جمعہ، 15 مئی، 2020

نفاق کی تاریخ

نفاق کی تاریخ
آیۃاللہ سید احمد خاتمی
مشہور نظریہ: نفاق کے وجودوآغاز کے سلسلہ میں مشہورومعروف نظریہ یہ ہے کہ نفاق کی بنیاد مدینہ میں پڑی،اس فکر ونظر کی دلیل یہ ہے کہ مکہ میں مسلمین بہت کم تعداد اور فشارمیں تھے ،لہذا کم تعداد افراد سے مقابلے کے لئے ،کفار کی طرف سے منافقانہ ومخفیا نہ حرکت کی کو ئی ضرورت نہیں تھی ،مکہ کے کفار ومشرکین علی الاعلا ن آزار و اذیت، شکنجہ و تکلیف دیا کر تے تھے ۔
 عظیم الشان پیامبر اسلام حضرت محمد مصطفےﷺ کے مدینہ ہجرت کرنے کی بنا پر اسلام نے ایک نئی کروٹ لی ،روز بروز اسلام کے اقتدار وطاقت ،شان وشوکت میں اضافہ ہو نے لگا ،لہذا اس موقع پربعض اسلام کے دشمنو ں نے اسلام کی نقاب اوڑھ کر دینداری کا اظہار کر تے ہو ئے اسلام کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش شروع کردی،اسلام کا اظہار اس لئے کر تے تھے تا کہ اسلام کی حکو مت وطاقت سے محفو ظ رہ سکیں،لیکن باطن میں اسلام کے جگر خوار وجانی دشمن تھے ،یہ نفاق کا نقطۂ آغاز تھا،خاص کر ان افرادکے لئے جن کی عملداری اورسرداری کو شدید جھٹکا لگا تھا ،وہ کچھ زیادہ ہی پیغمبر اکرم ﷺ اوران کے مشن سے عناد و کینہ رکھنے لگے تھے ۔
عبداللہ ابن ابی ّانہی منافقین میں سے ایک تھا ،رسو ل ؐاسلام کے مدینہ ہجرت کرنے سے قبل اوس و خزرج مدینہ کے دو طاقتو ر قبیلہ کی سرداری اسے نصیب ہونی تھی، لیکن بد نصیبی سے واقعۂ ہجرت پیش آنے کی بنا پرسر داری کے یہ تمام پروگرام خاکستر ہو کر رہ گئے،بعد میںگر چہ اس نے ظاہراً اسلام قبول کرلیا ،لیکن رفتاروگفتار کے ذریعہ ،اپنے بغض وکینہ ،عناد و عداوت کا ہمیشہ اظہار کر تا رہا ،یہ مدینہ میں جما عت نفاق کا رئیس وافسر تھا،قرآن مجید کی بعض آیات میں اس کے منافقانہ اعمال و حرکات کی نشاندہی کی گئی ہے۔
جب پیغمبر اکرمﷺ مدینہ وارد ہوئے، اس نے آپؐ سے کہا: ہم فریب میں پڑ نے والے نہیں ،ان کے پاس جائو جو تم کو یہاں لائے ہیں اور تم کو فریب دیا ہے،عبداللہ ابن ابی ّ کی اس ناسزا گفتگو کے فوراً بعد ہی سعدبن عبادہ رسول اسلام ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ئے عرض کی آپ غمگین و رنجیدہ خاطر نہ ہو ں ،اوس وخزرج کاارادہ تھا کہ اس کواپنے اپنے قبیلہ کا سردار بنا ئیں گے،لیکن آپ کے آنے سے حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں ،اس کی فرمان روائی سلب ہو چکی ہے ،آپ ہمارے قبیلے خزرج میں تشریف لائیں ،ہم صاحب قدرت اوربا وقارافراد ہیں(اعلام الوری ،ص۴۴،بحار الانوار ،ج۱۹ ،ص۱۰۸ ۔)
اس میں کو ئی شک نہیں کہ نفاق کامبدا ایک اجتماعی ومعاشرتی پر و گرام کے تحت مدینہ ہے،نفاقِ اجتماعی کے پرو گرام کی شکل گیری کا اصل عامل حق کی حاکمیت و حکومت ہے ،جو پہلی مرتبہ مدینہ میں تشکیل ہو ئی ،پیامبر عظیمؐ الشان کا مدینہ میں وارد ہو نا واسلام کا روزبروز قوی ومستحکم ہو نا باعث ہوا کہ منافقین کی مرموز حرکات وجود میں آئیں ،البتہ منافقین کی یہ خیانت کارانہ حرکتیں پیغمبر اکرم  ؐکی جنگو ں میں زیادہ قابل لمس ہیں ۔
قرآن مجید میں بطور صریح جنگ بدر ،احد،بنی نظیر ،خندق وتبوک نیز مسجد ضرار کے سلسلہ میں منافقین کی سازشیں بیان کی گئی ہیں ۔
مدینہ میں جماعت نفاق کے منظم ومرتب پرو گرام کے نمونے ،غزوہ تبوک کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم ؐ کے لئے مشکلا ت کھڑ ی کرنا ،مسجد ضرار کی تعمیرکے لئے،چال بازی و شعبدہ بازی کا استعمال کر نا ۔
پیامبرؐ اسلام کا غزوۂ تبوک کے لئے اعلان کر نا تھا کہ منافقین کی حرکا ت میں شدت آگئی،غزوہ تبوک کے سلسلہ میں منافقانہ حر کتیں اپنے عروج پر پہنچ چکی تھیں،مدینہ سے تبوک کا فاصلہ تقریباً ایک ہزارکیلو میٹر تھا ،موسم بھی گرم تھا ،محصول زراعت وباغات کے ایام تھے ،اس جنگ میں مسلمانوں کے مدّ مقابل روم کی سو پر پاور حکومت تھی،یہ تمام حالات منافقین کے فیو ر (موافق)میں تھے ،تا کہ زیادہ سے زیادہ افراد کو جنگ پر جانے سے روک سکیں ،اور انھوں نے ایسا ہی کیا ۔
منافقین کے ایک اجتماع میں جو سویلم یہودی کے یہاں برپا ہوا تھا ،جس میں منافق جماعت کے بلند پایہ ارکان موجود تھے ،طے یہ ہو ا کہ مسلمانوں کو روم کی طاقت وقوت کا خوف دلایا جائے ،ان کے دلوںمیں روم کی ناقابل تسخیر فو جی طاقت کا رعب بٹھایا جائے ۔
اس جلسہ اور اہداف کی خبر پیامبرؐ اسلام کو پہنچی ،آپ نے اسلام کے خلاف اس سازشی مرکز کو ختم نیز دو سروں کی عبرت لئے حکم دیا، سویلم کے گھر کو جلادیا جائے آپ نے اس طریقہ سے ایک سازشی جلسہ نیز ان کے ارکان کو متفرق کرکے رکھ دیا (سیرت ابن حشام ،ج۲ ،ص۵۱۷ ،منشور جاوید قرآن،ج۴ ،ص۱۱۲۔) 
مسجد ضرار کی تعمیر کے سلسلہ میں نقل کیا جاتا ہے کہ منافقین میںسے کچھ افراد رسول اکرمؐ  کی خدمت میں حاضر ہو ئے ،ایک مسجد  قبیلۂ بنی سالم کے در میان مسجد قبا کے نزدیک بنانے کی اجازت چاہی ،تا کہ بو ڑھے ،بیمار اور وہ جو مسجد قبا جانے سے معذورہیں خصوصاً بارش کی راتوں میں ،وہ اس مسجد میںاسلامی فریضہ اورعبادت الہی کو انجام دے سکیں ،ان لوگوں نے تعمیر مسجد کی اجازت حاصل کر نے کے بعد رسول اسلامؐ سے افتتاح ِمسجد کی در خواست بھی کی ،آپ نے فرمایا: میں ابھی عازم تبوک ہوں واپسی پر انشاء اللہ اس کام کو انجام دوں گا ،تبوک سے واپسی پر ابھی آپ مدینہ میں داخل بھی نہ ہوئے تھے کہ منافقین آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسجد میں نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کی،اس موقع پر وحی کا نزول ہوا  (سورہ توبہ ، ۱۰۷کے بعد کی آیتیں۔)جس نے ان کے افعال واسرار کی پول کھول کررکھدی،پیغمبر اکرم ؐنے مسجد میں نماز پڑھنے کے بجائے تخریب کا حکم دیا تخریب شدہ مکان کو شہر کے کوڑے اورگندگی ڈالنے کی جگہ قرار دیا ۔
اگر اس جماعت کے فعل کی ظاہری صورت کا مشاہدہ کریں تو پیامبر ؐکے ایسے حکم سے حیرت ہو تی ہے لیکن جب اس قضیہ کے باطنی مسئلہ کی تحقیق و جستجو کریں تو حقیقت سامنے آتی ہے ،یہ مسجد جو تخریب ہو نے کے بعد مسجد ضرار کے نام سے مشہور  ہوئی ،ابو عامر کے حکم سے بنائی گئی تھے ،یہ مسجد نہیں بلکہ جاسوسی اورسازشی مرکز تھا،اسلام کے خلاف جاسوسی وتبلیغ اور مسلمانوں کے در میان تفرقہ ایجاد کرنااس کے اہداف ومقاصد تھے ۔
ابو عامر مسیحی عالم تھا زمانۂ جاہلیت میں عبّاد وزہّاد میں شمار ہو تا تھا اور قبیلۂ خزرج میں وسیع عمل ودخل رکھتا تھا ،جب مرسل اعظم نے مدینہ ہجرت فرمائی مسلمان آپ کے گرد جمع ہو گئے خصوصاً جنگ بدر میں مسلمانوں کی مشرکوں پر کامیابی کے بعد اسلام ترقی کر تا چلا گیا ،ابو عامر جو پہلے ظہور پیامبرؐ کا مژدہ سنا تا تھا جب اس نے اپنے اطراف و جوانب کو خالی ہو تے دیکھا اسلام کے خلاف اقدام کرنا شروع کردیا،مدینہ سے بھا گ کر کفار مکہ اوردیگر قبائل عرب سے ،پیغمبر اسلام ؐکے خلاف مدد حاصل کر نی چاہی ،جنگ احد میں مسلمانوں کے خلاف پروگرام مرتب کر نے میں اس کا بڑا ہاتھ تھا ، دونوں لشکر کی صفوں کے در میان میں خندق کے بنائے جانے کا حکم اسی کی طرف سے تھا ،جسمیں پیامبرؐ اکرم گر پڑے آپ کی پیشانی مجروح ہو گئی دندان مبارک ٹوٹ گئے، جنگ احدکے ختم ہو نے کے بعد، با وجود اس کے کہ مسلمان اس جنگ میں کافی مشکلات وزحمات سے دو چار تھے،اسلام مزید ارتقا کی منزلیں طے کرنے لگا صدائے اسلام پہلے سے کہیں زیادہ بلند ہو نے لگی ابو عامر، یہ کامیابی وکامرانی دیکھ کر مدینہ سے بادشاہ روم ہرقل کے پاس گیا تا کہ اس کی مدد سے اسلام کی پیش رفت کو روک سکے ،لیکن موت نے فرصت نہ دی کہ اپنی آرزو وخواہش کو عملی جامہ پہنا سکے ،لیکن بعض کتب کے حوالہ سے کہا جا تا ہے ،کہ وہ پادشاہ روم سے ملا اور اس نے حوصلہ افزا وعدے بھی کئے۔
اس نکتہ کو بیان کردینا بھی ضرور ی ہے کہ اس کی تخریبی حرکتیں اورعناد پسند طبیعت کی بنا پر پیامبرؐ اسلام نے اسے فاسد کا لقب دے رکھا تھا،بہر حال قبل اس کے کہ وہ واصل جہنم ہو، ایک خط مدینہ کے منافقین کے نام تحریر کیا جسمیں لشکر روم کی آمد اورایک ایسے مکان ومقام کی تعمیر کا حکم تھا جو اسلام کے خلا ف سازشی مرکز ہو،لیکن چونکہ ایسا مرکز منافقین کے لئے بناناچنداں آسان نہیں تھا لہذا انھوں نے مصلحتاً معذوروں،بیماروں ،بوڑھوں کی آڑ میں مسجد کی بنیاد ڈال کر ابو عامر کے حکم کی تعمیل کی، مرکز نفاق مسجد کی شکل میں بنایا گیا ،مسجد کاامام جماعت ایک نیک سیرت جوان بنام مجمع بن حارثہ کو معین کیا گیا، تا کہ مسجد قبا کے نماز گذاروں کی توجہ اس مسجد کی طرف مبذول کی جا سکے، اور وہ اسمیں کسی حدتک کامیاب بھی رہے، لیکن اس مسجد کے سلسلہ میں آیات قرآن کے نزول کے بعد پیامبر اکرمؐ نے اس مرکز نفاق کو ڈھا دینے کا حکم دے دیا(مجمع البیان ،ج۳،ص۷۲۔)،تاریخ کا یہ نمونہ جسے قرآن بھی ذکر کر رہا ہے منافقین کی مدینہ میں منظم کار کردگی کا واضح ثبوت ہے ۔ 
مشہور نظریہ کی تحقیق:مشہور نظریہ کے مطابق نفاق کا آغازمدینہ ہے ،اور نفاق کا وجود، حکومت و قدرت سے خوف وہراس کی بنا پر ہو تا ہے ،اس لئے کہ مکہ کے مسلمانوں میں قدرت و طاقت والے تھے ہی نہیں ،لہذا وہاںنفاق کا وجود میں آنابے معنی تھا،صرف مدینہ میں مسلمان صاحب قدرت و حکومت تھے لہذا  نفاق کامبداء مدینہ ہے ۔
لیکن نفاق کی بنیا دصرف حکو مت سے خوف ووحشت کی بنا پر ہو اس کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے،بلکہ اسلام میں منصب وقدرت کے حصول کی طمع بھی نفاق کے وجود میں آنے کا عامل ہو سکتی ہے ،لہذا ، نفاق کی دو قسم ہو نی چاہئے:
۱۔نفاقِ خوف:ان افراد کا نفاق جو اسلام کے قدرت واقتدار سے خوف زدہ ہو کراظہار اسلام کرتے ہوئے اسلام کے خلاف کام کیاکرتے تھے۔
۲۔ نفاقِ طمع:ان افراد کا نفاق جو اس لالچ میں اسلام کا دم بھر تے تھے کہ اگرایک روز اسلام صاحب قدرت و سطوت ہو ا،تو اس کی زعامت ومناصب  پرقابض ہو جائیں یااس کے حصّہ دار بن جا ئیں ۔
نفاق بربناء خوف کا سر چشمہ مدینہ ہے،اس لئے کہ اہل اسلام نے قدرت واقتدارکی باگ ڈور مدینہ میں حاصل کی ۔
لیکن نفاق بر بنا ء طمع وحرص کامبدا وعنصر مکہ ہو نا چاہئے،عقل وفکر کی بنا بر بعید نہیں ہے کہ بعض افرادروزبروز اسلام کی ترقی ،اقتصادی اورسماجی بائیکاٹ کے باوجود اسلام کی کامیابی ،مکرر مرسل اعظمؐ  کی طرف سے اسلام کے عالمی ہو نے والی خوش خبری وغیرہ کو دیکھتے ہو ئے دور اندیش ہو ں ،کہ آج کا ضعیف اسلام کل قوت وطاقت میں تبدیل ہو جائے گا،اسی دور اندیشی و طمع کی بنا پر اسلام لائے ہوں ،تا کہ آئندہ اپنے اسلام کے ذریعہ اسلام کے منصب وقدرت کے حق دار بن جائیں ۔
اس مطلب کا ذکر ضروری ہے کہ منافق طمع کے افعال و کا ر کرد گی منافق خوف کی فعالیت و کار کردگی سے کافی جدا ہیں ،منافق خوف کی خصوصیت خراب کاری، کا رشکنی،بیخ کنی ،اذیت وتکلیف سے دو چار کر نا ہے،جب کہ منافق طمع ایسا نہیں کرتا، بلکہ وہ ایک تحریک کی کامیابی کے سلسلہ میں کوشش کرتے ہیں ،تا کہ وہ تحریک ایک شکل و صورت میں تبدیل ہو جائے ،اور یہ قدرت کی نبض او ر دھڑکن کو اپنے ہاتھوں میںلے سکیں ،منافق طمع صرف وہاں تخریبی حرکات کوانجام دیتے ہیں جہاں ان کے بنیادی منافع خطرے میں پڑ جائیں۔
اگر ہم نفاق طمع کے وجود کو مکہ قبول کریں،تو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ نفاق کا وجود اور اس کے  آغاز کو مدینہ تسلیم کیا جائے  ۔
 جیسا کہ مفسر قرآن علا مہ طبا طبا ئی ؒ اس نظریہ کو پیش کر تے ہیں ( تفسیر المیزان ،ج۱۹ ص ۲۸۷تا۲۹۰،سورہ منافقون کی آیات۱؍۸کے ذیل میں۔)،آپ ایک سوال کے ذریعہ مذکورہ مضمون کی تائید کر تے ہو ئے فر ما تے ہیں ،با وجود یکہ اس قدر منافقین کے سلسلہ میں آیات ،قرآن میں موجود ہیں ،کیوں پیامبرؐ اکرم کی وفات کے بعد منافقین کا چرچا نہیں ہو تا ،منافقین کے بارے میں کوئی گفتگو اور مذاکرات نہیں ہو تے ،کیاوہ صفحہ ہستی سے محو ہو گئے تھے ؟کیا پیامبرؐ اسلام کی وفات کی بنا پر منتشرا ورپراکندہ ہو گئے تھے؟یا اپنے نفاق سے توبہ کر لی تھی؟یااس کی وجہ یہ تھی کے پیامبرؐ اسلام کی وفات کے بعد صاحبان نفاق طمع ،صاحبان نفاق خوف کا تال میل ہو گیا تھا ،اپنی خواہشات وحکمت عملی کو جامۂ عمل پہنا چکے تھے ،اسلام کی حکومت و ثر وت پر قبضہ کر چکے تھے اور بہ بانگ دہل یہ شعر پڑ رہے تھے:
لعبت ہاشم بالملک فلا        خبر جاء ولا وحی نزل
خلا صۂ بحث یہ ہے کہ نفاق اجتماعی ایک منظم تحریک کے عنوان سے مدینہ میں ظہور پذیر ہوا ،لیکن نفاق فردی جو بر بناء طمع وحرص عالم وجود میں آیا ہو اس کا انکار کر نے کی کوئی دلیل نہیں ،اس لئے کہ اس نوعیت کا نفاق مکہ میں بھی ظاہر ہو سکتا تھا ،وہ افراد جو پیامبر اسلام ؐکے دستور و حکم سے سر پیچی کر تے تھے ،ان میں بعض وہ تھے جو مکہ میں مسلمان ہو ئے تھے ،یہ وہی منافق تھے جو طمع وحرص کی بنا پر اسلام کا اظہار کرتے تھے ۔
مرض نفاق اوراس کے آثار:نفاق، قلب اور دل کی بیماری ہے ،قرآن کی آیات اس باریکی کی طرف توجہ دلاتی ہیں ،پاکیزہ قلب خدا کا عرش اور اللہ کا حر م ہے ( ’’قلب المؤمن عرش الر حمن‘‘بحار الانوار ،ج۵۸،ص۳۹ ۔ ’’لقلب حرم اﷲ فلا تسکن حرم اﷲغیر ﷲ‘‘بحار الانوار ،ج۷۰ ،ص۲۵۔)،اس میں اللہ کے علاوہ کسی اور کا گذر نہیں ہے ، لیکن مریض و عیب دار د ل ،غیر خدا کی جگہ ہے  ہوا وہوس سے پردل شیطان کا عرش ہے،قرآن مجید صریح الفاظ میں منافقین کو عیب داراورمریض ِدل سمجھتا ہے:فی قلوبہم مرض
(سورہ بقرہ ؍۱۰،مائدہ ؍۵۲،توبہ؍۱۲۵،محمد؍۲۰۔۲۹۔بعض آیات میں فی قلو بہم مرض کے ہمراہ منافقوں کا بھی ذکرکیا گیا ہے ،جیسے سورہ انفال کی آیت نمبر ۴۹ و سورہ احزاب کی آیت نمبر ۱۲،اذ یقول المنافقون والذ ین فی قلو بہم مرض یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ بیمار دل والے منافق ہی ہیں یا ان کے علاوہ دو سرے افراد ،علامہ طباطبائی  ؒ تفسیر المیزان ،ج۱۵ ،ص۲۸۶،ج۹،ص۹۹،میں ان دونوں کو الگ الگ شمار کر تے ہیں ،آپ کا کہنا ہے کہ بیمار دل والوں سے مراد ضعیف الا عتقادمسلمان ہیں،اور منافقین وہ ہیں جو ایمان واسلام کا توظہار کر تے ہیں لیکن باطن میں کافر ہیں،بعض مفسرین کی نظر میں ،بیمار دل صفت والے افراد منافق ہی ہیں ،نفاق کے درجات ہیں ،نفاق کا آغاز قلب ودل کی کجی اور روح کی بیماری سے ہو تا ہے،اور آہستہ آہستہ پایۂ تکمیل کو پہنچتا ہے ،لیکن میرے خیال میں منافقون ،و والذ ین فی قلو بہم مرض دو مترادف الفاظ کے مثل ہیں جیسے فقیر ومسکین،اگر یہ دو لفظ ساتھ میں استعمال ہوں تو ہر لفظ ایک مخصوص معنی کا حامل ہو گا،لیکن اگر جدا استعمال ہوں تو دو نوں کے معنی ایک ہی ہوں گے،اس بنا پر وہ آیات جن میں لفظ منافقون و فی قلو بہم مرض  ایک ساتھ استعمال ہو ئے ہیں ،دو نوں کے مستقل معنی ہیں ،منافقون یعنی اسلام کا اظہار وکفر کو پوشیدہ رکھنا،و  فی قلو ہم مرضیعنی ضعیف الایمان یاآغاز نفاق،لیکن جب  فی قلو بہم مرضکا استعمال جدا ہو تو اس سے مراد منافقین ہیں ،کیوں کہ منافقین وہی ہیں جو فی قلوبہم مرضکے مصداق ہیں۔ )
نفاق جیسی پْر خطر بیماری میں مبتلا افراد، بزر گترین نقصان وضرر سے دو چار ہو تے ہیں ،اس لئے کہ آخرت میں نجات صرف قلب سلیم (پاکیزہ) کے ذریعہ ہی میسرہے،ہو اوہوس سے پر، غیر خدا کامحب وغیر خدا سے وابستہ د ل نجات کا سبب نہیں۔
یوم لا ینفع مال ولا بنون الا من اتی اللہ بقلب سلیم(سورہ شعراء ؍۸۸و۸۹۔)
اس دن مال اوراولادکام نہیں آئیں گے ،مگر وہ جو قلب سلیم کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو ۔
 قرآن مجید اس مرض و بیماری کی شناخت و واقفیت کے سلسلہ میںکچھ مفید نکات کو بیان کر رہا ہے ،تمام مسلمانوں کو ان نکات کی طرف توجہ دینی چاہئے تا کہ اپنے قلب ودل کی صحت وسلامتی ونیز مرض کو تشخیص دے سکیں ، نیز ان نکات کے ذریعہ معاشرے کے غیر سلیم و نادرست قلوب کی شنا سائی کر تے ہوئے ان کے مراکز فساد وفتنہ سے مبارزہ کر سکیں ۔
ایک سرسری جائزہ لیتے ہوئے آیاتِ قرآنی جو منافقین کی شناخت میں نازل ہو ئی ہیں ِ ان کو چند نوع میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
وہ آیات جو اسلامی معاشرے میں منافقین کی سیاسی و اجتما عی روش وطرز کو بیان کرتی ہیں ،وہ آیات جو منافقین کی فردی خصوصیت نیز ان کی نفسیاتی شخصیت  و عادت کورونما کر تی ہیں ،وہ آیات جو منافقین کی ثقافتی روش وطرز عمل کواجا گر کرتی ہیں،وہ آیات جو منافقین سے مبارزہ ورفتار کے طور وطریقہ کو پیش کر تی ہیں ۔
پہلی نوع کی آیات میں منافقین کے سیاسی و معاشرتی اسلوب ،اوردوسری نوع کی آیات میں منافقین کی انفرادی ونفسیاتی بیماری کی علامات کا ذکر ہے اورتیسری نوع کی آیات میں منافقین کے کفر ونفاق کے مرض کو وسعت دینے نیز اسلام کو تباہ و برباد کر نے کے طریقے کو بیان کیا گیاہے،چوتھی نوع کی آیات میں منافقین کی کار کر دگی کو بے اثر بنانے کے طریقۂ کا ر کو پیش کیا گیا ہے،اگر چہ قرآن میں جو آیات منافقین کے سلسلہ میں آئی ہیںوہ ان کے اعتقادی نفاق کو بیان کر تی ہیں، مگر جو آیات منافقین کی خصوصیت وصفات کو بیان کر تی ہیں وہ ان کی منافقانہ رفتار وگفتار کو پیش کررہی ہیں خواہ اعتقادی ہو ںیا نہ ہوں منافقین کے جو خصائص بیان کئے گئے ہیں،منافقانہ رفتار وگفتار کی شناخت کے لئے معیار و پیمانہ قرار دئے گئے ہیں،اس کے مطابق جو فردیا جماعت بھی اس نوع و طرز کی رفتار وروش کی حامل ہو گی اس کا شمار منافقین میں ہو گا ۔ ث ث ث

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں