معصومہ قم
سید محمد حسنین باقری
یکم ذی قعدۃ الحرام ۱۷۳ھ وہ تاریخ ہے جس دن امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی بیٹی اور امام علی رضا ؑ کی بہن حضرت فاطمہ ٔ معصومہ کی مدینۂ منورہ میں ولادت ہوئی۔ آپ علم و عمل ،تقویٰ و پرہیزگاری اور فضائل و کمالات میں بے نظیر تھیں۔ ائمہ معصومینؑ کی جانب سے عطا ہونے والے القاب ہی آپ کی عظمت و منزلت ظاہر کرنے والے ہیں۔ مثلاً :معصومہ ، کریمہ، شفیعہ ، عالمہ ، محدّثہ، طاہرہ، تقیہ، عابدہ، سیدہ، رضیہ، حمیدہ، رشیدہ، نقیہ، مرضیہ اور صدیقہ وغیرہ ۔
انہیں القاب میں ایک لقب ’’معصومہ‘‘ بھی ہے جس سے آپ مشہور بھی ہوئیں۔ یعنی’’ فاطمہ ٔ معصومہ ‘‘یا ’’معصومہ ٔ قم ‘‘ان دو ناموں سے آپ زیادہ مشہور ہیں۔ خدا کی جانب سے عطا ہونے والی عصمت کاملہ جو صرف ۱۴؍ افراد سے مخصوص ہے۔ لیکن ۱۴؍ انوار کے علاوہ اسی گھرانے میں بعض افراد نے اپنے کو اس مرتبہ تک پہنچایا کہ انہیں بھی تہذیب و تزکیہ نفس اور تمام گناہوں و خطاؤں سے دوری کی وجہ سے معصوم کہا گیا۔ جن میں نمایاں شخصیتوں میں حضرت عباسؑ اور حضرت زینبؐ حضرت علی اکبرؑکے علاوہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلامؑ کی یہ بیٹی بھی ہیں اور اس خصوصیت کے ساتھ بھی کہ آپ ہی وہ ذات ہیں جو چہاردہ معصومینؑ کے بعد’’ معصومہ‘‘ کے لقب سے مشہور بھی ہوئیں۔
حضرت معصومۂ قم ؑکی ایک اور خصوصیت، آپ کا شفیعہ ٔ روز جزا ہونا ہے۔ اس سلسلے میں امام علی رضاؑ نے سعد اشعری سے زیارت معصومہ کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ قبر فاطمۂ معصومہؑ کے پاس جاؤ تو کہو: ’’…یافاطمۃ اشفعی لی فی الجنۃ فان لک عند اللہ شاناً من الشان‘‘ ( اے فاطمہ جنت میں میری شفاعت فرمائے اس لئے کہ خدا وند عالم کے نزدیک آپ کو عظیم منزلت و مرتبہ حاصل ہے۔ ) (بحار الانوار جلد۱۰۲،ص۲۶۶)
یا اسی طرح سے امام جعفر صادق ؑ کا یہ ارشاد کہ: ’’تدخل بشفاعتھا شیعتنا الجنۃ باجمعھم‘‘ فاطمۂ معصومہ کی شفاعت سے میرے تمام شیعہ داخل بہشت ہوں گے۔ ان جملات سے ہم معصومۂ قم کی عظمت و رفعت اور مقام و مرتبے کو پہچانیں اور ساتھ ہی اندازہ لگائیں کہ جب آپ کو یہ مرتبہ حاصل ہے تو ائمہ معصومینؑ کارتبہ کیا ہوگا؟۔
مشہور قول کے مطابق ۱۰؍ ربیع الآخر ۲۰۱ھ یعنی امام رضا علیہ السلام کی شہادت سے دو سال قبل عالم غربت میں آپ کی شہادت واقع ہوئی۔ آپ اپنے بھائی امام رضا ؑ کی محبت میں مدینے سے خراسان کی جانب سفر کی صعوبتیں برداشت کرتی ہوئی اپنے بعض اعزاء واحباب کے ساتھ نکلیں۔ لیکن قم سے نزدیک مقام ساوہ میں دشمنان اہلبیتؑ کے حملے کی وجہ سے اپنے چند ساتھیوں کی شہادت کے بعد خود بھی بیمار ہوکر قم تشریف لائیںلیکن وہاں پر ۱۷؍ دن سے زیادہ زندہ نہ رہیںاور اپنے بھائی کی ملاقات کی تمنا لئے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ قم کی مقدس سرزمین آپ کا مدفن قرار پائی جس کے بارے میں امام جعفر صادق ؑ کا ارشاد ہے :خدا وند عالم کیلئے مکہ حرم ہے اور رسول اکرمؐ کا حرم مدینہ ہے اور امیر المومنینؑ کا حرم کوفہ ہے اور میرا و میری اولاد کا حرم قم ہے، اور یاد رکھو! کہ قم ہمارا چھوٹا کوفہ ہے۔ اور جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میںسے تین دروازے قم کی جانب ہیں۔وہاں میری اولاد میں سے ایک خاتون فاطمہ بنت موسیٰ ابن جعفرؑ رحلت کریں گی جن کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ داخل بہشت ہوںگے۔ (بحار الانوار جلد۶۰ ص ۲۲۸۔ جامع احادیث الشیعہ جلد۱۲ ص ۶۱۷)۔ آپ کی زیارت کے سلسلے میں بھی معصومینؑ کی جانب سے بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے۔ جیسا کہ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : من زارہا عارفاً بحقھا فلہ الجنۃ‘‘ جس نے بھی (فاطمہ بنت موسیٰ ابن جعفر) ؑ کی زیارت معرفت کے ساتھ کی اس پر جنت واجب ہے۔ (بحار الانوار جلد ۱۰۲،ص۱۵۶)۔
اور امام محمد تقیؑ کا یہ ارشاد ہے کہ من زارھا عمتی بقم فلہ الجنۃ جس نے بھی میری پھوپھی کی قم میں زیارت کی اس پر جنت واجب ہے۔ (کامل الزیارات ص۳۲۴)خدا وند عالم سے دعا ہے کہ ہمیں دنیا میں معصومۂ قمؑ کے روضے کی زیارت اور قیامت میں آپ کی شفاعت عطا فرمائے۔ (آمین)
٭…٭…٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں