جمعہ، 15 مئی، 2020

امام جعفر صادق علیہ السلام اور فکری جمود سے مقابلہ

امام جعفر صادق علیہ السلام اور فکری جمود سے مقابلہ
حجۃالاسلام آقای مہدی پیشوائی
فکری جمود اورروشن فکری:فکری جمود کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی مسئلہ سے باخبر ہونے کے بعد اس سے متعلق دلائل فراہم کرے اور کسی نتیجہ تک پہنچ کر اسے اپنا عقیدہ بنالے پھر اس مسئلہ سے متعلق کسی مزید گفتگو یا اس کے خلاف کوئی دلیل سننے کے لئے آمادہ نہ ہو ،یعنی اسی عقیدہ پر اپنی فکر کومحدود کرلے ۔ اسی طرح جب فکری جمود کی لفظ استعمال کی جاتی ہے تو اس سے کچھ قدامت پسندی کی بھی بوآتی ہے، یعنی فکری جمود کا حامل شخص قدامت پسند ہوتا ہے، قدیم افکار میں گم ہوتا ہے اور کوئی نئی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔ فکری جمود کے مقابلے میں روشن فکری کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ روشن فکر اسے کہتے ہیں جو کھلی اور روشن فکر کا مالک ہو یعنی پڑھا لکھا ہو،اچھا مطالعہ رکھتا ہو اور نئی بات مان لیتا ہو ۔ 
ہماراموضوع ہے کہ امام جعفر صادق علیہ الصلوٰۃ و السلا م نے فکری جمود سے کیسے مقابلہ کیا؟ لیکن میرے خیال میں امام صادق علیہ السلام کا دور فکری پرورش کا دور تھا ،البتہ چند ایک گروہ جامد فکر بھی رکھتے تھے جن سے آپ نے مقابلہ کیا ہے لیکن عام طور سے آپ کا دور ایک فکری نقل و انتقال اور تبادل آراء کا دور تھا ۔اس کا سبب یہ تھا کہ سیاسی نظام میں تبدیلی آچکی تھی۔ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ ہمارے ائمہ میں صرف امام صادقؑ ہی وہ تنہا امام ہیں جنھوں نے بنی امیہ اور بنی عباس دونوں کا دور حکومت دیکھا ہے اور دونوں ادوار میں موجود رہے ہیں ۔ 
۱۱۴ھ میں امام محمد باقر علیہ السلام کی شہادت ہوئی جس کے بعد امام صادق علیہ السلام منصب امامت پر فائز ہوئے۔۱۳۲ھ میں بنی عباس بنی امیہ کا قلع قمع کرکے خود تخت حکومت پر قابض ہو گئے ۔ تاریخ میں ہم نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ جس وقت کوئی نئی حکومت آتی ہے اور طویل مدت تک حکومت کرنا چاہتی ہے تو وہ اپنے طرز فکر سے ہم آہنگ کلچر اور ماحول پیدا کرتی ہے پھر جب تک وہ حکومت رہتی ہے اس کا ایجاد کردہ طرز فکر اورماحول بھی باقی رہتا ہے اور جب وہ حکومت ختم ہو جاتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اس کا بنایا ہوا ماحول اور طرز فکر بھی جاتا رہتا ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے نئے سیاسی نظام کے ساتھ ساتھ نیا طرز فکر بھی لوگوں میں آجاتا ہے ۔
عصر امام جعفر صادق علیہ السلام:امام صادق علیہ السلام کے زمانے میں جب بنی امیہ کی حکومت ختم ہو گئی تو ان کا ایجاد کیا ہوا طرز فکر اور ان کی بنائی ہوئی تہذیب بھی ختم ہو گئی۔ جب بنی عباس نے اقتدار سنبھالا تو ان کے افکار اور بنی امیہ کے افکارمیں کافی فرق تھا۔یہ اپنی جدید فکر پیش کرتے تھے پھر اسی دور میں جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب ’سیرئہ پیشوایان‘ میں بھی تذکرہ کیا ہے، تھوڑا بھت یونانی کتب کے ترجمہ کا باب کھل گیا تھا۔ مسلمانوں نے یونانی فلاسفہ کے اقوال و کتب کا ترجمہ کرنا شروع کردیا ، مختلف مذہبی فرقے پیدا ہوئے ،آزادیٴ فکر کا ماحول بنا ، بحث و مناظرے ہونے لگے ۔اس طرح مختلف گروہ اور مختلف فرقے وجود میں آگئے ۔کہا جاتا ہے کہ یہ سب بنی عباس کی دین تھی لیکن شہید مطہری فرماتے ہیں کہ آزادیٔ فکر، تبادلۂ خیال ،گفتگو،بحث اور استد لال، یہ سب اسلام کی برکات تھیں ، نہ یہ کہ بنی عباس کی دین تھی ۔ہاں ! بنی عباس نے اتنا کیا کہ ان سب پر پابندی نہیں لگائی ۔ بنی امیہ نے تو لوگوں کا دم گھونٹ رکھا تھا۔ وہ صرف اپنی فکر رائج کرنا چاہتے تھے لیکن بنی عباس نے ایسا نہیں کیا جس کی وجہ سے اسلام میں موجود آزادی ٴ فکر ،بحث و گفتگو اور استدلال کو راستہ ملا تو اس نے رشد کرنا شروع کردیا۔ اس طرح آپ کے زمانے میں ایک عجیب ماحول پیدا ہو گیا تھا۔ میرا اپنا خیال یہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام کا دور وسعت فکری کے ساتھ ساتھ فکری تناؤ کا بھی دور تھا یا شہید مطہری کے بقول آپ کے دور میں ادیان و مکاتب اور افکار و نظر یات کا بازار گرم تھا ۔جو شخص چاہتا تھا بولتا تھا لھٰذا اسلام واقعی یعنی مکتب تشیع کے وارث امام صادق علیہ السلام کو حقیقی اسلام کی حمایت اور ترویج میں صرف ایک دو محاذپر مقابلہ نھیں تھا بلکہ آپ کو کئی ایک فکری محاذ سر کرنے پڑرہے تھے ۔ 
امام صادق علیہ السلام کا دھریوں سے مقابلہ:ان میں فکری جمود رکھنے والے کچھ زندیق اور دھرئیے تھے جن کا وہی کہنا تھاجو رسول ﷺ کے دور کے دہرئیے کہتے تھے ”اِنْ ھی اِلاّ حیاتنا الدنیا نموت و نحیی وما یھلکنا الا الدھر“ آج کے دور کے مادّہ پرستوں کی طرح وہ کہتے تھے کہ محسوسات کے علاوہ ہم کسی چیز کے وجود کے قائل نھیں ہو سکتے  معقولات کوئی چیز نھیں ہے ۔ جس چیز کو ہم چھوتے ہیں ، دیکھتے ہیں ، سنتے ہیں یا چکھتے ہیں اسی کو مانتے ہیں ۔ تو یہ اس دور کے میڑیالسٹ یا مادّہ پرست تھے جن کو زندیق یا دہریہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ۔امام صادق علیہ السلام کو جن فکر ی گروہوں سے مقابلہ کرنا تھا ان میں بہت زیادہ فکری جمود رکھنے والا گروہ یہی تھا۔ 
امام صادق علیہ السلام اور مکتب ابو حنیفہ:آپ کے سامنے ایک دوسرا محاذ فقہ میں قیاس کے ماننے والوں کا تھا ۔اس گروہ کے سرغنہ ابو حنیفہ تھے۔ ابو حنیفہ ذاتی رائے اور قیاس کی بنیاد پر فتویٰ دیا کرتے تھے۔ علماء اہل سنت بھی مانتے ہیں کہ ایک قول کے مطابق ابو حنیفہ کو صرف ستّرہ حدیثیں یاد تھیں ۔کچھ اس سے بھی زیادہ بڑہ کے بولے ہیں ۔ مقدمہ ابن خلدون میں ابن خلدون کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ احادیث سے کم کام لیتے تھے اوروہ اس لئے کہ شاید ان کی نظر میں بیشتر احادیث غیر معتبر تھیں ۔ بہر حال اتنا طے ہے کہ ابو حنیفہ کو بہت تھوڑی سی حدیثیں یاد تھیں ، یہ اور بات ہے کہ ابن خلدون نے خوش فہمی سے کام لیتے ہوئے اسے ایک دوسرا رخ دے دیا ہے کہ ابو حنفیہ کے نزدیک احادیث معتبرہ بہت کم تھیں ۔ چونکہ ماضی میں جنگ و جدال ا وروضع حدیث کا دور تھا اس لئے ابو حنیفہ ان احادیث کو معتبر نھیں سمجھتے تھے اور احکام شریعت میں اپنی ذاتی راٴی اور قیاس سے کام لیتے تھے۔ اس طرح امام جعفر صادق علیہ السلام کے سامنے ایک محاذ ان لوگوں کا تھا جو احکام میں قیاس کے قائل تھے ۔ 
امام صادق علیہ السلام اور مشبّھہ:ایک دوسرا فکری محاذ ان لوگوں کا تھا جنھیں مشبّہہ کہا جاتا ہے ۔یہ لوگ خدا کو انسان سے تشبیہ دیتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ خدا کے اعضاء ہیں ، جسم اور آنکھیں ہیں ۔قرآن میں موجود اس طرح کی آیات کو ان کے ظاہر پر حمل کرتے تھے مثلاً ”واللهیسمع تحاورکما “ اے پیغمبر تمہارے پاس جو عورت اپنے شوہر کی شکایت لے کر آئی تھی خدا تم لوگوں کی باتوں کو سن رہا تھا ۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا سن رہا تھا یعنی اس کے کان ہیں ، یا مثلاً ” الرحمن علی العرش استوی“ کہتے ہیں یعنی رحمٰن عرش پر اپنا مکان رکھتا ہے۔ ابن تیمیہ منبر پر بیٹھ کر کہتا ہے: ”الرحمن علی العرش استوی “ کا مطلب یہ ہے کہ جیسے میں اس وقت منبر پر بیٹھا ہوں ایسے ہی خدا عرش پر بیٹھتاہے ۔یہ سب باتیں ان کی کتابوں میں بھی موجود ہیں اور اب بھی وہ یہ باتیں زور د ے کر کہتے ہیں ، یا مثلاً قیامت کے بارے میں خدا فرماتا ہے ” وجاء ربک والملک صفاً صفا “ اے پیغمبر ! روز قیامت تمھارارب اور ملائکہ صف در صف آئیں گے ،ہم شیعہ اور معتزلہ کہتے ہیں کہ یہاں پر ”امر“ پوشیدہ ہے یعنی امر خدا اور ملائکہ، جبکہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ نھیں یہ امر وغیرہ تم نے اپنی طرف سے گڑھ لیا ہے، خدا کہتا ہے ” وجاء ربّک“ یعنی خود خدا آئے گا ۔کہتے ہیں کہ دنیا میں خدا دیکھا نہیں جاسکتا لیکن آخرت میں جب وہ خود آئے گا تو سب اس کا دیدار کریں گے ۔ اس طرح کے لوگ امام صادق علیہ السلا م کے زمانے میں تھے ۔ 
امام صادق علیہ السلام اور مرجئہ:ایک اور خطر ناک گروہ تھا جس کا نام”مرجئہ“ تھا۔ایک قول یہ ہے کہ بنی امیہ ان لوگوں کی پشت پناہی کرتے تھے اور اگر بنی امیہ ان کی پشت پناہی نہ بھی کرتے رہے ہوں تب بھی ان کے اور بنی امیہ کے رجحانات ایک جیسے تھے ۔ ان کے نظر یات بنی امیہ کے لئے بڑے فائدہ مند ثابت ہوئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایمان ایک امر قلبی ہے ۔دل میں ایمان ہو بس کافی ہے یعنی کسی شخص کے دل میں ایمان ہو عمل میں چاہے بت پرستی کرے ،شراب پیئے یاکچھ بھی کرے اس کے ایمان کو کوئی نقصان پہنچنے والا نھیں ہے۔ یہ نظریہ بنی امیہ کے لئے بڑا مفید ثابت ہوا۔وہ اس نظریہ کی بہت ترویج کرتے تھے اورکہتے تھے کہ اگر ہم نے کوئی غلط کام کیا ہے یا گناہ کیا ہے تو اس سے ہمیں یا ہمارے ایمان کو کوئی ضرر پہنچنے والا نھیں ہے ۔ اس طرح امام علیہ السلام کے سامنے فکری محاذ پر ایک دوگروہ نھیں تھے بلکہ کئی ایک گروہوں سے آپ برسر پیکار تھے ۔ 
مبارزہ و مقابلہ کا طریقہ و انداز:اب جائزہ لیتے ہیں کہ امام علیہ السلام ان تمام گروہوں سے کس طرح مقابلہ کرتے تھے۔ امام علیہ السلام در حقیقت دو طرح سے ان لوگوں کا مقابلہ کرتے تھے ؛ایک یہ کہ خود براہ راست ان کے مقابلے میں آتے تھے، دوسرے یہ کہ آپ شاگرد تربیت کرتے تھے اور آپ کے شاگرد جاکر بحث کیا کرتے تھے لیکن آپ کا مقابلہ منطقی اور استدلالی ہوا کرتا تھا ۔کبھی حضرت ایک فکری جھٹکا دے دیا کرتے تھے کہ سامنے والا کچھ سوچنے پر مجبور ہو جائے اور کم از کم احتمال تو دے کہ میری بات غلط بھی ہو سکتی ہے ۔فکری اعتبار سے منجمد شخص اپنی بات کے غلط ہونے کا احتمال تک نھیں دیتالہذاحضرت ان کو فکری جھٹکا دیا کرتے تھے کہ کم از کم دل میں اپنی بات کے غلط ہونے کا احتمال پیدا ہوجائے اور پھر یہی احتمال ایک محرّک بن کرانسان کو اپنے خیال پر نظر ثانی کرنے کے لئے مجبور کردے ۔ 
حضرت عام طور سے استدلالی انداز سے وارد میدان ہوتے تھے اور استدلال کبھی عقلی ہوتا تھا تو کبھی نقلی ، کبھی جدل کی شکل میں تو کبھی منطقی حضرت کبھی خود براہ راست ان کے بڑوں کے مقابلے میں جاتے تھے جن کا اصرار ہوتا تھا کہ خود حضرت سے بحث کریں اور کبھی ان شاگردوں کو میدان میں بھیجتے تھے جن کی آپ نے تربیت کر رکھی تھی یا تربیت کررہے تھے ۔ یہ مطلب بھی قابل ذکر ہے کہ ایک قول کے مطابق امام جعفر صادق علیہ السلام یونیورسٹی میں طلاب کی تعداد چار ہزار تھی۔ مرحوم شیخ مفیدؒ ۺنے فرمایا ہے کہ یہ چار ہزار شاگرد مختلف مو ضوعات میں تربیت شدہ تھے ۔ کلام اور مناظرات کلامی میں ہشام بن عبدالملک، ہشام بن سالم یا مومن طاق ،فقہ میں محمد بن مسلم ،زرارہ ابن اعین اور زرارہ کے بھائی حمران بن اعین، ادبیات میں آبان بن تغلب اور اس طرح دسیوں دوسرے افراد کہ جن کا تذکرہ ہم نے سیرئہ پیشوایان میں بھی کیا ہے، مختلف علوم میں مہارت رکھتے تھے۔ حضرت نے مختلف موضوعات میں (Specialization) یعنی تخصصی و مہارتی سلسلہ قائم کیا تھا ۔ فقہ ،کلام ، تفسیر، حدیث ، علم قرائت اور ادبیات وغیرہ اور جس علم میں بھی کوئی شخص رجوع کرتا تھا تو آپ اسے اپنے شاگردوں کی طرف بھیج دیتے تھے ۔ ایک جگہ ملتا ہے کہ ایک آنے والے کا اصرار تھا کہ خود حضرت سے بحث کرے گا۔ حضرت نے اس سے فرمایا: اگرتو نے میرے اس شاگرد کو شکست دے دی گو یا مجھے شکست دے دی ۔ آپ اس طرح کے ماہر شاگردوں کی تربیت کررہے تھے ۔ 
بعض نمونے:اب حضرت ؑکے مخالفین سے مقابلہ کے کچھ نمونوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اس زمانے میں ایک گروہ دہریوں اور زندیقیوں کا تھا جو کسی بھی صورت میں خدا کو نھیں مانتے تھے۔ زندیق کی لغت کے بارے میں بعض کا خیال ہے کہ یہ کلمہ فارسی سے ماخوذ ہے ۔ 
انہیں زندیقوں میں ایک شخص عبدالکریم بن ابی العوجاء تھا جس کی معلومات کافی زیادہ تھیں اور وہ بہت ہی شاطر دماغ کا مالک تھا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ حضرت کے شاگرد اس سے بحث کرنے میں اپنی بات ثابت نہ کرپاتے تو حضرت ہدایت کرتے تھے اور یہ جاکر اسے جواب دیتے تھے ،پھر وہ کہتا تھا کہ یہ بات جو تم کہہ رہے ہو وہ تمہارے ذہن کی نہیں ہے ۔یہ حجاز سے آئی ہے، یعنی تم امام صادق علیہ السلام سے پوچھ کر آئے ہو۔یہ تمہارے اپنے ذہن کی پیداوار نھیں ہے ۔ 
مومن طاق جو کوفہ (عراق)میں رہتے تھے، انھیں حضرت کی خدمت میں حاضری کا موقع کم ملتا تھا۔ ایک روز مدینہ (حجاز)میں حضرت کی خدمت میں پہنچے اور عرض کرنے لگے مولا! ابن ابی العوجا ء سے بحث چل ری ہے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ کیا ایسا نھیں ہے کہ جو شخص کسی چیز کو بنائے وہ اس کا خالق ہوا کرتا ہے ؟ میں نے کہا ہاں ! ایسا ہی ہے تو اس نے کہا کہ دو مہینہ مجھے وقت دو میں تمہارے سامنے ایک ایسی مثال پیش کروں گا جس سے تمھیں اندازہ ہوگا کہ میں بھی خالق ہوں ۔تم کہتے ہو خداایک ہے اوروہی خالق ہے لیکن میں تمھیں بتاوٴں گا کہ نھیں ایک دوسرا خالق بھی ہے اوروہ ابن ابی العوجاء ہے۔ امام نے فرمایا اس نے جوتم سے دو مہینہ کی مہلت مانگی ہے اس میں وہ دو بھیڑ کی کھالوں میں گندگی بھر کے رکھ دے گا اورپھر دو مہینے میں اس گندگی سے کیڑے ہی کیڑے پیدا ہوجائیں گے پھر وہ ان کھالوں کو لے کرتمھارے پاس آئے گا اور کہے گا کہ ان کیڑوں کو میں نے خلق کیا ہے ۔ قرآن نے جس بات پر زیادہ تاکیدکی ہے کہ خدا خالق موت وحیات ہے خصوصاً حیات کے بارے میں زیادہ تاکید ہے،” فاذا نفخت فیہ من روحی“ روح میری جانب سے ہے اورابن ابی العوجاء اس بات کو رد کر نا چاہتا ہے کہ خالق فقط ایک ہے ۔ وہ کہے گا کہ دیکھو یہ کیڑے زندہ موجود ہیں اور انھیں میں نے خلق کیا ہے ۔ تم مسلمان کہتے ہو کہ خالق ایک ہے جبکہ میں بھی ان کیڑوں کاخالق ہوں  حضرت نے فرمایا جب یہ ان کھالوں کو لے کرتمہارے پاس آئے تو تم کہنا کہ ہم اگر کہتے ہیں کہ خدا خالق ہے تو ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ اپنی مخلوقات سے آگاہ ہے اوربنیادی طور پر ہر صانع اپنی مصنوع سے باخبر ہوتا ہے۔ خداکو اپنی مخلوقات کی ہر بات کاعلم ہے خواہ وہ چھوٹی سی بات ہو یا بڑی۔ اسے پتہ ہے کہ میری کون سی مخلوق نر ہے اورکون سی مادہ۔اب تم اگر اپنے اس دعوے میں سچے ہو کہ ان کیڑوں کو تم نے خلق کیا ہے تو بتاوٴ ان میں سے کتنے مذکر ہیں اور کتنے مونث؟۔ 
مومن طاق ایک دو ماہ بعدجب کوفہ لوٹے توابن ابی العوجاء کا وقت معینہ آگیاتھا اورجیسا کہ حضرت نے پیشنگوئی کی تھی ابی العوجاء گندگی سے بھری بھیڑ کی دو کھالیں لے کر آن پہنچا اورکہنے لگا مومن طاق!اب وقت آگیا ہے تمہیں تمہارے دعوے سے منحرف کرنے کا ۔مومن نے کہا:کہوکیا بات ہے ؟!اس نے کہا دیکھو !اورنے بھیڑ کی کھال کھول دی جو کیڑوں سے بھری ہوئی تھی۔ کہنے لگا دیکھو یہ زندہ موجودات ہیں اور انھیں میں نے خلق کیا ہے۔ تم جو یہ کہتے ہو خالق فقط خداہے، غلط ہے ۔مومن طاق بھی کہ جو امام جعفر صادق علیہ السلام سے سیکھ کر آئے تھے ،کہنے لگے: ہر خالق کو اپنی مخلوق کا علم ہوتا ہے۔ تم یہ کہتے ہو کہ ان کیڑوں کو تم نے خلق کیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ بتاوٴ کہ ان میں سے کتنے مذکر ہیں اورکتنے مونث؟اس نے اس طرف سوچا تک نہ تھا کہنے لگا: یہ بات تو بڑی عجیب ہے لیکن یہ بات تمہاری نہیں ہے۔ اسے کوئی قافلہ مدینہ سے لے کر آیا ہے یعنی تم نے یہ بات جعفر بن محمد (علیھما السلام )سے سیکھی ہے ۔ پس حضرتؑ کا ایک طریقہ یہ تھا کہ آپ تشریح کرتے تھے شاگردوں کو طریقہ بتاتے تھے حتیٰ آپ کے وہ شاگرد جو دور رھتے تھے ان کو بھی آپ تعلیم دیتے اورتربیت کرتے تھے۔ 
ابن ابی العوجاجب کبھی اصحاب امام سے منا ظرہ کرتا تھا تو جلدی ہار نہیں مانتا تھا۔ نئی سے نئی بات بنا لاتا تھااور کبھی کبھی حد سے تجاوز کرجاتا تھا مثلاً خداوپیغمبرکا انکار کرتا تھا تو امام کے اصحاب کا پیمانہ صبر لبریز ہوجاتا تھااور غصّہ میں آجاتے تھے پھر وہ کہتا تھا کہ تمہارے آقا جعفر ابن محمد (علیھما السلام )تو اس طرح نھیں ہیں ؟میں ان کے سامنے اس سے بھی بری باتیں پیش کرتاہوں مگر وہ کبھی غصّہ نھیں ہوتے ۔وہ بیٹھتے ہیں اور بحث کرتے ہیں ۔ 
ایک بارامام جعفر صادق علیہ السلام مکہ میں خانہ کعبہ کے طواف میں مشغول تھے۔ ابن ابی العوجاء آیا اور امام کی طرف رخ کرکے کہنے لگا اس میں کون سی بات ہے کہ آپ بار بار اس کا چکر لگاتے ہیں ، پھر کہتا ہے کہ یہ گھر پتھر ہی سے تو بنا ہے جس کے گرد آپ لوگ گھومتے ہیں ۔ اِس پتھر میں اور اُس پتھر میں کیا فرق ہے جس کا بت بنا کراس کی پوجاکی جاتی ہے ۔ وہ لوگ پتھر کے بتوں کو پوجتے ہیں اور آپ لوگ پتھر کے بنے اس گھر کو خانہ خدا مان کر اس کا طواف کرتے اور اس کے گرد گھومتے ہیں ۔ اس کا کیا فائدہ ہے ؟ حضرتؑ نے دیکھا کہ یہاں استدلال پیش کرنے کا مناسب موقعہ نھیں ہے لہذاآپ نے فرمایا ” اے ابن العوجاء ! ہم جو کہتے ہیں کہ خدا ہے ،بہشت ہے،قیامت ہے اور اگر یہ ہمارے عقیدے تمہاری فکر کے مطابق جھوٹے اور بے بنیاد ہوں تب بھی ہمیں کوئی نقصان نھیں ہوگا سوائے اس کے کہ ہم نے کچھ بے کار کام انجام دیئے ہوں گے لیکن دوسرے رخ سے بھی سوچو ! اگر وہ سب درست ہو جو ہم کہتے ہیں ،بہشت ہو ،جہنم ہو اورایک خالق ہو اور تم ان سب چیزوں کا انکار کرتے ہو، اگر یہ باتیں سچ ہوئیں تو تم کیا کرو گے اور تمہیں کتنا گھاٹا اٹھانا پڑے گا ؟ ابن ابی العوجاء یہ سن کر سُست پڑ گیا اور کہنے لگا صحیح بات ہے اگر یہ سب کچھ صحیح نکلاتو مجھے بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا ۔ حضرت نے اس کے ذھن کو جھٹکا دیا کہ کم سے کم اسے اپنی بات کے غلط ہونے کا احتمال ہو جائے ۔ 
ایک روز انھیں زندیقیوں میں سے ایک شخص امام کی خدمت میں آیا۔ اس کا نام عبدالملک بن عبدالله تھا۔وہ حضرت سے بحث کرنا چاھتا تھا۔ حضرت نے پہلے ہی اس سے اس کے نام کے بارے میں سوال کر دیا: ” تم کون ہو اورتمھارا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا :عبدالملک بن عبدالله۔ امام نے سوال کیا :پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ یہ ملک کون ہے جس کے تم بندے ہو؟یہ آسمان کا ملک ہے یازمین کا ملک ہے ؟ چونکہ ملک اور بادشاہ سے مراد یہاں پر ذات خدا وند تھی اسی لئے آپ نے پوچھا کہ پہلے مجھے بتاؤ کہ تم جس بادشاہ کے غلام ہووہ کون سا بادشاہ ہے؟ حضرت کبھی کبھی ان کے نام کو ہی مرکز بنا کر بحث شروع کردیتے تھے اس لئے کہ وہ اپنے نام کو تو کم سے کم مانتے ہی تھے ۔ پھر آپ نے فرمایا: تمہارے باپ کا نام عبدالله ہے ۔یہ کس خدا کا بندہ ہے اور وہ خدا کہاں کا خدا ہے ؟ آسمان کا خدا ہے یا زمین کا ؟ وہ کون سا خدا ہے جس کا یہ بندہ ہے ؟ پہلے مجھے ان سب کا جواب دو پھر مجھ سے بحث کرنا ؟ وہ شخص مات و مبہوت رہ گیا اور بحث اپنے اگلے مرحلے میں داخل نہ ہوسکی ۔ امام نے ایسا اس لئے کیا کیونکہ وہ سمجھنے کے لئے نھیں بلکہ فقط بحث و جدال کرنے کے لئے آیا تھا۔ 
حضرت موقع محل دیکہ کر اس طرح سے بھی مخالفین کا مقابلہ کرتے تھے ۔ چونکہ محاذ مختلف تھے ،افراد مختلف تھے لھٰذا ان سے مقابلے کے لئے آپ مختلف طریقے اختیار کیا کرتے تھے۔دوسرے فرقوں اور فکری محاذوں پر بھی آپ اسی طرز استدلال سے اپنی بات پیش کرتے یا دفاع کرتے تھے۔ میں آپ کے مناظروں میں سے نمونہ کے طور پر ابو حنیفہ سے ہونے والا ایک مناظرہ پیش کرتا ہوں ۔ یہ احتجاج طبرسی میں ہے۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ احتجاج طبرسی ان مناظرات سے مخصوص ہے جو چھارہ معصومینؑ نے مختلف ابواب میں انجام دیئے ہیں ۔یہ ایک اچھی اور قیمتی کتاب ہے ۔ اگر اس کا مطالعہ کرنا چاہیں تو تحقیق شدہ ایڈیشن کا مطالعہ کریں ۔ 
احتجاج طبرسی میں امام کا ابو حنیفہ کے ساتھ ہونے والا مناظرہ نقل ہوا ہے ۔میں نے عرض کیا کہ ابو حنیفہ اہل قیاس تھے یعنی مسائل کو ایک دوسرے سے جوڑتے تھے اور پھر جس مسئلے کا حکم معلوم ہوتا تھا اس کے مشابہ مسئلے پر اسی کے مشابہ حکم لگادیتے تھے۔اس طرح ابو حنیفہ کے اکثر فتوؤں کا مبنیٰ راٴی اور قیاس ہے، برخلاف حنبلیوں کے کہ وہ حدیث اور منقول سے زیادہ استفادہ کرتے ہیں ۔حنبلی سب سے پہلے قرآن سے استناد کرتے ہیں اور وہ بھی ظواہر قرآن سے مثلاً قر آن میں آیا کہ ” اولا مستم النساء “ یعنی جن چیزوں کے بعد نماز کے لئے غسل یا تیمم کرنا ضروری ہے ان میں ”لمس النساء“ بھی ہے ۔یہاں لمس سے مراد جماع ہے لیکن حنبلیوں کے بقول لمس سے مراد وہی لمس کرنا اور چھونا ہے ۔ 
 علامہ مرتضیٰ عسکریؒ نے سوڈانی علماء سے بحث کی تھی جن میں سے ایک شافعی تھے ۔علامہ نے ان سے پوچھا کہ امام شافعی کا فتویٰ ہے کہ” لمس النساء“ سے وضو باطل ہو جاتا ہے ۔ شافعی نے یہ بات کہاں سے اخذ کی ہے کہ عورت کو چھونے سے وضو باطل ہو جاتا ہے۔ شافعی عالم جواب دیتے ہیں کہ اس آیت کے ظاہر سے ” اولا مستم النساء “ ۔ یہ شافعی تھے اسی طرح حنبلی افراد ظواہر آیات اور ظواہر روایات سے بھت زیادہ وابستہ ہیں ۔ مجاز کو نہیں مانتے۔ہر مجاز کو حقیقت پر حمل کرتے ہیں جبکہ ہر زبان میں مجاز کا استعمال عام ہے ۔ 
بہر حال ابو حنیفہ اہل قیاس تھے۔ امام صادق،ؑ ابو حنیفہ کو سمجھانا چاہتے تھے کہ قیاس نہ کیا کریں۔ ہر جگہ قیاس سے صحیح نتیجہ اخذ نہیں ہوتا ہے اور فقہ و فتویٰ وحی سے ماخوذ ہونا چاھیئے نہ کہ اپنی ذاتی راٴی سے۔ اسے سمجھانے کے لئے آپ نے ابو حنیفہ سے چند سوالات کئے۔آپ نے پوچھا کہ بتاؤ نفس محترمہ کے قتل میں گناہ زیادہ ہے یا زنا میں ۔ابو حنیفہ نے کہا : قتل میں اور یہ درست بھی ہے۔ خدا وند متعال فرماتا ہے ” مَنْ قَتَلَ نَفَساً۔ ۔ ۔ ۔ فَکانَّما قَتَلَ الناس جمیعاً “ ( جو کسی ایک انسان کو قتل کرے گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کردیا ہے ) یا دوسرے مقام پر فرماتا ہے:” ومن یقتل مومناً متعمّداً فجزا ئہ جھنم خالدًا فیھا “ ( جو کسی بندئہ مومن کو جان بوجھ کر قتل کردے اس کی سزا جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا ) ۔ حضرت نے پوچھا کہ قتل کا مفسدہ اور گناہ زیادہ ہے یا زنا کا ؟ابو حنیفہ نے کہا :قتل کا ۔آپ نے فرمایا : اگر ایسا ہے تو پھر کیوں قتل کے ثبوت کے لئے دو گواہ کافی ہوتے ہیں لیکن زنا کے ثابت ہونے کے لئے چار گواہوں کا ہونا ضروری ہے ؟ اگر اس مسئلے کو عقل سے حل کر سکتے ہو تو کرکے دکھاؤکہ اس کا راز کیا ہے ؟ ابو حنیفہ کوئی جواب نہ دے سکے ۔ 
حضرت نے پھر پوچھا کہ بتاؤ منی کی نجاست زیادہ ہے یا پیشاب کی ؟ ابو حنیفہ نے کہا : پیشاب کی۔آپ نے فرمایا : اگر پیشاب کی نجاست زیادہ ہے تو ایسا کیوں ہے کہ پیشاب کے بعد صرف نجس مقام دھل دینا کافی ہے لیکن منی نکلنے کے بعد غسل کرناواجب ہے ؟ عقلی بنیا د پر بڑی نجاست کے ازالہ کے لئے غسل کا حکم ہونا چاہیئے جب کہ ایسا نھیں ہے۔ ایسا کیوں ہے ؟ 
پھر حضرت نے تیسرا سوال کیا کہ بتاؤ نماز کی اہمیت زیادہ ہے یا روزہ کی ؟ ابو حنیفہ نے کہانماز کی ۔ آپ نے فرمایا : اگر نماز کی اہمیت زیادہ ہے تو پھر ایسا کیوں ہے کہ عورت سے حالت حیض میں جو نمازیں چھوٹتی ہیں اس پر ان کی قضاواجب نھیں ہے لیکن مذکورہ حالات میں جو روزے چھوٹتے ہیں ان کی قضا واجب ہے ؟ عقل کی روشنی میں نماز کی قضا واجب ہونی چاھیئے اس لئے کہ نماز کی اہمیت روزہ سے زیادہ ہے ۔ امامؑ، ابو حنیفہ کو متوجہ کرنا چاھتے تھے کہ عقل اور قیاس کو بنیاد بنا کر سارے کے سارے فقھی مسائل حل نھیں کئے جاسکتے۔ 
سوال : امام صادق علیہ السلام کے پاس چار ہزار شاگرد تحصیل علم کرتے تھے،کیااتنے افراد آپ کی نصرت کے لئے کافی نھیں تھے کہ آپ قیام فرماتے ؟ 
جواب : اس سوال کا جواب ہم نے سیرئہ پیشوایان میں دیا ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ آپ کے شاگردوں کی تعداد چارہزار تھی ۔یہ مجموعی تعداد بتائی جاتی ہے۔ ایک وقت میں ایک جگہ چار ہزار شاگرد نھیں تھے ۔شاگردوں کا ایک گروہ آتا تھا کسب فیض کرکے چلاجاتا تھا پھر دوسرا گروہ آجاتا تھا ۔اس طرح شاگردوں کے لئے آپ کا دروازہ کھلارہتاتھا لوگ آتے تھے اور کسب فیض کرکے چلے جاتے تھے۔ دوسری بات یہ کہ ہرشخص میں اپنی مخصوص صلاحیت ہوا کرتی ہے ۔ اگریہ سب لوگ مثلاً فلسفہ اور کلام یا دیگر علوم میں استادانہ صلاحیت رکھتے تھے تو اس کا مطلب یہ نھیں ہے کہ فنون حرب میں بھی مہارت رکھتے تھے ۔ یہ سب علمی شخصیات تھیں ۔ فوجی صلاحیت بعض میں تھی لیکن بعض میں نھیں تھی ۔ 
ابو مسلم خراسانی اور ابو سلمہ خلال نے بنی عباس کے قیام کے آغاز میں آپ کو تحریک کی اورقیادت سنبھالنے کی پیشکش کی لیکن آپ نے اسے قبول نھیں کیا ۔بہر صورت ایک ایسی فوجی طاقت بظاہر امام کے پاس نھیں تھی جس کے ذریعہ اسلامی حکومت تشکیل دی جاتی اور اسے چلایا جاتا ۔ 
سوال:قرآن مجید نے الله کی راہ میں قیام کرنے پر بہت تاکید کی ہے خواہ افرادکی تعداد اور قوت کم ہی کیوں نہ ہو ” قل انما اعظکم بواحدة ان تقوموا للّہ مثنیٰ و فرادیٰ“۔امام حسینؑ نے مختصر ساتھیوں سمیت یزید کے خلاف قیام کردیا لیکن چٹھے امام نے کیوں نھیں قیام فرمایا ؟ 
جواب : کسی بھی کام کے لئے ماحول ساز گار ہونا بہت ضروری ہے، امام حسینؑ نے بھی معاویہ کے دور حکومت میں دس سال تک قیام نھیں کیا ! اس دور کے حالات کو میں نے سیرۂ پیشوایان میں ذکر کیا ہے کہ معاویہ کے زمانے میں امام حسینؑ کے قیام کا نہ ہی کوئی امکان تھا اور نہ ہی فائدہ ،لیکن یزید کے زمانے کے جو حالات تھے وہ جنگ اور اس کے خلاف قیام کے لئے مفید تھے ۔ معاویہ کے زمانہ میں ایسے حالات قطعاً نھیں تھے ۔ جنگ کے لئے ضروری شرائط ہوا کرتے ہیں تاکہ قیام مفید ہو سکے۔ اس طرح کے حالات امام صادقؑ کے زمانہ میں فراہم نہ تھے ۔ 
سوال :ثقافتی یلغار کی تعریف کیا ہے ؟ اس کے تحت کیا کیا چیزیں آتی ہیں ؟ 
جواب : چند سالوں سے اسلامی جمہوریہ ایران میں یہ اصطلاح خاصی رائج ہے۔ ”ثقافتی یلغار “ (Cultural Attack)کلچر یا تھذیبی طرز فکرکے رائج کرنے کو کہا جاتا ہے ۔ایک فوجی حملہ ہوتا ہے اور ایک ثقافتی حملہ ۔کسی ملک پر لشکر کشی اوربمباری وغیرہ فوجی حملہ ہے ۔ تہذیبی حملہ ایک ایسا حملہ ہوتا ہے جس میں کسی گھر یا علاقہ پر قبضہ نھیں کیا جاتا بلکہ آدمی کی فکر پر قبضہ کیا جاتا ہے ۔ ایران میں بھی یہ کام مختلف ذرائع سے کیا جا رہا ہے اور اس پر امریکہ ایک بڑا بجٹ صرف کرتا ہے جس کے نتیجہ میں آپ ملاحظہ کررہے ہیں ۔اسلامی جمہوریہ ایران میں مختلف شکوک و شبہات اچھالے جاتے ہیں ۔دین کے لئے اپنی اپنی فکر پیش کی جاتی ہے جو کہ واقعاً ایک بڑی خطرناک چیز ہے ۔کہتے ہیں کہ تم جو قرآن کی تفسیر کررہے ہو کیسے معلوم کہ یہ تفسیر صحیح ہے میں جو تفسیر کرتا ہوں وہ صحیح ہے ۔ آپ کا اجتھاد خطا ہے میرا اجتھاد صحیح ہے۔ اسلام کے لئے اپنا اپنا مفھوم پیش کرنا واقعاً خطر ناک ہے ۔ خ خ خ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں