بدھ، 13 مئی، 2020

لوگوں نے حضرت علی کا ساتھ کیوں نہیں دیا؟

لوگوں نے حضرت علی کا ساتھ کیوں نہیں دیا؟
آیۃاللہ مصباح یزدی مد ظلہ
ولایت سے گریز کا معمہ 
اہل بیت اطہار علیہم السلام خاص کر حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل و مناقب میں شیعہ اور سنی دونوں مکاتب فکر سے لاتعداد روایات منقول ہیں،مکتب اہل بیت کے علماء کے علاوہ مکتب خلفاء کے علماء نے بھی امیرالمومنین کی ولایت،مناقب اور ان آیات کے بارے میں کتابیں تحریر فرمائی ہیں جو آنجنابؑ کی شان میں نازل ہوئی ہیں اسی طرح غدیر کے بارے میں کافی کتابیں لکھی ہیں۔
شیعہ اور سنی حضرات نے جو کثیر روایات حضرت امیر کے فضائل،وصایت اور خلافت کے بارے میں نقل کی ہیں ان کی روشنی میں چاہئے تو یہ تھا کہ آپ علیہ السلام کی شخصیت کی عظمت اور بعد از رسولؐ خدا آپ کی خلافت ونیابت میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ کیا جاتا۔
آپ علیہ السلام کی عظمت اور فضائل اور مناقب کا شہرہ اس قدر ہے کہ آج بہت سے غیر مسلم۔(مثلاً جارج جرداق مسیحی)بھی بڑے جوش و خروش اور عقیدت و احترام کے ساتھ آپ کے بارے میں کتابیں لکھ رہے ہیں اور تقریریں کر رہے ہیں ،حتی کہ بعض اوقات جو لوگ کسی بھی آسمانی دین کے پیروکار نہیں وہ بھی آپ علیہ السلام کی ذات سے عشق کی حد تک اظہار محبت کرتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام مظہر عدالت اور تمام انسانی فضائل کا مجسم نمونہ ہیں،علیؑکا نام آتے ہی عدالت اور انسانی فضائل کا نقشہ ذہن میں آجاتا ہے،لیکن اوائل اسلام کے جن مسلمانوں نے اس مظلوم ہستی کے ساتھ جو سلوک کیا وہ لوگ تھے جن کا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے ساتھ شب و روز کا اٹھنا بیٹھنا تھا،علی علیہ السلام کے بارے میں سرکار رسالتؐ کے فرامین کو اپنے کانوں سے سن چکے تھے اور امیرالمومنین علیہ السلام کی اسلام اور رسول اکرمؐ کے لئے فدا کاری،جاں نثاری،شجاعت،شہامت،ایثار،قربانی،محبت،دل سوزی اور خیر خواہی جیسے عناصر کو ایک نہیں متعدد بار ملاحظہ کر چکے تھے۔
اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ان تمام خوبیوں کے باوجود مسلمانوں نے آپؑ کی ذات کے ساتھ اس عقیدت اور احترام کا ثبوت نہیں دیا جو آپ کے شایان شان تھا؟نہ صرف یہ بلکہ الٹا آپؑ کی ذات کے دشمن ہوگئے ؟۔
ادھر یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی رحلت کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی خلافت،وصایت اور امامت کی بات بھی کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو حضرت رسول پاک کی زندگی میں مخفی رہی ہو اور اس کا کسی کو علم تک نہ ہو،بلکہ اپنی نبوت کے اعلان کے روز اول ہی سے آپؐ نے فرما دیا تھا کہ ’’جو شخص مجھ پر ایمان لے آئے گا وہی میرا جانشین ہوگا‘‘(بحارالانوار جلد ۱۸باب۱ روایت۲۷)اور اسی موقعہ پر سب نے دیکھ لیا کہ ایک بارہ تیرہ سالہ نوجوان کے علاوہ کسی اور نے آپ کی دعوت کا مثبت جواب نہیں دیا اور وہ تھے علی بن ابی طالب علیہ السلام۔
چنانچہ رسول گرامی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اس دن کے بعد سے اپنے وصال کے آخری ایام تک مختلف موقعوں اور مختلف مناسبتوں پر اسی امر کی طرف علی الاعلان اور اشاروں کنایوں کے ساتھ لوگوں کومتوجہ فرماتے رہے کہ ’’میرے جانشین علیؑ ہیں‘‘اور آخری مرتبہ اپنی رحلت سے ستر دن پہلے غدیر خم کے مقام پر ان تمام مسلمانوں کے مجمع میں جتنا اس مقام پر اکٹھا ہو سکتے تھے۔(اکثر مورخین کے مطابق ان کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی)ایک ایسے بیابان میں جہاں غضب کی دھوپ اور گرمی تھی اور کسی قسم کے سایہ کانام تک نہیں تھا،علی علیہ السلام کا ہاتھ بلند کرکے فرمایا :’’مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَھٰذَا عَلِیٌّ مَوْلَاہُ‘‘جس جس کا میں مولااور سردار ہوں اس اس کے یہ علیؑ مولااور سردار ہیں یعنی میرے بعد یہ میرے جانشین ہیں۔
آخریہ کیا ہو گیا کہ صرف ستر دن کے بعد مسلمانوں نے اس فرمان ذیشان کو بھلادیا اور اپنی طرف سے آنحضرتؐ کا جانشین متعین کردیا اور یہ تک نہ سوچا کہ حضور پاک نے بھی مقام غدیر پر کچھ فرمایا تھا؟۔
جو لوگ سقیفہ میں اکٹھے ہوئے وہ کوئی نو مسلم نہیں تھے بلکہ ان میں سےبہتیرے تو وہ لوگ تھے جو بدر،احد،خیبر اور حنین تک کی جنگوں میں شرکت فرما چکے تھے اور سالہا سال تک اسلام کی راہ میں تلوار چلاتےرہے اور سختیاں جھیلتے رہے،پھر بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ ابھی حضور سرور کائناتؐ کا جنازہ دفن نہیں ہو پایا تھا کہ انہی مسلمانوں نے حضورؐ کے لئے کسی اور شخص کو چن لیا اور فرمان رسولؐ کو یاد تک نہ کیا؟۔
یہ اس حالت میں ہے کہ روایات اہل بیت علیہم السلام میں علی علیہ السلام کی ولایت کے بارے عجیب اسرار سے کام لیا گیا،یہاں تک کہ اگر کوئی شخص آپؑ کی ولایت کا منکر ہے نہ تو اس کا ایمان مکمل ہے اور نہ ہی اس کا عمل قابل قبول ہے ،حتی کہ بعض روایات میں تو یہ بھی ہے کہ ’’اگر کوئی شخص صفا اور مروہ کے درمیان اس قدر عبادت کرے کہ مشکیزے کی مانند خشک ہو جائے لیکن اگر وہ علی علیہ السلام کی ولایت کا منکر ہے تو اس کی عبادت قطعاً قبول نہیں ‘‘۔(بحار الانوار جلد ۲۳ باب ۱۳ ص ۲۳۰)
آخر علی علیہ السلام کی ولایت میں کونسا ایسا راز پوشیدہ ہے کہ وہ اس حدتک اہمیت کا حامل ہے ؟۔
علی علیہ السلام کی مخالفت کے تین اہم عنصر 
ابتدائے اسلام کے کم و بیش تمام مسلمان حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت سے واقف تھے،آپ علیہ السلام کے فضائل و مناقب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے اور پیغمبر اکرمؐ کی زبانی اپنے کانوں سے سن چکے تھے،ہمارے اس مدعا کی شاہد وہ متعدد اور معتبر روایات ہیں جو علماء تسنن نے اپنی کتابوں میں خود انہی مسلمانوں سے نقل کی ہیں ۔(ازاں جملہ سید سلیمان حنفی قندوزی کی کتاب ’’ینابیع المودۃ‘‘ہے)اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سب کچھ کےباوجودمسلمان حضرت علی علیہ السلام کا ساتھ چھوڑ کر دوسرے لوگوں کے پیچھے کیوں لگ گئے؟اور صرف یہی نہیں بلکہ بعض مسلمان تو آپ علیہ السلام کی دشمنی پر کمر بستہ ہوگئے؟تو اس سوال کے جواب میں تین اہم عناصر کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرائی جاتی ہے:۔
(۱)۔ذاتی کینہ اور بغض:
اس سوال کے جواب میں چند سلسلہ وار نفسیاتی مسائل کو پیش کیا جاتا ہے جن میں سے بعض کی طرف ’’دعائے ندبہ‘‘میں بھی اشارہ کیا گیا ہے،یعنی جن لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کا ساتھ چھوڑ دیا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے دلوں پر جناب امیر علیہ السلام کی ذات سے حسد اور کینہ کے سانپ لوٹ رہے تھے اور اس کا سبب یہ تھا کہ جو لوگ آغاز اسلام میں مسلمان ہوئے تھے در اصل وہ پہلے یا تو مکہ کے بت پرست تھے یا عرب کے مختلف قبائل سے ان کا تعلق تھا اور بہت سی جنگوں میں پیغمبر ؐ اکرم کے مد مقابل محاذوں میں شرکت کر چکے تھے اور ان میں سے بہتیروں کے لواحقین بدرو حنین جیسے محاذوں میں علی بن ابی طالب علیہ السلام کی تلوار سے واصل جہنم ہو چکے تھے ،اس زمانے میں ۔(اور اب بھی)قبائلی تعصب حکم فرما تھا اور ہے،چنانچہ اگر کسی جنگ میں کسی کا کوئی عزیز مارا جاتا تو وہ سارا قبیلہ اس کے قاتل کا دشمن ہوجاتا اور اس کے بارے میں ان لوگوں کے دلوں میں کینہ پیدا ہوجاتا،چنانچہ اس بارے میں دعائے ندبہ کے الفاظ ہیں ’’اَحْقَادًا بَدَرِیَّۃً وَ خَیْبَرِیَّۃً وَ حُنَیْنِیَّۃً وَ غَیْرَ ھُنَّ فَاَضَبَّتْ عَلٰی عَدَاوَتِہٖ وَ اَکَبَّتْ عَلٰی مُنَابَذَتِہٖ‘‘وہ لوگ اگر چہ مسلمان تو ہو گئے تھے اور بظاہر علی ابن ابی طالب، کے ساتھ دوستی کا بھی اظہارکرتے تھے مگر اپنے دلوں کے مختلف زاویوں میں ان کی دشمنی کو چھپائے ہوئے تھے حتی کہ ناخود آگاہ صورت میں ان سے کینہ اور دشمنی کا اظہار کیاکرتے تھے اور خود سے کہا کرتے تھے ’’یہی تو وہ ہے  جس نے ہمارے باپ کو،چچا کو اور ماموں کو اور کسی دوسرے رشتہ دار کو قتل کیا ہوا ہے‘‘۔
(۲)۔علی علیہ السلام کی عدالت:
آغاز اسلام کے مسلمانوں کی علیؑ کے ساتھ مخالفت اور دشمنی کا سبب ایک اہم عنصر مولاکی وہ صفت تھی جسے لوگ آپ علیہ السلام کی کمزوری سمجھتے تھے وہ لوگ مولاعلی علیہ السلام کے دوسرے فضائل کا اعتراف کرتے تھے لیکن اپنی سوچ کے مطابق ان کی ایک صفت جسے وہ ان کا عیب یا کمزوری شمار کیا کرتے تھے اور اعتراض کیا کرتے تھے ،وہ یہ تھا کہ بقول ان کے ’’علیؑبہت سخت گیر ہیں ان میں کسی قسم کی لچک نہیں پائی جاتی وہ بال کی کھال اتارتے ہیں اور حد سے زیادہ کسی بات کا مواخذہ کرتے ہیں خاصکر ان مطالب کے بارے میں جو شرعی احکام سے تعلق رکھتے اور حقوق الناس اور بیت المال سے ان کا تعلق ہوتا ہے اس بارے میں توبہت ہی سخت گیری سے کام لیتے ہیں ‘‘۔
ہم میں سے بہت سے لوگ حضرت علی علیہ السلام کے بھائی جناب عقیل کی داستان کو جانتے ہیں جو نابینا ہو چکے تھے اور کافی عیالدار تھے ،بعض اوقات ان کی اولاد فاقوں سے وقت گزار دیتی تھی،کیونکہ انہیں بیت المال سے جو وظیفہ ملاکرتا تھا وہ نہایت ہی ناکافی ہوتا تھا،انھوں نے ایک دن حضرت علی علیہ السلام کی دعوت کی تا کہ وہ آکر اپنی آنکھوں سے بچوں کی حالت دیکھیں شاید اس طرح سے بیت المال سے وظیفہ میں اضافہ کردیں،ان کے مطالبے کو سن کر حضرت ؑ نے لوہا گرم کرکے ان کے نزدیک کیا تو ان کی چیخ نکل گئی اور کہنے لگے : ’’آپ علیہ السلام مجھے جلانا چاہتے ہیں؟میں نے کیا قصور کیا ہے جس کی آپؑ مجھے سزا دے رہے ہیں ؟‘‘امیرالمومنین ؑنے فرمایا :’’تم اس لوہے سے چیخ اٹھے ہو جسے میرے ہاتھوں نے گرم کیا ہے اور میں اس آگ سے نہ ڈروں جو قیامت کے دن غضب الہٰی سے بھڑکائی جائے گی اگر میں بیت المال سے ایک درہم بھی زیادہ تمہیں دوں تو آخرت میں جہنم کی آگ کا ایندھن بنوں؟‘‘(بحارالانوار جلد ۴۱ باب ۱۰۷روایت ۲۳)
جی ہاں!حضرت علی علیہ السلام بیت المال اور اسلامی معاشرہ کے بارے میں اس قدر سختی سے کام لیتے تھے کہ بہت سے لوگ اس سے اکتا گئے تھے حتی کہ آپؑ کے بہت سے قریبی دوستوں کے لئے بھی یہ بات ناقابل برداشت تھی،حضرت کی اس قسم کی کڑی سختی خاص کر بیت المال کے معاملے میں اس بات کا باعث بن گئی کہ آپ کے کئی دوستوں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا،مخالفین کا آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔
(۳)۔ذہنی پسماندگی۔یا۔جہالت:
امیرالمومنین کے ساتھ مخالفت کا نہایت ہی موثر عامل کہ جو ایک عمومی حیثیت کا حامل ہے اور ا سے موثر ترین اور نہایت ہی بنیادی عنصر قرار دیا جا سکتا ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں اسے بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے حتی کہ آج بھی ہمارے معاشرے کو اسی سے زیادہ خطرہ لاحق ہے وہ ہے’’جہالت‘‘یا عوام کی ذہنی پسماندگی۔
سرکار رسالتمآبؐ کے دور میں عمومی طور پرلوگ ۔(سوائے معدودے چند لوگوں کے)اسلام کے بارے میں مکمل اور گہری معلومات سے بے بہرہ تھے،بعثت کے تیسرے سال ہی آنجنابؐ کی اعلانیہ تبلیغ کا آغا زہوگیا،اور اس کے بیس سال بعد تک بڑی مشکل سے گنتی کے چند لوگ مسلمان ہوئے جبکہ لوگوںکی بڑی تعداد نے حضورؐ اکرمؐ کے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد اسلام قبول کیا اور وہ آپؐ کی عمر مبارک کے آخری تیسرے یا چوتھے سال میں ۔
واضح سی بات ہے کہ ایک تو رسل و رسائل اور معلومات کے وسائل بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے دوسرے لوگوں کا تعلیمی تناسب تقریباً صفر کے برابر تھا تو حضورؐ اس محدود مدت میں کیونکر جزیرۃ العرب کے مسلمانوں کو عمیق اور وسیع تر اسلامی معارف سے آگاہ کر سکتے تھے۔اسی لئے حضور اکرم کے زمانے کا معاشرہ شدید ذہنی پسماندگی کا شکار تھا،اس قدر شدید کہ ہم اس کی حدوحدود کو صحیح معنوں میں نہیں سمجھ سکتے،اس دور کےلوگ اپنے ہی ہاتھوں سے کھجور کے بت بناتے جب تک جی چاہتا ان کی پوجا پاٹ کرتے رہتے اور جب بھوک لگتی تو انہیں چٹ کر جاتے تو یہ تھی اس دور کے لوگوں کی معلومات کی حد!!اب آپ خود ہی اندازہ لگائیے کہ اللہ کا پاک رسولؐ کس حد تک جگر کا خون پئے اوران لوگوں کو توحید سے آشنا کرے؟اور انہیں اس خدا سے آشنا کرے جو جسم و جسمانیت سے پاک اور ان آنکھوں سے قابل دید نہیں ہے اور انہیں اس خدا کے دئیے ہوئے معارف سے آگاہ کرے؟ایسے لوگوں کے لئے جن کی معلومات کی سطح اس حد تک گری ہوئی تھی اس بات کا قبول کرنا بڑا مشکل تھا کہ حضور رسالتمآبؐ کی وفات کے بعد کسی ایسے شخص کی رسول کی مانند اطاعت کریںجو رسول نہیں ہے !اگر وہ انتہائی درجے کے ایمان کے حامل تھے اور کسی حد تک تسلیم کرنے کے لئےآمادہ بھی تھے تو صرف اتنا کہ ’’اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُوْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ‘‘نبی گرامی مومنین کے نفسوں پر تصرف کرنے کے لئے خود ان کی ذات سے  زیادہ حق رکھتا ہے (احزاب؍۶)کے پیش نظر صرف حضور نبی کریمؐ کی ذات کی اطاعت کو قبول کریں،رہی رسول خدا ؐ کے بعد کسی اور کی اطاعت کے وجوب کی بات تو ان کے لئے بڑی آسانی کے ساتھ اس کا ہضم کرنا مشکل تھا۔
جمہوریت ایک سقیفائی ’’تحفہ‘‘
اس زمانے کے لوگ جن کی فکرو معلومات کی سطح اس حد تک معمولی تھی کہ ہزارکوششوں کے باوجود وہ صرف حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی اطاعت کے وجوب پر ہی راضی ہوئے تھے،لیکن جب آپؐ کی رحلت ہوگئی،چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ کسی کا نام نہیں لیا تھا کہ ’’فلاں شخص بھی ’’اولی بالمومنین ‘‘ہے ‘‘لہٰذا ان سادہ لوح مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد آپؐ کے جانشین کا تقرر خود لوگوں کے ہاتھ میں ہے یا آج کل کی اصطلاح میں یہ ایک جمہوری مسئلہ ہے،اگر ایک گروہ کہ جو اہم شخصیات پر مشتمل تھا کہنے لگا:’’اگر نبوت کے بارے میں ہمیں کسی قسم کی مداخلت کا حق حاصل نہیں تھا کم از کم اس کےجانشینی کے مسئلہ میں تو ہمیں یہ حق ضرور ملنا چاہئے‘‘۔(بحارالانوار جلد ۳۷ باب ۵۲ روایت ۴۰)یہ وہ لوگ تھے جن کا عام طور پر قبائل کے رؤسا سے تعلق تھا اور معاشرہ میں ان کا ایک مقام تھا ۔جس طرح ہمارے بعض حضرات ہوتے ہیں۔اور وہ اپنے لئےایک خاص مقام ومنزلت کے قائل تھے،انھوں نے از خود ایک ’’حدیث‘‘بنائی کہ ’’پیغمبر ؐ خدا نے فرمایا ہے کہ نبوت اور امامت ایک خاندان میں اکٹھی نہیں ہو سکتی ‘‘(ایضاً جلد ۲۷ باب ۹ روایت ۱۵)
انھوں نے یہ حدیث اس لئے گڑھی ہے تا کہ اپنے لئے رسولؐ خدا کی جانشینی اور لوگوں پر حکومت کی راہ ہموار کر سکیں،اب آپ خود ہی اندازہ کیجئے کہ کتنے عوامل ہیں کہ ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ملاکر ولایت کے سد راہ ہو گئے اور علی علیہ السلام کو ان کے حق سے محروم کر دیا،وہ عوامل یہ تھے،لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، ان کی دینی معلومات پہلے تو تھی نہیں اگر تھیں تو بالکل سطحی اور ادنیٰ درجے کی،گہرے اور عمیق ایمان کا فقدان اور بعض شیطان صفت لوگوں کا غلط پروپیگنڈا۔
اگر چہ عوام الناس سادہ لوح تھے اور ان کی معلومات بھی ادنیٰ درجے کی تھیں لیکن جو سیاستدان تھے وہ اس قدر مشاق تھے کہ آج کی ترقی یافتہ دنیا کے سیاستدانوں کو ان سے سبق لینا چاہئے اور ان کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کرنا چاہئے اور یہ باور نہیں کرنا چاہئے کہ سقیفہ کا ماجرا کوئی معمولی واقعہ تھا اور ان کے افراد نے اتفاق سے اکٹھے ہو کر رسول گرامیؐ کے جانشین کا انتخاب کرلیا ،انھوں نے کافی عرصہ پہلے سے اس کا نقشہ تیار کیا ہوا تھا،بلکہ اقرار نامے لکھ کر ان پر دستخط بھی کر چکے تھے کہ رسولؐ خدا کے بعد کس شخص کو کھڑا کیا جائے اور اس کا پیغمبر کا خلیفہ اورجانشین کے عنوان سے تعارف کرایا جائے اس کام کے لئے ہر کسی کو پیش نہیں کیا جا سکتا،بلکہ وہ شخص ہونا چاہئے جو رسول خداؐ کی زوجہ محترمہ کا والد ہو، اس کی ریش مبارک سفید ہو اور اس کا شمار ان افراد میں ہوتا ہو جو سب سے پہلے حضورؐ کی ذات پر ایمان لاچکے ہوں،حضور پاک کا یار غار بھی ہو،اسی قسم کے آدمی کو پیش کیا جاسکتا تھا،اسی لئے منظور نظر شخصیت کا پہلے ہی سے انتخاب ہو چکا تھا اور بطور خلیفہ اس کو منتخب کر لیا گیا تھا،اب صرف اعلان کی دیر تھی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے کس طرح پیش کیا جائے؟اس کام کے لئے باقاعدہ ایک نقشہ تیار کر لیا گیا تھا،کہنے لگے:’’ایک شوریٰ بنا دیتے ہیں اس میں بیٹھ کر پہلے تو بحث و مباحثہ کریں گے پھر رسولؐ خدا کے ایک خسر محترم کھڑے ہوکر کہیں گے کہ میں تو خلیفہ اول کی بیعت کرتا ہوں ان کے بعد دوسرا آدمی کھڑا ہو جائے گا وہ بھی اسی طرح کہے گا پھر دوسرا پھر تیسرا بالآخر منصوبے پر عمل ہو جائے گا اور ہوا‘‘اور ہوا بھی وہی جو انھوں نے چاہا۔
رسول خداؐ نے ستر دن پہلے علی علیہ السلام کا ہاتھ بلند کرکے فرمایا :’’مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہٗ فَھٰذَا عَلِیٌّ مَوْلَاہٗ‘‘(بحار جلد ۲۸ باب ۴ روایت۱) لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سقیفہ میںکسی ایک شخص نے بھی یہ نہ کہا:’’رسولؐ خدا نے کس شخص کو خلیفہ مقرر کیا تھا؟‘‘وہاں کون موجود تھے؟وہی جنھوں نے بدر سے لے کر حنین کی جنگوںمیں شرکت کی تھی اور ایک عرصے تک اسلام کی راہ میں تلوار چلاتے رہے تھے،کسی نے بھی نہیں کہا کہ رسولؐ پاک نے ستر دن پہلے غدیر خم کے مقام پر کس کو خلیفہ مقرر کیا تھا؟کیونکہ انھوں نے پہلے ہی سے یہ منصوبہ تیارکر لیا تھا کہ مسلمانوں پر خود ہی حکومت کریںگے۔
ہو سکتا ہے کہ یہاں پر کوئی شخص یہ بات کہے کہ:اس دور کی حکومت کی کوئی آمدنی ہی نہیں تھی حتی کہ خلیفہ اول چٹائی بنابنا کر اپنا گزر اوقات کیا کرتے تھے ،تویہ کام ان کے لئے کس حد تک فائدہ مند تھا؟جواب میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ’’حکومت کی خواہش‘‘ایک ایسی پیاس اور آتش ہے کہ اگر کوئی اس کا شکار ہو جائے اسے کہیں کانہیں چھوڑتی،رسول پاکؐ کا جانشین ہونا کوئی معمولی اہمیت کا حامل نہیں تھا،یہاں تخت و تاج اور محل اور قصر پیش نظر نہیں تھا حتیٰ کہ ایک گھوڑا بھی خلیفہ کے نصیب میںنہیں تھا،لیکن ’’خلیفہ‘‘ہونا بہت بڑا اعزاز تھا کیونکہ رسول خداؐ کی جانشینی اور لوگوں پر حکومت بڑی بات اور جاذب نظر تھی۔
اس دن کچھ شیطان صفت اور مکار لوگ عوام میں داخل ہوگئے اور تدبیریں کرنے لگے کہ لوگوں کو کس انداز میں اپنا بنایا جا سکتا ہے؟اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ اس کے دورانیہ میں اس قبیل کے افراد نے ہر مناسب موقع و محل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کے گمراہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیںچھوڑی اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے۔
اس روز بھی اس طرح کے لوگوں نے اس قسم کی منصوبہ بندی کی کہ معاشرہ کی راہ کو کیونکر بدلاجائے،کس قسم کا پروپیگنڈا کیا جائے اور کونسا نعرہ لگایا جائے کہ جس سے لوگ خود گمراہ ہوں؟کیونکہ لوگوں کے گمراہ کرنے میں یہی شیطان صفت زیرک لوگ منصوبہ سازی کرتے ہیں اور بڑے بڑے اعمال بھی ان کے نامۂ اعمال میں لکھے جاتے ہیں اور قیامت کے دن بھی یہی لوگ عظیم ترین اور المناک ترین عذاب کے مستحق ہوں گے اس لئے کہ قیامت تک جو لوگ بھی گمراہ ہوتے رہیں گے وہ ان کے گناہوں میں برابر کے شریک ہوں گے اور ان کی تعداد چند گنے چنے افراد سے زیادہ نہیں تھی۔
بات یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ انھوں نے کہا:پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم لوگوں کے دین کے ضامن تھے اور ان کی اطاعت بھی دینی امور کے بارے میں ہمارے اوپر واجب ہے اور اب بھی ان کی وفات کے بعد ان کے بارے میں ہماری محبت میں بال برابر کمی نہیں آئی آج بھی ہم ان پر درود بھیجتے ہیں،ان کی ذات کا احترام کرتے ہیں،وہ صرف ہمارے دین کے کفیل تھے،اب جبکہ انھوں نے ہمارے لئےعترت اور قرآن ورثے میں چھوڑے ہیں اور خود ہم سے جدا ہوگئے ہیں،ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنی دنیا کو سنوار نے کے لئے کچھ کریں اور خود ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا خلیفہ اور جانشین منتخب کریں تو اس طرح سے سقیفہ کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو یہ شرف حاصل ہے کہ انھوں نے ’’اسلامی ڈیموکریسی‘‘کی بنیاد رکھی اور یہ نظریہ دیا کہ ’’عوام ہی کو رسول خداؐ کا خلیفہ منتخب کرنے کا حق حاصل ہے‘‘۔
بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ’’ڈیموکریسی‘‘یا ’’جمہوریت‘‘ہمیں مغرب کی طرف سے سوغات میں ملی ہے لیکن یہ آج کی جدت نہیں ہے بلکہ سقیفہ کے منصوبہ سازوں کا منحوس ہدیہ ہے جنھوں نے لوگوں کو یہ بات ذہن نشین کرائی ہے کہ عوام ہی اپنے حکمران کا انتخاب کر سکتے ہیں۔حضرت رسولؐ خدا نے فرمایا :’’خدا نے علیؑ کو مقرر فرمایا ہے‘‘لیکن ان لوگوں نے کہا :’’ہم اپنے لئے خود ہی رسولؐ کے جانشین کا انتخاب کریں گے‘‘تو اس طرح سے سقیفہ میں ڈیموکریسی کی بنیاد رکھی گئی۔
سیکولرازم کا نقطہ آغاز’’سقیفہ‘‘
سقیفہ کی ایک اور ’’منحوس سوغات‘‘جو مسلمانوںکو نصیب ہوئی ’’سیکولرازم‘‘ہے جبکہ بہت سے لوگوں کا تصوریہ ہے کہ یہ دنیائے عرب کی پیشکش ہے اور تازہ وجود میں آیا ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’’سیکولرازم ‘‘کی بنیاد اور دین سے سیاست کی جدائی کا نظریہ بھی سقیفہ میں ہی معرض وجود میں ،انھوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ’’حضور سرورکائناتؐ نے جو احکام،قرآن اور فرامین خدا کی طرف سے پیش کئے ہیں ان سب کا تعلق دین سے ہے اور دین کا دنیوی امور سے کوئی تعلق نہیں ہے،دنیا کا حساب،آخرت سے علیحٰدہ ہے،حکومت کا مسئلہ بھی دنیاداری سے متعلق ہے،دین سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے،حضور پاکؐ نے جو کچھ فرمایا تھا اس کا دین سے تعلق تھا،حضرت ؐ نے فرمایا نماز پڑھو،روزہ رکھو،حج بجالاؤ وغیرہ تو ہم نے بھی انہیں مانا اور ان پر عمل کیا،لیکن ان میں سے کسی ایک کا بھی حکومت اور سیاست سے تعلق نہیں ہے‘‘۔
قابل ذکر ہے کہ انھوں نے ان مسائل کو بھی اسی طرح قبول نہیںکیا تھا جس طرح کہ حضورؐ پاک نے فرمایا تھا،لیکن بہرحال کہا یہی کہ ان مسائل کا تعلق دین کے ساتھ ہے،لیکن یہ بات کہ کون شخص رئیس مملکت ہو،کون احکام صادر کرے،کون بیت المال کو اکٹھا کرے،کون عدالتوں کے لئے حاکم اور قاضی مقرر کرے؟اور اس طرح کے دوسرے مسائل،یہ سب دنیوی امور سے متعلق ہیں،جن کا پیغمبر گرامیؐ کی ذات سے کوئی تعلق نہیں ہے،یہ لوگوں کا کام ہے کہ وہ اپنی آراء (Votes)سے اسے منتخب کریں کہ کون صاحب یہ کام انجام دیں؟اس کے بعد کچھ لوگ جمع ہوگئے جن کے بارے میں کہا جانے لگا کہ ’’یہ حضرات اہل حل و عقد ہیں ‘‘مسلمانوں نے انہیں رائے (Votes)دیدئیے،خلافت کا عہدہ ان کے سپرد کر دیا گیا اور بات ختم ہوگئی۔
پس بنابریں سقیفہ میں دو اہم مسئلوں کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ایک ’’سیکولرازم‘‘اور دوسرے’’جمہوریت‘‘اور تب سے اب تک ہمارے لئے ایک کسوٹی کی صورت اختیار کرگیا جس سے ہم ایک دوسرے کو پرکھ سکتے ہیں کہ ’’سقیفائی‘‘ہیں یا ’’علوی‘‘ہیں؟۔
اُس دن کہنے لگے کہ دین کا معاملہ دنیا سے الگ ہے اور حکومت کا معاملہ خود عوام کے ہاتھ میں ہے اور آج بھی ہم میں سے کچھ روشن خیال ایسے ہیں نیز ارباب حکومت بھی جو ان روشن خیالوں سے مرعوب ہیں انہی الفاظ کو دہراتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ :دین کا معاملہ علیحٰدہ ہے اور دنیا کا معاملہ علیحٰدہ ہے،یہ لوگوں کا کام ہے کہ خود ہی اپنے لئے حکمرانوں کا چناؤ کریں اور وہ امام خمینیؒ کے اس فرمان سے ناجائز مفاد اٹھاتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا ہے:’’اصل معیار قوم کی رائے ہے‘‘اور وہ سمجھتے ہیں کہ امام خمینی ؒنے یہ جملہ تمام موارد کے لئے فرمایا ہے حتیٰ کہ اگر لوگ’’خدا نہیں ہے‘‘کےبارے میں بھی رائے (Votes)دیدیں تو ان کی رائے معتبر مانی جائے گی،حالانکہ ایسا نہیں ہے ،امام خمینی ؒنے یہ صرف ایک موقع کے لئے فرمایا تھا جب کہ کچھ لوگ آگے بڑھ کر بعض افراد کو اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سے نامزد کرنا چاہتے تھے تا کہ اس طرح سے وہ لوگ اسمبلی میں پہنچ کر ان کے لئے قوانین وضع کریں۔
امام خمینیؒنے ان لوگوں کے بارے میں فرمایا تھا:’’تمہیں کوئی حق حاصل نہیں ہے،یہ عوام ہی ہوں گے جو اپنی طرف سے نمائندے منتخب کرکے اسمبلی میں بھیجیں گے‘‘لہٰذا ان کا یہ فرمان ممبر ان اسمبلی کے اور دوسرے انتخابات کے بارے میں ہے جو اسلامی جمہوریہ ایران کے تشکیل شدہ آئین میں مذکور ہے،فرمایا:’’معیار قوم کی رائے ہے‘‘اور امامؒکا یہ فرمان ان موارد کے بارے میں ہے جو ملک کے آئین میں مذکور ہیں،جبکہ خود آئین بھی اسی صورت میں معتبر سمجھا جاتا ہے جسے ولی فقیہ کی تائید اور تصدیق حاصل ہے ،بنابریں لوگوں کی رائے بھی اس وقت معتبر ہے جب ولی فقیہ نے اسے معتبر قرار دے کر اس کی تصدیق و تائید کی ہو۔
حضرت امامؒ کا لوگوں کی رائے کو معیار قرار دینا اس مقصد کے لئے نہیں تھا کہ اگر لوگ آئین کے بارے میں اس کے غلط اور جھوٹا ہونے کی رائے(ووٹ)دیں تو وہ جھوٹا ہی سمجھا جائے گا ،یا یہ رائے دیں کہ اسلام نہ ہو اور ولایت فقیہ نہ ہو!!کون عقلمند اسے صحیح سمجھے گا؟کوئی سبک سرہی ہوگا جو کہے گا کہ ان امور کے بارے میں ملت کی رائے معیار ہوگی۔
جس شخصیت نے اپنی ساری زندگی اسلام اوراحکام دین کے احیاء کے لئے صرف کردی ہو اور ہر وقت جس کا ورد زبان ہی اسلام اور اسلامی احکام کا نفاذ ہو تو کیا وہ شخصیت اس بات کی اجازت دے گی کہ لوگ آئین اور اسلام کو منسوخ کردیں؟آیا اس شخصیت کا نظریہ یہی تھا کہ معیار عوام کی رائے ہے خواہ وہ اسلام کے خلاف ہی ہو؟۔
بہرحال یہ سقیفہ ہی تھا جس نے سب سے پہلے دین اور حکومت کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا اور اس چیز کی بنیاد سب سے پہلے وہیں رکھی گئی کہ دین اور دینی مسائل کے بارے میں رسولؐ خدا اور علی مرتضیٰؑ کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے اور حکومت اور سیاست کے متعلق دوسروں کی طرف !!حتی کہ خلیفہ اول اور دوم بہت سے دینی مسائل کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام کے پاس آیا کرتےتھے اور انہیں اس بارے میں کسی قسم کا مضائقہ بھی نہیں تھا اور یہ جو حضور پاکؐ نے حدیث ثقلین میںاہل بیت علیہم السلام کی طرف رجوع کرنے کی سفارش کی تھی اسے بھی وہ دینی مسائل میں رجوع کرنے پر محمول کرتے تھے،بالفاظ دیگر حضرت علی علیہ السلام نے دینی مسائل دوسروں سے زیادہ یاد کئے ہوئے تھے۔
آج بھی مکتب خلفاء کے بہت سے لوگ ہیں جو اسی بات پر اعتقاد رکھتے ہیں،حتی کہ بعض شافعی مذہب کے لوگ اس بات کے معتقد ہیں کہ ائمہ اثنا عشر علیہم السلام دین کے مرجع تھے،یعنی دین انہی لوگوں سے سیکھا جا سکتا ہے اور جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے جو روایات ان مقدس ہستیوں کے بارے میںبیان ہوئی ہیں وہ اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہیں،ان کے خلیفہ ہونے پر نہیں۔
یہ وہی بعینہ دین اور سیاست کی جدائی کا نظریہ ہے اور روشن خیالی کا تصور ہے کہ دین اور حکومت و سیاست دو علیحٰدہ چیزیں ہیں جس کی بنیاد ردر حقیقت سقیفہ میں رکھی گئی تھی۔
دین سیاست سے جدا نہیں ’’ولایت علی علیہ السلام اس کا عملی نمونہ ہے‘‘
مذکورہ تفصیل کے پیش نظر یہ بات بخوبی روشن ہو جاتی ہے کہ کس لئے سرکار رسالتمآبؐ اور حضرات ائمہ اطہار علیہم السلام نے علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت پر اس قدر زور دیا ہے اور بار بار اس کی کیوں تاکید فرمائی ہے اور حضرت علی علیہ السلام کی ولایت پر اس قدر زیادہ تاکید کی ایک حکمت عملی یہ بھی ہے کہ سیاست دین سے جدا نہیں ہے اور یہ جو احادیث میںہے کہ ’’اگر علی کی ولایت کا انکار کرو گے تو تمہارا کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں ہوگا،تمہارا ایمان ناقص ہوگا وغیرہ‘‘تو اس کا ایک  بنیادی عنصر یہی مسئلہ ہے ،یعنی اگر علی علیہ السلام کی ولایت کے بارے میں ایمان کمزور ہوگا تو نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ کہیں گے:’’دین سے سیاست کو الگ رکھنا چاہئے،دین تو صرف مسجدوں امام بارگاہوں اور دیگر عبادت گاہوں تک محدود ہے،جاؤنمازیں پڑھو،اذانیں دو،ماتم کرو،زنجیر مارولیکن حکومت اور سیاست سے کوئی کام نہ رکھو‘‘جیسا کہ آج کل ’’روشن خیالی‘‘کے اس نظرئیے کی بڑے دھوم دھام سے ترویج کی جا رہی ہے۔
مولاعلی علیہ السلام کی ولایت کو قبول کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ اس بات کو تسلیم کریں کہ ’’علیؑآقا دینی رہبر بھی ہیں اور سیاسی رہبر بھی‘‘ورنہ اگر کوئی آپ علیہ السلام کی دینی رہنمائی کو تو مانے اور رسول خدا کے بعد آپ علیہ السلام کی سیاسی رہنمائی کا انکار کرے تو ایسا شخص امیرالمومنین ؑ کی ولایت کا قطعاً منکر ہے،اسی لئے علی علیہ السلام کی ولایت کو قبول کرنا در حقیقت سیکولرازم کے انکار کے مترادف ہے،اسی طرح آنجناب کی ولایت آج کے یورپ کی اختراع کردہ ڈیموکریسی کے ساتھ کسی صورت میں اکٹھی نہیں ہو سکتی کیونکہ :
ولایت علی علیہ السلام کی بنیاد ہی اس بات پر رکھی گئی ہے کہ 
(۱)۔حاکم کو خدا مقرر فرماتا ہے۔
(۲)۔حکومت کو قانونی حیثیت دینا اسی کا کام ہے۔
(۳)۔جو لوگ اپنی ذات پر حق حکومت نہیں رکھتے وہ کیونکر خلق خدا کا اختیار کسی کو دے سکتے ہیں ؟
یعنی آیا مجھے حق حاصل ہے کہ میں اپنا ہاتھ کاٹ ڈالوں؟آیا شریعت میں مجھے یہ حق دیا گیا ہے؟حتی کہ میں تو اتنا چھوٹا سا اختیار بھی نہیں رکھتا کہ اپنے جسم پر ایک معمولی سا زخم بھی لگا دوں تو پھر مجھے کیا حق پہنچتا ہے کہ میں یہ اختیار کسی اور کو دیدوں کہ جو شخص چوری کرے تو وہ اس کا ہاتھ کاٹ دے؟جب میں خود اپنے ہاتھ کاٹنے کا اختیار نہیں رکھتا تو دوسرے کے ہاتھ کاٹنے کا اختیار مجھے کیسے مل سکتا ہے؟کیونکر کسی دوسرے کو یہ اختیار دے سکتا ہوں؟۔
ممکن ہے یہاں پر کوئی شخص یہ کہے کہ چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم آج سے چودہ سو سال پہلے کے لئے ہے۔جیسا کہ آج کے روشن خیال لوگ یہی کہتے ہیں کہ اس قسم کے احکام کا وقت ختم ہو چکا۔
ہم کہیں گے کہ ٹھیک ہے،زندان کے حکم کو تو قبول کرتے ہو؟یا نہ بلکہ چور کے ساتھ خوش ہوکر پیش آتے ہو؟چلو اگر زندان ہی کو مانتے ہو تو پھر مجھے کیا حق حاصل ہے کہ میں کسی کو زندان میں ڈال دوں؟ یا کسی اور کو حکم دوں کہ کسی کو قیدخانے میں بند کردے؟اور مجھے یہ اختیار کس نے دیا ہے؟۔
یہ تو خدا کی ذات ہی ہے جو اپنے تمام بندوں کے اختیارات کی مالک ہے اور وہ ہی اس قسم کے اختیار دے سکتی ہے،اگر وہ خدا کسی حکومت کو قانونی نہ بنائے اس حکومت کو کیا حق حاصل ہے کہ خدا کے بندوں میں کسی قسم کا تصرف کرے؟۔
پس جو شخص ولایت علی بن ابی طالب علیہ السلام کو مانتا ہے وہ رائج الوقت ڈیموکریسی (جمہوریت)کو قبول نہیں کر سکتا خواہ ڈیموکریسی کی کتنی بھی تعریف و تمجید کرے حتی کہ اسے پوستش و پوجا پاٹ کی اس حدتک لے جائے کہ کسی کو اس کے خلاف بات کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
اس کے باوجود پھر بھی کچھ لوگ ہیں جو بلند آواز سے کہتے ہیں کہ :’’جمہوریت (ڈیموکریسی)اسلام کے بالکل سازگار نہیں ہے،اسلام مطلقاً’’اللہ‘‘کی حاکمیت کا قائل ہے،جبکہ ڈیموکریسی کا معنی یہ ہے کہ ’’انسان‘‘اور’’عوام‘‘کا مطلق ارادہ اور ان کی خواہش ،تو پھر کیونکر ان دونوں کو یکجا کیا جا سکتا ہے؟ولایت علی علیہ السلام کا مقصد ہے مخلوق خدا کے درمیان حکومتِ اللہ کو حقیقت بخشنا،یا تو اللہ کی حکومت کو تسلیم کیا جائے یا بندوں کی حکومت کو ارشاد ہوتا ہے:’’أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ وَ اَنِ اعْبُدُوْنِیْ ھٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِیْمٌ‘‘اے آدمؑ کی اولاد!کیا میں نے تمہارے ساتھ عہد نہیں کیا تھا کہ شیطان کی پرستش نہ کرنا کیونکہ وہ تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے اور یہ کہ میری عبادت کرو،یہی سیدھا راستہ ہے۔(یونس؍۶۰تا۶۱)
عبادت مخصوص ہے خداوندذوالجلال کے لئے اور جو بھی اس کے خلاف ہوگی وہ بت پرستی ہوگی خواہ وہ بت،پتھر کے ہوں یا کھجور کے پھل کے،یا گوشت و پوست اور ہڈیوں کا مجموعہ (انسان)ہوں یعنی خدا کے علاوہ جس کی بھی پوجا کی جائےگی وہ بُت ہوگا۔
ولایت علی یعنی :
خداوندعالم کی خالص توحید کا مظہر،خداوندیگانہ کی پرستش یعنی صرف ایک خدا کی حاکمیت اور حکومت کو قبول کرنا جس کا نام ’’اللہ‘‘یعنی اللہ کی حکومت!خداوندیگانہ کی حکومت نہ کہ سرداروں کی حکومت ،نہ کہ وڈیروں کی حکومت ،نہ کہ زور آوروں کی حکومت،نہ کہ دھوکہ بازوں کی حکومت،نہ کہ عوام کی حکومت۔بلکہ صرف اور صرف اللہ کی حکومت 
ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہمیں یہ نعمت۔موالیان اہل بیتؑ ۔کو عطا فرمائی ہے:’’اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ جَعَلَنَا مِنَ الْمُتَمَسِّکِیْنَ بِوِلَایَۃِ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ وَالْاَئِمَّۃِ الْمَعْصُوْمِیْنَ علیھم السلام‘‘۔
(ماہنامہ اصلاح لکھنؤ، امیرالمومنینؑ نمبر، رمضان ۱۴۴۰ھ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں