حضرت علی ؑ اور انصاف
مولانا سید محمد جابر جوراسی صاحب قبلہ
مدیر ماہنامہ اصلاح، لکھنو
آج دنیا ۹۹ فیصد سے زائد، زیادتیوں اور نا انصافیوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ عالمی منظر نامہ کو دیکھتے ہوئے کبھی کبھی یہ خوف پیدا ہونے لگتا ہے کہ وہ خوبصورت دنیا جو اللہ نے اپنی مخلوق کے لئے سجائی ہے وہ قیامت سے پہلے کہیں قیامت کا نمونہ نہ بن جائے ۔ اس کے ذمہ دار عوام سے زیادہ حکمراں قرار پائیں گے۔ لیکن گزشتہ حکمرانوں میں ایک حاکم ایسا بھی گزرا ہے جس کی مدت حکومت(۳۶ھ تا۴۰ھ) پانچ سال بھی نہیں تھی اس نے حکومت عدلِ اسلامی کے ساتھ کی۔ وہ ذات گرامی تھی امیر المومنین خلیفۃ المسلمین حضرت علی علیہ السلام کی، کہلاتے تو تھے وہ خلیفۃ المسلمین لیکن دوسری قوموں پر اتنے مہربان کہ آپ کی شہادت کے بعد کوفہ کی مکین غریب یہودی اور عیسائی عورتیں تک بھی شدت سے گریہ کناں ملیں۔ ان گریہ کرنے والوں سے تعجب سے سوال کرنے والوں کو جواب ملا کہ ’’یہ وہ مہربان شخصیت تھی جو رات کی تاریکیوں میں ہمارے گھروں میں خورد و نوش کا سامان پہنچایا کرتی تھی‘‘۔ آپ ہی کی قیمتی نصیحت ہے کہ ’’ زندگی یوں بسر کرو کہ اگر زندہ رہو تو لوگ تم سے ملنے کے متمنی رہیں اور تمہاری موت کے بعد تم پر آنسو بہائیں‘‘۔(نہج البلاغہ)
ذات پات مسلک و مذہب کے نام پر جو عوام میں تفریق کے مجرم ہیں وہ اس مذکورہ روشِ عدل پر کان دھریں۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے ایک خطاب میں ارشاد فرمایا تھا:
’’ واللہ لان حسک السعد ان متہداً ۔۔۔۔۔۔
(ترجمہ)خدا گواہ ہے کہ میرا سعد ان کی خاردار جھاڑی پر جاگ کر رات گزارلینا یا زنجیروں میں قید ہوکر کھینچا جانا، اس امر سے زیادہ عزیز ہے کہ میں روز قیامت پروردگار سے اس عالم میں ملاقات کروں کہ کسی بندہ پر ظلم کرچکا ہوں یا دنیا کے کسی معمولی مال کو غصب کیا ہو ۔ بھلا میں کسی شخص پر بھی اس نفس کےلئے کس طرح ظلم کروں گا جو فنا کی طرف بہت جلد پلٹنے والا ہے اور زمین کے اندر بہت دنوں رہنے والا ہے۔
خدا کی قسم میں نے عقیلؑ (آپؑ کے حقیقی بڑے بھائی) کو خود دیکھا ہے کہ انہوں نے فقر و فاقہ کی بنا پر تمہارے حصۂ گندم میں سے تین کلو کا مطالبہ کیا تھا جبکہ ان کے بچوں کے بال غربت کی بنا پر پراگندہ ہوچکے تھے اور ان کے چہروں کے رنگ یوں بدل چکے تھے جیسے انہیں تیل چھڑک کر سیاہ بنا دیا گیا ہو۔ اور انہوں نے مجھ سے بار بار تقاضا کیااور مکرر اپنے مطالبہ کو دہرایا تو میں نے ان کی طرف کان دھر دیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ یہ سمجھے کہ میں ان کے مطالبہ پر چلنے کےلئے تیار ہوں لیکن میں نے ان کے لئے لوہا گرم کرایا اور پھر ان کے جسم کے قریب لے گیا تاکہ اس سے عبرت حاصل کریں انہوں نے لوہا دیکھ کر یوں فریاد شروع کردی جیسے کوئی بیمار اپنے درد و الم سے فریاد کرتا ہو۔ اور قریب تھا کہ ان کا جسم اس کے داغ دینے سے جل جائے تو میں نے کہا ’’ رونے والیاں آپ کے غم میں روئیں اے عقیلؑ ! آپ اس لوہے سے فریاد کررہے ہیں جسے ایک انسان نے فقط مزاحاً تپایاہے اور مجھے اس آگ کی طرف کھینچ رہے ہیں جسے خدا ئے جبار نے اپنے غضب کی بنیاد پر بھڑکایا ہے۔ آپ آگ کی اذیت سے فریاد کریں اور میں جہنم سے فریاد نہ کروں؟
اس سے زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ ایک رات ایک شخص ( اشعث بن قیس) میرے پاس شہد میں گوندھا ہوا حلوہ برتن میں رکھ کر لایا جو مجھے اس قدر ناگوار تھا جیسے سانپ کے تھوک یا قے سے گوندھا گیا ہو۔ میں نے پوچھا کہ یہ کوئی انعام ہے یا زکوٰۃ یا صدقہ جو ہم اہلبیتؑ پر حرام ہے؟اس نے کہا کہ یہ کچھ نہیں ہے یہ فقط ایک ہدیہ ہے،(عام طور پر رشوت کو ہدیہ و تحفہ کا نام دے دیا جاتا ہے)۔
میں نے کہا کہ ’’پسر مردہ عورتیں تجھ کو روئیں تو دین خدا کے راستہ سے آکر مجھے دھوکہ دینا چاہتا ہے تیرا دماغ خراب ہوگیا ہے یا تو پاگل ہوگیا ہے، یا ہذیان بک رہا ہے، آخر ہے کیا؟ خدا گواہ ہے کہ’’ اگر مجھے ہفت اقلیم کی حکومت تمام زیر آسمان دولتوں کے ساتھ دے دی جائے اور مجھ سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ میں کسی چیونٹی پر صرف اس قدر ظلم کروں کہ اس کے منہ سے اس گیہوں کے چھلکے کو چھین لوں جو وہ چبا رہی ہے تو ہرگز ایسا نہیں کرسکتا ہوں یہ تمہاری دنیا میری نظرمیں اس پتّی سے زیادہ بے قیمت ہے جو کسی ٹڈّی کے منہ میں ہو اور وہ اسے چبارہی ہو۔
بھلا علیؑ کو ان نعمتوں سے کیا واسطہ جو فنا ہوجانے والی ہیں اور اس ذلّت سے کیا تعلق جو باقی رہنے والی نہیں ہے۔ میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں عقل کے خواب غفلت میں پڑ جانے اور لغزشوں کی برائیوں سے اور اسی سے مددکا طلب گار ہوں۔ (نہج البلاغہ خطبہ ۲۲۴ بیشتر ترجمہ علامہ جوادیؒ)
حضرت عقیلؑ کا کردار وہ چمکتا ہوا آفتاب ہے جس پر بے اعتدالی کا کوئی دھبہ نہیں ہے قرین قیاس ہے کہ ان کا مطالبہ لوگوں کو امیر المومنینؑ کی عادلانہ روش سے روشناس کرانے کےلئے ہو۔ اُدھر حضرت علیؑ کے سامنے ’’ عدلِ اسلامی‘‘ کا تقاضا بھی تھا اور ایک مفلوک الحال بھائی کے ساتھ ’’ صلۂ رحمی‘‘ کی بھی منزل تھی لہٰذا آپؑ نے اپنے حصہ میں سے ان کی اعانت فرماکر دنیا کو ’’ قطع رحمی‘‘ کی لعنت سے بچنے کا راستہ دکھایا۔ جبکہ خود آپ کا حال یہ تھا کہ اپنےد ار الحکومت کوفہ میں آپ ایک ہلکے کپڑے میں ملبوس تھےا ور سوال کرنے والے کو یہ جواب دیا تھا کہ یہ وہی لباس ہے جو میں مدینہ سے لے کر چلا تھا۔ میں نے تمہارے بیت المال ( سرکار ی خزانہ) میں سے کوئی خیانت نہیں کی ہے۔ یہ جملہ تازیانۂ عبرت ہے ان لوگوں کے لئے جو بینکوں اور سرکاری خزانوں کو لوٹ لوٹ کر فرار ہوتے ہیں اور غیر ملکی بینکوں ( سوئس بینک وغیرہ) میں اپنے کھاتے میں غیر معمولی اضافہ کرتے ہیں۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنی روشِ عدل ، اپنے طرزِ حکومت، اپنے خطوط، اپنے خطبات، اپنے کلمات سے دنیا کو آگاہ کردیا اور بالخصوص حکمرانوں کو متوجہ کردیا کہ اگر تم نے اپنی فکری و قلبی عصبیت و عداوت ، نجی مصلحتوں ، ذاتی منفعتوں کی بنیاد پر عدل و انصاف سے چشم پوشی کی تو تم انسانیت کے وہ مجرم قرار پاؤ گے جسے نہ تاریخ معاف کرے گی اورنہ خالق کائنات کبھی معاف کرے گا۔ اور پھر ایک دن جب تمہارے ظالمانہ کرتوتوں کا وبال تمہارے سر آپڑے گا جو طول تاریخ کا لازمہ رہا ہے تو کوئی تمہاری فریاد کو سننے والا بھی نہیں ملے گا۔
دربار حاکم شام میں جب تفریح طبع کے لئے مدحِ امیر المومنینؑ میں شعر گوئی کا مقابلہ ہورہا تھا تو عمر و عاص کا یہ مصرعہ سب پر بھاری رہا تھا کہ :
والفضل بما شہدت بہ الاعدا ءُ۔ ( فضیلت تو بس وہی ہے جس کی گواہی دشمن دیں)
انصاف کی عینک لگا کر غیروں نے بھی حضرت علی علیہ السلام کی عادلانہ روش کا مطالعہ کیا تو لبنان کے مشہور مسیحی رائٹر ’’جارج جرداق‘‘ نے عربی میں پانچ جلدوں میںکتاب لکھی ’’ صوت العدالۃ الانسانیہ‘‘ مجلۂ اصلاح کے مدیر دوم مجاہد اسلام مولانا سید محمد باقر نقوی طاب ثراہ نے جس کا اردو ترجمہ ایک جلد میں ’’ ندائے عدالت انسانی‘‘ کے نام سے کیا ادارۂ اصلاح سے جس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوکر ختم ہوچکے ہیں۔
جارج جرداق کا یہ جملہ سنہرے حروف سے لکھے جانے کے لائق ہے: قتل علیؑ فی محرابہ لشدۃ عدلہ‘ ’’ علیؑ اپنے شدت عدل کی وجہ سے محراب مسجد کوفہ میں شہید کردیئے گئے ‘‘ (صوت العدالۃ الانسانیہ) ۔مذکورہ حقیقت کی روشنی میں کتنا معنیٰ خیز ہوجاتا ہے بعدِ ضربتِ امیر المومنین یہ جملہ ’’ فزت ورب الکعبۃ ‘‘ ربّ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔
آج الیکشن میں کامیاب ہونے والے نشۂ اقتدار میں ہار جانے والوں پر جملے کستے ہیں یا زیادہ جوش میں آکر حملے کرکے انہیں موت کی آغوش میں سلادیتے ہیں۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اس جملے کے ذریعہ واضح فرمادیا کہ الیکشن میں ہارنا یا جیتنا یہ معیارِ کامیابی نہیں ہے۔ حقیقی کامیاب تو یہ ہے کہ جس کے ہاتھ میں حکومت آجائے وہ مرتے مرتے بھی عدل و انصاف کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ جانے دے۔ یہی ہے اصلی کامیابی اور اِسی کی وجہ سے امیر المومنینؑ نے اپنی کامیابی کا اعلان کیا کہ میں شہید تو ہورہا ہوں لیکن میں نے اپنے پورے دور حکومت میں کوئی ایک کام بھی خلاف عدل و انصاف نہیں کیا۔
اپنےد ور حکومت میں حضرت علی علیہ السلام نے ایک بہت بڑے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے سوال کیا تھا تم میں کوئی ایسا ہے جو میرے دور حکومت میں بھوکا یا بے لباس رہا ہو؟ تو کوئی ایک آواز بلند نہ ہوئی۔ کسی نے اپنے عیسائی غلام کو ضعیفی کی وجہ سے آزاد کردیا اور اسے غذا سے محروم کردیا۔ امیر المومنینؑ نے مذکورہ عیسائی غلام کی بدحالی کو دیکھا تو تڑپ گئے۔ برہمی سے فرمایا جب تک یہ کام کے لائق تھااِسے تم نے رکھّا اور جب یہ کمزور و ضعیف ہوگیا ہے تو اسے بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ دیا۔ میں اسے گوارہ نہیں کرسکتا ۔ آج سے اس کا آذوقہ بیت المال ( سرکاری خزانہ )سے مہیا کیا جائے گا۔
یہ ہے حقیقی عدل کہ سرکاری خزانہ سے اپنے عزیز بھائی جناب عقیلؑ کے لئے کوئی رعایت نہیں کی اور دنیا کے حکمرانوں کو سبق دیا کہ سرکاری خزانہ عزیز داروں، رشتہ داروں اور تعلقات والوں پر لٹا دینا یہ بد دیانتی ہے۔ ہاں یہ عین دیانت ہے کہ اگر ایک بوڑھا عیسائی غریب ہے تو سرکاری امداد سے اسے محروم نہیں رکھا جائے گا۔ کیا دنیا کی وہ حکومتیں جو مذہب اور ذات کے نام پر سرکاری امداد دینے میں تعصب سے کام لیتی ہیں وہ حضرت علیؑ کے اس انداز حکومت سے سبق لیں گی؟
ہمارے ائمہ اطہار علیہم السلام کو ظالم حکمرانوں نے حکومت سے محروم رکھّا ۔ امام اوّل حضرت علی علیہ السلام کو بعد از خرابی بسیار حکومت کرنے کا کچھ موقع ملا تو آپ نے شمع عدل یوں روشن کی کہ دنیا حسب صلاحیت آج بھی اس سے کسب ضیاء کرسکتی ہے۔
( ع علیؑ سے سیکھ پیہم سیکھ آئین جہاں بانی)٭…٭…٭
(ماہنامہ اصلاح، امیرالمومنینؑ نمبر۱۴۴۰ھ)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں