اسرائیل کا ناپاک وجود
سید محمد حسنین باقری
’’اسرائیل ایک سرطانی ٹیومر ہے ؛اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹنا چاہیے ‘‘۔
(امام خمینی ؒ)
کینسر کا ٹیومر جب تک بدن میں رہے گا رہ رہ کر اذیت کرتا رہے گا ابتدا میں تو یہ اپنی ہی جگہ پر نقصان پہنچائے گا لیکن آہستہ آہستہ پورے بدن کو اپنی لپیٹ میں لیتا رہیگا ،اس کا علاج صرف اور صرف یہ ہے کہ اسے نیست و نابود کردیا جائے اور صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے اسرائیل کا وجود بعینہ اسی طرح ہے جب تک یہ دنیا میں باقی رہے گا اپنے مہلک اثرات چھوڑتا رہے گا اور وجود انسانی کو نقصان پہنچاتا رہیگا۔یہ لوگوں کی بھول ہے کہ یہ لبنان یا فلسطین کا مسئلہ ہے ہم سے کیا مطلب!نہیں ،اگر گذشتہ کل لبنان کا نمبر تھا اور آج فلسطین کا تو آئندہ کل مصر اور سعودی عرب یا کسی اور دوسرے ملک کی نوبت بھی آسکتی ہے۔
ساٹھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا کہ قبلۂ اول کی غاصب اسرائیل کی جارحیت روز بروز اپنے ناپاک وجود کے اثرات چھوڑتی جارہی ہے کل لبنان کے بعد آج فلسطین میں پھر اس نے ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا،غزہ کی مکمل ناکہ بندی کرنے کے بعد بجلی،پانی،غذائی اجناس اور بنیادی طبی سہولیات سے محروم بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ،بے بس فلسطینیوں پر برّی،بحری اور فضائی بمباری کی، ممنوعہ ہتھیاروں کا کھلے عام استعمال کیا۔تقریبا ڈیڑھ ہزار بے گناہ خاک و خون میں نہائے جس میں سے بی بی سی کے مطابق ۴۲ فی صد معصوم بچے اس درندگی کا نشانہ بنے،ہزاروں کی تعداد میں بچے ،عورتیں اور مرد زخمی ہوئے متعدد مسجدیں مسمار ہوئیں ،اسپتال ،اسکول کالج اور عمومی مراکز کثرت سے تباہ و برباد ہوئے ،ہزاروں گھر ملبے کا ڈھیر بنے اور مختلف کیمپوں میں پناہ گزیں عورتوں اور بچوں پر بھی بم برسائے گئے۔اسرائیل کی اس درندگی کے باوجود حزب اللہ کی طرح غزہ کے مظلوم عوام اور دلیر مجاہدوں کی فداکاری، شجاعت اور استقامت نے انسانیت کے دشمن کو ذلیل و رسوا کرتے ہوئے شکست سے دوچار کر دیا۔اور یہی ایمان اور ثابت قدمی اسرائیل کی غاصب حکومت کے مقابلے میں فلسطینی عوام کی کامیابی کے دو ایسے اہم کلیدی عنصر ہیںجن کی وجہ سے آج صہیونی دشمن ذلیل و ناکام ہوا۔فلسطینیوں کی ثابت قدمی کی نشیب و فراز سے بھری تاریخ میں بعض ایسے سازشی عناصر بھی موجود رہے ہیں جو اسرائیل کے ساتھ صلح کے سیراب سے آس لگائے رہے اور صیہونیوں اور امریکہ کا کھلونا بنے رہے ۔
لیکن فلسطینی عوام نے ثابت قدمی کے ساتھ اپنے پامال شدہ حقوق کی بازیابی کے راستے کی درست تشخیص دی اور ظلم و طاقت کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے اور ایسی طاقت پیدا کر لی کہ ظالم و جابر حکومتیں اور ان کی فوجیں فلسطینی عوام کے سامنے ناکام اور ذلیل ہوئیں۔ غزہ کے لوگوں کی فدا کا ری اور حماس کی ثابت قدمی کی طاقت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے ۲۲ دنوں تک جارح صہیونی فوج کو غزہ کے دروازوں کے پیچھے ذلت و رسوائی سے دوچار کردیا۔ یہ وہی فوج ہے جس نے چھ دنوں کے اندر تین عرب ممالک کی وسیع سرزمینوں پر قبضہ کرلیا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ آج نہ صرف مسلمان اقوام بلکہ امریکہ اور یورپ کی بہت سی اقوام نے غزہ کے باشندوں کی حقانیت کو قبول کرلیا ہے اور یہ بجائے خود ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔
امام خمینیؒ نے غیرت مسلم کو جھنجھوڑتے ہوئے سالوں قبل اس حقیقت کا اظہار کیا تھا کہ اگر دنیا کے تمام مسلمان ایک ایک بالٹی پانی بھی ڈال دیںتو اسرائیل کی مختصرسی حکومت سیلاب میں بہہ جائے۔مزیدیہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایمانی طاقت کے آگے اسرائیل کیا دنیا کی ہر سپر پاور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگی ،جسکا ثبوت دو سال قبل حزب اللہ کے جوانوں نے اور آج فلسطین کے مجاہدوں نے نا برابرجنگ میں اسرائیل کو شکست فاش دیکر دیا ۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آج اگر اسرائیل اور امریکہ کے ظلم و ستم کا تذکرہ ہو رہا ہے اور اس کی مذمت کی جارہی ہے تو اسی صہیونی اور سامراجی سازش کے تحت وجود میں آنے والے اور ان کا آلہ ٔکار وہابی فرقے کا بھی تذکرہ ہونا چاہیے جو اپنے اسلاف کی روش پر چلتے ہوئے دنیا میں شیعوں کے قتل عام میں مشغول ہے،اگر ایک طرف اسرائیل بے گناہ فلسطینیوں کا خون بہارہا ہے تو دوسری طرف یہ یزیدی ٹولہ عراق ،افغانستان اور بالخصوص پاکستان میں شیعوں کا قتل عام کر رہا ہے جن کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ رسولؐ اور آل رسول ؐ کے پیرو ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ ظلم کب تک؟فلسطینیوں کو ان کے سلب شدہ حقوق کیوں نہیں ملتے؟بیت المقدس پر ہنوز صہیونی قبضہ کیوں ہے؟مسلسل اسرائیلی درندوں کے ہاتھوں ہزاروں فلسطینی خاک وخون میں کیوں لوٹ رہے ہیں؟عراق،پاکستان اور بعض دوسرے اسلامی ممالک میں روزانہ مسلمانوں کا خون کیوںبہایا جا رہا ہے؟مقامات مقدسہ کی مسلسل بے حرمتی کیوں ہو رہی ہے؟ اسلامی ممالک میں اسلام دشمن فوجیں قبضہ کیوں جمائے ہوئے ہیں؟مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگا کر انھیں کیوں بدنام کیا جا رہا ہے؟اسلام اور پیغمبر اسلامؐ پر طرح طرح کے الزامات کیوں لگائے جارہے ہیں؟
اس سب کا جواب یہ ہے کہ مسلمان متحد نہیں ہیں ۔اور جب تک مسلمان متحد نہیں ہونگے اسی طرح نقصان اٹھاتے رہیں گے ۔آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ مسلمان اپنے مشترکہ دشمن کے مقابلہ متحد ہوں اور قرآن کی اس آیت پر عمل کرتے ہوئے کہ’’ و اعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعا ولاتفرقوا‘‘اپنے حقیقی مسلمان ہونے کا ثبوت دیں ،آپسی اختلاف سے بچیں،اندرونی و بیرونی دشمنوں سے ہوشیار رہیں۔
ایسے موقع پر ہمارے وظائف :-مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کی کوشش کریں اور اسلام کی نابودی کے درپے دشمن کے مقابلے ایک ہو کر اس کواس کے ناپاک عزائم میں ناکام کریں۔
۹ اپنے انسانی اور اسلامی وظیفہ کو پہچان کر اس پر عمل پیرا ہوں
۹ اسرائیل و امریکہ کی جارحیت، ان کے خطرناک عزائم اور حقیقت حال سے خود آگاہ ہوںپھرآگاہ کریں۔
۹اس ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرکے مظلوموں سے ہمدردی اور ظالم سے نفرت کا اعلان کریں۔
۹عالمی دہشت گرد امریکہ و اسرائیل کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔
۹فلسطین کے مظلوموں کی مالی امداد کا انتظام کریں۔
۹دنیا ظلم و جور سے بھر چکی ہے ،بارگاہ الہی میں دعا کریں کہ اپنی آخری حجتؑ کے ذریعہ ظلم کا خاتمہ اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھردے۔
نوشتہ شدہ: فروری ۲۰۰۹
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں