بدھ، 13 مئی، 2020

بخاری اور عداوت جناب امیرعلیہ السلام

بخاری اور عداوت جناب امیرعلیہ السلام
علامہ سید علی اظہر نقوی اعلی اللہ مقامہ
حدیث خلیفتی فیکم:
سب سے پہلے آپ اس حدیث کو دیکھئے جسے حضرتؐ نے بروز اعلان نبوت فرمایا ہے مسند امام احمد بن حنبل میں ہے ص ۹۳ جلد اول مئی۔ 
( ترجمہ ) یعنی جب آیۂ وانذر عشیرتک الاقربین نازل ہوئی تو حضرت نے اپنے خاندان والوں کو جمع کیا۔ تو تیس آدمی جمع ہوئے بس سب نے کھایا اور پیا تو حضرت نے فرمایا کون تم سے ہمارے دین کا ضامن ہوتا ہے اور ہمارے وعدوں کا ہمارے ساتھ جنت میں ہوگا اور خلیفہ ہوگا ہمارے اہل میں۔ ایک شخص نے کہا جس کا نام شریک نے نہیں لیا کہ یا حضرت آپ تو دریا ہیں کون اس کی تاب لاسکتا ہے پھر حضرت ؐنے اس کو اپنے اہل بیتؑ پر عرضہ کیا۔ تو حضرت علیؑ نے کہا کہ ہم ہیں یا رسول اللہؐ۔ 
یہ روایت اگر چہ خود بتارہی ہے کہ اس میں کس قدر تحریف کی گئی ہے۔ اور کس طرح واقعات کی صورت بگاڑی گئی ہے کیونکہ نہ یہی بتایا گیا ہے کہ یہ واقعہ کیوں ہوا۔ کیونکہ حکم ہے انذار کا اور حضرت ان کو ادائے دیون کا ضامن بنا رہے ہیں ۔ دونوں میں کیا واسطہ ۔ یہ تو کہا کہ حضرت نے سب کو جمع کیا مگر اس کا پتہ نہیںکہ آخر وہ کس طرح جمع ہوئے۔ اس کا تو بیان ہے کہ سب نے کھایا پیا۔ مگر اس کا بیان ہی نہیں کہ کیا کھایا اور کھانے کا سامان کیونکر کیا گیا۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ اس حدیث کو دوسرے طریق سے دیکھیں تا کہ پورا حال معلوم ہو۔
لہٰذا تفسیر معالم التنزیل کو پیش کرتا ہوں۔ جس کے صفحۂ ۶۶۳ تفسیر سورۂ شعرا میں یہ روایت اس طرح موجود ہے:
(ترجُمہ)عبد اللہ بن عباس حضرت علیؑ سے روایت کرتے ہیں کہ جب آیہ وانذر عشیرتک الاقربین نازل ہوئی تو حضرت نے جناب امیرؑ سے فرمایا کہ خدا نے حکم دیا ہے کہ ہم اپنے عشیرہ اقربین کو انذار کریں۔ جس سے ہمارا سینہ تنگی کرتا ہے اورجانتے ہیں کہ جب ہم اس کی ندا کریں گے۔ تو ناگوار باتیں ان سے دیکھیں گے اس وجہ سے ہم نے اس پر سکوت کیا یہاں تک کہ جبرئیل امین آئے اور کہا، اے محمدؐ! اگر تم وہ کام نہ کرو گے جس کا خدا نے حکم دیا ہے تو وہ عذاب کرے گا۔لہٰذا ایک صاع طعام تیار کرو اور ایک ران بزغالہ اور ایک بڑا پیالہ دودھ کا پھر فرزندان عبد المطلب کو جمع کرو تا کہ ہم اس حکم کو پہونچائیں جس کا خدا نے حکم دیا ہے۔
حضرت علیؑ کہتے ہیں کہ ہم نے مُطابق حکم آنحضرتؐ سب سامان فراہم کیا اور سب کو بلالائے جو چالیس تھے ایک کم یا زیادہ جس میں حضرت کے کل اعمام تھے، ابوطالب، حمزہ، عباس، ابولہب وغیرہ جب سب جمع ہوئے تو حضرتؐ نے کھانا مانگاجو ہم نے تیار کیا تھا جب سامنے لائے تو حضرت ؐنے دندان مبارک سے ایک ٹکڑا گوشت کو پارہ کر دیا۔ اور سینی میں ڈال دیا اور فرمایا کہ کھاؤ بسم اللہ۔ پس سب نے کھایا کہ پھر کسی کو حاجت نہ رہی۔ حالانکہ قسم بخدا کہ ایک شخص ان میں سے اس قدر کھا جاتا تھا جو ہم نے مہیّا کیا تھا۔ پھر حضرتؐ نے فرمایا کہ قوم کو پلاؤ ہم وہ قدح شیر لائے جس سے سب سیراب ہو گئے حالانکہ ایک ایک شخص اتنا پی جاتا تھا۔ جب حضرتؑ نے کچھ کلام کرنا چاہا تو ابولہب نے جلدی کر کے کہا کہ تمہارے صاحب نے سحر کیا۔ پس سب کے سب اٹھ کر متفرق ہو گئے اور حضرتؐ نے کچھ کلام نہ کیا۔ دوسرے روز حضرت نے فرمایا، اے علیؑ اس مرد نے جلدی کر کے وہ کلام کیا جو تم نے سنا جس سے قبل اس کے کہ ہم کچھ کلام کریں قوم متفرق ہو گئی لہٰذا پھر اسی کھانے کا سامان کرو۔ اور سب کو بلالاؤ۔ہم نے مطابق حکم انجام دیا اور سب کو بلاکر جمع کیا۔ اور اسی طرح کھانا کھلایا اور دودھ پلایا۔جب سب کھاپی چکے تو حضرتؐ نے کلام کیا اور فرمایا اے فرزندان عبد المطلب ہم تمہارے پاس خیر دنیا و آخرت لائے ہیں اور ہم کو خدا نے اس کا حکم دیا ہے کہ تم کو اس طرف دعوت دیں تو کون تم سے ہماری وزارت کرتا ہے اس امر میں اس شرط پر کہ وہ بھائی وصی اور خلیفہ ہو تم میں۔ پس قوم نے روگردانی کی اس سے سب نے اور ہم نے کہا حالانکہ سب سے صغیر السن تھے۔ کہ یا نبی اللہؐ میں آپ کا وزیر ہوتا ہوں اس اَمر میں۔ پس حضرتؐ نے ہماری گردن پکڑی اور فرمایا کہ یہ میرا بھائی، وصی ،خلیفہ ہے تم لوگوں میں۔ اس کا حکم مانو اور اطاعت کرو پس سب کے سب اٹھ کھڑے ہوئے اور کہتے تھے ابوطالبؑ سے کہ تم کو حکم دیا ہے کہ سنو اور اطاعت کرو علیؑ کی۔ انتہیٰ۔
یہ حدیث آپ کو بتا رہی ہے کہ اصل واقعہ کیا تھا۔ جس میں کس طرح مفصل حالات مذکور ہیں۔ مگر امام احمد بن حنبل نے اس کو ایسا مختصر کر کے لکھا کہ دیکھنے والے کو پتہ نہ چلے کہ مقصود حدیث کیا ہے۔ اور غرض کیا ہے اور اصل واقعہ کیونکر ہے ۔
مگر ہم نے مسند احمد بن حنبل کی روایت کو اس وجہ سے مقدم کیا کہ وہ امام بخاری کے استاد ہیں ان کے سامنے بوقت تصنیف صحیح بخاری مسند احمد بن حنبل موجود تھی۔ مگر نہ اصل روایت کو لیا نہ روایت مسند احمد بن حنبل کو جس سےکم سے کم اتنا تو معلوم ہوتا کہ جناب رسالتمآبؐ نے بروز اعلان نبوت حضرتؑ کو اپنا خلیفہ کیا۔ تو باعث اس کا بجز ناصبیت کیا تھا؟
ہاں یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ چونکہ صحیح بخاری میں التزام کیا گیا ہے کہ صرف وہی حدیثیں لکھی جائیں جو صحیح السند ہیں۔ لہٰذا ممکن ہے کہ یہ حدیث صحیح نہ ہو اس لئے نہ داخل صحیح کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اولاًصحیح بخاری کی اجمالی حالت تو آپ کو تنقید بخاری حصّہ اوّل و دوم سے معلوم ہو چکی۔(جو ادارہ اصلاح سے چار جلدوں میں شائع ہوئی ہے) جس کے بعد پھر کوئی عاقل تو نہیں کہہ سکتا کہ اس کی کل حدیثیں صحیح ہیں۔ ثانیاً یہ حدیث بھی تو صحیح ہے جس کی صحت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ کیونکہ علامہ ابن تیمیہ اسی تفسیر معالم التنزیل کی نسبت فرماتے ہیں :واما الاحادیث فلم یذکر فی تفسیرہ شیئا من الموضوعات التی رواھا الثعلبی بل یذکر الصحیح منھا۔ (منہاج السنۃ)
یعنی امام محی السنۃ بغوی تفسیر معالم التنزیل میں ان روایات کو نہیں لکھتے جو موضوعات سے ہیں۔ بلکہ انھیں حدیثوں کو لکھتے ہیں جو صحیح ہوتی ہیں پھر بتائیے اس حدیث کو بخاری کا نہ لکھنا آخر کس وجہ سے ہے؟
مسند احمد بن حنبل کی نسبت طبقات الشافیعہ سبکی میں ہے: قال ابوموسی و من الدلیل علی ان ما اودعۃ الامام مسندہ قد احقاط فیہ اسناد او مسناد لم یورد فیہ الاماصح سندہ(ص۲۰۲)۔
یعنی منجملہ دلائل کے جس سے امام احمد نے اسنادوں میں حدیث سے احتیاط کیا ہے کہ نہ وارد کیا مسند میں مگر اسی حدیث کو جس کی سند صحیح ہوئی۔
پھر اس حدیث کی صحت سند میں کیا عذر ہو سکتا ہے جس کو امام احمد نے اپنے مسند میں درج کیا۔ حالانکہ بنص شاہ ولی اللہ صاحب حجۃ بالغہ میں ۱۰۷؎ جلد اوّل۔
فان الامام احمد جعلہ اصلایعرف بہ الصحیح والسقیم قال ما لیس فیہ فلاتقبلوہ۔ کہ امام احمد نے اس کتاب کو اصل بتایا ہے جس سے صحیح و سقیم پہچانی جاتی ہے۔ کہا کہ جو حدیث اس کتاب میں نہ ہو اس کو نہ قبول کرو۔
مگر بخاری نے نہ حق استادی کا خیال کیا نہ ان کے فرمان واجب الاذعان کو۔ بلکہ ایک ایسے عنوان سے اس حدیث کو لکھا کہ جس کے موضوع ہونے میں کسی کو شک ہی نہیں ہو سکتا۔
اس کے علاوہ امام نسائی نے بھی اس حدیث کو خصائص نسائی میں لکھا ہے جو بہ اتفاق اہل سنت صحاح ستہ سے ہے۔ پھر بجز ناصبیت کیا باعث ہوا جو اس حدیث کو داخل صحیح نہ کیا۔ حالانکہ امام نسائی کا وہ درجہ ہے جو امام بخاری کو بھی نصیب نہیں۔ کیونکہ علامہ سیوطی تدریب الراوی میں لکھتے ہیں ۳۸؎:
(ترجمہ)کہا ابن طاہر نے کہ شرط بخاری و مسلم یہ ہے کہ ایسی حدیثیں روایت کریں جس کے رجال کے موثق ہونے پر اجماع ہو کہا عراقی نے کہ یہ کلام ٹھیک نہیں ہے کیونکہ نسائی نے بہت سے ایسے راویوں کو ضعیف کر دیا جن سے بخاری و مسلم نے روایت کی یا ایک نے ان دونوں سے۔
پھر بخاری کا اس حدیث کو نہ لکھنا جس کے طرق صحت اس کثرت سے ثابت ہیں اگر بوجہ ناصبیت نہیں ہے تو کیا ہے۔ طبقات شافیعہ امام سبکی میں ہے:
(ترجمہ)یعنی ابن طاہر مقدسی نے سعد بن علی زنجانی سے ایک راوی کا حال دریافت کیا تو کہا وہ موثق ہے ہم نے کہا کہ نسائی نے اس کو ضعیف کہا ہے تو کہا اے فرزند عبد الرحمٰن (نسائی)کے ایسے شرائط ہیں رجال میں جو شدید تر ہیں، شرائط بخاری و مسلم سے(صفحہ ۱۴جلد ۴)
پھر کس قدر حیرتناک ہے کہ امام نسائی تو اس حدیث کو جس میں خلافت جناب امیرؑ پر نص ہے، بروز اعلان نبوت خصائص نسائی میں لکھیں اور بخاری اس کو نہ لکھیں حالانکہ شرائط نسائی سخت تر ہیں۔
اسی طبقات میں یہ بھی ہے ۸۴؎ جلد ۴ کہ امام ذہبی کہتے ہیں امام نسائی زیادہ حافظ ہیں بہ نسبت مسلم کے جن کی صحیح مسلم مشہور ہے۔ اور صحیح مسلم کی افضلیت صحیح بخاری پر پہلے مذکور ہو چکی جس سے ظاہر ہے کہ نسائی بخاری و مسلم دونوں سے افضل ہیں۔
تو اب اس حدیث کو بخاری نے اگر بوجہ ناصبیت نہیں لکھا تو اس کے سوا اور کیا باعث ہو سکتا ہے۔ کہ جس حدیث کو ایسے ایسے امام صحیح جانیں اور بخاری اس کو نہ لکھیں حالانکہ شرائط نسائی سب سے شدید ہیں{ FR 10980 }۔
اب آئیے اس روایت کو دیکھئیے جسے بخاری صاحب نے یہاں لکھا ہے۔ جس کے بعد آپ کو پورے طورپر ان کی ناصبیت معلوم ہو۔
پہلے تو جلد دوم ۱۶۵؎ مطبوعہ مصر باب المناقب میں لکھا:
(ترجمہ)ابن عباس سے روایت ہے کہ جب آیہ وانذر عشیرتک الاقربین نازل ہوئی تو حضرت نے پکارنا شروع کیا اے بنی فہر اے بنی عدی ہر ہر بطن قریش کو۔دوسری روایت ہے ابن عباس سے کہ حضرت نے ہر ہر قبیلہ کو پکارنا شروع کیا۔ تیسری روایت ابوہریرہ سے ہے کہ حضرت نے فرمایا اے فرزندان عبد مناف اپنے نفسوں کو خدا سے خرید لو۔ اے فرزندان عبد المطلب اپنے نفسوں کو خدا سے خرید لو۔ اے مادر زبیر عمہ رسول اے فاطمہؑ بنت محمدؐ تم اپنے نفسوں کو خدا سے خریدو کہ ہم تمہارے لئے کسی امر کے مالک نہیں ہیں۔ جو چاہو ہمارے مال سے سوال کرو۔
صحیح بخاری کی یہ پہلی تین روایتیں ہیں جن کے راوی ابن عباس اور ابوہریرہ ہیں۔ فتح الباری میں ہے:
(ترجمہ)یہ قصہ اگر ابتدائے اسلام میں ہوا مکہ میں تو ابن عباس شریک واقعہ نہ تھے کیونکہ وہ تو ہجرت کے تین برس قبل پیدا ہوئے۔ نہ ابوہریرہ ہی تھے کیونکہ وہ مدینہ میں مسلمان ہوئے پھر حضرت فاطمہؑ کو پکارنا بھی مقتضی تاخیر قصّہ ہے کیونکہ وہ اس وقت میں بہت چھوٹی تھیں۔ یا کچھ ہوش والی تھیں اور اگر ابوہریرہ حاضر تھے تو ترجمہ کی مناسبت یہ روایت نہیں ہے کیونکہ وہ تو مدّتوں بعد ہجرت اسلام لائے اور ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصّہ دو مرتبہ ہوا۔ ایک ابتدائے اسلام میں کیونکہ ابو لہب سے بھی خطاب ہے اور وہ قریب جنگ بدر مرا ہے۔ تو یہ روایت مراسیل صحابہ سے ہوگی۔ اور دوسری مرتبہ دوسری دفعہ ہوا۔ جب کہ ممکن ہو دعوت حضرت فاطمہؑ اور شرکت ابن عباس و ابوہریرہ(صفحہ ۳۱۱، جلد۲)
اب تو کسی کو اس حدیث کے عدم صحت میں عذر نہیںہو سکتا کیونکہ راوی اس کا وہ شخص ہے جو نہ اس وقت پیدا ہوا تھا نہ آیا تھا نہ اسلام لایا تھا۔ پھر یہ روایت کیونکر صحیح ہو سکتی ہے ؟جس میں اتصال ضروری ہے کہ جو شخص راوی ہو اس کی ملاقات ہوئی ہو راوی اول سے۔ یہاں راوی اول نداردہے کیونکہ ابن عباس یا ابوہریرہ خود تو موجود نہ تھے۔ اب رہا یہ احتمال کہ دوسرے سے سنا ہو تو وہ نام مذکور نہیں۔ لہٰذا روایت ہی تشریف لے گئی۔
یہ پہلا نتیجہ ہے عداوت جناب امیرؑ کا جو بخاری کو ملا۔ حضرت کی روایت صحیح موجود ہے۔ مگر حضرت سے نہ لیا حالانکہ ان کے استاد امام احمد نے مسند میں لکھ دیا ہے ۔ مگر انھوں نے روایت لی ابن عباس و ابوہریرہ کی جن کی ولادت بھی اس وقت نہ ہوئی تھی۔ تو بغیر ناصبیت اس کا کیا باعث ہو سکتاہے۔
ابن حجر نے یہ بات تو بتا دیاکہ دو مرتبہ ہوا ہوگا مگر اس کی سند نہ دی اور خود جاکر اقرار بھی کیا کہ دو مرتبہ نزول ماننا خلاف اصل ہے۔ تو اب بتائیے ایسی بے اصل باتیں کیوں بتائی جاتی ہیں صرف اسی لئے کہ بخاری کی پردہ داری ہوتی رہے ورنہ کون عاقل کہہ سکتا ہے کہ یہ کارروائی بخاری کی عمداً نہیں ہے۔
دوسرے اس میں صریح مخالفت حکم الہٰی لازم آتی ہے۔ کیونکہ حکم ہے انذر عشیرتک الاقربینکا اور آپ پکارتے ہیں دور والوں کو کیونکہ پہلے نام لیا ہے بنی فہر کا جن سے دس بارہ پشت کا فاصلہ ہے پھر نام لیا ہے بنی عدی کا جن سے آٹھ نو پشت کا فاصلہ ہے۔
(ترجمہ)حضرتؑ نے اقرب کو چھوڑ کر دور والے قبائل کو اس لئے ندا دی کہ اپنے عشیرہ کا انذار مقرر ہو جائے اور نیز اس لئے کہ قریش کلہم حضرتؐ کے اقارب سے ہیں۔ اور اس لئے کہ انذار عشیرہ بالطبع واقع ہوتا ہے۔ اور غیر کا انذار بطریق اولی ہوتا ہے۔(صفحہ ۳۱۰)
جس سے یہ تو ضرور معلوم ہوا کہ حضرتؐ کو حکم تھا انذار اقربین کا۔ اور حضرتؐ نے تعمیل کی اس کے خلاف تو کیا کوئی مسلمان اس کو قبول کر سکتا ہے۔ یہ نتیجہ ہے تسلیم صحت بخاری کا جو حضرتؐ کو صریح مخالف حکم خدا بنا رہی ہے حالانکہ روایت مسند اور معالم التنزیل میںصاف ہے کہ حضرتؐ نے اپنےا قربین ہی کو بلایا تھا۔
اگر انذار عشیرہ ابعد سے انذار عشیرہ اقرب بھی حاصل ہوتا ہے تو لازم آتا ہے کلام خدالغو ہو جس نے انذار اقربین کا حکم دیا۔ حالانکہ عام طور سے یہی دیکھا جاتا ہے کہ جو حکم عام کے لئےہوتا۔ خواص اپنے کو اس سے بری سمجھتے ہیں۔
یہ طرفہ بات ہے کہ آپ کل قریش کو حضرت ؐکے اقارب سے قرار دیتے ہیں۔ جو محض اس غرض سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ خلافت پر سب کا حق مساوی ہو جائے حالانکہ بقاعدہ بنی آدم اعضائے یک دیگر اندکہ ور آفرینش زیک جو ہراند۔سبھی قرابت مندہیں مگر خداوندعالم فرماتا ہے:وجعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا۔پھر کیونکر کوئی کہہ سکتا ہے کہ جو قرابت بنی ہاشم کو تھی وہی بنی تیم و عدی کو تھی۔
ہر شخص جو صاحب ادراک صحیح ہے سمجھ سکتا ہے کہ بخاری نے محض براہ عداوت جناب امیرؑ اس روایت کو درج کیا جو نہ حسب قواعد مقررّہ ان کے صحیح ہے اور نہ فی الواقع صحیح ہے جس سے ابن حجر کو خلاف اصل دو مرتبہ نزول ماننا پڑا ایک صد راسلام میں دوسرے بعد اسلام ابوہریرہ۔
اس سے بڑھ کر کیا قیامت ہو سکتی ہے کہ صرف روایت صحیح بخاری کی بدولت قرآن کی عظمت و جلالت میں بٹہ لگایا جاتا ہے کہ مکرر نزول اس آیہ کا مانا جاتا ہے حالانکہ قرآن میں ایک ہی جگہ یہ آیہ ہے جس سے خواہی نخواہی کہا جاتا ہے کہ خلفا اور صحابہ نے تحریف کیا۔ کیونکہ بہت سی آیتیں قرآن میں مکرر موجود ہیں۔ اس آیہ مکررالنزول کو نکالنا ضرور تحریف صحابہ سے ہے۔
پھر خود بخاری نے باب باندھا ہے باب من انتسب الی آبائہ فی الاسلام والجاہلیۃ خود معقول ہے کیونکہ اگر اختلاف ہے تو اس میں کہ ازراہ مفاخرت و مشاجرت نو پشت تک انتساب جائز ہے یا نہیں کیونکہ احمد ابوالعلی نے روایت کی ہے کہ جو شخص اپنی نسبت کولے اپنے آبا کفار کی طرف نو پشت تک جس سے مفاخرت مقصود ہو تو وہ اہل جہنم میں ہیں مگر یہ مضمون اس عنوان سے نہیں سمجھا جاتا پھر ایسے باب سے کیا فائدہ جو بالکل بے علاقہ ہو۔ پھر جتنی حدیثیں لکھیں وہ سب عنوان سے خارج ہیں۔ حدیث اول میں حضرتؐ نے فرمایا ہے کریم بن کریم ابن کریم ابن کریم یوسف بن یعقوب بن اسحٰق بن ابراہیم دوسری حدیث میں فرمایا انا ابن عبد المطلب تیسری میں یا بنی فہر یا بنی عدی چوتھی میں بنی عبد مناف بنی عبد المطلب صفیہ بنت عبد المطلب فاطمہ بنت محمدؐ ہے۔ ان کل روایتوں کو باب سے کوئی تعلق نہیں تو کیا ایسی کتاب کسی قسم کی عزّت رکھ سکتی ہے۔ اور بجز عداوت جناب امیرؑ کیا باعث ہو سکتا ہے۔ جو ایسی روایت لائے کہ کسی طرح صحیح نہیں۔ کیونکہ مدار صحت اتصال سند پر ہے اور یہاں اتصال غائب۔
(انتخاب از تنقید بخاری حصّۂ ثالثہ، اصلاح جلد ۱۶ نمبر۱۶)٭…٭…٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں