ۔ جہنی فرماتے ہیںکہ فتح مکہ کے موقع پر خود آنحضرتؐ نے ہمیںمتعہ کا حکم دیا تھا۔ لیکن ہم وہاں سے نکلنے بھی نہ پائے تھےکہ سرکار رسالت مآبؐ نے اس کی ممانعت فرمادی‘‘۔(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳؍۲۲)
 تنسیخ کی نسبت کبھی پیغمبر اکرمؐ کی طرف گاہ حضرت عمر کی جانب ۔ مزید بر ایں عہد نبوی اور پہلی خلافت کے زمانےمیں رائج تھا۔ اور یہ بھی کہ یہ حضرت علی علیہ السلام نے متعدد مواقع پر جناب ابن عباس کو متعہ کے بارےمیں گفتگو کرنےسے منع فرمایا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں انہوں نے اپنی رائے بدل دی۔ (المصنف، عبدالرزاق ۷؍۵۰۱؛ الکشاف، زمخشری۱؍۵۱۹)
 مگر اس کے ساتھ یہ روایت بھی ملتی ہے کہ ابن زبیر نے ایک مرتبہ مکہ میں اٹھ کر فرمایا تھا ’’ کچھ ایسے لوگ بھی ہیںکہ خداوند عالم نے جس طرح ان کی  بصارت چھینی اسی طرح ان کی بصیرت بھی سلب کرلی۔ وہ متعہ کا فتویٰ دیتے پھرتے ہیں۔ ‘‘۔ ( یہ اشارہ ابن عباس کی طرف تھا جو نا بینا ہوگئے تھے) اس پر ابن عباس نے آواز لگائی کیوں۔۔۔’’ قسم کھا کر کہتا ہوں کہ متعہ امام المتقین کے زمانے تک رائج تھا‘‘{ FR 146 }۔ اس سے صاف ظاہر ہےکہ عبد اللہ ابن عباس نے کبھی بھی اپنی رائے نہیں بدلی بلکہ وہ زندگی بھر تا دور خلافت ابن زبیر اپنے فتوے پر قائم رہے۔ 
 اور سب سےز یادہ پر لطف بات تو یہ ہےکہ امتناعی حکم کو جناب امیر علیہ السلام سے بھی منسوب کیا گیا ہے۔ حالانکہ عقد متعہ کو جائز قرار دینا اہل بیت علیہم السلام کا امتیازی مسلک ہے۔ پھر خصوصیت سے اس ضمن میں امیر المومنینؑ کا یہ ارشاد کہ’’لولا انّ عمر نھی الناس عن المتعۃ ما زنی الاشقی او شفا‘‘(معنی کے لئے دیکھئے: الصحاح ۶؍۲۳۹۳؛ لسان العرب ۱۴؍۴۳۷۔)۔ ’’ اگر عمر نےمتعہ کو ممنوع نہ کیا ہوتا تو بس گنتی کے ( یا گئے گزرے) کچھ لوگ زنا کے مرتکب ہوتے‘‘، ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے طبری نے اپنی تفسیر میں بھی اس روایت کو نقل کیا ہے{ FR 147 } اس سلسلہ میں باوثوق ذرائع سے امام جعفر صادق علیہ السلام کا یہ قول ملتا ہے کہ ’’ثلاث لا اتقی فیھن احدا: متعۃالحج و متعۃالنساء و المسح علی الخفین‘‘{ FR 148 }’’ تین مسئلوں میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔ متعۃ الحج، متعۃ النساء اور مسح بر کفش۔
بہرطور فنی قاعدوں اور اصول فقہ کے مقرر ضوابط کی رو سے یہ طے شدہ بات ہےکہ ادھر روایتوں میں تضاد پیدا ہوا اور ادھر وہ درجہ اعتبار سے ساقط ہوئیں۔ کیونکہ مشکوک روایتیں قابل انکار اور ان کےمقابلے میں محکم حدیثیں لائق عمل ہوتی ہیں۔ 
 نیز جبکہ علمائے اسلام کے متفقہ فیصلے اور فقہی تکنیک کےمطابق متعہ کی مشروعیت اور اس کا جواز ثابت ہوچکا ہے ۔ تو آج بھی اس کی اباحت کاا قرار کرنا پڑے گا۔ 
مسئلہ کا واحد حل!:
اب اگر ہم حقائق کی روشنی میں جائزہ لیں ۔ معاملہ کی پوری چھان بین کریں اور اس کی تمام کڑیوں کو ملا کر صحیح نتیجہ نکالنا چاہیں تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ حضرت عمر نے اپنےد ور حکومت میں کسی خاص مصلحت کے پیش نظر اپنی رائے سے متعہ کو ممنوع قرار دے دیا تھا۔ لیکن یہ ممانعت قطعی طور پر سماجی حالات اور وقتی تقاضوں پر مبنی تھی ۔ دین و مذہب کا اس سے کوئی سرورکار ممکن نہیں۔ چنانچہ تواتر کے ساتھ آپ کا یہ قول نقل ہوتا چلا آرہا ہے کہ’’متعتان کانتا علی عھد رسول اللہ أنا أحرمھما و أعاقب علیھما‘‘(دیکھئے: السنن الکبریٰ، بیہقی۷؍۲۰۶؛ زادالمعاد، ابن قیم جوزی۳؍۴۶۳؛ المبسوط، سرخسی ۴؍۲۷۔) ’’ رسول کے زمانےمیں دو متعہ جائز تھےمگر میں انہیں حرام قرار دیتا ہوں اور خلاف ورزی پر سزا دوں گا‘‘۔
 یہاں غور طلب چیز یہ ہے کہ خلیفۂ ثانی نے حرمت یا تنسیخ کے حکم کو سرکار رسالتؐ کی جانب نہیںمنسوب کیا۔ بلکہ خود اپنی ذات کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ نیز سزا کا تعلق بھی اپنے ہی سے رکھا ۔ خدا سے کوئی واسطہ نہیں ۔ یہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے۔ ورنہ پھر ان خطوط پر سوچنا پڑے گا کہ حضرت عمر جیسی شخصیت اور دین الٰہی میں بے محابانہ کتربیونت ! لیکن مسلمانوں کی تاریخ میں آپ کے مقام کو دیکھتے ہوئے اس انداز فکر کا اختیار کرنا کس قدر مشکل ہے۔ 
 کیا حضرت عمر یہ نہیں جانتے تھے کہ حضرت محمدؐ کا حلال قیامت تک حلال، اور حضور ؐنے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے وہ تا حشر حرام رہیں گی۔ 
 خداوند عالم خود اپنے حبیب ؐ سے فرماتا ہے کہ : ’’وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ﴿٤٤﴾ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ﴿٤٥﴾ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ﴿٤٦﴾ فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ ﴿٤٧﴾‘‘( سورہ حاقہ ۴۴۔۴۷)
’’اگر رسولؐ ہمارے متعلق کچھ باتیں گھڑ لیتا تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے اور پھر گلا کاٹے بغیر نہ چھوڑتے اور پھر یہ بھی ممکن نہیں تھا ، کہ تم میں سے کوئی آکر بچا لیتا ‘‘
بہر طور بہتر یہی تھا کہ حضرت عمر کے امتناعی حکم کو مذہبی حیثیت دینےکے بجائے اسے سیاسی یا سماجی قدغن قرر دیا جاتا۔ مگر کیا کہا جائے کہ آپ کے بعض معاصرین نیز بعد کے کچھ سادہ لوح محدثوں نے اس باریک نکتہ پر غور نہیں کیا اور فرط عقیدت میں اپنے قائد کے اقدام کو صحیح ثابت کرنےکےلئے نسخ کی دلیل تراشی اور اسے آنحضرتؐ کی جانب منسوب کردیا۔ نتیجتاً ان کے دبستانِ فکر میں وہ خلفشار پیدا ہوا کہ پناہ بخدا!
فی الواقع یہ حضرات اگر وہ موقف اختیار کرتےجس کی ہم نےنشاندہی کی ہے تو اتنی الجھنوں میں نہ پڑتے۔ 
صحیح مسلم کے حوالے سے جابر ابن عبد اللہ انصاری کی روایت کاتذکرہ کیا جاچکا ہے ، کہ ’’ دور نبویؐ اور عہد ابوبکر میں تو ہم ایک مٹھی کھجور اور مٹھی بھر ستو دے کر متعہ کرلیا کرتےتھے۔ لیکن عمر و بن حریث کے سلسلہ میں عمر نے ممانعت کردی‘‘(اکمال المعلم شرح مسلم،وشتانی آبی)۔ یہ بڑا واضح ثبوت ہے کہ ایک خاص واقعہ کے سلسلہ میں حضرت عمر نے اپنی ذاتی ناپسندیدگی کے باعث اسے ممنوع قرار دے دیا تھا۔اور ممکن ہے کہ کوئی اس سے بھی زیادہ ناگوار معاملہ پیش ہوا اور آپ نےاپنی تیز مزاجی سے مجبور ہوکر ممانعت کا عام حکم صادر کردیا ہو۔ 
 ورنہ متعہ کے سلسلہ میں نص قرآنی، سنت رسولؐ عمل صحابہ نیز حضرت ابو بکر کے زمانہ کا تعامل اور خود حضرت عمر کے آغاز خلافت تک متعہ کا رواج یہ سب ایسے حقائق ہیں جو بحث و تمحیص سے بالاتر ہیں۔ تاریخ و حدیث کی کتابیں شاہد ہیں کہ عہد رسالت میںبڑے بڑے صحابی اور خاندان قریش کے مشہور افراد دھڑلے سے متعہ کیا کرتے تھے اور اس قسم کے عقد سے ان کی نسل چلی بڑھی ، اورپروان چڑھی۔ 
 چنانچہ سواد اعظم کے معتبر و مستند عالم راغب اصفہانی اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’ المحاضرات‘‘ میں ترقیم فرماتے ہیںکہ متعہ کو حلال کہنے کے سلسلہ میں ایک مرتبہ عبد اللہ ابن زبیر نے جناب عبد الہ ابن عباس کو طعنہ دیا ۔ اس پر ابن عباس نے فرمایا : ’’ اچھا ذرا  اپنی والدہ سے تو پوچھو کہ ان میں اور تمہارے والد بزرگوار میں جو برابر کی آگ لگی ہوئی تھی ‘‘ خیریت سے وہ لگی کیسے؟ عبد اللہ ابن زبیر نے جاکر ماں سے پوچھا بتائیے کہ کیا قصہ ہے؟ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ’’ بیٹا! تم متعہ سے پیدا ہوئے ہو‘‘۔ (محاضرات الادباء۳؍۲۱۴۔)
 آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ عبد اللہ کی والدہ جناب اسماء ذات النطاقین حضرت ابو بکر صدیق کی صاحب زادی اور ام المومنین جناب عائشہ کی بہن تھیں جنہیں صحابیٔ رسولؐ زبیر ابن العوام نےمتعہ کے ذریعہ اپنی جیون ساتھی بنایا تھا۔ 
انکار کرنے والے دیکھئے اب کیا فرماتے ہیں؟
 اس واقعہ کے بعد راغب اصفہانی نے ایک اور روایت لکھی ہے اور وہ یہ کہ بصرہ کے کسی بزرگ نے یحییٰ ابن اکثم سے دریافت کیا کہ جو از متعہ کے سلسلہ میں جناب کس کی پیروی فرماتے ہیں:؟ یحییٰ نے جواب دیا۔ عمر ابن خطاب کی ! سائل نے کہا ، یہ کیسے! وہ تو اس معاملہ میں بڑے ہی سخت گیر تھے۔ یحییٰ نے کہا ۔ ہاں! مگر یہ ثابت ہوچکا ہے کہ حضرت عمر نے ایک دفعہ برسرِ منبر اعلان فرمایا تھا کہ’’یا ایھاالناس، متعتان أحلھما اللہ و رسولہ لکم و أنا أحرمھما علیکم و أعاقب علیہما، فقبلنا شھادتہ و لم نقبل تحریمہ‘‘(محاضرات الادباء ۳؍۲۱۴) ’’ لوگو! اللہ اور اس کے رسولؐ نے دو متعہ حلال کئے تھے ، مگر میں انہیںحرام قرار دیتا ہوں۔ نیز خلاف ورزی کرنے والوں کو سزادوں گا‘‘۔ لہٰذا ہم ان کی گواہی کو تو قابل قبول سمجھتے ہیںلیکن موصوف کا حکم ہمارے نزدیک لائق تعمیل نہیں ‘‘۔
 عبد اللہ ابن عمر کے بیان کا بھی تقریباً یہی مفہوم ہے(سنن ترمذی ۳؍۱۸۵؍۸۲۴)۔ البتہ اس ضمن میں خلیفہ ثانی کا جو جملہ شہرت عام رکھتا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں : ’’ متعتان کانتا علیٰ عھد رسول اللہ وانا احرمھما‘‘’’عہد رسالت میںدو متعہ تھے اور میں انہیںحرام کرتا ہوں‘‘
یہاں مکرر عرض ہےکہ اگر حضرت عمر کی ممانعت اسی قسم کی تھی جس پر ہم روشنی ڈال چکے ہیں۔ تب تو معاملہ قدرے آسان ہے ورنہ سخت مشکل ۔ 
اس منزل پر ہمیں پانچویں صدی ہجری کے محقق کامل محمد ابن ادریس حلیؒ کا بھی ایک شہ پارہ یاد آگیا جسے مطابقت اور توضیح مزید کے خیال سے نقل کیا جاتا ہے علامہ ممدوح جنہیں ہمارے علمائے متقدمین میں بہت بڑا درجہ حاصل ہے اپنی بلند پایہ تصنیف ’’ السرائر‘‘ میں ارشا د فرماتے ہیں:
 ’’ نکاح موقت شریعت اسلامی میں جائز ہے۔ اور کتاب خدا، نیز مسلمانوں کے مسلسل اتفاق سے از روئے سنت بھی اس کی مشروعیت ثابت ہے۔ البتہ کچھ لوگوں نے منسوخ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ مگر اس کی درستی محتاج دلیل ہے۔ علاوہ ازیں صحیح دلائل سے یہ بات تسلیم کی جاچکی ہے کہ ہر سود مند کام جس سے حال و استقبال میں کسی نقصان کا اندیشہ نہ ہو، وہ عقلی طور پر مباح ہے اور نکاح متعہ میں یہ وصف موجود ہے۔ بنا بریں عقلاً اس کےجواز کا اقرارضروری ہے اب اگر کوئی صاحب فرمائیں کہ مستقبل میں اس کے ضرر رساں نہ ہونےکی کیا دلیل ہے۔۔ جبکہ اس بارے میں مخالف آرا بھی موجود ہیں۔ تو اس کا جواب یہ کہ بار ثبوت اس پر ہے جو امکان ضرر کا مدعی ہے علاوہ ازیں مسلمانوں کا اجماع بھی اس کا واضح ثبوت ہے اور یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں کہ عقد متعہ آنحضرتؐ کے زمانے میں مباح تھا۔ مگر بعد میں حرمت و تنسیخ کے دعوے ہونے لگےجو ثابت نہیںکئے جاسکے۔ اور اباحت متفقہ طور پر ناقابل انکار لہٰذا مدعیان نسخ و تحریم کی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب ملنا چاہئے ۔ اب اگر وہ ان روایات کو دہراتے ہیں جن میں حکم امتناعی پیغمبر اکرمﷺ کی جانب منسوب ہے۔ تو پھر انہیںیہ سننا پڑے گا کہ اس قماش کی تمام حدیثیں ( بشرطیکہ صحیح بھی ہوں ) اخبار آحاد ہیں جو شریعت کی دنیا میں علم و عمل کا موجب نہیں قرار پاسکتیں اور نہ ایسی روایتوں کی بنیاد پر حقائق ثابتہ سے روگردانی جائز ہے۔ 
 محرمات کے تذکرے کے بعد خداوند عالم اپنی کتاب اقدس میں ارشار فرماتا ہےکہ :وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ ۔(ان عورتوں کےعلاوہ دوسری عورتیں تمہارے لئے جائز ہیں مگر شرط یہ کہ بدکاری نہیں بلکہ عفت اخلاق کی غرض سے زر مہردے کر نکاح کرنا چاہو۔ ہاں جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہو انہیں معینہ مہر ادا کر دو اور مہرکے بارےمیں اگر آپس میں مفاہمت کر لو تو کوئی حرج نہیں ( سورہ نساء،۲۴))
آیۂ وافی ھدایۃ میں بحث طلب لفظ’’ استمتعتم ‘‘ہے جس کے بس دو معنی ہیں: ( ۱) انتفاع (۲) التذاذ۔ دوسرامفہوم لغوی ہے اور پہلا اصطلاحی جس سے مراد وہ موقت اور مخصوص عقد ہے جو مقصود شرع ہے۔ 
اب یہاں لغو ی مفہوم تو قابل اعتناء ہونے سے رہا۔ کیونکہ اصول فقہ کےمطابق مسلمہ قاعدہ یہ ہے کہ اگر قرآن کے کسی لفظ سے دو مطلب نکلتے ہوں ایک لغوی اور دوسرا  وہ جسے شریعت نے رائج کیا ہو تو ایسی صورت میںلغت پر اعتبار نہیں کیا جائے گا ۔ شریعت کی بات ماننا پڑے گی اور یہی وجہ ہے کہ لفظ صلوٰۃ ، زکوٰۃ ، صیام اور حج کے سلسلہ میں کسی فرہنگ پر نہیں بلکہ عرف شرع پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ 
نیز اس سے پہلےصراحت ہوچکی ہے کہ صحابہ و تابعین کا ایک مشہور و معروف گروہ اباحت متعہ کا قائل تھا۔ جیسےامیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ ، عبد اللہ ابن عباس جو اس موضوع پر ابن زبیر سے مناظرے فرماتے رہے۔ اور ان مناظروں کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ نہ صرف زباں زد عام ہوئے بلکہ اس زمانے کے شعراء نے بھی طبع آزمائی کی چنانچہ ایک سخنور کہتا ہے :
اقول للشیخ لما طال مجلسہ یا شیخ ھل لک فی فتویٰ ابن عباس
نیز عبد اللہ ابن مسعود، مجاہد، عطا، جابر ابن عبد اللہ انصاری ، سلمہ ابن الاکوع ، ابو سعید خدری، مغیرہ ابن شعبہ، سعید ابن جبیر اور ابن جریح وغیرہم یہ سب کے سب جواز کا فتویٰ دیتے تھے۔ لہٰذا عقد منقطع کے خلاف جانے والوں کا ادعاء صحیح نہیں ہے۔ (السرائر ۲؍۶۱۸۔۶۲۰)
 ارباب بصیر ت ہی اندازہ لاسکتے ہیںکہ اس  بحث میںکتنی متانت پختگی ، اور قوت پائی جاتی ہے۔ خیر! یہاں تک تو اس موضوع پر صرف دینی اور تاریخی حیثیت سے روشنی ڈالی گئی۔ اب آئیے ذرا اخلاقی اور اجتماعی نقطہ نظر سے بھی جائزہ لیتے چلیں: 
 اسلام دنیا کےلئے بہت بڑی نعمت ثابت ہوا۔ توحید کے رسیلے نغمے امرت بن کر برسے جن سے غم نصیب انسانیت کو بے پایاں سکون حاصل ہوا جس طرح یہ مانی ہوئی بات ہے اسی طرح اس حقیقت کا اعتراف بھی لازم ہے کہ دین مبین ہر زمانے کا ساتھ دیتا ہے۔ ہر وقت کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ نیز عالم بشری کی جملہ ضروریات دنیوی و اخروی کا کفیل اور ہرگونہ فلاح و بہبود کا ضامن ہے۔ آئین رحمت میں زحمت کا سوال ہی نہیں۔ آنکھوں سکھ کلیجے ٹھنڈک ۔ ایک دنیا کیا تمام عالموں کےلئے برکت۔ اسی لئے تو یہ کامل ترین مذہب اور آخر شریعت بننے کا حقدار ٹھہرا۔ کون نہیں جانتا کہ قانون الٰہی نے انسانی معاشرہ کو ایسا سنوارا کہ کسی اور دستور کی حاجت نہ رہی۔ 
اتنا جاننےکے بعد اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افراد انسانی کو کبھی سفر کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ نفی میں جواب ممکن نہیں کیونکہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ لوگ عموماً سفر کرتے ہیں بلکہ غائر نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ جب سے انسان نے ہوش سنبھالا اور اپنے شعور سے کام لینا شروع کیا ۔ اس وقت سے اس نے اپنی معاش کےلئے جو وسیلے اختیار کئے ان میں سفر کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ مختلف ضرورتیں آدمی کو راہ غربت طے کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ مثلاً تجارت ، ملازمت ، تحصیل علم، یا جنگ اور دفاع وغیرہ اور یہ بھی مسلم ہے کہ مذکورہ اغراض کے سلسلہ میں نوجوان یا کم از کم توانا افراد ہی دور دراز ملکوں کا عزم کرسکتےہیں۔ 
اور کسے نہیںمعلوم کہ اس حکیم مطلق نے بقائے نسل و حفظ نوع کےلئے ہیکل انسانی میںجنسی خواہش بھی ودیعت فرمائی ہے۔ اور یہ بھی ظاہرہے کہ ایک مسافر آدمی عقد دائم کے تقاضے پورے کرنےسے قاصر ہوتا ہے۔ نیز لونڈیوں، باندیوں کی فراہمی بھی آسان نہیں۔ ( آج کل تو ناممکن ہے ) لہٰذا ان حالات میں اس مدت کے بچھڑے ہوئے پردیسی کو کیاکرنا چاہئے جو اتفاق سے نو عمر بھی ہو اور مجبور بھی ؟ بس دو ہی صورتیں ممکن ہیں: ضبط نفس یا بدکاری۔ 
۱:۔ مگر ضبط نفس میں نہ صرف مہلک قسم کی مختلف بیماریاں پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے بلکہ نسل کا منقطع ہوجانا بھی کچھ بعید نہیں۔ا ور یہ منافی حکمت ہے۔ شریعت اسلامی بڑی آسان اور آرام دہ شریعت ہے۔ 
سہولت چاہئے ہے شدت نہیں مقصود{ FR 149 } دین میں کسی پہلو تکلیف نہیں{ FR 150 } (قرآن)
۲: جنسی بے راہ روی سے خدا محفوظ رکھے آج دنیا کے بیشتر حصے اس کا خمیازہ بھگت رہےہیں۔ 
 خداگواہ ہے اگر مسلمان صحیح طریقہ سے شرعی قوانین پر عامل پیرا ہوجائیں تو حسب وعدہ خداوندی یہ کائنات ان کےلئے سراپا رحمت بن جائے۔ اور اچھے دن پھرواپس آجائیں۔ 
 متعہ بھی دین اسلام کا ایک سود مند قانون ہے۔ اگر مسلمان اس کے شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے یعنی عقد عدہ اور محافظت نسل پر نظر رکھ کر عمل پیرا ہوتے تو بڑی حد تک بدکاریوں کا انسداد ہوجاتا۔ عزتیں محفوظ رہتیں۔ حلال نسلیں بڑھتیںدنیا ناجائز بچوں سے نجات پاتی اور اخلاقی قدروں کو فروغ حاصل ہوتا۔ ’’لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ‘‘، (اعراف ۹۶)
 رئیس ملت حضرت عبد اللہ ابن عباس کے اس جاودانی قول کی تعریف نہیں ہوسکتی ۔ فرماتے ہیں ’’ متعہ ایک رحمت تھا جس سے خداوند عالم نے امت محمدیہ کو نوازا تھا،ا ور اگر اس سے منع نہ کیاجاتا تو سوائے گئے گزرے لوگوںکے اور کوئی زنا کا مرتکب نہ ہوتا‘‘۔ ( ملاحظہ ہو نہایہ ابن اثیر، ج۲،ص۴۸۸ اور الفائق زمخشری،ج۲،ص۲۵۵)
 ابن عباس کے اس پر مغزبیان میں ان کے جلیل القدر استاد اور مربی کلیم الٰہی امیر المومنینؑ کی تعلیم کے اثرات جھلک رہے ہیں اور حقیقت یہ کہ عالم اسلامی نے اس کی نیکی سےمنہ موڑ کر اپنی بدنصیبی کا سامنا کیا ہے۔ ولا حول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم          
طلاق
گزشتہ مباحث سے واضح ہوگیا ہوگا کہ تزویج کی حقیقت وہ خاص ربط ہے جو مرد اور عورت کے درمیان قائم ہوتا ہے۔ اور دو مختلف افراد کو ایک دوسرے کا قرین اور کفو بنا دیتا ہے۔ عائلی نظام میں زن و شوہر کے توافق و اشتراک کو دونوں آنکھوں اور ہاتھوں سے تشبیہ دینا چاہئے۔ ایک دوسرے کے ساتھی، ایک دوسرے کے ساجھی۔ 
 یہ امر اپنی جگہ کس قدر لائق توجہ ہے کہ وہ دو ہستیاں جو آپس میں بالکل غیر ہوتی ہیں ’’ عقد زواج‘‘ انہیں اس مضبوطی سے ملا دیتاہے، اس شدت سے ان میں اتحاد پیدا کرتا ہے کہ اس سے زیادہ مستحکم علاقہ یگانگت کا تصور ناممکن ہے بلکہ اس خصوصی وابستگی اور اس کے گہرے اثرات کو ظاہر کرنے کے لئے کلام الٰہی کی اس آیت کے علاوہ اور کوئی مناسب و موزوں عبارت سمجھ میںنہیں آتی۔ ھُنّ لِباسٌ لَّکُم و انتم لباسٌ لھُنّ(بقرہ،۱۸۷) ’’وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو‘‘۔ واقعہ یہ ہے کہ اس آیہ ٔ وافی ہدایہ میں اس قدر معجزانہ محاسن اور محیر العقول نکات پنہاں ہیں جن کے اعتراف سے قلم قاصر ہے۔ 
 اب ظاہر ہے کہ اس رشتہ کا قدرتی تقاضہ یہ ہونا چاہئے کہ مرتے دم تک نہ ٹوٹے بلکہ مرنے کے بعد قائم رہے مگر یہ کہ کوئی ایسی شکل نکل آئے جس کے باعث مشترکہ زندگی بسر کرنے کا مذکورہ معاہدہ ختم ہوجائے۔ 
 بسااوقات کچھ ایسے ناگزیر حالات، واقعات اور ضرورتیں پیش آجاتی ہیں جن کی وجہ سےا س گرہ کا کھولنا لازم ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اس کی چند صورتیں ہیں :
 (۱) علیحدگی کی خواہش دونوں طرف سے ہو۔ (۲) ایک ہی فریق معاہدہ توڑنے پر اصرار کرے۔ 
 شریعت نے ہر موقع کے لئے ایسے قواعد مقرر کئے ہیں جن کی رو سے جدائی ممکن ہوجاتی ہے۔ 
 مثلاً اگر نفرت و کراہت کا اظہار شوہر کی جانب سے ہو تو اسے طلاق کا اختیار ہے اور اگر ناپسندیدگی زوجہ کی طرف سے ہو تو وہ خلع حاصل کرسکتی ہے۔ نیز اگر نارضا مندی میں دونوں شریک ہوں تو پھر ضابطۂ مبارات کی سمت رجوع ہونا پڑے گا۔ 
ان میں سے ہر ایک کےلئے کچھ احکام، بعض شرطیں اور خاص مواقع ہیں جن کا اعتبار واجب ہے۔ 
 اسلام چونکہ ایک اجتماعی دین ہے اور اس کی عمارت و حدت و یکتائی کی بنیادوں پر کھڑی کی گئی ہے۔ اس مذہب کا سب سے بڑا مقصد محبت و اتفاق ہے اس لئے اس کی حدوں میں انتشار اور تفرقہ کو انتہائی مذموم سمجھا جاتا ہے۔ 
 بنابریں اکثر روایات میں طلاق کی کراہت کا ذکر موجود ہے اور بعض احادیث میں وارد ہوا ہے کہ : ’’ما من حلالٍ أبغض الی اللہ من الطلاق‘‘ (کافی،ج۶،ص۵۴،ح۲ و ۳)حلال خدا میںطلاق سے زیادہ کوئی ناپسندیدہ چیز نہیں ‘‘۔ 
اسی واسطے شارح مقدس نے طلاق کے سلسلہ میںکچھ شرطیں لگادیں اور بعض قیود  عائد کردیئے تاکہ اس نوع کے حادثے کم سے کم تعداد میں وقوع پذیر ہوں۔ 
چنانچہ امامیہ مذہب کے ’’احکام طلاق ‘‘ میں شاہدَین عدلّین(دو عادل گواہوں) کا ہونا شرط لازم ہے’’و اشھدوا ذوی عدل منکم‘‘(سورہ طلاق،۲)۔ اگر دو عادل گواہوں کے بغیر طلاق دی جائے گی تو وہ باطل متصور ہوگی۔ 
یہ شرط باہمی نفرت کو ختم کرنےکا بہترین وسیلہ ہے۔ کیونکہ نیک اور عادل نفوس کو معاشرہ میں ایک ممتاز حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اور ان کی شخصیت عام دلوں پر خاصہ اثر کرتی ہے۔ نیز گواہ جب اچھے صفات کے حامل ہوں گے تو وعظ و نصیحت اور صلح و صفائی کی جانب توجہ دینا اپنا فرض سمجھیں گے۔ ہاں! یہ ضروری نہیں کہ ہر موقع پر ان کی کوششیں بار آور ہوجائیں ۔لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ اس طریقہ سے فارغ خطی کے واقعات میں کافی کمی واقع ہوسکتی ہے۔ 
 مگر افسوس کہ برادران اہل سنت نے اس فلسفہ پر دھیان نہیں دیا۔ اور انہوں نے طلاق کے لئے ’’ شاہدین ، عدلین‘‘ کی موجودگی کو لازم نہیں قرار دیا۔ نتیجہ ان کے ہاں طلاق کا دائرہ اتنا پھیلا کہ سخت مشکل آن پڑی۔ 
 شریعت کےمقدس اور بلند مقاصد نیز اس کے تمدنی اسرار و رموز سے تقریباً سب ہی غافل ہیں۔ کاش مسلمان پوری تندہی کے ساتھ احکام زبانی پر عمل پیرا ہوسکیں۔ تاکہ کم از کم ان کی عائلی زندگی میں جو تلخیاں پیدا ہوگئی ہیں اور خانگی نظام میں جو ابتری پھیلی ہوئی ہے اس کا ارتفاع ہوجائے 
دوسری بڑی شرط یہ ہے کہ طلاق دہندہ مجبور، مشتعل اور بےحواس نہ ہو۔ نیز طلاق پانے والی پاک ہو۔ اس طہر میں اس سے اختلاط نہ کیا گیا ہو۔ 
فقہ جعفری میں طلاق ثلاث ایک ہی طلاق تسلیم کی جاتی ہے۔ 
پس اگر کوئی شخص ایک ہی نشست میں اپنی بیوی کو تین مرتبہ طلاق دے دے تو وہ ہمیشہ کے لئے اس پر حرام نہیں ہوتی۔ بغیر محال کے اس کا رجوع کرلینا جائز ہے۔ البتہ اگر رجوع کے بعد پھر طلاق ہوجائے اس کے بعد پھر رجوع اور پھر طلاق تو تیسری بار وہ حرام ہوجائے گی۔ اور پھر اس وقت تک حلال نہیں ہوسکتی جب تک کہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے۔ نیز اگر نو بار یہی عمل جاری رہے تو نویں مرتبہ حرام موبد ہوجائے گی۔ یعنی اپنے پہلے خاوند کے لئے ہمیشہ کے واسطے ناجائز قرار پائے گی۔ 
سواد اعظم کے بیشتر علماء نے ’’ طلاق ثلاث‘‘ کے ضمن میں اختلاف فرمایا ہے ان حضرات کے نقطہ نظر سے کسی شوہر کا اپنی زوجہ سے یہ کہہ دینا کہ ’’ میں نے تجھ کو تین مرتبہ طلاق دی ‘‘ طلاق بائن ہے۔ جس میں بغیر محلل کے دوبارہ حلال ہونا ممکن نہیں۔ حالانکہ ان کے صحاح میں یہ صراحت موجود ہے کہ ’’ طلاق ثلاث‘‘ طلاق واحد ہی کے مانند ہے۔ جیسا کہ بخاری میںجناب ابن عباس کی سند سے مذکور ہے۔آپ فرماتے ہیںکہ ’’ عہد رسالت‘‘ دور ابو بکر اور حضرت عمر کی خلافت کےد و سال تک طلاق ثلاث طلاق واحد شمار ہوتی تھی۔ مگر حضرت عمر نے کہا کہ جس معاملہ میںانتظار چاہئے تھا۔ لوگوں نے اس میں جلد بازی شروع کردی۔ پس اگر ہم اسے نافذ کردیں، چنانچہ یہ رواج پاگیا‘‘۔( صیح بخاری میں مجھے نہیں ملا البتہ یہ روایت صحیح مسلم جلد ۹ صفحہ ۱۰۹۹، جلد ۱۰ اور مسند احمد جلد ۱ ص ۳۱۴ میں ہے )
 اور خود قرآن مجید واشگاف لفظوں میںاعلان کررہا ہے :الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ
’’طلاق ( رجعی) دو مرتبہ ہے۔ اس کے بعد یا تو قاعدہ کےمطابق روک لینا چاہئے اور یا پھر اچھے برتاؤ کے ساتھ رخصت کردیا جائے ‘‘۔
 اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے :فان طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ(سورہ بقرہ ۲۲۹۔۲۳۰)
پس اگر تیسری دفعہ بھی طلاق( بائن ) دے دے تو پھر جب تک دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے اس کے لئے حلال نہیںہوسکتی۔
 اسباب طلاق کی یہ ایک اجمالی بحث تھی تفصیل فقہی کتابوںمیں موجود ہے۔ علاوہ ازیں جدائی کے کچھ اور وجوہ بھی ہیں۔ مثلاً وہ عیوب و امراض جو موجب فسخ ہوتےہیں۔ جیسے جنون، جذام، اور عورتوں میں رلق و قرن کے عوارض ۔نیز ظہار و ایلاء بھی فراق پیدا کرتےہیں۔ 
عدہ کے اقسام: وطی شبہ اور ملک یمین کی متعلقہ تفصیل بھی مبسوط ذخیروں میں نظر آئے گی۔ 
 شوہر کے مرنے پر بیوی کےلئے مطلق طور پر عدہ واجب ہے خواہ وہ یائسہ ، صغیرہ، اور غیر مدخولہ ہی کیوں نہ ہو ۔ لیکن طلاق میں ان تینوں صورتوں کے علاوہ واجب ہے۔  البتہ ناجائز ہمبستری ( زنا) میں عدہ نہیں۔ 
 عدۂ وفات کی مدت چار مہینے دس دن ہے۔ اور حمل کی شکل میں ’’ بعد الاجلین ‘‘ کالحاظ کرنا پڑے گا۔ یعنی وضع حمل یا عدۂ وفات میں جو مدت زیادہ ہو اس کی پابندی لازم ہے۔ 
 عدۂ طلاق کی میعاد تین پاکیزگیاں یا تین ماہ کا عرصہ ، حاملہ کےلئے وضع حمل اور کنیز کے واسطے آزاد عورت کی نصف مدت مقرر ہے۔ 
 طلاق اگر تین مرتبہ نہیں واقع ہوئی ہے اور خلع کی صورت بھی نہیں ہے تو عدہ کے دوران میں شوہر رجوع کرسکتا ہے ۔ مگر عدہ کا زمانہ گزارنے کے بعد عورت کو اختیار حاصل ہے اور اس شکل میں دوبارہ نکاح کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ 
 ہمارے ہاں رجوع کے سلسلہ میں دو گواہوں کی موجودگی ضروری نہیں سمجھی جاتی جیسا کہ طلاق میں اسے لازم قرار دیا گیا ہے۔ لیکن مستحب ہے نیز اس کے لئے خاص الفاظ استعمال کرنے کی بھی کوئی حاجت نہیں۔ بلکہ ایسے الفاظ و اشارات ہی کافی ہیں جن سے منشاء پورا ہوجائے۔ 
 خلع و مبارات:علاقۂ زوجیت اس وقت تک منقطع نہیں ہوسکتا جب تک دونوں فریق یا دونوںمیں سے کوئی ایک ناپسندیدگی کا اظہار نہ کریں۔ عموماً یہی جدائی کی علت ہوتی ہے۔ پس اگر نفرت صرف شوہر کی طرف سے ہے تو اس کے ہاتھ میںطلاق ہے۔ جس کے ذریعہ اگر وہ چاہے تو چھٹکارا حاصل کرسکتا ہے۔ اور اگر زوجہ کراہت کرتی ہے تو اس کےلئے یہ قاعدہ ہے کہ وہ بطور فدیہ کچھ مال دے کر خواہ وہ زر مہر ہی کے برابر کیوں نہ ہو یا اس سے زیادہ کچھ ایصال کرکے مقررہ صیغہ جاری ہونےکے بعد آزاد ہوسکتی ہے۔ اسے خلع کہتے ہیں ۔ اس میں طلاق کی تمام شرطوں کا التزام ہے اور مزید برآں یہ کہ مظاہرۂ نفرت عورت ہی کی طرف سے ہو۔ اور وہ بھی پوری شدت کے ساتھ۔ 
جیسا کہ کلام باری میںارشاد ہوتا ہے :
 فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ(سورہ بقرہ ۲۲۹)
پس اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ یہ دونوں حدود خداوندی کو بر قرار نہیں رکھ سکیں گے تو اگر عورت مرد کو کچھ دے کر چھٹکارا ( خلع) حاصل کرلے تو اس میں دونوں کے لئے کوئی حرج نہیں ۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جن سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔ 
اس آیت کے ذیل میں اہل بیتؑ کی تفسیر یہ ہے کہ ’’ زوجہ اپنے شوہر سے یہ کہنے لگ جائے کہ میں تیری قسم کا اعتبار نہیں کروں گی۔ تیرے بارےمیں اللہ کے مقرر کئے ہوئے قانون کی پابندی نہیں کروں گی۔ ہمبستری کے لئےتیار نہیں ہوں گی اور تیرے گھر میں ناپسندیدہ عناصر کو جگہ دوں گی ‘‘ (تفسیر عیاشی جلد ۱ ص۱۷، /۳۶۷، تفسیر قمی جلد ۱ ص ۷۵ ، مجمع البیان ۱۳۲۹)ظاہر ہے کہ اس سے انتہائی نفرت کا اعلان ہوتا ہے۔ اور ملاپ کا کوئی امکان نہیں نظر آتا ۔ 
لیکن اگر منافرت میں دونوں یکساں ہوںتو یہ مبارات کی شکل ہوگی۔ اس میں بھی طلاق کی تمام شرطوںکا پابند ہونا ضروری ہے۔ اس موقع پر شوہر کو زوجہ سے دیئے ہوئے زر مہر سے زائد مال لینےکا حق نہیں ۔ 
 خلع و مبارات میں طلاق ، بائن ہوتی ہے۔ جس میں شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار نہیںرہتا۔ البتہ فدیہ کے بعد عورت کویہ حق پہنچتا ہے ایسی صورت میں مرد چاہے تو قاعدہ کے مطابق عدہ کے دوران میں رجوع کرسکتا ہے۔ 
 ظہار ، ایلاء ، لعان:فی الجملہ یہ بھی تحریم کا باعث ہیں۔ مگر اپنی خاص شرطوں کے ساتھ جو فقہ کی کتابوںمیں مستور ہیں۔ چونکہ ایسے حادثے کم ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ بنا بریں ان سے بحث نہیں کی جارہی ہے۔
وراثت
ایک مالک کے فوت ہونے سے دوسرے کے نام کسی مال یا حق کے منتقل ہونے کو اس نسبی یا سببی رشتہ کے باعث جو ان دونوں میں موجود ہو’’ وراثت‘‘ کہتے ہیں۔ 
 زندہ قرابت دار’’ وارث‘‘ ، متوفی’’ موروث‘‘ اور استحقاق’’ ارث‘‘ کہلاتا ہے ۔ ایک شخص کا دوسرے سے یا دونوںکا تیسرے سے متولد ہونا نسب ہے۔ 
اگر کسی وارث کا حق کتاب الٰہی میں معین ہے تو وہ اس زمرے میں شمار ہوگا جو باعتبار’’ فرض‘‘ ورثہ پاتے ہیں، ورنہ’’ قرابت‘‘ کے لحاظ سے ورثہ دار ہوگا۔ 
قرآن مجید میںمنصوص حصے چھ ہیں۔ حصص اور حقداروں کی تشریح حسب ذیل ہے:
۱۔ نصف (ڑ   ):  
الف: شوہر بشرطیکہ زوجہ کا کوئی لڑکا نہ ہو۔  ب: ایک لڑکی۔ یہاں بھی لڑکے کی عدم موجودگی  شرط ہے۔ ج: بہن۔ اس میں بھی یہی اعتبار ہے۔ 
۲۔ ربع: (۴؍۱): الف: شوہر جب زوجہ کا لڑکا موجود ہو۔ ب: زوجہ۔ بشرطیکہ شوہر کا فرزند نہ ہو۔ 
۳۔ثمن: (۸؍۱)بیوی، لڑکے کی موجودگی میں ۔
۴۔ثلث:(۳؍۱) ماں ، لڑکے کے نہ ہونے کی شکل میں ۔ نیز کلالۂ مادری کے متعدد افراد۔
۵۔دو ثلث: (۳؍۲) دو لڑکیاں جبکہ کوئی لڑکا نہ ہو۔ 
۶۔سدس: (۶؍۱) ماں باپ میں سے ہر ایک ، لڑکے کی موجودگی میں۔ نیز کلالۂ مادری کا ایک فرد خواہ مرد ہو یا عورت۔
اور جو اس جدول( چارٹ) میں نہیں آتے ہیں وہ قرابت داری کی وجہ سے وارث ہوں گے۔ 
 عورت کے مقابلے میں مرد کا حصہ دُگنا ہے، للذکر مثل حظ الانثیین ( نساء ۱۱)
 نسبی وارثوں کے تین طبقے ہیں:(۱)ماں، باپ ، اولاد، نیچے تک۔ (۲) اجداد اوپر تک، بھائی نیچے تک، (۳) چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ جو سبب اولوالارحام ہیں۔ ان میں کوئی صاحب فرض نہیں۔ اس سلسلہ میں کلی قاعدہ یہ ہے کہ قریب کی  موجودگی میں بعید قطعاً وارث نہیں ہوسکتا۔ 
 فرقہ شیعہ اور اہل سنت کے درمیان سوائے عول و تعصیب کے باقی مسائل ارث میں چنداں اختلاف نہیں۔ 
 امامیہ فقہ میں اہل بیت اطہارؑ کے طریقوں سے تواتر کے ساتھ یہ ثابت ہے کہ وراثت میں نہ عول ہے نہ تعصیب(دیکھئے علل الشرائع جلد ۲ ص۵۶۸، عیون الاخبار الامام الرضاؑ جلد ۲ ص۱۲۵) اور یہی اعاظم صحابہ کا بھی مسلک تھا۔ چنانچہ جناب ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس مشہور و معروف بیان کو سنداً پیش کیا جاسکتا ہے جس میں آپ نے ’’ عول و تعصیب‘‘ کی نفی فرمائی ہے: ان الذی احصی رمل عالج لیعلم ان الفریضۃ لاتعول( علل الشرائع جلد ۳ ص۵۶۸) اس کے علاوہ بھی کافی دلائل موجود ہیں۔ 
’’حَبوہ‘‘ متوفی کے فرزند اکبر کو ایصال ہوتا ہے۔ اس میں موروث کے کپڑے ، تلوار، قرآن  اور انگشتری شامل ہے۔ 
 زوجہ کو اراضی مزروعہ وغیرمزروعہ پر کوئی حق نہیں ۔ اسی طرح جائیداد غیر منقولہ میں سے اسے عمارتوں اور درختوں کی صرف قیمت ( بقدر حصہ) ادا ہوگی۔ اصل پر قبضہ نہیں دیا جائے گا ان دو مسائل میں شیعہ منفرد ہیں اور ائمہ معصومینؑ کے اقوال سے ان نظریات کو قوت حاصل ہے۔ 
 وقف ، ہبہ اور صدقات:
وہ مال جو کسی کی ملکیت ہو اور وہ اسے اپنے تصر ف سے نکالنا چاہے تو یا تو یہ اخراج مطلق حیثیت سے ہوگا۔ یعنی یہ کہ جائیداد نہ صرف قبضہ سے باہر ہو جائے بلکہ قطعی طور پر ناقابل ملکیت بن جائے ۔ جیسے غلام کو آزادی بخش دی جائے  یا کسی مکان و زمین کو ملکیت سے جدا کرکے عبادت کدہ، مسجد یا زیارت گاہ بنا دیا جائے۔ اس نوعیت کے اقدام سے کوئی جائیداد کبھی کسی سبب اور وجہ سے بھی دوبارہ ملکیت میں نہیں آسکتی۔ 
 دوسری شکل یہ کہ ملکیت کے اخراج میں صرف یہ پہلو ملحوظ رکھا جائے گا کہ وہ ایک مالک کے تصرف سے نکل کر دوسرے کے قبضہ میں چلی جائے۔ 
 اب یہ عمل یا تو کسی مالی مفاہمت کی بنیاد پر ہوگا جیسے خرید و فروخت ، بیع وفا و صلح وغیرہ اور یا پھر مالی معاوضے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ دوسری شکل میں اگر مقصد اجر و ثواب للٰٗہیت ہے تو عام مفہوم میں اسے’’ صدقہ ‘‘کہیں گے۔ نیز اگر مال اس قسم کا ہے کہ قابل لحاظ مدت تک رہ سکے اور صدقہ دینے والے کی نیت بھی یہی ہو کہ مال رہے اور نفع امورِ خیر میں کام آئے تو یہ’’ وقف‘‘ کہلائے گا۔ لیکن اگر مال رہنے کے قابل نہیں اور خیرات دہندہ نے اس کی بقا کی شرط بھی نہیں لگائی ہے تو اسے خاص مفہوم میں’’ صدقہ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ 
 علاوہ ازیں اگر کسی شخص کو کسی اثاثے یا جائیداد کا مالک قرار دینے میں اجر و ثواب مقصود نہ ہو تو اسے ’’ہبہ‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن اگر اس بخشش کے مقابلے میں کوئی معاوضہ طلب کرلیا جائے تو ہبہ عوض کی شکل میں ہوگی۔ جیسے کوئی آدمی دوسرے سے کہے کہ میں تمہیں یہ کُرتا ہبہ کرتا ہوں تم مجھے وہ کتاب ہبہ کردو۔ پس اگر طرف مقابل قبول کرلے تو لزوم عائد ہوجائے گا۔ اور فریقین میں سے کوئی بھی اپنا اپنا مال لینے کا مجاز نہیں۔ مگر یہ کہ دونوں قول و قرار فسخ کرنے پر رضا مند ہوجائیں۔ ہبہ کی تمام صورتوں میں قبضہ شرط ہے۔ 
 ہبہ جائزہ میں یعنی جس میں کوئی معاوضہ نہ حاصل کیا گیا ہو دی ہوئی چیز کا واپس لے لینا صحیح ہے۔ البتہ قرابتداروں ( ذوی الارحام ) شوہر اور زوجہ سے تلف شدہ مال کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیاجاسکتا۔ 
قبضہ کے بعد صدقات کا واپس لینا بھی درست نہیں ۔ بلکہ اگر قبضہ نہ بھی ہو جب بھی ان کی باز یافت جائز نہیں قرار دی جاسکتی۔ 
صیغۂ وقف جاری کرنےکے بعد جب جائیداد متولی یا جن کےلئے وقف کی گئی ہے ان کے قبضہ میں دے دی جائے ، نیز اگر خود واقف بھی تولیت کے ارادہ سے وقف کردہ جائیداد پر متصرف ہوجائے تب بھی اسے دوبارہ واپس لینے ، بیچنے ، رہن رکھنے یا تقسیم کرنے کا حق نہیں رہتا۔ خواہ یہ وقف علی الاولاد ہی کیوں ہو جسے’’ وقف خاص‘‘ سے موسوم کیاجاتا ہے۔ یا ’’وقف عام‘‘ ہو جیسے غریبوں ، ناداروں اور مساجد و مدارس کے نام موقوفہ جائیداد۔
البتہ چند خاص مواقع ایسے ہیں جہاں استثنائی صورت پیدا ہوسکتی ہے اور وقف شدہ جائیداد کو فروخت کیاجاسکتا ہے۔ مثلاً وقف کا خراب ہوجانا مگر خرابی کی وہ منزل جس میں اصل سے کوئی فائدہ نہ ہوتا ہو۔ برباد ہونے کا شدید اندیشہ جس میں نفع کی صورت ختم ہوتی نظر آرہی ہو۔ قابضوں کا ایسا اختلاف جس سے جان ، مال اور عزت و آبرو کو گزند پہنچنے کا خطرہ لاحق ہوجائے۔ 
 مگر ان تمام حالات کے باوجود کسی شخص کو خود بیچنے یا حصے بخرے کرنےکا حق نہیں پہنچتا۔ بلکہ فیصلہ کا دار و مدار حاکم شرع پر ہوگا۔ حاکم شریعت ہی کو اختیار ہے کہ وہ جملہ کوائف کا جائزہ لیکر مناسب حکم صادر کرے۔ 
لیکن افسوس کہ اوقاف کے سلسلہ میں لوگ انتہائی مساوات میں پڑ گئے ہیں حدودِ شریعت کا خیال نہیں رہا۔ اور مقررہ ضابطوں کی پرواہ نہیں کی جارہی ہے بہرحال خداوند عالم سب کے عزم و عمل سے آگاہ ہے۔ وھو اللطیف الخبیر ۔
یہ وقف کا مختصر سا بیان تھا جسے شہرت عام حاصل ہے۔ 
 مقدمات کے فیصلے:
 عہدۂ قضا اور نظامت انصاف کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور ہے بھی یہ انتہائی معزز رتبہ ۔ امامیہ مذہب میں عدلیہ کی ذمہ داری کو نبوت، امامت  اور ریاست عامہ کا ایک شعبہ تصور کیاجاتا ہے۔ پروردگار عالم ارشاد فرماتا ہے:
يَا دَاؤُدُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ(سورہ ص ،۲۶)
اے داؤد ہم نے تمہیں زمین پر خلیفہ بنایا ہے۔ لہٰذا تم انصاف کےساتھ لوگوں کے فیصلے کیا کرو۔ 
دوسرا فرمان ہے :فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا(سورہ نساء ۶۵)
قسم ہے تمہارے رب کی ( اے رسولؐ) جب تک یہ لوگ آپس کے جھگڑوں میں بغیر کسی تنگدلی کے تم کو ’’حکم ‘‘نہیں بنائیں گے۔ اور پوری طرح تمہارے فیصلے کو تسلیم نہیں کرلیں گے۔ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے‘‘۔
 قاضی اور حاکم نوامیس ثلاثہ یعنی جان ، مال اور عزت کے خدائی امانت دار ہوتے ہیں۔ اسی لئے اس عہدہ میں قدم قدم پر سخت خطرے لاحق رہتے ہیں۔ چنانچہ اس بارے میں حدیثوں کے مضمون پر غور کیاجائے تو کمال عظمت سے پہاڑ بھی ہیچ معلوم ہونے لگتے ہیں۔ امیر المومنین  علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’ القاضی علی شفیرۃ جہنم، ولسان القاضی بین جمرتین من نار‘‘ ( تہذیب الاحکام جلد ۶ صفحہ ۲۹۲، ح۸۰۸)
 ’’ قاضی کو جہنم کے کنارے پر سمجھنا چاہئے ۔ قاضی کی زبان دو انگاروں کے بیچ میں ہوتی ہے۔
 یا شریح قد جلست مجلساً لایجلسہ الا نبی او صی نبی او شقی۔( الکافی جلد ۷ ص۴۰۶،ح ۲۔ الفقیہ جلد ۳ ص۱۵، ح۲۳۲۳ ۔ المقنع ص ۱۳۲) اے شریح ! تم ایسی جگہ بیٹھے ہو جہاں نبی بیٹھتا ہے ۔ یا اس کا وصی یا پھر کوئی شقی‘‘۔
 حدیث نبویؐ میں وارد ہوا ہے: من جعل قاضیاً فقد ذبح بغیر سکین،( المقنعۃ ص ۷۲۱، سنن ابی داؤد جلد ۳ ص۲۹۸، ح۳۵۷۱۔ سنن الترمذی جلد ۳، ص۶۴، ح۱۳۲۵۔سنن ابن ماجہ جلد ۲ ص۷۷۴ ح۲۳۰۸۔مسند احمد جلد ۲ ص۲۳۰)’’’ جسے قاضی بنا دیا گیا اسے گویا بغیر چھری کے ذبح کردیا گیا‘‘ اس قبیل کی اور بہت سی روایتیں ہیں۔ فقہ جس حکم کو دلائل سے مستنبط کرتا ہے اگر وہ کسی کلی موضوع سے متعلق ہے تو اسے ’’فتویٰ‘‘ کہیں گے۔ جیسے بغیر اجازت کے دوسروں کےمال میںتصرف جائز نہیں۔ شوہر کے لئے اس کی بیوی حلال ہے اور اجنبی کے واسطے حرام! لیکن اگر حکم کسی حزئی موضوع کے بارےمیں ہے تو اسے ’’فیصلہ‘‘ اور’’ قضا ‘‘کا نام دیا جائے گا۔ جیسے یہ زوجہ ہے ،وہ جنبیہ ہے۔ یہ زید کا مال ہے، وہ فلاں کی جائیداد ہے۔ 
’’فتویٰ ‘‘ہو یا’’ فیصلہ‘‘ یہ دونوں مجتہد عادل اور امام علیہ السلام کے نائب عام کے خصوصی فرائض ہیں ۔ فیصلہ ( قضا) جو فی الحقیقت کسی موضوع کی تشخیص ہوتا ہے۔ یہ خواہ مرافعہ اور مقدمہ کے ساتھ ہو یا اس کے بغیر جیسے رویت ہلال اور وقف ونسب وغیرہ کے متعلق صدور حکم ۔بہر کیف اس کے لئے غیر معمولی عقل و فہم اور ذکاوت وذہانت درکار ہے۔ بلکہ’’ فیصلہ‘‘  ’’فتویٰ ‘‘سے زیادہ مشکل کام ہے۔ 
اب اگر کوئی ایسا شخص اس کام کو انجام دینے لگے جس میں ان صفات کا فقدان ہو تو یقینی طور پر فائدہ سے زیادہ نقصان پہنچے گا۔ بنابریں امامیہ مذہب میں مجتہد عادل کے سوا کسی اور شخص کے لئے اس کام کی انجام دہی ناجائز قرار دی گئی ہے۔ بلکہ اسے گناہان کبیرہ میں شمار کیاجاتا ہے۔ جس کی حدیں کفر سے جا ملتی ہیں۔ 
ہمارے اساتذہ کرام حکم نافذ کرنے میں انتہائی احتیاط برتتے تھے ہمارا بھی یہی شعار ہے۔ 
 فیصلہ کا دار و مدار تین بنیادی امور پر ہوتا ہے : (۱) اقرار ، (۲) بینہ ، (۳) قسم۔ بینہ سے مراد دو عادل گواہ ہیں۔ 
اختلاف و تعارض کے موقعوں پر تقدیم و ترجیح سے کیوں کر فائدہ اٹھایا جائے یہ قانون شہادت کی تفصیل طلب شقیں ہیں جن کی تصریح کا موقعہ نہیں اس عنوان پر ہمارے فقہا ءکی مستقل تصانیف موجود ہیں ہم اپنی کتاب تحریر المجلہ میں بھی خاص روشنی ڈال چکے ہیں۔ حاکم جامع الشرائط کے حکم کو رد کرنےو الا احکام خداوندی کو رد کرنے والا متصور ہوگا۔ نیز اس کے فیصلہ پر دوسرے کو نظر ثانی کرنے کا حق نہیں۔ البتہ وہ خود اپنے فیصلہ کا مکرر جائزہ لے سکتا ہے۔

ذبح و شکار
فقہ جعفری میں کلی قاعدہ تو یہ ہے کہ جانوروں کو کھانا مطلق طور پر حلال ( یعنی کچھ شرطوں کے ساتھ جائز ہے ) اور خون جہندہ رکھنے والے حیوانات موت سے نجس ہوجاتے ہیں نیز جانوروں کی دو قسمیں ہیں نجس العین ، طاہر العین
نجس العین وہ جانور ہیں جن کی طہارت ناممکن اور بہر صورت ان کا کھانا حرام ہے جیسے کتّا اور سور۔
دوسری قسم کے حیوانات اگر بغیر شرعی تذکیہ کے مرجائیں تو وہ بھی نجس العین ہوں گے۔ اور ان کا استعمال بھی مطلقاً حرام ہوگا۔ خواہ پرندہوں یا چرند، جنگلی ہوں یا پالتو، اور خون جہندہ رکھتے ہوں یا نہ۔لیکن اگر تذکیہ شرعی سے مرے ہیں تو مطلق طور پر طاہر العین ہوں گے۔ 
درندے اور وحوش ناجائز ہیں۔ اگر چہ وہ پاک ہی کیوں نہ ہوں۔ 
خون جہندہ رکھنے والے حیوانات کے تذکیہ کے دو طریقے ہیں:
 (۱) شکار: اس میں بھی حلال کرنے کی دو صورتیں ہیں:
(الف) اس سدھائے ہوئے کتے کے ذریعہ شکار کیا جائے جو حکم مانتا ہو اور اپنا شکار کھانے کا عادی نہ ہو۔ اس میں یہ بھی شرط ہے کہ کتے کو چھوڑنے والا مسلمان ہو اور چھوڑتے وقت اس نے اللہ کا نام لیا ہو نیز شکاری کی نظروں سے اوجھل نہ ہونے پائے۔ 
(ب) تیراندازی کے وسیلے شکار حاصل کیاجائے۔ اس میں تلوار، نیزہ بلکہ تمام آلات جارحہ اور لوہے کے جملہ نوکدار ہتھیار شامل ہیں۔ بندوق کی گولی بھی ( آہنی ہو یا کسی اور دھات کی) ان ہی میں شمار ہوگی۔ 
 مگر شرط یہ کہ حربے استعمال کرنےوالا مسلمان ہو اور ہتھیار چلاتے وقت اللہ کا نام لیا ہو ۔ اگر سدھائے ہوئے کتے یا تیر تفنگ سے شکار کا کام تمام ہوجائے تو اس کا کھانا جائز ہے۔ لیکن اگر صیاد اپنے صید کو زندہ پالے تو اس کا تذکیہ کرنا چاہئے۔ علاوہ ازیں دوسرے وسائل جیسے چیتے یا جال پھندے سے حاصل شدہ شکار ناجائز ہے ۔ البتہ اگر زندہ ہاتھ آجائے تو تذکیہ کے بعدجائز ہوگا۔ 
(۲) شرعی ذبیحہ: اس کے لئے ہمارے ہاں پہلی شرط یہ ہے کہ ذبح کرنےو الا مسلمان یا مسلمانوں کے حکم میں ہو ( جیسے کسی مسلمان کا لڑکا یا کسی مسلمان کوملا ہوا بچہ) دوسری شرط یہ کہ امکان میں ہوتے ہوئے لوہے کے ہتھیار سے حلال کیا جائے۔ مگر ضرورت کے وقت ہر اس چیز کا استعمال صحیح ہوگا جس سے معینہ رگیں کٹ جائیں ۔اللہ کا نام لینا بھی شرط ہے۔ قبلہ رخ ہونا بھی ضروری ہے۔ نیز ’’ اوداج اربعہ‘‘ یعنی شہ رگوں اور نرخرے کا کٹنا لازمی ہے۔ البتہ اونٹ کے لئے ذبح کی جگہ نحر کافی ہے۔ اور باقی حیوانات کے سلسلہ میں اگر ذبح نا ممکن ہو تو نحر کرنا جائز ہوگا۔ ان کے علاوہ وہ حیوانات جن میں خون جہندہ نہیں ہوتا وہ سب حرام ہیں۔ جیسے دریائی جانور کہ ان میں سوائے چھلکوں والی مچھلی کے اور کوئی جائز نہیں ہے۔ مچھلی اگر پانی کے باہر مرجائے تو ا س کا تذکیہ ہوجاتا ہے۔ اس موقعہ پر ہمیں ایک پر لطف واقعہ یاد آگیا محمد ابن نعمان احول جنہیں ’’ مومن طاق‘‘ کے نام سے شہرت حاصل ہے۔ بیان فرماتے ہیں کہ ’’ ایک دفعہ میں ابو حنیفہ کے پاس گیا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ آپ کے آگے کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ ابو حنیفہ کی جو نظر پڑی تو کہنے لگے: یہ کتابیں دیکھ رہے ہو؟ میں نے کہا جی ہاں، سامنے ہیں۔ فرمانے لگے تمام کی تمام طلاق کے موضوع پر ہیں۔ میں نے کہا اس سلسلہ میں کلام الٰہی کی ایک ہی آیت نے ہمیں آپ کی ان تمام کتابوں سے بے نیاز کردیا ہے ارشاد ہوتا ہے :
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ۔(سورہ طلاق ،۱)
’’ اے رسولؐ! جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے ہنگام دو اور عدہ کا حساب رکھو۔ 
یہ سن کر آپ کہنے لگے: اچھا تم نے اپنے دوست ( امام جعفر صادقؑ) سے کبھی یہ بھی پوچھا کہ دریائی گائے کے متعلق ان کی کیا رائے ہے ، اس کا کھانا جائز ہے یا ناجائز ؟ مومن طاق بیان کرتے ہیں: میں نے کہا جی ہاں! حضرتؑ کا ارشاد ہے :  ’’ کل ما لہ فلس فکلہ جملاً کان او بقرۃ ، وکل ما لا فلس لہ لا یحل اکلہ ‘‘’’ ہر چھلکوں والی چیز وہ اونٹ ہو یا گائے کھائی جاسکتی ہے، اور جس کے چھلکے نہ ہوں اس کا کھانا حرام ہے ‘‘۔ (الاختصاص صفحہ ۲۰۶، رجال کشی جلد ۲ ص۶۸۱ح ۷۸۱)( ان دونوںکتابوں میں مومن طاق کے بجائے حریز سے نقل ہے)
 اور ہمارے یہاں مچھلی کا تذکیہ اس کا پانی کے باہر ہونا ہے۔
 خورد و نوش:
حیوانات کی تین قسمیں ہیں : زمینی ، آبی ، ہوائی۔ 
یہ ابھی معلوم ہوچکا ہے کہ آبی جانوروں میں سوائے چھلکوں والی مچھلی کے اور کوئی چیز حلال نہیں ہے۔ مچھلی کے انڈے بھی مچھلی ہی کے حکم میں ہیں۔ 
 حیوانات زمینی میں پالتو مواشی، جنگلی گائیں، پہاڑی مینڈھے ، نیز ہرن اور بارہ سنگھے جائز ہیں۔ 
 گھوڑے خچر اور گدھے مکروہ ہیں۔ نجاست کھانے والے جانور حرام ہیںلیکن استبراء کے بعد کھائے جاسکتے ہیں۔ 
 درندوں کی تمام قسمیں حرام ہیں، خرگوش، لومڑی، بجّو اور نیولے وغیرہ یہ سب ناجائز ہیں۔ کیڑے مکوڑے جیسے لال بیگ ، کیچوے سانپ بچھو مطلقاً حرام ہیں۔ 
پرندوں میں درندگی کی صفت رکھنےو الے طائر جیسے باز، بہری وغیرہ مطلق طور پر ناجائز ہیں۔ علاوہ ازیں شارع مقدس نے حلال پرندوں کی پہچان کے لئے تین حالات میں تین علامتیں قرار دی ہیں:
 طائر اگر فضا میں ہو تو اس کے پروں میں جنبش سے زیادہ ٹھہراؤ ہونا چاہئے۔ 
 زمین پر ہو تو پیر میں خار کا ہونا ضروری ہے۔ 
ذبح شدہ حالت میں اگر پوٹا ہے تو حلال ورنہ حرام سمجھنا چاہئے۔ 
چمکگادڑ، مور، بھڑیں اور مماکھی یہ سب ناجائز ہیں۔ وہ کوّا جو (یہ کوّا ہمارے ملک میں نہیں ہوتا) نباتات کھاتا ہو جائز ہے اور مردار کھانےو الا حرام ہے۔ 
حیوانات کے علاوہ ناجائز خورد و نوش کو چار کلیات میں منضبط کیا جاسکتا ہے:
(۱): ہر غصب شدہ چیز کا استعمال حرام ہے۔  (۲): ہر نجس حرام ہے۔  (۳): ہر مضر حرام ہے۔  (۴): ہر خبیث حرام ہے۔ 
 سیال اشیاء میں سب سے زیادہ شدید حرمت پیشاب کی ہے۔ اور اس سے بڑھ کر خمر ، نبیذ ، فقاع، عصیر ( شراب کے جملہ اقسام)۔ امامیہ مذہب میں شراب کی حرمت و نجاست کے سلسلہ میں تمام اسلامی فرقوں سے زیادہ سخت احکام ہیں۔ چنانچہ اس ضمن میں ائمہ طاہرین علیہم السلام سے جو روایتیں ملتی ہیں ان کے مضامین دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کشید کرنے والے ، ذخیرہ اندوز، فروخت کنندہ اور مے نوش ان تمام پر نفرین کی گئی ہے۔ ہماری شریعت میں اسے ’’ ام الخبائث‘‘ ({ FR 191 })کہاجاتا ہے۔ اہل بیتؑ کی بعض حدیثوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میز پر بیٹھنا بھی حرام ہے جس پر مسکرات کو جگہ دی گئی ہو({ FR 192 })۔ غالباً اس میںراز یہ ہے کہ لوگ شدت کے ساتھ ناجائز مشروبات سے پرہیز کریں۔ اور دوسرے اشیاء میں ان کے اثرات سرایت نہ کرنے پائیں۔ علوم جدیدہ کے ماہروں نے کیمیاوی تجزیہ کے بعد اعتراف کیا ہے کہ شراب بری بلا ہے۔ نہایت مضر، حد درجہ ہلاکت آفریں!
اسلام نے تیرہ سو سال پہلے ہی اس حقیقت سے آگاہ کردیا تھا۔ چنانچہ آج وہ لوگ بھی اس سے کنارہ کش ہورہے ہیں جن کی شریعت اسے حرام نہیں قرار  دیتی ، شرع محمدؐ ی کی کیا تعریف ہوسکتی ہے۔ جو لوگ اس کی پابندی نہیں کرتے وہ خود کو تباہی میں ڈالتے ہیں۔ 
تعزیرات
حدود:
نظام اجتماعی کی حفاظت اور ہیئت انسانی کی صیانت کےلئے چند خاص جرائم کی یہ فوری سزائیں ہیں۔ 
 حد زنا:
 ہر وہ بالغ و عاقل جو جانتے بوجھتے ہوئے کسی نا جائز عورت کے ساتھ جنسی اختلاط کرے گا ۔تو صاحب اختیار حاکم پر واجب ہوگاکہ اسے سو کوڑے لگائے نیز سر منڈا کر ایک سال کے لئے شہر بدر کر وا دے۔ اور اگر زنائے محصنہ کا مرتکب ہوا ہے تو سنگ سار کیا جائے گا پھر اگر عورت بھی راضی ہو تو شوہر دار ہونے کی صورت میں اس کو بھی یہی سزا ملے گی۔ ورنہ صرف سو کوڑے لگائے جائیں گے۔ 
 اگر کسی شخص نے اپنی محرمات  نسبی رضائی یا سوتیلی ماں کے ساتھ ناجائز فعل کا ارتکاب کیا ہو یا کوئی ذمی کسی مسلمان خاتون سے زنا کرے ۔ تو اسے قتل کیا جائے گا۔ زنا بالجبر کی بھی یہی سزا ہے۔ 
زنا کے ثبوت کےلئے مجرم کا چار مرتبہ اقبال کرنا یا چار عادل گواہوں کی شہادت ضروری ہے۔ تین مرد اور دو عورتیں بھی کافی ہیں۔ اور اگر دو مردوں اور چار عورتوں نے گواہی دی ہے تو صرف کوڑے لگیں گے سنگسار نہیں کیا جائے گا۔ اس سے کم میں زنا کا ثبوت مکمل نہیں سمجھا جاسکتا ۔ نیز اگر دو یا تین آدمیوں نے شہادت دی تو انہیں قذف ( تہمت) کی سزا دی جائے گی۔ گواہوں کی گواہی میں کامل اتفاق اور مشاہدہ شرط ہے۔ 
 مجرم اگر سنگساری کے بموجب اقرار کرکے انکار کر جائے تو وہ حد ساقط ہوجائے گی اور اگر اقرار کے بعد توبہ کرلے تو حاکم کو اختیار ہے ۔ نیز گواہیوں کے بعد تو بہ کرنے سے حد ساقط نہیں ہوگی۔ 
 دو دفعہ کا سزا یافتہ مجرم اگر تیسری مرتبہ ارتکاب جرم کرے گا تو اسے قتل کی سزا دی جائے گی ۔ حاملہ پر وضع حمل تک اور بیمار پر صحت مندہونے تک حد نہیں جاری کی جاسکتی ہے۔ 
 لواط اور سحق کی سزائیں:
 کسی جرم و گناہ کی اتنی سزا نہیں جتنی کہ اس معصیت کے لئے قرار دی گئی ہے سوائے اس مقام کے اور کسی جگہ آگ سے جلانے کی اجازت نہیں، خلافِ وضع فطری عمل کرنے والے کے لئے حاکم وقت مفصل ذیل سزاؤں میں سے کوئی بھی سزا تجویز کرسکتا ہے:
 قتل، سنگساری ، بلندی سے گر اکر ہڈیاں چور کردینا، آگ میں جلانا، مفعول اگر بالغ و با اختیار ہے تو اسے قتل کی سزا دی جائے گی۔ اور کمسن کےلئے تعزیری کارروائی ہوگی۔ 
لواطت کے ثبوت کےلئے بھی یہی شرطیں ہیں جو زنا میں معتبر ہیں۔ اسی طرح سحق میں فاعلہ اور مفعولہ دونوں پر سو سو کوڑوں کی حد جاری ہوگی۔ نیز شوہر دار ہونے کی صورت میں سنگ ساری کی سزا بھی بعید نہیں، دلالوں کےلئے پچھتر کوڑے مقرر ہیں۔ علاوہ ازیں سر منڈوا کر شہر بدر بھی کیا جائے گا۔ ثبوت کے لئے دو عادل گواہوں کی شہادت یا دو مرتبہ اقرار کرنا کافی ہے۔ 
تہمت کی سزا :
اگر کوئی شخص کسی، عاقل، بالغ اور آزاد مسلمان پر کوئی ایسا الزام عائد کرے جس پر حد جاری ہوسکتی ہے۔ مثلاً زنا، لواط اور شراب نوشی کی تہمت تو اس جرم کی پاداش میں اسے (۸۰) اَسّی کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ قابل قبول ثبوت یا جس پر تہمت لگائی گئی ہے اس کی تصدیق سے حد ساقط ہوجائے گی۔ دو عادل گواہوں کی شہادت سے جرم صحیح سمجھا جائے گا۔ نا پسندیدہ خطاب مثلاً کسی کو فاسق ، فاجر، جذامی یا برصی کہنا بھی قابل تعزیر ہے ۔ نیز جوشخص نبوت کا دعویٰ کر بیٹھے یا چہاردہ معصومینؑ میں سے کسی پر سب و شتم کرے تو اسے قتل کی سزا دی جائے گی۔ 
 مسکر کی سزا: 
مے نوشی یا عہد قدیم و جدید کی کوئی نشہ آور چیز استعمال کرنے والے کی حد ۸۰ کوڑے ہیں جو ننگی پیٹھ اور شانے پر لگائے جائیں گے۔ 
 تین دفعہ کا سزا یافتہ اگر چوتھی مرتبہ مرتکب جرم ہوگا تو قتل کیا جائے گا ۔ شراب کو حلال سمجھنے والے کی بھی یہی سزا ہے۔ شراب بیچنے والا اگر اپنے پیشہ سے تائب ہوجائے تو فبہا ، ورنہ وہ بھی سزائے قتل کا مستحق ہوگا۔ 
 چوری کی سزا :
 بالغ و عاقل شخص اگر کسی بند چیز کی چوری کرے جس کی قیمت ۱/۴ مثقال خالص سونے کے مساوی ہو تو عدالت میں مرافہ اور دو مرتبہ اقرار یا بینہ کے بعد اس کے سیدھے ہاتھ کی چار انگلیاں قطع کی جائیں گی ۔ اور اگر وہ دو بارہ اس جرم کا مرتکب ہوگا تو پھر قدم کے بیچ سے اس کا بایاں پاؤں کاٹا جائے گا۔ تیسری دفعہ حبس دوام کی سزا دی جائے گی۔ نیز اگر وہ زندان میں بھی سرقہ کرے گا تو وہ قتل ہوگا۔ حد جاری ہونے سے پہلے اگر وہ کئی بار چوری کے جرم کا مرتکب ہوا ہے تو اس پر ایک ہی حد جاری ہوگی۔ بچے اور مجنون کےلئے حد نہیں تعزیر ہے چور کو مطلق طور پر تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ تاوان کے سلسلہ میں ایک مرتبہ کا اقبال اور ایک عادل گواہ کی شہادت قسم کے ساتھ کافی ہے۔ بیٹے کا مال چرانے پر باپ کے ہاتھ نہیں کاٹے جائیں گے لیکن برعکس اس کے بیٹے کے ہاتھ قطع ہوں گے۔ 
 محارب کی سزا:
شہر ، صحرا یا دریا میں لوگوں کو ڈرانے ، دھمکانے یا لوٹ مار کے ارادہ سے ہتھیار دکھانے والے کو حاکم حسب صواب دید قتل، پھانسی ، ہاتھ کاٹنے ، پیر قطع کرنے یا شہر بدری کی سزا دے سکتا ہے۔ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۔جو لوگ خدا اور رسول خدا سے جنگ کرتے ہیں۔ دنیا میں فساد پھیلانے کی سعی کرتے ہیں۔ ان کی سزا یہ ہے کہ یاتو انہیں قتل کیا جائے ۔ یا پھانسی دی جائے یا ہاتھ پیر کاٹے جائیں اور یا پھر شہر بدر کردیا جائے ‘‘ ( المائدہ آیت ۳۳)
 شہر بدری کی صورت میں مجرم کو جس علاقہ میں پابند کیا جائے ، وہاں کے باشندوں کو تحریراً مطلع کردینا چاہئے ۔ تاکہ لوگ اس کے ساتھ ترک موالات  ( سوشل بائیکاٹ) کریں یہاں تک کہ وہ تائب ہوجائے ۔ 
گھر پر حملہ کرنے والا چور ( ڈاکو) بھی محدب ہے۔ یہ اگر قتل ہوجائے تو اس کا خون رائیگاں تصور ہوگا ۔ اگر کوئی شخص کسی خاتون کی عزت یا بچے پر حملہ کرے تو انہیں حفاظت خود اختیار ی کا حق حاصل ہے ۔ اس سلسلہ میں حملہ آور مرجائے تو اس کا خون بھی رائیگاں جائے گا۔ ٹھگ، نو سرباز اور جھوٹے گواہ لائق تعزیر ہیں حاکم مناسب سزا تجویز کرسکتا ہے۔ 
 مختلف سزائیں:
 کسی چوپائے کے ساتھ بد فعلی کرنے والا واجب التعزیر ہے۔ باز نہ آنے کی صورت میں مستوجب قتل ہوگا ۔ ایسا چوپایہ جس کا گوشت کھایا جاتا ہو اس کا گوشت حرام ہوجائے گا۔ بلکہ اس کی نسل کا گوشت بھی ناجائز ہوگا۔ اس کے لئے حکم یہ ہے کہ ذبح کرکے جلا دیا جائے اور مالک کو قیمت دلوائی جائے ۔ مشتبہ جانور کو قرعہ اندازی کے ذریعہ نکالنا چاہئے لیکن جن حیوانات کا گوشت ناقابل خوردنی ہو ۔ انہیں دوسرے شہر میں فروخت کرکے ان کی قیمت تصدق کردینا چاہئے ۔ مال اگر مجرم کا نہیں ہے ۔ تو جس کا نقصان ہوا ہے۔ اس کے نقصان کی تلافی ضروری ہے دو عادل گواہوں کی شہادت یادو مرتبہ اقرار کرنے سے جرم ثابت ہوجائے گا۔ 
 میت کے ساتھ جنسی بے راہ روی اختیار کرنے والے کے لئے وہی حکم ہے جو زندہ کے لئے ہے۔ بلکہ یہاں عقوبت زیادہ شدید ہوجاتی ہے۔ بیوی اورمملوکہ کی صورت میں مناسب سزا دی جائے گی۔ اس کے ثبوت کے لئے بھی وہی شرائط ہیں جو زنا او رلواطت کے ہیں۔ 
استمناء بالید ( جلق) کرنے والا بھی لائق تعزیر ہے۔ ہر شخص ممکن طریقہ سے اپنی اپنے مال ، جائیداد اور متعلقین کے لئے مدافعت کرسکتا ہے ۔ لیکن پہلے آسان اور پھر تدریجاً سختی اختیار کرے۔ 
 کسی کے گھر میں جھانکنے والے کو اگر گھروالوںنے سنگ و خشت کا نشانہ بنادیا اور اس ضرب سے کام تمام ہوگیا تو اس کا خون رائیگاں سمجھا جائے گا۔ 
 قصاص اور دیت:
قتل ناحق ___سب سے بڑا گناہ اور عظیم ترین فساد!
جان بوجھ کر کسی مومن کو ہلاک کرنے کی سزا جہنم ہے جس سے کبھی چھٹکارا نصیب نہیں ہوسکتا۔ ( القرآن)
جرم خواہ اس حد تک ہو کہ کوئی جان تلف ہوجائے ۔ یا صر ف اس قدر کہ انسان کا کوئی جزو ضائع جائے بہرحال جرم ہے۔ 
 اس کی تین صورتیں ہیں: قتل عمد، شبیہ عمد، خطائے محض۔
قتل عمد کسی وضاحت کا محتاج نہیں ، شبیہ عمد کا یہ مطلب ہے کہ مجرم نے کوئی اقدام تو کیا ہو۔ مگر نیت قتل نہ رکھتا ہو۔ مثلاً کسی کو تادیباً زدو کوب کی جائے اور وہ اس صدمہ سے مرجائے یا کسی مریض کو کوئی دوا پلائی جائے۔ اور وہ اس کا کام تمام کردے۔ 
 خطائے محض کا یہ مفہوم ہے کہ مقتول سے متعلق نہ ارادہ ہو نہ اقدام اور خون ہو جائے ۔ جیسے کوئی شخص کسی پر ندہ کو نشانہ بنارہا ہو۔ مگر غلطی سے انسان ہدف بن جائے ۔ یا کوئی آدمی اپنی بندوق اٹھا رہا ہو اور وہ چھوٹ کر کسی کو ہلا ک کر دے۔
 اس کی زیادہ واضح قسمیں سوئے ہوئے آدمی، بے خیال شخص ، پاگل اور نا سمجھ بچے کے افعال ہیں۔ 
 ان تمام انواع میں مباشرت ، تسبیب اور انفراد و اشتراک یکساں حکم رکھتے ہیں۔ قصاص کا تعلق صرف قتل عمد سے ہے۔ شبیہ عمد اور قتل خطا میں دیت ادا کرنا پڑتی ہے۔ قصاص کےلئے مجرم کا بالغ و عاقل ہونا شرط ہے۔ بچہ اور مجنون قابل قصاص نہیںہیں۔ مقتول کےلئے بھی عقل و بلوغ ضروری ہے۔ چنانچہ اگر کوئی بالغ کسی، نابالغ کا خون کردے۔ تو اس کے لئے قصاص کے بجائے دیت ہے۔ بعض قصاص کے بھی قائل ہیں یہی کیفیت مجنون کی ہے۔ 
 جزوی نقصان میں اختیارمعتبر ہے مگر ہلاکت نفس میں جبر و اکراہ کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ خون کے معاملے میں تقیہ ناجائز ہے۔ مقتول کا معصوم النفس ہونا بھی ضروری ہے۔ یعنی ایسا شخص نہ ہو جسے قتل کرنے کی شریعت نے اجازت دی ہو۔ 
مجرم رشتہ میں مقتول کا باپ دادا یا پر دادا بھی نہ ہو۔ کیونکہ آباء و اجداد سے بیٹے یا پوتے کے قتل کے سلسلہ میں قصاص نہیں لیا جاسکتا۔ بلکہ انہیںصرف دیت ادا کرنا پڑے گی۔ مسلمان صرف مسلمان کے خون کی وجہ سے مستوجب قصاص ہوگا۔ اسی طرح آزاد سے صرف آزاد کا قصاص لیا جائے گا۔ 
 آزاد مسلمان کا خون بہایہ ہے: سو اونٹ یا دو سو گائیں یا ایک ہزار بھیڑیں، یا دو دو کپڑوں پر مشتمل سو حلے یاپھر ایک ہزار دینار جو پانچ سو ترکی پاؤنڈ کے مساوی ہوتے ہیں۔ 
 اگر مقتول کے وارث دیت لینے پر راضی ہوجائیں تو قصاص ساقط ہوجائے گا اور قاتل کو ایک سال کے اندر اندر دیت ادا کردینا پڑے گی۔ 
 شبیہ عمد میں معینہ خون بہا کی ادائیگی کے لئے دو سال کی مدت رکھی گئی ہے۔ 
 قتل خطا میں تین سال کی مدت ہے اور ہر سال ایک تہائی واجب الادا ہوگی۔ 
 جزوی نقصانات جیسے ہاتھ پیر کاٹ ڈالنا یا آنکھ پھوڑ دینا وغیرہ۔ اس میں عمداً اقدام کرنے کا قصاص آنکھ کے بدلے آنکھ کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت ہے۔ 
 خطا اور شبیہ عمد میں ہر عضو کے بدلے یا پوری دیت ادا کرنا پڑے گی یا نصف یا نصف سے کم۔ 
 اعضائے مفرد (طاق) جیسے ناک وغیرہ کی دیت پوری ہے اور جفت مثلاً آنکھیں  ہاتھ پیر ان میں سے ہر ایک کی نصف اور دونوں کی پوری دیت قابل ایصال ہوگی۔ شبیہ عمد میں دیت کا ذمہ دار خود مجرم ہے اور خطائے محض میں عاقلہ کو ادا کرنا چاہئے۔ 
تفصیل کے لئے فقہ کی مبسوط کتابیں موجود ہیں چونکہ ہم انتہائی اختصار سے کام لے رہے ہیں، اس لئے بہت سے ابواب کا تذکرہ نہیںکرسکتے۔ پھر ہمارا مقصد بھی صرف یہ تھا کہ کچھ نمونے دکھا دیئے جائیں اور اشاروں اشاروں میںبات ختم ہوجائے۔ 
 اس کتاب میں جو کچھ بیان ہوا ہے اسے امامیہ ’’ عقائد  و مسلمات‘‘ کے عناوین کی حیثیت حاصل ہے ، شرح و بسط کے لئے ان اوراق میں گنجائش کہاں؟ 
’’سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کےلئے‘‘
اب فرمائیں علمائے دین اور عامۃ المسلمین کہ ہم نے جو حقائق پیش کئے ہیں ان میں سے کوئی بھی چیز ایسی تھی جسے اسلام کی بربادی کا سبب کہا جائے ؟ یا یہ کہ کوئی بھی ایسا مسئلہ ہے ۔ جو یہودیت ، نصرانیت ، مجوسیت ، اور زردشتیت سے ماخوذ ہو؟ یا ان مباحث میں کوئی ایسا پہلو نظر آتا ہے جو دین توحید کے بنیادی قواعد اور کتاب و سنت کے مخالف معلوم ہوتا ہو؟
 خدارا انصاف کرو اور بہتان تراشیوں سے باز آؤ۔
آخر میں ہماری دعا ہے کہ برادران اسلام شکوک و شبہات کی دنیا سے نکل کر پرچم قرآن کے سایہ میں ایک نظر آئیں اور اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوں۔ 
یہ ظاہر ہے کہ جب تک فرقہ وارانہ جھگڑوں کا خاتمہ نہیںہوگا۔ اس وقت تک عزت کی سحر نمود نہیں کرسکتی۔ اللہ ہمیں باہمی روا داری کی توفیق عطا کرے۔ اور محبت کے رشتوں کو استحکام حاصل ہو۔ 
 خاتمہ :
 مسئلہ بدا:
اس مسئلہ کے ضمن میں بھی شیعوں کو بہت مطعون کیا جاتا ہے غلط حاشیہ آرائی کرنے والے نظر یہ بداء کو مسخ کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ شیعوں کے عقیدے میں خداوند عالم ایسے کام کر بیٹھتا ہے جن کا اسے علم نہیں ہوتا ( معاذ اللہ ) اس سے بڑھ کر اور کیا جہالت ہوسکتی ہے۔ یہ تو کفر صریح ہے۔ کیونکہ اس سے ایک طرف تو ایزد متعال کی صفت علم کا انکار لازم آتا ہے اور دوسری جانب وہ محل حوادث اور آماجگاہ تغیرات قرار پاتا ہے۔ جس سے شان وجوب کی نفی ہوتی ہے۔ امامیہ فرقہ ان واہی تو اہی خیالات سے قطعاً بیزار ہے ۔ بلکہ کوئی اسلامی فرقہ بھی اس گمراہ کن فکر کے حق میں نہیں۔ البتہ تجسیم پر ایقان رکھنے والے بعض عناصر کی طرف ان خرافات کی نسبت دی جاتی ہے۔ چنانچہ خدا کے بارےمیں یہ ان ہی میں سے کسی کا قول ہے: اعفونی عن الفرج واللحیۃ واسئلونی عما شئتم ۔ 
’’بس داڑھی اور شرمگاہ سے مجھے معاف رکھو اور باقی جو چاہو پوچھ لو‘‘
 صحیح نظریہ بداء جس کے شیعہ قائل ہیں:  وہ تو آل محمد ؐکے اسرار و رموز میں شامل ہے۔ چنانچہ اہل بیتؑ کی حدیثوں میں وارد ہوا ہے۔ کہ انہ ما عبد اللہ بشی مثل القول بالبداء و انہ ما عرف اللہ حق معرفتہ من لم یعرفہ بالبداء(کتاب الکافی ، جلد ۱ ص ۱۱۳، باب البداء)
’’ اقرا ربداء سے جس طرح فرض بندگی ادا ہوتا ہے، اس طرح کسی اور چیز سے نہیں ہوتا۔ جس نے بداء کودلیل عرفان نہیں بنایا  اسے اللہ کی پوری معرفت نہیں حاصل ہوئی۔
اس مضمون کی اور بھی روایتیں ہیں حقیقت یہ کہ علم کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جس سے قدرت نے اپنے ملائکہ و رسل کو مالا مال کیا ہے۔ اس آگہی کے مطابق یقینی طورپر وہی ہوگا جو انہیں بتایا گیا ہے۔ مگر دوسری قسم وہ ہے جس سے نہ کوئی مقرب بارگاہ فرشتہ واقف بداء نہ کوئی برگزیدہ نبی ۔ بس وہی جانتا ہے چنانچہ اس کے مطابق وہ تقدیم و تاخیر اور محو و اثبات جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ یہ علم کی وہ منزل ہے جسے باری تعالیٰ نے  ’’ ام الکتاب ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے یمحوا اللہ ما یشاء ویثبت و عندہ ام الکتاب ‘‘ اس سے معبود برحق کی قدرت کاملہ ، حکمت بالغہ اور اس کے مختار مطلق اور فعال لما یرید ہونے کا اظہار ہوتا ہے۔ 
 یہ مسئلہ یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ جوحیثیت نسخ کو تشریع میں حاصل ہے وہی کیفیت تکوین میں بدا ءکی ہے۔ پس جس طرح تشریعی ضابطوں کی ترمیم اضافے اور تغیر و تبدل میں اس کی نامعلوم مصلحتیں کار فرما ہوتی ہیں اسی طرح تکوینی امور میں اخفاء و ابدا ءکا تعلق ان اسرار و رموز سے ہے جن کے فہم و ادراک سے ہماری عقلیں قاصر ہیں۔ 
 بداء کا ایک یہ عنوان بھی ہے کہ خاصان خدا کو ایک بات کا علم ہوتا ہے مگر اس کے شرائط و موانع کی اطلاع نہیں ہوتی۔ مثلاً حضرت عیسیٰ کو یہ تو معلوم تھا کہ دولہا شبِ زفاف مرجائے گا۔ مگر یہ نہیں جانتے تھے کہ واقعہ کے ظہور پذیر ہونے کےلئے صدقہ نہ دینا شرط ہے۔ چنانچہ اتفاقاً دولہا کی ماں نے خیرات دے دی اور وہ بچ گیا ۔ جب یہ حقیقت مسیح کے سامنے پیش ہوئی تو آپ نے فرمایا تم لوگوں نے اس کی طرف سے کچھ تصدق کردیا ہوگا صدقہ تمام بلاؤں کو رد کرتا ہے۔ 
 اس قسم کے اور نظائر بھی ہیں۔ ان مواقف کا فائدہ یہ ہے کہ ایک تو نفوس انسانی کی آزمائش ہوجاتی ہے اور دوسری یہ کہ خوئے تسلیم پروان چڑھتی رہتی ہے۔ جناب ابراہیم کا امتحان اس کی واضح دلیل ہے۔ نیز اگر بداء نہ ہو تو دعا و تصدق ، شفاعت و توسل اور انبیاء و اولیاء کی گریہ و زاری ، نیز کمال اطاعت کے باوجود ان کے خوف و ہراس کا کوئی مطلب نہیں رہتا! ہاں ! ان ذوات مقدسہ کے لرزاں و ترساں ہونے کا سبب وہ علم مکنون و مخزون ہے جس سے کوئی آگاہ نہیں اور یہی بداء کا سر چشمہ ہے ۔ 
بداء کے اقسام ، قضاء و قدر اور لوح محو و اثبات کی تفصیل مقصود ہو۔ تو ہماری کتاب ’’ الدین والاسلام ‘‘ کی پہلی جلد کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ اس مجموعہ میں ہم نے شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ 
تقیہ: 
تقیہ کے معاملے میں بھی شیعوں کو خوب خوب بدنام کیا جاتا ہے لیکن یہ بھی صرف اس وجہ سے کہ عام اہل اسلام اس کی حقیقت سے بے خبر ہیں۔ اگر نگاہِ غائر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ شیعہ حضرات جس تقیہ کے قائل ہیں وہ صرف ان ہی سے مختص نہیں بلکہ یہ ایک عقلی ضرورت اور فطری تقاضہ ہے۔ 
 شریعت اسلامی کا کوئی حکم ایسا نہیں جس میں عقل و دانش کا توافق نہ دکھائی دے ۔ ہر مسئلہ میں علم و خرد ساتھ ساتھ نظر آئیں گے۔ 
جبلت بشری کا جائزہ لیجئے تو اقرار کرنا پڑے گا کہ ہر انسان اپنی جان کا بچاؤ کرتا ہے جان بڑی پیاری ہوتی ہے۔ البتہ اگر عزت و وقار پر آنچ آنے لگے یا حفاظت حق کا معاملہ درمیان ہو۔ تو پھر حد درجہ عزیز ہونے کے باوجود ہستی کی کوئی ہستی نہیں رہتی۔ لیکن اگر یہ امور نہ ہوں تو پھر کوئی ہوشمند ہوگاجو جان جو کھوں میں ڈال کر جگ ہنسائی کروانےکےلئے تیار ہوگا۔ پھر بے ضرورت تہلکہ میں پڑنا عقل و شرع دونوں کے خلاف ہے ۔ 
اسی لئے شارع مقدس نے خطروں کے موقع پر اجازت دی ہے کہ وہ مسلمان جو خطروں میںگھرا ہوا ہو اور اس کی جان یا ناموس کو گزند پہنچنے کا اندیشہ لا حق ہو۔ وہ باطناً عمل کرتے ہوئے ظاہر بظاہر اخفائے حق سے کام لے سکتا ہے۔ 
 کلام الٰہی میں الا ان تتقوا منھم تقاۃ(آل عمران،۲۸) اور الامن اکراہ و قلیہ مطمئن بالایمان (سورہ نحل،۱۰۶)۔ سے یہی مقصود ہے۔ تاریخ اسلام میں جناب عمار ، ان کے والدین نیز بعض دیگر اصحاب کے واقعات موجود ہیں کہ کافروں کے ظلم سے مجبور ہوکر وہ اظہار کفر کر بیٹھے !(التبیان فی تفسیر القرآن، شیخ طوسیؒ،جلد۶،صفحہ۴۲۸)
تقیہ پر عمل کرنےکے تین احکام ہیں: (۱) بے مقصد جان جارہی ہو تو واجب ہے۔ (۲) اگراظہار حق مفید مقصد ہو تو عمل اور ترک عمل میں اختیار ہے۔ (۳) لیکن اگر باطل کو قوت پہنچے ، امت گمراہ ہونے لگے اور جو رو ستم میں شدت پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو پھر تقیہ حرام ہے۔ 
 آئیے اب ہم اسی کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہیں تاکہ ہر با ضمیر انسان کو یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہو کہ تقیہ پر عمل پیرا ہونے کے سلسلہ میں غریب شیعہ  قابل ملامت ہیں ( بشرطیکہ قابل ملامت ہو) یا وہ عناصر جنہوں نے ان کی آزادیاں چھین کر تقیہ کےلئے مجبور کردیا؟
 امیر معاویہ نے غلبہ حاصل کرتے ہی شریعت کو کھلونا بنالیا اور ہاتھ دھوکر شیعیان علی کے پیچھے پڑ گئے شیعوں کا خون پانی سے زیادہ سستا تھا۔
مروانی حکومت بھی اسی غلط سیاست پر کاربند رہی ۔ اس کے بعد عباسیوں کا دور آیا۔ انہوں نے مشق ستم میں اور تیزی پیدا کردی ۔ نتیجتاً محبان اہل بیت کو مختلف موقف اختیار کرنا پڑے کبھی چھپے کبھی ابھرے ، گاہ ضرورتوں نے انہیں مخفی رہنے پر مجبور کیا۔ اور کبھی حمایت حق کے جوش میں سر سے کفن باندھ کر نکل کھڑے ہوئے۔ تاکہ ان کے خون کی دھاریں نشان منزل کا کام دیتی رہیں۔ 
چنانچہ بہت سے شیعہ اعاظم نے تقیہ کی ضرورت محسوس نہیں کی اور دنیائے ظلم کا مقابلہ کرکے خلعت شہادت زیب تن کیا۔ شہدائے مرج عذرا (مرج عذر ا شام کے ایک قریہ کا نام ہے)کی داستان خاصی شہرت رکھتی ہے یہ چودہ جانباز تھے جنہوں نے عبادت گذار صحابی حجر بن عدی کندی کی قیادت میں اپنی جانیں جان آفریں کے سپرد کردیں۔ 
 حجر ابن عدی فتح شام کے نامور فوجی رہنما بھی تھے۔ امیر معاویہ کے الفاظ ہیں:
 مرج عذرا میں میں نے جن لوگوں کو تہ تیغ کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے متعلق بتا سکتا ہو کہ اس میں کیا تھا۔ مگر حجر کے بارے میں لا جواب ہونا پڑتا ہے کہ آخر کس جرم میں شہید کیا؟(تاریخ طبری،ج۵،ص۲۵۳؛الکامل فی التاریخ،ج۳،ص۴۷۲ )
 ہاں! ہم بتاتےہیںکہ حجر کا کیا قصور تھا۔ اس شہید نے تقیہ کی ضرورت نہیںسمجھی اور صرف اس لئے کہ آل امیہ کا ستم عالم آشکار ا ہوجائے اور دنیا کو یہ بھی معلوم ہوجائے کہ اس گھرانے کو دین سے کتنا تعلق ہے۔ نیز صحابی جلیل عمرو بن حمق خزاعی اور عبد الرحمان ابن حسان عنزی کا واقعہ کسے نہیں یاد۔ ابن زیاد نے انہیںزندہ دفن کروایا تھا۔ (تاریخ طبری،ج۵،ص۲۷۶)
میثم تمار ، رشید ہجری اور عبد اللہ ابن یقطر کو دار پر کھینچوایا گیا۔ یہ اور ان کی طرح سینکڑوں مجاہدوں کی مثالیں ہیں۔ جنہوں نے راہ حق میں باطل کی صفوں سے ٹکر لے کر انہیں پاش پاش کردیا۔ 
ان حقیقت پسندوں نے تقیہ پر عمل نہیں کیا۔ کیونکہ ان کے وقت کا یہی تقاضا تھا۔ ان کے عدم تقیہ نے بقیہ حق کی حفاظت کرلی۔ اور اسلام کو معاویہ ، یزید زیاد اور ابن زیادکے مذہب و مسلک سے ممتاز کردیا۔ 
حسینؑ اور اصحاب حسین کے ماجرائے شہادت کو کون بھول سکتا ہے۔ ؟
یہ شہیدوں کے قائد اور حریت پسندوں کےسر دار تھے۔ 
 ہاں! ان بزرگوں کو جن حالات سے سابقہ تھا ان کے پیش نظر یہ تقیہ کو حرام سمجھتے تھے مگر کچھ وقت ایسے بھی آئے ہیں جب تقیہ پر عمل واجب اور بعض دفعہ اختیاری فعل تصور کیا گیا۔ 
خیال پڑتا ہے کہ بعض مرویات میںوارد ہوا ہے کہ مسیلمہ ٔکذاب نے دو مسلمانوں کو گرفتار کرلیا۔ اور انہیں اپنی نبوت کی تصدیق اور آنحضرتؐ کی رسالت کی تکذیب پر مجبور کیا۔ چنانچہ ان میں سے ایک نے تو اس کی خواہش مسترد کردی نتیجتاً قتل ہوگیا۔ مگر دوسرے نے اس کی بات پوری کرکے رہائی حاصل کرلی۔ 
یہ خبر جب سرکارِ رسالتؐ تک پہنچی تو حضرت ؐ نے فرمایا کہ ’’ پہلے نے جنت کی راہ اختیار کرنے میں جلدی کی۔ اور دوسرے نے مہلت طلب کرلی دونوں میں سے ہر ایک کو اس کا اجر ملے گا‘‘۔(مجمع البیان فی تفسیر القرآن،ج۱،ص۴۳۰)
 مسلمانو! تقیہ کے بارے میں اپنے بھائیوں کو مطعون نہ کرو خدا ہماری تمہاری عاقبت بخیر کرے۔ اور رشد و ہدایت کے نقطہ پر اتفاق نصیب ہو۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔(تمام)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں