جمعہ، 1 مئی، 2020

علم تفسیر پر ایک نظر


علم تفسیر پر ایک نظر
سید محمد حسنین باقری جوراسی 
تفسیر کے معنی:کلمۂ ’’تفسیر‘‘ کے لغت میں مختلف معانی بیان کیے گیے ہیں مثلا: ’’بیان‘‘ ، ’’کسی چیز کی وضاحت کرنا‘‘، ’’کسی پوشیدہ امر کو کشف و آشکار کرنا‘‘،’’ کسی معقول معنی کوکشف یا ظاہر کرنا ،’’ کسی کلام کے معنی بیان کرنا‘‘وغیرہ(۱) ۔ اکثر اہل لغات نے تفسیر کوالفاظ و عبارات کے معنی کی تشریح اوراس کو کشف کرنے کے معنی سے مخصوص کیا ہے۔
یہ لفظ قرآن کریم میں صرف ایک مرتبہ سورہ فرقان کی آیت نمبر ۳۳ میں استعمال ہوا ہے ۔اس آیت میں کلمۂ تفسیر قرآن کے تقریباً تمام کلمات کی طرح اپنے لغوی معنی یعنی کشف و بیان کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
مفسرین نے بھی اس لفظ کی مختلف تعریفیں پیش کی ہیں مثلا :’’خداوند عالم کے مراد کو اس کی کتاب عزیز سے واضح و روشن کرنے کو تفسیر کہتے ہیں‘‘(۲)؛’’قرآنی آیات کے معانی کو بیان کرنے اوراس کے مقصود و مراد کے کشف کرنے کو تفسیر کہتے ہیں‘‘(۳)؛عربی ادب کے قواعد اور عقلی محاوروں کے اصول کی بنیاد پر قرآنی آیات کے مفاد استعمالی ( لفظ کے استعمال سے مراد و مقصود) کے بیان کرنے اور اس سے خداوند عالم کے مراد اور اس کے مقصود کو کشف کرنے کو تفسیر کہتے ہیں(۴)۔
تفسیر کی ابتدا:آیۂ قرآنی کے مطابق علم تفسیر کی ابتدا وقت نزول ہی ہوئی جس میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مفسر قرآن کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے {۔۔۔وَأَنزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمَْ}(۵)(اور ہم نے آپ کی طرف ذکر نازل کیا تاکہ لوگوں کے لئے اس کو بیان کریں)
اس لیے کہ اس آیت میں ’’لتبیّن‘‘ کہا گیا ہے ’’لتقرأ‘‘  نہیں ،جس کا مطلب ہے کہ پیغمبر ؐ  کو قرآن کی تبیین و تفسیر کرنی ہے۔
علامہ طباطبائی اس سلسلے میں کہتے ہیں:’’قرآن مجید کے الفاظ و عبارات اور بیانات کی تفسیر اس کے نازل ہونے کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی اور خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ،قرآن کریم کی تعلیم،معانی کے بیان اور آیات کریمہ کے مقاصد کی وضاحت کیا کرتے تھے جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے:وانزلناالیک۔۔۔(۶)اور پھر فرماتا ہے:’’ ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّینَ رَسُولًا مِنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمْ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ۔۔۔‘‘(۷)(وہی تو ہے جس نے جاہلوں میں ان ہی میں کا ایک رسول (محمدؐ) بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھتے اور ان کو پاک کرتے اور ان کو کتاب اور عقل کی باتیں سکھاتے ہیں۔)
آنحضرت ؐ کے زمانے میں آپؐ کے حکم سے بعض لوگ قرآن مجید کی قرائت ،حفظ اور اس کو محفوظ رکھنے میں مصروف تھے جن کو قرّاء کہا جاتا تھا۔آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد آپؐ کے اصحاب نے اور ان کے بعد تمام مسلمان قرآن مجید کی تفسیر میں مشغول اور مصروف رہے اور آج تک مصروف ہیں‘‘(۸)  
 علم تفسیر کی تدوین:یہ صحیح ہے کہ سب سے پہلے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیات کی تفسیر پیش کی لیکن یہ ایک مدوّن منسجم علم کے عنوان سے امام علی ؑ کے زمانے میں شروع ہوئی۔جیسا کہ اس علم کے ماہرین اپنے اسانید کا سلسلہ حضرت ؑ تک پہنچاتے ہیں(۹)یعنی واضع علم تفسیر امیر المومنینؑ ہیں ۔یہاں پر یہ کہنا کہ ابن عباس نے اس علم کو وضع کیا ہے(۱۰)،کسی بھی اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔اس لئے کہ خود ابن عباس فرماتے ہیں :’’میں نے تفسیر سے متعلق جو کچھ بھی سیکھا ہے،حضرت علیؑ سے سیکھا ہے‘‘(۱۱)اور اسی چشمہ سے استفادہ کرتے ہوئے سب سے پہلی مدوّن تفسیر ابن عباس کے موثق ترین  شاگرد مجاہد بن جَبر (متوفی ۱۰۴؁ھ)نے لکھی (۱۲)ان کے بعد سے تفسیر نویسی ایک اسلامی سنت میں تبدیل ہو گئی (۱۳)
روش تفسیر کے اقسام(۱۴) :تفسیری روش کے اقسام کے سلسلے میں بھی اگر کتابوں میں مراجعہ کیا جائے تو نظرآتا ہے کہ علماء و مفسرین نے روش کی مختلف قسمیںمختلف اعتبار سے اور مختلف عناوین کے ساتھ بیان کی ہیں یہ اقسام کبھی تو ایک دوسرے کی جگہ پر ذکر ہوئے ہیں او رکبھی روش و رجحان کے درمیان خلط ملط ہوا ہے ۔
ان اقسام کی تعداد میں بھی بہت زیادہ اختلاف ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ علماء نے مختلف عناوین سے مختلف قسموں کوذکر کیا ہے۔ اکثر کا نتیجہ ایک ہی ہے کچھ لوگوں نے زیادہ قسمیں بیان کی ہیں ا ن میں سے اکثر قسمیں کلی عناوین کے تحت جمع ہوسکتی ہیں جیسا کہ بعض علماء نے یہی کام کیا ہے ۔ بعض نے روش تفسیر کے اقسام کے ذیل میں سلسلہ وار تمام قسموں کو بیان کیا جبکہ بعض لوگوں نے پہلے کلی اقسام بیان کئے ہیں پھر ا ن کے ذیل میں جزئی قسمیں بیان کی ہیں۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ کبھی بعض تفسیری طریقے ایک اعتبار سے روش تفسیر کا جزء اور دوسرے اعتبار سے رجحان تفسیر کاجزء شمار ہوتے ہیں ۔ مثلا روش تفسیر علمی اس اعتبار سے کہ قرآن کے سمجھنے میں علوم کی ضرورت ہے ، تفسیری روش شمار ہوتی ہے اور اس ا عتبار سے کہ بعض مفسرین مثلا طنطاوی نے الجواہر میں علوم تجربی کے بہت سے مطالب تفسیر میں نقل کئے ہیں ،رجحان تفسیر شما رہوتی ہے۔ یہی بات روش تفسیر اشاری (عرفانی و باطنی) اور روش تفسیر روائی کی بنسبت بھی صادق آتی ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی قابل غور ہے کہ تفسیری روشیں او ر رجحانات ایک دوسرے کی نفی کرنے والے نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے ہیں اور ایک کے ماننے سے دوسری روش یا رجحان کانہ ماننا لازم نہیں آتا البتہ روش تفسیر بالرائے اور روش تفسیر علمی و اشاری کی بعض فرعی قسمیں اورا ن کی بنیاد پر تفسیر کرنا ممنوع ہے۔
 تفسیری روشیں:آیات کے معانی ومقاصد حاصل کرنے کی کیفیت کی بنیاد پر تفسیر میں استفادہ ہونے والے منابع و وسائل کو دیکھتے ہوئے قرآن کی تفسیر ی روش کی دو اہم قسمیں ہیں جن کے ذیل میں مزید چند قسمیں ہیں:
الف: ناقص تفسیری روشیں: ۱۔ روش تفسیر قرآن بالقرآن   ۲۔ روش تفسیر روائی (سنت کی بنیاد پر تفسیر)
۳۔روش تفسیر علمی (قرآن کوسمجھنے میں علوم تجربی کے ذریعہ تفسیر)  
۴۔ روش تفسیر اشاری (عرفانی، صوفی، باطنی، رمزی، شہودی) ۵۔ روش تفسیر عقلی واجتہادی
 ۶۔ روش تفسیر بالرائے (تفسیر قرآن میں ممنوع روش)
ب: کامل تفسیری روشیں:قرآن کی کامل تفسیری روش سے مراد ، وہ روش ہے جس میں تمام صحیح تفسیری روشوں (مندرجہ بالا ابتدائی پانچ روشوں) سے استفادہ کیا جائے تاکہ آیات کا مقصود و مراد مکمل طور پر حاصل ہو اور بیان ہو۔
 ممکن ہے کہ ان میں سے ہر روش معتبر ہو اور ہم کو آیات قرآنی کی تبیین تک پہنچائے ،جو تفسیر کا اصل مقصد ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی روش معتبر نہ ہو لہذا ہر مفسر کے لئے ضروری ہے کہ معتبر تفسیر کے معیار ات کی رعایت کرے تاکہ صحیح اورمعتبر تفسیر سامنے آئے۔
تفسیری رجحانات(اتجاہات):تفسیر قرآن کے رجحانات،مفسرین کے افکار ، نظریات ،میلان ،علمی مہارت اور ذوق کے اعتبار سے مندرجہ ذیل قسموں میں بیان ہوئے ہیں:
الف: تفسیری مذاہب: اسلامی مذہب کے ماننے والوں نے اپنے عقیدے کے مطابق تفسیر کی ہے اس طرح سے کہ کبھی ایک مذہب نے اپنی تفسیرمیںکوئی  خاص طریقہ اختیار کیا ہے ، مثلا شیعہ مفسرین نے اہل بیت % کی راہنمائیوں کی بنیاد پر قرآن کے ظاہر وباطن اوراہل بیت ؑ سے متعلق آیات کی طرف توجہ کی ہے، آیات کی تفسیر میںپیغمبر وں کی عصمت کا خیال رکھا ہے اسی وجہ سے تفسیر میں ا یک خاص طریقہ پیدا کیا ہے۔ اسماعیلیہ نے باطنی و رمزی طریقہ کے ذریعے اورخوارج نے اپنے خاص طریقے کے مطابق قرآن کی تفسیر کی ہے اورہر ایک اپنی تفسیر میں ایک خاص مذہب رکھتے ہیں شائد صوفی تفسیروں کو بھی تفسیری مذاہب سے ملحق کیاجاسکے۔
ب: تفسیری مکاتب (کلامی رجحان):معتزلہ،اشاعرہ اورشیعہ متکلمین کی طرح بعض کلامی مکتب کے ماننے والوں نے اپنے فکری رجحان کے مطابق قرآن کی تفسیر کی ہے ۔بطور مثال زمخشری کی تفسیر کشّاف، معتزلی رجحان کے ساتھ لکھی گئی ہے۔
ج: تفسیری اسلوب (الوان تفسیر):قرآنی مفسرین نے کسی خاص علم میں مہارت کی بنیاد پر یا کسی علم یاخاص موضوع پر اپنے ذوق وشوق کی بنیاد پر تفسیر لکھنے میں اسی موضوع یا علم کی طر ف زیادہ توجہ دی ہے اور انہیں مطالب کوا پنی تفسیر میں زیادہ پیش کیا ہے اس وجہ سے مختلف تفسیری اسلوب اور طریقے منجملہ ادبی ، فقہی، اجتماعی، عرفانی ، اخلاقی، تاریخی و۔۔۔ رجحانات اور اسالیب وجود میں آئے ہیں۔
د: تفسیر میں عصری رجحان(اتجاہات تفسیری):کبھی زمانے کی ضرورت ونیاز کو محسوس کرتے ہوئے مفسروں کا ذہن اپنے دور کے مسائل وشرائط کے مطابق ان میں سے کسی ایک طرف مائل ہوتا ہے اور ایک خاص رخ پیدا کرتا ہے۔ کبھی معنوی و تربیتی اوراخلاقی مسائل مفسر کواہم ترین جہت دیتے ہیں اسی وجہ سے وہ مفسر تفسیر قرآن لکھنے میں بھی معنوی اور اخلاقی آیات کی طرف زیادہ توجہ دیتا ہے (مثلا تفسیر فی ضلال القرآن و۔۔۔)
کبھی مفسر کی توجہ اور رجحان جہادی ، سیاسی اورحکومتوں یا صہیونیوں سے مقابلہ ہے اسی وجہ سے اس موضوع سے متعلق آیات پر زیادہ توجہ کرتا ہے ( مثلاً تفسیر مبین، محمد جواد مغنیہ) اور کبھی اسلامی مذاہب کے درمیان اتحاد اور بھائی چارگی پر توجہ دیتا ہے لہذا اپنی تفسیر میں اتحاد سے متعلق آیات پرزیادہ توجہ دیتا ہے ۔
تفسیر نویسی کے طریقے:مفسروں کی تفسیر نویسی کا طریقہ یکساں نہیں ہے اورذوق و سلیقہ کی بنیاد پر یا مخصوص مخاطبین کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھنے کے طریقے اور مطلب بیان کرنے کی روش میں فرق ہے ، کبھی تو تفسیر ،ترتیبی ہے یعنی قرآن کی شروع سے آخر تک ایک ایک آیت کی تفسیر ہوتی ہے (اکثر تفسیریں اسی طریقے پر لکھی گئی ہیں مثلا تفسیر المیزان، نمونہ، مجمع البیان،فصل الخطاب اور تفہیم القرآن وغیرہ) اور کبھی تفسیر موضوعی ہے یعنی ایک موضوع کو مختلف سوروںاورآیات میں تلاش کرتا ہے اور اس سے متعلق بحث کی جمع آوری اور نتیجہ گیری کرتا ہے (مثلاتفسیر پیام قرآن ، آیۃ ا ۔۔۔ مکارم شیرازی و منشور جاوید ، آیۃ ا۔۔۔ سبحانی وغیرہ)
مفسر کبھی توبہت ہی اختصار سے کا م لیتا ہے اور کبھی طولانی بحث کرتا ہے اور کبھی متوسط یعنی تفسیروں کا حجم اور کمیت متفاوت ہے، مثلا فیض کا شانی مرحوم نے تین تفسیریں، الاصفی ،مصفی وصافی اورسید شبر مرحوم نے تین تفسیریں: الوجیز، الجوہرالثمین اورصفوۃ التفاسیر اور علامہ طبرسی مرحوم نے تین تفسیریں جوامع الجامع ، مجمع البیان اور الکاف الشاف لکھیں جو بالترتیب مختصر ، متوسط اور مفصل ہیں۔
کبھی تفسیریں شرح ومتن کی صورت میں ہیں، یعنی آیت کو متن اور تفسیر کو اس کی شرح قرار دیا گیا ہے مثلاتفسیر المیزان ا ور تفسیر فصل الخطاب اورکبھی آیات مخلوط ومزجی صورت میں ہیں جیسے تفسیر شبر اور نہاوندی کی نفحات الرحمان، کبھی تمام آیتوں کی تفسیر کی گئی جیسے مجمع البیان اور نمونہ  او رکبھی ناقص یا کسی سورہ یا کچھ آیات یا سوروں کی تفسیر ہوتی ہیں مثلا احکام القرآن، راوندی جو قرآن کی فقہ سے متعلق آیات پر مشتمل ہے اور تفسیرآلاء الرحمن، بلاغی جوناقص ہے او رکبھی تفسیر جامع ہے یعنی علوم قرآن اور فنون قراء ات ، لغت ، ادب ،اقوال و روایات کو شامل ہے اورکبھی تخصصی (مثلا روائی یا ادبی تفسیریں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔لسان العرب، ابن منظور؛مجمع البحرین ،فخر الدین طریحی؛ کتاب العین ،خلیل احمد فراہیدی ،مفردات راغب (مادہ فسر کے ذیل میں)۔
۲۔ البیان،آیۃاللہ خوئیؒ، ص۳۹۷ ۔ ۳۔ المیزان فی تفسیر القرآن، علامہ محمد حسین طباطبائیؒ، ج۱، ص۴۔
۴۔ روش تفسیر قرآن، حجۃالاسلام محمود رجبی، ص۱۲وروش شناسی تفسیر قرآن، ص۲۳۔
۵ و ۶۔ سورہ نحل:۴۴ ۷۔  سورہ جمعہ:۲
۸۔شیعہ در قرآن،علامہ سید محمد حسین طباطبائی،ص۴۸ ۹۔تفسیر نمونہ،ج۱،ص۱۹
۱۰۔تاریخ القرآن،ٹئوڈور نولڈکہ،ص۳۸۳ ۱۱۔تاریخ تفسیر و مفسرین،غلام احمد حریری،ص۸۹
۱۲۔تفسیر و مفسران،ڈاکٹر ذہبی،ج۲،ص۳۰۴ ۱۳۔تفسیر موضوعی قرآن کریم،مؤلفین،ص۵۷
۱۴۔با استفادہ از روشہای تفسیر قرآن ،ڈاکٹر محمد علی رضائی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں