جمعہ، 15 مئی، 2020

قائم آل محمد کی حکومت

قائم آل محمد کی حکومت
مولانا محمد باقر باقری جوراسیؒ
قال رسول اللہ والذی بعثنی بالحق نبیاً  لَوْ لَمْ یَبْقَ مِنْ الدُّنْیَا اِلّٰا یَوْم وَاحِد لَطَوَّلَ اللّٰہُ ذَالِکَ الْیَوْم حَتّٰی یَخْرُجَ فیہ والذی الی اللہ فنزل روح اللہ عیسیٰ بن مریم فیصلہ خلفہ و نشر الارض بنورربھا و یبلغ سلطانہ المشرق والمغرب( بحار الانوار ۵۱ص۹۹)
یعنی حضرت رسولؐ خداﷺ نے فرمایا کہ ’’ قسم اس ذات کی جس نے مجھے حق و صداقت کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ اگر دنیا کی عمر میں ایک دن سے زیادہ باقی نہ رہ جائے تو خدا اسی کو طولانی بنادے گا یہاں تک کہ اس میں میرا فرزند مہدیؑ خروج کرے، پس اس کے خروج کے بعد عیسیٰ روح اللہ نازل ہوں گے اور اس کے پیچھے نماز ادا کریں گے۔ اس وقت زمین اپنے پروردگار کے نور سے روشن ہوجائے گی اور مہدی کی حکومت دنیا کے مشرق و مغرب میںپھیل جائے گی۔ 
عالمی حکومت کی تشکیل
 زمانہ قدیم سے اب تک ایک عالمی حکومت کی تشکیل پیغمبروں فلسفیوں ، دانشوروں سیاستدانوں اور مختلف مذاہب عالم کے پیرووں کی ایک تمنا رہی ہے ۔ آج بھی تمام فلاسفہ اورمفکرین انسانوں کی نفسیاتی بیماریوں کا واحد علاج اور جنگ و جدال کی روک تھام کے ساتھ امن و صلح کے قیام کا واحد راستہ ایک عالمی حکومت کو سمجھتےہیں۔ 
 کانٹ امانویل کے قول کے مطابق نظم و نسق کا قیام ایک عالمی قانون وضع ہونے پر منحصر ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کی ہر مذہب نے خواہش کی ہے اور یہ وہی مقصد ہے جسے رویہ عمل لانے کےلئے بہت ہی قدیم زمانے سے تمام پیغمبر قدم بڑھاتے اور آوازیں بلند کرتے رہے۔ اور اس طرح ان کی آرزو رہی ہے کہ تاریکیوں کو روشنی بخشیں ، مظلوم افراد کو ظلم سے نجات دلائیں ، بیدادگری اور نفع اندوزیوں کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکیں، انسانوں اور ان کی زندگیوں پر خدا کی حاکمیت کو واضح کریں ، مخلوق خدا کو غلامی او اسیری کی بندشوں سے چھٹکارا دلائیں اور صرف ایک حکم کارفرما ہو تاکہ اس کے تحت سبھی لوگ آزادی اور برابری و برادری کی زندگی بسر کریں۔ 
 انہوں نے اس سلسلے میں اقدامات کئے ، کوششیں کیں، بہت سی بزرگ ہستیوں نے اس راہ میں قربانیاں دیں اور کچھ کامیابیاں بھی حاصل کیں، لیکن یہ کامیابیاں ذاتی اور وقتی تھیں اور سب کو موانع سے دو چار ہونا پڑا، البتہ سبھی نے یہ خوشخبری دی کہ ایک دن ظلم و جور اور خدا ناشناسی کی بساط الٹ جائے گی اور خدائے بزرگ و برتر اور اس کے قوانین کی حکومت ہوگی۔
 سارے بشری نظام بھی الٰہی مذاہب کےساتھ اس انتظار میں شریک ہیں ا ور بقول برٹرانڈرسل کارل مارکس کا انتظار بھی وہی انتظار ہے جو مسیحی فرقے کے لوگ رجعت مسیح کےلئے کررہےہیں۔ کمیونسٹوں کے جوش عمل، کارکردگی اور اپنے پیرووں میں سے متحرک اور انقلابی افراد تیار کرسکنے کے دیگر اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے معتقدین کے سامنے آئندہ زمانے کی فتح و کامرانی کا ایک حسین منظر پیش کیا ہے۔ کمیونزم کی ایک ایسی جنت کی خوشخبری دی ہے جو اسی زندگی میں حاصل ہوجائے گی۔ لہٰذا جس قدر جلد ممکن ہو موجودہ ظلم و فساد سے بھری ہوئی دنیا سے رہائی اور اس مطلوبہ دنیا تک رسائی کی کوشش کرنا چاہئے۔ اس مکتب فکر نے اکثر کامیابیاں اسی نقطۂ نظر کی بنیاد پر حاصل کی ہیں اسی منزل پر شیعہ عقیدے کی اہمیت بخوبی آشکار ہوجاتی ہے جس نے امامؑ غائب کے مسئلہ ظہور کے ساتھ کس قدر گہرا اور کس قدر بلند مستقبل اور مقصد نگاہوں کے سامنے رکھا ہے اور کس قدر وسیع انسانی بینائی کا خاکہ تیار کیا ہے۔ ایک عدل و داد سے بھری ہوئی دنیا کا تصور اس احساس کو ابھارنے اور قانون کے سایے میں منصفانہ زندگی تک پہنچنے کےلئے کار فرما ہے۔ خاص طور سے انتظار ظہور میں یہ باریکیاں بھی پوشیدہ ہیںکہ ہر ساعت ، ہر روز اور ہر ماہ اس قومیت اور اس زندگی کی تشکیل کا انتظار ہورہا ہےجس کے نتیجے میں اس آنے والے دور اور اس حکومت کی تشکیل کےلئے لازمی شرائط کے وجود میں آنے کے لئے آمادگی بڑھتی جائے گی۔ دنیا اسی لئے پیدا کی گئی ہے کہ انسان فارغ البالی اور دلجمعی کے ساتھ خدائے بزرگ و برتر کی عبادت کرے اور بیماریاں، محتاجیاں اورمظالم اُسے اپنے حقیقی اور اصلی مسلک یعنی بارگاہ خداوندی میں قرب کی منزل سے محروم نہ رکھیں۔ اسی رخ سے کتب آسمانی کی بشارتوں اور خاص طور پر قرآن مجید کے اندر اس طرح ارشاد ہورہا ہے کہ :
 ایک زمانہ ایسا آئے گا جب لوگ صرف میری عبادت کریں گے اور کسی کو میرا شریک و ہمسر بنائیں گے‘‘ ۔(سورہٌ نور آیت ۵۴)
دوسری آیت میں یوںوارد ہوا ہے کہ :’’ ہم نے زبور میں لکھ دیا ہے کہ ذکر کےبعد زمین کا سر انجام حق پرستوں کے ماتحت ہوگا اور ہمارے نیک بندے زمین کے وارث قرار پائیں گے‘‘۔ ( سورۂ انبیاء آیت ۱۰۵)
مشیت خداوندی اسی امر پر قائم ہوئی ہے کہ موجودات عالم کمال کا راستہ طے کریں اور زندگی بھی انسان کے تکامل اور ترقی کےلئے وجود میں آئی ہے، لہٰذا ہر موجود اور مخلوق کو اپنے آخر کمال تک پہنچنا چاہئے۔ اور انسان بھی اس قانون سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اسےلازمی طور پر زندگی کے ہر پہلو اور جملہ انسانی فضائل و کمالات میں اپنے ارتقا کی آخری منزلوں تک پہنچنا چاہئے۔ 
 گزشتہ زمانے میں انفرادی ترقی اگر چہ شاذ و نادر ہے اور انگلیوں پر شمار کی جاسکتی ہے لیکن ہمارے پاس ایسے کامل افراد رہےہیں جن میں ارنسٹ رنن کے قول کے مطابق تمام انسانی عناصر اسی تناسب اور ہم آہنگی کے ساتھ جمع تھے جو انسانیت کے اندر پائے جاتے ہیں، چنانچہ ہمارے پاس مسیحؑ اور محمد(ص) جیسے انسان موجود رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ابھی ہماری جماعت اور معاشرہ اپنے آخری رشد و کمال کو نہیںپہونچا ہے۔ تاریخ کی بزرگ شخصیتوں نے اگر چہ ایک اجتماعی انسانی معاشرہ قائم کرنے کےلئے کافی کوششیں کیں ہیں اور کبھی کبھی ایک مدت کے لئے اسے وجود میں بھی لائے ہیں، جیسا کہ اسلام کے اندر حضرت رسول خداﷺ کی حیات طیبہ کے آخری دس سال اور حضرت علیؑ کے دوران خلافت میں خود آپ کے قلم رو کے اندر اس کا نمونہ موجود ہے ، لیکن ان کوششوں کو بہت سے موانع سے سامنا کرنا پڑا ور سارا روئے زمین ان کے زیر اثر نہیں آسکا چنانچہ یہ محدود رہیں اور اجتماعی یا عمومی نہیں بن سکیں۔ 
 پیغمبروں نے اسی مقصد کےلئے بہشت کو اپنی دعوت و تبلیغ کا سرنامہ قرار دیا  ہے تاکہ مستقبل کو روشن کریں اور ایک خوبصورت اور کشادہ منزل آدمی کے سامنے رکھیں۔ اس عقیدے کی روشنی میں اور ایسے دور تک پہنچنے کی امید کے ساتھ ایک حرکت پیدا کریں اور خلق خدا کی ہر تباہی اور خرابی کے خلاف آمادہ کریں۔ تنہا اسلام ہی وہ دین ہے جس نے بالخصوص شیعہ مذہب کے نقطہ نظر سے انسان کو اسی دنیا میں یہ توقعات دیئے ہیں اور لوگوں کوجنت اور عالم آخرت کی بہترین قیام گاہ کے علاوہ یہیں پر آنے والے بہترین کل کی بھی خوشخبری دی ہے۔ 
اسلام نے بتایا ہے کہ ’’ اگر دنیا کی عمر کا ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تب بھی یہ بہترین زندگی نمودار ہوگی۔ 
 برنارڈ شا کے نظریات
یہ مشہور انگریز پروفیسر کہتا ہے : ’’ میں نے ہمیشہ محمدؐ اور اس کے زندہ رہنے کی حیرت انگیز خاصیت کے لحاظ سے انتہائی احترام کیا ہے۔میری نظر میں تنہا اسلام ہی وہ مذہب جو گوناگوں حالات اور زندگی کی بدلتی ہوئی صورتوں کے ساتھ چلنے اور ان پر تسلط حاصل کرنے اور مختلف زمانوں کا سامنا کرنے کی استعداد اور صلاحیت رکھتا ہے۔ 
میں ایسی پیش بیتی کررہا ہوں اور ابھی سے اس کے آثار بھی ظاہر ہونےلگےہیںکہ محمدؐ کا ایمان کل کے یورپ کےلئے قابل قبول قرار پا جائے گا۔ میرے عقیدے اگر ان کا ایسا انسان جدید دنیا پر حاکم اور صاحب اختیار ہوجائے تو عالمی مسائل اور مشکلات کو حل کرنے میں اس طرح کامیاب ہوگا کہ انسان جس امن و صلح اور سعادت مندی کا آرزو مند ہے اس کی ضمانت حاصل ہوجائے گی‘‘۔
انگلستان کا روزنامہ لائٹ لکھتا ہے کہ ، جارج برنارڈ شا باوجودیکہ پہلے خداکو نہیں مانتا تھا اور دنیا میں کوئی مذہبی حکم ایسا نہ تھا جو اس کے ایراد و انتقاد کا نشانہ نہ بنا ہو اس کے علاوہ باوجودیکہ مغربی دنیا اسے اپنے دور کا عقل کل سمجھتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کی عظمت و اہمیت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اس کے عقیدے میں کسی مذہب کی سب سے بڑی اور اہم تعلیم در اصل انسانیت کی مدد ہے جو اس کو بہتر زندگی کے راستے پر لگا سکتی ہے۔ 
اس کے بعد وہ ان دلائل کی تشریح کرتےہوئےجن کے پیش نظر اس دور میں اسلام اور صرف اسلام ، انسان کو اس کی اصل منزل مقصود تک پہنچانے کے وسائل فراہم کرسکتا ہے کہتا ہے کہ :
 ’’ اگر انسان وہی  انسان ہے جسے در حقیقت خدا کا مظہر ہونا چاہئے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی تعلیمات کو اپنا پیشرو اور نمونۂ عمل قرار دے ‘‘۔
 ہم اس بحث کے آخر میں خدائے قادر و توانا کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ حضرت ولی عصر عجل اللہ فرجہ کے ظہور کو ہم سے قریب تر فرمادے اور واقعی عدل و انصاف پر مبنی حکومت اسلامی جلد از جلد ساری دنیا میں تشکیل پائے۔ 
 ظہور امامؑ کی بشارت قرآن میں
اگر ہم دنیا کی مختلف قوموں اور ملتوںکی کتب اور تواریخ کا مطالعہ کریں تو اس نتیجے پر پہونچتےہیںکہ تمام بڑے بڑے پیغمبروں نے ایک موعود مصلح اور صاحب اقتدار ہستی کی خبر دی ہے جو ایک روز ظہور کرے گی اور ہرج و مرج اور ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کی اصلاح کرے گی۔ صرف اسی کی ذات ہے جو اس سرگرداں اور طوفان زدہ کشتی کو ساحل نجات تک پہونچائے گی۔ اضطراب ، ظلم و آشوب اور خوں ریزی سے لبریز دنیا کو عدل و داد اور خلوص و محبت کی دنیا سے بدل دے گی اور مظلوم و ستم رسیدہ افراد کو جور و استبداد کے شکنجے سے رہائی دلائے گی۔ 
 البتہ چونکہ ہر قوم و ملت اس مصلح عالم کو اپنے سے منسوب سمجھتی ہے لہٰذا چند فریب کاروں نے اس موقع سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض افراد کو مصلح  عالم کا خطاب دے کر کچھ نادان لوگوں کو دھوکا دے دیا، در حالیکہ توریت انجیل ، قرآن اور پیغمبروں کے ذریعے آنے والی دیگر کتابوں میں، نیز مشہور و معروف دانشوروں ، محدثوں اور مفسروں کی بہت سی تحریروں میںاس مصلح عالم کے نام و نشان اور علامات ظہور کو صراحت سے بیان کیا گیا ہے چنانچہ اس سلسلےمیں جن علامتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے اکثر ظاہر ہوچکی ہیں اور جو ابھی سامنےنہیں آئی ہیں وہ بتدریج ظاہر ہوں گی۔ 
 مذہب شیعہ اثنا عشری نے جو برابر امام موعود کے ظہور کا منتظر ہے معتبر اور مسلم مدارک کی روشنی میں مکمل طور سے مہدی آل محمدؐ کی تعریف و توصیف کی ہے اور کسی دوسرے کےلئے دعوائے مہدویت کی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔ ان مدارک سے مراد کتب آسمانی ( قرآن انجیل اور توریت) کے علاوہ محدثین کی حدیثیں اور علمائے عامہ و خاصہ کی کتابیں ہیں جن میں پیغمبر اسلامؐ سے روایتیں منقول ہیں اور ڈیڑھ سو سے زیادہ کتابیں اس موضوع پر لکھی گئی ہیں۔ 
 اب ہم قرآن مجید کی ایسی چند آیتیں پیش کرکے جو سبھی کےلئے قابل قبول ہیں ثابت کریں کہ امام زمانہ حضرت مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف امام حسن عسکری علیہ السلام کے بلا فصل فرزند ہیں:
 ۱؎ سورہ ٔ نور آیت ۵۵: وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٥٥﴾
’’یعنی تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے خدا نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ یقیناً انہیںزمین میں اپنا نمائندہ اور نائب بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے والوں کو اپنا خلیفہ بنا چکا ہے۔ اور جس دین کو ان کےلئے برگزیدہ اور پسندیدہ قرار دیا ہے اسے ان کےلئے روئے زمین پر قائم و مستحکم کرے گا اور ان کے خوف و ہراس کو امن و امان سے بدل دے گا۔ اس وقت لوگ میری عبادت کریں گے اور کسی کو میرے ساتھ شریک نہیں کریں گے اور جو شخص اس کے بعد کفر اختیار کرے گا تو وہی لوگ فاسق و بدکار ہیں‘‘۔
تفسیر منہج الصادقین جلد ششم ص ۳۳۸ ، اور تفسیر الصافی جلد دوئم ص ۱۷۸، میں بہت سی حدیثیں نقل ہوئی ہیںکہ یہ آیت حضرت مہدی عجل اللہ فرجہ اور ان کے وعدہ ظہور و قیام کے بارےمیں ہے کیونکہ اقتدار و استقلال ، سکون قلب اور خوف کے عوض امن و امان صرف اسی دور میں ہوگا۔ اور یہی وہ وقت ہوگا جب امام زمانہؑ ظاہر ہوں گے ۔ اس مقام پر حضرت رسول خداﷺ سے بکثرت ایسی حدیثیں مروی ہیں جو عقلی دلائل و شواہد کی حامل ہیں اور سبھی حضرت صاحب الزمان کے ظہور پر دلالت کررہی ہیں۔ مفسر قرآن عیاشی نے متعدد اسناد کے ساتھ حضرت امام علی ابن الحسین علیہما السلام سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت قیام مہدی آل محمدؐ کی بشارت ہے۔ 
جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں کہ جب آیت  :  يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۔( سورہ نساء آیت ۵۹) نازل ہوئی تو میں نے کہا یارسول اللہﷺ ! خداوندا رسولؐ کو تو جانتا ہوں اور ان کی اطاعت کرتا ہوں لیکن اولی الامر کون ہیں جن کی اطاعت کو خدا نے اپنی اور آپ کی اطاعت سے ملحق اور دونوںکو ایک دوسرے سے وابستہ قرار دیا ہے ؟ تو آنحضرتﷺ نے فرمایا اے جابر! اولی الامر میرے بعد میرے جانشین اور مسلمانوں کے امام ہیں ان میں کے پہلے علی ابن ابی طالبؑ ان کے بعد حسنؑ ان کے بعد حسینؑ، ان کے بعد علی ابن الحسینؑ، ان کے بعد محمد بن علیؑ جو توریت میں باقرؑ کے قلب سے معروف ہیں اور تم ان کو دیکھو گے یعنی اس زمانے تک زندہ رہوگے۔ اے جابر! جب تم ان کو دیکھنا تو انہیں میرا سلام پہنچا دینا۔ ان کے بعد صادق جعفر ابن محمدؑ، ان کے بعد موسیٰ بن جعفرؑ ، ان کے بعد علی ابن موسیٰؑ ، ان کے بعد محمد ابن علیؑ ، ان کے بعد علی ابن محمدؑ ، ان کے بعد حسنؑ ابن علیؑ اور ان کے بعد ان کے فرزند ہیں جو میرے ہمنام اور میرے ہم کنیت ہیں۔ یہی وہ امام ہیں جن کے ہاتھوں پر خدا مشرق و مغرب عالم کو فتح کرے گا۔ وہ اپنے شیعوں سے غیبت اختیار کریں گے اور وہ غیبت اتنی طولانی ہوگی کہ اس کی وجہ سے لوگ ان کی امامت میں شک کریں گے سوا ان لوگوں کے جن کے دلوں کا خدا ایمان کے ساتھ امتحان لے چکا ہوگا۔ ( تفسیر الصافی جلد اول ص ۳۶۶)
۲؎ سورہ قصص آیت ۵: وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ ﴿٥﴾  ۔
یعنی ہمارا ارادہ ہے کہ ان پر احسان کریں جو روئے زمین پر کمزور سمجھ لئے گئے ہیں اور انہیں امام و پیشوا بنائیں اور انہیں زمین کا وارث قرار دیں۔ 
 مندرجہ ذیل اسناد کےمطابق یہ آیت بھی امام عصرؑ کے ظہور کی بشارت دے رہی ہے۔ 
 روایات اصول کافی اور تفسیر عیاشی میں امام محمد باقرؑ سے روایات معانی الاخبار میں امام جعفر صادقؑ سے روایات شیخ صدوقؒ اور نہج البلاغہ میں، اسی طرح بحار الانوار طبع جدید جلد ۱۳ ۔۔۔ روایت ۳۷ اور کتاب الغیبتہ شیخ طوسیؒ میں حضرت امیر المومنینؑ سے اس آیت کی تاویل میں منقول ہے کہ آپ نے فرمایا جو لوگ روئے زمین پر ضعیف سمجھ لئے گئے ہیں وہ آل محمدؐ ہیں چنانچہ خدا ان کے مہدیؑ کو مبعوث کرکے انہیں عزت و احترام عطا فرمائے گا اور ان کے دشمن ذلیل و خوار ہوں گے ( تفسیر صافی جلد ۲ ص۲۵۳)
 نیز شیخ طوسیؒ نے کما ل الدین میں امام حسین علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا، یہ آیت قائم آل محمد ؐ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ یہ وہی آیت ہے جب حضرت مہدی علیہ السلام نے اپنی ولادت کے ساتویں روز اپنے پدر بزرگوار کے سامنے تلاوت کیا۔( تفسیر صافی جلد ۲ ص۲۵۳)
 ۳؎ سورہ انبیاء آیت ۱۰۵: وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ ﴿١٠٥﴾ 
یعنی بتحقیق ہم نے توریت کے بعد زبور میںلکھ دیا ہےکہ یقیناً ساری زمین کے وارث ہمارے نیک اور صالح بندے ہوں گے۔ 
 تفسیر مجمع البیان میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہےکہ آپ نے فرمایا ، اس آیت میں صالح بندوں سے مراد آخری زمانے میں حضرت قائم کے اصحاب ہیں۔ 
نیز تفسیر صافی جلد ۲ ص۱۰۷، میں امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ اس آیت میں بندگانِ صالح حضرت قائم اور آپ کے اصحاب ہیں۔
۴؎۔ سورہ حج،  آیت ۴۱: الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّـهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ﴿٤١﴾
یعنی جو لوگ مدد کرتے ہیں وہ ایسے ہیں کہ اگر ہم انہیں روئے زمین پر تمکن اور اقتدار عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کریں گے اور ( سوا خدا کے کسی سے نہ ڈریں گے کیونکہ جانتے ہیںکہ ) تمام امور کا انجام خدا کے ہاتھ میں ہے۔ 
 تفسیر الصافی جلد ۲ ص ۱۲۶، میں امام محمد باقر علیہ السلام کے قول سے منقول ہے کہ یہ آیت حضرت مہدی ؑ اور آپ کے اصحاب و انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ خدائے تعالیٰ دنیا کے مشرق و مغرب کو ان کے تصرف میں لائے گا ، دین اسلام تمام ادیان پر غالب ہوگا اور عدالت اس طرح سے سارے عالم پر چھا جائے گی کہ ظلم و ستم کا کوئی اثر باقی نہ رہے گا۔ 
 نیز علامہ مجلسیؒ نے بحار الانوار جلد سوم میں حضرت امام جعفرؑ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: یہ آیت مہدیؑ آل محمدؐ اور آپ کےا صحاب کی شان میں ہے جو شرق و غرب عالم کے مالک ہوں گے۔ حیات القلوب جلد سوم میں بھی امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ یہ آیت حضرت مہدیؑ اور ان کے اصحاب کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ 
۵؎  سورۂ اعراف آیت ۱۲۸:إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّـهِ يُورِثُهَا مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ 
یعنی در حقیقت تمام زمین خدا کی ملکیت میں ہے۔ اسے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عطا فرتا ہے اور انجام پرہیزگاروں کے حق میں ہے۔ 
 ( تفسیر عیاشی میں امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادقؑ سے جو روایتیں اس آیت کی تفسیر میںمنقول ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ اللہ کا ہے وہ رسولؐ کا ہے اور جو کچھ رسول کا ہے وہ آپ کے بعد امام کا ہے اور اس طرح وراثت زمین کا سلسلہ حضرت قائم آل محمدؐ تک پہنچے گا مترجم)
خ خ خ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں