جمعہ، 15 مئی، 2020

خطبہ امام سجاد علیہ السلام دربار شام میں

باسمہ تعالیٰ
خطبہ امام سجاد علیہ السلام
دربار شام میں

انتہائی نازک اور حساس وہ موقع تھا جب امام زین العابدین علیہ السلام کو ایک قیدی کی حیثیت سے مسجد اموی یعنی دربار یزید میں پیش کیا گیا۔ یزید اپنے پورے جاہ و جلال کا مظاہر کرنا چاہتا تھا۔ اس نے خطیب کو حکم دیا کہ وہ منبر پر جائے اور منقصت علیؑ و حسینؑ میں جو منہ میں آئے وہ بکے۔ ابتدا سے لے کر آج تک ہوتا آیا ہے کہ زر خرید عالم و خطیب  ومفتی اللہ کی رضا نہیں بلکہ حاکم کی مرضی دیکھ کر بات کرتے ہیں یہی اس خطیب نے کیا جسارت کی انتہا کردی خاموش ہوا تو امام نے ایک جملہ ارشاد فرمایا:ویلک ایھا الخاطب! اشتریتَ مرضاۃَ المخلوقِ بسخط الخالقِ، فتبوء مقعدک من النّار۔’’ افسوس ہو تجھ پر اے خطیب کہ تونے مخلوق کی خوشنودی کے لئے خالق کے غضب کو مول لے لیا اور اپنا ٹھکانہ جہنم کو بنالیا‘‘۔ پھر یزید سے فرمایا: اتأذن لی أن اصعد ھذہ الأعواد، فاتکلّم بکلمات، للہ فیھا رضی، و لھؤلاء الجلساء اجرٌ‘‘ ’’مجھے اجازت دے کہ اس لکڑی پر جاکر ایسے کلمات الٰہی کے ذریعہ بات کروں جس میں خدا کی خوشنودی اور حاضرین کے لئے اجر و ثواب ہو‘‘۔
 منبر کو لکڑی سے تعبیر کرکے آپ نے یہ پیغام دے دیا کہ اگر منبر سے توہین آل محمدؐ ہو تو وہ منبر نہیں لکڑی ہے۔ اس پس منظر میں یہ حقیقت بھی ہے کہ اگر پالان شتر پر فضائل آل محمدؐ بیان ہوں تو بادی النظر میں تو وہ پالان شتر ہے لیکن حقیقت و معنویت میں وہ منبر ہے۔منبر پر کوئی بات خلاف مرضیٔ معبود اور تعلیمات معصومینؑ کے خلاف نہ بیان ہونا چاہئے۔ اور اپنی جسارتوں سے توہین منبر کا مرتکب نہ ہونا چاہئے۔ 
 یزید کی اجازت نہیں تھی لیکن اہل دربار کے اصرار پر طوعاً و کرہاً اس نے اجازت دی زنجیر و طوق ہتھکڑی و بیڑی کو سنبھالے آپ منبر پر تشریف لے گئے۔ 
امام نے حمد و نثا ئے الٰہی کے بعد فرمایا:
أَیُّهَا النَّاسُ أُعْطِینَا سِتّاً وَ فُضِّلْنَا بِسَبْعٍ أُعْطِینَا الْعِلْمَ وَ الْحِلْمَ وَ السَّمَاحَةَ وَ الْفَصَاحَةَ وَ الشَّجَاعَةَ وَ الْمَحَبَّةَ فِی قُلُوبِ الْمُؤْمِنِینَ وَ فُضِّلْنَا بِأَنَّ مِنَّا النَّبِیَّ الْمُخْتَارَ مُحَمَّداً وَ مِنَّا الصِّدِّیقُ وَ مِنَّا الطَّیَّارُ وَ مِنَّا أَسَدُ اللَّهِ وَ أَسَدُ رَسُولِهِ وَ مِنَّا سِبْطَا هَذِهِ الْأُمَّةِ مَنْ عَرَفَنِی فَقَدْ عَرَفَنِی وَ مَنْ لَمْ یَعْرِفْنِی أَنْبَأْتُهُ بِحَسَبِی وَ نَسَبِی۔
’’ اے لوگو! ہمیں چھ چیزیں عطا کی گئی ہیں اور سات چیزوں سے فضیلت بخشی گئی ہے۔ ہمیں چھ چیزیں جو دی گئیں ہیں وہ ہیں علم حلم ، جواں مردی ، فصاحت ، شجاعت اور مومنین کے دلوں میں ہماری محبت۔
جن سات چیزوں سے ہمیں فضیلت عطا کی گئی ہے وہ یہ کہ رسول مختارؐ  ہم میں سے ہیں، صدیق ( سب سے پہلے رسول خداؐ کی تصدیق کرنے والے حضرت علیؑ ) ہم میں سے ہیں ، ہم ہی میں طیار ( جعفر طیارؒ) ہیں، ہم ہی میں سے شیر خدا ( حضرت علیؑ) اور شیر رسولؐ (حضرت حمزہؒ) ہیں۔ ہم ہی میں اس امت کےد و سبط ( فرزند ان رسولؐ،حسنؑ و حسینؑ) ہیں، جو مجھے جانتا ہے وہ بہرحال جانتا ہے جو نہیں جانتا تو میں اس کو اپنے حسب و نسب سے آگا ہ کررہا ہوں۔ 
أَیُّهَا النَّاسُ أَنَا ابْنُ مَکَّةَ وَ مِنَی أَنَا ابْنُ زَمْزَمَ وَ الصَّفَا أَنَا ابْنُ مَنْ حَمَلَ الرُّکْنَ بِأَطْرَافِ الرِّدَا أَنَا ابْنُ خَیْرِ مَنِ ائْتَزَرَ وَ ارْتَدَی أَنَا ابْنُ خَیْرِ مَنِ انْتَعَلَ وَ احْتَفَی أَنَا ابْنُ خَیْرِ مَنْ طَافَ وَ سَعَی أَنَا ابْنُ خَیْرِ مَنْ حَجَّ وَ لَبَّی أَنَا ابْنُ مَنْ حُمِلَ عَلَی الْبُرَاقِ فِی الْهَوَاءِ أَنَا ابْنُ مَنْ أُسْرِیَ بِهِ مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی أَنَا ابْنُ مَنْ بَلَغَ بِهِ جَبْرَئِیلُ إِلَی سِدْرَةِ الْمُنْتَهَی أَنَا ابْنُ مَنْ دَنا فَتَدَلَّی فَکانَ قابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنی أَنَا ابْنُ مَنْ صَلَّی بِمَلَائِکَةِ السَّمَاءِ أَنَا ابْنُ مَنْ أَوْحَی إِلَیْهِ الْجَلِیلُ مَا أَوْحَی أَنَا ابْنُ مُحَمَّدٍ الْمُصْطَفَی أَنَا ابْنُ عَلِیٍّ الْمُرْتَضَی أَنَا ابْنُ مَنْ ضَرَبَ خَرَاطِیمَ الْخَلْقِ حَتَّی قَالُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ۔
’’ اے لوگو! میں مکہ و منیٰ کا فرزند ہوں، میں زمزم و صفا کا مرزند ہوں، میں اس بہترین انسان کا فرزند ہوں، جس نے اپنی عبا بچھا کر حجر الاسود کو اس کی جگہ پر رکھا، میں اس بہترین انسان کا فرزند ہوں جس نے لباس احرام پہنا، میں اس بہترین انسان کا فرزند ہوں جس نے جوتے پہنے اور طواف کے لئے برہنہ پا ہوا۔ میں اس بہترین انسان کا فرزند ہوں جس نے طواف کیا اور صفا و مروہ میں سعی کی، میں اس بہترین انسان کا فرزند ہوں جو حج بجالایا، اور لبیک کہی، میں اس کا فرزند ہوں جسے مکہ سے مسجد الاقصیٰ تک سیر کرائی گئی ، میں اس کا فرزند ہوں جو شب معراج سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچا، میں اس کا فرزند ہوں جو دو کمانوں سے بھی کم فاصلے تک خدا سے قریب ہوا۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کی اقتدا آسمان کے فرشتوں نے کی۔ میں اس کا فرزند ہوں کہ خدائے تعالیٰ نے اس پرجو وحی کرنا تھی وہ وحی کی ۔ میں خدا کے برگزیدہ رسول محمدؐ کا فرزند ہوں۔ میں علی مرتضیٰؑ کا فرزند ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جس نے لوگوں کی ناکوں پر ضربیں لگائیں یہاں تک کہ انہوں نے ’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘ کہا ( خدا کے سوا کوئی معبود نہیں)۔
أَنَا ابْنُ مَنْ ضَرَبَ بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللَّهِ بِسَیْفَیْنِ وَ طَعَنَ بِرُمْحَیْنِ وَ هَاجَرَ الْهِجْرَتَیْنِ وَ بَایَعَ الْبَیْعَتَیْنِ وَ قَاتَلَ بِبَدْرٍ وَ حُنَیْنٍ وَ لَمْ یَکْفُرْ بِاللَّهِ طَرْفَةَ عَیْنٍ أَنَا ابْنُ صَالِحِ الْمُؤْمِنِینَ وَ وَارِثِ النَّبِیِّینَ وَ قَامِعِ الْمُلْحِدِینَ وَ یَعْسُوبِ الْمُسْلِمِینَ وَ نُورِ الْمُجَاهِدِینَ وَ زَیْنِ الْعَابِدِینَ وَ تَاجِ الْبَکَّائِینَ وَ أَصْبَرِ الصَّابِرِینَ وَ أَفْضَلِ الْقَائِمِینَ مِنْ آلِ یَاسِینَ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِینَ أَنَا ابْنُ الْمُؤَیَّدِ بِجَبْرَئِیلَ الْمَنْصُورِ بِمِیکَائِیلَ أَنَا ابْنُ الْمُحَامِی عَنْ حَرَمِ الْمُسْلِمِینَ وَ قَاتِلِ الْمَارِقِینَ وَ النَّاکِثِینَ وَ الْقَاسِطِینَ وَ الْمُجَاهِدِ أَعْدَاءَهُ النَّاصِبِینَ وَ أَفْخَرِ مَنْ مَشَی مِنْ قُرَیْشٍ أَجْمَعِینَ وَ أَوَّلِ مَنْ أَجَابَ وَ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَ لِرَسُولِهِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَ أَوَّلِ السَّابِقِینَ وَ قَاصِمِ الْمُعْتَدِینَ وَ مُبِیدِ الْمُشْرِکِینَ وَ سَهْمٍ مِنْ مَرَامِی اللَّهِ عَلَی الْمُنَافِقِینَ وَ لِسَانِ حِکْمَةِ الْعَابِدِینَ وَ نَاصِرِ دِینِ اللَّهِ وَ وَلِیِّ أَمْرِ اللَّهِ وَ بُسْتَانِ حِکْمَةِ اللَّهِ وَ عَیْبَةِ عِلْمِهِ
میں اس کا فرزند ہوں جو رسول خداؐ کےہمراہ  ڈٹا رہا اور دشمنوں سے جنگ کی، جس نے دو نیزوں سے جنگ کی ، دوبار ہجرت کی، میں اس کا فرزند ہوں جس نے دوبار بیعت کی ، جنگ بدر و حنین میں دشمنوں سے جنگ کی اور ایک لمحے کے لئے بھی کفر اختیار نہ کیا۔ میں صالح المومنین کا فرزند ہوں، وارث رسولؐ کا فرزند ہوں، میں ملحدوں کو تہس نہس کرنے والے کا فرزند ہوں، میں مسلمانوں کے یعسوب کا فرزند ہوں، مجاہدوں کے نور اور عابدوں کی زینت، گریہ کرنے والے تاج اور سب سے زیادہ صابر، پروردگار کے رسول آل یٰسین میں سب سے افضل نمازی کا فرزند ہوں۔ میں مارقین(اہل جمل) ، ناکثین (اہل صفین) اور قاسطین (اہل نہروان) سے قتال کرنے والے ، دشمنان ناصبی سے جہاد کرنے والے ، تمام قریش میں سب سے زیادہ مایہ ناز اور مومنین میں سب سے پہلے خدا و رسولؐ کی صدا پر لبیک کہنے والے سابقین میں اول ،کینہ توزوں کی کمر توڑنے والے مشرکین کو خاک چٹانے والے ، منافقین کے خلاف اللہ کا چلایا ہوا تیر ، عابدوں کی حکمت سے بھرپور زبان ، دین خدا کے مددگار ، امر خدا کے ولی ،حکمت خدا کا باغ اور علم خدا کا مرکز۔
سَمِحٌ سَخِیٌّ بَهِیٌّ بُهْلُولٌ زَکِیٌّ أَبْطَحِیٌّ رَضِیٌّ مِقْدَامٌ هُمَامٌ صَابِرٌ صَوَّامٌ مُهَذَّبٌ قَوَّامٌ قَاطِعُ الْأَصْلَابِ وَ مُفَرِّقُ الْأَحْزَابِ أَرْبَطُهُمْ عِنَاناً وَ أَثْبَتُهُمْ جَنَاناً وَ أَمْضَاهُمْ عَزِیمَةً وَ أَشَدُّهُمْ شَکِیمَةً أَسَدٌ بَاسِلٌ یَطْحَنُهُمْ فِی الْحُرُوبِ إِذَا ازْدَلَفَتِ الْأَسِنَّةُ وَ قَرُبَتِ الْأَعِنَّةُ طَحْنَ الرَّحَی وَ یَذْرُوهُمْ فِیهَا ذَرْوَ الرِّیحِ الْهَشِیمَ لَیْثُ الْحِجَازِ وَ کَبْشُ الْعِرَاقِ مَکِّیٌّ مَدَنِیٌّ خَیْفِیٌّ عَقَبِیٌّ بَدْرِیٌّ أُحُدِیٌّ شَجَرِیٌّ مُهَاجِرِیٌّ مِنَ الْعَرَبِ سَیِّدُهَا وَ مِنَ الْوَغَی لَیْثُهَا وَارِثُ الْمَشْعَرَیْنِ وَ أَبُو السِّبْطَیْنِ الْحَسَنِ وَ الْحُسَیْنِ ذَاکَ جَدِّی عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ۔
وہی جو بخشش کرنےو الا جواں مرد، داتا، وجیہ، ہوشمند ، پاک و پاکیزہ مجازی مرضیٔ خدا ، پیشگام ، بلند ہمت، رہبر، صابر ، بہت روزہ رکھنے والا، مہذب بہت عبادت گزار ، اصلاب کا قطع کرنےو الا، کافروں کی ٹولی پراگندہ کرنےو الا، سب سے زیادہ ہمت والا، انتہائی قوی دل اور صلابت والا، کافروں کے مقابل شیر دلاور، جس نے اچھلتے نیزوں اور جنگی بہادروں کے قریب کافروں کو سنگ آسیا کی طرح روند ڈالا، اور یوں تہس نہس کیا جیسے تیز ہوا بھوسہ اڑا جاتی ہے، و ہ حجازی شیر، عراق کا یکہ تاز، مکی ، مدنی ، حیف، منیٰ اور مکہ کا معزز ، بلد واحد کا شیر مرد، جو شجرۂ رضوان کا یکتا تھا، عربوں کا سردار ، جنگ کا شیر دونوں مشعر کا وارث، حسن و حسینؑ دونوں فرزندان رسولؐ کا باپ ، یہ ہیں میرے جد علیؑ بن ابی طالبؑ۔
(بیشتر اردو ترجمہ مولانا سید علی اختر رضوی شعورؔ گوپال پوری مرحوم )
 امام نے اپنے جد رسول اور علی مرتضیٰ کو پہنچوانے کے بعد اپنے والد بزرگوار کا تعارف کرایا۔پھر فرمایا:میں فاطمہ زہرا ؑکا فرزند ہوں، میں سردار نساء عالمینؑ کا فرزند ہوں، میں خدیجۃ الکبریٰؑ کا فرزند ہوں، میںا س کا فرزند ہوں جسے ظلم سے قتل کیا گیا۔ میں اس کا فرزند ہوں جسے پس گردن سے ذبح کیا گیا، میںا س کا فرزند ہوں جسے پیاسا قتل کیا گیا۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کی لاش کربلا میں پڑی ہوئی ہے، میں اس کا فرزند ہوں جس کا عمامہ اور ردا کولوٹ لیا گیا۔
امام سجادؑ اسی طرح تقریرفرماتے رہے اور لوگ داڑھیں مار مار کر رورہے تھے ۔ صدائے گریہ و نالہ بلند تھی۔ یزید ڈرا کہ کہیں فتنہ و انقلاب نہ برپا ہوجائے ، موذن کو حکم دیا : اذان دے۔موذن نے کہا: اللہ اکبر اللہ اکبر 
امام سجادؑ نے فرمایا: ( خدا سے بڑی کوئی چیز نہیں) موذن نے کہا: اشہدان لاالٰہ الا اللہ
امام سجادؑ نے فرمایا: اس بات کی شہادت دیتے ہیں میرے تمام روئیں، میری جلد، میرا گوشت اور میرا تمام خون۔
موذن کے کہا: اشہد ان محمداً رسول اللہ
امام سجادؑ نے موذن سے فرمایا: تجھے انہیں محمدؐ کی قسم ذرا خاموش ہوجاتاکہ میں ایک بات کہوں ، پھر آپ نے منبر سے یزید کومخاطب کیا :یا یزید! محمد ھٰذا جدی ام جدک؟اے یزید محمدؐ تیرے جد ہیں یا میرے جد ہیں؟
اگر تو کہے کہ تیرے ہیں تو نے جھوٹ کہا اور کفر بکا، اور اگر تیرا اعتقاد ہے کہ وہ میرے جد ہیں تو تونے ان کی عترت کو کیوں قتل کیا؟
 کیوں میرے باپ کو قتل کیا اور ان کے حرم کو قیدی بنایا۔
 یہ فرما کر اپنے ہاتھوں سے گریبان چاک کیا اور رونے لگے اس کے بعد لوگوں سے خطاب کیا :
اے لوگو! کیا تم میں کوئی ہے جس کا جد خدا کا رسول ہو؟
 یہ سنتے ہی مجمع سے صدائے گریہ اور تیز ہوگئی۔
پھر فرمایا: خدا کی قسم! دنیا بھر میں میرے سوا کوئی نہیں جس کے جد رسولؐ خدا ہوں، پھر کیوں اس شخص ( یزید) نے میرے باپ کو قتل کیا اور رومیوں کی طرح قیدی بنایا۔
اے یزید! اس کرتوت کے بعد بھی تو کہتا ہے کہ محمد خداؐ کے رسول ہیں؟ قبلہ رخ بیٹھا ہے تجھ پر تف ہے ، قیامت میں میرے جد اور پدر بزرگوار تجھ پر دعویٰ کریں گے۔ 
 یزید چلایا: اے موذن اقامت کہو
مجمع میں ہاؤ ھو بلند ہوا، اعتراض کی آوازیں ابھرنے لگیں۔ بعض لوگوں نے یزید کے پیچھے نماز پڑھی بعض نے نہیں پڑھی اور منتشر ہوگئے۔ ( مناقب جلد ۴ صفحہ ۱۶۴۔کامل بہائی جلد ۲ صفحہ ۳۰۰)
امام سجادؑ نے بحالت اسیری ظالم کے دربار میں فضائل آل محمد علیہم السلام کے دریابہائے اور ان کے مصائب اس طرح بیان کئے کہ دربار میں آنسوؤں کا سیل جاری ہوگیا جو یزید ی حکومت کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گیا ۔ بقول جوشؔ ملیح آبادی مرحوم
یوں بجھا کر رکھ دیئے آہوںنے دولت کے دیئے
آنسوؤں میں بہہ گئے طبل و علم کے دبدبے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں