ولایت امیرالمومنین پر عقلی و نقلی دلائل
حجۃالاسلام سید حسن مومنی
اسلام کی مقدس شریعت میں کسی بات کو ثابت کرنے کے لئے عقلی دلیل سے استفادہ کیا جاتا ہے یا پھر نقلی دلیل کے طور پر قرآن مجید کی آیات ، رسول خدا کی سنت اور ائمہ معصومین کے ارشادات سے استفادہ کیا جاتا ہے۔
احکام شرعی کو ثابت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ عقلی اور نقلی دلائل میں سے کسی ایک دلیل سے استفادہ کیا جائے۔
اس مضمون میں ہمارا جو دعویٰ ہے اسے مذکورہ دلیلوں سے ثابت کرنا چاہتے ہیں ، ہمارا دعویٰ ہے کہ رسولﷺ کے بعد علی بن ابی طالب علیہ السلام کے علاوہ کسی شخص میں رسول کی جانشینی کی صلاحیت نہیں تھی ۔
اپنے اس دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے ہمارے پاس دلیل عقلی موجود ہے ،قرآن کریم کی آیات بھی موجود ہیں ، اور رسول کی احادیث بھی موجود ہیں ۔
ولایت امیرالمومنین علیؑ پر عقلی دلیل
مقدمہ:ہم اگر شیعہ ہیں اور مجتہد نہیں ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم فروع دین میں کسی مجتہد کی تقلید کریں ،لیکن اصول دین میں تقلید نہیں ہے ہر کسی کو چاہئے کہ اپنے علم کے اعتبار سے اصول دین پر دلیل قائم کرے جتنا بھی علم ہو اسی اعتبار سے غور وفکر کرے اور اصول دین کو سمجھے۔
اہل سنت کے ایک سابق عالم دین کہتے ہیں :میں وہابیوں کی تفسیری کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا جب میں اس آیۂ مبارکہ (یَااَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَااُنْزِلَ اِلَیْکَ)(١)پر پہنچا تو میں نے دیکھا اس کی تفسیر کے ذ یل میں لکھا ہے : (وَمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ . .)سے مراد علی بن ابی طالبؑ ہیں۔یہ پڑھتے ہی میرا دماغ خراب ہو گیا، میں الجھن میں پڑ گیا اور یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے عقائد کی بنیاد ہی خراب ہے !اور ہمارے عقائد سرے سے باطل ہیں!۔
خدا وندعالم نے مسلمانوں کو دو نعمت اور دوحجت سے نوازا ہے :
١۔ حجت باطنی 'عقل ۔ ٢۔حجت ظاہری 'رسول خدا ؐ۔
خداوندعالم نے حجت ظاہری (رسول خدا) کو اس لئے بھیجا تا کہ حجت باطنی (عقل )سے مل کردونوں ایک دوسرے کو مکمل کریں اس لئے کہ باطنی حجت کے ذریعہ ہی ظاہری حجت کو سمجھا جا سکتا ہے ۔
چنانچہ وہ سابق عالم اہل سنت جو اب شیعہ ہو گئے ہیں ،کہتے ہیں : میں نے اپنی باطنی حجت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے بہت غوروفکر کیا اور میں نے سوچ لیا کہ مجھے نہ آیات سے مطلب ہے اور نہ ہی روایات سے سروکار ہے ،میرے پاس خدا کی دی ہوئی نعمت عقل ہے میں صحیح اور غلط کو پرکھ سکتا ہوں ۔
وہابیوں کے پاس بہت ساری کتابیں ہیں جن میں ان کے عقائد لکھے ہوئے ہیں اور وہابیوں کے بچے ان عقائد کی کتابوں کو چھ سال کی عمر سے طوطے کی طرح رٹتے ہیں اور میں بھی یہی بچپن سے سنتا اور پڑھتا چلا آرہا ہوں کہ :رسول ۖ اکرم جب اس دنیا سے رخصت ہونے لگے تو کسی کو بھی اپنا جانشین مقرر نہیں فرمایا !اور وہابی بھی اسی بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور ان کا اصل عقیدہ بھی یہی ہے ،اگر وہابیوں کو یقین ہو جائے کہ ان کا عقیدہ (کہ رسول نے اپنے بعد کسی کو بھی اپنا جانشین مقرر نہیں کیا تھا ) باطل ہے تو وہابیوں اور ان کے ساتھ جو بھی باطل عقائد ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں گے۔
وہ سنی عالم دین کہتے ہیں :میں نے اپنی عقل پر زور ڈالا اور بہت غوروفکر کیا اور غور وفکر کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہونچا کہ جب ایک رئیس اپنی کرسی چھوڑ تا ہے ،جب ایک بادشاہ اپنی بادشاہت چھوڑتا ہے تو اپنی زندگی میں کسی نہ کسی کو اپنا جانشین مقرر کرتا ہے تاکہ وہ اس کے بعد اس کے تمام امور کو بخوبی انجام دے سکے ،پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ رئیسوں کے رئیس،بادشاہوں کے بادشاہ رسول اکرم ؐاپنی حیات طیبہ میں اس اہم ترین بات کی طرف متوجہ نہ ہوئے ہوں ؟!۔یہیں سے وہابیوں کا عقیدہ متزلزل ہوتا ہوا نظر آتا ہے کہ رسول خداؐ نے اپنے بعد وصی مقرر فرمایا یا نہیں ؟!۔
اب میں وہ دلائل پیش کرنے جا رہا ہو جس کہ وجہ سے میں سنی سے شیعہ ہوا:
لہٰذا یہ سوچنے کے بعد میری عقل نے اس بات کو بالکل قبول نہیں کیا کہ رسولؐ نے اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں فرمایا ہوگا۔یقینا رسول نے اپنے بعد کسی نہ کسی کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا اب میرے لئے ضروری ہے کہ میں تحقیق کروں کہ رسول نے کس کو اپنی جانشینی کے لئے مقرر فرمایا ؟۔
اس مقام پر میں نے اپنے آپ سے کہا : رسولخدا ؐکا جانشین وہی بن سکتا ہے جس نے اپنی پوری زندگی میں گناہ کرنا تودور گناہ کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہ ہو اور اس کا کوئی عمل اسلام کے مخالف نہ ہو ۔
اب میںاس بات کی تحقیق کرنے لگا کہ دیکھوں کون کون ہے جو یہ چاہتا ہے کہ رسولخدا ؐکا جانشین بنے اور کس کو رسول خداؐ اپنا خود جانشین بنانا چاہتے تھے ،میںحضرت ابوبکر کے پاس پہونچا اور ان سے پوچھا: کیا آپ مجھے اپنے والدین کے بارے میں کچھ بتاسکتے ہیں ؟۔
اچھا ابھی اس بات کو چھوڑیئے ، آپ یہ بتایئے کہ آپ نے کئی برسوں تک بت پرستی کی یا نہیں کی؟آپ بت پرست تھے یا نہیں تھے ؟۔
حضرت ابوبکر نے کہا : ہاں میں نے بت پرستی کی میں برسوں تک بت پرست رہا ہوں ۔
آپ کے والدین کیا تھے ؟انہوں نے کہا : میرے والدین بھی بت پرست تھے ۔
یعنی آپ کی پوری زندگی گناہوں سے بھری پڑی ہے ۔
اچھا یہ بتائیے آپ شجاعت اور میدان جنگ میں کیسے تھے؟ جب رسولؐ نے فرمایا جاؤ عمرو بن عبدود سے جنگ کروتو آپ کہا ں تھے ؟۔
حضرت ابوبکر: میں میدان چھوڑ کر بھاگ گیا تھا . ان واقعات سے معلوم ہوا کہ ابوبکر نے اسلام میں کوئی بھی قابل قدر کام انجام نہیں دیا ۔
اب دوسرے کے پاس پہونچا یعنی حضرت عمر بن خطاب :
تو انھوں نے بھی مذکورہ سوالات کے جواب میں پس و پیش کا مظاہرہ کیا ،ان کی زندگی بھی حضرت ابوبکر سے مختلف نہیں تھی یعنی انھوں نے بھی رسول خدا ؐکی زندگی میں اسلام کی ترقی اور کامرانی کے لئے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا تھا ۔
اب آیئے ذرا امیرالمومنین علیہ السلام کی بارگاہ میں چلیں اور ان سے سوال کریں:یا امیرالمومنین آپ کے والد کون تھے ؟
علی نے فرمایا:ابوطالب ،مومن قریش،بزرگ مکہ،وہ کہ جس کے پاس خانۂ خدا کی کنجی رہتی تھی ۔
آپ کی والدہ کون تھیں؟۔
علی ؑنے فرمایا : فاطمہ بنت اسدؑ، وہ مومنہ عورت کہ جب ان کا پسر علی ؑاس دنیا میں آنے والا تھا توخدا نے ان کے لئے اپنا گھر کھول دیا کعبہ کی دیوار شگافتہ ہوئی اور فاطمہ بنتؑ اسد اندر تشریف لے گئیں اور علی ؑکی خانہ خدا میں ولادت ہوئی ، حالانکہ جب جناب عیسیؑ دنیا میں تشریف لانے والے تھے اور ان کی ماں جناب مریم جیسے ہی خانہ خدا کے قریب آئیں تو خانہ خدا نے ان سے خود کہا یہاں سے دور چلی جائو۔
شجاعت کے میدان میں ؟ علیؑ وہ ہیں جنہوں نے کبھی بھی جنگ میں اپنی پشت پر زرہ نہیں ڈالی علی ؑوہ ہیں جنہوں نے عمر وبن عبدود کے غرور کو چورکیا اور اس کو دھول چٹائی .علیؑ وہ ہیں جو شب ہجرت اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر نبی ۖ کے بستر پر سو گئے . . . .وغیرہ۔
میں نے دیکھا کہ حضرت علی کی پوری حیات طیبہ میں یا آپ کے والدین کی حیا ت طیبہ میں ایک چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی اسلام کے مخالف نہیں ہے،اسی وقت میں نے بے اختیار کہا (اشھد أن علیاً ولی اللّٰہ)۔
ولایت علی ابن ابی طالب علیہما السلام پر عقلی دلیل
ابن ابی الحدید نے کتاب شرح نھج البلاغہ کے مقدمات میں قرآن مجید سے چالیس آیات لکھی ہیں جو امیرالمومنینؑ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ، اور مرحوم کمپانی نے بھی اپنی کتا ب (علی کیست ؟)میں انہیں چالیس آیات کا ذکر کیا ہے جو امام علی کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔اور اہل سنت کے بعض علماء نے بھی اپنی کتاب میں ان آیات کا ذکر کیا ہے جو حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی ہیں (شواھدالتنزیل) حاکم حسکانی کی کتا ب ہے اور کتاب ( مانزل من القرآن فی علی) میں جس کو اہل سنت کے ایک بزگ عالم دین حافظ ابو نعیم اصفہانی شافعی نے لکھاان کی وفات ٤٣٠ھ میں ہوئی . اہل سنت حضرات کی بہت سی کتا بیں ہیں جس میں ان آیات کا ذکر ہے جو علی ؑکی شان میں نازل ہوئی ہیں یا ان آیات کا ذکر ہے جن میں حضرت علیؑ کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔
حضرت علی کی شان میں نازل ہونے والی آیات میں سے ایک آیت وہ ہے جس میں خدا وندعالم نے اپنے عذاب کا ذکر بھی فرمایا ہے۔
اس آیت کا شا ن نزول یہ ہے کہ ایک شخص رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہوااور بلند آواز کے ساتھ رسول سے مخاطب ہوا اور اعتراض کرنے لگا : یا رسول اللہ آپ نے ایسا کیوں فرمایا کہ آپ کے بعد علی آپ کے جانشین ہوں گے ؟ ! ۔
( غدیر کے خطبہ میں رسول اکرم نے فرمایا تھا : میں نے خدا کی بارگاہ میں عرض کیا اے خدا مجھے معاف فرما دے کہ میں ابھی مسلمانو ں سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ علی میرے وصی ہیں !کیوں کہ میں ڈرتا ہوں کہ یہ جلد ہی اسلام کے دائرہ میں داخل ہوئے ہیں علی کے فضائل انھیں ہضم نہیں ہوں گے )۔
اس شخص نے خدا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : اگر یہ بات سچ ہے کہ رسول کے بعد میرے لئے ضروری ہے کہ علی کی پیروی کروں تو اے خدا آسمان سے میرے لئے عذاب نازل کر تاکہ وہ مجھے ہلاک کر دے اسی وقت آسمان سے دشمن علی کے لئے عذاب نازل ہوا اور وہ شخص واصل جہنم ہوگیا۔ سورۂ معارج کی ابتدائی آیات اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں : (سَأَلَ سَائِل بِعَذَابٍ وَاقِعٍ، وَ لِلْکَافِرِیْنَ لَیْسَ لَہُ دَافِع)یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول اکرم نے لوگوں سے ظاہری طور سے فرمایا تھا میرے بعد علی میرے جانشین ہیں اور علی کے بعد اولاد علی ان کے جانشین ہیں .
ولایت امیرالمومنین علیہ السلام کا اثبات ؛روایات کی روشنی میں
رسول اکرمؐ کی زبان سے حضرت علیؑ کی حقانیت بیان ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ سوائے علی بن ابی طالب کے کوئی اور رسول کی جانشینی کا حقدار نہیں ہے ، اور اہل سنت کی معتبر کتابوں میں بھی خطبہ غدیر کا ذکر ہے ۔
غدیر کے دن رسول نے لوگوں سے فرمایا : ہم اس جگہ تین دن قیام کریں گے لہٰذا جہا ں کھڑے ہو وہاں صفائی کرو کیوں کہ اب لازم ہے اور یہی صحیح و قت بھی ہے کہ لوگ علی کی بیعت کریں خطبہ سے پہلے (صاف صفائی اور جگہ کی آماد گی ) اور خطبہ کے بعد کے واقعات اس بات کے قرائن ہیں کہ ’’مولیٰ‘‘ کا مطلب امامت اور ولایت ہے ؛جیسے رسول نے دو خیمہ نصب کروائے :ایک خیمہ میں رسول تشریف فرما تھے ، اور دوسرے خیمہ میں امام علی تشریف فرما تھے الگ الگ خیمے میں رسول اس لئے بیٹھے تھے تاکہ لوگ پہلے رسول اکرم کے خیمے میں ان سے عھد کریں کہ ہم آپ کے بعد علی کو آپ کا جانشین مانتے ہیں پھر رسول کے خیمے سے نکل کر امام علی کے خیمے میں جا کر امام علی کی بیعت کریں،سبھی نے بیعت کی یہاں تک کہ عورتوں نے بھی امام علی کی بیعت کی ۔ دوسرااہم قرینہ جو غدیر کے دن ہوا وہ یہ ہے کہ رسول خداﷺ نے اپنا عمامہ امام علی کو اپنے ہاتھو ں سے پہنایا تھا :
مرحوم علامہ مجلسی اپنی کتا ب بحارالانوار(٢) میں ایک روایت نقل فرماتے ہیں کہ جب رسول اکرم نے امام علی کو لوگوں کا امام ،خلیفہ اوررہبر مقرر فرمایا تو اس وقت خود اپنا عمامہ جس کا نام (سحاب)تھا علی کے سر پر رکھا جس طرح روم اور ایران میں تاج پوشی کی جاتی تھی تو اپنا تاج اپنے جانشین کو پنہاتے تھے اسی طرح رسول اکرم نے بھی اپنا تاج امام علی کے سر پر رکھا۔
اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور رسول سے فرمایا : خدا کی قسم آج کے دن جیسا میں نے کوئی دن نہیں دیکھا ،آپ نے اپنے چچیرے بھائی کا کام کتنا محکم کر دیا ہے ، اس کے لئے آپ نے عمامہ گزاری کی اور لوگوں سے عہد وپیمان لیا، اب کافر کے سوا،خدا اور اس کے محترم رسول کا عہد وپیمان کوئی نہیں توڑے گا .لعنت ہو اس پر جو رسول کے عہدو پیمان کو توڑے۔
عمامہ گزاری کا واقعہ اہلسنت حضرات کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔(٣)
خطبہ غدیر کے متن پر ایک نظر
اسلام کے محترم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ نے خطبہ غدیر کے آغاز میں خداوندعالم کی حمد وثنا کے بعد فرمایا : اگر کوئی چاہتا ہے کہ ولایت علی کو قبول کرے تو خدا پر اس کا ایما ن محکم ہونا چاہئے تب اس کا دل ولایت علی کو قبول کرے گا ورنہ نہیں، اور اگر کسی شخص نے ولایت علی کو قبول نہیں کیا تو وہ مومن نہیں ہے ۔
اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا : خدا نے یہ آیت مجھ پر نازل فرمائی:(یَا اَیُّھَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکْ وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ)۔(٤)
اور اس کے بعدرسول اکرم فرماتے ہیں: (جوکچھ بھی خدا وندعالم نے مجھ پر نازل کیا ہے میں نے وہ سب تم تک پہنچانے میںکوئی کوتاہی نہیںکی ہے، اب میں اس آیت کی شان نزول تم سب کو بتا تا ہوں : جبرئیل خدا کے حکم سے مجھ پر نازل ہوئے اور خدا کے سلام کے بعد مجھ سے کہا کہ خدا وندعالم کا حکم ہے کہ اس جگہ ہر ایک کالے گورے کے لئے اعلان کر دیجئےکہ علی میرے بھائی، میرے بعد میرے وصی ،خلیفہ، امام اور جانشین ہوں گے ان کی نسبت مجھ سے ویسی ہی ہے جیسی ہارون کی نسبت موسیٰ سے تھی )۔(۵)
رسول ﷺ نے فرمایا : جب جبرئیل یہ آیت لے کر نازل ہوئے تو میں نے جبرئیل سے کہا: میں اس جگہ علی کی ولایت کا اعلان نہیں کر سکتا تو جواب میں آیۂ تبلیغ نازل ہوئی ،میں نے جبرئیل سے سوال کیا کہ میں یہ پیغام لوگوں تک ابھی نہیں پہنچاسکتا کیوں کہ اس میں پرہیزگار بہت کم ہیں زیادہ تر منافقین اور سازشیں کرنے والے اور مذاق اڑانے والے ہیں، میں جانتا ہوں نیک لوگ کم ہیں برے لوگ زیادہ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول خدا، امام علی کی ولایت کا اعلان کیوں نہیں کر رہے تھے ؟۔
واقعہ غدیر کے بعد ، رسول اور امام علی دونوں ایک ساتھ تھے ، رسول نے اپنے دائیں اور بائیں جانب دیکھا پھر امام علی کو سینہ سے لگا لیا اور گریہ کرنے لگے ،علی نے عرض کی : یا رسول اللہ!آ پ کیوں گریہ کر رہے ہیں ؟ رسول نے فرمایا : ائے علی میں دیکھ رہا ہوں جو کینہ تمہارے لئے لوگوں کے سینہ میں ہے وہ ایک خطرناک شکل اختیار کر رہا ہے ۔
پھر فرمایا : ہر ایک کے لئے ضروری ہے کہ ولایت علی کو قبول کرے :اے لوگو! جان لوکہ خدا نے علی کو تمہارا امام اور پیشوامقرر فرمایا ہے انصار اور مہاجرین ہر ایک پراما م علی کی اطاعت واجب ہے ،چاہے وہ گائوں میں رہتے ہوں یا شہر میں ، عرب میں ہوں یا عجم میں ،آزاد ہوں یا قید ، چھوٹے ہوں یا بڑے۔(۶)
پھر فرمایا : اے لوگو! علی کو فوقیت دو کیوںکہ خداوندعالم نے علی کو فوقیت دی ہے،اور علی کی ولایت کو قبول کرو کیونکہ خدا وندعالم نے علی کو یہ منصب عطافرمایا ہے ،۔(۷)
بی بی فاطمہ زہراؐ فرماتی ہیں : اگر تم دیکھنا چاہتے ہو کہ خدا نے تم کو اپنی نعمتوں سے نوازا ہے یا نہیں تو دیکھو تمہارے دل میں علی کی محبت ہے یا نہیں اگر تمہارے دل میں امام علی کی محبت نہیںہے تو تم خدا کی نعمتوں سے دور ہو ۔
پھر بی بی فرماتی ہیں : علی خدا کی طرف سے امام اورخلیفہ مقرر کئے گئے ہیں ۔
ہر وہ شخص جو ولایت علی کا منکر ہے خدا اس کی دعا قبول نہیں کرے گا اور اس کی مغفرت نہیں کرے گا۔(۸)
پھر رسولؐ فرماتے ہیں : اے لوگو علیؑ کو مقدم رکھو کیوں کہ میرے بعد اس عالم میں تمام مرد اور عورت میں علی افضل ترین ہیں، خدا علی کے ہی وسیلہ سے لوگوں کو رزق عطا فرماتا ہے اور علی کی وجہ سے تمام مخلوقات زندہ ہیں ۔(۹)
پھر رسول فرماتے ہیں:ملعون ہے ملعون ہے وہ شخص جس نے میری بات کو قبول نہیں کیا اور خدا اس پر عذاب نازل فرمائے گا جس نے میری اس بات کو جھٹلایا ۔
جبرئیل نے خد اکی جانب سے مجھے اس کام پر مامور فرمایا ہے اور کہا ہے کہ جس نے علی سے دشمنی کی اور علی کے لئے ذرا بھی کینہ دل میں رکھا اس پر اللہ کی لعنت اورعذاب نازل ہوگا ۔
رسول نے اپنے اصحاب سے فرمایا :اگر تم چاہتے ہو کہ مالدار ہوجائو تو علی کے چہرہ کی زیارت کیا کرو۔(۱۰)
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ رسول اکرمؐمسجد میں تشریف فرماتھے اور امام علیؑ آپ کے پاس بیٹھے تھے، علی نے رسول کی خدمت میں عرض کیا : آپ میرے لئے خدا سے دعا کیجئے کہ خدا میرے گناہوں کو معاف فرما دے ۔ رسول اکرم نے دعا کی: خدا یا !تجھ کو علی کا واسطہ علی کے گناہوں کو بخش دے۔(۱۱)
حضرت علی علیہ السلام نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے خدا کی بارگاہ میں میرے وسیلے سے دعا کیوں فرمائی ؟۔رسول اکرم نے فرمایا : کیونکہ میں نے خدا کی بارگاہ میں تم سے زیادہ محبوب تر کسی کو نہیں پایا ۔(مصباح الہدی)
حوالہ جات :(۱)مائدہ ٦٧۔(۲)بحارالانوار 'ج ٣٨'ص٢٠و١٦٧۔(۳)برگذیدہ الغدیر:٨٢ ٨٣۔(۴)مائدہ ٦٧۔ (۵)احتجاج طبرسی١:٧٣؛(۶)بحارالانوار٣٧:١٣١۔(۷)روضۃالواعظین : ٩٢ ؛(۸)الاحتجاج٢:١٤٢.(۹)شرح احقاق الحق ٧:٨٧؛(۱۰)شواہدالتنزیل٢ :١٠٧؛(۱۱)شرح نہج البلاغۃ،ابن ابی الحدید٢٠:٣١٦.ژ ژ ژ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں