جمعہ، 15 مئی، 2020

تقلید کیا ہے؟ taqleed Kia hai?

باسمہ تعالیٰ
تقلید کیا ہے؟
آیۃاللہ مشکینیؒ

مقدمہ
اجتہاد اور تقلید نظام اسلامی کا مترقی ترین طریقہ ہے جو قوانین اور احکام اسلامی کو جمود فکر سے محفوظ اور مسلمانوں کو فکری میدان میں ترقی اور تفکر کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ ساتھ ہی یہی وہ واحد راستہ ہے جو نظام اسلامی کو عالمی سطح پر اس کے برتر اور تنہا نظام نجات دہندہ بشریت کے بلند مرتبے پر فائز اور استوار رکھتا ہے۔ اور ہر دور میں اس نظام کو تمام مسائل اقتصادی ، سیاسی اور اجتماعی میں کلید اور راہ گشا کا درجہ دیتا ہے۔ 
 اس سے نہ فقط محدود افراد کے استنتاج فکر سے معاشرہ کو نجات ملتی ہے بلکہ مسائل روز مرہ میں جبکہ دنیا نے علمی میدان میں کافی ترقی کی ہے اور بہت سے ایسے مسائل پیدا ہوئے ہیں جن کا منطقی جواب اور حل اجتہاد کے باب سے ہی میسر ہے ۔ پھر اجتہاد کے ساتھ اعلمیت شرط قرار پائی ہے تو یہاں اس نظام میں ایک مرکزیت ، رہبری، اور قیادت کا تعین ہوتا ہے۔ 
جس سے معاشرہ تشتت اور پراکندگی سے محفوظ ، اور واحد ہدف کی طرف کامل اطمینان سے گامزن ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے معاشرہ کو تکامل کے درجے تک پہنچانے اور ملت کو متحد اور منسجم بنانے میں تقلید اعلم ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ 
پس افضل ترین وسیلہ جس سے غیر عالم اور غیر متخصص اپنے مورد ابتلا مسائل میں معرفت حاصل کرے تقلید اعلم ہے۔ 
لیکن یہاں پرلازم ہے اس مطلب کی طرف اشارہ کیا جائے کہ مسئلہ تقلید نظام اسلامی میں فقط انسان کے میدان علمی میں جواز رکھتا ہے لیکن اصول اعتقادی میں تقلید معنی نہیں رکھتی بلکہ اگر وقت کی جائے تو انسان کی فطرت اس بات کر قبول نہیں کرتی لہٰذا اسلام یہاں تقلید کو قبول نہیں کرتا بلکہ ایسی تقلید کی تقبیح کرتا ہے اور اس کو جائز نہیں جانتا ۔ لہٰذا قرآن کریم اور احادیث نبوی میں تفکر اور تعقل کی طرف انتہائی تاکید ہوئی ہے۔
اسی موضوع کو حضرت آیت اللہ مشکینی مدظلہ نے مورد بحث قرار دیا ہے اور عقلی اور نقلی دلائل سے اس مطلب کو ثابت کیا ہے کہ اجتہاد اور تقلید ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے بغیر انسانی معاشرہ اپنے مسائل کو حل نہیں کرسکتا بلکہ یہ مسئلہ تقاضای فطرت ہے 
اس کتاب کے مولف تحریک انقلاب اسلامی ایران کے ممتاز رکن ہیں اور حوزہ علمیہ قم کے استاذہ میں آپ امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔ 
 ہماری استدعا ہے کہ آب زلال حقیقت کے پیاسے  اور تحقیق و تدقیق کے متوالے اس کتاب کو دقت سے مطالعہ فرمائیں۔

اس کتاب میں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیئے گئے ہیں:
 ۱۔ تقلید کیا ہے؟
۲۔ تقلید کن موضوعات میں ہوسکتی ہے؟
۳۔ مجتہد کسے کہتے ہیں؟
۴۔ مذہبی مسائل میں عوام کا فریضہ کیا ہے؟
۵۔ کیا وجہ ہے کہ انسان کو یا مجتہد ہونا چاہئے یا مقلّد؟
۶۔ تقلید کن دلائل کی رو سے واجب ہے؟
۷۔ بعض کے نزدیک تقلید کیوں بدعت و حرام ہے؟
۸۔ تقلید کے لئے کیا شرائط ہیں۔
۹۔ اعلم مجتہد کو کیسے پہچانا جاسکتا ہے؟
۱۰۔ جس نے اپنی زندگی کا ایک حصہ بغیر تقلید گزار دیا ہو 
اب اسے کیا کرنا چاہئے؟
۱۱۔ احکام شرعیہ کے مآخذ و مدارک کیا ہیں؟
۱۲۔ اجتہاد کے لئے کن شرائط کا ہونا ضروری ہے؟



بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: تقلید کیا ہے۔
جواب: دلیل طلب کئے بغیر کسی کا قول قبول کرنا تقلید ہے۔ 
جس طرح بیمار اپنے معالج کے دستور کی پیروی اور اسی کے مطابق عمل کرتا ہے۔ 
س: تقلید کن موضوعات میں ہوسکتی ہے۔ مقلّد اور مجتہد کسے کہتے ہیں؟
ج: کسی بھی موضوع میں جب انسان کو ئی مطلب نہ سمجھ سکے اور اسے دوسروں سے اتباعاً اخذ کرے۔ اسے تقلید کہیں گے۔ البتہ تقلید کے غالب موارد سے امور ہیں جہاں تعلیم و تجربہ کی احتیاج ہوتی ہے۔ چونکہ کسی بھی علمس ے بے بہرہ افراد عالم و ماہر اور تجربہ کار سے ہی اس علم کے مسائل حاصل کرتے ہیں۔ 
جیسے ڈاکٹر و طبیب انسانی بدن کے حالات اور صحت و مرض سے واقفیت رکھتا ہے____دوا ساز دواؤں کی خصوصیات سے مطلع ہوتا ہے۔ معمار ’’ماہر تعمیرات ‘‘ مکان کے بنانے میں ماہر ہے۔ زر گر سونا چاندی اور دوسرے جواہرات کی تشخیص میں ماہر ہے۔ درزی لباس کی کاٹ اور اس کی سلائی میں استاد ہے۔ گھڑی ساز گھڑی کی خوبی دے دی اور اس کے داخلی حالات سے آگاہ اور____حکیم و فیلسوف اپنی استعداد بشری کے مطابق موجودات کے حقائق سے باخبر ہوتا ہے۔ 
نتیجہ:__________ہر علم و فن کے عالم ، دانش مند اور متخصص کو اس علم و فن کا مجتہد اور ناواقف حضرات جب اس مجتہد کی طرف رجوع کرتے ہیں تو انہیں مقلد کہا جاتا ہے۔ 
مذہبی مسائل دو قسم کے ہیں:
۱۔ اصولی مسائل جن میں توحید، صفاتِ پروردگار ( عدل وغیرہ) ، نبوت، امامت اور معاد( قیامت) سے متعلق مسائل شامل ہیں۔ 
 ۲۔ فروعی مسائل جن میں مسائل عبادات و معاملات وغیرہ شامل ہیں۔ 
 پہلی قسم ہماری بحث سے خارج ہے کیونکہ یہ بات مسلمہ ہے کہ اصولی مسائل میں تقلید نہیں ہوسکتی بلکہ ہر عاقل انسان کے لئے ضروری ہے کہ ان اصولی مسائل کی معرفت حاصل کرنے کیلئے فکری و عقلی استدلال سے کام لے اور پھر انہیں اپنے عقائد میں شامل کرے۔ 
 سردست ہماری بحث دین کے فروعی مسائل سے متعلق ہے۔ 
 اصولی مسائل کے لئے مختصر ، روشن اور عام فہم دلیل بیان کی جاسکتی ہے لیکن احکام فرعیہ کے استنباط ( سمجھنے) کے لئے کچھ شرائط کا ہونا ضروری ہے  جو سب لوگوں کو میسر نہیں۔ 
س: احکام شرعیہ میں مجتہد اور اس سلسلہ اجتہاد میں مرجع تقلید کو ن ہوتا ہے؟
ج: مجتہد وہ شخص ہے جو لوگوں کے مذہبی ، معاشرتی ، اجتماعی معاملات اور زندگی کے دیگر مورد ابتلاء مسائل کو دلائل و براہین کے ذریعہ ان کے مدارک سے اخذ کرے ۔ بالفاظ دیگر مجتہد وہ ہوتا ہے جو آفاقی قوانین ووظائف انسانی جنہیں خداوند متعال نے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمایا ہے ۔ ان کے مآخذ وہ مدارک سے اخذ کرے تاکہ وہ خود اور دیگر انسان بھی ان احکام پر عمل پیرا ہوسکیں۔ 
 س: ایک مسلمان اور معتقد انسان کا اپنے مذہبی مسائل میں کیا وظیفہ ہے؟
 ج: وہ خود مجتہد ہو یا جامع الشرائط مجتہد کی تقلید کرے۔ 
س: اس کی کیا وجہ ہے کہ انسان کو ان دو میں سے ایک راہ اختیار کرنی ہوتی ہے؟
ج: اس میں کوئی شک نہیں کہ ادیانِ آسمانی میں سے کسی دین نے اپنے پیروکار وں کو حیوانات کی طرح بلا تکلیف ووظیفہ نہیںچھوڑا بلکہ کچھ احکام اور دستور وضع کئے تاکہ ان کا علم حاصل کرکے ان پر عمل کیا جائے۔ دین اسلام نے بھی جو آخری دستورِ آسمانی اور خاتمِ ادیان ہے کچھ احکام اور قوانین بیان کئے ہیں جن کا استنباط قرآنی آیات اور احادیث معصومین علیہم السلام سے کافی وقت کے ساتھ مخصوص شرائط کو پیش نظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔ پس جو شخص خود تحقیق کرے اور مذکورہ بالا مدارک سے اپنے مورد ابتلاء مسائل کو حاصل کرے وہ مجتہد ہے ۔ اور جو شخص اتنی صلاحیت یا اتنا وقت نہیں رکھتا اس کو چاہئے کہ مجتہد کی پیروی کرے۔ ایسے شخص کو مقلد کہتے ہیں۔ 
سوال: اس بات کی کیا دلیل ہے کہ مجتہد کی تقلید کرنا ضروری ہے؟
جواب: جو شخص دینی احکام میںخود مجتہد نہیں ہے مندرجہ ذیل دلائل کی رو سے اس کے لئے کسی مجتہد کی تقلید کرنا ضروری ہے۔ 
پہلی دلیل:_________حکم عقل ، تقاضائے فطرت اور روش ِ(طریقۂ عقلا) مثلاً کوئی مریض خود اپنے مرض اور اس کی دوا کی تشخیص نہ کرسکتاہو اور اس کے لئے دوسروں کی طرف رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تو اس کی عقل یہ فیصلہ کرے گی کہ اسے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور ڈاکٹر جو علاج اس کے لئے تجویز کرے اس پر عمل کرنا لاز م ہے۔ اگر ڈاکٹر کے موجود ہوتے ہوئے بھی اس کی طرف رجوع نہ کرے جس کی وجہ سے مرض بڑھ جائے یا موت آجائے تو عقلاء اس کی مذمت کریں گے اور اس کا عذر مورد قبول نہ ہوگا۔ اب جبکہ مریض یہ سمجھ کر کہ ڈاکٹر کی تشخیص ، بیماری کے علل و اسباب اور اس کے ازالہ کا طریقہ اس کے احاطۂ قدرت سے باہر ہے، ڈاکٹر سے اپنے علاج کی دلیل طلب کرے تو مورد تنقید واقع ہوگا۔ 
دوسری دلیل: _________آیہ شریفہ : وماکان المومنون لینفروا کافۃ فلولا نفر ۔۔۔ ( سورہ برأت آیت ۱۲۲)
یعنی تمام مومنین کے لئے اپنے وطن کو تحصیل علم دین کے لئے چھوڑنا ممکن نہیں پس احتمالاً ہر گروہ میںسے چند آدمیوں کا تحصیل علم دین کے لئے جانا ضروری ہے اور وہ جب اپنے اپنے وطن واپس لوٹیں تو ان کو چاہئے کہ دوسرے لوگوں کو دینی احکام کی تعلیم دیں اور ان کو عذاب الٰہی سے ڈرائیں۔ شاید وہ ان کی گفتار کی پیروی کرتے ہوئے عذاب الٰہی سے ڈریں۔ 
یہ آیۂ شریفہ (تفقہ) یعنی تحصیل علم و احکام دین کو بعض افراد کیلئے واجب قرار دینے کے علاوہ ان احکام کا دوسروں تک پہنچانا بھی لازمی قرار دے رہی ہے۔ 
البتہ احکام دین حاصل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کے دو طریقے قابل عمل ہیں کہ آیۂ شریفہ دونوں کی تائید کررہی ہے۔ 
پہلا طریقہ: _________خود اصل روایت کا حاصل کرنا اور دوسروں تک پہنچانا غالباً سابقہ زمانے میں اصحاب معصومین علیہم السلام کا طریقہ بھی یہی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو راوی اور ناقلین حدیث کہا جاتا تھا اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ اس آیۂ شریفہ سے خبر واحد کی حجیت بھی مستفاد ہوتی ہے۔ 
دوسرا طریقہ: _________ یہ کہ اس فن کا ماہر اور تتبع کرنے والا عالم دین ، آیات و روایات میں غور و فکر کرنے ، اصولی اور فقہی قواعد کے ذریعہ تجزیہ و تحلیل کرنے کے بعد ( جسے اجتہاد کہا جاتا ہے) جس نتیجہ پر پہنچے اس کو فتویٰ کی صورت میںدوسروں کے سپرد کرے جیسا کہ ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کے بعض شاگرد ایسے ہی تھے۔ حضرت ولی عصر امام آخر الزمان ارواحنا فداہ کے زمانہ غیبت سے لوگوں تک احکام دین پہنچانے کا یہی طریقہ علماء نے اختیار کررکھا ہے اور آیہ شریفہ بھی اس طریقہ کو شامل ہے۔ 
 پس اس مختصر بیان سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ آیہ شریفہ نقل روایت کے صحت اور معتبر ہونے کو بھی اور مجتہد کے فتویٰ کے حجت و معتبر ہونے کو بھی ثابت کررہی ہے۔ 
تیسری دلیل: _________ وجوب تقلید کے دلائل میں سے تیسری دلیل وہ روایات ہیں جو اس بارے میں ائمہ معصومین علیہم السلام سے ہم تک پہنچی ہیں اور ثابت کرتی ہیںکہ جو لوگ احکام دین اور مذہبی مسائل کو نہیں جانتے ہیں انہیں چاہئے کہ اس فن کے ماہر علماء اور محققین کی تقلید کریں یعنی اپنے مورد ابتلا مسائل ان سے حاصل کریں۔ 
اس سلسلہ میں چند روایات پر اکتفاء کی جاتی ہے۔ 
پہلی روایت: _________ نجاشی جو علماء شیعہ میں سے ہیں اپنی علم رجال کی معروف کتاب میں امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اپنے شاگردوں میں سے ایک ممتاز شاگرد ابان کو فرمایا : یا ابان اجلس فی المسجد و افت الناس فانی احب ان یریٰ فی اصحابی مثلک ‘‘یعنی اے ابان جب مدینہ آؤ تو مسجد پیغمبرؐ میں بیٹھ کر لوگوں کو فتویٰ دو ( یعنی احکام دین بتاؤ) کیونکہ میں پسند کرتا ہوں کہ لوگ میرے اصحاب میں سے تجھ جیسے صحابی دیکھیں۔ 
ابان جو مجتہد اور صاحب فتویٰ تھے امام علیہ السلام نے ان کو فتویٰ دینے کا حکم فرمایا تاکہ لوگ سنیں اورا س پر عمل کریں اور امام ؑ کی نظر میں تمام مجتہدین اور صاحب فتویٰ ابان کی طرح ہیں۔ یعنی حکم امامؑ کے مطابق ہر شخص کیلئے جو خود مجتہد نہیںضروری ہے کہ اپنے مورد ابتلا مسائل میں کسی مجتہد کی تقلید اور اس کے فتوؤں پر عمل کرے ۔ 
 دوسری روایت: _________کتاب وسائل الشیعہ ( مذہب شیعہ میں حدیث کی مستند کتاب) کے باب ۱۱ کتاب القضاء میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ نے ’’ معاذ ‘‘ نامی شخص سے فرمایا: یلغنی انک تقعد فی الجامع و تفتی فیہ؟ قلت نعم یحی الرجل اعرف بمودتکم و حبکم فاخبرہ بما جاء عنکم فقال ۔ اصنع قم ملخصا ‘‘ اے معاذ میں نے سنا ہے کہ تو مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو فتویٰ دیتا ہے ؟میں نے عرض کیا یا حضرت ایسا ہی ہے، جو کچھ میں نے آپ سے حاصل کیا ہے آپ کے محبوں و دوستوں کے لئے بیان کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا ایسا ہی کرو۔ 
 معاذ روایات معصومین علیہم السلام سے حکم الٰہی کا استنباط کرکے فتویٰ کی صورت میں لوگوں کو بتاتے تھے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی معاذ کے اس عمل کی تائید فرمائی۔ امام علیہ السلام کی نظر میں معاذ اور دوسرے مجتہدین یکساں ہیں یعنی مجتہدین کا فتویٰ لوگوں کے لئے حجت ہے اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ 
 تیسری  روایت: _________ کتاب وسائل الشیعہ باب ’’ کتاب القضا‘‘ میں عبد العزیز نامی ایک شخص حضرت اما م رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کرتا ہے۔ یا حضرت میرا گھر بہت دور ہے میں اپنے مورد ابتلاء مسائل پوچھنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوسکتا۔ آیا آپ یونس بن عبد الرحمن کی تائید فرماتے ہیں اور میں اس سے اپنے دینی مسائل حاصل کرسکتا ہوں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا ہاں۔ 
چوتھی روایت:  _________کتاب وسائل الشیعہ باب ۱۰، کتاب القضاء میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی تفسیر سے نقل ہے: 
’’ فاما من کان من الفقہا صائنا لنفسہ حافظاً لدینہ مخالفاً لھواہ مطیعاً لامر مولا ہ فللعوام ان یقلدوہ ‘‘۔
مجتہدین اور فقہا میں سے جو شخص اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھنے والا اپنے دین کی حفاظت کرنے والا، خواہشات نفسانی کی مخالفت کرنے والا اور حکم خدا کی اطاعت کرنیو الا ہو تو عوام پر لازم ہے کہ اس کی تقلید کریں۔ 
 ہمیں گزشتہ مطالب سے یہ نتیجہ حاصل ہوتاہے کہ عوام میں سے ان لوگوں پر جو دینی مسائل اور احکام الٰہی سے پوری طرح مطلع نہیں ہیں، لازم ہے کہ کسی مجتہد ( فقیہ) یعنی اس فن کے ماہر شخص کی تقلید و پیروی کریں ۔ اگر چہ وہ لوگ دوسرے علوم و فنون میں خود ماہر و متخصص کیوں نہ ہوں جیسا کہ مجتہد و فقیہ کے لئے بھی دوسرے علوم و فنون کے مورد ابتلاء مسائل میں متخصص اور ماہر فن کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ پس یہ کہنا بجا ہوگاکہ اس دنیا میں صحیح اور عقلی زندگی کی بنیا د تقلید پر ہے کیونکہ معاشرے کے تمام افراد نہ فقط تمام علوم و فنون میں ماہر و متخصص نہیں بن سکتے،بلکہ مورد ابتلا مقدار کی تحصیل پر بھی قادر نہیںہیں۔ ’’ جس وجہ سے معاشرہ کا ہر فرد دوسرے کا محتاج ہے۔‘‘ مثلاً ڈاکٹر کیلئے مکان بنانے میں معمار کی طرف اور معمار کیلئے بیماری میں ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے اور ان دونوں کیلئے دینی مسائل میں مجتہد و فقیہ کی طرف رجوع کرنا اور اس کی تقلید کرنا لازم ہے۔ پس تقلید کا لازم و واجب ہونا عقل و خرد کے علاوہ قرآن اور احادیث کی رو سے بھی ثابت ہے۔ 

 سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ تقلید باطل بلکہ بدعت اور حرام ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بعض آیات و روایات بھی تقلید کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ مثلاً سورہ زخرف کی آیت ۲:
انا وجدنا آبائنا علیٰ امۃ و انا علیٰ آثارھم مقتدون۔ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو ایک طریقہ پر پایا ہے۔ ہم بھی ان کی اتباع کرنے والے ہیں۔ 
اور اسی طرح کتاب وسائل الشیعہ باب ۱۰ کتاب القضاء میں سفیان سے روایت ہے کہ :
قال الصادق علیہ السلام لسفیان بن خالد ایاک الریاسۃ فما طلبھا احد الا ھلک فقلت قد ھلکنا اذا لیس احد منا الا وھویحب ان یذکر ایقصد و یوخذ منہ؟ فقال: لیس حیث تذھب انما ذالک ان تنصب رجلاً دون الحجۃفتصدقہ فی کل ماقال وفد عواالناس الیٰ قولہ۔
امام صادق علیہ السلام نے سفیان بن خالد سے فرمایا: اے سفیان ریاست سے بچوکہ جو بھی ریاست کے پیچھے پڑا ہلاک ہوا۔ سفیان کہتے ہیں میں نے عرض کی: یا حضرت! پس ہم سب ہلاکت میں ہیں کیونکہ ہم میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ لوگوں میں اس کا نام لیا جائے اور لوگ اس کے پاس آکر علم حاصل کریں ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: میرا مقصد یہ نہیں ہے جو تونے سمجھا ہے بلکہ اس مذمت سے میرا مقصد یہ ہے کہ تو کسی کو حجت یعنی تائید معصوم کے بغیر نصب کرکے ہر موضوع میں اس کی گفتار کی تصدیق اور لوگوں کو اس کی بات کی طرف دعوت دے۔ 
جواب: معلوم ہوتاہے کہ جو لوگ تقلید کے منکر ہیں یا تقلید کے حرام ہونے کا فتویٰ دیتے ہیں وہ اصلاً تقلید کے معنی و مفہوم سے غافل ہیں اور انہوں نے اس بارے میں علماء کی مراد نہیں سمجھی ۔ کیونکہ اگر تقلید سے مرادیہ ہو کہ کسی مجتہد اور اس کی گفتار کو پیغمبر اور امام کے مدمقابل قرار دیا جائے مثلاً مجتہد یہ کہے کہ پیغمبر اور امام کا فرمان یہ ہے اور ان کے مقابل میرا فتویٰ یہ ہے یعنی اس کے فتویٰ کا استناد آیا ت و روایات کی طرف نہ ہو تو ایسے مجتہد کی تقلید بدعت اور حرام ہے۔ کیونکہ احکام الٰہی اور دستورات شرعی کے حصول میں کتاب خدا ( قرآن مجید) اور فرامین معصومین علیہم السلام ( جو فقط ۱۴ ہستیاں ہیں) کے علاوہ کسی کی بات قابل قبول نہیں۔ 
 لیکن اگر فرض کریں کہ ایک شخص نے سالہا سال زحمت ومشقت کے بعد آیات قرآنی و روایات معصومین علیہم السلام سے احکام اور قوانین الٰہی کو حاصل کیا ہے یعنی جو کچھ اس کے پاس ہے قرآن و فرامین معصومینؑ سے ہے جو کچھ کہتا ہے ان کی طرف سے کہتاہے تو اس صورت میں جو شخص خود کلام خدا اور فرامین ائمہ علیہم السلام سے احکام خدا و دستورات دینی کو سمجھنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے وہ اپنے دینی مسائل میں ایسے عالم و مجتہد کی تقلید کرے تو یقیناً ایسی تقلید نہ فقط عقلاً صحیح ہے بلکہ دستور ائمہ علیہم السلام کے مطابق لازم اور واجب ہے۔ پس یہ واضح ہوگیا کہ فتوائے مجتہد یعنی اس مطلب کا بیان جو خدا ، رسول اور ائمہؑ کے فرامین سے حاصل کیاہو نہ کہ جس کو اپنی طرف سے جعل و اختراع کیا ہو۔ اگر کبھی کوئی مجتہد کہے کہ میری رائے اور میرا فتویٰ اس طرح ہے تو اس کا مقصدیہ ہوگاکہ جو کچھ میں نے قرآن مجید اور احادیث و فرامین ائمہ علیہم السلام سے سمجھا ہے وہ یہ ہے ۔ ورنہ اس کی تقلید ، رائے اور فتویٰ قابل قبول نہ ہوں گے۔ اور اگر کسی کو ہماری اس بات میں شک ہو تو خود مجتہدین اور اہل فتویٰ سے سوال کرلے۔ 
منکرین تقلید کے دلائل کا جواب
( گزشتہ دلائل کا جواب) وہ آیات جو تقلید کی مذمت کے لئے پیش کی جاتی ہیں اولاً تو کفار سے متعلق ہیں۔ ثانیاً ان سے اصول دین میں تقلید کی مذمت واضح ہوتی ہے۔ چونکہ کفار پیغمبر ان الٰہی کے خلاف ہونے اور اپنی بری اور فاسد عادات کی پیروی کرنے کے علاوہ انبیاء کے معجزات اور دلائل کے مقابلہ میں اپنے آباء واجداد کے غلط عقائد اور طریقوں کی اتباع کرتے تھے۔ لہٰذا سورہ زخرف کی آیت ۲۳؎ جس کو سوال میں دلیل کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے اس کے دو جواب ہیں:
 پہلا جواب: _________ یہ ہے کہ یہ آیت اصول دین میں تقلید کی مذمت کررہی ہے اور وہ بھی انبیاء کے دلائل اور معجزات کے مقابلہ میں جیسے کہ پہلے والی آیت بھی اسی مطلب کی وضاحت کررہی ہیں:
 وکذالک ما ارسلنا من قبلک فی قریۃ من نذیر الا قال مترفوھا انا وجدنا آبائنا علی امۃ و انا علیٰ آثار ھم مقتدون
(ترجمہ) اور اسی طرح ہم نے تم سے پہلے جس بستی میں ( عذاب خدا سے ڈرانے والا ) رسول بھیجا تو اس کے دولت مندوں نے یہی کہا کہ ہم نے تو اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا اور ہم تو ان ہی ( آباؤ اجداد) کے قدم بقدم چلے جائیں گے۔ 
 دوسرا جواب: _________آیہ شریفہ میںاس لئے تقلید کی مذمت کی گئی ہے کہ وہ اپنے آباء و اجداد کی تقلید کرتے تھے اور یہ بات واضح ہے کہ ان کے آباء و اجداد بھی ان کی طرح جاہل و نادان تھے۔ پس در حقیقت آیہ شریفہ میں جاہلوں اور نادانوں کی تقلید سے روکا گیا ہے اور مذمت کی گئی ہے نہ کہ صاحبا ن علم و فضل کی تقلید سے ۔ 
 اسی طرح روایت کا جواب بھی جس کو دلیل کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے اگر خود روایت میں غور و فکر کیا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ :
اولاً حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ لوگ خود کسی کو مقام فتویٰ اور قضاوت کے لئے مقرر نہیں کرسکتے اور لوگوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے بلکہ مجتہد اور قاضی امامؑ کی طرف سے منصوب ہوتے ہیںا ور خود امام ؑ نے ان کے فتویٰ کو معتبر قرار دیا ہے۔ جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ’’ یا ابان اجلس فی المسجد وافت الناس‘‘
 اور قاضی فقیہ سے متعلق فرمایا:’’فقد جعلتہ علیکم قاضیاً‘‘
 اور فرمایا :فقد جعلتہ علیکم حاکماً‘‘
 پس عوام کا مجتہد و فقیہ عادل کی تقلید کرنا خود امام علیہ السلام کے حکم کیوجہ سے ہے نہ یہ کہ عوام نے اس کو نصب و مقرر کیا ہو اور عوام کی طرف سے اس کو یہ منصب دیا گیا ہو۔ 
ثانیاً: امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ایاک ان تنصب رجلاً دون الحجۃ
حجت سے مراد وہ ہے جس کا قول شرعاً نافذ ہو۔ خواہ امام مفترض الطاعۃ ہو یا جس کو امام کی طرف سے یہ مقام عطا ہوا ہو۔ 
 پس اس بنا پر مجتہد بھی حجت ہے۔ لیکن امامؑ خدا کی طرف سے اور مجتہد امامؑ کی طرف سے حجت ہے۔ 
 چنانچہ حضرت امام آخر الزمان علیہ السلام مکاتبہ حمیری میں ارشاد فرماتے ہیں: و اما الحوادث الواقعۃ فارجعوا فیھا۔۔۔
یعنی بعد میں پیش آنے والے حوادث اور واقعات میں ان اشخاص کی طرف رجوع کرو جو ہمارے علوم کو حاصل کرکے دوسروں تک پہنچاتے ہیں کیونکہ وہ میری طرف سے حجت ہیں اور میں خدا کی طرف سے حجت ہوں۔ 
پس حضرت ؑکے اس فرمان:ایاک ان تنصب رجلاً
 سے مراد یہ ہے کہ امام اور جو امام کی طرف سے منصوب ہے اس کے علاوہ کسی کو حجت اور مجتہد کے عنوان سے معین کیا جائے اور مقلد ( تقلید کرنے والا) بھی خود حجت (مجتہد) کو معین نہیں کرتا بلکہ امام کی طرف سے منصوب حجت کی طرف رجوع کرتا ہے۔ 
ثالثاً : خود مذکورہ روایت سے استفادہ ہوتا ہے کہ مجتہد اور مرجع ( جس کی طرف لوگ رجوع کریں) ہونا الگ مطلب ہے اور کسی کو حجت قرار دینا الگ ہے۔ پہلا جائز ار دوسرا حرام ہے۔ کیونکہ راوی عرض کرتا ہے یا حضرت ہماری یہ خواہش ہے کہ لوگ ہمارے پاس آئیں اور علم حاصل کریں۔ ( ویقصد و یوخذ عنہ) آپ فرماتے ہیں میں اس کی مذمت نہیں کرتا بلکہ میری مذمت اس صورت میں ہے جب تم کسی کو حجت کے عنوان سے معین کرو گے۔ ( یہاں یقینا کسی کو مقرر کرنے سے مراد مسئلہ تقلید اور تحصیل علم کے علاوہ ہے) حضرت نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی ہے جو آئمہ ہدیٰ علیہم السلام ( جو پیغمبرؐ کی طرف سے منصوب ہیں) کے مقابلہ میں بنی امیہ و بنی عباس کو اولی الامر اور حجت سمجھتے ہیں۔ جو پیغمبر گرامیؐ اور ان کی پاک و طاہر اولاد کو چھوڑ کر بنی امیہ و بنی عباس کے نمائندوں کی پیروی کرتے ہیں جن کے بارے میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ اگر بفرض محال حدیث سے ہمارے ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کی امامت و خلافت ثابت نہ ہو تو کم از کم ان کے قول و فعل کی حجیت ضرور ثابت ہوتی ہے۔ 
رابعاً : مذکورہ روایت میں امامؑ فرماتے ہیں:
 ’’فتصدقہ فی کل ما قال‘‘ یعنی جائز نہیں ہے کہ کسی کو معین کردو، اور جو کچھ وہ کہے اس کی پیروی کرتے رہو۔ 
البتہ اس مطلب کا مسئلہ تقلید سے کوئی ربط نہیں ہے کیونکہ مقلد اپنے مجتہد کی ہر بات میں تقلید و پیروی نہیں کرتا۔ مثلاً اصول دین میں تقلید باطل ہے اور فروع دین میں بھی ضروریات اور قطعیات میں تقلید صحیح نہیں ہے۔ مثلا ً خود نماز، روزہ، زکٰوۃ ، خمس اور حج اور جہاد کے واجب ہونے یا مثلاً شراب ، جوا ، مردار، غصب ظلم اور دوسرے ان امور کے حرام ہونے میں جو دین اسلام میں سب کیلئے قطعی و مسلم ہیں، تقلید درست نہیں ہے۔ اگر کوئی مجتہد کہے کہ نماز واجب نہیں ہے یا شراب نوشی جائز ہے تو اس کی بات قابل قبول نہیں ہوگی۔ 
 اسی طرح موضوعات میں بھی تقلید ناجائز ہے یعنی اگر مجتہد کہے کہ یہ پانی ہے شراب نہیں ہے یا یہ کپڑا فلاں شخص کا مال ہے تو اس کی بات پر عمل کرنا واجب و لازم نہیں ہے بلکہ ایسے مسائل میں مجتہد اور دیگر افراد میں کوئی فرق نہیں سب یکساں ہیں۔ 
بنابرایں مجتہد کا قول بعض امور و مسائل میں حجت اور معتبر ہے۔ اور وہ بعض فروع دین کے مسائل میں جن کا مقلد کو علم نہیں اور علماء کے نزدیک مورد اختلاف ہیں۔
اور ضمناً یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ جو لوگ تقلید کے حرام ہونے کا فتویٰ دے کر لوگوں کو تقلید نہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں آیا وہ خود فتویٰ نہیں دے رہے؟ آیا لوگوں کیلئے ان کی گفتار کی پیروی اور تقلید کرنا غلط نہیں ہے؟ اگر غلط ہے تو لوگوں سے کیوں نہیں کہتے کہ ہماری گفتار کی تقلید و پیروی کرنا بھی حرام ہے۔ ہماری بات نہ ماننا۔ 
سوال :آیا جس مجتہد کی تقلید کرنی ہے اس میں مرتبۂ اجتہاد و قدرت استنباط کے علاوہ اور شرائط کا ہونا بھی ضروری ہے یا نہیں؟
 جواب:مجتہد و مرجع تقلید میں مرتبہ اجتہاد پر فائز ہونے کے علاوہ مندرجہ ذیل شرائط کا ہونا بھی ضروری ہے: 
پہلی شرط : _________عادل ہو، یعنی اس کا ایمان اس قدر کامل اور قوی ہو کہ واجبات میں سے کسی واجب کو ترک نہ کرے اور محرمات میں سے کوئی حرام کام انجام نہ دے۔ دوسرے لفظوں میں گناہان کبیرہ سے دور رہے اور گناہان صغیرہ کی تکرار نہ کرے۔ پس گنہگار مجتہد جتنا بڑا عالم کیوں نہ ہو اس کی تقلید جائز نہیں ۔ 
دوسری شرط: اعلم ہو، یعنی دوسرے علماء سے زیادہ عالم اور دانا ہو۔ صاحبان علم و فضل مجتہد ین میں سے مقلد کو وہ مجتہد اختیار کرنا چاہئے جو بقیہ مجتہدین سے علم و فضل میں برتر ہو۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ جب کوئی شخص کسی مہلک مرض میں مبتلا ہو تو اسی ڈاکٹر کی طرف رجوع کرے گا جو باقی تمام ڈاکٹروں سے زیادہ تجربہ کار اور ماہر ہوگا ۔ بالکل اسی طرح چونکہ احکام الٰہی اور دینی عقائد و مسائل بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں لہٰذا انہیں بھی اسی مجتہد اور فقیہ سے حاصل کرنا چاہئے جو سب سے زیادہ عالم اور دانا ہو۔ 
تیسری شرط:  _________وہ زندہ ہو، پس جو شخص ابتداء ہی سے علماء گزشتہ میں سے کسی کی تقلید کرے اس کی تقلید صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ عوام کا مجتہد کی طرف رجوع کرنا مریض کے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنے کی طرح ہے اور واضح رہے کہ عقلاء و خرد مندوں کی روش و طریقہ یہ ہے کہ اپنے مرض کے بارے میں زندہ ڈاکٹر کی طرف مراجعہ کرتے ہیں اور اس کے دستور پر عمل کرتے ہیں اور کسی مردہ ڈاکٹر کے دئے ہوئے کسی پرانے نسخے پر عمل نہیں کرتے ہاں اگر کسی نے زندہ مجتہد کی تقلید کرلی ہے کچھ مدت اس کے مسائل پر عمل کرنے کے بعد وہ مجتہد فوت ہوگیا ہے تو اس صورت میں اس کی تقلید پر باقی رہ کر اس کے دستورات پر عمل کرسکتا ہے۔ پس نتیجتاً فوت شدہ مجتہد کی تقلید پر باقی رہنا صحیح ہے۔  لیکن ابتدا ہی سے فوت شدہ مجتہد کی تقلید کرنا صحیح نہیں ہے۔ 
 سوال :کسی مجتہد کی اعلمیت کی تشخیص اور یہ معلوم کرنا کہ یہ مجتہد اپنے ہم عصر مجتہدین سے علم میں زیاد ہ ہے، ایک عام شخص کیلئے جو اس علم سے ناواقف ہے ، کیسے ممکن ہے؟
 جواب: اسے ایسے اشخاص کی طرف رجوع کرنا چاہئے جو فقہا کی کتب ، دروس ، اور علمی گفتگو سے ان کی علمی قابلیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں( جنہیں فقہ کی اصطلاح میںاہل خبرہ کہا جاتا ہے) اور اگر ایسے اشخاص کی طرف رجوع ممکن نہ ہو یا یہ معلوم ہو کہ تمام مجتہد علم میں مساوی ہیں تو جس کی تقلید کی جائے گی صحیح ہوگی۔ 
 سوال: اگر کسی شخص نے اپنی زندگی کا ایک حصہ بغیر تقلید کے گزار دیا ہے اور اپنی عبادات اور دیگر اعمال کو ماں باپ اور دوسرے لوگوں کے کہنے کے مطابق انجام دیتا رہا ہے۔ اب یہ متوجہ ہوا ہے کہ تقلید کرنا واجب ہے ۔ اس کے سابقہ اعمال ( جو بغیر تقلید کے انجام دئے ہیں) صحیح ہیں یا غلط و باطل؟
جواب: اس کو چاہئے کہ اب کسی جامع الشرائط مجتہد کی تقلید کرے۔ اپنے سابقہ اعمال و عبادات کا اس کے فتوے سے مقابلہ کرے۔ جو اعمال اس مجتہد کے فتویٰ کے مطابق ہوں صحیح ہیں اور جو مطابق نہ ہوں اگر ممکن ہو تو ان اعمال کو دوبارہ ( اس مجتہد کے فتویٰ کے مطابق بجالائے) اور اگر دوبارہ نہ بجالائے اور قیامت کے دن معلوم ہوجائے کہ یہ اعمال دستورات دینی کے مطابق نہ تھے یہ شخص عذاب الٰہی کا مستحق ہوگا کیونکہ ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ احکام خدا کو اس طرح بجالائے کہ اس کو اطمینان حاصل ہوجائے کہ میں نے اپنے وظیفہ پورا کردیا ہے وگرنہ روز قیامت شرعاً اور عقلاً جواب دہ ہے۔ 
سوال:وہ ماخذ و مدارک کتنے ہیں جنمیں مجتہد غور و فکر کرنے سے احکام الٰہی کو اخذ کرتا ہے؟
جواب:  جن ماخذ و مدارک سے مجتہد احکام الٰہی حاصل کرتا اور جن کی بنیاد پر فتویٰ دیتا ہے وہ تین ہیں : 
(۱) قرآن مجید جو خد اکی طرف سے پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہوا۔ 
(۲) احادیث و رویات جو پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ ہدیٰ ؑ( یعنی آپؐ کے بارہ جانشینوں) سے ہم تک پہنچی ہیں۔ 
(۳) عقل و خرد جو باطنی رسول ہے جس طرح پیغمبر اکرمؐ ظاہری رسول ہیں 
سوال:درجہ اجتہاد پر فائز ہونے اور احکام الٰہی کو مذکورہ بالا مدارک سے سمجھنے و حاصل کرنے کے لئے کن شرائط اور مقدمات کا ہونا ضروری ہے ،آیا سب کے لئے وہ شرائط میسر ہیں ؟
جواب: ان امور کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اولاً قراان مجید جو احکام الٰہی کیلئے مہم ترین مدرک ہے عربی زبان میں ہے۔ 
 ثانیاً  احادیث و روایات بھی عربی ہونے کے علاوہ ۱۲۰۰ سال کے فاصلہ میںمختلف اشخاص کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہیں۔ 
 ثالثاً ائمہ معصومین علیہم السلام تمام زندگی دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ موجودہ زمانہ میں اجتہاد اور استنباط اور احکام الٰہی کو دلائل اور مدارک سے سمجھنا ایک مشکل و دشوار ترین کام ہے۔ اور اس کیلئے مندرجہ ذیل شرائط کا ہونا انتہائی لازمی ہے: 
پہلی شرط:  _________عربی لغت کا علم حاصل کرنا یعنی عربی الفاظ کے معانی کا جاننا تاکہ جو کلمات قرآن مجید ، احادیث اور روایات اہل بیت علیہم السلام میں وارد ہوئے ہیں ان کے معانی معلوم ہوسکیں اور اس موضوع پر مختلف کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے۔ 
 دوسری شرط : _________تحصیل علم صرف و نحو کہ جو عربی الفاظ کے مشتقات اور صحیح جملہ بندی کی کیفیت بتاتے ہیں اور اس موضوع میں بھی چند کتابوں کا پڑھنا لازمی ہے۔ 
 تیسری شرط:  _________تحصیل علم اصول یعنی ان قواعد کا علم حاصل کرنا جو احکام الٰہی کو ان کے صحیح مدارک و منابع سے سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ علم بہت وسیع ہے۔ اس علم کے مطالب کی تحقیق اور ان کے حل میں بے شمار کتابیں لکھی گئیں ہیں اورمرتبۂ اجتہاد تک پہنچنے والے حضرات کا سب سے زیادہ وقت اسی علم کی تحصیل و تحقیق میں صرف ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس علم سے ناواقف ہو تو احکام الٰہی کے سمجھنے اور استنباط کرنے کی صلاحیت اپنے اندر پید انہیں کرسکتا۔ 
چوتھی شرط: _________تحصیل علم رجال یعنی ان افراد کے حالات کا جاننا جن کے ذریعے احادیث و روایات ہم تک پہنچی ہیں۔ یعنی وہ لوگ جو پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کے اصحاب میں شامل ہیں۔ اور جنہوں نے بعثت رسول اکرمؐ سے لے کر غیبت امام آخر الزمان علیہ السلام تک خود پیغمبر اکرمؐ یا ائمہ ہدیٰ علیہم السلام سے دینی احکام حاصل کئے ہوں اور اسی طرح ان کے بعد وہ طبقات جن میں سے ہر طبقہ نے اپنے سابقہ طبقہ سے احادیث و روایات کو حاصل کیا اور آنے والے طبقہ تک پہنچایا اسی طرح صاحبان کتب اربعہ کے زمانہ تک یہ سلسلہ جاری رہا یعنی اس زمانہ تک کہ جس وقت اکثر احادیث و روایات کو شیعہ کی چار اہم کتابوں میں جمع کردیا گیا جو کہ ’’کتب اربعہ‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔
ان مذکورہ افراد کی تعداد تقریباً ۱۳ ہزار کے قریب ہے۔ اسی طرح جو احادیث و روایات ان افراد کے ذریعے مختلف کتب میں اور پھر کتاب ’’ وسائل الشیعہ‘‘ ( جو احادیث شیعہ امامیہ کی معتبر ترین کتاب ہے) میں جمع کی گئی ہیں ان کی تعداد بھی ۳۸ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ 
بنابریں جو شخص اپنے مذہبی احکام کو اپنے اجتہاد و استنباط کے ذریعے حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے لئے کتب رجال کا مطالعہ کرنا ضروری ہے جو ان افراد ’’ رواۃ احادیث‘‘ کے حالات ، خصوصیات اور امتیازات میںلکھی گئی ہیں تاکہ ان افراد کے حالات سے مطلع ہونے کے بعد بآسانی احادیث و روایات کی صحت و فساد کو سمجھ سکے اور احکام الٰہی کے استنباط میں اسے کوئی دقت پیش نہ آئے۔ 
پانچویں شرط: _________ تحصیل علم تفسیر یعنی علم تفسیر سے اتنا واقف ہو کہ احکام سے متعلقہ آیات کے معنی و مطالب سمجھ سکے۔ 
 چھٹی شرط:  _________تحصیل علم حدیث یعنی احادیث و روایات میں تحقیق کرنا اور معلوم کرنا کہ آیا فلاں روایات فلاں حکم کے لئے دلیل بن سکتی ہے یا نہیں۔ آیا اس روایت میں استدلال کی شرائط پائی جاتی ہیں یا نہیں؟ دوسری روایت تو اس کے خلاف نہیں؟ اسی طرح ہر حکم کے استنباط میں متعلقہ باب کی روایات کی تحقیق، شرائط موانع پر بحث کے علاوہ کسی حد تک دوسرے ابواب کی روایات پر بھی نظر ہو  تا کہ شرائط کے حصول کا پورا اطمینان ہوجائے۔ 
نتیجہ: _________سابقہ مطالب سے یہ نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ جو شخص مجتہد بننا چاہتا ہے اور علمی قواعد اور اصولوں کے ذریعہ اپنے مذہبی مسائل کو خود مربوط مدارس سے حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے لئے مذکورہ  چھ علوم ۔’’ علم لغت عربی ‘‘ صرف و نحو، رجال ، اصول تفسیر ، حدیث‘‘ میں سے ہر علم کی مختلف کتابیں پڑھنے کے علاوہ ہر ایک علم میں صاحب نظر ہونا بھی ضروری ہے۔ تاکہ صحیح طور اپنے اصل مقصد ’’ استنباط احکام ‘‘تک پہنچ سکے اور مذکورہ بالامر احل کو طے کرنے اور مقصد اصلی ’’ یعنی درجہ اجتہاد‘‘ تک پہنچنے کیلئے ’’ اشخاص کی استعداد کے مختلف ہونے کو مد نظر رکھتے ہوئے‘‘ تقریباً ۲۰ سال سے پچاس سال تک کا عرصہ صرف ہوتا ہے۔ 
قارئین محترم: _________ آپ اگر اتنا وقت اور حوصلہ رکھتے ہیں، آپ کے لئے مذکورہ شرائط بھی میسر ہیں اور اپنے دینی مسائل کا مذکورہ مدارک سے خود استنباط کرسکتے ہیں تو بہتر ورنہ مذکورہ بیانات و دلائل کے مطابق آپ پر واجب و لازم ہے کہ جس شخص نے ان مراحل کو بخوبی طے کیا ہوا ہے اس کی تقلید کریں اور مورد ابتلا مسائل میں اس کی طرف رجوع کریں۔ 
 سوال: شریعت اسلام کے کتنے وہ احکام ہیں جن میں انسان ’’مکلف‘ کیلئے ضروری ہے کہ وہ مجتہد ہو یا مقلد؟
 جواب: احکام شرعیہ وہ الٰہی یا آسمانی قوانین ہیں جن کو خداوند عالم نے بشر کے انفرادی و اجتماعی ، دنیوی و اخروی فائدہ کے لئے منظم و مرتب کرکے انبیاء کے ذریعہ انسانی معاشرہ تک پہنچایا ہے۔ بطور اختصار ان احکام کو چار قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: 
 پہلی قسم:  _________عبادات یعنی وہ اعمال جن کے بجا لانے کے لئے نیت شرط ہے اور ضروری ہے کہ ان کو قربۃً الی اللہ انجام دیا جائے مثلاً وضو، غسل، تیمم ، نماز ، زکوٰۃ، خمس، روزہ، اعتکاف، حج، عمرہ، جہاد، امر بالمعروف، نہی عن المنکر۔
دوسری قسم:  _________عقود یعنی وہ اعمال جو دو افراد کے درمیان پائے جاتے ہیں جیسے تجارت، ا جارہ ( کرایہ) ، رہن ، صلح ، شرکت، مضاربہ، ( سرمایہ کاری) مزارعہ ( کاشتکاری میں شراکت) ، مساقاۃ (باغبانی کے کام میں شراکت، یعنی باغ کا مالک کسی باغبان سے معاملہ کرتا ہے تم میںمیرے باغ کی دیکھ بھال پانی، کھاد، وغیرہ کرنا ، پھل بکنے پر اتنا حصہ تمہیں منافع ملے گا) ، ودیعہ (امانت) عاریہ ( اپنا مال کسی دوسرے کو ادھار دینا کہ وہ اس سے استفادہ کرسکے) ، ضمان (ضمانت) ، حوالہ ( حوالہ ڈرافٹ) ، کفالت، وکالت، وقف، حبس، ( اپنی ملکیت کو ایک خاص مدت تک وقف کرنا نہ کہ ہمیشہ کیلئے ) ، ہبہ، وصیت ، جعالہ ، (ٹھیکہ، ٹنڈر) نکاح۔
تیسری قسم:  _________ایقاعا ت یعنی وہ کام جو ایک آدمی کے ذریعہ انجام ہوتے ہیں اور ان میں ایک طرف سے صیغہ جاری کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً طلاق، خلع( عورت اپنے شوہر سے طلاق حاصل کرنے کیلئے کچھ رقم اپنے مہرے یا کسی اور ذریعہ سے شوہر کو ادا کرتی ہے تاکہ اسے طلاق دینے پر آمادہ ہوجائے۔ مبارات ( یہ خلع سے کچھ مختلف ہے یعنی کراہت طرفین سے ہوتی ہے ، البتہ زوجہ شوہر سے طلاق حاصل کرنے کے لئے  جو رقم ادا کرے وہ مہر سے نہیں ہونی چاہئے۔ لیکن خلع میں کمی بیشی کی طرح نہیں ہے۔ ) ، ظہار ( یعنی شوہر بیوی کو کہے کہ تیری کمر میرے لئے ماں کی طرح ہے ، اسلام سے پہلے یہ طلاق سمجھی جاتی تھی ، لیکن اسلام میں اس کے لئے کفارہ ہے، ایلائ، ( اس کے لغوی معنی قسم کھانا ہیں لیکن اصطلاح فقہ میں زوجہ سے ہم بستری نہ کرنے کی قسم کھانا ہے چاہے ہمیشہ کے لئے یا کچھ مدت کے لئے قسم کھائے)، لعان ( شوہر اپنی زوجہ پر فاحشہ ہونے کاالزام لگائے )، عتق ( غلام آزاد کرنا ) ، تدنیر ( مالک وصیت کرے کہ میرے مرنے کے بعد یہ غلام آزاد ہوگا) ، مکاتبہ ( غلام اور مالک کے درمیان یہ معاملہ ہو کہ جتنی رقم غلام مالک کو ادا کرے گا اسی نسبت سے وہ آزاد ہوتا جائے گا۔ اقرار ، نذر ، عہد ، یمین، ( خدا کے نام کی قسم کھانا )، حجر ( ممنوع التصر ف )
چوتھی قسم :  _________احکام یعنی وہ غیر عبادی امور جنہیں انجام دینے کے لئے کسی کلمہ ( یا صیغہ ) کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ جیسے :
 صید (شکار کرنا) ، ذباحہ (ذبح کرنا) ، اطعمہ (اغذیات) ، اشربہ (مشروبات،) غصب ، شفعہ ، کفارات، ( کفارہ) احیاء موات ،(غیر آباد زمینوں کو آباد کرنا) ، لقطہ ( گری ہوئی چیز کا اٹھانا )، ارث (وراثت) ، قضا، (قضاوت)، شہادت ، حدود ، قصاص ، دیات (تاوان)۔
وہ تمام فرعی احکام و دستورات ( جو فروع دین سے مربوط ہوتے ہیں) ان چار قسم کے حالات سے ہی متعلق ہیں۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں