جناب ابوطالب علیہ السلام حق کی کسوٹی
علامہ سید محمد شاکر نقوی امروہویؒ
کون مسلمان ایسا ہے جو ایمان کا دعویٰ نہیںکرتا لیکن واقعاً مومن کون ہے؟ ۔ یہ بات اللہ تو جانتا ہی ہے لیکن بعض علامتیں ایسی ہیں جن سے بندے بھی مومن ہونے کا حکم لگالیتے ہیں اور بالکل صحیح حکم لگاتے ہیں ، مثلاً یزیدی لوگ یزید کو مسلمان کہتے ہیں بلکہ اس کو مومن بھی سمجھتے ہیں لیکن کربلا یزید کے اسلام کی ایسی علامت ہے جو دنیائے انسانیت کےلئے صحیح فیصلہ کرنے کےلئے کافی ہے۔ دنیا کی ہر قوم اور ہر مذہب کے صاحبان عقل و فہم بڑی آسانی سے فیصلہ کرلیں گے کہ اسلام کے بانی اسلام کےمحور مرکز مصدر حضور اکرم محمد مصطفیٰﷺ کے بےمثل و بے مثال پیارے نواسے حسینؑ کو بے جرم و بے خطا قتل کروانے والا کیا مسلمان ہوسکتا ہے۔ اور اسی طرح دنیا کا ہر صاحب نظریہ فیصلہ بھی آسانی سے کرسکتا ہے کہ حر لشکر یزیدی کا اہم سردار امام حسین علیہ السلام کے قدموں میں آکر اپنی جان قربان کردینے کے بعد بھی کیا یزیدی کہا جاسکتا ہے؟۔ بس یہ دو کھلے ہوئے معیار اور دو کھلی ہوئی کسوٹیاںہیں۔ دنیا کےہر ہر مسلمان کے اسلام کو پرکھنےکی کہ اس کا اسلام کتنا کھوٹا اور کتنا سچا ہے ظاہر ہے کہ جو مسلمان یزید کے مسلمان ہونے کا قائل ہوصاف ظاہر ہوجائے گا کہ یہ کس قسم کا مسلمان ہے اور جو شخص جناب حر کےمتعلق کوئی نظر یہ رکھتا ہوگا اس کے ایمان اور اسلام کا وزن بھی معلوم ہوجائے گا بس جس طرح تاریخ اسلام کی اہم شخصیتوں کے متعلق ہمارے نظریات سے ہمارے اسلام کی بلندی اور پستی کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہم کس قسم کے مسلمان ہیں۔ بالکل اسی طرح جناب ابو طالبؑ بھی ہمارے ایمان کی ایک بہترین کسوٹی ہیں۔ اس کسوٹی پر اپنے اور غیر مخالف اور موافق سب کے ایمان کا حال معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کا ایمان کتنے پانی میں ہے۔ اپنوں کےلئے تو اس طرح کہ جب جناب ابو طالبؑ کےلئے یزیدی فرقے والے کفر کی بات کرتے ہیں تو ہماری اپنی حرارت ایمانی کا ٹمپریچر کتنا کم اور زیادہ ہوتا ہے۔ بس یہی حرارت ہر عبادت میں شامل نظر آئے گی اور ہر عمل کی پختگی کا باعث بنے گی اور غیروں کے یہاں اس حرارت کا فقدان ان کے ہر عمل کو خام رہنے دے گا۔ دیکھئے قانون اور ضابطے کے لحاظ سےہر شئے کا عکس دوسری شئے پر پڑتا ہے لیکن اس عکس کو اپنے اندر جذب کرلینا ہر شئے سے خود ممکن نہیں آئینہ بھی عکس قبول کرتا ہے لیکن تصویر کو وہ بھی جذب نہیں کرسکتا لیکن فوٹو کا پیپر عکس قبول کرنے کی صلاحیت تو رکھتا ہے لیکن بغیر کیمیکل کے سہارے کے نہ قبولیت ممکن ہے اور نہ دوامی جذب عکس ممکن ہے بالکل اسی طرح اسلام کے محسن اعظم کا شکریہ ادا کئے بغیر اسلام کی تصویر کا دل میںٹھہرجانا اور جذب ہوجانا بالکل نا ممکن ہے جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ تمام اعمال بیکار بے سود اور اکارت ہوجاتے ہیں ۔ جس طرح کبھی کبھی پوری ریل سادی اور صاف نکل جاتی ہے۔ اسی طرح حضرت ابو طالبؑ سے بیزارذہن ہمیشہ ایسے ہی غلط فیصلے کرتا ہے جن سے تمام عبادتیں برباد ہوجائیں۔ مثلاً قرآن مجید نے کھلے لفظوں میں کہا ہے کہ انما المشرکون نجسٌ یہ مشرکین نجس ہیں۔ْ اب اس کھلے لفظوں کو مخالفین جناب ابو طالبؑ نے اپنے انہیں ذہنوں سے کتنا کتنا الٹا پلٹا کہ پہلے ان کے ہاتھ کا کھانا طاہر سمجھا پھر ان کے ہاتھ کے دھلے کپڑے پاک سمجھے اور اس میں نمازیں پڑھنا شروع کردیں اور اب مشرکین کےہاتھ کے پانی سے وضو کرکے نمازیں پڑھنے لگے یہ تمام زندگی بھر کی عبادتوں کی بربادی کا صرف ایک ہی رخ ہے جو جناب ابو طالبؑ کی دشمنی کی سوغات ہے در اصل ذہن جب خود نجس ہو جاتا ہے تو اس کو پھر نجاستوںکا احساس نہیں رہتا ۔ جس طرح نجس ماحول کے پروردہ بچے غلیظ نالی میں سے گیند نکال کر ہاتھ اپنے کپڑوں سے پونچھ لیتے ہیں اسی طرح شرعی نجاستوں میں غیرمحتاط مزاج نجاستوںکو اپنی عبادتوں میں بھی شامل کرلیتے ہیں اور پاکیزہ ذہن نجس پانی کو پیشاب کی نجاسب کے برابر سمجھ کر اس کی احتیاط رکھتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نجاست کی اہمیت نہ رکھنے والے بغیر پانی کے پیشاب کرتے ہیں اور اسی میں نمازیں پڑھتےہیں اور سمجھتے ہیں کہ ساری نمازیں قبول ہورہی ہیں۔ ساری عبادتیں قبول ہورہی ہیں در اصل یہ بھی جناب ابوطالبؑ کی دشمنی کی ایک سوغات ہے۔ ایسے لوگ یزید کو جنتی اور ابوطالبؑ کو کافرنہ کہیں گے توپھر اور کہا کہیں گے۔خ خ خ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں