بچوں کو کیسے نمازی بنائیں؟
حجۃالاسلام مولانا سید منظر صادق زیدی
بچوں کی اچھی تربیت اور انہیں کمال وارتقاء کی جانب راہنمائی کرنا ہر ماں باپ کی صرف دلی خواہش ہی نہیں بلکہ مذہبی فریضہ بھی ہے پیغمبر اکرمؐ ارشاد فرماتے ہیں ادبوا اولادکم فانکم مسئولون اپنی اولاد کی تربیت کرو کیونکہ تم سے اس سلسلہ میں سوال کیا جائے گا۔ امیر المومنینؑ کا ارشاد ہے کہ ’’اکرموا اولادکم و احسنوا آدابھم‘‘اپنے بچوں کا احترام کرو اور ان کی اچھی تربیت کرو۔
امام زین العابدینؑ اولاد کے حقوق کے سلسلہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ :
وَ أَمّا حَقّ وَلَدِكَ فَتَعْلَم۔۔۔۔۔۔
تمہارے اوپر تمہاری اولاد کا حق یہ ہے کہ یہ باور کرو کہ وہ تم ہی سے ہے دنیا میں تمہیں سے وابستہ ہے اس کی اچھائیاں و برائیاں بھی تمہاری ہی طرف پلٹتی ہیں۔ یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ اس کی تربیت کرو اس کو ادب سکھاؤ۔ خداوندعالم کی طرف اس کی راہنمائی کرو پھر یاد رکھو کہ اس وظیفہ کو انجام دینے کی صورت میں ثواب کے مستحق ہوگے اور اگر تاخیر و لاپرواہی کرو گے تو عذاب و سزا کے مستحق قرار پاؤ گے۔ اس کے سلسلے میں اس طرح سے نیک اور اچھے انداز میں عمل کرو کہ اس کی اچھائی کا اثر دنیا میں ظاہر ہوا اس خداوندعالم کے نزدیک تمہارے اور اس کے درمیان عذر رہے۔اس کی اچھی بہترین سرپرستی کرنے اور اس سے نتیجہ حاصل کرنے میں خدا کے علاوہ کوئی طاقت و قوت نہیں ہے۔(رسالۂ حقوق)
جب بچوں کی تربیت انہیں اچھائیوں کا خوگر بنانا والدین کا مذہبی فریضہ ہے تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ شریعت نے ’’نماز‘‘کے بارے میں والدین کو ہدایات نہ دی ہوں جبکہ ’’نماز‘‘ دین کے اہم ترین فرائض میں شامل ہے چنانچہ نماز کے بارے میں معصومینؑ کے بے شمار تاکیدی ارشادات پائے جاتے ہیں کبھی نماز کو ’’آنکھوں کی ٹھنڈک‘‘کہا گیا قرۃ عینی فی الصلوٰۃ۔(پیغمبر اکرمؐ ،نہج الفصاحہ، ص۱۳۴۳)
کبھی نماز کو وہ حیثیت عطا کی گئی جو سر کو بدن میں حاصل ہے۔موضع الصلوٰۃ من الدین کموضع الراس من الجسد (کنز العمال ج ۷ ح ۱۸۹۷۶)۔ تو کبھی دین کا ستون الصلوٰۃ عمود دینکم (میزان الحکمۃ ج ۵ص۳۷۰)کبھی اسے اعمال کی میزان قرار دیا گیا اور اعلان ہوا کہ ان قبلت قبل ما سواھا ۔اور کبھی اسے مومن کی معراج قرار دیا گیا۔’’ الصلوٰۃ معراج المومن ‘‘نماز مومن کی معراج ہے (کشف الاسرار ج۲ ص ۶۷۶)جب والدین اپنے بچوں کو بلندیوں کی جانب لے جانا چاہتے ہیں تو اولاً’’معراج‘‘سے بلند مقام کون سا ہو سکتا ہے؟لہٰذا والدین کو چاہئیے کہ اپنے بچوں کو نماز سکھائیں،نمازی بنائیں۔
یہ بات بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ بچپن کی سیکھی ہوئی باتیں زندگی بھر یاد رہتی ہیں اور روایات میں ہے کہ ’’النقش فی الصغر کالنقش علیٰ الحجر‘‘بچپن میں کسی چیز کا سکھانا ہے گویا پتھر پر نقش کندہ کرنے کے مانند ہے۔ پتھر پر کندہ نقوش جیسے کبھی مٹتے نہیں ہیں ایسے ہی بچپن میں یاد کی ہوئی چیزیں کبھی حافظہ سے محو نہیں ہوتیں۔موجودہ حالات میں جب ہمیں معلوم ہے کہ روز بروز بے دینی اور بے حیائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہےوالدین کی زیادہ ذمہ داری ہےکہ بچوں کو بچپن ہی میں دین سکھا دیں اور انہیں اتنا دیندار بنا دیں کہ بڑے ہو کر بے دینی کے ماحول سے متاثر نہ ہو سکیں ۔
لیکن اہم سوال یہ ہے کہ بچوں کو نمازی کیسے بنایا جائے؟اس کے جواب میں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ نماز سکھانا یا بچوں کو نیکیوں کا خوگر بنانا در حقیقت ’’تربیت‘‘ کا حصہ ہے لہٰذا بچوں کو ’’نمازی بنانے‘‘ کے لئے بھی تربیت کے اصولوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ سردست بطور اختصار چند باتوں کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے :
(۱)محبت و شفقت:
تربیت کا اولین اور اہم ترین اصول’’محبت و شفقت‘‘ہے۔ قول مشہور ہے کہ ’’از محبت خارھا گل می شود‘‘ مربی کی جانب سے محبت و شفقت کا اظہار دیکھنے کے بعد تربیت حاصل کرنے والاخود بخود اپنے مربی کا شیدا ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو اس کے کردار میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ محبت اور تربیت میں کتنا عمیق رابطہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اجرت رسالت کسی اور شی کو نہیں بلکہ ’’قربیٰ کی محبت ‘‘کو قرار دیا گیا ہے۔
لہٰذا بچوں کو نمازی بنانے کے لئے بھی بے جا سختی یا شدت پسندی کے بجائے محبت و شفقت کے ذریعہ عبادت و بندگی خصوصاً نماز کا عاشق و شیدا بنانے کی کوشش کرنا چاہئیے۔
(۲)آئیڈیل ہونا :
تربیت میں آئیڈیل اور مثالی نمونہ کا پیش نظر ہونا بہت ضروری ہے۔ ہر بچہ فطری طور پر کسی نہ کسی کو اپنا آئنڈیل بناتا ہے لہٰذا نماز کے لئے بھی بچوں کے لئے آئیڈیل اور مثالی کردار کا سامنے ہونا ضروری ہے۔ قرآن کریم نے اسی لئے پیغمبراکرمؐ کا تعارف ’’اسوۂ حسنہ کے طور پر کرایا ہے۔اور بچوں کے لئے سب سے پہلا آئیڈیل ماں باپ ہوتے ہیں اور شعوری ولاشعوری طور پر بچے والدین سے بہت سی باتیں سیکھتے ہیں۔ گھر میں اگر نمازی نماز کو اہمیت دینے والے آئیڈیل ماں باپ یا بزرگ ہوں گے تو بچے بھی نماز کی طرف راغب ہوں گے۔ اگر بچے یہ دیکھیں گے کہ ہمارے والدین ،گھر کے بزرگ نماز کو بہت اہمیت دیتے ہیں ،تمام کاموں اور مصروفیات کو ترک کرکے نماز ادا کرتے ہیں کیسے بھی حالات ہوں نماز ادا کرتے ہیں تو بچے بھی نمازی ہوں گے لیکن اگر خدانخواستہ گھر میں نماز کا ماحول نہ ہو، والدین خود بھی نمازی نہ ہوں تو بچوں کو کیسے نمازی بنا سکتے ہیں؟
(۳)گھر کا ماحول:
بچے ماحول سے بہت متاثر ہوتے ہیں اور جیسا ماحول ہوتا ہے بچے عموماً ویسے ہی ماحول میں ڈھل جاتے ہیں اگرگھر میں دعا و عبادات اور نماز کا ماحول ہے تو یقیناً بچے بھی عبادت گذار اور نمازی ہوں گے لیکن اگر خدا نخواستہ گھر کا ماحول ایسا نہ ہو تو فقط کہنے سننے سے بچے نمازیں نہیں بن سکتے۔
(۴)نمازی بچوں سے دوستی:
انسانی زندگی میں دوستی کا بہت اہم رول ہے چنانچہ روایات میں ہے کہ ’’المرء علیٰ دین خلیلہ‘‘انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔ دوستی انسان کے کردار کو سنوار بھی سکتی ہے اور بگاڑ بھی دیتی ہے لہٰذا ہمیں اپنے بچوں کے دوستوں پر نظر رکھنا چاہئیے کہ ہمارے بچوں کی صحبت کیسی ہے؟اگر ہمارے تعلقات اور ہمارے بچوں کی رفت و آمد دیندار گھرانوں میں ہو تو بچے بھی دیندار رہیں گے اور اگر خدانخواستہ بے دین گھرانوں سے ہو تو لاشعودی طور پر ہمارے بچے بھی بے دین ہو جائیں گے لہٰذا کوشش ہونا چاہئیے کہ ہمارے بچوں کی دوستی، نمازی بچوں کے ساتھ ہو۔
(۵)نماز کے بارے میں گفتگو:
بچوں کے ساتھ نماز کے بارے میں گفتگو کرنا چاہئے۔ انہیں نماز کی عظمت و اہمیت، فضائل، ترک نماز کے نقصانات، سزا وغیرہ کے بارے میں روایات اور دلچسپ واقعات سنائے جائیں تا کہ ان کے اندر نماز کا شوق پیدا ہو سکے ۔
(۶)تشویق و ترغیب:
انسان کی زندگی میں تشویق و ترغیب اور انعام و قدردانی بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ معمولی سی تشویق یا قدر دانی بچے کے دل میں ایسی جگہ بناتی ہے کہ بچہ اسے بہت دنوں تک یاد رکھتا ہے اور خود سے اس کا تذکرہ کرتا ہے ۔چنانچہ بچے اکثر اسکول سے آکر بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ آج مجھے اتنے اسٹار ملے ہیں۔انہیں اسٹار کو حاصل کرنے کے لئے بچہ زیادہ محنت کرتا ہے۔ یہی صورتحال اگر نماز و عبادات کے بارے میں بھی اختیار کی جائے تو یقیناً مؤثر ہوگی۔ نماز کا انعام مادی بھی ہو سکتا ہے اور معنوی بھی۔ مثلاً انہیں کوئی تحفہ دیا جائے یا کسی مذہبی مقام کی زیارت کے لئے لے جایا جائے یا جس بچہ میں مذہبی جذبہ زیادہ ہو اس کے ساتھ زیادہ شفقت و محبت کا برتاؤ کیا جائے لیکن یہ کام اعتدال کی حد میں ہونا چاہئیے اور ایسا نہ ہو کہ دوسرے بچوں کے حقوق ضائع ہو جائیں۔ اسی کے ساتھ بچوں کو یہ احساس بھی ہونا چاہئیے کہ یہ خصوصی برتاؤ کیوں ہو رہا ہے۔
امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالبؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ علموا صبیانکم الصلوٰۃ‘‘ اپنے بچوں کو نماز سکھاؤ ۔ ۔۔۔
صبیان صبی کی جمع ہے اور صبی بچہ کو کہا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز سیکھنا بچوں کے ذمہ داری نہیں ہے بلکہ بزرگوں کا فریضہ ہے ۔ بچوں کو سکھائیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ’’ صبی‘‘ کو سکھانا ہے یعنی بچپن میں سکھادینا ہے۔ یہ انتطار نہیں کرنا ہے کہ بالغ ہونے پر خود سیکھ لے گا۔
ایک تفصیلی روایت میں امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ جب بچہ تیسرے سال میں داخل ہوجائے تو اس سے سات مرتبہ لا الہ الا اللہ۔ کہلایا جائے۔ سات ماہ بعد ’’محمد رسول اللہ‘‘، سات بار کہلایا جائے۔
جب پانچ سال کا ہوجائے اور مسجد میں آنے لگے تو اس کا رخ قبلہ کی طرف کرکے اس سے سجدہ کرائیں جب سات سال کا ہوجائے تو ہاتھ منہ دھوکر نماز پڑھنے کےلئے کہا جائے اور جب نو سال کا ہوجائے تو اسے وضو کرنا سکھایا جائے اور اس کے ترک کرنے پر تنبیہ کی جائے۔ نماز کا حکم دیا جائے اور نماز ترک کرنے پر تنبیہ کی جائے۔
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ بچوں کو ان کی عمر کے لحاظ سے دھیرے دھیرے اور مرحلہ بہ مرحلہ نماز و عبادات سکھائے جائیں ۔ شروع میں انتہائی مختصر ۔ عمر میں اضافہ کے ساتھ اضافہ کیا جائے۔ اور بہرحال یہ کام سن بلوغ سے کافی پہلے انجام پانا چاہئے ۔
عبادت کی جان ریاکاری سے پاک، خلوص نیت کے ساتھ انجام دیا جانا ہے۔ اس لئے عموماً شریعت کی تاکید یہی ہے کہ نیک اعمال اس طرح انجام دیئے جائیں کہ دوسروں کو خبر نہ ہو لیکن نماز کےمعاملہ میں ایسا اس گھر میں بیٹھ کر گوشۂ تنہائی میں نماز پڑھنے کے بجائے مسجد میں نماز پڑھنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ مسجد میں بھی فرادیٰ پڑھنے کے بجائے جماعت کے ساتھ پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ لہٰذا جب بزرگ حضرات نماز پڑھنے کے لئے مسجد جائیں تو بچوںکو اپنے ہمراہ مسجد لے جائیں تاکہ بچپن سے انہیں مسجد سے انسیت ہو اور بڑے ہوکر مسجد سے گریزاں نہ ہوں مسجد میں بھی جوانوں اور بچوں کے لئے ایسے پروگراموں کا انعقاد ہوتا رہے کہ جس سے جوان اور بچے مسجد کی طرف راغب ہوسکیں تو نور علیٰ نور ہے۔ تبلیغ کے لئے بھی مفید ہے مختلف مساجد میں لے جانا بھی مفید ہے۔لیکن یہ خیال رہے کہ بچے مسجد میں پہنچ کر نماز کی طرف مائل ہوں دوسروں کی نماز خراب نہ کریں۔
کچھ مختلف اور متنوع چیزوں کے ذریعہ بھی بچوں میں نماز کی جانب رغبت پیدا کی جاسکتی ہے مثلاً ان کے لئے چھوٹی سی جا نماز ، خوشنما تسبیح ، سجد گاہ فراہم کرنا اور ان کو یہ احساس دلانا کہ یہ ان کےلئے خصوصی تحفہ ہے۔ چھوٹی بچی کےلئے نماز کی چادر بنانا۔ نماز سے متعلق تصاویر یا پزل وغیرہ یا بچوں سے مسجد ، نماز جماعت ، نماز عید کی پینٹنگ بنوانا، بچوں کی نظموں کے ذریعہ انہیں وضو اور نماز کے احکام یاد کرانا وغیرہ۔(ماہنامہ اصلاح)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں