بدھ، 13 مئی، 2020

توحید حضرت علی علیہ السلام کی نظر میں

توحید حضرت علی علیہ السلام کی نظر میں
آیۃاللہ سید جعفر سیدان
ترجمہ : حجۃالاسلام مولانا شمس الحسن عارفی
استاذ جامعہ ناظمیہ لکھنؤ 
(نوٹ: اس مقالے میں ’’حضرت علیؑ کی نگاہ میں توحید‘‘ سے بحث کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ خدا شناسی سے متعلق وہ مباحث جن کے بارے میں امام علیہ السلام نے اپنے گرانقدر افکار و خیالات کا اظہار فرمایا ہے وہ اس مقالے میں شامل نہیں ہیں)
اس مقالے میں روایات حضرت علیؑ سے استفادہ کرتے ہوئے مندرجہ ذیل عناوین سے بحث کی گئی ہے: (۱) اہمیت وآثار توحید۔ (۲) توحید کے معنی اور اقسام۔ (۳) ادلۂ توحید۔ (۴) خصوصیات توحید۔
اہمیت وآثار توحید: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اصول دین میں’ ’اصلِ توحید‘‘ ایک خاص عظمت واہمیت کی حامل ہے اس طرح کہ تمام اصول دین کی بنیاد اسی اصل پر ہے (یعنی توحیدپر) بنابریں حضرت علیؑ کی نگاہ میں اصل توحید اور اس کے آثار ونتائج کی خاص اہمیت ہے اور اسی لیے حضرت علیؑ نے اپنے ارشادات میں توحید کا بکثرت ذکر فرمایا ہے۔ ایک روایت میں حضرت علیؑ آنحضرتؐ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا ’’التوحید نصف الدین‘‘ یعنی توحید نصف دین ہے۔(۱)
اور خود حضرت علیؑ نے فرمایا: پروردگار عالم نے انسان کے اعضاء بدن میں مقام زبان کو عظمت بخشی ہے۔ (جس سے انسان کلمۂ توحید ادا کرتا ہے) اور قرآن نے توحید کا تذکرہ فرمایا ہے۔ (۲)
حضرت علی علیہ السلام نے بعض احادیث میں اصل توحید کی فضیلت اور اس کے عظیم اجروثواب کو بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرتؑ کا ارشاد گرامی ہے۔ ’’جب بھی کوئی بندۂ مسلم اپنی زبان سے کلمہ لاالہ الااللہ ادا کرتا ہے تو اس کی یہ گفتار ہر رکاوٹ کو دور کرتے ہوئے بلندی تک پہنچتی ہے اور گناہ سے محفوظ رکھتی ہے یہاں تک کہ اس کو اطمینان قلب حاصل ہوجاتا ہے۔(۳)
حضرت امام رضا علیہ السلام حدیث سلسلۃ الذہب کے آخر میں حضرت علی علیہ السلام کے حوالے سے آنحضرتؐ کا یہ قول نقل فرماتے ہیں کہ حضرت جبرئیل امین نے اللہ کی جانب سے بیان فرمایا ہے ’’میں خدائے یگانہ ہوں، اے میرے بندو! میری عبادت کرو جو بندہ خلوص نیت کے ساتھ کلمہ ’’لاالہ الااللہ‘‘ کہے گا وہ میرے قلعہ میں داخل ہوجائے گا اور جو میرے قلعہ میں داخل ہوگا وہ میرے عذاب سے امان میں ہوگا۔
حضرت امام رضا علیہ السلام سے پوچھا گیا: اے فرزند رسول! اخلاص سے مراد کیا ہے؟ حضرت نے فرمایا: (اخلاص سے مراد) خدا اور رسول کی اطاعت اور ولایت اہل بیتؑ کو قبول کرنا ہے۔ (۴)
دوسری روایت میں حضرت علیؑ نے حضرت رسول خداؐ کے حوالے سے فرمایا ’’توحید پر اعتقاد کا نتیجہ بہشت میں داخل ہونا ہے۔
آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا: جو شخص اس دنیا سے اٹھے اس حال میں کہ اس نے کسی چیز کو اللہ کا شریک نہ قرار دیا ہو اس سے نیکی سرزد ہویا برائی وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (۵)
دوسری جگہ حضرتؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرتؐ سے سنا کہ آپ نے آیہ کریمہ ’’ھل جزاء الاحسان الاالاحسان‘‘ کے بارے میں فرمایا: اللہ ارشاد فرماتا ہے ’’جو شخص توحید کو دوست رکھے میں اس کو بہشت کے علاوہ کوئی جزاء نہیں دوں گا۔ (۶)
امامؑ نے دوسری روایات میں توحید کے نتائج وثمرات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے۔ مثلاً نہج البلاغہ کے دوسرے خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں: میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے ایسی گواہی جس کا خلوص پرکھا جاچکا ہے جس پر عقیدہ خلوص نیت کے ہمراہ ہے جب تک ہم زندہ رہیں گے۔ اس سے متمسک رہیں گے اور مستقبل میں پیش آنے والے سخت ترین دنوں کے لیے اس کو ذخیرہ بناکر رکھیں گے ایسی گواہی ہمارے مضبوط ومستحکم ایمان کی نشانی اور ہماری نیکیوں کا راز اور خوشنودیٔ پروردگار کا ذریعہ ہے اور شیطان سے دوری کاسبب ہے۔ 
توحید الٰہی پر ایمان کے بعض آثار ونتائج:
(۱)نجات وحفاظت کا وسیلہ ہے۔ (۲) مستقبل میں پیش آنے والی سختیوں اور پریشانیوں کے لیے ایک ذخیرہ ہے۔ (۳) ایمان کے مستحکم ہونے کی ایک پہچان ہے۔ (۴) احسان ونیکی کا عنوان ہے۔ (۵) خوشنودیٔ پروردگار کا ایک سبب ہے۔ (۶) شیطان سے جنگ کرنے کا ایک وسیلہ ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے دوسری جگہ کلمۂ اخلاص (یعنی لاالہ الااللہ) کو خدا تک پہنچنے کا بہترین وسیلہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ حضرت ؑ ارشاد فرماتے ہیں: جو افراد خدائے سبحان تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرتے ہیں ان کے لیے بہترین وسیلہ خدا ورسول پر ایمان لانا ہے۔ اور اس کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔ اور کلمۂ توحید کہ وہ فطرت کی آواز ہے۔ (۷)
دوسری جگہ حضرتؑ نے مسلمانوں کے حقوق اور توحید الٰہی کے درمیان ارتباط کا بھی تذکرہ فرمایا ہے۔ ’’پروردگار عالم نے کلمۂ اخلاص کے ذریعہ مسلمانوں میں سے ہر ایک کے دوسرے سے مربوط حقوق کو مستحکم قرار دیا ہے۔ (۸)
عقیدۂ توحید کی عظمت اور اس کے آثار اس سے کہیں زیادہ بیان کیے گئے ہیں۔ اس مقالہ میں تمام مطالب کو پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ لہٰذا اس عنوان کو یہیں پر تمام کرتے ہوئے دیگر مباحث کو پیش کرتے ہیں۔
توحید کے معنی اور اس کے اقسام: توحید سے کیا مراد ہے؟ اس سوال کی عظمت واہمیت اس اعتبار سے اور زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ ایک انسان کے ایمان واسلام کی لازمی شرط صحیح توحید کی معرفت ہے۔ درحقیقت آثار توحید کی عظمت واہمیت کی بنیاد صحیح توحید کی معرفت ہے۔ جس کو قرآن وسنت کے عقلی وقطعی اصول سے درک کیا گیا ہو۔
مفکرین اسلامی کے درمیان توحید کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں یہ حقیقت اہمیت موضوع میں مزید اضافہ کا سبب ہے۔ اس فصل میں حضرت علی علیہ السلام کے اقوال کی روشنی میں توحید کے معانی بیان کرنے کے ساتھ ہم اس بات کی کوشش کریں گے کہ مطالب حقہ تک ہماری رسائی ہوسکے۔ توحید کے معنی ہیں پروردگار عالم کا ایک ہونا اس وحدت ویگانگی پر مختلف پہلوئوں سے بحث کی جائے گی ان میں اہم ترین پہلو، توحید ذاتی، توحید صفاتی، توحید افعالی، توحید عبادی ہیں۔
توحید ذاتی: حضرت علیؑ کی نظر میں توحید ذاتی کے معنی یہ ہیں کہ پروردگارکا نہ کوئی شریک ہے نہ کوئی مثل ہے اور نہ کوئی جز ہے اس اعتبار سے توحید کے دیگر معانی چاہے وہ توحید عددی ہو یا توحید نوعی ہو پروردگار سے متعلق صحیح نہیں ہیں۔
حضرت علیؑ نے ایک روایت میں واحد کے معانی بیان فرمائے ہیں اور اس سے متعلق معانیٔ حقہ کو مشخص فرمایا ہے۔ شریح بن ہانی کہتے ہیں کہ جنگ جمل میں ایک اعرابی نے حضرت علی علیہ السلام سے سوال کیا۔ کیا خدا واحد ہے؟ حضرت ؑ کے اصحاب نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا یہ سوال کا کون سا موقع ہے جب کہ حضرتؑ مصروف جنگ ہیں؟ حضرتؑ نے فرمایا اس کو سوال کرنے دو ہماری جنگ بھی اسی بنیاد پر ہے۔ اس موقع پر حضرت نے فرمایا: اے اعرابی! اللہ واحدہے اس قول سے متعلق چار صورتیں ممکن ہیں ان میں دو صورتیں ’’اللہ‘‘ کے بارے میں جائز نہیں ہیں اور دوصورتیں اس کے بارے میں جائز ہیں۔ لیکن دو صورتیں جو اللہ کے بارے میں جائز نہیں ہیں وہ یہ ہیں:
پہلی صورت: اگر کوئی کہنے والا لفظ واحد کہے اور اس کا مقصد عدد ہو تو یہ جائز نہیں ہے اس لیے جس کا کوئی ثانی نہ ہو وہ فہرست اعداد میں شامل نہیں ہوگا۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ وہ شخص کافر ہے جو یہ کہے ’’ثالث ثلٰثۃ‘‘۔ (یعنی تین میں کا تیسرا)
دوسری صورت: اگر کوئی شخص یہ کہے ’’ھوواحد من الناس‘‘ اور اس کے ذریعہ نوع کا ارادہ کرے تو یہ مفہوم اللہ کے لیے جائز نہیں ہے اس لیے کہ تشبیہ ہے اور ہمارا رب اس سے بلند وبالا ہے۔
اور دوصورتیں اللہ کے بارے میں جائز ہیں ان میں سے پہلی صورت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے’’ ھوواحد لیس لہ فی الاشیاء شبہ ‘‘یعنی خدا ایک ہے تمام اشیاء میں کوئی اس کے مشابہ نہیں ہے یقینا ہمارارب ایسا ہی ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ اگر کوئی کہے ’’انہ احدی المعنی‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ وجود کے اعتبار سے نہ اس کی تقسیم کی جاسکتی ہے اور نہ عقل ووہم کے اعتبار سے اس کی تقسیم ممکن ہے’’ کذالک ربنا‘‘۔ (۹)
اس روایت کی بنیاد پر واحد کے چار معنی ہیں:(۱) واحد عددی۔ (۲) واحد نوعی۔ (۳) واحد بمعنیٔ موجود بے نظیر۔ (۴) واحد بمنی موجود ناقابل تقسیم۔ پہلے اور دوسرے معنی اللہ کے لیے ناجائز ہیں اور تیسرے اور چوتھے معنی اللہ کے لیے جائز ہیں۔
تشریح:
 توحید عددی: اس سے مراد وہ واحد ہے جو کثرت اور تعدد کو قبول کرتا ہو چاہے یہ کثرت ایک دوسرے کے ساتھ ہم جنس ومشابہ نہ ہو جب ہم کسی موجود کے لیے لفظ واحد استعمال کرتے ہیں تو اس موجود کے لیے دو، تین وغیرہ کا تصور بھی ممکن ہے اس قسم کے واحد کو اللہ کے لیے استعمال نہیں کرسکتے اس لیے کہ ذات پروردگار تعدد بردار نہیں ہے اور نصاریٰ یہ کفرآمیز جملہ کہتے ہیں:’’ ان اللہ ثالث ثلٰثہ‘‘۔ (سورہ مائدہ آیت؍۷۳)
درحقیقت وہ خد اکے واحد عددی ہونے پر اعتقاد رکھتے ہیں۔
حضرت امیرعلیہ السلام نے مختلف انداز سے پروردگار عالم سے متعلق واحد عددی کی نفی فرمائی ہے۔ واحد عددی کی مذکورہ تعبیرات کے علاوہ دیگر تعبیرات کی جانب بھی اشارہ ممکن ہے۔
واحد لابعددیعنی یگانہ ہے لیکن شمار کے ذریعہ نہیں۔ (۱۰)
الاحدبلاتاویل عدد۔ یعنی وہ یگانہ ہے لیکن عدد کے معنی میں نہیں۔ (۱۱)
واحد لامن عدد۔ یعنی وہ یگانہ ہے لیکن عدد کے ذریعہ نہیں۔ (۱۲)
توحید نوعی: اس سے مراد وہ واحد ہے جو تعدد بردار ہو جنس کے اعتبار سے مماثلت رکھتا ہو۔ لفظ نوع یہ ان افراد پر بولا جاتا ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ مشابہت رکھتے ہوں اور ہم جنس ہوں۔ (۱۳)
مثلاً جب یہ کہاجاتا ہے ’’لیس ھٰذا من نوع ذالک‘‘ تو اس سے مراد یہ ہے کہ یہ دو چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ مشابہ اور ہم جنس نہیں ہیں۔ (۱۴)
اسی طرح جب کسی کے بارے میں کہتے ہیں: ’’واحد من الناس‘‘ تو اس سے مقصد یہ ہوتا ہے متشابہ اور ہم جنس افراد میں سے ایک ہے۔
اس بنا پر وحدتِ نوعی میں تعدد اور تشابہ پایاجاتا ہے۔ واحد نوعی نوع کے دیگر افراد کے ساتھ ہم جنس اور متشابہ ہے اس طرح یہ نہیں کہاجاسکتا کہ خدا وندعالم واحد نوعی ہے اس لیے کہ اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ پروردگار عالم دیگر افراد کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے۔ 
اس اعتبار سے جب ائمہ معصومین علیہم السلام یہ فرماتے ہیں: ’’اللہ شیء‘‘ تو اس کے ساتھ یہ بھی اضافہ فرماتے ہیں ’’لاکالا شیاء‘‘ (۱۵) یعنی خدا شئے ہے لیکن دیگر اشیاء کے مانند نہیں ہے۔
توحید بمعنائے بے نظیر وبے شبیہ
حضرت علی علیہ السلام وحدت عددی اور وحدت نوعی کی نفی فرمانے کے بعد اللہ کے لیے وحدت کے دوسرے معانی بیان فرماتے ہیں: (۱) واحد لیس لہ فی الاشیاء شبہ۔ یعنی وہ واحد کہ تمام اشیاء میں کوئی بھی شئی اس کے مشابہ نہیں ہے۔
ہم اپنی بحث میں توحید کے اس معنی کے خصوصیات کو تفصیل سے بیان کریں گے۔
(۲) یعنی واحد کے دوسرے معنی ہیں کہ جو تجزیہ اور تقسیم کو قبول نہ کرتا ہو۔
توحید کے اس دوسرے معنی میں ذات پروردگار سے ہرقسم کے تجزیہ اور تقسیم کی نفی کی گئی ہے چاہے وہ تقسیم خارجی ہو یا عقلی ہو یا وہمی ہو۔ (۱۶)
خدا کے بارے میں اس کا تصور نہیں کیاجاسکتا جیسا کہ حضرت امیر فرماتے ہیں کہ اللہ کے بارے میں تجزیے (یعنی جزء جزء ہونا) اور تبعیض کا تصور ناممکن ہے۔ (۱۷)
حضرت امیر علیہ السلام کا یہ بھی ارشاد ہے کہ پروردگار جزء نہیں رکھتا کہ جس کے ذریعہ اس کی توصیف کی جاسکے اور نہ وہ اعضاء وجوارح رکھتا ہے جن کے ذریعہ اس کی توصیف ممکن ہو۔ اور نہ وہ عرض ہے اور نہ پروردگار کی اس طرح توصیف ممکن ہے کہ اس کے بارے میں یہ کہیں کہ وہ دوسروں کا غیر ہے۔ (۱۸)
اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ذات پروردگار میں ترکیب کا کوئی گذر نہیں اور نہ وہ تجزیہ اور تحلیل کو قبول کرتا ہے۔ اس کی فاعلیت فاعلیتِ ارادی ہے۔ اس کی لامن شی سے ہے اور نہ یہ کہ اس کی خلقت کسی دوسرے کے فیضان کے سبب ہے (یعنی کسی دوسرے نے اس کو وجود نہیں بخشا) اور نہ یہ کہ تمام موجودات اس کے ہم جنس بلکہ اس کے عین وجود ہوں۔
دوم: توحید صفاتی: اس سے مراد یہ ہے کہ جس طرح پروردگار ذات کے اعتبار سے یگانہ وبے مثل ہے اسی طرح اپنے صفات کمالیہ میں بھی یگانہ و بے مثل ہے اس کے صفات میں کوئی اس کا مثل ونظیر نہیں ہے۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: اللہ کے علاوہ ہر غلبہ وطاقت والا عاجز وناتواں ہے اور اس کے علاوہ ہر مالک مملوک ہے۔ اور ہر عالم اس کے علاوہ طالب علم ہے اور اس کے علاوہ ہر قدرتمند کمزور وناتواں ہے۔ (۱۹)
ان کلمات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صفات پروردگار اس سے مخصوص ہیں کوئی دوسرا ان میں شریک نہیں ہے۔ کوئی بھی عالم وقادر، مالک اس کے بالمقابل نہیں ہے بلکہ سب اسی کی وجہ سے عالم وقار ومالک ہیں۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمام اشیاء کے صفات وکمالات خدا کے صفات ہیں اوران کے علاوہ خدا کی مطلقاً صفات وکمال نہیں ہیں۔ اس لیے کہ دلیل اس مطلب پر دلالت کرتی ہے کہ انسان کے صفات کمالی جیسے قدرت وحیات خود اسی سے مربوط ہیں نہ یہ کہ وہ صفات پروردگار ہیں دوسرے لفظوں میں یوں کہاجائے کہ تمام موجودات کے صفات وکمالات خدا کے ارادے کے سبب ہیں لیکن اس کے صفات نہیں ہیں۔
توحید افعالی: اس سے مراد یہ ہے کہ اس دنیا میں تمام امور پروردگار کے ارادے اور مشیت سے انجام پاتے ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ یہ انسان کے اپنے افعال میں صاحب اختیار ہونے سے کوئی منافات نہیں رکھتی اس لیے کہ فعل اختیاری کے مقدمات میں سے خود اختیار ہے کہ اللہ نے اس قدرت واختیار کا انسان کومالک بنایا ہے۔ اللہ کا ارادہ ومشیت انسان کے فعل اختیاری سے متعلق ہے۔
لیکن مکتب فلسفہ وعرفان کی جانب سے توحید افعالی سے متعلق کچھ نظریات وارد ہوئے ہیں جو صحیح نہیں معلوم ہوتے مثلاً یہ کہ ارادۂ خدا وندی بلکہ اس کی ذات تمام موجودات کی علت تامہ ہے۔ انہیں میں سے افعال انسان بھی ہیں۔
اس نظریے سے بخوبی واضح ہے کہ بندے اپنے افعال میں مجبور ہیں اور ان کے اختیارات کا کوئی دخل نہیں ہے۔ دوسری جانب سے وحدت وجود وموجود کی بناء پر بھی چونکہ غیریت درکار نہیں ہے فعل کی نسبت انسان کی جانب مجازی ہے اور یہاں جبر وتفویض کا موضوع بھی نہیں ہے۔
لاہیجی شرح گلشن میں مراتب شہود کو بیان کرتے ہوئے کہ ان میں سے ایک توحید افعالی ہے تحریر فرماتے ہیں: حضرت حق تعالیٰ افعال کی تجلی میں سالک پر متجلی ہوتا ہے اور سالک صاحب تجلی تمام افعال واشیاء کو حق تعالیٰ میں فانی سمجھتا ہے اور کسی بھی مرتبہ میں کوئی شئی علاوہ حق تعالیٰ کے اس کو نظر نہیں آتی اور وہ اس کے غیر کو مؤثر نہیں سمجھتا۔ (۲۰)
توحید عبادی: حضرت علی علیہ السلام اذان کی خوبیوں اور عظمتوں کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اما قولہ اشھدان لاالہ الااللہ‘‘ جب مؤذن اس کلمہ کو ادا کرتاہے تو گویا اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اس بات کو جان لو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اس کے علاوہ ہر معبود باطل ہے۔ (۲۱)
حضرت امیر علیہ السلام نے ایک دوسری حدیث میں فرمایا ہے کہ بعثت نبوی کے اہم مقاصد میں سے ایک مقصد لوگوں کو عبادت الٰہی کی جانب توجہ دلانا تھا۔ چنانچہ آ پ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’وہ خدا جس نے محمدؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے تاکہ اپنے بندوں کو اپنے بندوں کی پرستش سے اپنی عبادت کی جانب متوجہ کرے۔ (۲۲)
عبادت خشوع وخضوع کے معنی میں ہے اور مخلوقاتِ الٰہی میں سے کسی بھی مخلوق کی دوسری مخلوق کی مولویت اور مالکیت کی طرف نسبت نہیں ہے (یعنی اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا اس مخلوق کا مالک، مولی نہیں ہے تاکہ اس کی بارگاہ میں خشوع وخضوع لازم ہو اس لیے کہ فقط عبادت اور خشوع وخضوع کا مستحق حقیقی مالک ومولا ہے۔) یہ عبادت وخشوع وخضوع اس کی اطاعت وپیروی کے ساتھ ہوگی اسی لیے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام آیۂ کریمہ ’’واتخذوا من دون اللہ الخ‘‘ (۲۳)کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’وہ لوگ جنہوں نے خدائے متعال کے علاوہ دوسروں کو اپنا معبود قرار دیا ہے روز قیامت وہ معبود ان کی مخالفت کریں گے۔ اور وہ ان سے اور ان کی عبادت سے بیزاری اختیار کریں گے۔‘‘
پھر حضرت نے فرمایا: عبادت وپرستش فقط رکوع وسجود بجالانے کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی اطاعت وفرمانبرداری ہی اس کی عبادت ہے۔ اور جو شخص بھی کسی مخلوق کی اللہ کی معصیت میں اطاعت کرے اس نے اس مخلوق کی عبادت کی ہے۔ (۲۴)
ادلۂ توحید: ۱۔ فطرت:دینی منابع کی بناء پر خداشناسی ایک فطری جذبہ ہے خدائے متعال نے اپنے فضل ومہربانی کے ذریعہ تمام انسانوں کی فطرت کو اپنی معرفت کے ساتھ جوڑ دیا ہے اس اعتبار سے جب کوئی انسان دنیا میں آتا ہے تو اپنے ہمراہ ذات پروردگار اور اس اسماء وصفات کی معرفت اپنے ہمراہ لے کر آتا ہے یہ معرفت الٰہی کا فطری جذبہ مختلف اسباب کے ذریعہ مثلاً پیغمبران الٰہی کی نصیحت اور کائنات کے رموز واسرار میں غوروفکر کے ذریعہ یاد آتا ہے حضرت علیؑ نے اپنے ایک انتہائی عمدہ ترین قول میں فرمایا: انبیاء الٰہی کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری فطری میثاق کو واپس لانا اور اس فراموش شدہ نعمت کی یاد آوری کرانا ہے یعنی خداشناسی۔
پروردگار عالم اپنے انبیاء کو بندوں کے درمیان مسلسل بھیجتا رہا تاکہ ان کے عہدوپیمان کو ابھاریں اور ان کو ان کی فراموش شدہ نعمت کو یاد دلائیں۔(۲۵)
اس فطری معرفت میں توحید پروردگار کی معرفت موجود ہے اس میں پروردگار عالم کو بندوں کے درمیان خدائے وحدہ لاشریک کے عنوان سے پہنچوایا گیا ہے۔
معرفت فطری کا محور خدائے واحد ہے لامحالہ فطری معرفت کی جانب توجہ کرنا خدائے واحد کی جانب توجہ کرنا ہے۔ جیسا کہ کتاب توحید میں ابوہاشم کے حوالہ سے روایت میں آیا ہے۔ (راوی کہتا ہے) میں نے حضرت امام جواد علیہ السلام سے سوال کیا کہ واحد کے معنی کیا ہیں؟ حضرت نے فرمایا: وہ کہ جس کی وحدانیت پر سب متفق ہوں جیسا کہ پروردگار فرماتا ہے: اگر ان لوگوں سے پوچھو کہ کس نے آسمان وزمین کو زیور وجود سے آراستہ کیا ہے؟ وہ بغیر کسی شک وتردید کے یہی کہیں گے خدا۔ (۲۶)
ایک روایت میں حضرت امیر نے توحید کے فطری ہونے کو اس طرح بیان فرمایا ہے: ’’اس میں کوئی شک نہیں وہ بہترین وسیلہ جس کو تلاش کرنے والوں نے اپنایا ہے اور پروردگار سے متوسل ہوئے ہیں وہ کلمۂ اخلاص ہے اور یہی فطرت الٰہی ہے۔ (۲۷)
۲۔ ہماہنگی اور وحدتِ تدبیر:توحید پروردگار کی دلیل اس نظام ہستی کا ایک ہونا ہے اس کائنات میں ہر طرف پروردگار کی ربوبیت کے بکھرے ہوئے نمونوں میں غوروفکر کے ذریعہ اس کی وحدانیت کو سمجھاجاسکتا ہے۔ قرآن کریم لوگوں کو تکوینی نشانیوں میں غوروفکر کی دعوت دیتا ہے تاکہ اس راہ سے خالق کائنات اور اس کی وحدانیت کو سمجھ سکیں۔ جیسا کہ سورۂ نمل کی آیات ۶۰ سے ۶۴ تک ہر آیت میں اللہ کی کچھ نعمتوں اور بخششوں کو ذکر کیا ہے اس موقع پر ’’ ء الہ مع اللہ‘‘ اس جملے کے ذریعہ اللہ کی وحدانیت پر استدلال کیاجاسکتا ہے مثلاً آیت نمبر ۶۴ میں فرماتا ہے: ’’وہ کون ہے جو خلقت کا آغاز فرماتا ہے پھر اس کو پلٹاتا ہے اور وہ کون ہے جو تم کو آسمان وزمین سے رزق عطا فرماتا ہے کیا خدا کے ساتھ دوسرا معبود ہے (اے رسول) تم کہہ دو اگر تم سچے ہو اپنی دلیل پیش کرو۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کہ جو مکتب قرآن کے پروردہ ہیں وہ ایک جانب آسمان وزمین کے کچھ رموز واسرار کو بیان فرماتے ہیں۔ (۲۸)۔ اور دوسری جانب نصیحت فرماتے ہیں تمام چیزوں کا خالق خدائے واحد ہے۔ (خطبہ نمبر؍۱۸۵) میں ارشاد فرماتے ہیں: اگر تم غوروفکر کے راستے پر چلو تو تم اس کے ذریعہ وحدانیتِ پروردگار تک پہنچ جائو گے۔ تم کو معلوم ہوگا کہ جو چیونٹیوں کا پیدا کرنے والاہے وہ ہی درختوں کا خالق ہے اور تم کو یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ تمام مخلوقات چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی ہو، کمزور ہو یا قوی ہو، خلقت میں سب ایک دوسرے کے مانند ہیں ۔ درحقیقت اس کائنات کی تمام مخلوقات کی ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی اور خلقت کا استحکام اس بات کی علامت ہے کہ اس جہان ہستی پر صرف ایک قوت حاکم ہے
(۳) شریک پروردگار کی نشانیوں کا نہ ہونا: حضرت علی علیہ السلام کے بیانات میں اللہ کے شریک نہ ہونے پر اس کے آثار ونشانیاں موجود نہ ہونے کے ذریعہ تیسری دلیل اس طرح پیش کی گئی ہے کہ اگر خدائے واحد کا کوئی شریک وہمسر ہوتا تو اس دنیا میں ضرور اس کی صفت وتدبیر کے آثار موجود ہوتے اور چونکہ ایسا نہیں ہے اس سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ کوئی دوسرا خدا نہیں ہے۔ حضرت امیر علیہ السلام نے اسی دلیل کو حضرت امام حسن علیہ السلام کے نام ایک مکتوب میں نہایت خوبصورت انداز میں مزید وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ’’اے میرے فرزند! اگر تمہارے پروردگار کا کوئی شریک ہوتا تو اس کے رسول بھی تمہاری جانب آتے اور اس کی سلطنت وملکیت کے آثار کا بھی تم ضرور مشاہدہ کرتے اور اس کے کچھ افعال وصفات بھی معلوم ہوتے مگر وہ ایک ہے جیساکہ خود اس نے بیان کیا ہے۔ (۲۹)
یہ تمام آثار وعلامات اپنے خالق کے وجود پر دلالت کرتے ہیں اس اعتبار سے مخلوقات میں اور ان پر حاکم نظم وتدبیر میں غوروفکر سے وجود خالق کی جانب راہنمائی ہوتی ہے بہرحال یہ تمام آثار ومخلوقات اس سے قطع نظر کہ یہ وجود خالق پر دلالت کرتے ہیں اس خالق کی وحدانیت پر بھی دلالت کرتے ہیں جیسا کہ گذشتہ دلیل میں بیان کیا گیا ہے۔ مخلوقات کی نظم وہم آہنگی خدائے واحد کی خبر دیتی ہے۔ موجودہ مخلوقات کے علاوہ کسی دوسرے کے آثار ومخلوقات درمیان میں نہیں ہیں تاکہ دوسرے خالق کے وجود پر دلالت کریں۔
خدائے متعال کے وہ آثار جن کو حضرت علی علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے۔ ان میں سے ارسال رُسُل (یعنی دنیا میں رسولوں کا بھیجنا) بھی ہے اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ انبیاء علیہم السلام خدائے واحد کے بارے میں خبر دیتے ہیں اور دوسرے خدا کے وجود کی نفی کرتے ہیں۔ اگر دوسرا خدا درمیان میں ہو تو انبیاء جھوٹے قرار پائیں گے حالانکہ انبیاء کی صداقت دین اسلام کے واضح ترین حقائق میں سے ہے۔
اگر کوئی کہے: ممکن ہے اس دنیا کے پیدا کرنے والے چند خالق ہوں اور وہ باہم ایک دوسرے کے ساتھ اس دنیا کے نظم وترتیب میں موافقت رکھیں اور سب اپنے اپنے دائرۂ کار کو مشخص کرلیں؟ اس اعتراض کا جواب یہ ہوگا کہ یہ خیال ان فرض شدہ خدائوں کی محدودیت پر دلالت کرتا ہے اور نقص ومحدودیت مخلوقات کے صفات میں سے ہے۔ خالق ان صفات سے بری ہے۔
توحید کے شرائط: حضرت علی علیہ السلام کے اقوال میں غوروفکر کے بعد ہم اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ توحید واقعی جس کا تذکرہ قرآن وسنت میں ہوا ہے اور امام کے اقوال میں بھی اس کا وجود ملتا ہے اس توحید واقعی کی منزل تک پہنچنے کے لیے کچھ شرائط ہیں جو بہت ضروری ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک شرط مفقود ہوگی تو یہ نفی توحید کے مترادف ہوگا۔
توحید کے شرائط یہ ہیں : (۱) انکار تشبیہ۔ (۲) توصیف پروردگار کا ممکن نہ ہونا۔ (۳) تباین کا ہونا۔
پہلی شرط: انکارتشبیہ۔ یعنی انسان حقیقت توحید تک اسی وقت پہنچ سکتا ہے جب ذات الٰہی سے ہر قسم کی تشبیہ ومثل ونظیر کی نفی کرے اس کی جھلک حضرت علیؑ کے اقوال میں پائی جاتی ہے ہمیشہ آپ نے اس مفہوم کی جانب تاکید فرمائی ہے۔ مثلاً ایک جگہ آپ فرماتے ہیں: ’’وہ یعنی پروردگار تمام مخلوق سے جدا ہے کوئی چیز اس کے مانند نہیں ۔ (۳۰)۔ دوسری جگہ حضرتؑ ارشاد فرماتے ہیں: اللہ کے لیے نہ کوئی مثل ہے اور نہ کوئی نظیر ہے۔ (۳۱)۔ حضرت کا یہ بھی ارشاد ہے: وہ یعنی خدا وندعالم واحد ویگانہ ہے، دیگر اشیاء کے مانند نہیں ہے۔ (۳۲)۔ اسی طرح حضرت نے یہ بھی فرمایا ہے: وہ اپنے وجود پر اپنی مخلوق کی قوت کے ذریعہ اور اپنے ازلی ہونے اور اپنی مخلوق کے حادث ہونے پر گواہ ہے۔(۳۳)
حضرت امیر علیہ السلام کے اس قول کے یہ معنی ہیں کہ پروردگار اپنی مخلوق کے ساتھ ہر قسم کی مشابہت ویگانگت سے پاک ومنزہ ہے تمام اشیاء اس اعتبار سے کہ حادث ہیں عالم وجود میں آنے کے لیے ایک خالق کے محتاج ہیں اور تمام مخلوق اس احتیاج میں یکساں ہیں۔ لیکن چونکہ ذات پروردگار ازلی وبے نیاز ہے وہ کسی خالق کا محتاج نہیں ہے۔ اس کے مثل کوئی نہیں ہے۔ (مثل ہونے کی صورت میں) اس کی مخلوق اس کے مانند قرار پائے گی وہ ہمیشہ اہل معرفت کے نزدیک مشابہت رکھنے والوں اور اضداد سے پاک ومنزہ ہے۔
دوسری شرط: خدا کی توصیف ناممکن ہے۔ یہ نکتہ نہایت قابل توجہ ہے کہ کسی حقیقت کی معرفت اسی وقت ممکن ہوگی جب ہم اس کا ادراک کریں اور پھر اس کی معرفت حاصل کریں لیکن ذاتِ پروردگار اپنے لامحدود قدس ونورانیت کے سبب عقل وفکر کے دائرے سے باہر ہے۔ (۳۴)
حضرت امیرعلیہ السلام کی نظر میں پروردگار عالم کی توصیف کا مطلب اس کو محدود کرنا ہے۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں: ’’جو شخص خدا کے لیے کسی صفت (یعنی زائد برذات) کا قائل ہو اس نے خدا کو محدود کردیا اور جس نے اس کو محدود کردیا وہ اس کو شمار میں لے آیا اورجو اس کو شمار میں لے آیا اس نے خدا کی ازلیت کو باطل قرار دیا اور جس نے اس کی کیفیت کے بارے میں سوال کیا وہ اس کی صفت (یعنی زائد برذات) کا قائل ہوا۔ (۳۵)
پس اللہ کی صفت (یعنی زائد برذات) کا لازمی نتیجہ اس کو محدود کرنا ہے اور اس سے قبل یہ بیان کیاجاچکا ہے کہ توحید عددی کا اس کے لیے استعمال نہیں کیاجاسکتا۔ اس مفہوم کے واضح طور پر بطلان سے متعلق اپنی دلیل پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر اس سے مربوط حضرت علی علیہ السلام کے اقوال کا ذکر کریں گے۔
پہلی دلیل: ذات پروردگار ہماری عقل کے دائرے میں نہیں سما سکتا اس مطلب کو پیش نظر رکھتے ہوئے خالق ومخلوق کے درمیان سنخیت نہیں ہے۔ (یعنی دونوں ایک حقیقت نہیں رکھتے۔)
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ذات پروردگار ایک ایسا وجود ہے جس کی حقیقت دیگر تمام حقائق سے جدا ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ ایک مبائن کا دوسرے مبائن سے کوئی تعلق نہیں ہے پھر یہ انسان ذات پروردگار کا کس طرح ادراک کرسکتا ہے۔ حقیقت انسان حقیقت پروردگار سے جدا ہے۔
دوسری دلیل: انسان ایک محدود مخلوق ہے اور ایک محدود مخلوق لامحدود حقیقت کو درک نہیں کرسکتی۔ بنابریں ذات پروردگار کا احاطہ یا دوسرے لفظوں میں اس کی حقیقت تک پہنچنا ناممکن ہے۔
تیسری دلیل: انسانی فکروذہن کچھ مفاہیم کے ذریعہ حقائق تک پہنچتا ہے۔ دوسری جانب سے ہر مفہوم کی چمک ایک خاص حد تک پہنچتی ہے اور چونکہ خداوندعالم کی کوئی حد نہیں ہے ہماری فکرو ذہن میں اس کا کوئی مفہوم نہیں سما سکتا۔
پروردگار کی توصیف (یعنی زائد برذات) یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کی آیات وروایات میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے۔ ’’آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں لیکن وہ آنکھوں کا ادراک کرتا ہے۔ (سورہ انعام؍۱۰۲)
دوسری جگہ فرماتا ہے: تمہارا رب عزت کا مالک ان باتوں سے پاک ہے جو لوگ اس کے بارے میں کہتے ہیں۔ (سورہ صافآت؍۱۸۰)
اور ایک مقام پر اس طرح فرماتا ہے۔ ان لوگوں نے (یعنی یہودیوں) نے خد اکی اس طرح قدر نہیں کی جیسی قدر کرنا چاہئے تھی۔ (سورہ انعام؍۹۱)
(سورہ نجم آیت؍۴۲) میں اس طرح فرماتا ہے: بے شک سب کو تمہارے رب کی جانب پہنچنا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں فرماتے ہیں: دین کا آغاز معرفت پروردگار ہے اور خدا کی معرفت کا کمال اس کی تصدیق ہے اور اس کا کمال تصدیق اس کی وحدانیت ہے اور کمال توحید اخلاص ہے اور کمال اخلاص یہ ہے کہ اس کی ذات سے صفت کی نفی کی جائے اس لیے کہ ہروصف گواہی دیتا ہے کہ وہ موصوف کا غیر ہے۔ اور ہر موصوف گواہی دیتا ہے کہ وہ صفت کا غیر ہے۔ پس جو بھی خدائے سبحان کی توصیف کرے اس نے اس کو کسی چیز کے نزدیک کیا ہے اور جس نے اس کو کسی چیز سے نزدیک کیا ہے اس نے اس کو دو قرار دیتا ہے اور جو اس کے دو ہونے کا قائل ہو اس نے اس کو تجزیہ کیا اور جس نے اس کا تجزیہ کیا اس نے اس کو نہیں پہچانا اور جو اس کو نہ پہچانے وہ اس کی جانب اشارہ کرتا ہے اور جو اس کی طرف اشارہ کرے اس نے گویا خدا کو محدود کیا اور جو اس کو محدود کرے اس نے اس کو معدود بنایا ہے۔ (۳۶)
دوسری جگہ حضرت ارشاد فرماتے ہیں: عبادت پروردگار کا آغاز اس کی معرفت ہے اور معرفت خدا کی اصل اس کی توحید ہے اور نظام توحید اس کی ذات سے صفات کی نفی ہے وہ بلند وبالا ہے اس سے کہ اس کی جانب صفات کا رخ ہو۔ اس لیے کہ عقلیں گواہی دیتی ہیں اس بات پر کہ جس کے لیے صفات کی تجویز کی جائے وہ مصنوع اور مخلوق ہے۔ اور عقلیں گواہی دیتی ہیں کہ پروردگار صانع ہے مصنوع نہیں۔(۳۷)
پروردگار کی توصیف (زائد برذات) کے ناممکن ہونے کو مندرجہ ذیل روایات میں اس طرح بیان کیا گیاہے وہ ایسی صفت نہیں رکھتا جو قابل ادراک ہو وہ ایسی حدنہیں رکھتا جس کی مثالیں بیان کی جائیں۔ آنکھیں اس کی صفات کے مقابلے میں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں۔ مختلف صفات اس کی بارگاہ قدرت میں رک جاتے ہیں ہماری فکریں اس کی بارگاہ ملکوتی میں حیران ہیں۔
وہ پاک ومنزہ ہے وہ اسی طرح جیساکہ خود اس نے اپنی توصیف فرمائی۔ دیگر توصیف کرنے والوں کی رسائی اس تک ناممکن ہے۔ (۳۸)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ حضرت امیر مسجد کوفہ میں خطبہ ارشاد فرمارہے تھے دوران خطبہ ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا: اے امیرالمومنین! ہمارے لیے خدا کی توصیف فرمائیے تاکہ ہمارے قلوب میں اس کی محبت ومعرفت میں اضافہ ہو۔ یہ سن کر حضرت ناراض ہوگئے اعلان فرمایا: الصلوٰۃ جامعہ۔ یہ سن کر لوگ جمع ہوگئے مسجد لوگوں سے بھر گئی۔ حضرت اسی ناراضگی کی حالت میں بالائے منبر تشریف لے گئے خد اکی حمدوثناء بجالانے کے بعد محمد وآل محمدؐ پردرودوسلام بھیجا پھر اس طرح آپ نے فرمایا: خدائے متعال اہل فکر کی فکروں میں نہیں سماسکتا۔ عقل وفکر اس کی حقیقت ذات تک پہنچنے سے قاصر ہے یہاں تک کہ اس کی عظمت وجلالت کی ایک جھلک تک بھی انسانی عقل وفکر نہیں پہنچ سکتی۔ اس لیے کہ وہ مخلوق کی محدود ادراکی قوتوں کے دائرے میں نہیں سماسکتا۔ اس کی حقیقت الگ ہے اور مخلوق کی حقیقت الگ ہے۔ بے شک ہر چیز اس چیز کے مشابہ ہے جو اس سے مماثلت رکھتی ہے اور جو ذات اپنا مثل ونظیر نہیں رکھتی وہ کس طرح دوسری چیز کے مشابہ ہوگی۔ (۳۹) پروردگار سے متعلق ہر قسم کے تصور کی نفی سے متعلق حضرت امیر علیہ السلام کے ایک کلام کا ذکر کرکے اس بحث کو یہیں تمام کرتے ہیں۔
حضرت امیر علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے: حقیقت توحید یہ ہے کہ تم اپنی عقل وفکر کے ذریعہ اس کا کوئی تصور نہ کرو۔(۴۰)
تیسری شرط: تباین۔ یہ توحید کی تیسری بنیادی شرط ہے جس سے مراد یہ ہے کہ خالق ومخلوق کے درمیان ذات وصفت کے اعتبار سے تباین وجدائی موجود ہے۔ اور خالق ومخلوق کے درمیان تبائن ذاتی وصفتی سے مراد یہ ہے کہ پروردگار ذات اور تمام صفات میں اپنی مخلوق سے حقیقتاً جدا ہے خالق ومخلوق کے درمیان کوئی شرکت نہیں ہے۔ خداشناسی سے متعلق یہ موضوع قرآن وسنت کے مسلمات میں سے ہے اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہم یہاں حضرت علی علیہ السلام کے کچھ اقوال کا ذکر کرتے ہیں۔
حضرت علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: وجود پروردگار کی دلیل اس کی واضح نشانیاں ہیں۔ ان نشانیوں کا ہونا وجود پروردگار پر دلالت کرتا ہے اور اس کی معرفت اس کی وحدانیت پر ایمان لانا ہے اور توحید یہ ہے کہ اس کو اس کی مخلوق سے علیحدہ رکھاجائے اور یہ جدائی ایک صفت ہے مکانی اعتبار سے دوری نہیں ہے۔
پروردگار خالق ہے مخلوق نہیں اور جو کچھ (اس کے بارے میں) وہم وگمان کرتے ہیں وہ اس کے خلاف ہے۔ (۴۱)
حضرت علی علیہ السلام کا یہ بھی ارشاد گرامی ہے: حمدوثناء مخصوص ہے اس پروردگار سے جو اپنی مخلوق کے ذریعہ اپنے وجود پر دلالت کرتا ہے اور اس مخلوق سے جدا ہے لیکن اس طرح نہیں کہ وہ ان سے کچھ مسافت کی دوری پر ہے۔ وہ اپنے غلبہ وقدرت کے سبب تمام اشیاء سے جدا ہے اور تمام اشیاء اس سے جدا ہیں اس لیے کہ وہ اس کے سامنے سجدہ ریز ہیں اور ان کی بازگشت اس کی جانب ہونے والی ہے۔ (۴۲)
ایک دوسری جگہ حضرت فرماتے ہیں: حمدوثناء کا مستحق ہے وہ پروردگار جس نے افکار کو اپنی حقیقت تک پہنچنے سے قاصر بتایا ہے اور عقلوں کو اپنی اس ذات کے تصور سے کہ جو بے شبیہ ہے دور رکھا ہے اس کی ذات میں کوئی تفاوت نہیں ہے وہ عدد کے ذریعہ نہ شمار کے دائرے میں آسکتا ہے اور نہ قابل تجزیہ ہے۔ وہ تمام چیزوں سے جدا ہے لیکن اس معنی میں نہیں کہ وہ ان سے دور ہے۔(۴۳)
حضرت کا یہ بھی ارشاد ہے: حمدوثناء مخصوص ہے اس پروردگار سے جو واحد ویگانہ ہے بے نیاز ہے اس کا وجود کسی چیز کی وجہ سے نہیں اس نے اپنی مخلوق کو کسی چیز سے پیدا نہیں کیا وہ اپنی قدرت وغلبہ کے ذریعہ تمام چیزوں سے جدا ہے اور تمام چیزیں اس سے جدا ہیں اس نے ان اشیاء کو ان کی تخلیق کے موقع پر محدود قرار دیاتاکہ یہ واضح وآشکار ہو جائے کہ وہ اس سے مشابہ نہیں ہے اور نہ وہ اشیاء اس سے مشابہ ہیں۔ (۴۴)
ایک جگہ حضرت نے یہ فرمایا ہے کہ حمدوثناء اس خد اکے لیے ہے جس کا وجود کسی چیز کی وجہ سے نہیں ہے اس نے مخلوقات کو کسی چیز کی وجہ سے پیدا نہیں کیا وہ صفات میں اپنی مخلوقات سے جدا ہے۔ (۴۵)
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ پروردگار تمام مخلوقات سے جدا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ خالق ومخلوق کے درمیان جدائی درحقیقت یکسانیت کی نفی کے ساتھ ہے۔ تمام صفات میں جدائی سے مراد یہ نہیں ہے کہ خالق ومخلوق کے درمیان فقط صفات میں جدائی برقرار ہے اور ذات میں جدائی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس حدیث میں صفت کے معنی متصف ہونے کے ہیں۔ یعنی پروردگار صفت میں اپنی مخلوق سے جدا ہے اور اس وجہ سے کہ صفات پروردگار عین ذات ہیں۔ درحقیقت حدیث مذکورہ باعتبارذات جدائی کی تاکید کرتی ہے۔ اس کے علاوہ مذکورہ حدیث بخوبی خالق ومخلوق کے مابین تبائن ذاتی کو آشکار کررہی ہے اس لیے کہ اگر یہ فرض کرلیاکہ پروردگار ذات کے اعتبار سے اپنی مخلوق کے ہم جنس ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ پروردگار اپنی مخلوق سے مشابہت رکھتا ہے۔ حالانکہ روایت بارگاہ ربوبی سے تمام اوصاف کی نفی کرتی ہے نتیجہ یہ ہے کہ حدیث مذکورہ اس بات کی نفی کرتی ہے کہ پروردگار اپنے مخلوق کے ہم جنس ہے۔
ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ حضرت امیرعلیہ السلام سے پوچھا گیا۔ کہ آپ نے اپنے رب کو کس چیز سے پہچانا؟ حضرتؑ نے فرمایا اس چیز سے کہ جس کا اس نے حکم دیا ہے۔
حضرت سے سوال کیا گیا کہ پروردگار نے کس طرح اپنے کو پہچنوایا ہے؟ حضرتؑ نے فرمایا: نہ کوئی صورت اس سے مشابہت رکھتی ہے اور نہ حواس کے ذریعہ اس کو محسوس کیاجاسکتا ہے اور نہ لوگوں پر اس کا قیاس کیاجاسکتا ہے۔ وہ دور ہوتے ہوئے بھی قریب ہے اور قریب ہوتے ہوئے بھی دور ہے۔ وہ ہر چیز کے اوپر ہے لیکن اس کے بارے میں یہ نہیں کہاجاسکتا کہ فلاں چیز اس کے اوپر ہے۔ وہ ہر چیز کے آگے ہے اس کے لیے یہ نہیں کہاجاسکتا کہ کوئی چیز اس سے آگے ہے وہ تمام اشیاء میں داخل ہے لیکن اس طرح نہیں کہ اس کے بارے میں یہ کہاجائے کہ فلاں چیز اس میں داخل ہے۔پاک ومنزہ ہے وہ ذات کہ جو ایسی ہی ہے اور اس کا غیر یہ صفات نہیں رکھتا۔ (۴۶)
اس روایت میں امام علیہ السلام نے یہ پیغام دیا ہے کہ پروردگار کی نہ کوئی شبیہ ہے کسی بھی صورت میں اس کا کوئی ہم جنس نہیں ہے اور نہ مخلوقات کے درمیان کوئی شبیہ رکھتا ہے۔ خالق ومخلوق کے درمیان مکمل طور پر تباین وجدائی برقرار ہے۔ گویا ان بیانات نے خالق ومخلوق کے درمیان تباین سے متعلق مزید توضیح سے بے نیاز کردیا ہے۔ حضرتؑ نے اس جملے میں جس چیز کی تاکید فرمائی ہے وہ یہ کہ مقدس بارگاہِ الٰہی ہرقسم کی تشبیہ اور ہم جنس جو قابل تصور ہو اس سے دور ہے مذکورہ فرمان میں آخری جملے انتہائی لطافت سے بھرپور ہیں اس طرح کہ اگر ہم اس سے متعلق (یعنی اللہ) کو سنخیت وہم جنسیت کو قبول کرلیں تو ہم ہرگز اس کی تشریح نہیں کرسکتے۔
یہ کہ امامؑ فرماتے ہیں: ’’قریب فی بعدہ وبعید فی قربہ‘‘ یہ فقرہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ سنخیت درمیان میں نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کے کوئی معنی نہیں ہیںکہ جو چیز دور ہو وہ قریب بھی ہو اور جو چیز نزدیک ہو وہی چیز دور بھی ہو۔
حضرت علیؑ ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: وہ تمام اشیاء سے قریب ہے (لیکن اس طرح کہ) وہ ان سے ملا ہوا نہیں ہے اور ان سے دور بھی ہے (لیکن اس طرح کہ) وہ ان سے جدا بھی نہیں ہے۔ وہ متکلم ہے لیکن اس طرح کہ اس کو پہلے سے) غوروفکر اور ارادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے وہ صانع ہے۔ (لیکن ایسا کہ) وہ اعضاء وجوارح کا محتاج نہیں ہے۔(۴۷)
مذکورہ فرمان میں اس عبارت سے ’’قریب من الاشیاء غیر ملابس وبعیدمنھا غیر مباین‘‘ کم از کم دوحقیقتوں تک رسائی ہوسکتی ہے:
پہلی حقیقت یہ کہ خارج میں دو حقیقتیں موجود ہیں ان میں عینیت درکار نہیں ہے۔ یہ تعبیر اور وہ تمام روایات جن میں یہ مضمون نقل ہوا ہے وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ دوحقیقتیں موجود ہیں ایک وہ کہ جو بذات خود قائم ہے دوسری وہ کہ جو اپنے قائم ہونے میں دوسرے کی محتاج ہے۔
دوسری حقیقت یہ کہ خالق ومخلوق کے درمیان کوئی سنخیت نہیں ہے اور اس سے متعلق ہر قسم کی مشابہت جو ہمارے ذہن میں آئے وہ ممنوع ہے۔
اس روایت میں حضرتؑ نے فرمایا: ’’قریب من الاشیاء وغیر ملابس‘‘عموماً ایسی دوچیزیں جو ایک دوسرے سے نزدیک ہوں ان کے درمیان مناسبت ہوتی ہے۔ لیکن ذات پروردگار باوجودیکہ تمام اشیاء سے نزدیک ہے اور انسان کی شہ رگ سے زیادہ اس سے قریب ہے۔ وہ مخلوقات کے ساتھ ملابست نہیں رکھتا لیکن اس اعتبار سے کہ تمام چیزیں پروردگار کی وجہ سے قائم ہیں۔ درحقیقت وہ تمام اشیاء سے خود ان سے زیادہ قریب ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان سے جدا بھی ہے اور دور بھی ہے۔ لیکن اس معنی میں نہیں کہ وہ بُعْدِ مکانی رکھتا ہے کہ وہ یعنی پروردگار کسی ایک جگہ ہو اور دیگر تمام اشیاء دوسری جگہ پر ہوں یہاں باعتبار مکان جدائی مراد نہیں ہے بلکہ باعتبار حقیقت ذات جدائی مراد ہے۔
حضرت علی علیہ السلام اس حدیث میں سلسلۂ بیان کو جاری رکھتے ہوئے خالق ومخلوق کے درمیان مشابہت کی نفی کے بعد فرماتے ہیں: پروردگار متکلم ہے لیکن اس طرح نہیں جیسا کہ مخلوق کلام کرتی ہے اس لیے کہ مخلوق پہلے سوچتی ہے پھر کلام کرتی ہے خداوندعالم صاحب ارادہ ہے لیکن انسان کے مانند نہیں کہ جو اس مقصد کے لیے پہلے کچھ مقدمات کی فراہمی کا محتاج ہوتا ہے۔ مثلاً تصور، تصدیق، شوق، عزم۔
خداوندعالم خالق ہے لیکن مخلوق کے مانند خالق نہیں ہے لیکن مخلوق کچھ آلات کے ذریعہ کسی چیز کو وجود میں لاتی ہیں۔(۴۸)
وحدت شخصی وجود اور توحید پروردگار
وہ تمام روایات جو شرائط توحید سے مربوط فصل میں بالخصوص نفی سنخیت کی بحث میں گزر چکی اور ان کے علاوہ دیگر بکثرت احادیث سب خدا اور مخلوق کے درمیان نفی سنخیت پر گواہی دیتی ہیں۔
بنابریں بعض عرفاء کے اس نظریے کا بطلان بھی ظاہر ہوجاتا ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ خالق ومخلوق کے درمیان عینیت ہے اور یہ کہ موجود حقیقی وجود لاشریک میں منحصر ہے۔ اور یہ کثرت جو ہر طرف نظر آتی ہے یہ درحقیقت عین وجود پروردگار ہے۔ ابن عربی فصول الحکم میں کہتے ہیں: عارف وہ شخص ہے جو خدا کو تمام چیزوں میں بلکہ تمام چیزوں کا عین سمجھتا ہے۔(۴۹)
اسی طرح دوسری جگہ لکھتے ہیں: پاک ومنزہ ہے وہ ذات جس نے تمام چیزوں کو ظہور بخشا ہے اور تمام چیزیں بعینہ وہ ہی ذات ہیں۔ (۵۰)
صدر الدین شیرازی کہتے ہیں:میرے پروردگار نے آسمانی دلیلوں کے ذریعہ اس طرح راہ مستقیم دکھائی کہ وجود اور موجود اور جو کچھ بھی ہے وہ سب ایک ہی حقیقت میں منحصر ہے۔۔۔اور در حقیقت خدا کے علاوہ کوئی موجود ہی نہیں۔ دنیا میں جو کچھ بھی واجب معبود کے علاوہ وجود دکھائی دیتا ہے وہ صرف اس کی ذات کا ظہور اور صفات کی تجلی ہے جو وہ بھی درحقیقت اسی کا عین ذات ہے۔ جیسا کہ عرفا کی زبانی اس حقیقت کی تصریح ہوئی ہے(۵۱)۔
منابع:
۱) شیخ صدوق، التوحید، ص ۲۸، ح ۲۴ ۔۲) بحار الانوار، محمدباقر مجلسی، ج ۳، ص ۱۳، ح ۳۱ ۔ ۳) التوحید، ص ۲۱ ح ۱۲ ۔ ۴) بحارالانوار، ج ۳، ص ۱۴، ح ۳۹ ۔ ۵) التوحید، ص ۳۰، ح ۳۲ .دوسری احادیث میں لازمی شرط مثلا ولایت کو بیان کیا گیا ہے۔ ۶) التوحید، ص ۲۸، ح ۲۹ .۷) نہج البلاغہ، خطبہ ۱۰۶ ۔ ۸) گذشتہ، خطبہ ۱۶۲ ۔ ۹) التوحید، ص ۸۳، ح ۳ ۔ ۱۰) نہج البلاغہ: خطبہ ۱۸۰ ۔ ۱۱)خطبہ ۱۴۸ ۔۱۲) التوحید: ص ۷۰ ح ۲۶ ۔ ۱۳) ابن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۵، ص ۲۷۰ ۔ ۱۴)سابق، ص ۳۷۰ ۔ ۱۵) کلینی، اصول کافی، ج ۱، ص ۔ ۱۶) تقسیم خارجی مثلا انسان کی تقسیم بدن و روح کی طرف۔ تقسیم عقلی مثلا انسان کی تقسیم حیوان و ناطق۔ اور تقسیم وہمی مثلا انسان کی تقسیم دو دو حصوں کی طرف۔۱۷) نہج البلاغہ، خطبہ ۸۱ ۔ ۱۸) خطبہ ۱۷۹ ۔ ۱۹) خطبہ ۶۵ ۔ ۲۰) شرح گلشن راز، ص ۲۶۸ ۔ ۲۱) شیخ صدوق، معانی الاخبار، ص ۳۹ ۔ ۲۲) ثقۃ الاسلام کلینی، الکافی، ج ۸، ص ۳۸۶ ۔ ۲۳) اور مشرکین نے خدا کو چھوڑ کر دوسرے خدا اختیار کرلئے ہیں تاکہ وہ ان کے لئے باعث عزّت بنیں۔ہرگز نہیں عنقریب یہ معبود خود ہی ان کی عبادت سے انکار کردیں گے اور ان کے مخالف ہوجائیں گے(سورہ مریم، آیت ۸۱ و ۸۲)۔ ۲۴) تفسیر قمی، ج ۲، ص ۵۵ ۔ ۲۵) نہج البلاغہ، خطبہ ۱ ۔ ۲۶) التوحید، ص ۸۳، ح ۲ ۔ ۲۷) نہج البلاغہ، خطبہ ۱۰۶ ۔ ۲۸) نمونہ کے دیکھیے خطبہ ۱ و ۸۷ و ۱۰۸ ۔ ۲۹) نہج البلاغہ، خط ۳۱ ۔ ۳۰) التوحید، ص ۳۲، ح ۱ ۔ ۳۱) نہج البلاغہ، خطبہ ۱۸۱ ۔ ۳۲) التوحید، ص ۸۳ ۔ ۳۳) نہج البلاغہ، خطبہ ۱۵۲ ۔ ۳۴) دیکھیے ملکی میانجی، محمدباقر، توحید الامامیہ، فصل ششم و ہفتم۔ ۳۵) نہج البلاغہ، خطبہ ۱۴۵ ۔ ۳۶) نہج البلاغہ، خطبہ ۱ . اسی طرح کا مطلب امام رضا علیہ السلام کے کلام میں بینا ہوا ہے۔ دیکھیے: التوحید، ص ۳۴، ح ۲ .۳۷) الاحتجاج، ج ۱، ص ۲۹۸ ۔ ۳۸) التوحید، ص ۴۲، ح ۳ ۔ ۳۹) التوحید، ص ۵۲، ح ۱۳؛ دیکھیے:نہج البلاغہ، خطبہ ۸۷ ۔ ۴۰) نہج البلاغہ، حکمت ۴۷۰ ۔ ۴۱) الاحتجاج، ج ۱، ص ۲۹۹ ۔ ۴۲) نہج البلاغہ، خطبہ ۱۵۲ ۔ ۴۳) التوحید، ص ۷۳، ح ۲۷ ۔ ۴۴) سابق، ص ۴۱، ح ۳ ۔ ۴۵) التوحید، ص ۶۹، ح ۲۶ ۔ ۴۶) التوحید، ص ۲۸۵، ح ۲ ۔ ۴۷) نہج البلاغہ، خطبہ ۱۷۹ ۔ ۴۸) سنخیت کی بحث کے سلسلہ میں کتاب ’’تنبیہات حول المبدء و المعاد‘‘،   ۵۳- ۹۵  کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔ ۴۹) شرح فصوص الحکم، قیصری، ص ۴۳۶ ۔ ۵۰) الفتوحات المکیہ، ج ۲، ص ۶۰۴ ۔ ۵۱) الاسفار الاربعہ، ج ۲، ص ۲۹۲ .٭…٭…٭
(ماہنامہ اصلاح لکھنؤ، امیرالمومنینؑ نمبر، رمضان ۱۴۴۰ھ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں