حضرت زینب سلام اللہ علیہا
سید محمد حسنین باقری
ثانیٔ زہرا حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی ولادت با سعادت کے سلسلے میں کتابوں میں مختلف تاریخیں بیان ہوئی ہیںیکم شعبان المعظم،۵؍ جمادی الاولیٰ، ماہ رمضان اور ربیع الثانی کا آخری عشرہ۔ سنہ ولادت بھی ۵اور ۶ہجری بیان ہوا ہے ۔
پدر بزرگوار امیر المومنین حضرت علیؑ مادر گرامی صدیقۂ طاہرہؐ، نانا رسول اسلامؐ،بھائی حسنؑ و حسینؑ یعنی پنجتن کے عصمتی حصار میں پرورش پانے والی ذات گرامی حضرت زینبؑ ہیں۔ پھر یہ عظمت ہی ہے کہ دادا حضرت ابو طالبؑ ، دادی فاطمہ بنت اسدؑ، نانی حضرت خدیجۃ الکبریٰؑ تھیں اور شوہر نامدار جناب عبد اللہ ابن جعفر ابن ابو طالبؑ اولادوں میں علی، عون، عباس ، محمد اور ام کلثومؑ بیان کئے گئے جن میں سے عون اور محمد کربلا میں شہید ہوئے۔
القاب: عقیلۂ بنی ہاشم، عقیلۃ الطالبین، صدیقۂ صغریٰ ، عصمت صغریٰ، ولیۃ اللہ ، الراضیۃ بالقدر و القضاء ( قضاء و قدر الٰہی پرراضی رہنے والی )،صابرۃ البلوی من غیر جزعٍ ولا شکوی ( بغیر بے تابی ، اور شکایت کے عظیم مصائب پر صبر کرنے والی) امینۃ اللہ، عالمۂ غیر معلمہ ، فھمہ غیر مفھّمہ ، محبوبۃ المصطفیؐ ، ثانیٔ زہرا، (ریاحین الشریفہ ۳/۴۸)
رسول خدا ؐ نے ولادت کے بعد آپ کا نام زینب رکھا۔ (چودہ ستارے صفحہ ۲۶۶از امام مبین صفحہ ۱۶۴) بروایتے ’زینب‘ عبرانی لفظ ہے جس کے معنی ’بہت زیادہ گریہ کرنے والی‘ کے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ یہ لفظ ’’زین‘‘ اور’’اب‘‘ سے مرکب ہے یعنی ’باپ کی زینت‘ پھر کثرت استعمال سے زینب ہوگیا۔ اس روایت کی روشنی میں اگر غور کیا جائے تو ثانیٔ زہراؑ کی عظمت و مرتبہ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک طرف مولائے کائناتؑ کی ذات والا صفات اور پھر جو اس ذات کے لئے زینت بنے!!؟
ثانیٔ زہراؑ کا یہ کردار و عمل ہی تھا جس کی بنیاد پر علیؑ جیسے باپ کے لئے زینت قرار پائیں۔ اب ہر چاہنے والی کو سوچنا ہوگا کہ اس کا کردار اور اس کا عمل کیسا ہونا چاہئے۔ ضروری ہے کہ ہر چاہنے والی کا کردار و عمل ایساہی ہو کہ وہ اپنے دین کے لئے باعث زینت بنے باعث ذلت و رسوائی نہ بنے۔
حضرت زینب ؑکے سلسلے میں بعض کتابوں نے ایک جملہ لکھا ’’ان الحسینؑ کان اذا زارتہ زینب یقوم اجلالاً لھاوکان یجلسھا فی مکانہ ‘‘کہ جب شہزادی اپنے بھائی امام حسینؑ کی زیارت کے لئے تشریف لاتیں تو آپ ان کے احترام میں کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔
شیخ جعفر نقدی نے اپنی کتاب ’’زینب الکبریٰ‘‘ میں یحییٰ مازنی سے نقل کیا ہے کہ میں ایک مدت تک مدینہ میں امیر المومنینؑ کا پڑوسی تھا۔ اسی گھر میں ان کی بیٹی جناب زینبؑ بھی تھیں لیکن خدا کی قسم میں نے کبھی نہ ان کے سائے کو دیکھا اور نہ کبھی ان کی آواز سنی۔ اور جب وہ اپنے نانا کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتیں تو رات کی تاریکی میں نکلتیں تھیں۔ امام حسنؑ داہنی طرف ، امام حسینؑ بائیں طرف اور امیر المومنین ؑ آگے آگے ہوتے تھے۔ اور جب قبر مبارک کے نزدیک پہنچتیں تو امیر المومنینؑ آگے بڑھ کر چراغ کو گل فرمادیتے تھے۔ ایک دفعہ امام حسنؑ نے وجہ دریافت کی تو فرمایا: اخشی ان ینظر احد الی شخص اختک زینب تاکہ تمہاری بہن کے قدو قامت اور پرچھائی پر کسی کی نگاہ نہ پڑ جائے ۔ حضرت زینبؑ نے اپنی چاہنے والیوں کے لئے جہاں ایک طرف حجاب و پردے کا پیغام دیا۔ وہیں سخت مصائب و مشکلات پر صبر اور اپنے فرائض و ذمہ داریوں کی سخت حالات میں بھی ادائیگی کا درس دیا ہے۔ ایسے سخت حالات اور مصائب و مشکلات میں گھر کر بھی حتیٰ کہ نماز شب کو بھی فراموش نہ کرکے عبادت الٰہی بالخصوص نماز کی اہمیت بتائی۔ پھر امیر المومنینؑ کی ظاہر ی خلافت کے دور میں کوفہ میں خواتین کو درس قرآن و احکام دے کر اگر طرف اس کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کیا تو دوسری طرف یہ بھی ثابت کردیا کہ اولاً عورتوں کے لئے بھی تعلیم ضروری ہے ثانیاً مکمل اسلامی حجاب میں رہتے ہوئے تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے۔
جناب زینبؑ نے کربلا اور اس کے بعد کے تمام مصائب وآلام کو برداشت کرنے کے بعد روز شنبہ اتوار کی رات ۱۴؍ رجب ۶۲ھ کو شام کے ایک باغ میں سر پر ایک شقی کے بیلچہ مارنے کی وجہ سے انتقال کیا۔ آپ کا روضہ شام میں مرجع خلائق ہے۔ ٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں