جمعہ، 15 مئی، 2020

قساوت قلب کے وجوہات، اثرات و علاج

قساوت قلب کے وجوہات، اثرات و علاج
آیۃاللہ خلیل منصوری
ترجمہ حجۃالاسلام مولانا منور آقا 
قساوت قلب یا سنگ دلی ایسی خطرناک بیماری ہے جو انسان کی دنیا و آخرت کوتباہ کر سکتی ہے ۔ احساسات و جذبات کا مر دہ ہو جانااور مزاج میں سختی انسان کے لئے ہر قسم کے جرائم اور گناہ کی راہ ہموار کرتی ہے ۔ 
سنگ دلی اور قساوت قلب کا مفہوم 
اسلامی تعلیمات میں قلب ،سمجھ ، علم اور کبھی عقل کو کہتے ہیں۔ یہی قلب امر ونہی الٰہی کا مخاطب ہے ۔ جہاں بھی قرآن و حدیث میں قلب کا ذکر ہے اس سے مراد یہی لئے گئے ہیں۔ لہٰذا قلب سے مراد صنوبری شکل کا گوشت کا لوتھڑا نہیں ہے جو انسانی بدن کی بائیں جانب ہوتا ہے بلکہ قلب: عقل، روح اور باطن کو کہتے ہیںالبتہ جسم میں موجود گوشت کے لوتھڑے سے اس قلب کا نزدیکی تعلق ہے ۔ اسی وجہ سے اس تعلق کو قرآن مجید نے نظر انداز نہیں کیا ہے ۔ اسی وجہ سے انسان کی روح لطیف اور نفس ناطقہ کو جسمانی قلب کے ساتھ بدن پر حاکم مقرر کیا ہے ۔ اس جسمانی لوتھڑے کو قلب اس لئے کہا جاتا ہے کہ روح میں ہونے والی تبدیلیوںکا مرکز یہی ہوتا ہے ۔ البتہ قرآن مجید نے صرف لفظ قلب سے استفادہ نہیں کیا ہے بلکہ لفظ ’’فؤاد‘‘ اور ’’صدر‘‘ اور ان الفاظ سے نکلنے والے دیگر الفاظ کا استعمال بھی کیا ہے ۔   
قرآنی تعلیمات کی اساس پر قلب پر مختلف حالتیں طاری ہوتے رہتی ہیں۔ قلب کو قلب کہا ہی اس وجہ سے جاتا ہے کہ ہمیشہ اس میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور اسے ثبات و قرار نہیں رہتا۔قلب کے معنیٰ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا ہے ۔ قرآن مجید نے قلب کی بعض حالتوں کو مثبت اور بعض کو منفی قرار دیا ہے ۔ مثبت حالت کی مثال قلب سلیم (شعرا؍۸۹) ، قلب مطمئن(نحل؍۱۰۶) ، قلب لَیِّن ونرم (زمر؍۲۳) ، قلب رابط و پیوند زدہ( انفال؍۱۱، کہف؍۱۴)، قلب طاہر(مائدہ؍۴۱) اور اسی طرح کی حالتوں کا ذکر موجود ہے۔ 
اسی طرح قلب کی منفی حالتوں کا ذکر بھی قرآن مجید میں موجود ہے جیسے قلب مریض(بقرہ؍۱۰، مائدہ؍۵۲، انفال؍۴۹، توبہ؍۱۲۵وغیرہ) قلب واجف و مضطرب (نازعات؍۱۰) ،حلق کو پہنچا ہوا قلب (احزاب ؍۱۰، غافر؍۱۸) ، قلب مرعوب(آل عمران؍۱۵۹) اور اسی طرح کی حالتیں۔ 
بعض حالات کا اطلاق مثبت اور منفی دونوں پر ہوتا ہے جیسے شرح و انشراح مثبت بھی ہو سکتا ہے منفی بھی ۔ شرح، کفر کے لئے بھی ہو سکتا ہے (نحل؍۱۰۶) یا پھر ایمان و اسلام کے لئے بھی۔(انشراح؍۱، طہ؍۲۵) 
اخلاقی رذائل میں سے ایک حالت جس کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے وہ ’’قساوت قلب‘‘ ہے ۔(بقرہ؍۷۴،انعام؍۴۳، حدید؍۱۶، مائدہ؍۱۳) 
قساوت عربی لفظ ہے جو ’’قسی‘‘ اور’’قسوہ‘‘ سے لیا گیا ہے جس کے معنیٰ سختی اور ناقابل نفوذ ہونا ہے ۔ اسی وجہ سے سخت ، مضبوط پتھروں کو ’’قسی‘‘ کہتے ہیں۔ پس یہ کہا جاسکتا ہے کہ قساوت قلب وہی سنگ دلی ہے جو نرم دلی کے مقابلے میں ہے ۔ قرآنی نقطۂ نظر سے وہ قلب جو حق ، تواضع، خشوع اور جھکاؤ نہ رکھتا ہو اور نور ہدایت اس میں نفوذ نہ کرسکتا ہو ایسے قلب کو ’’قلوب قاسیہ‘‘ کہا گیا ہے۔(مائدہ؍۱۳) 
علم اخلاق کی روشنی میں اپنے جیسے ہم نوع افراد کے درد و رنج کا اثر نہ لینے کو قساوت کہا گیا ہے ۔ (جامع السعادات،نراقیؒ، ج۱، ص۴۰۴)
قساوت ، قَسَوَ سے قرآن مجید میں ساٹھ مرتبہ قلب کے ساتھ استعمال ہوا ہے تاکہ اس طرح قلب کی ایک حالت بیان کی جائے (بقرہ؍۷۴، مائدہ؍۱۳، انعام؍۴۳، حج؍۵۳،زمر؍۲۲، حدید؍۱۶)۔ قرآنی تعلیمات کی رو سے معرفت خدا اور اس کی طرف حرکت کرنے میں رکاوٹ قساوت قلب منجملہ کئی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ ہے۔انبیائے الٰہی کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ تھی کہ وہ انسانوں کو حقائق سے آشنا کروائیں او رمعاشرے میں عدل کو پھیلائیں لیکن سارے انبیاء کو اپنے ان مقاصد تک پہنچنے میں قسی القلب افراد سے مقابلہ تھا کیونکہ قسی القلب لوگ حقائق کی راہ کو اپنے اوپر بند کر لیتے ہیںاور جذبات کا دروازہ اپنے اوپر کھول لیتے ہیں اور انسانی اصولوں کو اپنے پیروں تلے روندتے ہوئے حق کے مقابلے میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ 
قساوت قلب اور سنگ دلی کے مراتب :
تعلیمات قرآنی کی رو سے قساوت قلب اور سنگ دلی کے مراتب اور درجات ہیں۔ جس طرح ایمان اور نور شدت و ضعف کے حامل ہوتے ہیں بالکل اسی طرح قساوت کے بھی مراتب ہیں۔ پس قساوت کا ایک مرتبہ نہیں ہے بلکہ ان کے مراتب اور درجات میں فرق ہے او ر ان کے الگ الگ ہونے پر توجہ کرنی ہوگی ۔ 
خدا نے سورۂ بقرہ کی ۷۴ویں آیت میں صاف الفاظ میں بیان کر دیا ہے کہ :
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّـهِ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ۔
’’پھر تمہارے دل سخت ہو گئے جیسے پتھر یا اس سے بھی کچھ زیادہ سخت کہ پتھروں میں سے تو بعض سے نہریں بھی جاری ہو جاتی ہیں اور بعض شگافتہ ہو جاتے ہیں توان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض خوفِ خدا سے گر پڑتے ہیں۔ لیکن اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے‘‘۔ 
اس آیت میں سنگ دلی کے کم از کم تین مراتب بیان ہوئے ہیں: ۱۔ چیرا جانا جس طرح پتھر میں چیرا لگ کر پانی نہرکی شکل میں جاری ہوتا ہے۲۔ چیرا جانا جس طرح سے پانی ابلتا ہے ۳۔ خشیت خدا سے گرپڑنا۔
ایک طرف پتھر کے لئے تین تعبیریں استعمال ہوئیں ہیں۔ ۱۔ تفجر۲۔ تشقق ۳۔ ھبوط تو دوسری طرف پانی کے لئے نہروں کا جاری ہونا اور پانی کا ٹپکنا ایک درجہ اور شدت کو بیان کر رہا ہے ۔ پتھر کی سختی کو مختلف تعبیروں کے ذریعہ بتلا کر اس سے قلب کی سختی سمجھائی جا رہی ہے ۔ وہ شدت و ضعف جو پتھروں میں اور پانی میں پایا جاتا ہے جو مادی چیزیں ہیں ویسا ہی شدت و ضعف قلب میں پایا جاتا ہے جو ایک معنوی چیز ہے ۔ یہ اس صورت میںہے کہ قلب ایک جسم لطیف ہے نرمی اور لیانت اس کی ذات میں موجود ہے لیکن جب سخت ہو جاتا ہے تو سخت ترین پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو جاتا ہے ۔ 
قساوت قلب اور سنگ دلی کی وجوہات :
آیتوں اور روایتوں کی بنیاد پر قساوت قلب اور سنگ دلی کی کئی وجوہات اصلی اور فرعی شمار کی گئی ہیں۔ ان میں سے اہم ترین وجوہات یہ ہیں: 
۱۔ فسق: سنگ دلی کی اہم ترین وجہ فسق ہے۔ (حدید؍۱۶) ۔ فسق ایسے برے اعمال کو کہتے ہیں جن سے پردے چاک ہو جاتے ہیںکیونکہ کھجور کی پوست کا اس کے مغز سے جدا ہوجانے یا کھجور کے بیج کے باہر نکل آنے کو فسق کہاجاتا ہے، فاسق اپنے اعمال کے ذریعے بری اور چھپی ہوئی چیزوں کو آشکار کردیتا ہے اور بری چیزوں کو اعلانیہ طور پر انجام دیتا ہے اور ان کو پھیلاتا ہے ۔ ایسے برے اعمال کے سبب انسان کا قلب قساوت اور سنگ دلی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ 
۲۔پیمان شکنی: انسان جو عہد کرتا ہے یا عقد کرتا ہے اس کا پابند ہو، اس کو وفا کرے کیونکہ امانت داری ، عدالت، صداقت، وفاداری جیسے امور اخلاق کے بنیادی اصولوں میں سے ہے ۔ 
۳۔ نصیحت اور موعظہ سے اثر نہ لینا: قساوت قلب کا ایک سبب انسان کا نصیحت اور موعظہ سے اثر نہ لینا ہے ۔ جوبھی ایک لمبی مدت تک نصیحتوں پر مثبت رد عمل ظاہر نہ کرے وہ قساوت میں گرفتار ہو جاتا ہے ۔ (زمر؍۲۲،حدید؍۱۶) 
۴۔لمبی مدت کا گذر جانا: سورہ ٔحدید کی ۱۶ ویں آیت سے یہ معنیٰ حاصل ہوتے ہیں کہ ایک لمبی مدت تک خدا ا ور آسمانی تعلیم کی طرف توجہ کا نہ ہونا قساوت قلبی کی راہ ہموار کرتا ہے ۔ 
 ۵۔گناہ: گناہ وہ عامل ہے جو قساوت قلبی لاتا ہے ۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس قدر گناہ بڑا ہوگا یا بار بار ہوگا اسی قدر قلب کی قساوت شدید ہوگی ۔ سورۂ اعراف کی ۱۰۰ ویں آیت میں ہے کہ اَوَلَمْ یَھْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِ اَھْلِھَا اَنْ لَّوْ نَشَاء اَصَبْنَاھُمْ بِذُنُوْبِھِمْ وَ نَطْبَعُ عَلَی قُلُوْبِھِم فَھُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ( کیا ایک قوم کے بعد دوسرے زمین کے وارث ہونے والوں کو یہ ہدایت نہیں ملتی کہ اگر ہم چاہتے تو ان کے گناہوں کی بناء پر انہیں بھی مبتلائے مصیبت کر دیتے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے اور پھر انہیں کچھ سنائی نہ دیتا) ۔  پس خداوند عالم اس آیت میں بیان فرما رہا ہے کہ گناہ کی سزا یہ ہے کہ قلب ایک قسم کی قساوت میں مبتلا ہو جاتا ہے جس کو طباعت قلب کہتے ہیں۔ طبع ، طبیعت اور بندھ جانے کے معنیٰ میں ہے جیسے کوئی چیز چھپ جائے ۔یہاں پر قلب بند ہو جاتا ہے اور پھر حقائق کو درک کرنے کی قدرت کھو دیتا ہے اور انوار الٰہیہ کو نہیں پاتا، نصیحتوں سے ، آیتوں سے ، دلیلوں سے اثر نہیں لیتا۔ حضرت علی ؑ فرماتے ہیں: لا وجع اوجع للقلوب من الذنوب؛ گناہوں سے بڑھ کر دلوں کے لئے کوئی در د نہیں ہے ۔ (کافی ، ج۲، ص۲۷۵، وسائل الشیعہ،ج۱۵، ص۳۰۴، بحار الانوار، ج۷۳،ص ۳۴۲) 
۶۔ رسولوں اور آیات الٰہی کی تکذیب: سورۂ یونس کی آیت ۷۴ میں خدا فرماتا ہے:’’ اس کے بعد ہم نے مختلف رسول ان کی قوموں کی طرف بھیجے اور وہ ان کے پاس کھلی ہوئی نشانیاں لے کر آئے لیکن وہ لوگ پہلے کے انکار کرنے کی بناء پر ان کی تصدیق نہ کر سکے اور ہم اسی طرح ظالموں کے دل پر مہر لگا دیتے ہیں‘‘۔ 
۷۔ شیطان کا اعمال کو سجانا: قساوت قلب کی ایک وجہ وہ برے اعمال ہیں جن کو شیطان سجا کر پیش کرتا ہے (انعام؍۴۳) ۔اسی وجہ سے جب بلائیں اور مصیبت ان افراد پر نازل ہوتی ہیں گڑگڑانے کے بجائے بلا دور ہوتے ہی کوئی کام نہیں کرتے بلکہ اپنے وہی گندے کاموں کو جاری رکھتے ہیں اور قساوت قلب کی وجہ سے اللہ کے غضب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ 
۸۔ ہٹ دھرمی :سورۂ بقرہ کی ۶۷ اور ۷۴ ویں آیت میں گائے کے قصے میں حضرت موسیٰ  ؑ کی قوم کی ہٹ دھرمی دکھائی گئی ہے اور کس طرح بنی اسرائیل قساوت قلب میں گرفتار ہوئے ۔ قساوت کا زمینہ بیان کرنے کے بعد خدا نے اس کے شدت و ضعف کو بیان کیا ہے ۔ 
۹۔ شیطانی القائات کی پیروی: وحی اور الہامات ِ الٰہی کو چھوڑ کرشیطانی القائات سے سنگ دلی پیدا ہوتی ہے ۔(حج،۵۲؍۵۳) 
۱۰۔ کفر کے لئے سنیہ کا کھل جانا 
۱۱۔ خطاکاریاں: انسان اگر خطا کرے تو اسے توبہ کرنی چاہیے ۔ توبہ نہ کرنا اور خطاپر خطا کرتے چلے جانا قساوت قلب کا سبب بنتا ہے ۔ حضرت علی ؑ فرماتے ہیں: خطا سے زیادہ کوئی چیز نہیں جو قلب کی گندگی کو زیادہ کرے۔(کافی ، ج۶، ص۲۶۸؛ امالی للطوسی،ص۴۳۸؛ بحار الانوار، ج۷، ص۳۱۲) 
۱۲۔ حرام خوری، لقمۂ حرام: رسول خدا ؐ نے حضرت علی ؑ سے فرمایا: جو مالِ حرام کھاتا ہے اس کا قلب سیاہ ہو جاتا ہے اور دین بدل جاتا ہے اور دعا مستجاب نہیں ہوتی۔ امام حسین ؑ نے روز عاشور اپنی نصیحتوں اور موعظہ سے عبید اللہ ابن زیادکے لشکر کو ان کے کام کی قباحت و برائی سے آگاہ کیا اور اس کام کو جاری رکھنے سے روکنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے چیخ پکار شروع کر دی تاکہ حضرت کی بات ان کو نہ سنائی دے۔ حضرت ان سے فرما رہے تھے : انما ادعوکم الی سبیل الرشاد فمن اطاعنی کان من المرشدین و من عصانی کان من المھلکین و کلکم عاص لامری غیر مستمع قولی فقد ملئت بطونکم من الحرام و طبع علی قلوبکم ویلکم الا تنصتون لا تسمعون، میں تمہیں سبیل رشاد کی طرف دعوت دے رہا ہوں، جو بھی میری اطاعت کرے گا وہ کامیاب ہوگا اور جو بھی میری نافرمانی کرے گا ہلاک ہونے والوں میں قرارپائے گا۔ تم سب میرے حکم کی نافرمانی کرتے ہو، میری بات نہیں سنتے ، (تم ا س کے سزاوار ہو، کیونکہ) تمہارے پیٹ حرام سے بھرے ہوئے ہیںجس کے نتیجے میں خدا نے تمہارے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور تم کبھی حقائق کو درک نہیں کر سکوگے ، کیوں خاموش نہیں ہوتے ؟ کیوں نہیں سنتے ؟۔ (بحار الانوار، ج۴۵، ص۱)
۱۳۔ لمبی لبمی آرزوئیں: خدا نے حضرت موسیٰ  ؑسے فرمایا: اے موسیٰ ، دنیا میں اپنی آرزوؤں کو لمبی نہ کرو کہ قسی القلب ہو جاؤگے۔ (کافی ، ج۲، ۳۲۹، اعلام الدین،ص۲۱۸؛بحار الانوارج۷۳، ص۳۹۸) 
۱۴۔ مال کی کثرت:مال کی کثرت بھی قساوت قلب کا موجب بنتی ہے کیونکہ مال انسان کو اسراف کی طرف ڈھکیلتا ہے اوراسراف کئی گناہوں کا زمینہ فراہم کرتا ہے ۔ ایک طرف تو انسان کو مال کی حفاظت کی پڑی رہتی ہے جس کی وجہ سے وہ دوسرے کام نہیں کر سکتادوسری طرف مال کا حساب کتاب اور اس کی حفاظت انسان کا اچھا خاصا وقت لے لیتا ہے جس کی وجہ سے وہ دوسرے امور کی طرف توجہ نہیں کرپاتا۔ حضرت علی ؑ فرماتے ہیں: بے شک مال کی کثرت دین میں فساد اور قلب کو سخت کر دیتی ہے ۔(تحف العقول، ص۱۱۹؛ مشکاۃ الانوار،ص۱۳۸؛ بحار الانوار، ج۱،ص۱۷۵)
۱۵۔ دنیا کا ہم وغم: ہمیشہ دنیا کی فکر میں لگے رہنا اور انسان کا ہمّ و غم دنیا ہوجانا قساوت قلب کا عامل ہے ۔ روایت میں ہے کہ جس حد تک ممکن ہو اپنے آپ کو دنیا کے ہمّ و غم سے فارغ کرو، بتحقیق جس کا ہمّ و غم دنیا ہو جائے اس کا دل پتھر اور سخت ہو جاتا ہے اس کی ضرورت اس کی دونوں آنکھوں کے سامنے ہے اور دنیا کے علاوہ کچھ دیکھتا ہی نہیں۔ (مجموعہ ورام، ج۲، ص۱۹۹؛ارشاد القلوب، ج۱ص،۱۸؛ بحار الانوار، ج۷۷،ص۱۶۶) 
۱۶۔زیادہ کمانے کی حرص : انسان ایک اندازے کے مطابق کھائے پیئے ۔ پیٹ اس کا ساراہمّ و غم نہ بن جائے ۔ رسول خداؐ نے حضرت علی ؑ سے فرمایا: یا علی پانچ چیزیں دل کو مردہ کر دیتی ہیں ، ان میں سے ایک روزی کے لئے ضرورت سے زیادہ بھاگ دوڑ ہے۔ (خصال صدوقؒ) 
۱۷۔ گمراہ لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا:رسول خدا ؐ کی حدیث ہے کہ چار لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے دل مردہ ہوجاتا ہے ان میں سے ایک خود مردہ لوگ ہیں جن کے ساتھ بیٹھنے سے دل مردہ ہو جاتا ہے ۔ آپؐ سے پوچھا گیا مردہ کون لوگ ہیں؟ تو آپ ؐ نے فرمایا بے ایمان گمراہ لوگ مردہ ہیں۔ (بحار الانوار، ج۱۰۳، ص۲۲۶) 
۱۸۔ بادشاہوں اور پیسے والوں کے پاس حاضری : رسول خدا ؐ فرماتے ہیں اے علی تین لوگوں کے دل قساوت کا شکار ہو جائیں گے :بادشاہوں کے دروں پر حاضری دینے اور ان سے مدد چاہنے والے۔ (فقیہ، ج۴، ص۳۶۵، بحار الانوار، ج۶۵،ص۲۸۲) 
۱۹۔ علماء سے دوری: رسول خدا ؐ فرماتے ہیں: یاعلی اگر چالیس دن گذر جائیں اور مومن، علماء کی صحبت میں نہ بیٹھے قسی القلب اور سنگ دل ہو جاتا ہے اور گناہان کبیرہ یعنی بڑے گناہوں کی جرأ ت کرتا ہے ۔ 
۲۰۔ذکر خدا ترک کر دینا: خدا موسیٰ  ؑ سے فرماتا ہے اے موسیٰ! ہر حال میں میرا ذکر کرتے رہو میراذکر ترک کر دینا دل کو سخت کر دیتا ہے ۔ (کافی، ج۲،ص ۴۹۷؛ بحار الانوارج۱۳، ص۳۴۲)
۲۱۔  زیادہ بات کرنا: حضرت عیسیٰ روح اللہ فرماتے ہیں: زیادہ بات چیت مت کروکہ یہ دل کو سخت کر دیتا ہے اور جو زیادہ بات چیت کرتا ہے اس کی عقل کم ہو جاتی ہے اور دل سخت ہو جاتا ہے ۔ 
(الامالی، ص۳، ح۱؍۱؛ کتاب الموطاء، ص۹۸۶؛تفسیر مجمع البیان، ج۱،س۲۶۶؛ تفسیر ابن کثیر، ج۱، ص۱۱۸، بحار الانوار، ج۱، ص۲۸۱)
۲۲۔زیادہ کھانا پینا: اپنے دلوں کو زیادہ کھانے اور پینے سے مردہ مت کرلو کیونکہ دل کھیتی کی طرح ہے زیادہ پانی دینے سے کھیتی خراب ہو جاتی ہے۔ (مجموعہ ورام، ج۱، ص۴۶) 
۲۳۔ اپنے رشتہ داروں کی قبر پر مٹی ڈالنا: دفن کرتے وقت اپنے رشتے داروں میں سے ارحام کی قبر پر اگر مٹی ڈالے تو اس کا دل مردہ ہو جاتا ہے ، یہ کام دوسرے لوگ انجام دیں۔ امام جعفر صادق  ؑ فرماتے ہیں: میں تمہیں اپنے رحمی رشتے داروں کی قبروں پر مٹی ڈالنے سے منع کرتا ہوں کہ اس سے دل مردہ ہو جاتے ہیں اور جس کا دل مردہ ہو جاتا ہے وہ اپنے پروردگار سے دور ہو جاتا ہے ۔ (کافی ، ج۲، ص۱۹۹)
قساوت قلبی اور سنگ دلی کے اثرات: 
۱۔ لوگوں کا بکھر جانا : قوم کے قائدین کی قساوت قلبی اور سخت دلی سے لوگ ان کے اطراف سے بکھر جاتے ہیں ، پراکندہ ہو جاتے ہیں۔ (آل عمران؍۱۵۹)
۲۔ آسمانی کتابوں میں تحریف ، ان کے مفہوم و معار ف میں تحریف :سورۂ مائدہ کی ۱۲ ویں اور ۱۳ ویںآیت میںخدا نے بنی اسرائیل کی سنگ دلی کی ایک وجہ تورات میں  ان کی طرف سے تحریف بیان فرمایا ہے ۔ 
۳۔ تضرع کا ترک ہو جانا:قساوت قلبی کی وجہ سے انسان مصیبتوں میں خدا کی بارگاہ میں فریاد نہیں کرتا ،گڑگڑاتا نہیں۔ (انعام؍۴۳) 
۴۔شیطان کی طرف سے عمل کو سجایا جانا :قساوت قلبی کی وجہ سے شیطان برے اعمال کو سجا کر انسان کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ (حوالہ سابق) 
۵۔ حق کو قبول نہ کرنا :قساوت قلب انسان کو حق قبول کرنے نہیں دیتی۔ (بقرہ؍۷۴؛ مائدہ؍۱۳؛ حدید؍۱۶) 
۶۔ سخت سزائیں :اصحاب اخدود نے مومنین کو سزا کے طور زندہ جلا دیا تھا جو قساوت قلب کا نتیجہ تھا۔ آج بھی یہ تکفیری گروہ داعش اور القائدہ میں دیکھنے میں آتا ہے ۔ (بروج، آیات۴سے ۷اور۱۰) 
۷۔ ظلم و ستم :قسی القلب انسان ظالم اور ستمگر ہوتے ہیں۔ (حج، ۵۳) 
۸۔ غفلت :قساوت قلب کی وجہ سے انسان اللہ کی یاد سے غافل ہو جاتا ہے ۔ (انعام؍۴۳، ۴۴؛ زمر ؍۲۲)  
۹۔ قتل :فرعون اور فرعونیوں کی جانب سے لڑکوں کو بے رحمی سے قتل کرنا قساوت قلب کا نتیجہ ہے ۔ (بقرہ؍۴۹؛ ابراہیم ؍۶) 
۱۰۔ شخصیتوں کی کمی پڑ جانا :نرم دل مومن اور قسی القلب کافر کا بنیادی فرق قساوت قلب کا ایک اور اثر ہے جو سورۂ زمر کی ۲۲ ویں آیت میں بیان ہوا ہے ۔ 
۱۱۔ گمراہی :قساوت قلب ، گمراہی اور ہدایت کے قبول نہ کرنے کا سبب ہے جو اسی آیت میں بیان ہوا ہے ۔ 
۱۲۔ انبیاء کی دعوت پر لبیک نہ کہنا :سنگ دلی کی وجہ سے انسان انبیاء کی دعوت پر لبیک نہیں کہہ سکتا۔ (انعام۴۲، ۴۳) 
۱۳۔ ایمان میں رکاوٹ :سنگ دلی کی وجہ سے انسان اسلام اور ایمان اور وحیانی حقائق کی طرف نہیں آسکتا۔ (بقرہ؍۷۴،۷۵) 
۱۴ ۔نور خدا کا رک جانا : قساوت کی وجہ سے اللہ کا نور قلب پر نازل نہیں ہوتا۔ (زمر؍۲۲) 
۱۵۔ تسلیم نہ ہونا :قساوت قلب اللہ اور اس کے دین کو قبول کرنے میں رکاوٹ ہے ۔ (حوالہ سابق)
۱۶۔ عقل کا کم ہو جانا :آیات و معجزات الٰہی سے اثر لینے اور قرآنی آیتوں میں تعقل اور تفکر کرنے میں قساوت قلب رکاوٹ ہے۔ (بقرہ ؍۷۳،۷۴؛ حشر؍۲۱) 
۱۷۔ خشیت میں رکاوٹ :اللہ سے خوف اور خشیت میں قساوت قلب رکاوٹ ہے ۔ (بقرہ؍۷۴) 
۱۸۔ درک معارف میں رکاوٹ :معارف الٰہیہ کو گہرائی سے سمجھنے اور درک کرنے میں قساوت قلب مانع ہے ۔ (بقرہ،۶۷سے ۷۴؛حشر؍۲۱)
۱۹۔ شرح صدر میں رکاوٹ :قساوت قلب شرح صدر (سینہ کی کشادگی) میں رکاوٹ ہے ۔ (زمر؍۲۲) 
۲۰۔ موعظہ و نصیحت قبول نہ کرنا :قساوت قلب نصیحتوں اور موعظہ کو قبول نہ کرنے کا موجب ہے ۔ (انعام؍۴۳،۴۴)
۲۱۔ شیطان کا غالب آجانا :قساوت کی وجہ سے شیطان کو دھوکہ دینے کا موقع ملتا ہے اور شیطان دلوں میں راسخ ہو جاتا ہے 
 (حوالہ سابق؛ حج؍۵۳) 
قساوت قلب اور سنگ دلی کوروکنے کے اسباب اور اس کا علاج:
اس میں کوئی شک نہیں کہ قساوت قلب ایک خطرناک بیماری ہے جس کا علاج بہت ضروری ہے۔ علاج یہ ہے:
۱۔ تضرع:خدا کی بارگاہ میں فریاد کرنا ، گڑگڑانا قساوت قلب کو روکتا ہے جیسا کہ سورۂ انعام کی ۴۳ ویں آیت میں بیان کیا گیا ہے 
۲۔ حق کو قبول کرنا :الٰہی تعلیمات کہ جو حق ہیں اس کو قبول کرنا سنگ دلی کو روکتا ہے ۔ (زمر؍۲۲،۲۳؛ حدید؍۱۶) 
۳۔ خشیت :اللہ کی عظمت کے مقابلے میں خوف اور خشیت قساوت قلب اور سنگ دلی کو روکتا ہے ۔اس مطلب کی طرف توجہ خود قساوت قلبی کا علاج ہے۔ (بقرہ؍۷۴)
۴۔ ذکر خدا:اللہ کی یاد اور اس کا ذکر قساوت قلبی میں مانع ہے ۔ (گذشت آیات)
۵۔ رحمت خدا : اللہ کی رحمت و عنایت قساوت قلبی کو روکے رکھتی ہے جیسا کہ پیغمبر اکرم ؐ کے لئے خدائی انتظام ہوا۔ (آل عمران؍۱۵۹) 
۶۔ شرح صدر :سینہ کی کشادگی بھی قساوت قلبی کا علاج ہے ۔ (زمر ؍۲۲)
۷۔ مہربانی : لوگوں سے مہربانی اور نرمی سے پیش آنا قساوت کو روکے رکھتا ہے ۔ (آل عمران؍۱۵۹)
۸۔ نورانیت :نورانیتِ الٰہی سے استفادہ قساوت سے روکتا ہے۔ 
۹۔ پانچ چیزیںجو قلب کو جلاء دیتی ہیں: ۱۔ علماء کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ۲۔ یتیموں کے سرپر ہاتھ پھیرنا ۳۔ سحر کے وقت کثرت سے استغفار ۴۔ رات کو جاگنا یا کم سونا ۵۔ دن میں روزہ رکھنا 
۱۰۔ توبہ :امام جعفر صادق  ؑ فرماتے ہیں: دلوں کو اسی طرح زنگ لگ جاتا ہے جس طرح تانبہ کو زنگ لگ جاتا ہے پس استغفار سے اس کو جلاء دو۔ توبہ کے تین رکن ہیں: ۱۔ گناہ سے پشیمانی اور ندامت ۲۔ گناہ چھوڑنے کا مصمم ارادہ ۳۔ جو چیزیں چھوٹ گئی ہیں ان کی تلافی ۔
۱۱۔ تلاوت قرآن اور موت کی یاد :رسول خداؐ نے فرمایا: جس طرح پانی پڑنے سے لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے اسی طرح قلوب کو زنگ لگ جاتا ہے ۔ پوچھا گیا اس کی جلاء کیسے ہو؟ آپؐ نے فرمایا: کثرت سے موت کو یاد کرنا اور تلاوت قرآن کرنا۔ (میزان الحکمۃ، ح۱۷۰۴۹)
۱۲۔ مجالس علم میں شرکت اور علماء کی ہمنشینی :اللہ دلوں کو نور حکمت سے زندہ کردیتا ہے جس طرح مردہ زمینوں کو بارش سے زندہ کردیتا ہے ۔ (میزان الحکمۃ،۱۷۰۳۲) 
۱۳۔یتیموں کو کھانا کھلانا اور ان کے کام آنا: یتیموں اور مسکینوں کو کھانا کھلانے سے انسان کا دل نرم ہوتا ہے ۔ (میزان الحکمۃ، ۱۷۰۴۳)
۱۴۔ موعظہ ، موت کی یاد اور گذشتہ لوگوں کے واقعات : امیر المومنین حضرت علی ؑ فرماتے ہیں: اپنے دل کو موعظہ سے زندہ کرو۔۔۔اور موت کی یاد سے اسے ذلیل کرویعنی اس میں خشوع پید اکرو۔۔۔۔اور گذشتہ لوگوں کے واقعات سے اس کو آشنا کرو۔ (نہج البلاغہ، مکتوب ۳۱) 
خ خ خ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں