باسمہ تعالی
امام زمانہ حضرت حجت ارواحنا لہ الفداء اور آپ کی چالیس حدیثیں
سید محمد حسنین باقری
چودھویں معصوم اور بارہویں امام حضرت امام زمانہ کا اسم گرامی ”محمد“ اورمشہورالقاب ” مہدی “ ، حجة اللہ ، خلف صالح ، صاحب ا لعصر، صاحب الامر والزمان، القائم ، الباقی اورالمنتظر وغیرہ ہیں۔ علماٴ کا کہنا ہے کہ آپ کانام زبان پرجاری کرنے سے منع کیا گیا ہے۔کنیت ” ابوالقاسم “ ہے۔ولادت ۱۵ ؍شعبان المعظم ۲۵۵ ھ یوم جمعہ شہر سامرہ میں ہوئی ۔آپ کے پدر بزرگوار گیارہویں امام حضرت حسن عسکری علیہ السلام، والدہ جناب نرجس خاتون ہیں۔
آپ اپنے آباوٴاجدادکی طرح خدا کی طرف سے معین کئے ہوئے امام ،معصوم ،اعلم زمانہ اورافضل کائنات ہیں۔۲۶۰ھ میں امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے بعد پانچ سال کی عمر میں منصب امامت پر فائز ہوئے جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور حکم خدا سے آپ پردۂ غیب سے دنیا کی رہبری و رہنمائی اور رسول اکرمؐ کی نیابت و جانشینی کا فریضہ انجام فرمارہے ہیں۔
۲۶۰ھ سے غیبت صغریٰ کا آغاز ہوا جس کا سلسلہ۳۲۹ھ تک چلا اور ۳۲۹ھ سے آج تک غیبت کبریٰ کا زمانہ ہے اور جب خدا کی مصلحت اور اس کا حکم ہوگا امام ظہور فرمائیں گے اور جس طرح دنیا ظلم و جور اور فتنہ و فساد سے پُر ہوچکی ہوگی اسی طرح اس کو عدل و انصاف سے پر کریںگے۔
غیبت صغریٰ کے ۷۹ برس کے عرصے میں امام زمانہ ؑ کی طرف سے چار خاص نائب تھے جنھیں نُوّاب اربعہ کہا جاتا ہےاور وہ عثمان بن سعید عمری، محمد بن عثمان، حسین بن رَوح اور علی بن محمد سمری ہیں۔۳۲۹ھ سے آخری نائب کی وفات کے بعد سے غیبت کبریٰ کا آغاز ہوا اور اس دور میں عمومی نائبین یعنی فقہاء و مجتہدین نیابت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، جس کی تائید عقلی و نقلی دلیلوں کے ساتھ بہت سے واقعات سے ہوتی ہے۔ غیبت کے زمانے میں ہماری ذمہ داری ہے سب سے پہلے امام ؑ کی صحیح اور حقیقی معرفت حاصل کریںاس لئے کہ پیغمبرؐ کی حدیث ہے کہ ’’جو بھی امام کی معرفت کے بغیر اس دنیا سے جائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی‘‘۔ اور معرفت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ امام سے متعلق کتابوں، احادیث وغیرہ کا مطالعہ کریں، امامؑ کے بارے میں غور و فکر کریں ، امامؑ سے متعلق اور امامؑ کی طرف سے اور امامؑ کی نیابت میں امور انجام دیں۔ اور اسی سلسلہ کی ایک کڑی امام زمانہؑ سے بیان شدہ احادیث کا مطالعہ اور ان میں غور وفکر اور ان پر عمل ہے لہذا امامؑ سے مروی احادیث پر مشتمل یہ کتابچہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے اس دعا اور امید کے ساتھ یہ ناچیز کوشش غیبت کے زمانے میں اپنے وظائف پر عمل کرنے اور ظہور کے لئے اپنے کے آمادہ و تیار کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔
خدا نے قیامت تک کےلئے اولی الامر کا انتظام فرمایا ہے
أَمَا سَمِعْتُمْ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُوْلُ:’ یٰا أَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوا اَطِیْعُوا اللہَ وَ اَطِیعُوا الرَّسُولَ و اُولِی الأمْرِ مِنْکُمْ‘ ھَلْ أمْرٌ اِلّا بِمَا ھُوَ کائِنٌ اِلیٰ یَوْمِ القِیَامَۃِ۔
کیا تم نے یہ ارشاد الٰہی سنا ہے کہ ’’ یا ایھا الذین ۔۔۔‘‘اے اہل ایمان! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور جو تم میں اولی الامر ہیں ان کی اطاعت کرو۔ کیا خداوند عالم نے قیامت تک کے لئے یہ امر نافذ نہیں فرمایا ہے؟
( کمال الدین و تمام النعمۃ جلد ۲، صفحہ ۳۸۷)
ہر زمانے میں خالق و مخلوق کے درمیان رابطہ ہوتا ہے
۔۔۔کُلَّمَا غَابَ عَلَمٌ بَدَا عَلَمٌ، وَ اِذَا أفَلَ نَجْمٌ طَلَعَ نَجْمٌ فَلَمّا قَبَضَہُ اللہُ اِلَیْہِ ظَنَنْتُمْ أنَّ اللہَ عَزّوجلّ قَدْ قَطَعَ السَّبَبَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ خَلْقِہِ کَلّا مَا کَانَ ذٰلِکَ وَ لایَکُونُ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ وَ یَظْھَرُ أمْرُاللہِ عزّوجلَّ وَ ھُمْ کَارِھُونَ۔
جب ایک پرچم پنہاں ہوتا ہے تو دوسرا پرچم نمودار ہوجاتا ہے، اور جب ایک ستارہ غروب ہوتا ہے تو دوسرا ستارہ طلوع ہوتا ہے، جب خداوند عالم نے امام حسن عسکری علیہ السلام کی روح قبض فرمائی تو گمان یہ ہوا کہ مخلوق و خالق کے درمیان رابطہ ختم ہوگیا لیکن یہ رابطہ ہرگز ختم نہیں ہوا اور نہ قیامت تک ایسا ہوگا فرمان الٰہی غالب ہوکر رہے گا چاہے لوگ اسے دوست نہ رکھتے ہوں۔
( کمال الدین و تمام النعمۃ جلد۲، صفحہ ۷۸۷)
ائمہ کا مرتبہ
وَ أمّا الاَئِمَّۃُ علیہم السلام فَاِنَّھُمْ یَسْألُوْنَ اللہَ تَعالیٰ فَیَخْلُقُ وَ یَسْألُونَہُ فَیَرْزُقُ اِیجاباً لِمَسْألَتِھِمْ وَ اِعْظَاماً لِحَقِّھِمْ۔
ائمہؑ وہ ہیں کہ وہ اللہ سے جس چیز کا سوال کرتے ہیں وہ پوری ہوتی ہے، انہیں کی خواہش پر اللہ روزی دیتا ہے ایسا ان کے احترام اور ان کا جو حق ہے اس کی وجہ سے ہوتا ہے۔
(کتاب الغیبۃ،ص ۱۷۸)
ائمہ مشیت الٰہی کے تابع ہوتے ہیں
قُلُوبُنٰااَوْعِیَۃٌ لِمَشِیَّۃِ اللَّہِ فَاِذٰاشٰائَ شِئْنٰا۔
’’ہمارے دل اللہ کی مشیت اور اس کے ارادے کے ظروف ہیں پس جب اس کاارادہ ہوتاہے تو ہم ارادہ کرتے ہیں جووہ چاہتاہے ہم وہی چاہتے ہیں جواس کی مرضی ہوتی ہے وہی ہماری مرضی ہوتی ہے ‘‘۔
(بحارلانوار،ج٥٢،ص٥١،غیبت شیخ)
امامؑ زمین والوں کے لئے امان کا سبب
اِ نّیِ لَآَمٰانٌ لِاَھْلِ الْاَرْضِ کَمٰااَنَّ النُّجُومَ اَمٰانٌ لِاَھْلِ السَّمٰائِ۔
میں اہل زمین کیلئے اسی طرح باعث امان ہوں جس طرح ستارے اہل آسمان کے لئے باعث امان ہیں۔
( بحار الانوار ج۵۳،ص ۱۸۱؛ کمال الدین،ص۴۸۵)
اہل بیت پر ظلم کرنےوالے پر خدا کی لعنت
فَمَنْ ظَلَمَنٰاکَانَ مِنْ جُمْلَۃِ الظَّالِمِیْنَ وکَانَ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
جس کسی نے ہمارے اوپرظلم وستم کیاہے وہ ظالموں اورستمگروں میں شامل ہے اور اس پر اللہ کی لعنت ہے‘‘۔
(کمال الدین ،ص٥٢١)
پیغمبر ؐ کے بعد خدا نے انتظام کیا
وَجَعَلَ الْاَمْرَ بَعْدَہٗ اِلٰی أخِیْہِ وَابْنِ عَمِّہِ وَ وَصِیِّہِ وَ وَارِثِہِ عَلیِّ بْنِ أبِیْ طَالِبٍ ثُمَّ اِلٰی الأوْصِیاءِ مِنْ وُلْدِہِ وَاحِداً وَاحِداً أحْیا بِھِمْ دِیْنَہٗ وَ أتَمَّ بِھِمْ نُوْرَہٗ۔
خدا وند عالم نے(پیغمبر ؐاسلام کے بعد)امت کے تمام امور کو آپؐ کے بھائی ،چچا کے فرزند، وصی و وارث علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے سپرد فرمایا پھر ایک کے بعد ایک ان کی نسل سے پیدا ہونے والے دیگر اوصیاء کے سپرد فرمایا انہیں کے ذریعہ اس نے دین کو زندہ کیا اوراپنے نور کو تمام کیا۔( بحار الانوار ج ۵۳، ص ۱۹۴)
امام زمانہ ؑکا انکار کرنے والاہلاک ہوگا
لَیْسَ بَیْنَ اللَّہِ عَزَّوَجَلَّ وَبَیْنَ اَحَدٍقَرٰابَۃٌ وَمَنْ اَنْکَرَنی فَلَیْسَ مِنّی وَسَبیلُہُ سَبیِلُ ابْنُ نُوح ٍ۔
٭(مکتوب گرامی میں ) جو میرا انکار کرے وہ مجھ سے نہیں ہے اور اس کا اور پسر نوحؑ کا راستہ ایک ہے۔
( کمال الدین و تمام النعمۃ جلد۲، صفحہ ۲۸۴)
حق صرف اور صرف اہل بیتؑ کے ساتھ ہے
وَلْیَعْلَمُوااَنَّ الْحَقَّ مَعَنَاوَفینَالاٰیَقُولُ ذَلِکَ سِوٰانٰااِلاَّکَذّٰاب مُفْتَرٍوَلاٰیَدَّعیِہِ غَیْرُنَااِلاَّضَالُّ غَوِیَ
یاد رکھو کہ حق ہمارے ساتھ اور ہمارے ہی درمیان ہے ، یہ بات ہمارے علاوہ وہی شخص کہے گا جو جھوٹا اور بہتان لگانے والا ہو ۔ ہمارے علاوہ اس بات کو کہنے والاگمراہ اور بہکا ہوا ہوگا۔
(کمال الدین ۵۱۰ /۴۲)
جناب سیدہؑ نمونۂ عمل ہیں
فِی ابْنَۃِ رَسُولِ اللَّہِ’’ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَآلِہِ‘‘ لیِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃ
نبیؐ کی بیٹی میں میرے لئے اسوۂ حسنہ ہے۔
(بحار الانوار،ج۵۳،ص۱۸۰؛ احتجاج)۔
امام حسینؑ کے غم میں امام زمانہ ؑ کا گریہ
لَأَندُبَنَّكَ صَباحا و مَساءً و لأَبكِيَنَّ عَلَيكَ بَدَلَ الدُّمُوعِ دَما
(زیارت ناحیہ میں امام حسین ؑ کو خطاب کرتے ہوئے) میں ہر صبح و شام آپؑپر گریہ کرتا ہوں اور آپؑکی مصیبت میں آنسو کے بدلے خون بہاتا ہوں۔
(بحار الانوار جلد ۱۰۱صفحہ۲۳۸.)
ہر حال میں امامؑ کی طرف رجوع
فَاتَّقُواللَّہَ وَسَلَّمُو الَنٰا،وَرُدُّوالْاَمْرَ اِلَیْنٰا، فَعَلَیْنَا الْا ِصْدٰارُُکَمَاکَانَ مِنَّا الْا یِرَادُ، وَلَاتُحٰاوِلُواکَشْفَ مَاغُطَّی عَنْکُمْ۔
’’تم سب اللہ کاتقویٰ اختیارکرواورہمارے سامنے تسلیم رہو،اپنے تمام اموراورمعاملات ہمارے سپردکردو، احکام جاری کرناہماراکام ہے تمہیں ہدایت کے سرچشمہ پرلے جانابھی ہماراکام ہے وہاں سے سیراب کرکے نکالنابھی ہماراکام ہے،اورتم اس بات کو ظاہرکرنے کی ہرگزکوشش نہ کروجسے تم سے چھپا یاگیاہے ‘‘۔
(بحارالانوار،ج٥٣،ص١٧٩؛احتجاج طبرسی جلد سوم ، چہارم ۳۵۰ تا ۳۵۲ )
کسی طاغوت کی بیعت امام نہیں کرسکتا
اِ نّیِ اَخْرُجُ حینَ اَخْرُجُ وَلٰابَیْعَۃَ لِاَحَدٍمِنَ الطَّوٰاغیِتِ فیِ عُنُقیِ
’’میں قیام کروں گااورجس وقت میں حکومت الٰہیہ قائم کرنے کے لئے اٹھوں گاتو اس وقت میرے اوپرسرکشوں اورظالموں میں سے کسی ایک کی بیعت نہ ہوگی ۔
(کمال الدین ،ص٤٨٥)
ظہور کی نشانی
عَلٰامَۃُ ظُہُورِاَمْرِی کَثْرَۃُ الْھَرْجِ وَالْمَرْجِ وَالْفِتَنِ
’’ظہورکی نشانی یہ ہے کہ اس سے قبل بدامنی ہوگی،بے چینی ہوگی،پریشانی ہوگی،فتنے ہوں گے،فساد ہوگا، دہشت گردی عام ہوگی‘‘۔
(بحارالانوار،ج٥١،ص٣٢٠،غیبت شیخ)
علماء میری طرف سے حجت ہیں
اَمَّاالْحَوٰدِثُ الْوٰقِعَۃُ فَارْجِعُوافیِہٰااِلیٰ رُوٰاۃِ حَدیِثِنَافَاِنَّھُمْ حُجَّتیِ عَلَیْکُمْ وَاَنَاحُجَّۃُ اللَّہِ عَلَیْہِمْ
اپنی زندگی میں پیش آنے والے مسائل میں راویان حدیث (علماء ومجتہد ین ) کی طرف رجوع کرو، وہ میری طرف سے تمہارے لئے حجت ہیں اور خدا کی طرف سے میں ان پر حجت ہوں ‘‘(کمال الدین ،ج۲،ص ۴۸۳،الغیبۃ شیخ طوسی ص ۱۷۶ ؛وسائل الشیعہ ،ج۱۸،ص۱۰۱)
امامؑ کو ہمارے تمام امور کی خبر ہے
فَاِنَّایُحیِطُ عِلْمُنَابِاَنْبَائِکُمْ وَلاَیَعْزُبُ عَنَّاشَیْئٌ مِنْ اَخْبَارِکُمْ
ہمارا علم تمہارے احوال پر محیط ہے،تمہاری کوئی حالت ہم سے پوشیدہ نہیں ہے،اور تم جو بھی غلطیاں کرتے ہو انہیں ہم جانتے ہیں۔
( بحارالانوار ج۵۳،ص ۱۷۵)
امامؑ ہم سے غافل نہیں ہیں
اِنَّاغَیْرُمُھْمِلیِنَ لِمُرَاعَاتِکُمْ وَلَانَاسیِنَ لِذِکْرِکُمْ وَلَوْلَاذَلِکَ لَنَزَلَ بِکُمُ اللَّآوٰائُ وَاصْطَلَمَکُمْ الْاَعْدَائُ فَاتَّقُوااللّٰہِ جَلَّ جَلالُہُ وَظَاہِرُوْنَالِاِنْتِیاَشکُمْ مِنْ فِتْنَۃٍ قَدْ اَنَاخَتْ عَلَیْکُمْ۔
( جناب شیخ مفیدؒ کی توقیع میں فرمایا )ہم تمہاری خبر گیری سے غافل نہیں ہیں اور نہ تمہاری یاد کوہم نے فراموش کیا ہے، اگر ایسا ہوتا تو بلائیں تم پر ٹوٹ پڑتیں اور یہ دشمن تمہیں ریزہ ریزہ کر ڈالتے پس اللہ جل شانہٗ کا تقویٰ اختیار کرو!۔
( بحار الانوار ج ۵۲، صفحہ ۱۷۵)
امامؑ کو تکلیف پہنچانے والے لوگ
قَدْاَذٰانَاجُھَلٰائُ الشّیِعَۃِ وَحُمَقَاوُھُمْ وَمَنْ دیِنُہُ جَنَاحُ الْبَعُوضَۃِ اَرْجَحُ مِنْہ ۔
’’تین قسم کے شیعوں نے ہمیں اذیت پہنچائی ہے :
١۔ جاہل،نادان ،کم علم ۔ ٢۔ احمق،بے وقوف ،نفع ونقصان سے ناواقف ۔ ٣۔ وہ حضرات جن کے نزدیک دین کی قدر وحیثیت مچھرکے پرسے بھی کم ترہے‘‘۔
(احتجاج ،ج٢،ص٤٧٤)
اہل بیتؑ کا راستہ
وَلَاتَمیِلُواعَنِ الْیَمیِنِ وَلَاتَعْدِلُوااِلَی الْیَسَارِوَاجْعَلُواقَصْدَکُمْ اِلَیْنَابِالْمَوَدَّۃِ عَلَی السُّنَّۃالْوٰضِحَۃِ
’’نہ توتم دائیں طرف جاؤاورنہ ہی بائیں بازوکواپناؤتمہارارخ اورقصدہماری جانب رہے تمہارا سیدھارخ ہماری جانب ہو،اس کی بنیادہم سے مودت اوردوستی کوقراردو،یہی راستہ سیدھا ہے جوروشن اورواضح ہے،دائیں بائیں مت جاؤ،صراط مستقیم جوکہ ہماری مودت پر قائم ہے اسی پرباقی رہو‘‘۔
(بحارالانوار،ج٥٣،ص١٧٩،احتجاج )
غیبت میں امام زمانہ ؑ سے فائدہ
مّٰاوَجْہُ الْاِنْتِفٰاعِ بی فی غَیْبَتیِ فَکَالْاِنْتِفٰاعِ بِاالشَّمْسِ اِذٰاغَٰیَّبَھٰاعَنِ الْاَبْصٰارِ السَّحٰابُ
غیبت میں مجھ سے اسی طرح فائدہ حاصل ہوتاہے جیسے بدلی میں آفتاب کی روشی سے فائدہ حاصل کیا جاتاہے۔جہاں تک یہ سوال ہے کہ دوران غیبت میرا وجود کس طرح منفعت بخش ہے تو اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے سورج بادلوں کے پیچھے چھپ کر لوگوں کو فائدہ پہنچا رہا ہے
(بحار الانوار، جلد ۵۲، صفحہ ۱۸۱،کمال الدین ۴۸۳)
بقیۃ اللہ
اَنَابَقِیَّۃُ اللہِ فِی اَرْضِہِ،وَالْمُنْتَقِمُ مِنْ اَعدٰائِہِ۔
’’میں روئے زمین پر اللہ کا بقیہ (ذخیرہ)ہوں اوراللہ کے دشمنوں سے انتقام لینے والاہوں‘‘۔
(بحارالانوار،ج٥٢،ص٢٤،کمال الدین)
ظلم و ستم کا خاتمہ امام ؑ کے ذریعہ
وَاِذَااَذِنَ اللَّہُ لَنَافِی الْقَوْلِ ظَہَرَالْحَقُّ وَاضْمَحَلَّ الْبَاطِلُ وَ انْحَسَرَ عَنْکُمْ وَاِلٰی اللہِ أرغَبُ فی الْکِفَایَۃِ وَ جَمِیلِ الصُّنْعِ وَ الوِلایَۃِ۔۔۔
جب ہم کو خداوند عالم کی طرف کلام کرنے کی اجازت مل جائے تو حق آشکار اور باطل نا بود ہوکر تم سے دور ہوجائے گا۔ میں خداوند عالم سے چاہتاہوں کہ اس اہم کام کو بطور احسن اور کافی اور ہماری ولایت کے ساتھ انجام دے۔
(بحارالانوار،ج٥٣،ص١٩٦،غیبت شیخ)
امام کے ذریعہ ہی مکمل طور پر برائیوں کا خاتمہ
اَنَاالْمَہْدِیُّ(وَ)اَنَاقٰائِمُ الزَّمٰانِ،اَنَاالَّذی آَمْلَآُھٰاعَدْلاًکَمٰامُلِئَتْ جَوْراً،اِنَّ الْاَرْضَ لٰاتَخْلُومِنْ حُجَّۃٍوَلٰایَبْقَی النّٰاسُ فی فَتْرَۃٍوَھٰذِہِ اَمٰانَۃ�لٰاتُحَدَّثْ بِھَااِلاَّاِخْوٰانَکَ منْ اَھْلِ الْحَقَّ۔
’’میں مہدیؑ ہوں اور میں ہم قائم الزمان ہوں ،میں زمین کوعدالت کے نفاذ سے اس طرح آبادکروں گاجس طرح وہ مجھ سے پہلے ظلم وستم سے ویران ہوچکی ہوگی،بلاشک زمین حجت سے خالی نہیں ہوتی،اورلوگ بے سرپرست کسی بھی لمحہ کے لئے نہیں رہتے یہ بات امانت ہے اسے تم اپنے بھائیوں میں پہنچاناجواہل حق ہیں ‘‘۔ (کمال الدین ،ص٤٤٥)
امام زمانہ ؑ کی وجہ سے بلائیں دور ہوتی ہیں
اَنَاخٰاتَمُ الْاَوْصِیٰائِ وَبی یَدْفَعُ اللَّہُ عَزَّوَجَلَّ الْبَلٰائَ عَنْ اَھْلیٰ وَ شِیعَتی۔
میں خاتم الاوصیاء ہوں اور خدا وند عالم میری ہی وجہ سے میرے خاندان والوں اور میرے شیعوں سے بلاؤں کو دور کرتا ہے۔
(کمال الدین،ص۴۴۱؛ بحار الانوار۵۲؍۹۲)
غیبت کے طولانی ہونے کی وجہ
لَوْاَنَّ اَشْیٰاعَنَاوَفَّقَہُمُ اللّہُ لِطَاعَتِہِ عَلَی اجْتِمٰاعٍ مِنَ الْقُلُوبِ فِی الْوَفَائِ بِالْعِہْدِعَلَیْھِمْ لَمَاتَآَخَّرَعَنْہُمُ الْیُمْنُ بِلِقَائِنَاوَلَتَعَجَّلَتْ لَھُمُ السَّعَادَۃُ بِمُشَاہَدَتِنَاعَلیَ حَقَّ الْمَعْرِفَۃِ وَصِدْقِہٰامِنْھُمْ بِنَافَمَایَحبِسُنَاعَنْھْم اِلاّٰمَایَتَّصِلُ بِنَامِمّٰا نُکْرِہہُ وَلَانُوْثِرُہُ مِنْھُمْ۔
ہمارے شیعوں کو خدا وند عالم اپنی اطاعت کی توفیق عطا فرمائے اگر وعدہ وفائی میں ان لوگوں کے دل ایک ہوتے تو ہماری بابرکت ملاقات میں تاخیر نہ ہوتی بلکہ ہمارے دیدار کی سعادت حقیقی اور سچی معرفت کے ساتھ ان کو حاصل ہوتی ۔ ان کے ناپسند یدہ اور نا مناسب کام مجھے محبوس بنائے ہوئے ہیں۔ (بحا ر الانوارجلد ۵۳، ص۱۷۷، احتجاج طبرسی)
کیا ہم اپنے عہد و پیمان پر عمل پیرا پیں؟!
وَ مَعْرِفَتُنَا بِالزَّلَلِ الَّذِی أَصَابَکُمْ مُذْ جَنَحَ کَثِیرٌ مِنْکُمْ إِلَى مَا کَانَ السَّلَفُ الصَّالِحُ عَنْهُ شَاسِعاً وَ نَبَذُوا الْعَهْدَ الْمَأْخُوذَ مِنْهُمْ وَراءَ ظُهُورِهِمْ کَأَنَّهُمْ لا یَعْلَمُونَ
ہم اپنے شیعوں سے ہونے والی لغرشوں سے غافل نہیں ہیں ، ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو ان بعض برے کاموں کی طرف مائل ہیں جن سے گزشتہ نیک لوگ احتراز کر تے تھے اور جو عہدوپیمان خدا کی جانب توجہ رکھنے اور گناہوں سے دور رہنے کی خاطر ان سے لیا گیا تھا انھوں نے اس کو پس پشت ڈال دیا ہے گویا وہ جانتے ہی نہیں ۔
(احتجاج طبرسی جلد سوم ، چہارم ۳۵۰ تا ۳۵۲ )
امامؑ کو ناراض کرنے والے کاموں سے پرہیز ضروری ہے
فَلْیَعْمَلْ کُلُّ امْرِی ئٍ مِنْکُم! مَایَقْرُبُ بِہِ مِنْ مَحَبَّبِنَاوَلْیَتَجَنَّبْ مَایُدْنیِہِ مِنْ کَرٰاھِیَّتِنَاوَسَخَطِنَا،فَإِنَّ امْرَأً يَبْغَتُهُ فُجْأَةً حينَ لا تَنْفَعُهُ تَوْبَةٌ، وَ لا يُنْجيهِ مِنْ عِقابِنا نَدَمٌ عَلى حَوْبَة۔
تم میںسے ہر شخص کو اس چیز پر عمل کرنا چاہئے جو ہماری دوستی سے تم کو قریب کر دے اور ہر اس شے سے پر ہیز کرنا چاہئے جو ہماری ناراضگی سے قریب کردے ، کیوں کہ خدا وند عالم انسان کو اچانک اپنی جانب لے جاتا ہے کہ اس وقت توبہ فائدہ نہ دے گا اور گناہوں پر پشیمانی ہمارے عذاب سے نجات نہیں دے گی (احتجاج طبرسی جلد سوم ، چہارم ۳۵۰ تا ۳۵۲ )
فائدہ اور نقصان
َ أَنَّهُ مَنِ اتَّقَى رَبَّهُ مِنْ إِخْوَانِکَ فِی الدِّینِ وَ خَرَجَ عَلَیْهِ بِمَا هُوَ مُسْتَحِقُّهُ کَانَ آمِناً مِنَ الْفِتْنَةِ الْمُظِلَّةِ وَ مِحَنِهَا الْمُظْلِمَةِ الْمُضِلَّةِ وَ مَنْ بَخِلَ مِنْهُمْ بِمَا أَعَارَهُ اللَّهُ مِنْ نِعْمَتِهِ عَلَى مَنْ أَمَرَهُ بِصِلَتِهِ فَإِنَّهُ یَکُونُ خَاسِراً بِذَلِکَ لِأُولَاهُ وَ آخِرَتِه
جو بھی خدا کیلئے اپنے دینی بھائی کے حال کی رعایات کرے اور حقوق الہیٰ اس کے مستحقین کو ادا کرے وہ شخص آنے والے امتحان ومصیبت اور مشکل رنج وزحمت سے امان میں رہے گا اور جو بھی عاریت دی ہوئی نعمت میں ان لوگوں سے بخل کرے جن سے صلہ رحمی کرنے کا حکم ہے ، ایسا شخص دنیا و آخرت میں گھاٹے میں رہے گا۔ (احتجاج طبرسی،ترجمہ اردو،ج۳ و ۴،ص۳۵۴)
شیطان نماز کا دشمن ہے
فَمَااُرْغِمَ اَنْفُ الشَّیْطَانِ بِشَیْئٍ مِثْلِ الصَّلٰوۃِ فَصَلَّھَاوَاَرْغِمْ اَنْفَ الشَّیْطَانِ۔
’’نمازسے بہترکوئی اورعمل نہیںہے جوشیطان کوذلیل ورسواء کرتاہے،یعنی نمازکے ذریعہ شیطان کی ناک زمین پررگڑی جاتی ہے اوراس کی بہت ہی تذلیل ہوتی ہے،پس تم نماز ادا کرواوراس کے ذریعہ شیطان کے تکبرکی ناک کوخاک میں ملادواوراسے ذلیل کردو‘‘‘۔
(بحارالانوار،ج٥٣،ص١٨٢احتجاج)
نماز کو تاخیر سے پڑھنا!
مَلْعُونٌ، مَلْعُونٌ، مَنْ اَخَّرَالْمَغْرِبَ اِلیٰ اَنْ تَشْتَبِکَ النُّجُومُ ،مَلْعُونٌ مَلْعُونٌ، مَنْ اَخَّرَ الْغَدٰاۃَ اِلیٰ اَنْ تَنْقَضِیَ النُّجُومُ۔
ملعون ہےملعون وہ شخص جونمازمغرب مین اتنی تاخیر کرے کہ تارے کِھل جائیں(یعنی ستارے نظرآنے لگیں)،اوروہ شخص بھی ملعون ہے ملعون جونمازصبح میں اتنی تاخیرکرے کہ آسمان سے سارے ستارے غائب ہوجائیں ‘‘۔
(بحارالانوار،ج٥٢،ص١٥،غیبت شیخ)
مال امام کھانے والالعنتی ہے
لَعْنَۃُ اللہِ وَالْمَلائِکَۃِ وَالنَّاسِ أجْمَعینَ علیٰ مَنِ السْتَحَّلَ مِنْ أمْوالِنَا دِرْھَماً۔ مَنْ اَکَلَ مِنْ اَمْوَالِنَاشَیْئاًفَاِنَّمَایَآکُلُ فی بَطْنِہِ نَاراًوَسَیَصْلیٰ سَعیِراً۔
اللہ، ملائکہ اور تمام انسانوں کی اس پر لعنت ہو جو ہمارے اموال میں سے ایک درہم بھی اپنے لئے حلال جانے۔ جو بھی ہمارا مال کھائے گویا وہ اپنے شکم میں آگ بھر رہاہے۔ اور عنقریب دوزخ میں جائے گا۔
(بحار الانوار جلد ۵۳،صفحہ ۱۸۳؛ کمال الدین،ص۵۲۱)
مال امام کا بے جا تصرف جائز نہیں ہے
وَأمّا مَا سَئَلْتَ عَنْہُ مِنْ أمْرِ مَنْ یَسْتَحِلُّ ما فی یَدِہِ مِنْ أمْوَالِنَا أوْیَتَصَرّفَ فیہِ تَصَرُّفُہُ فی مالِہ مِنْ غَیْرِ أمْرِنا فَمَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ فَھُوَ مَلْعونٌ و نحْنُ خُصَماؤُہٗ یَوْمَ القیامَۃِ۔
(محمد بن جعفر سے فرمایا:) اور جو تم نے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا ہے جس کے پاس ہمارا مال ہے اس کو اپنے لئے حلال سمجھتا ہے یا ہماری اجازت کے بغیر اس میں اسی طرح تصر ف کرتا ہے جس طرح اپنے مال میں تو یاد رکھو کہ ایسا شخص ملعون ہے اور روز قیامت وہ ہمارے دشمنوں میں شمار ہوگا ۔(کمال الدین ص۵۲۰/۴۹)
امام کو ہمارے مال کی ضرورت نہیں بلکہ۔۔۔
اَمَّااَمْوٰالُکُمْ فَلاٰنَقْبَلُھَااِلاَّلِتَطَھَّرُوافَمَنْ شَائَ فَلْیَصِلْ وَمَنْ شَائَ فَلْیَقْطَعْ فَمَاآتَانِی اللَّہُ خَیْرٌ مِمّٰاآتَاکُم۔
ہم تمہارے اموال کو صرف اس لئے قبول کرتے ہیںکہ تم پاک ہوجاؤ لہٰذا جو بھی پاک ہونا چاہتا ہے وہ ہم تک(خمس) پہنچائے اور اگر نہیں چاہتا تو نہ دے۔ اور خدا وند عالم نے جو کچھ تم کو عطا کیا ہے اس سے بہتر ہمیں عطا کیا ہے۔
(بحار الانوار ۵۳/۱۸۰؛ کمال الدین، ص۴۸۴)
غیر کے مال میں تصرف جائز نہیں
فَلاَیَحِلُّ لِاَحَدٍاَنْ یَتَصَرَّفَ مِنْ مَالِ غَیْرِہِ بِغَیْرِاِذْنِہِ فَکَیْفَ یَحِلُّ ذَلِکَ فیِ مَالِنَا
کسی کے لئے جائزنہیں ہے کہ وہ کسی اورکے مال کواس کی اجازت کے بغیر اپنے تصرف میں لائے جب ایساہے توپھرکسی شخص کے لئے یہ کیسے جائزہے کہ وہ(ہماری اجازت کے بغیر)ہمارے مال میں تصرف کرے اور اسے اپنے استعمال میں لے آئے ‘‘۔
(کمال الدین ،ص٥٢١)
امام کی اجازت کے بغیر مال امام میں تصرف جائز نہیں ہے
وَ أمَّا الْمُتَلَبِّسُونَ بِأمْوالِنَا فَمَنِ اسْتَحَلَّ شَیئاً مِنْھا فَأکَلَہٗ فَاِنَّمَا یَأکُلُ النِّیْرانَ۔
جس کے اختیار میں ہمارا مال ہے اگر وہ اس میں سے کچھ بھی اپنے لئے مباح سمجھے اور اسے کھائے تو گویا اس نے دوزخ کی آگ کھائی ہے۔
(بحار الانوار ۵۳/۱۸۱)
زمین کبھی بھی حجت الٰہی سے خالی نہیں رہ سکتی
اِنَّ الْاَرْضَ لاٰتَخْلُومِنْ حُجَّۃٍ اِمّٰاظٰاہِراًوَاِمَّامَغْمُوراً۔
کیا تم نہیں جانتے کہ زمین حجت خدا سے کبھی خالی نہیں رہتی اب چاہے وہ حجت ظاہر بظاہر ہو یا پردۂ غیب میں ہو۔
(بحار الانوار ج ۵۳،ص ۱۹۱؛کمال الدین، ص٥١١)
ظہور میں تعجیل کی دعا کا فائدہ ہم ہی کوہے
اَکْثِرُواالدُّعٰائَ بِتَعْجیلِ الْفَرَجِ فَاِنَّ ذَلِکَ فَرَجُکُمْ
’’فرج جلدی ہونے کے واسطے دعابہت زیادہ کروکیونکہ اسی میں تمہارے لئے فرج (کامیابی ،سکون،آرام)ہے ‘‘۔
(کمال الدین ،ص٤٨٥؛ غیبت طوسی،۲۹۲)
بیجا سوالات سے پرہیز کرو
فَاَغْلِقُوااَبْوٰابَ السَئٰوالِ عَمّٰالاٰ یَعْنیِکُمْ وَلاَتَتَکَلَّفُواعِلْمَ مَاقَدْکَفَیْتُم ْ
’’جن باتوں کاتم سے تعلق نہیں ہے اورتمہارے فائدے میں نہیں ہیں ان کے متعلق سوال کرنے کاسلسلہ بندکردو،لایعنی اوربے مقصد سوالات کرنے سے گریزکرو،اوراپنے آپ کوایسے معلومات حاصل کرنے کی زحمت میں نہ ڈالوجن کی ذمہ داری تمہارے اوپرنہیں ڈالی گئی یعنی جس کاچاہناتمہارے لئے ضروری نہیں تم ان کے بارے معلومات حاصل کرنے کے لئے خودکومصیبت میں نہ ڈالو‘‘۔ (بحارالانوار،ج٥٢،ص٩٢،احتجاج)
امام زمانہ کی ہم سے محبت
لَوْلَامَاعِنْدَنَامِنْ مَحَبَّۃِ صَلَاحِکُمْ وَرَحْمَتِکُمْ وَالْاِشْفَاقِ عَلَیْکُمْ لَکُنّٰاعَنْ مُخٰاطَبَتِکُمْ فی شُغْلٍ
’’اگرہمیں تم سے محبت نہ ہوتی اوررتم پرہم مہربان اورشفیق نہ ہوتے اورہمیں تم سے ہمدردی نہ ہوتی اورہم تمہاری بہتری کانہ سوچتے توہم تم سے بات کرناہی چھوڑدیتے یعنی ہماراتم سے بات کرنااس بات کی نشانی ہے کہ ہم تم سے محبت کرتے ہیں تمہیں چاہتے ہیں،تمہاری خیر مانگتے ہیں،ہم تمہارے ہمدردہیں‘‘۔
(بحارالانوار،ج٥٣،ص١٧٩)
امام کے سلسلے میں اقرار ضروری ہے
الَّذی یَجِبُ عَلَیْکُمْ وَ لَکُمْ انْ تَقُولُوا: إنّا قُدْوَهٌ وَ ائِمَّهٌ وَ خُلَفاءُ اللهِ فی ارْضِهِ، وَ اُمَناوُهُ عَلی خَلْقِهِ، وَ حُجَجُهُ فی بِلادِهِ، نَعْرِفُ الْحَلالَ وَ الْحَرامَ، وَ نَعْرِفُ تَاْویلَ الْکِتابِ وَ فَصْلَ الْخِطابِ۔(تفسیر عیّاشی:۱؍۱۶۔ بحارالانوار۸۹؍۹۶؍۵۸)
تمہارے لئے ضروری ہے تم یہ عقیدہ رکھو اور اس بات اقرار کرو کہ: ہم اہل بیت رسالتؑ ہی تمام امور کا محور و بنیاد، قائد و حاکم، ھادی و راہنما ہیں ہم ہی روئے پر زمین پر اللہ کی حجت اور اس کے بندوں پر اس کے امین و اس کے شہروں میں اس کی حجت ہیں۔ہم ہی ہیں جو حرام و حلال کی معرفت رکھتے اور قرآن کی تفسیر و تاویل کو جانتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں