قرآن ناطق کی شہادت
آیۃاللہ العظمیٰ وحید خراسانی مد ظلہ
ماہ رمضان کو جس بات نے دوسرے تمام مہینوں سے ممتاز کیا ہے دو چیزیں ہیں کہ ایک قرآن اس مہینے ہی نازل ہوا ۔ اور ایک قرآن اس مہینہ میں اوپر گیا ۔ اس قرآن کے نزول اور اُس قرآن ناطق کے عروج نے اس مہینہ کو اکسیر احمر کردیا ہے جس کی وجہ سے اس میں قلب و انقلاب کی خاصیت پیدا ہوگئی ہے۔
۲۱؍ رمضان کو جب امام حسنؑ دفن امیر المومنین ؑ سے واپس ہوئے تو بالائے منبر تشریف لے گئے اور فرمایا :
’’ آج رات تم سے وہ رخصت ہوا ہے جس سے علم میں گزشتگان سبقت نہیں لے جاسکے اور آنےوالے بھی علم و حلم میں ان کو درک نہیںکرسکے۔ ان کو رسول اکرمؐ پر چم عطا فرماتے اور وہ دشمنوں سے قتال کرتے جبکہ جبرئیل داہنی جانب ہوتے اور میکائیل بائیں جانب خدا کی قسم انہوں نے اپنے بعد کوئی درہم و دینار نہیں چھوڑا سوائے سات سو درہم کے جو آپ کے حصے کا بیت المال سے بچا تھا جس سے آپ اپنے گھر والوں کےلئے خادم خریدنا چاہتے تھے وہ اس رات میں دنیا سے رخصت ہوئے جس میں عیسیٰ بن مریم آسمان پر گئے اور اس رات موسیٰ پر تو ریت نازل ہوئی ۔ (اصول کافی جلد ۱ ص ۴۵۷)
ان کلمات پر غور کیجئے۔ اولین و آخرین کون ہیں۔ گزشتگان میں جناب آدم سے جناب عیسیٰ تک۔ یعنی ایسی ذات رخصت ہوئی کہ اس میدان میں گزشتگان میں کوئی سبقت نہیں لے جاسکا۔ اور آخرین میں آنے والوں میں قیامت تک کوئی بھی اس تک نہیں پہنچ سکتا۔
یہ ذات کون ہے ؟ امام احمد ابن حنبل نے نقل کیا:
’’ والذی نفسی بیدہ لولا ان تقول طوائف من امتی فیک ما قالت النصاریٰ فی ابن مریم لقلت الیوم فیکا مقالاً لا تمرّ یملأ من المسلمین الا خذوا التراب من تحت قدمیک للبرکۃ ‘‘
( شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۹ ص ۱۶۷، ینابیع المودۃ ، قندوزی جلد ۲ ص ۴۸۷۔۔)
خدا کی قسم ! اے علی! اگر مجھے اپنی امت سے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ وہ تمہارے بارے میں وہی کہنے لگیں گے جو عیسائی جناب عیسیٰ کے لئے کہتے ہیں تو میں تمہارے بارے میں وہ بتاتا کہ لوگ تمہارے قدموں کے نیچے کی خاک تبرک کے لئے اٹھاتے‘‘۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں تمہارے مقام و مرتبہ کو بیان کردوں تو جس طرح عیسائی انجیل کے نازل ہونے کے بعدتثلیث کا شکار ہوگئے اور عیسیٰ کو خدا کا شریک قرار دے دیا۔ اگر میں تمہارے تمام فضائل و مناقب بیاں کروں تو لوگ تمہارے بارے میں بھی گمراہی کا شکار ہوجائیں گے۔
گویا یہ حدیث بیان کررہی ہے کہ امیر المومنینؑ کے بارے میں جو کچھ بیان ہوا اس سے زیادہ پوشیدہ رکھا گیا ہے۔
ان احادیث پر غور کیجئے :
امام ابن حنبل کا بیان ہے :رسول اکرمؐ نے فرمایا : جو بھی چاہتا ہے کہ آدمؑ کو ان کے علم میں دیکھے نوح ؑکو ان کے عزم میں دیکھے ابراہیمؑ کو ان کے حلم میں موسیٰ ابن عمران کو ان کی فطانت و ذہانت میں عیسیٰ بن مریم کو ان کے زہد میں دیکھے تو ’’فلینظر الیٰ علی ابن ابی طالب‘‘ وہ علیؑ ابن ابی طالب کو دیکھے۔ ( شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید جلد ۹ ص ۱۶۸، ینابیع المودۃ ، قندوزی جلد ۱ ص ۳۶۳)
لہٰذا قابل غور تو یہ ہے کہ جب بیان کیا ہوا یہ ہے تو پھر جو بیان نہیں فرمایا وہ کیا ہوگا ؟!!
صحیح بخاری جو اہل سنت کے نزدیک سب سے برتر کتاب ہے اس میں ذکر ہوا ہے :’’ علی منی و انا من علی ‘‘
پیغمبرؐ نے فرمایا علی مجھ سے ہیں اور میں علیؑ سے ہوں‘‘
( صحیح بخاری جلد ۳ ص ۱۶۸، کتاب الصلح و جلد ۴ ص ۲۰۷، باب مناقب علی ابن ابی طالب ؑ و جلد پانچ ص ۸۵ باب عمرۃ القضا)
ماہ رمضان میں فرمایا :
’’ اے علیؑ جو تمہیں قتل کرے اس نے مجھے قتل کیا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ۲۱؍ رمضان کو علیؑ کی شہادت نہیں ہے بلکہ پیغمبر ؐ خاتم کی شہادت ہے ۔ تمام شیعوں کی ذمہ داری ہے کہ اس دن پیغمبرؐ اکرمؐ کی عزا برپا کریں۔ اس کلمہ کا مطلب صرف شیعوں کے لئے نہیں بلکہ اہل سنت کے لئے بھی یہ ہے کہ اس دن پیغمبرؐ کی عزا کا دن ہے۔
اس کے بعد پیغمبرؐ نے دلیل پیش کرتے ہوئے فرمایا :
’’ اے علیؑ کیونکہ تمہاری روح میری روح سے ہے ، تمہاری طینت میری طینت سے ہے گویا تمہارا بدن مجھ سے ہے تمہاری جان مجھ سے ہے ، لہٰذا تمہارے دنیا سے جانے کا دن میری رحلت کا دن ہے ‘‘۔
رسول اکرمؐ نے فرمایا :’’ اے علیؑ جس نے تمہیں قتل کیا اس نے مجھے قتل کیا ، جس نے تم سے دشمنی و بغض رکھا اس نے مجھ سے دشمنی کی ، جس نے تمہیں برا کہا اس نے مجھے برا کہا، اس لئے کہ تم میری جان و نفس ہو۔ تمہاری روح میری روح ہے، تمہاری طینت میری طینت ہے۔
(ینابیع المودۃ قندوزی جلد ۱ ، ص ۱۶۸و بحار الانوار جلد ۴۲ صفحہ ۱۹۰و جلد ۹۳ صفحہ ۳۵۸و امالی شیخ صدوق صفحہ ۱۵۳)۔
لہٰذا آپ تمام حضرات کی ذمہ داری ہے کہ ۲۱؍ ماہ صیام کو خاتم الانبیاءؐ اور امیر المومنینؑ کے شایان شان غم منائیں اور مجالس عزا برپا کریں۔
(ترجمہ سید محمد حسنین باقری)٭…٭…٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں