جمعہ، 1 مئی، 2020

تحفہ اثنا عشریہ اور اس کے جوابات

تحفہ اثنا عشریہ اور اس کے جوابات
سید محمد حسنین باقری، لکھنو

علمائے مذہب حقہ نے ہر دور میں مذہب اہلبیتؑ یعنی حقیقی اسلام کی حفاظت و پاسداری کا اہم و خطیر وظیفہ بحسن و خوبی انجام دیا، اس مذہب کو بچانے اور اس کی تبلیغ میں انتھک کوششیں کیں اور اس سلسلے میں ہر طرح کی قربانی بھی پیش کرنے میںقدم پیچھے نہیں ہٹائے۔چونکہ دین کا سب سے اہم و بنیادی رکن ’’ولایت‘‘ ہے اور یہی اسلام کا سیاسی فلسفہ بلکہ ترقی یافتہ فلسفہ ہے، بشریت کی نجات و سعادت اور عظمت و کامیابی اسی ولایت و امامت کی مرہون منت ہے،اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں اہل بیتؑ کے زمانے میں خود انھوں نے اس کی ہر طرح سے حفاظت و پاسداری کی اس کو بچانے میں ہر طرح کی قربانی دی یہاں تک کہ’’ ام ابیہا‘‘ کا لقب پانے والی جگر گوشۂ رسولؐ صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا علیہا  السلام نے اسی ولایت کے لئے ہر طرح کے مظالم برداشت کئے نتیجہ میں اپنے فرزند جناب محسنؑ کی شہادت کے بعد اپنی شہادت کا نذرانہ پیش کیا اور رہتی دنیا تک علی ؑ و ولایت علیؑ کی حقانیت اور اس کی اہمیت و عظمت کو اجاگر کردیا۔اور جب غیبت کا زمانہ شروع ہوا تو اس ذمہ داری کو ہمارے علماء و مجتہدین اور فقہاء و مراجع نے انجام دیا اور آجتک اس ولایت کی صحیح معنوں میں حفاظت و پاسداری یہی علماء و مراجع انجام دے رہے ہیں اور آج بنام دین و ولایت جو کچھ بھی ہے وہ انہیں علماء و فقہاء کی زحمتوں کا نتیجہ ہے آج اگر ہم ’مولائی‘ ہیں تو انھیں علماء کی وجہ سے جنھوں نے ہم تک مولا کی ولایت پہنچائی ہے ورنہ حقیقت یہی ہے کہ اگر ان علماء نے زحمت و مشقت کرکے، اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر دین کی حفاظت اور اس کی تبلیغ کا وظیفہ انجام نہ دیا ہوتا تو ہم کو کون بتاتا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے؟۔کسی امامؑ نے خود آکر ہم سے نہیں کہا کہ ہم حق ہیں ، ہمارا مذہب حق ہے بلکہ یہ علماء اور انکی تحریر کردہ کتابیں ہی ہیں جن سے ہم کو حقائق کا علم ہوا۔ان بزرگوں نے دین کو پہنچانے اور اس کی حفاظت میں تمام سعی و تلاش کے ساتھ کتابیں لکھیں اسی طرح جب بھی مذہب اہلبیتؑ پر کبھی کوئی حملہ ہوا یا اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو اس کا ہر ممکنہ طریقہ سے مقابلہ کیا اور اس راہ میں اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر سامنے آئے اور جوابات دئے ۔اگر مخالفین اسلام کی طرف سے کوئی اعتراض ہوا تو اس کا دندان شکن جواب دیا ۔
 اسلام حقیقی یعنی مذہب اہلبیتؑ کے خلاف چلی جانے والی سازشوں کی ایک کڑی کتاب ’’تحفہ اثنا عشریہ‘‘ تھی لیکن جیسے ہی یہ کتاب سامنے آئی علماء کمر بستہ ہوئے گرچہ سارے اعتراضات پرانے اور گھسے پٹے تھے اور یہ کتاب ’صواقع موبقہ‘ کا سرقہ تھی۔تب بھی علماء نے اپنے وظیفہ کو انجام دینے کے لئے ایک کتاب کے جواب میں دسیوں کتابیں لکھیں ۔اس دور میں کس طرح انھوں نے یہ کتابیں لکھیں یہ وہی جانتے ہیں لیکن ان جوابات کو دیکھ کر یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ ہمارے برّ صغیر ،بالخصوص ہندوستان کے علماء تالیف و تحقیق کے میدان میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے ان جوابات میں سے اکثر کتابیں فارسی یا عربی میں لکھی گئیں جو ہمارے علماء کی علمی جلالت کا ایک اور نمونہ ہے۔لہذا آئیے سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ تحفہ اثنا عشریہ کیسی کتاب ہے؟ پھر یہ معلوم کریں گے کہ اس کے جواب میں کن علماء نے کون کون سی کتابیں تحریر کی ہیں۔
جہاں تک تحفہ اثنا عشریہ کے ذریعہ مذہبی منافرت کا بیج بونے کی بات ہے تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بر صغیر میں تعصب و مذہبی منافرت کا بیج بونے والے بدرالدین احمد فاروقی ماتریدی نقشبندی سر ہندی المعروف مجدد الف ثانی (۹۷۱ھ۔ ۱۰۳۴ھ) ہیں۔شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی عُمَری (۱۱۵۹ھ۔۱۲۳۹ھ) ابن شاہ ولی اللہ محدث دہلوی عمری (شاہ صاحب کا سلسلہ نسب حضرت عمر ابن خطاب سے ملتا ہے،(تحفہ اثنا عشریہ اردو،صفحہ۴)نے اس تعصب کو نئی زندگی دی اور مذہبی اختلافات کو ہوا دینے میں بہت اہم رول ادا کیا، در حقیقت صاحب تحفہ نے دشمنان اسلام کے منشاء کو پورا کرنے اور مسلمانوں کی صفوں میں شگاف ڈالنے کے لئے تیرہویں صدی ہجری کے آغاز میں یہ کتاب لکھی جس کا اصلی نام ’’نصیحۃالمؤمنین و فضیحۃالشیاطین‘‘ ہے لیکن تحفہ اثنا عشریہ کے نام سے مشہور ہے اور تقریبا پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ پہلی مرتبہ یہ کتاب ۱۲۰۴ھ (۹۰۔۱۷۸۹ء) میں مطبع ثمر ہند میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں انھوں نے شیعوں کے عقائد و نظریات پر تہمت لگانے اور جھوٹ و افترا باندھنے اور الزام تراشی پر پورا زور لگادیا ۔نیز اس کتاب کا سب سے اہم مقصد مذہب اہل بیتؑ کو آگے بڑھنے سے روکنے اور اس کی ترویج کا سد باب تھا اس لئے کہ تحفہ کی تصنیف کے زمانے میں بقول خود محدث دہلوی کے تحفہ میں اور ثناء اللہ پانی پتی کے سیف المسلول میں، کوئی گھر ایسا نہیں تھا جس میں شیعہ نہ ہو۔ جیسا کہ دہلوی نے تحفہ ہی کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ: اس کتاب کو لکھنے کی غرض اور ضرورت یہ ہے کہ ۔۔۔مذہب اثنا عشری اتنا عام ہوا اور اتنا پھیلا کہ بہت کم ہی گھر ایسے ہونگے جہاں ایک یا دو آدمی اس مذہب کا پیروکار یا اس کی طرف مائل نہ ہو( تحفہ، صفحہ۴)
یہ بات بھی واضح رہے کہ تحفہ سے پہلے شیعوں کی رد میں دو اہم کتابیں لکھی گئیں ایک صواقع موبقہ، ابو نصر الدین محمد جو خواجہ نصر اللہ کابلی کے نام سے مشہور ہیں جو عربی زبان میں تھی اور دوسرے سیف المسلول ( یا شمشیر برہنہ) ، قاضی ثناء اللہ پانی پتی (۔۔۔۔ ۱۲۲۵ھ) جنکی آٹھ جلدوں میں تفسیر مظہری مشہور ہے۔لہذا یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ اس کتاب میں مولوی عبد العزیزدہلوی نے کوئی نئی بات نہیں کہی ہے بلکہ اپنے سابقین مثلا ابن تیمیہ ، روز بہان، جوزی اور کابلی جیسے متعصب علمائے اہل سنت کی باتوںکو دہرایا ہے۔اور جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ در حقیقت یہ کتاب کئی سال پہلے لکھی گئی کتاب کا عربی سے فارسی میں ترجمہ اور سرقہ ہے۔ اس لئے کہ اس کتاب کی اصل و بنیاد خواجہ نصراللہ کابلی کی کتاب ’’صواقع موبقہ‘‘ ہے جسے عبد العزیز نے عربی سے فارسی میں ترجمہ کرکے اپنے نام سے چھپوا دیا ہے۔جیسا کہ صاحب نجوم السماء (جلد۱، صفحہ۳۵۲)اور صاحب عبقات الانوار (جلد حدیث غدیر و حدیث ثقلین) اور صاحب جوہر قرآن وغیرہ نے اس کی تصریح بھی کی ہے۔ انہوں نے کتاب کا پہلا ایڈیشن فرضی نام غلام حلیم ابن شیخ قطب الدین ابن شیخ ابوالفیض کے نام سے شائع کیا لیکن دوسرے ایڈیشن میں اصلی نام عبد العزیز دہلوی ظاہر کردیا۔(خلاصہ عبقات الانوار،علامہ سید علی میلانی،ج۱ ،ص۱۵۸؛ جوہر قرآن،علامہ سید علی حیدرؒ)اس سلسلے میں صاحب تذکرہ بے بہا رقم طراز ہیں: ’’جب شاہ صاحب نے صوائق خواجہ نصر اللہ کابلی کا ترجمہ فرمایا اورا س کا نام تحفہ اثنا عشریہ رکھا اور اس عہد میں نواب نجف علی خاں صاحب مرحوم کہ جو دلی میں رکن اعظم اور شیعہ کامل تھے ان کے خوف سے شاہ صاحب نے اپنا نام اس ترجمہ میں نہ لکھا بلکہ ایک فرضی نام غلام حلیم تراش کر ظاہر کیا‘‘( تذکرہ بے بہا،علامہ سید محمد حسین نوگانوی، ج۱ ،ص۳۳۴)۔
خدا گواہ ہے کہ جب انسان کتاب تحفہ اثنا عشریہ کو دیکھتا ہے تو اس نتیجہ پر پہنچنے میں اسے کوئی دیر نہیں لگتی کہ یہ کتاب علمائے شیعہ کی انتہائی معلوماتی بحر بے کراں علمی، مدلل، اسلامی تہذیب و اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے لکھی گئی کتابوں کے مقابلے کوئی اہمیت و وقعت نہیں رکھتی نیز اس کے مولف علمی و اخلاقی حوالے سے کتنے کمزور اور پست ہیں۔
تحفہ اثنا عشریہ ،اصل کتاب تو فارسی میں ہے لیکن متعصب و مغرض اور کج فکر افراد نے تحفہ اثنا عشریہ کی بہت زیادہ ترویج کی اور سقیفائی چہرہ پیش کرنے کی پوری کوشش کی۔۱۲۲۷ ھ کو غلام محمد بن محی الدین اسلمی (مولوی اسلم مدراسی)(متوفیٰ ۱۲۷۲)کے ہاتھوںیہ کتاب عربی میں ترجمہ ہوئی اور نواب علی محمد جان کے بیٹے نے اس ترجمہ کو عرب بھیجا(نور الانوار(حدیث نور)،ترجمہ مولانا شجاعت حسین رضوی،ص۱۶ )اس ترجمہ کی تلخیص محمود بن عبداللہ شکری آلوسی بغدادی (۱۲۷۳ھ۔۱۳۴۲ھ) نے ’’المنحۃالالٰھیۃ‘‘ کے نام سے کی جو مصر و ترکیہ وغیرہ میں شائع ہوئی اس خلاصہ کے جواب میں بھی علمائے شیعہ نے جوابات دئے۔اب تک تحفہ کا خلاصہ اور ترجمہ متعدد مرتبہ شائع ہوچکا ہے۔ایک اختصار مصر میں چھپا۔ 
سر سید احمد خان علیگڑھ نے تحفہ کے دسویں اور بارہویں باب کا اردو ترجمہ ’’تحفۂ حسن‘‘ کے نام سے کیا جسے ۱۲۶۰ھ میں شائع کیا۔(نور الانوار ،ص۱۶۔) .اردو میں کتاب کے متعدد ترجمے ہوئے غالبا پہلا ترجمہ ’’ہدیہ مجیدیہ‘‘ جو عبدالحمید خان پیلی بھیتی نے کیادوسرا ترجمہ سعد حسن خاں ٹونکی نے کیا(تحفہ اردو)، ظاہرا اس کے علاوہ بھی ترجمے ہوئے ایک ترجمہ ۱۴۰۲ھ میں خلیل الرحمٰن نعمانی(مظاہری) نےکیا ہے جو ۷۹۵ صفحات پر مشتمل ہے۔
 کتاب تحفہ اثنا عشریہ کو بارہ اماموں کی تعداد کے مطابق بارہ ابواب میں مرتب کیا گیا جو مندرجہ ذیل ہیں: 
باب اول: شیعہ مذہب کی ابتدا اور اس کے فرقے۔
باب دوم: شیعوں کے مکائد(یعنی بقول مصنف شیعہ حضرات مختلف بہانوں سے لوگوں کو اپنے مذہب کی طرف مائل کرلیتے ہیں) اس باب میں ۱۰۷ مکائد و مغالطوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ 
باب سوم: سابقین و اسلاف شیعہ کے حالات( اس باب میں اسلاف شیعہ کو طبقات کے عنوان سے پیش کرتے ہوئے سات طبقات کاتذکرہ کیا ہے)
باب چہارم: شیعہ روایات، ان کے اقسام و اسناد اور ان کے راوی۔ 
باب پنجم: الہیات(اس باب میں مصنف نے الٰہیات کے سلسلے میں شیعوں کے ۲۲ عقائد کو نقل کیا ہے اور بیان کیا ہے کہ شیعہ ان عقائد میں بقیہ مسلمانوں سے اختلاف رکھتے ہیں)۔
باب ششم: نبوت(اس باب میں نبوت سے متعلق ۱۵ عقائد کا تذکرہ کیا ہے جنمیں شیعہ دوسرے مسلمانوں سے الگ ہیں)۔ 
باب ہفتم: امامت(در حقیقت اس کتاب کا سب سے اہم باب ہے اس باب میں امامت سے متعلق کلی مسائل بیان کرنے کے بعد امامت و خلافت بلافصل کے سلسلے میں بحث کی گئی ہے اور چونکہ شیعہ حضرات حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل امامت و جانشینی کو مسلم و قابل قبول عقلی و نقلی دلائل(قرآن و احادیث پیغمبرؐ) کے ذریعہ ثابت کرتے ہیں لہذا عبدالعزیز دہلوی نے بزعم خود ان دلیلوں کو رد کرنے کی کوشش کی ہے ، اس سلسلے میں سات آیات کو ذکر کیا پھر ۱۲ حدیثوں کو ۔ اور علماء شیعہ نے سب سے زیادہ اسی باب کے جواب میں کتابیں لکھیں اور سب سےمشہور کتاب عبقات الانوار درحقیقت اسی باب کے جواب میں ہے۔)  
باب ہشتم: معاد( اس باب میں قیامت سے متعلق ۷ مسائل کو بیان کیا ہے)۔
باب نہم: فقہی مسائل ۔(بقول مصنف وہ مسائل جن میں شیعہ حضرات دوسروں سے اختلاف رکھتے ہیں)
باب دہم: خلفائے ثلاثہ، ام المومنین اور دیگر اصحاب کے مطاعن۔ (کتاب کا سب سے مفصل یہی باب ہے اس میں تقریبا ۵۶ مطاعن ذکر کیے ہیں)
باب یازدہم: شیعوں کے خصوصیات ،( جو تین فصلوںپر مشتمل ہے: ۲۵  توہمات و اوھام ، ۲۵  تعصبات ، ۲۳ ہفوات ۔)
باب دوازدہم: تولاو تبرا ،دس مقدمات پر مشتمل۔
تحفہ اثنا عشریہ کے جوابات: جب عبد العزیز دہلوی کے ذریعہ انتہائی بے بنیاد اور نامناسب کتاب تحفہ اثنا عشریہ سامنے آئی  تو شیعہ علما نے اپنے وظیفہ کو انجام دینے اور ولایت و امامت و رہبری کی حفاظت کے لئے اقدامات کئے اسی وجہ سے متعدد شیعہ علما نے تحفہ اثنا عشریہ کے جواب میںکتابیں لکھیں جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔ یقیناً تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے لیکن فی الحال جو معلوم ہوسکیں وہ پیش کی جارہی ہیں۔ ترتیب مصنفین کے سال وفات کے اعتبار سے رکھی گئی ہے۔ جن علماء کا سنہ وفات معلوم نہ ہوسکا انھیں آخر میں ذکر کیا گیا ہے: 
۱۔سیف اللہ المسلول علی مخربی دین الرسول(الصارم التبار لقدالفجار و قط الاشرار والکفار) ، ابو محمد میرزا محمد اخباری نیشاپوری بن عبد النبیؒ (۱۱۷۸ھ۔۱۲۳۲ ھ)،محمد اخباری اور فاضل اکبر آبادی کے نام سے مشہور ہیں۔یہ کتاب پوری تحفہ کا مکمل جواب ۔
۲۔النزھۃ الاثنی عشریہ ،(فارسی)شہید رابع حکیم میرزا محمد کامل بن احمد خان طبیب کشمیری دہلوی(۱۱۵۰ھ۔ ۱۲۳۵ھ)، تحفہ کی اشاعت کے دو سال کے اندر ہی اس کا مکمل جواب۔تحفہ کے تمام بارہ ابواب کے جواب میں بارہ جلدیں(ہر باب کے جواب میں ایک جلد،پہلی ، تیسری ، چوتھی ، پانچویں، اور نویں جلدیں لکھنؤ ، دہلی اور لدھیانہ میں شائع ہوئیں باقی جلدوں کا پتہ نہیں چلا ۔ علامہ سعید اختر صاحب کے مطابق اس کی تیسری جلد کا قلمی نسخہ انڈیا آفس لائبریری کے دہلی پرشین کلکشن میں ہے اب انڈیا آفس برٹش لائبریری میں ضم ہوگئی ہے۔اور نویں جلد کا خطی نسخہ رضا لائبریری رام پور میں موجود ہے، علامہ مرتضی حسین فاضلؔ کے مطابق ایک نسخہ کتب خانۂ مکتبۃالعلوم کراچی میں اور خطی نسخہ مولانا محمد مصطفی جوہر صاحب کے کتاب خانے میں موجود ہے)
۳۔الصوارم الالہیہ(فارسی)،علامہ سید دلدار علی غفرانمآب ابن سید محمد معین نقوی لکھنویؒ(م ۱۲۳۵ھ)،باب پنجم کی رد میں۔مطبوعہ کلکتہ
۴۔حسام الاسلام و سہام الملام(فارسی)، علامہ غفرانمآبؒ، تحفہ کے باب ششم کے جواب میں۔ مطبوعہ کلکتہ
۵۔ تتمہ صوارم الہیات، غفرانمآبؒ، باب ھفتم کی رد میں، شائع شدہ ۱۲۹۵ھ۔ ۱۸۷۸ء ۔
۶۔  رسالہ غیبت(فارسی)، سید دلدار علی غفرانمآبؒ، باب ھفتم کے جواب میں۔ مطبوعہ کلکتہ، و سلطان المنابع ۱۲۶۹ھ۔
۷۔ احیا السنۃ و امام البدعۃ (فارسی)، غفرانمآبؒ، تحفہ کے باب ہشتم کے جواب میں۔ مطبوعہ لکھنؤ و لدھیانہ
۸۔ ذو لفقار(فارسی)، غفرانمآبؒ،باب دوازدہم کی رد میں۔مطبوعہ لدھیانہ
۹۔ کشف الشبہ عن حکم المتعہ،فارسی، ۶۶ صفحہ، علامہ احمد بن محمد علی بن استاد کل آقای بہبہانیؒ(۱۱۹۱ھ۔ ۱۲۳۵ھ)
۱۰۔ہدیۃ العزیز (فارسی)،خیر الدین محمد الہ آبادی (۱۲۵۰ھ)،باب چہارم کی رد ۔
۱۱۔سیف ناصری، (فارسی)مفتی سید محمد قلی نیشاپوریؒ(م ۱۲۶۰ھ) (علامہ میر حامد حسینؒ کے والد)، باب اول کی رد میں۔ اس کے دو قلمی نسخوں کا تذکرہ علامہ سعید اختر نے کیا ہے جس میں سے ایک ان کے ذاتی کتب خانہ میں ہے۔
۱۲۔تقلیب المکائد  (فارسی)،مفتی سید محمد قلیؒ،باب دوئم کی رد میں۔(مطبوعہ دہلی)
۱۳۔برھان السعادات، (فارسی) مفتی سید محمد قلیؒ ، تحفہ کے باب ہفتم کی رد میں ۔مخطوطہ رضا لائبریری
۱۴۔تشیید المطاعن (فارسی) مفتی سید محمد قلیؒ،باب ہشتم کی رد میں ۔ (دو ضخیم جلدوں میں)مطبوعہ لدھیانہ ، کچھ عرصہ پہلے قم میں شائع ہوئی ہے۔
۱۵۔مصارع الافہام لقلع الاوھام، مفتی سید محمد قلیؒ،باب یازدہم کے جواب میں ۔
۱۶۔نفاق الشیخین بحکم صحیحین، فارسی، سید محمد قلی،مطبوع(مولانا طاہر اعوان صاحب نے اس کتاب کو تحفہ کے جواب میں شمار کیا ہے لیکن بظاہر یہ تحفہ کے جواب میں نہیں ہے)
۱۷۔الوجیزۃ فی اصول الدین(فارسی)،سبحان علی خان لکھنوی ہندی(م ۱۲۶۴ھ)،دو جلدوں میں(مصنف نے اصول سے متعلق بحث کو پیش کیا پھر امیر المؤمنینؑ کی امامت پر دلالت کرنے والی احادیث کو بیان کیا اس کے بعدصاحب تحفہ کے اعتراضات کو نقل کر کے ان کا جواب دیا ہے)۔
۱۸۔تجھیز الجیش لکسر صنمی قریش، حسن بن امان دہلوی عظیم آبادی نزیل کربلا (۔۔۔۔ حدود ۱۲۶۰ھ)۔
۱۹ ۔ حدیقہ سلطانیہ در مسائل ایمانیہ (باب چہارم) سیدالعلماء سید حسن علیین مکان( ۱۲۱۱ھ۔ ۱۲۷۳ھ)باب ہفتم کی ردّ۔
۲۰۔الھدایۃ السنیۃ فی ردّ التحفۃ الاثناعشریۃ، عمدۃ العلماء محمد ھادی نقوی ابن سید مہدی نصیر آبادیؒ (۱۲۲۸ھ۔ ۱۲۷۵ھ).
۲۱۔تحفہ حنفیہ بہ جواب تحفہ اثنا عشریہ،زین العابدین خان ۱۲۷۵ھ۔
۲۲۔ برھان الصادقین، علامہ سید جعفر المعروف ابو علی خان موسوی بنارسی دہلوی(حدود ۱۲۸۰ھ)، باب ھفتم کی رد میں۔
۲۳۔ بہجۃ البرھان(فارسی)، سید جعفرابو علی ، باب نہم کی رد میں۔ مخطوطہ ناصریہ لائبریری
۲۴۔ تکسیر الصنمین (فارسی)،سید جعفرابو علی،باب دہم کی رد میں۔ناصریہ لائبریری.
۲۵۔ امامۃ(عربی)، سلطان العلماء سید محمد ابن غفرانمآبؒ(۱۱۹۹ھ۔ ۱۲۸۴ھ)، باب ھفتم کی رد میں۔کتاب مبسوط بحث امامت.
۲۶۔ بوارق موبقہ (فارسی)بحث امامت،سلطان العلماء سید محمد ؒ،باب ہفتم کی رد میں۔
۲۷۔ طرد المعاندین ، سلطان العلماء سید محمدؒ۔تحفہ کے باب ھفتم کے جواب میں.
۲۸۔ بارقہ ضیغمیہ در موضوع متعہ،سلطان العلماء سید محمد ؒ،باب دھم کی رد میں۔
۲۹۔ طعن الرماح، سلطان العلماء سید محمدؒ، باب دھم کی رد۔ مطبوعہ لکھنؤ۔
۳۰۔تحفہ کے بعض ابواب کی ردّ، سید احمد علی بن سید عنایت حیدر محمد آبادی، (۱۲۰۶ھ۔۱۲۹۵ھ).
۳۱۔عبقات الانوار فی مناقب الائمۃ الاطہار (تحفہ کے جواب میں سب سے مشہور اور سب سے اہم کتاب جس کی کل جلدوں کی تعدا د ۳۰ بیان کی گئی ہے اور ۱۶ جلدیں شائع ہو چکی ہیں) علامہ میر حامد حسین موسویؒ ۔ ( ۱۲۴۶ھ۔۱۳۰۶ھ)
۳۲۔ جواہر عبقریۃ در رد تحفہ اثنا عشریہ  (فارسی)،باب ہفتم، مفتی سید محمد عباس شوشتریؒ (م ۱۳۰۶ھ)۔مطبوعہ لکھنؤ
۳۳ ۔ حدیث ثقلین( رد بحث ثقلین در تحفہ )، حکیم امجد علی خان ابن حکیم ابو علی خان امروہوی (۱۳۱۸ھ، ۱۹۰۰ء)۔
 ۳۴۔ ’’بیان تصحیف المنحۃ الالہیۃ عن النفثۃ الشاطنیۃ‘‘(تین ضخیم جلد یں) شہید مسموم آیۃاللہ العظمیٰ شیخ مہدی بن حسن خالصی کاظمیؒ (۱۲۷۶ھ۔ ۱۳۴۳ھ) ،(عربی تلخیص کا جواب) 
۳۵۔ رسالہ نافعہ در جواب تحفہ اثنا عشریہ، علامہ سید مقرب علی زائر (۱۲۵۹ھ۔ ۱۳۴۵ھ)
۳۶۔ النار الحاطمہ لقاصۃ احراق بیت فاطمہ، سید مقرب علی ابن سید شیر علی نقوی (۱۲۵۹ھ۔ ۱۳۴۵ھ) جگرانوںلدھیانہ، انتشارات مجمع البحرین ترجمہ تشیید المطاعن۔
۳۷۔رد التحفہ ترجمہ نزہہ اثنا عشریہ، مولانا سید محمد حیدر نقوی ؒابن فخرالحکماء مولانا سید علی اظہر(م ۱۳۴۵ه، ۱۹۲۶ء)، مطبوعہ ادارہ اصلاح.
۳۸۔ تحفۃ السنۃ (اردو)،مرزا محمد ہادی رسوا بن میرزا محمد تقی لکھنویؒ(۱۲۷۵ھ۔ ۱۳۵۰ھ)،۱۵ جلدوںمیں۔( خطی نسخہ واعظین کے کتب خانہ میں موجود ہے).
۳۹۔ المرافعات، علامہ سید علی اظہر نقوی کھجوی، بانیٔ ادارۂ اصلاح(۱۳۵۲ھ)
۴۰۔آلوسی والتشیع، آیۃ اللہ العظمیٰ مرزا فتح اللہ شیخ الشریعۃ اصفہانی اور آقای سید محمد کاظمی قزوینی (۱۳۳۵ھ۔ ۱۴۱۴ھ) ابن آیۃاللہ العظمیٰ سید مھدی قزوینی (۱۲۸۲ھ۔ ۱۳۵۹ھ) ،(عربی تلخیص کا جواب)
۴۱۔ جوہر قرآن(اردو)، علامہ سید علی حیدر نقویؒ ، مدیر اول ماہنامہ اصلاح(۱۳۰۳ھ۔ ۱۳۸۰ھ)،(میاں بیوی کے درمیان مناظرہ کی صورت میں لکھی گئی اس کتاب میں صاحب تحفہ کے اکثر اعتراضات نقل کر کے اس کے  جوابات دئیے ہیں)۔(متعدد مرتبہ ادارہ اصلاح سے شائع ہوچکی ہے اور عنقریب دوبارہ شائع ہونے جارہی ہے۔)
۴۲۔ثمرات، مولانا سید محسن نواب صاحبؒ (۱۳۲۹ھ۔ ۱۳۸۹ھ)۔باب ہفتم کی رد۔ سید محسن نواب صاحبؒ نے خلاصہ عبقات الانوار حدیث مدینۃ العلم بھی تحریر کی ہے۔
۴۳۔جواب تحفہ(باب اول، دوم، چہارم، پنجم، ششم اور باب دھم کا جواب)، افتخارالعلماء مولانا سعادت حسین خان صاحب (۱۳۲۵ھ۔ ۱۴۰۹ھ). یہ کتاب ’’نزہہ اثنا عشریہ ‘‘ کا خلاصہ ہے ، جو خطی ہے اور مرحوم کے نواسے مولانا ظہیر احمد افتخاری صاحب کے پاس موجود ہے۔
۴۴۔  ’’نقض المنحۃالآلوسیۃ‘‘ ،محمد بن طاہر سماوی فضلی نجفی (۱۲۹۲ھ۔ ۱۳۷۱ھ) (عربی تلخیص کا جواب)۔
۴۵۔ رد تحفہ اثنا عشریہ، شیخ الجامعہ علامہ اختر عباسؒ(۱۳۴۱ھ۔ ۱۴۲۰ھ)
۴۶۔جاگیر فدک(تحفہ اور دیگر کتب اہل سنت کے فدک سے متعلق جواب)، علامہ غلام حسین نجفی ؒ ۱۴۲۶ھ۔(اعوان)
۴۷۔ سھم مسموم فی جواب نکاح ام کلثوم(تحفہ اور دیگر کتب اہل سنت کا حضرت ام کلثوم ؑ کے عقد سے متعلق جواب)، غلام حسین نجفی ؒ ۱۴۲۶ھ۔
۴۸۔ھدیۃ السنیۃ( ۲ جلد)، ملک آفتاب حسین مدظلہ(مولف کے مطابق آمادہ چاپ ہے)
۴۹۔ادلہ نقلیہ در ثبوت تقیہ، سید حافظ علی نہٹوری بجنوری لدھیانہ(تقیہ سے متعلق تحفہ کا جواب).
۵۰۔تکمیل قرآن (قرآن و شیعہ سے متعلق تحفہ کا جواب)، سید محمد حسین دہلوی۔
۵۱۔ التمییز بین صواعق الکابلی و تحفہ عبدالعزیز، حکیم سید حسین گریاںؔ زیدی لکھنوی ۔مطبع تصویر عالم لکھنوی ۱۹۷۹۔
۵۲۔ھدیہ اثنا عشریہ ترجمہ نزھۃ اثنا عشریہ جلد نہم ، جناب سید حسین بریلوی(دہلی پریس).
۵۳۔تحفہ منقلبہ،فارسی، جناب سید رضاء الحسن ابن سید باقر علی نقوی، لکھنؤ مطبع احمدی ۱۳۱۳ھ۔
۵۴۔ تحفه سجادیه، مولانا سید سجاد المعروف سید محمد رضوی۔( تحفه كے طعن فدك كا جواب)
۵۵۔ تحفه اثنا عشریه كا معیار تهذیب، مولانا سید علی اختر رضوی گوپالپوری، (م ۲۶ ذی قعدہ ۱۴۲۲ھ)
۵۶۔نفحات الریاحین فی احوال سیدنا خاتم النبیین (اس کتاب کا آخری حصہ تحفہ کی فدک کی بحث کا جواب ہے).
۵۷۔ھدیہ حسینیہ بجواب تحفہ اثنا عشریہ، مولف نامعلوم، اردو ، مطبوع، ( یہ کتاب منشورات کتب خانہ اثنا عشریہ لکھنؤ کی فہرست ،۱۹۰۱ء میں کتاب ارغام المارکین کے آخری صفحہ پر متعارف کرائی گئی ہے۔).
۵۸۔بررسی تناقضات تحفہ اثنا عشریہ۔مولف :نا معلوم۔
آخر میں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ ایک پانچ سو صفحات کی کتاب کے جواب میں ہمارے علماء نے کتنی زیادہ کتابیں لکھیں؟ وہ بھی انتہائی سخت اور دشوار دور میں جس وقت کسی طرح کے وسائل و آسانیاں بھی فراہم نہیں تھیں۔ پہلا سوال یہ ہے، ان کتابوں کی تالیف و تحریر میں علماء کا کتنا وقت صرف ہوا؟ کیا اس کثرت سے جوابات کی ضرورت تھی؟ اور کیوں؟۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ آخر یہ تمام کتابیں کہاں ہیں؟ افسوس تو یہی ہے کہ ان میں سے اکثر کتابوں کا اس وقت کوئی پتا نہیں ہے یا تو شائع ہی نہ ہوسکیں یا دوبارہ شائع ہونے کی نوبت نہ آئی۔ 
آج ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ دفاع ولایت کے لئے آگے آئیں اور ان کتابوں کو منظر عام پر لانے کی کوشش کریں تاکہ مصنفیں کی زحمتیں صرف الماریوں کی زینت اور دیمک کی نذر نہ ہوں اور ہم بھی ثواب کے مستحق قرار پاسکیں۔
اور ایک تجویز و گزارش یہ بھی ہے کہ آج تحفہ کی طرح اس کا ایک مکمل و مختصر جواب کم از کم اردو زبان میں منظر عام پر آئے اور ہر جگہ دستیاب ہو۔
قارئین سے یہ بھی گزارش ہے کہ اس سلسلے میں اگر کوئی معلومات ان کے پاس ہوتو ضرور مطلع فرمائیں۔ فقط 
 rrrrr

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں