اتوار، 3 مئی، 2020

غِیبت gheebat

غِیبت
جن گناہوں کا کبیرہ ہونا عذاب کے اس وعدے سے سمجھا جاتا ہے جو ان کے لیے قرآن مجید اور بہت سی حدیثوں میں کیا گیا ہے ان میں سب سے پہلا ’’غیبت کرنا‘‘ ہے۔ جیسا کہ خدا سورۂ نور میں فرماتا ہے: "دُنیا اور آخرت میں ان لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے جو ایمان لانے والوں (مومنوں) کی بُری حرکتیں (مثلاً زنا اور دوسری قسم قسم کی بُرائیاں) فاش کرنا پسند کرتے ہیں۔" (سورہ نور آیت ۱۹)
حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جو شخص کسی مومن کے بارے میں وہ سب کچھ کہہ دیتا ہے جو اس کی دونوں آنکھوں نے دیکھا اور دونوں کانوں نے سُنا ہے اس کا شمار ان لوگوں میں ہے جن کے بارے میں خدا نے فرمایا ہے: "جو لوگ مومنوں کے متعلق بُری باتیں آشکار ہونا پسند کرتے ہیں ان کے لیے واقعی دردناک عذاب ہے۔"
چنانچہ صحیح کی اس روایت کے مطابق غیبت اس آیت کے حکم میں داخل ہے جس میں اس کے لیے عذاب کا صاف صاف وعدہ کیا گیا ہے۔ سورہ حجرات کی آیت ۱۲ میں کہا گیا ہے: "تم میں سے بعض لوگوں کو دوسروں کی غیبت نہیں کرنا چاہیئے۔ کیا تم میں سے کوئی بھی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ تم اسے ضرور بُرا سمجھو گے۔"
اس آیت میں چند امکانات ہیں: ایک یہ کہ غیبت کرنے والے پر آخرت میں جو عذاب ہو گا اس کا بیان ہے اور وہ اس طرح کہ جس شخص کی غیبت کی گئی ہے غیبت آخرت میں اس کا مردہ گوشت کھانے کی صورت میں مجسم ہو جائے گی اور اس امکان کی تائید بھی پیغمبر اکرم ﷺ کی اس روایت سے ہوتی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں کہ: میں نے معراج کی شب میں کچھ لوگوں کو جہنم میں دیکھا کہ وہ مردار کھا رہے تھے۔ میں نے جبرئیل سے پوچھا: "یہ کون لوگ ہیں؟" تو انہوں نے جواب دیا:" یہ وہ لوگ ہیں جو دُنیا میں لوگوں کا گوشت کھاتے تھے ۔" (مستدرک کتاب حج باب ۱۳۲) یعنی لوگوں کی غیبت کیا کرتے تھے۔
دوسرا امکان یہ ہے کہ اسی سے ایک حکم میں داخل ہونا مراد ہو یعنی شریعت کے حکم کے مطابق غیبت کرنا اس شخص کا مردار گوشت کھانے کے برابر ہو جس کی غیبت کی گئی ہے
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں:"تمہارا اپنے مومن بھائی کی غیبت کرنا مردار کھانے سے بھی بڑا حرام ہے۔" (مستدرک کتاب حج باب ۱۳۲) ان دونوں امکانات کے پیشِ نظر آیت سے ظاہر ہے کہ غیبت گناہِ کبیرہ ہے۔
سورہ ہمزہ میں کہا گیا ہے: "ویل لکل ھمزہ لمزة" تفسیر مجمع البیان میں لکھا ہے: یہ جملہ خدا کی طرف سے ہر غیبت کرنے والے اور اس چغل خور کے لیے عذاب کا وعدہ ہے جو دوستوں میں تفرقہ ڈالتا ہے۔
بعضوں نے کہا کہ ہمزہ طعنہ دینے والے اور لمزہ غیبت کرنے والا ہے اور بعضوں نے اس کے بالکل برعکس کہا ہے اور بعضوں نے کہا کہ ہمزہ اسے کہتے ہیں کہ جو سامنے بُرائی کرتا ہے اور لمزہ وہ ہے جو کسی کی پیٹھ پیچھے غیبت کرتا ہے۔
ویل بھی جہنم کا ایک درجہ ہے یا اس کا ایک کنواں ہے اور سخت عذاب کے معنوں میں بھی استعمال ہو اہے اس لیے غیبت وہ گناہ ہے جس کے لیے قرآن مجید میں کتنے ہی مقامات پر عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے اور وہ گناہِ کبیرہ ہے۔
غیبت اور اہل بیت (علیھم السلام) کی روایات
جن روایتوں میں غیبت کرنے پر عذاب کے وعدے کا ذکر کیا گیا ہے وہ بہت ہیں بلکہ متواتر ہیں یہاں صرف وہ بیان کی جاتی ہیں جو شیخ انصاری علیہ الرحمہ نے مکاسب محر ّمہ میں لکھی ہیں۔
رسول خداﷺ سے روایت ہے کہ غیبت کا گناہ زنا سے بھی بدتر ہے کیونکہ زنا کرنے والا اگر توبہ کر لیتا ہے تو خدا اسے بخش دیتا ہے لیکن غیبت کرنے والے کو نہیں بخشتا جب تک کہ وہ شخص جس کی اس نے غیبت کی ہے اسے معاف نہیں کر دیتا۔ (مکاسب)
ایک دن آنحضرت نے اپنے خطبے کے بیچ میں سود کے گناہ کی شدت بیان کی اور فرمایا کہ سود کے ایک درہم کا گناہ چھتیس بار زنا کرنے سے بھی زیادہ شدید ہوتا ہے۔ پھر فرمایا "بلاشبہ سود کھانے کا بدترین درجہ مسلمان کی آبروریزی اور اس کی بے عزتی ہے۔" ان دونوں حدیثوں کی رو سے غیبت کا گناہ کبیرہ ہونا اس اعتبار سے بھی ثابت ہے کہ وہ زنا اور سود سے بھی بدتر ہے ۔
آپؐ یہ بھی فرماتے ہیں "جو کسی مومن کی غیبت کرتا ہے اور وہی بُرائی بیان کرتا ہے جو اس میں موجود ہے پھر بھی خدا اس شخص کو اور اس مومن کو بہشت میں اکٹھا نہیں کرے گا اور جو شخص مومن کے پیٹھ پیچھے اس کی وہ بُرائی بیان کرتا ہے جو اس میں نہیں ہے تو دونوں میں جو دین کی پاکیزگی ہے وہ پارہ پارہ ہو جاتی ہے۔ پھر غیبت کرنے والا اس مومن سے الگ ہو جائے گا اور ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور جہنم بُری جگہ ہے۔" (مکاسب)
جو شخص لوگوں کی غیبت کر کے ان کا گوشت کھاتا ہے اگر اس نے یہ سوچا کہ وہ حلال زادہ ہے تو غلط سوچا۔ غیبت سے بچو کیونکہ یہ دوزخ کے کتوں کی غذا ہے۔ (مکاسب)
جو اپنے دینی بھائی کی غیبت کرنے کے لیے اور اس کا چھپا ہوا عیب فاش کرنے کے لیے سفر کرے گا وہ جو پہلا قدم اُٹھائے گا وہ اسے دوزخ میں پہنچا دے گا۔(مکاسب)
روایت ہے کہ غیبت کرنے والا اگر توبہ بھی کرے گا تو وہ آخری شخص ہو گا جو بہشت میں پہنچے گا اور جو توبہ کیے بغیر ہی مر جائے گا تو وہ پہلا شخص ہو گا جو دوزخ میں جائے گا۔ (مکاسب)
شہیدِ ثانی حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) اور پیغمبر اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ کفر کے سب سے زیادہ قریب حالت یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے ایک لفظ سنتا ہے اور اسے اس لیے روک لیتا ہے کہ اس بات سے رسوا کرے ایسے شخص کو آخرت میں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ (کشف الربیہ، شہید ثانی)
اس سے ملتے جلتے مضمون کی چند روایتیں اصولِ کافی میں نقل کی گئی ہیں:
پیغمبر اکرم ﷺ فرماتے ہیں: "غیبت کرنا کوڑھ کی بیماری سے زیادہ تیزی کے ساتھ ایک شخص کے دین پر اثر کرتا اور اسے اس کے دل سے ختم کر دیتا ہے ۔"(اصول کافی )
حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :"غیبت کرنا ہر مسلمان کے لیے حرام ہے اس میں شک نہیں ہے کہ غیبت نیکیوں کو اس طرح کھا جاتی ہے اور ختم کر ڈالتی ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا کر ختم کر دیتی ہے۔" (اصولِ کافی)
شیخؒ فرماتے ہیں :غیبت کے نیکیوں کو کھا جانے والے جملے سے مراد یہ ہے کہ غیبت ان تمام نیک کاموں کو جو کیے گئے ہیں باطل کر دیتی ہے یا یہ مراد ہے کہ اس کے پچھلے ثوابوں سے اس کی سزائیں زیادہ ہو جاتی ہیں یا یہ کہ غیبت کرنے والے کی نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں درج ہو جاتی ہیں جس کی اس نے غیبت کی ہے۔ چنانچہ یہ بات کئی حدیثوں میں آئی ہے۔ مثلاً رسول خدا سے روایت ہے کہ ایک بندے کو قیامت میں حساب کتاب کے مقام پر لائیں گے اور اس کا اعمال نامہ اسے دیں گے۔ جب وہ اس میں وہ نیک کام جو اس نے دُنیا میں کیے تھے نہیں پائے گا تو کہے گا: "اے خدا! یہ اعمال نامہ تو میرا نہیں ہے کیونکہ مجھے اس میں اپنی نیکیاں نہیں ملتیں؟" تب اس سے کہا جائے گا "تیرا خدا نہ غلطی کرتا ہے نہ بھولتا ہے۔ تیری نیکیاں لوگوں کی تیرے غیبت کرنے کی وجہ سے مٹ گئیں۔" پھر دوسرے بندے کو لائیں گے اور اس کا اعمال نامہ اسے دیں گے۔ وہ اس میں وہ نیکیاں بھی دیکھے گا جو اس نے نہیں کی ہیں تو وہ کہے گا: "اے خدا! یہ نامہ اعمال میرا نہیں ہے کیونکہ اس میں جو یہ سب نیکیاں درج ہیں میں نے انجام نہیں دی ہیں؟۔" اس سے کہا جائے گا: "یہ فلاں شخص کی نیکیاں ہیں جس نے تیری غیبت کی تھی۔ اس کے بدلے میں اس کی نیکیاں تجھے بخش دی گئی ہیں۔"
شیخؒ مذکورہ روایتیں نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: "ان حدیثوں سے ظاہر ہے کہ غیبت گناہِ کبیرہ ہے جیسا کہ بعض فقہاء نے فرمایا ہے بلکہ سخت ترین گناہِ کبیرہ (سود اور زنا سے بھی بڑھ کر) ہے جیسا کہ مذکورہ روایتوں میں صراحت کی گئی ہے۔"
خیانت بھی ان کبیرہ گناہوں میں شامل ہے جن کی صراحت نص میں کی گئی ہے۔ اور غیبت کو خیانت کی ایک قسم بھی سمجھا جا سکتا ہے، کیونکہ اپنے دینی بھائی کا گوشت کھانے سے بڑھ کر جب کہ وہ بے خبر اور غافل ہو اور کونسی خیانت ہو سکتی ہے اس سے بڑھ کر اور کونسی خیانت ہو سکتی ہے جو اس کا بھید کھولتی اور اس کا عیب ظاہر کر دیتی ہے۔
جاننا چاہیئے کہ غیبت کا حرام ہونا صرف مومن سے مخصوص ہے یعنی اس شخص سے جو صحیح عقیدہ رکھتا ہو جن میں آئمہ اثنا عشر (علیھم السلام) کی امامت کا عقیدہ بھی شامل ہے۔ اس لحاظ سے اس عقیدے کے مخالفین کی غیبت حرام نہیں۔ پھر بھی احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اسلام کے تمام فرقوں کی غیبت ترک کر دینا چاہیئے خصوصاً ان لوگوں کی جو حق کے دشمن نہ ہوں اور صحیح عقیدہ ترک نہ کر چکے ہوں۔
یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ غیبت کا حرام ہونا صرف بالغ مومن سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ نابالغ بچے سے غیبت کرنا بھی حرام ہے جو غیبت سن کر متاثر اور دُکھی ہوتا ہے اور بعض فقہاء نے فرمایا ہے کہ مومن بچّوں سے غیبت کرنا بالکل حرام ہے۔ چاہے وہ بالغ ہوں چاہے نابالغ۔
غیبت کے معنی اور اس کے مواقع
رسول خدا ﷺ فرماتے ہیں: "غیبت یہ ہے کہ تم اپنے دینی بھائی کی کسی بُری یا کریہہ بات کا ذکر کرو۔" (مکاسب) اور حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "غیبت یہ ہے کہ تُم اپنے دینی بھائی کا وہ عیب بیان کرو جسے خدا نے چھپا رکھا ہے۔" (مکاسب) اور حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) فرماتے ہیں "جو کوئی کسی غیر حاضر شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات کہے جو اس میں موجود ہے اور لوگ بھی اس سے واقف ہیں تو وہ غیبت نہیں ہے۔ البتہ اگر ایسی بات کہے جو اس میں موجود ہے لیکن لوگ نہیں جانتے تو گویا اس نے اس کی غیبت کی اور اگر کوئی ایسی بات کہے جو اس میں ہے ہی نہیں تو پھر اس نے اس پر بہتان باندھا ہے۔" (مکاسب)
ان دوسری دو روایتوں کے بموجب جب کوئی بات کسی مومن کے بارے میں کہی جاتی ہے اور وہ اس کا ایسا عیب ہے جو سُننے والے اور دوسرے لوگوں سے پوشیدہ نہیں ہے تو غیبت میں اس کا شمار نہیں ہوتا چاہے وہ مومن کی بُرائی، ملامت، تکلیف دہی اور توہین میں شمار نہیں ہوتا چاہے وہ مومن کی بُرائی، ملامت، تکلیف دہی اور توہین میں شمار ہو اور ان عنوانات کے تحت حرام ہو جیسا کہ ذکر کیا جاتا ہے۔
شیخؒ نے اہل لغت کے کلمات، غیبت کے معنی سے متعلق روایات اور معنی کی تحقیقات نقل کرنے کے بعد کچھ بیانات دئیے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ غیبت کے اطلاق کی تین قسمیں ہیں: غیبت ہونا مسلّم ہو یا غیبت ہونا ظاہر ہو یا اس کا غیبت ہونا ظاہر نہ ہو۔
پہلی قسم وہ موقع جب کہ وہ قطعی غیبت ہوتی ہے ایک ایسی بات کا ذکر کرنا ہے جو کسی شخص سے منسوب اس کا کوئی شرعی یا مشہور عام نقص ہو اور وہ بھی سننے والے سے اس طرح چھپا ہو کہ جس کی غیبت کی جائے وہ اس کے کھل جانے پر رضامند نہ ہو اور غیبت کرنے والا بھی اسے ذلیل کرنے اور اس میں عیب نکالنے پر تلا ہوا ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب کوئی کسی مومن کو گھٹانے کے لیے اس کی پوشیدہ بُرائی بیان کرے تو وہ بلاشبہ غیبت اور گناہِ کبیرہ ہے۔
دوسری قسم جو بظاہر غیبت کا مصداق ہے دوسرے کا چھپا ہوا عیب بیان کرنا ہے لیکن اس کی مذمت کرنے، اس میں عیب نکالنے اور اُسے گرانے کے لیے نہیں بلکہ کسی اور غرض سے مثلاً تفریح کے لیے یا دلیل اور ثبوت دینے کے لیے یا ہمدردی کی خاطر دوسرے کا چھپا ہوا عیب بیان کرے تو بھی اس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے اور روایتیں بھی ظاہر کرتی ہیں کہ یہ بھی غیبت کا مصداق ہے اور اسی ذیل میں آتا ہے۔
تیسری قسم ایک شخص کا عیب کسی ایسے آدمی کے سامنے بیان کرنا ہے جو اسے جانتا ہے بعض روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ غیبت کے دائرے سے خارج ہے اگرچہ کچھ روایتوں سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ یہ بھی غیبت ہے۔
ایسی صورت میں جب کہ کہنے والا دوسرے کو ملامت کرتا اور اس کی مذمت کرتا ہے قطعی حرام ہے چاہے اس کا غیبت میں شمار ہونا مشکوک ہو کیونکہ اس قسم کا بیان مومن کی دل آزاری اور توہین کا سبب ہوتا ہے اور اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔
اگر مذمت اور توہین کی نیّت نہیں ہے اور مجبوراً مذمت ہو جاتی ہے مثلاً کسی شخص کی ماں بدکردار تھی تو یہ تذکرہ کرنا بھی حرام ہے۔ چنانچہ سورہ حجرات میں دوسروں کے بارے میں نام رکھنے سے صاف صاف منع کیا گیا ہے۔ (آیت ۱۰)
غیبت کی قسمیں
واضح روایتیں اور فقہاء کے اقوال یہ ہیں کہ کسی کا عیب یا نقص بیان کرنے میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ نقص جسم کا ہے یا خاندان کا یا عادتوں کا، گفتگو کا ہے یا عمل کا، دین کے متعلق ہے یا دُنیا کے متعلق یا خاص اس انسان سے متعلق ہے مثلاً لباس، گھر، سواری وغیرہ کا عیب ہے اور بعض نے ہر ایک کی مثالیں بھی بیان کر دی ہیں۔ مثلاً جسم سے متعلق غیبت یہ ہے کہ کوئی کہے کہ فلاں اعمش ہے (جس کی آنکھیں ہمیشہ ڈبڈبائی رہتی ہیں) یا احول (بھینگا) ہے یا اعور (ایک آنکھ کا یعنی کانا) ہے اقرع (گنجا) ہے یا بونا، لمبا، کالا یا پتلا وغیرہ ہے یعنی اس کی ایسی خصوصیات بیان کرے جن کو سن کر وہ ناخوش اور آزردہ ہو جائے۔
غیبت گالی بھی ہوتی ہے مثلاً کوئی کہے کہ فلاں کا باپ بدکار یا بدذات یا کنجوس تھا یا اوباش وغیرہ تھا اور اخلاق کی غیبت یہ ہوتی ہے جیسے کہے کہ فلاں بداخلاق، کنجوس، مغرور یا ڈرپوک یا کمزور اور منافق یا چور اور ظالم ہے۔
دین سے متعلق کاموں کی غیبت یہ ہوتی ہے جیسے کوئی کہے کہ فلاں شخص جھوٹا یا شرابی یا نماز میں سست ہے۔ دُنیاوی کاموں کی غیبت یہ ہے جیسے کوئی کہے فلاں بے ادب ہے، ناشکرا ہے، اپنی اوقات نہیں پہچانتا، بکواسی یا پیٹو یا بہت سونے والا ہے۔ لباس کے متعلق مثلاً کوئی کہے کہ اس کا لباس میلا، پھٹا، پرانا، ڈھیلا ڈھالا، اٹنگا ہے۔ ایسے ہی اس کے متعلق دوسری باتوں میں بھی اگر اسے بُرائی سے اس طرح یاد کیا جائے کہ اسے اچھا نہ لگے بلکہ اس کی دل آزاری ہو تو یہ غیبت ہو گی۔
جاننا چاہیئے کہ غیبت میں کوئی فرق نہیں ہے خواہ دوسرے کا عیب زبان سے کھولا جائے یا عمل سے یا اشارے سے صاف صاف کہا جائے یا ایسے کنائے سے جو سمجھ میں آجائے۔ کبھی کبھی کنائے سے غیبت اور بھی بُری ہوتی ہے جیسے یہ کہا جائے الحمد للہ کہ خدا نے ہمیں حکومت کی ہوس یا ظالموں کی ہم نشینی یا دولت کا لالچ نہیں دیا یا یہ کہا جائے حرص یا کنجوسی یا بے شرمی سے خدا کی پناہ، خدا ہمیں شیطان کی بُرائی سے بچائے اور ان باتوں سے کنایہ اس شخص کی طرف ہو جو ان کاموں کا مرتکب ہوا ہے۔
اکثر ہوتا ہے کہ بعض دھوکے باز جب کسی کی غیبت کرنا چاہتے ہیں تو اس کی تعریف سے شروع کرتے ہیں کہ فلاں کتنا اچھا آدمی ہے لیکن افسوس ہے کہ شیطان کے چکر میں آ گیا اور اب یوں ہو گیا ہے۔ کبھی منافقت سے دوسرے کے لیے غم وغصہ کا اظہار کرتے ہیں کہ افسوس مجھے کتنا صدمہ ہوا اور فلانے کے لیے میرا دل کتنا کڑھا جب اس سے یہ فعل سرزد ہوا۔ اگر سچ مچ کا دوست ہوتا اور اس کا غم کھاتا تو کبھی اس کا راز فاش نہ کرتا اور اس کی بُرائی نہ کرتا۔
ایک غیر معین شخص کی غیبت
غیبت اس صورت میں ہوتی ہے جبکہ کسی مخصوص شخص کی ہو اور اگر کسی ایسے شخص کی غیبت ہو جس کا نام ونشان نہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے مثلاً کوئی کہے میں نے ایک شخص کو دیکھا جو ایسا تھا اور ایسا تھا۔ البتہ جب چند لوگوں میں سے ایک غیر معین شخص کی غیبت کرے کہ فلاں شخص کا ایک بیٹا ایسا ہے تو یہ حرام ہے کیونکہ اس طرح کہنے والے نے ان سب کو تکلیف دی اور آزار پہنچایا ہے اور اگر زیادہ لوگوں میں سے صرف ایک شخص کی غیبت کرے مثلاً کہے کہ ایک اصفہانی یا شیرازی ایسا اور ویسا تھا تو یہ جائز ہے اور اگر یہ بھی کہے کہ بعض اصفہانیوں یا شیرازیوں میں فلاں عیب ہوتا ہے تو بھی جائز ہے لیکن یہ کہے کہ تمام شیرازیوں یا اصفہانیوں میں فلاں عیب ہوتا ہے تو اس میں شک نہیں ہے کہ یہ حرام ہے کیونکہ اس صورت میں اس شہر کے تمام باسیوں کی توہین ہوتی ہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں شہر کے اکثر لوگوں میں یہ عیب پایا جاتا ہے تو یہ بات اختیار کے خلاف یعنی غیر محتاج بلکہ اس کے حرام ہونے میں زیادہ قوت اور امکان ہے۔(جاری)
غیبت کا کفارہ اور توبہ
چونکہ غیبت کرنا گناہِ کبیرہ ہے اس لیے اگر کسی نے ایسا کیا تو اس پر واجب ہے کہ فوراً اپنے کہے پر شرمندہ ہو کیونکہ اس نے اپنے پروردگار کی مخالفت کی اور دل سے شرمندہ ہونے کے بعد زبان سے استغفار بھی کرے اور نیّت کرے کہ پھر ایسا گناہ نہیں کرے گا۔ چونکہ بعض روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس شخص کی غیبت کی گئی ہے اس کا غیبت کرنے والے پر حق پیدا ہو جاتا ہے اس لیے ممکن ہو تو اس سے معافی مانگ لے اور اپنے آپ سے راضی کر لے اور جس طرح اس نے اس کی غیبت کی ہے اس کے مقابلے میں اسے نیکی سے یاد کرے تو بہتر ہے۔ ایسی صورت میں جبکہ جس شخص کی غیبت کی گئی ہے وہ مر چکا ہے یا اس کی پہنچ سے باہر ہے یا اس سے معافی مانگنے سے اس کے دُور ہو جانے کا اندیشہ ہو مثلاً وہ غیبت کی باتوں سے بے خبر ہے اور ان کے سُننے سے ناخوش ہو جائے گا اور معافی مانگنے کی غرض پوری نہیں ہو سکے گی تو ایسے موقع پر اس کی مغفرت کی دعا کرنا چاہیئے اور خدا سے عرض کرنا چاہیئے کہ اے پروردگار! اس شخص کو راضی اور خوش کر دے جیسا کہ صحیفہ سجادیہ کی دعا ۳۹ میں اور پیر کے دن کی دعا میں یہ بات بیان کی گئی ہے۔
غیبت کے جائز ہونے کے مواقع
فقہاء نے بعض موقعوں پر غیبت کرنے کو جائز سمجھا ہے۔ یہاں شیخؒ نے جو کچھ مکاسب میں فرمایا ہے اسی پر اکتفا کی جاتی ہے:
( ۱) اس شخص کی غیبت کرنا جس کا گناہ پوشیدہ نہیں ظاہر ہو۔ مثلاً کوچہ وبازار میں ہاتھ میں شراب کا پیالہ لیے کھلم کھلا پیتا پھرے۔ چنانچہ روایت میں ہے :"جب کوئی گناہگار کھلم کھلا گناہ کرتا ہے اور کسی کا لحاظ نہیں کرتا تو اس کی غیبت حرام نہیں ہے۔" اسی طرح جس نے شرم اور لحاظ ختم کر دیا یعنی لوگوں کے سامنے جو گناہ کرنے میں نہیں شرمایا اس کی غیبت نہیں ہوتی یعنی اس کی غیبت کرنا حرام نہیں ہے۔ (مکاسب)
جاننا چاہیئے کہ غیبت اس گناہ کے سبب سے جائز ہو جاتی ہے جو کھلم کھلا کیا جاتا ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ جو گناہ پردے میں کیے جاتے ہیں ان کے باعث بھی غیبت جائز ہو جاتی ہے یا نہیں؟ اگرچہ شیخ فرماتے ہیں کہ اگر کھلا ہوا گناہ چھپے ہوئے گناہ سے زیادہ سخت ہو تو اس کے ذکر میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن احتیاط اسے ترک کر دینے میں ہی ہے۔
یہ بھی معلوم ہو جانا چاہیئے کہ کھلم کھلا گناہ کرنے والے کی غیبت اس صورت میں جائز ہے جبکہ اس نے خود اپنے گناہ کا اقرار کیا ہو لیکن اگر وہ اپنے عمل کا کوئی صحیح عذر پیش کرے تو اس کی غیبت جائز نہیں ہے۔ مثلاً شراب کو دَوا کے طور پر اور بیماری کے علاج کی غرض سے پینے کا عذر کرتا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں ایسے شخص کی تقلید میں ہوں جو شراب کو اس صورت میں جائز جانتا ہے یا مثلاً رمضان کے مہینے میں کھانا کھانے کے لیے یہ عذر پیش کرتا ہے کہ میں مریض یا مسافر ہوں یا دوسرے قابلِ قبول عذر رکھتا ہے اور مثلاً ایسا شخص جو گناہ کرتا ہے تو اپنے عمل کے لیے کوئی عذر گھڑ لیتا ہے بشرطیکہ اس عذر میں بظاہر کوئی نقصان یا خرابی نہ ہو اور احتیاط اس شخص کی غیبت ترک کرنے میں بھی ہے جو کسی انجان شہر یا اجنبی محلے میں وہ گناہ کھلم کھلا کرتا ہے۔
( ۲) مظلوم اگر اپنے آپ پر کیے ہوئے ظالم کا ظلم بیان کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے یہ غیبت نہیں ہے جیسا کہ خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے :" جو شخص اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد ظالم سے انتقام لیتا ہے اور جو ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں ان پر کوئی سختی یا ناخوشی نہیں ہے۔" (ظالموں سے بدلہ لینے میں کوئی گناہ نہیں ہے )۔ دراصل گناہ اور عذاب ان لوگوں پر ہوتا ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور کسی سبب اور دلیل کے بغیر حد سے بڑھ جاتے ہیں۔ انہیں لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (سورہ شوریٰ آیت ۳۹)
خداوند عالم سورہ نساء میں فرماتا ہے:" خدا مظلوم کے علاوہ اور کسی کا کھلم کھلا بُری باتیں کرنا پسند نہیں کرتا۔" (آیت ۱۴۸)
احتیاط اس میں ہے کہ مظلومیت کا اظہار اس شخص کے سامنے کرے جس سے اسے داد خواہی یعنی انصاف کی اُمید ہو اور اگر کسی کو یہ معلوم ہو کہ اس شخص سے انصاف نہیں ہو گا یا یہ انصاف نہیں کرے گا تو اس سے ظالم کی شکایت نہ کرے اور اس کے ظلم کا ذکر بھی نہ کرے۔
( ۳) مشورہ طلب کرنے والے کو نصیحت: جب کوئی مسلمان کسی ایسے معاملے میں جو کسی مخصوص شخص کے ساتھ کرنا چاہتا ہے کسی سے مشورہ کرتا ہے اور جس سے مشورہ کیا جاتا ہے اور وہ اس مخصوص شخص کا کوئی ایسا عیب جانتا ہے جو اگر بیان نہیں کرتا تو معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور وہ مسلمان پریشانی میں پڑ جاتا ہے۔ چنانچہ درحقیقت اس کو یہ عیب نہ بتانا نقصان میں پھنسانے اور اس کے ساتھ خیانت کرنے کے مترادف ہے۔ تو اس صورت میں اس شخص کا عیب بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جاننا چاہیئے کہ اس مسئلے میں احتیاطاً دو باتوں کا لحاظ رکھنا ہے ایک یہ کہ ایسی صورت میں اس شخص کا عیب بیان کرے جب نہ کہنے سے نقصان زیادہ ہو اور اگر اس کے برعکس ہو یعنی مشورہ کرنے والے کا نقصان سے زیادہ اس شخص کی بے آبروئی اور بے عزّتی کا نقصان ہو جس کا عیب بیان کیا جاتا ہے تو لازم ہے کہ اس کا عیب بیان کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اس شخص کے عیب کا ذکر کرنا اس وقت جائز ہے جب اس معاملے سے پیدا ہونے والی خرابی روکنے کے لیے اس عیب کا ذکر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہ ہو۔ اگر اس عیب کا ذکر کیے بغیر ہی کام چل جائے مثلاً اتنا ہی کہے کہ اس معاملے میں مجھے اس کی صلاحیت کا علم نہیں ہے اور وہ (مشورہ کرنے والا) اسی کو مان لیتا ہے تو پھر اسی پر اکتفا کرنا چاہیئے۔
( ۴) نہی از منکر کی نیّت سے جب کہ اس کی تمام شرطیں پوری ہوتی ہوں غیبت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے یعنی جب کسی مسلمان کا کوئی بُرا فعل دیکھے اور یہ سمجھے کہ اگر وہ اس کی غیبت کرتا ہے تو وہ اس کام کو ترک کر دے گا غیبت جائز ہے۔ لیکن اس صورت میں جب کہ اس کے بُرے فعل پر اس شخص کا اصرار جانتا ہے البتہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس نے ترک کر دیا ہے تو اس کا ذکر جائز نہیں ہے۔ اسی طرح پچھلے قضیئے کے مانند غیبت کرنے کی خرابی اور اس بُرے فعل کی خرابی کا موازنہ کر لینا چاہیئے۔ اگر اس مسلمان کی بے عزتی کا نقصان اس بُرے فعل کے نقصان سے زیادہ ہے جس میں وہ مشغول ہے تو اس کی غیبت کرنا جائز نہیں ہے چاہے اسے اس بات کا یقین ہی ہو کہ غیبت کرنے سے وہ شخص اس گناہ کو ترک کر دے گا۔
اس بات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کسی مسلمان کا گناہ دیکھو تو اس کے صحیح ہونے ہی کا گمان کرو اور اگر اس کا گناہ ہونا قطعی نظر آئے اور اسے صحیح سمجھا ہی نہ جا سکے تو ایسی صورت میں جبکہ اس مسلمان نے وہ گناہ ترک کر دیا ہو اور اسے نہ دُہرایا ہو اس کے اس گناہ کا ذِکر کرنا حرام ہے اور اسی طرح اسے منع کرنا یا ملامت کرنا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ نہی از منکر کا مقصد ترکِ گناہ ہوتا ہے اور جب کسی نے خود ہی گناہ ترک کر دیا ہو تو پھر اسے منع کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی اور اگر اس نے گناہ ترک نہیں کیا بلکہ اس پر اصرار کرتا ہے تو اس صورت میں چھپے ہوئے گناہ کو دوسرے کے سامنے کھولنا اور بیان کرنا حرام ہے۔ اسے نہی از منکر کی تمام شرطوں کے ساتھ گناہ سے روکنا چاہیئے اور اگر نہ رُکے اور یہ سمجھ میں آئے کہ اس کا گناہ دوسروں سے بیان کرنے پر یہ اسے ترک کر دے گا تو اس صورت میں اس کا گناہ بیان کرنا جائز ہے لیکن شرط یہی ہے کہ گناہ کا ترک کرنا اس مسلمان کی آبرریزی اور رسوائی سے زیادہ اہم ہو۔
جو کچھ یہاں کہا گیا ہے اس سے یہ معلوم ہو گیا کہ نہی از منکر کی خاطر مسلمان کی غیبت اسی صورت میں جائز ہے جب وہ مسلمان اس گناہ پر اصرار کرتا ہو اور صرف منع کرنے سے باز نہ آتا ہو اور اس گناہ کا نقصان اس کی آبروریزی اور رسوائی سے زیادہ ہو اور یہ بھی معلوم ہو کہ اگر اس کی غبیت کی جائے گی تو وہ اس گناہ کو ترک کر دے گا۔ اگر ان چاروں شرطوں میں سے ایک بھی کم ہوئی تو اس کی غیبت کرنا حرام ہے
( ۵) ایسے شخص کا عیب کھولنا اور اس کی غیبت کرنا جو خود بھی گمراہ ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے والا ہے اور خدا کے دین میں بدعت کو رواج دینے والا ہے تو اس خیال سے کہ لوگ اس سے دھوکا نہ کھائیں اور اس کے جال میں نہ پھنسیں۔
( ۶) جس گناہگار نے کوئی روایت بیان کی ہو یا کسی بات کی گواہی دی ہو اس نیت سے اس کی غیبت کرنا کہ لوگ اس کے گناہ سے واقف ہو جائیں او اس کی بات کا اثر قبول نہ کریں۔
( ۷) کسی کا ایسے عیب اور نقص سے ذکر کرنا جس سے وہ مشہور ومعروف ہو جیسے اعمش (جس کی بینائی کمزور ہو اور آنکھیں برابر ڈبڈبائی رہتی ہوں)، بھینگا، لنگڑا وغیرہ لیکن اس طرح کہ اس کا عیب بیان کرنا مقصود نہ ہو بلکہ اسے صرف پہچنوانا منظور ہو اور وہ شخص بھی ان القاب (ناموں) سے ناراض نہ ہو ورنہ ان سے پرہیز کر کے کسی دوسری طرح اسے صرف پہچنواناچاہیئے ۔
( ۸) کسی ایسے شخص کی تردید (کاٹ) کرنا جو کسی خاندان سے یا نسل سے اپنے تعلق کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہو کیونکہ نسلوں اور خاندانوں کی حفاظت کا خیال دعوے دار کی بے عزت کے نقصان پر مقدم ہے۔
( ۹) کتاب کشف الریبہ میں بعض فقہاء سے نقل کیا گیا ہے جب دو آدمی کسی شخص کا گناہ دیکھیں اور اس کی غیر حاضر میں ایک دوسرے سے بیان کریں تو یہ جائز ہے کیونکہ کہنے والا سُننے والے سے کوئی ایسی بات نہیں کہتا جو سُننے والے کی نظر سے چھپی ہوئی ہو بلکہ جو بات اس نے خود بھی دیکھی ہے وہی دُہراتا ہے اور شہید نے فرمایا ہے کہ ایسی بات چیت ترک کرنا خاص طور پر اس صورت میں بہتر ہے جب کہ یہ خیال ہو کہ سُننے والا اسے بھول چکا ہے یا یہ اندیشہ ہو کہ اصل واقعہ مشہور نہ ہو جائے۔
شیخ انصاری فرماتے ہیں کہ دو آدمیوں کا اس گناہ کا ایک دوسرے سے بیان کرنا اگر اس شخص کی ملامت اور عیب جوئی کی خاطر ہو تو حرام ہے ورنہ جائز ہے۔
( ۱۰) کلیہ یہ ہے کہ جس موقع پر کسی مومن کی غیبت کرنے میں اس کی رسوائی کے نقصان سے زیادہ فائدہ ہو جیسے اپنے معاملات میں گواہی دینا تو غیبت جائز ہے۔(جاری)
غیبت سُننا بھی حرام ہے
جس طرح غیبت کرنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے اسی طرح غیبت سُننا بھی تمام فقہاء کے نزدیک یکسر حرام ہے اور پیغمبر اکرم ﷺ فرماتے ہیں: " غیبت سُننے والا غیبت کرنے والے کے برابر ہے اور غیبت پر کان دھرنے والا غیبت کرنے والوں میں سے ہے۔" (مستدرک الوسائل کتاب حج باب ۱۳۶) اور حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "کسی مسلمان کی غیبت کرنا کفر کے برابر ہے اور غیبت سننا اور اس سے خوش ہونا شرک کے برابر ہے۔"(کشف الریبہ)
ان روایتوں کو دیکھنے کے بعد جو مومن کی شان میں آئی ہیں، اس کے احترام کو کعبے سے بھی زیادہ اور اس کی آبروریزی کو اس کا خون بہانے کے برابر جانتی اور اس کا راز کھولنے کو دردناک عذاب کا سبب شمار کرتی ہیں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غیبت کا سب سے بڑا رکن اور مومن کی توہین کا سبب سُننے والا شخص ہوتا ہے کیونکہ اگر سُننے والا نہ ہو یا نہ سُنے تو غیبت نہیں ہوتی۔ اس لیے ہر مسلمان پر واجب ہے کہ جب یہ دیکھے کہ کوئی شخص کسی مومن کا عیب بیان کر رہا ہے تو اسے نہ سنے بلکہ اس کی کاٹ کرے اور اس مومن کی حمایت کرے۔
رسولِ خدا ﷺ فرماتے ہیں: "جس کسی کے سامنے اس کے دینی بھائی کی غیبت ہو رہی ہو اور وہ حتی الامکان اس کی حمایت کرتا ہے تو خدا دُنیا اور آخرت میں اس کی، مدد فرمائے گا اور اگر اس نے امکان اور سکت کے باوجود اس کی حمایت نہیں کی تو خدا بھی اسے اس کے حال پر چھوڑ دے گا اور دُنیا اور آخرت میں اس کی مدد نہیں کرے گا۔" (المجالس)
آپ یہ بھی فرماتے ہیں: "جو کوئی اپنے دینی بھائی کے ساتھ اس کی اس غیبت کے سلسلے میں جو کسی صحبت میں ہوتی ہے اس طرح نیکی کرتا ہے کہ اس غیبت کی تردید کرتا ہے تو خدا دُنیا اور آخرت کی ہزاروں قسم کی بُرائیاں اس سے دُور کر دے گا اور اگر وہ شخص امکان اور سکت کے باوجود غیبت کی تردید نہیں کرے گا تو اس کے گناہ غیبت کرنے والے کے گناہ سے ستر گنا زیادہ ہو جائیں گے۔"
شیخ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس غیبت سُننے والے کے گناہ جس نے غیبت سن کر اس کی کاٹ نہیں کی خود غیبت کرنے والے سے بڑھ جانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی یہ خاموشی یا پہلو تہی مومن اور دوسروں کی غیبت کرنے کی لوگوں کو جرأت دلاتی ہے۔
غیبت کی کاٹ نہ کرنا، غیبت سے نہ روکنا، اور غیبت سُن کر خاموش رہنا غیبت کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
پس اگر کوئی دُنیاوی عیب ہو تو کہے کہ یہ عیب نہیں ہے بلکہ عیب وہ باتیں ہیں جنہیں خدا نے عیب قرار دیا ہے اور جن سے منع فرمایا ہے یعنی گناہ اور اس میں اپنے بھائی سے ایسی بات منسوب کرنا بھی شامل ہے جس کو خدا نے عیب نہیں جانا ہے یعنی تیرا غیبت کرنا عیب ہے اور اگر وہ دینی عیب ہو مثلاً اگر کوئی مومن کا کوئی گناہ بیان کرتا ہے تو اسے چاہیئے کہ وہ اس کی صحیح صحیح وجہ بیان کرے یعنی اس کی صحیح توجیہ کرے اور اگر صحیح توجیہ ممکن نہ ہو تو کہے کہ مومن معصوم نہیں ہوتا اس سے گناہ سرزد ہونا ممکن ہے اس لیے اس کی مغفرت کی دعا کرنا چاہیئے اسے ملامت یا رُسوا نہیں کرنا چاہیئے۔ ممکن ہے تیری ملامت اور تنبیہ اس مومن کے گناہ سے زیادہ ہو۔
غیبت کی کاٹ کے مستثنٰی موقعے
جاننا چاہیئے کہ اس صورت میں غیبت سُننا حرام اور اس کی کاٹ اور مومن کی حمایت واجب ہے جبکہ ان دس موقعوں میں سے کوئی موقع پیش نہ آئے جن پر غیبت کے جائز ہونے کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ اس لیے غیبت کی تین قسمیں ہو سکتی ہیں: اوّل وہ جسے وہ یہ جان لے کہ یہ دس استثنائی موقعوں کی غیبت ہے۔ ایسی صورت میں اس کا سُننا جائز اور اسے کاٹنا واجب نہیں ہے۔ دوم وہ جبکہ یہ یقین کر لے کہ یہ غیبت مذکورہ موقعوں کی نہیں ہے پھر اس کا سُننا قطعی حرام اور امکانی حد تک اس کی کاٹ واجب ہے۔ سوم جب یہ خیال ہو کہ یہ غیبت کے جائز موقعوں سے متعلق ہے۔ اس صورت میں موازنہ کرے اس غیبت کو نہ سُننے، رد کرنے بلکہ مومن کی حمایت کا غیبت کرنے والے کی عزت بچانے سے کیونکہ یہ ہوسکتا ہے کہ موقع جائز ہو اور گناہ نہ ہو۔ مثلاً غیبت کرنے والا کہے کہ شاید آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے اور اس عیب کی وہ کوئی صحیح وجہ بیان کرے۔
دوزخ اور دوزبانا
شیخ انصاریؒ مکاسب میں غیبت کی بحث کے آخر میں فرماتے ہیں: "اگر غیبت کرنے والا ایسا ہو جو اس شخص کے منہ پر جس کی غیبت کر رہا ہے تعریفوں کے پل باندھ دیتا ہے لیکن پیٹھ پیچھے اس کے عیب بیان کرتا ہے تو اس کا عذاب دُگنا ہوتا ہے اور شرع میں اسے ذواللسانین یعنی دو زبانوں والا کہا جاتا ہے اور اس صورت میں غیبت سخت حرام ہو جاتی ہے۔ روایتوں میں کہا گیا ہے کہ ایسا شخص جب قیامت میں آئے گا تو اس کے منہ سے آگ کی دو زبانیں لٹکتی ہوں گی۔ . ۔(مکاسب)
کتاب گناہان کبیرہ، شہید دستغیب شیرازیؒ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں