جمعرات، 28 مئی، 2020

جنۃ البقیع jannautul baqee

باسمہ تعالیٰ
(انہدام جنۃالبقیع کے چار ماہ بعد لکھی گئی ایک تحریر)
جنۃ البقیع
عالیجناب مولانا سید ظفر حسن صاحب عاصیؔ امروہوی طاب ثراہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی
جنت البقیع کیا ہے؟
جنت البقیع مدینۂ منورہ کا وہ متبرک و مقدس قبرستان ہے جس کو ہمارے رسولؐ کی پیاری بیٹی جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا نے اپنے پدر بزرگوار کی وفات کے بعد ’’بیت الحزن‘‘ بنایا تھا یعنی شفیق پدر سے جدا ہوکر زندگی کے بقیہ دن اس طرح گزارے کہ صبح و شام بیٹوں کا ہاتھ پکڑ کر جنت البقیع میں تشریف لے جاتیں اور گھنٹوں یاد رسولؐ میں پھوٹ پھوٹ کر روتیں اس مقام سے اس معصومہؑ کو ایک خاص انس ہوگیا تھا۔ اسی وجہ سے بعد وفات امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے اُسی قبرستان میں دفن کیا اور اس خطۂ زمین کو رشک فردوسِ بریں بنایا۔ علاوہ جناب سیدہ خاتون جنتؑ کی قبرِ منور کے اس جنت البقیع رشک دہِ روضۂ رضواں میں اولاد رسولؐ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور جناب رقیہ و امّ کلثوم ختمی مرتبت کی (منہ بولی) بیٹیاں اور حضرت عباسؓ عم رسول اللہؐ اور گلزار رسالت کے چند پھول یعنی امام حسن، امام زین العابدین، امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیہم السلام آرام فرما ہیں۔ و نیز ازواج مطہرات و امہات الامۃ جناب عائشہ و امّ سلمہؓ ( و صحابیٔ رسول عثمان بن مظعون) بھی گلزار محمدی کے پھولوں کے ساتھ ہیں اور جناب عثمان خلیفۂ سوم بھی وہیں (قبرستان کے باہری حصہ حش کوکب میں )مدفون ہیں(جنھیں حاکم شام نے بقیع میں شامل کردیا تھا)
جنت البقیع پر کیا حادثہ نازل ہوا؟
ابن سعود نجدی وہابی فرقہ کا ایک بادشاہ ہے کچھ عرصہ سے حرمین شریفین یعنی مکہ و مدینہ کا حکمراں بن گیا ہے۔ چونکہ اُس کے مذہب کی رو سے قبروں کا زمین سے بلند کرنا اور اُن پر قبوں کا بنانا بدعت اور شرک باللہ ہے لہذا اپنے علماء کے فتاوی کے موافق اس نے تمام مشاہد مقدسہ اور مآثر متبرکہ کو منہدم کرادیا اور کسی پیشوائے دین کا کوئی مقبرہ باقی نہ رکھا۔ ان وحشیانہ مظالم کا شکار جنت البقیع کے قُبّے اور قبور ہوگئے۔ جہاں صبح و شام ہزارہا آدمی زیارت کی غرض سےجایا کرتا تھا اور ہجوم خلائق سے میلہ سا لگا رہتا تھا۔ تسبیح و تہلیل کی آوازیں آیا کرتی تھیں۔ وہاں اب ایک شہر خموشاں نظر آتا ہے۔ جس میں بجز حسرت و یاس کوئی آنے جانے والانہیں، کسی شخص کی مجال نہیں کہ شکستہ دیواروں، ٹوٹے پھوٹے قُبّوں اور پامال قبروں پر جاکر درد بھرے دل سے ایک آہ بھی کھینچ سکے، یا اس جاں شکن مصیبت کے تصور میں دو آنسو بھی آنکھ سے نکال لے۔جو شخص ان قبور کا حامی اور اس ظلم کا شاکی نظر آتا ہے اس پر حکم شاہی کی بنا پر طرح طرح سے تشدّد کیا جاتا ہے بلکہ جان تک لینے سے باک نہیں ہوتا۔ خدا کی شان دیکھو جس رسولؐ کی بدولت مسلمان مسلمان کہلائے اور توحید پرست بنے، عرب و عجم کے مالک ہوئے، معرفت و حقانیت کے پتلے بنے اُسی رسولؐ کی بیٹی اور دیگر مزارات کے ساتھ وہ عملدرآمد کیا گیا جس کو شائد یہود و نصارےٰ بھی روا نہ رکھتے۔ کیا اُن لوگوں کے کانوں میں حدیث: فاطمۃ بضعۃ منّی من اذاھا فقد آذانی (فاطمہؑ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھ کو اذیت دی) نہیںپڑی تھی؟! کیا اس ظلم شدید سے روح مطہر جناب سیدہؑ کو کوئی صدمہ نہیں پہنچا؟کیا اس بے حرمتی سے روحِ رسولؐ کو اذیت نہیں ہوئی؟کیا کوئی مسلمان جس کے دل میں ذرّہ بھر بھی رسولؐ و اولادِ رسولؐ کی محبت ہے اس کا جواب نفی میں دے سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ بالیقین اس کے منہ سے یہی نکلے گا کہ اس بے ادبی و گستاخی نے صرف قلب رسولؐ ہی پر چوٹ نہیں ماری بلکہ تمام خاندان رسولؐ کی ارواحِ طیبہ کو مضطر و بیچین بنا دیا۔ 
جناب والا! آج ایک معمولی حیثیت کا آدمی بھی اس ذلت و خواری کو گوارا کرنے کے لئے تیار نہ ہوگا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے کسی عزیز کی قبر پر کدال اور پھاؤڑا چلایا جائے اور قبہ کی اینٹ سے اینٹ بجائی جائے کیونکہ قبر کی توہین درحقیقت صاحب قبر کی توہین ہوتی ہے۔ اور چونکہ صاحب قبر انتہائی بیکسی اور بے بسی کے عالم میں ہوتا ہے لہٰذا اس کی آبرو کا تحفظ اس کے اعزا پر موقوف ہوتا ہے۔ اور اسی بنا پر اس کی توہین تمام قبیلہ کی توہین خیال کی جاتی ہے۔ پس اے مسلمانو!  مقام انصاف ہے کہ جب معمولی قبر کی توہین کا اثر سارے قبیلہ پر پڑ جائے لیکن تمہارے رسولؐ کی بیٹی اور عزیزوں کی قبریں اکھاڑنے والے اکھاڑ کر پھینک دیں اور اس سے نہ کسی دل پر چوٹ لگے اور نہ کسی خاندان و قبیلہ کی بدنامی و رسوائی ہو؟!۔ اگر رسولؐ اور اولاد رسولؐ تمہارے جانوں اور تمہارے جملہ عزیزوں سے پیارے ہیں تو ان کی توہین کو تمام اسلام کی توہین سمجھنا چاہئے۔ جس حادثہ نے ہمارے رسولؐ اور ہمارے ائمہؑ کے قلوب کو برما دیا ہے اگر ہم اس کو خاموش بیٹھ کر سنیں اور اظہار افسوس میںلب تک نہ ہلائیں تو وائے ہم پر اور ہماری مسلمانی پر۔ 
رسول اللہﷺ کے جلیل القدر صحابی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی قبر مبارک کے ساتھ جو سلوک یزید کے ہاتھوں ہوا، اہل بصیرت پر مخفی نہیں۔ جب قسطنطنیہ کے محاصرہ کے وقت ان کا انتقال فوج اسلامی کے کیمپ میں ہوا تو مسلمانوں نے اس صحابیٔ رسول اور بوڑھے مجاہد اسلام کو نہایت تزک و احتشام اور عزت و احترام سے دفن کیا اور قبر بنادی ۔ تو سپہ سالار یزید نے اس بزرگ کی قبر پر گھوڑے دوڑا کر نشان قبر مٹادینے کا حکم دیا چنانچہ قبر کو بالکل بے نشان کردیا گیا۔ غالباً وہی یزیدی روح نجدیوں میں حلول کرا ٓئی ہے۔
 (کتاب استیعاب جلد ۲ صفحہ ۵۳۸ علامہ عبد البر مکی و مدارج النبوۃ شاہ عبد الحق دہلوی جلد ۲ صفحہ ۶۱۶و۶۱۷)
مسلمانو! اب وہ پہلا سا مکہ اور مدینہ نہیں رہا۔ جہاں تم آزادی کے ساتھ اعمال حج بجالاکر شوق بھرے دل سے اپنے پیارے رسولؐ کی آستان مبارک کی طرف لپکتے تھے اور گھنٹوں جبین نیاز کو روضہٗٔ اقدس کی خاک پاک پر رکھے پڑے رہتےتھے۔ کبھی یا رسول اللہؐ کے نعرے مارتے تھے اور کبھی حرم مبارک کا طواف کرتے تھے۔ اب اس کی کایا پلٹ ہوگئی ۔ اب وہ رسولﷺ کا مدینہ نہیں رہا۔ بلکہ نجدیوں کا مدینہ بن گیا۔ اب وہاں اتنی بھی اجازت نہیں کہ کوئی مسلمان’’ یا رسول اللہؐ‘‘ بھی پکار آئے۔ اب روضۂ رسولﷺ مرکز معرفت و حقانیت نہیں سمجھا جاتا۔ بلکہ اس کو صنم اکبر (بڑا بت) کا خطاب دیا جاتا ہے۔ اب حرم مبارک اور روضۂ مطہر کے گرد مسلمانوں کو آزادی سے طواف کرنا نصیب نہیں ۔ بلکہ جو اس ارادے سے جاتا ہے اس کو سنگینوں کی نوکوں سے ہٹا یا جاتا ہے۔ اب ڈنکے کی چوٹ منبروں پر بیٹھ بیٹھ کر یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام حقیقی دنیا میں اب آیا ہے۔ اب تک کفر اسلام کے پردے میں جھلک رہا تھا۔ گویا ان کے خیال میں خلفائے نامدار، صحابۂ کبار اور ائمۂ اطہارؑ کی تعلیم کفر و شرک کی نجاست سے آلودہ تھی اور کسی کی تعلیم اسلام کی سچی تعلیم کہے جانے کے قابل نہ تھی۔ صرف ایک ذات عبد الوہاب نجدی کی جس نے غالباً بارہویں صدی ہجری میں جنم لیا تھا، ایسی تھی جس نے توحید کے اصلی معنی کو سمجھا تھا اور اسلام کے حقیقی مفہوم تک رسائی پیدا کی تھی۔ باقی اور سب یونہی ہوائی فائر کرنے والے تھے۔ اجی جناب ابھی تو دبی زبان سے اتنا ہی کہا جاتا ہے کچھ دن گزرنے پر یہ آواز بھی سن لینا کہ ہم سے بہتر توحید کو رسول اللہﷺ نے بھی نہ سمجھاتھا۔ آج دختر رسولؐ، زوجۂ رسول، اہلبیتؑ ، عم رسولﷺ ، صحابیٔ رسولﷺ ، فاطمہ بنت اسد مادر حضرت علی علیہ السلام کے روضہ ہائے مقدسہ اور قبہ ہائے متبرکہ کو منہدم کیا گیا ہے۔ کل روضۂ رسولﷺ کا نمبر ہے اور پرسوں خانہ کعبہ پر دھاوا ہے ۔ ابھی مسلمانوں کی حمیت و غیرت کا اندازہ کیا جارہا ہے۔ جس وقت خدانخواستہ ہمتیں پست اور حوصلے ڈھیلے نظر آئیں گے سب الااللہ کہہ کر اصحاب فیل کی طرح خانہ کعبہ پر چڑھ دوڑیں گے۔ اور وہی عمل کریں گے جو آج جنت البقیع اور دیگر مزارات کےساتھ کیا ہے۔
سب سے زیادہ پر لطف بات یہ ہے کہ ان تمام بد اعمالیوں کی پردہ پوشی کے لئے آیات اور احادیث رسولﷺ کی آڑ ڈھونڈی گئی ہے گویا ان کا ہر فعل حکم خدا و رسولﷺ کے موافق ہورہا ہے۔ سبحان اللہ   ؎
چہ دلاور است دزدے کہ بہ کف چراغ دارد
اس حادثہ نے مسلمانوں پر کیا اثر کیا؟
 جنت البقیع کے واقعہ ہائلہ نے اسلامی دنیا میں جو ہل چل ڈالی ہے اس کا اندازہ اخباروں کے کالموں اور ان جلسوں کی کاروائیوں سے ہوسکتا ہے جو اسلامی آبادیوں میں آج تک ہوئے اور ہورہے ہیں۔ جابجا ابن مسعود کی ان وحشیانہ کاروائیوں کے متعلق اظہار نفرت کے رزولیوشن پاس ہورہےہیں سنی (حنفی) اور شیعہ دونوں فرقے متحدہ حیثیت سے اس ماتم کے عزادار اور اس غم کے سوگوار بنے ہوئے ہیں ۔ فریقین کے مبلغین و واعظین عام جلسوں میں ابن مسعود کے مظالم پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے اس کے مذہب کی قلعی کھول رہے ہیں۔ ماہ گزشتہ میں ایک بہت بڑا جلسہ عام مسلمانوں کا لکھنؤ میں ہوا۔ جس میں اکابر علمائے سنی و شیعہ نے شریک ہوکر اس واقعہ کے متعلق اظہار حزن وملا ل کیا اور عام مسلمانوں کو اس غم میں حصہ لینے کی فہمائش کی۔ حضرات علماء کی تحریک کی بنا پر ایک انجمن بنا م’’ خدام الحرمین‘‘ قائم ہوئی جس میں شیعہ و سنی دونوں فریق کے ممبر داخل کئے گئے۔ اور یہ تجویز ہوا کہ اشتہارات کے ذریعہ سے ہر شہر و قصبہ کے مسلمانوں سے یہ درخواست کی جائے کہ وہ اس کی شاخیں اپنے اپنے یہاں قائم کریں۔ چنانچہ اسی بنا پر ایک شاخ قصبہ امروہہ ضلع مراد آباد میں بھی قائم ہوئی۔ اور عام مسلمانوں کے متعدد جلسے شہر کے مختلف محلوں میں ہوئے۔ ہر جلسہ میں ایک سنی اور ایک شیعہ واعظ کی تقریر ہوتی تھی۔ حضرات اہل سنت کی طرف سے حکیم اسرار الحق صاحب کا انتخاب عمل میں آیا تھا اور شیعہ حضرات کی طرف سے راقم الحروف کا ۔یہ تمام جلسے بحمد اللہ بہت کامیابی کے ساتھ ہوتے رہے۔ 
حادثۂ جنت البقیع سے اسلام پر کیا مصیبت نازل ہوئی؟
 اہل بیت رسولﷺ پر مسلمانوں کے ہاتھوں سے یوں تو ہر زمانہ میں مصیبت کے پہاڑ ٹوٹا کئے ہیں۔ مگر اس حادثۂ عظمیٰ سے ایک نئی مصیبت اسلام پر نازل ہوئی اور وہ یہ کہ زمانۂ سابق میں جو متوکل عباسی نے قبر امام حسین علیہ السلام کو منہدم کرادیا تھا تو اس کی علت غائی یا تو خاندان رسالتؐ سے عداوت تھی یا اس امر پر حسد تھا کہ بعد شہادت بھی لوگوں کے دلوں میں ان کی اس قدر توقیر باقی ہے کہ اطراف و اکناف عالم سے لوگ آ آکر ان کی قبور کی زیارت کرتے اور ان کے آستان مبارک پر اپنی جبین نیاز رکھتے ہیں لیکن انہدام مقابر جنت البقیع کا سبب صرف اتنا ہی نہیں تھا۔ بلکہ اس فعل شنیع کے ارتکاب کا قوی مؤید یہ ناپاک خیال تھا کہ ان مقابر کی تعظیم کرنا شرک باللہ ہے۔ نیز یہ کہ شریعت اسلام میں قبور کا بلند کرنا اور ان پر قبے بنانا حرام ہے۔ یہ حضرات ہر گز اس قابل نہیں کہ ان سے شفاعت طلبی کی جائے یا اپنی مدد کے لئے پکارا جائے۔ خواہ وہ رسولﷺ ہوں یا اولاد رسولﷺ یا اصحاب رسولﷺ،۔ یہ ہے وہ زہر قاتل جو اسلامی رگوں میں دوڑانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر عداوتاً ہی یہ انہدام عمل میں آتا تو اس کی امید ہوسکتی تھی کہ نجدی آندھی کا زورگھٹ جانے کے بعد پھر صاف آسمان دکھائی دینے لگے گا۔ اور گرے قبے پھر کھڑے ہوجائیں گے لیکن اس عقیدے کی ترویج یہ بتارہی ہے کہ اگر مسلمانوں نے اس کی طرف کافی توجہ نہ کی تو یہ زہر بجلی کی طرح تمام بلاد اسلامیہ میں دوڑ جائے گا۔ اور ہ بات رسم اسلام اور سنت الٰہی بن جائے گی، کہ جہاں کسی بزرگ دین کا مقبرہ پاؤ بے تامل اس کو گرادو۔ خواہ وہ عرب میں ہو یا عجم میں۔ کابل میں ہو یا ہندوستان میں نیز یہ کہ آئندہ کسی بزرگ دین کی کوئی اس قسم کی یادگار روئے زمین پر قائم نہ ہونے دو کیونکہ یہ شرک باللہ اور بدعت ہے۔ 
بس اے مسلمانو! ہم کو صرف سب سے بڑا رونا اس بات کا ہے کہ یہ عقیدۂ فاسد بہت جلد دنیا میں پھیلنے والاہے۔ اگر تم نے اس کے نیست و نابود کرنے میں کافی حصہ نہ لیا تو پھر روئے زمین پر تم کو کوئی مقبرہ یا روضہ کسی بزرگ دین کا نظر نہ آئے گا۔ اور حامیان دین اور ہادیان شرع مبین کی قبروں پر بھی اسی طرح سگ و خوک گزرتے دکھائی دیں گے جس طرح عام قبروں پر۔ وہاں بھی وہی سنسانی اور ویرانی برسے گی جیسے دنیا کے تمام قبرستانوں میں ۔ پھر تم کو ڈھوندھے بھی کوئی ایسی زیارت گاہ نہ ملے گی جہاں جاکر اپنے ایمانی عہد کو تازہ کرسکو یا دنیا کے کسی عظیم الشان واقعہ کو یاد کرکے اپنے ایمان کو جلادے سکو یا کسی محسن دین و ملت کے شکریہ میں جبین شکر کو جھکا سکو۔ اگر یہی شرک باللہ کی کڑکتی چمکتی بجلیاں ہیں تو نہ روضۂ رسولﷺ کی خیر ہے نہ خانۂ کعبہ کی نہ کوئی حج کرسکے گا نہ عمرہ و طواف ہوسکے گا نہ زیارت۔ 
 علماء کا فرض ہے کہ اس وقت نازک میں اپنے قلم سے پورا پورا کام لیں اور امداد کریں ۔ واعظین و مقررین کو چاہئے کہ کچھ مدت تمام مضامین کو ترک کرکے صرف اسی ایک مضمون کو اپنا مقصد وعظ قرار دیں کیونکہ وہابیت کی تحریک نہایت جوش کےساتھ کی جارہی ہے۔ 
اہلبیتِ رسولﷺ ہمیشہ اسلام کی مصیبت اپنے سر لیتے رہے
تاریخ اسلام بتارہی ہے کہ جب کبھی کوئی برا وقت اسلام پر آیا ہے اور شریعت رسولﷺ کی کشتی ڈگمگائی ہے تو اہلبیتؑ رسولﷺ میں سے کوئی نہ کوئی اپنی جان پر کھیل کر اس کا ناخدا بن گیا ہے۔ اور ڈوبتے بیڑے کو سنبھال لیا ہے۔ انہوں نے کبھی اس راہ میں جان و مال دینے اور انواع و اقسام کے مصائب جھیلنے سے رو گردانی نہیں کی۔ کربلا کا واقعہ شاہد ہے کہ حسینؑ مظلوم نے کس بیکسی و بے بسی سے اپنی اور اپنے احباب و اصحاب کی جانوں کی قربانیاں کربلا کی جلتی بلتی ریت پر چڑھادیں، گھر بار لٹا دیا، اپنی ناموس کی ہتک گوارا کرلی، مگر دین اسلام پر آنچ نہ آنے دی۔ ان کی حق بین آنکھوں اور عقیدت آگیں دلوں سے یہ نہ دیکھا گیا کہ یزید جیسا فاسق شخص جس نے حلال محمدﷺ کو حرام اور حرام محمدؑ کو حلال قرار دے دیا  ہے شریعت مقدسہ اسلام کا پیشوا بن کر اس میں من مانا تصرف کرتا رہے اور اسلام کے صاف و شفاف دامن پر بدعا ت و فواحشات کے ہزار ہا بد نما دھبے لگا کر بانی اسلام کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا دے۔ ان کو اپنی عزیزہستیوں اور قابل قدر وجودوں کا فنا کردینا پسند آیا۔ مگر دین کی تباہی و بربادی پسند نہ آئی۔ غرض کہ جب دنیا میں ان کی ذوات مقدسہ باقی رہیں اسلام کی ہر آئی بلا کو اپنے سرلیتے رہے۔ آج بھی اسلام کے اوپر ایک سخت وقت آگیا تھا اور اس بلا کا سر لینے والاکوئی نظر نہ آتا تھا لہٰذا انہی قبور کی اینٹوں نے وہ مصیبت کا پہاڑ اپنے اوپر لے لیا اور ہدایت کے دروازے کو مسدود نہ ہونے دیا۔ ’’فرقہ وہابی‘‘ مدت دراز سے اپنے عجیب و غریب عقائد رفتہ رفتہ سیدھے سادھے مسلمانوں کے دلوں میں اتار رہا تھا اور لوگوں کو ان عقائد باطلہ اور خیالات فاسدہ کی طرف مطلق توجہ نہ تھی۔ عام مسلمانوں کی اس غفلت ورزی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو اپنے مقصد میں ایک حد تک کامیابی ہوگئی تھی وہ دوست نما دشمنوں کی طرح بظاہر تو خیرخواہ دین و ملت بنا ہوا تھا اور آپ کو اعلیٰ درجہ کا موحّد دکھا رہا تھا۔ لیکن بباطن اسلام کی بیخ کنی پر آستینیں چڑھی ہوئی تھیں۔ لہٰذا شدید ضرورت اس امر کی تھی کہ اس کے استیصال کی طرف لوگ متوجہ ہوں اور دوست و دشمن میں تمیز کریں۔ پس جنت البقیع کے واقعہ نے یکایک مسلمانوں کو خواب غفلت سےبیدارکیا اور لوگ اس مذہب کی تحقیق اور اس کے عقائد کے رد کی طرف مائل ہوئے۔چنانچہ یاروں کی شعبدہ بازی ہوا ہونی شروع ہوگئی۔ اب ہر دین دار مسلمان ان سے متنفر اور بے زار ہوتا جارہا ہے۔
 اگر یہ واقعہ اس وقت پیش نہ آتا تو خدا جانے اس فرقہ کی ریشہ دوانیاں کہاں تک پہنچتیں۔ اور نہ معلوم کیا زہر فضائے اسلام میں پھیلا دیتیں۔ مسلمانو! اچھی طرح پہچان لو۔ یہ وہی فرقہ ہے جو ہر سال نئے نئے عنوان سے ذکر رسولﷺ و آل رسولؑ میں رکاوٹیں پید اکیا کرتا تھا۔ اور کبھی مولود کو بدعت اور تعزیہ داری کو بت پرستی بتاتا تھا۔ کبھی مجالس میں رونا حرام بتاتا تھا کبھی نذر نیاز سے لوگوں کو روکتا تھا۔ محرم کا چاند نمودار ہوتے ہی لمبے چوڑے اشتہارات شائع کرکے مسلمانوں کو شریک عزائے حسینؑ مظلوم ہونےسے باز رکھتا تھا طعن و طنز کی باتیں کرکے جابجا شیعہ سنیوں میں فساد و خونریزی کا باعث ہوتا تھا۔ اس فرقہ کی پنہانی کوششوں اور خفیہ ریشہ دوانیوں کا یہ نتیجہ تھا کہ ایک مدت دراز سے شیعوں اور سنیوں کے درمیان کشاکش چلی آرہی تھی اور ایک دوسرے سے اس درجہ متنفر ہوگیا تھا کہ پاس بیٹھنا گوارا نہ کرتا تھا۔ شیعہ سنیوں کی ضد میں نہ معلوم کیا کیا کہتے تھے اور سنی شیعوں کی ضدمیں نہ معلوم کیا کیا کرتے تھے۔ اہل سنت نے شیعوں کی مجالس میں شرکت بند کردی تھی اور شیعوں نے اہل سنت کی محفلوں میں جانا چھوڑ دیا تھا۔ رفتہ رفتہ اس بغض و عناد نے یہاں تک ترقی کی کہ معاشرتی اور تمدنی خرابیاں ظہور پذیر ہونے لگیں جس سے مقاصد اسلام کو سخت ضرر پہنچا اور دشمنان اسلام کو اس باہمی دہول جوتی میں اپنی تبلیغ کا کافی موقع مل گیا ۔ خدا کا شکر ہے کہ حادثہ جنت البقیع کے تصدق میں وہ کالابادل جس نے دن کو رات بنا رکھا تھا یکایک پھٹ گیا اور دوست و دشمن میں امتیاز ہونے لگا۔ اب یہ بات پائے تحقیق کو پہنچ گئی کہ اہل سنت کے پردہ میں وہ کونسا گروہ تھا جو ہمیشہ سے رسولﷺ و اہل بیت رسولﷺ کا جانی دشمن بنا رہا۔ کیونکہ آج ہم دیکھ رہے کہ ہمارے حنفی بھائی وہابیوں کے اس طرز عمل سے انتہائی نفرت و بیزاری کو تحریراً اور تقریراً ظاہر کررہے ہیں اور وہ عزائے اہلبیتؑ میں نہایت خلوص کے ساتھ حضرات شیعہ کے شریک ہیں۔ اور اسلامی شان کے ابھارنے میںکوشاں ہیں۔ چنانچہ امسال امروہہ کی عزاداری میں تمام حنفی صاحبان شریک عزائے مظلوم کربلارہے۔ پٹیالہ میں میں نے بچشم خود اپنے بہت سے حنفی بھائیوں کو سرو پا برہنہ آٹھویں اور دسویں محرم کو دلدل و تعزیہ کے ساتھ پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا حسین علیہ السلام جس طرح شیعوں کے نزدیک ایک ہادی برحق تھے اہل سنت کے نزدیک بھی تھے۔ ان کی مظلومیت سے کس کو انکار ہوسکتا ہے۔ ان کی بے نظیر نصرت اسلامی پر کون سا انصاف پسند مسلمان پردہ ڈال سکتا ہے۔ اہل سنت کی کتابیں ان کے فضائل و مناقب سے بھری پڑی ہیں۔ یہ تو ہمارے مخالفوں کی چالبازی سے عناد و عداوت کا بازار گرم ہورہا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ حیلہ سازی و مکاری کا طلسم ٹو ٹ گیا اور محبت کی پری آزادی کی ہوا میں اڑنے لگی۔
مسلمانوں کا اب کیا فرض ہے؟
یہ وقت تو ضرور ایسا ہی تھا کہ ہر دیندار مسلمان اپنی جان کو نذر کردیتا اور اسلام کو اس ضغطہ سےبچالیتا لیکن ہم چونکہ ان مقامات سے بہت دور ہیں اور موانع کے صد ہا عظیم الشان خلیج ہمارے درمیان حائل ہیںلہٰذا اس وقت تک کہ ہم کسی داعی کی آواز پر لبیک کہنے کےلئے اٹھیں بہترین نصرت اور حمایت یہ ہے کہ سب مسلمان متحدہ حیثیت سے اس بداعتقادی کا سد باب کریں جس سے یہ حادثہ عظیم ظہور پذیر ہوا تاکہ آنے والی نسلوں کو ہماری طرح پھر ان مصائب کا از سر نو مقابلہ کرنا نصیب نہ ہو۔ 
(ماہ صفر المظفر ۱۳۴۵ھ؁ مطابق ماہ اگست ۱۹۲۶ء؁) از ماہنامہ اصلاح، لکھنؤ

جمعہ، 15 مئی، 2020

امام زمانہ حضرت حجت ارواحنا لہ الفداء اور آپ کی حدیثیں

باسمہ تعالی

امام زمانہ حضرت حجت ارواحنا لہ الفداء اور آپ کی چالیس حدیثیں
سید محمد حسنین باقری

چودھویں معصوم اور بارہویں امام حضرت امام زمانہ کا اسم گرامی ”محمد“ اورمشہورالقاب ” مہدی “ ، حجة اللہ ، خلف صالح ، صاحب ا لعصر، صاحب الامر والزمان، القائم ، الباقی اورالمنتظر وغیرہ ہیں۔ علماٴ کا کہنا ہے کہ آپ کانام زبان پرجاری کرنے سے منع کیا گیا ہے۔کنیت ” ابوالقاسم “ ہے۔ولادت ۱۵ ؍شعبان المعظم ۲۵۵ ؁ھ یوم جمعہ شہر سامرہ میں ہوئی ۔آپ کے پدر بزرگوار گیارہویں امام حضرت حسن عسکری علیہ السلام، والدہ جناب نرجس خاتون ہیں۔
 آپ اپنے آباوٴاجدادکی طرح خدا کی طرف سے معین کئے ہوئے امام ،معصوم ،اعلم زمانہ اورافضل کائنات ہیں۔۲۶۰ھ؁ میں امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے بعد پانچ سال کی عمر میں منصب امامت پر فائز ہوئے جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور حکم خدا سے آپ پردۂ غیب سے دنیا کی رہبری و رہنمائی اور رسول اکرمؐ کی نیابت و جانشینی کا فریضہ انجام فرمارہے ہیں۔
۲۶۰ھ سے غیبت صغریٰ کا آغاز ہوا جس کا سلسلہ۳۲۹ھ؁ تک چلا اور ۳۲۹ھ سے آج تک غیبت کبریٰ کا زمانہ ہے اور جب خدا کی مصلحت اور اس کا حکم ہوگا امام ظہور فرمائیں گے اور جس طرح دنیا ظلم و جور اور فتنہ و فساد سے پُر ہوچکی ہوگی اسی طرح اس کو عدل و انصاف سے پر کریںگے۔
غیبت صغریٰ کے ۷۹ برس کے عرصے میں امام زمانہ ؑ کی طرف سے چار خاص نائب تھے جنھیں نُوّاب اربعہ کہا جاتا ہےاور وہ عثمان بن سعید عمری، محمد بن عثمان، حسین بن رَوح اور علی بن محمد سمری ہیں۔۳۲۹ھ سے آخری نائب کی وفات کے بعد سے غیبت کبریٰ کا آغاز ہوا اور اس دور میں عمومی نائبین یعنی فقہاء و مجتہدین نیابت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، جس کی تائید عقلی و نقلی دلیلوں کے ساتھ بہت سے واقعات سے ہوتی ہے۔ غیبت کے زمانے میں ہماری ذمہ داری ہے سب سے پہلے امام ؑ کی صحیح اور حقیقی معرفت حاصل کریںاس لئے کہ پیغمبرؐ کی حدیث ہے کہ ’’جو بھی امام کی معرفت کے بغیر اس دنیا سے جائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی‘‘۔ اور معرفت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ امام سے متعلق کتابوں، احادیث وغیرہ کا مطالعہ کریں، امامؑ کے بارے میں غور و فکر کریں ، امامؑ سے متعلق اور امامؑ کی طرف سے اور امامؑ کی نیابت میں امور انجام دیں۔ اور اسی سلسلہ کی ایک کڑی امام زمانہؑ سے بیان شدہ احادیث کا مطالعہ اور ان میں غور وفکر اور ان پر عمل ہے لہذا امامؑ سے مروی احادیث پر مشتمل یہ کتابچہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے اس دعا اور امید کے ساتھ یہ ناچیز کوشش غیبت کے زمانے میں اپنے وظائف پر عمل کرنے اور ظہور کے لئے اپنے کے آمادہ و تیار کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔
خدا نے قیامت تک کےلئے اولی الامر کا انتظام فرمایا ہے
أَمَا سَمِعْتُمْ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُوْلُ:’ یٰا أَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوا اَطِیْعُوا اللہَ وَ اَطِیعُوا الرَّسُولَ و اُولِی الأمْرِ مِنْکُمْ‘ ھَلْ أمْرٌ اِلّا بِمَا ھُوَ کائِنٌ اِلیٰ یَوْمِ القِیَامَۃِ۔
کیا تم نے یہ ارشاد الٰہی سنا ہے کہ ’’ یا ایھا الذین ۔۔۔‘‘اے اہل ایمان! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور جو تم میں اولی الامر ہیں ان کی اطاعت کرو۔ کیا خداوند عالم نے قیامت تک کے لئے یہ امر نافذ نہیں فرمایا ہے؟
   ( کمال الدین و تمام النعمۃ جلد ۲، صفحہ ۳۸۷)
ہر زمانے میں خالق و مخلوق کے درمیان رابطہ ہوتا ہے
۔۔۔کُلَّمَا غَابَ عَلَمٌ بَدَا عَلَمٌ، وَ اِذَا أفَلَ نَجْمٌ طَلَعَ نَجْمٌ فَلَمّا قَبَضَہُ اللہُ اِلَیْہِ ظَنَنْتُمْ أنَّ اللہَ عَزّوجلّ قَدْ قَطَعَ السَّبَبَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ خَلْقِہِ کَلّا مَا کَانَ ذٰلِکَ وَ لایَکُونُ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ وَ یَظْھَرُ أمْرُاللہِ عزّوجلَّ وَ ھُمْ کَارِھُونَ۔
 جب ایک پرچم پنہاں ہوتا ہے تو دوسرا پرچم نمودار ہوجاتا ہے، اور جب ایک ستارہ غروب ہوتا ہے تو دوسرا ستارہ طلوع ہوتا ہے، جب خداوند عالم نے امام حسن عسکری علیہ السلام کی روح قبض فرمائی تو گمان یہ ہوا کہ مخلوق و خالق کے درمیان رابطہ ختم ہوگیا لیکن یہ رابطہ ہرگز ختم نہیں ہوا اور نہ قیامت تک ایسا ہوگا فرمان الٰہی غالب ہوکر رہے گا چاہے لوگ اسے دوست نہ رکھتے ہوں۔ 
( کمال الدین و تمام النعمۃ جلد۲، صفحہ ۷۸۷)
ائمہ کا مرتبہ
وَ أمّا الاَئِمَّۃُ علیہم السلام فَاِنَّھُمْ یَسْألُوْنَ اللہَ تَعالیٰ فَیَخْلُقُ وَ یَسْألُونَہُ فَیَرْزُقُ اِیجاباً لِمَسْألَتِھِمْ وَ اِعْظَاماً لِحَقِّھِمْ۔
ائمہؑ وہ ہیں کہ وہ اللہ سے جس چیز کا سوال کرتے ہیں وہ پوری ہوتی ہے، انہیں کی خواہش پر اللہ روزی دیتا ہے ایسا ان کے احترام اور ان کا جو حق ہے اس کی وجہ سے ہوتا ہے۔
(کتاب الغیبۃ،ص ۱۷۸)

ائمہ مشیت الٰہی کے تابع ہوتے ہیں
 قُلُوبُنٰااَوْعِیَۃٌ  لِمَشِیَّۃِ اللَّہِ فَاِذٰاشٰائَ شِئْنٰا۔
’’ہمارے دل اللہ کی مشیت اور اس کے ارادے کے ظروف ہیں پس جب اس کاارادہ ہوتاہے تو ہم ارادہ کرتے ہیں جووہ چاہتاہے ہم وہی چاہتے ہیں جواس کی مرضی ہوتی ہے  وہی ہماری مرضی ہوتی ہے ‘‘۔
(بحارلانوار،ج٥٢،ص٥١،غیبت شیخ)

امامؑ زمین والوں کے لئے امان کا سبب
اِ نّیِ لَآَمٰانٌ لِاَھْلِ الْاَرْضِ کَمٰااَنَّ النُّجُومَ اَمٰانٌ لِاَھْلِ السَّمٰائِ۔
 میں اہل زمین کیلئے اسی طرح باعث امان ہوں جس طرح ستارے اہل آسمان کے لئے باعث امان ہیں۔
( بحار الانوار ج۵۳،ص ۱۸۱؛ کمال الدین،ص۴۸۵)


اہل بیت  پر ظلم کرنےوالے پر خدا کی لعنت
 فَمَنْ ظَلَمَنٰاکَانَ مِنْ جُمْلَۃِ الظَّالِمِیْنَ وکَانَ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
جس کسی نے ہمارے اوپرظلم وستم کیاہے وہ ظالموں اورستمگروں میں شامل ہے اور اس پر اللہ کی لعنت ہے‘‘۔
(کمال الدین ،ص٥٢١)


پیغمبر ؐ کے بعد خدا نے انتظام کیا
وَجَعَلَ  الْاَمْرَ بَعْدَہٗ اِلٰی أخِیْہِ وَابْنِ عَمِّہِ وَ وَصِیِّہِ وَ وَارِثِہِ عَلیِّ بْنِ أبِیْ طَالِبٍ ثُمَّ اِلٰی الأوْصِیاءِ مِنْ وُلْدِہِ وَاحِداً وَاحِداً أحْیا بِھِمْ دِیْنَہٗ وَ أتَمَّ بِھِمْ نُوْرَہٗ۔
 خدا وند عالم نے(پیغمبر ؐاسلام کے بعد)امت کے تمام امور کو آپؐ کے بھائی ،چچا کے فرزند، وصی و وارث علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے سپرد فرمایا پھر ایک کے بعد ایک ان کی نسل سے پیدا ہونے والے دیگر اوصیاء کے سپرد فرمایا انہیں کے ذریعہ اس نے دین کو زندہ کیا اوراپنے نور کو تمام کیا۔( بحار الانوار ج ۵۳، ص ۱۹۴)
 امام زمانہ ؑکا انکار کرنے والاہلاک ہوگا
 لَیْسَ بَیْنَ اللَّہِ عَزَّوَجَلَّ وَبَیْنَ اَحَدٍقَرٰابَۃٌ وَمَنْ اَنْکَرَنی فَلَیْسَ مِنّی وَسَبیلُہُ سَبیِلُ ابْنُ نُوح ٍ۔ 
٭(مکتوب گرامی میں ) جو میرا انکار کرے وہ مجھ سے نہیں ہے اور اس کا اور پسر نوحؑ کا راستہ ایک ہے۔
 ( کمال الدین و تمام النعمۃ جلد۲، صفحہ ۲۸۴)

حق صرف اور صرف اہل بیتؑ کے ساتھ ہے
وَلْیَعْلَمُوااَنَّ الْحَقَّ مَعَنَاوَفینَالاٰیَقُولُ ذَلِکَ سِوٰانٰااِلاَّکَذّٰاب مُفْتَرٍوَلاٰیَدَّعیِہِ غَیْرُنَااِلاَّضَالُّ غَوِیَ
یاد رکھو کہ حق ہمارے ساتھ اور ہمارے ہی درمیان ہے ، یہ بات ہمارے علاوہ وہی شخص کہے گا جو جھوٹا اور بہتان لگانے والا ہو ۔ ہمارے علاوہ اس بات کو کہنے والاگمراہ اور بہکا ہوا ہوگا۔
 (کمال الدین ۵۱۰ /۴۲)
جناب سیدہؑ نمونۂ عمل ہیں
فِی ابْنَۃِ رَسُولِ اللَّہِ’’ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَآلِہِ‘‘ لیِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃ
نبیؐ کی بیٹی میں میرے لئے اسوۂ حسنہ ہے۔
 (بحار الانوار،ج۵۳،ص۱۸۰؛ احتجاج)۔



امام حسینؑ کے غم میں امام زمانہ ؑ کا گریہ
لَأَندُبَنَّكَ صَباحا و مَساءً و لأَبكِيَنَّ عَلَيكَ بَدَلَ الدُّمُوعِ دَما 
 (زیارت ناحیہ میں امام حسین ؑ کو خطاب کرتے ہوئے) میں ہر صبح و شام آپؑپر گریہ کرتا ہوں اور آپؑکی مصیبت میں آنسو کے بدلے خون بہاتا ہوں۔
 (بحار الانوار جلد ۱۰۱صفحہ۲۳۸.)


ہر حال میں امامؑ کی طرف رجوع
 فَاتَّقُواللَّہَ وَسَلَّمُو الَنٰا،وَرُدُّوالْاَمْرَ اِلَیْنٰا، فَعَلَیْنَا الْا ِصْدٰارُُکَمَاکَانَ مِنَّا الْا یِرَادُ، وَلَاتُحٰاوِلُواکَشْفَ مَاغُطَّی عَنْکُمْ۔
 ’’تم سب اللہ کاتقویٰ اختیارکرواورہمارے سامنے تسلیم رہو،اپنے تمام اموراورمعاملات ہمارے سپردکردو، احکام جاری کرناہماراکام ہے تمہیں ہدایت کے سرچشمہ پرلے جانابھی ہماراکام ہے وہاں سے سیراب کرکے نکالنابھی ہماراکام ہے،اورتم اس بات کو ظاہرکرنے کی ہرگزکوشش نہ کروجسے تم سے چھپا یاگیاہے ‘‘۔
(بحارالانوار،ج٥٣،ص١٧٩؛احتجاج طبرسی جلد سوم ، چہارم  ۳۵۰ تا  ۳۵۲  )
کسی طاغوت کی بیعت امام نہیں کرسکتا
اِ نّیِ اَخْرُجُ حینَ اَخْرُجُ وَلٰابَیْعَۃَ لِاَحَدٍمِنَ الطَّوٰاغیِتِ فیِ عُنُقیِ
’’میں قیام کروں گااورجس وقت میں حکومت الٰہیہ قائم کرنے کے لئے اٹھوں گاتو اس وقت میرے اوپرسرکشوں اورظالموں میں سے کسی ایک کی بیعت نہ ہوگی ۔
(کمال الدین ،ص٤٨٥)


 ظہور کی نشانی
 عَلٰامَۃُ ظُہُورِاَمْرِی کَثْرَۃُ الْھَرْجِ وَالْمَرْجِ وَالْفِتَنِ
’’ظہورکی نشانی یہ ہے کہ اس سے قبل بدامنی ہوگی،بے چینی ہوگی،پریشانی ہوگی،فتنے ہوں گے،فساد ہوگا، دہشت گردی عام ہوگی‘‘۔
(بحارالانوار،ج٥١،ص٣٢٠،غیبت شیخ)


  علماء میری طرف سے حجت ہیں 
 اَمَّاالْحَوٰدِثُ الْوٰقِعَۃُ فَارْجِعُوافیِہٰااِلیٰ رُوٰاۃِ حَدیِثِنَافَاِنَّھُمْ حُجَّتیِ عَلَیْکُمْ وَاَنَاحُجَّۃُ اللَّہِ عَلَیْہِمْ
 اپنی زندگی میں پیش آنے والے مسائل میں راویان حدیث (علماء ومجتہد ین ) کی طرف رجوع کرو، وہ میری طرف سے تمہارے لئے حجت ہیں اور خدا کی طرف سے میں ان پر حجت ہوں ‘‘(کمال الدین ،ج۲،ص ۴۸۳،الغیبۃ شیخ طوسی ص ۱۷۶ ؛وسائل الشیعہ ،ج۱۸،ص۱۰۱)

امامؑ کو ہمارے تمام امور کی خبر ہے
 فَاِنَّایُحیِطُ عِلْمُنَابِاَنْبَائِکُمْ وَلاَیَعْزُبُ عَنَّاشَیْئٌ مِنْ اَخْبَارِکُمْ
ہمارا علم تمہارے احوال پر محیط ہے،تمہاری کوئی حالت ہم سے پوشیدہ نہیں ہے،اور تم جو بھی غلطیاں کرتے ہو انہیں ہم جانتے ہیں۔
( بحارالانوار ج۵۳،ص ۱۷۵)


امامؑ ہم سے غافل نہیں ہیں
اِنَّاغَیْرُمُھْمِلیِنَ لِمُرَاعَاتِکُمْ وَلَانَاسیِنَ لِذِکْرِکُمْ وَلَوْلَاذَلِکَ لَنَزَلَ بِکُمُ اللَّآوٰائُ وَاصْطَلَمَکُمْ الْاَعْدَائُ فَاتَّقُوااللّٰہِ جَلَّ جَلالُہُ وَظَاہِرُوْنَالِاِنْتِیاَشکُمْ مِنْ فِتْنَۃٍ قَدْ اَنَاخَتْ عَلَیْکُمْ۔
( جناب شیخ مفیدؒ کی توقیع میں فرمایا )ہم تمہاری خبر گیری سے غافل نہیں ہیں اور نہ تمہاری یاد کوہم نے فراموش کیا ہے، اگر ایسا ہوتا تو بلائیں تم پر ٹوٹ پڑتیں اور یہ دشمن تمہیں ریزہ ریزہ کر ڈالتے پس اللہ جل شانہٗ کا تقویٰ اختیار کرو!۔
 ( بحار الانوار ج ۵۲، صفحہ ۱۷۵)
امامؑ کو تکلیف پہنچانے والے لوگ
قَدْاَذٰانَاجُھَلٰائُ الشّیِعَۃِ وَحُمَقَاوُھُمْ وَمَنْ دیِنُہُ جَنَاحُ الْبَعُوضَۃِ اَرْجَحُ مِنْہ ۔
’’تین قسم کے شیعوں نے ہمیں اذیت پہنچائی ہے :
١۔ جاہل،نادان ،کم علم ۔ ٢۔ احمق،بے وقوف ،نفع ونقصان سے ناواقف ۔ ٣۔ وہ حضرات جن کے نزدیک دین کی قدر وحیثیت مچھرکے پرسے بھی کم ترہے‘‘۔
(احتجاج ،ج٢،ص٤٧٤)

اہل بیتؑ کا راستہ
 وَلَاتَمیِلُواعَنِ الْیَمیِنِ وَلَاتَعْدِلُوااِلَی الْیَسَارِوَاجْعَلُواقَصْدَکُمْ اِلَیْنَابِالْمَوَدَّۃِ عَلَی السُّنَّۃالْوٰضِحَۃِ
’’نہ توتم دائیں طرف جاؤاورنہ ہی بائیں بازوکواپناؤتمہارارخ اورقصدہماری جانب رہے تمہارا سیدھارخ ہماری جانب ہو،اس کی بنیادہم سے مودت اوردوستی کوقراردو،یہی راستہ سیدھا ہے جوروشن اورواضح ہے،دائیں بائیں مت جاؤ،صراط مستقیم جوکہ ہماری مودت پر قائم ہے اسی پرباقی رہو‘‘۔
(بحارالانوار،ج٥٣،ص١٧٩،احتجاج )
غیبت میں امام زمانہ ؑ سے فائدہ
 مّٰاوَجْہُ الْاِنْتِفٰاعِ بی فی غَیْبَتیِ فَکَالْاِنْتِفٰاعِ بِاالشَّمْسِ اِذٰاغَٰیَّبَھٰاعَنِ الْاَبْصٰارِ السَّحٰابُ
غیبت میں مجھ سے اسی طرح فائدہ حاصل ہوتاہے جیسے بدلی میں آفتاب کی روشی سے فائدہ حاصل کیا جاتاہے۔جہاں تک یہ سوال ہے کہ دوران غیبت میرا وجود کس طرح منفعت بخش ہے تو اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے سورج بادلوں کے پیچھے چھپ کر لوگوں کو فائدہ پہنچا رہا ہے
 (بحار الانوار، جلد ۵۲، صفحہ ۱۸۱،کمال الدین ۴۸۳)
بقیۃ اللہ
اَنَابَقِیَّۃُ اللہِ فِی اَرْضِہِ،وَالْمُنْتَقِمُ مِنْ اَعدٰائِہِ۔
’’میں روئے زمین پر اللہ کا بقیہ (ذخیرہ)ہوں اوراللہ کے دشمنوں سے انتقام لینے والاہوں‘‘۔
(بحارالانوار،ج٥٢،ص٢٤،کمال الدین)


ظلم و ستم کا خاتمہ امام ؑ کے ذریعہ
 وَاِذَااَذِنَ اللَّہُ لَنَافِی الْقَوْلِ ظَہَرَالْحَقُّ وَاضْمَحَلَّ الْبَاطِلُ وَ انْحَسَرَ عَنْکُمْ وَاِلٰی اللہِ أرغَبُ فی الْکِفَایَۃِ وَ جَمِیلِ الصُّنْعِ وَ الوِلایَۃِ۔۔۔
جب ہم کو خداوند عالم کی طرف کلام کرنے کی اجازت مل جائے تو حق آشکار اور باطل نا بود ہوکر تم سے دور ہوجائے گا۔ میں خداوند عالم سے چاہتاہوں کہ اس اہم کام کو بطور احسن اور کافی اور ہماری ولایت کے ساتھ انجام دے۔
(بحارالانوار،ج٥٣،ص١٩٦،غیبت شیخ)
امام کے ذریعہ ہی مکمل طور پر برائیوں کا خاتمہ
 اَنَاالْمَہْدِیُّ(وَ)اَنَاقٰائِمُ الزَّمٰانِ،اَنَاالَّذی آَمْلَآُھٰاعَدْلاًکَمٰامُلِئَتْ جَوْراً،اِنَّ الْاَرْضَ لٰاتَخْلُومِنْ حُجَّۃٍوَلٰایَبْقَی النّٰاسُ فی فَتْرَۃٍوَھٰذِہِ اَمٰانَۃ�لٰاتُحَدَّثْ بِھَااِلاَّاِخْوٰانَکَ منْ اَھْلِ الْحَقَّ۔
’’میں مہدیؑ ہوں اور میں ہم قائم الزمان ہوں ،میں زمین کوعدالت کے نفاذ سے اس طرح آبادکروں گاجس طرح وہ مجھ سے پہلے ظلم وستم سے ویران ہوچکی ہوگی،بلاشک زمین حجت سے خالی نہیں ہوتی،اورلوگ بے سرپرست کسی بھی لمحہ کے لئے نہیں رہتے یہ بات امانت ہے اسے تم اپنے بھائیوں میں پہنچاناجواہل حق ہیں ‘‘۔ (کمال الدین ،ص٤٤٥)
امام زمانہ ؑ کی وجہ سے بلائیں دور ہوتی ہیں
 اَنَاخٰاتَمُ الْاَوْصِیٰائِ وَبی یَدْفَعُ اللَّہُ عَزَّوَجَلَّ الْبَلٰائَ عَنْ اَھْلیٰ وَ شِیعَتی۔
میں خاتم الاوصیاء ہوں اور خدا وند عالم میری ہی وجہ سے میرے خاندان والوں اور میرے شیعوں سے بلاؤں کو دور کرتا ہے۔ 
(کمال الدین،ص۴۴۱؛ بحار الانوار۵۲؍۹۲)


غیبت کے طولانی ہونے کی وجہ
لَوْاَنَّ اَشْیٰاعَنَاوَفَّقَہُمُ اللّہُ لِطَاعَتِہِ عَلَی اجْتِمٰاعٍ مِنَ الْقُلُوبِ فِی الْوَفَائِ بِالْعِہْدِعَلَیْھِمْ لَمَاتَآَخَّرَعَنْہُمُ الْیُمْنُ بِلِقَائِنَاوَلَتَعَجَّلَتْ لَھُمُ السَّعَادَۃُ بِمُشَاہَدَتِنَاعَلیَ حَقَّ الْمَعْرِفَۃِ وَصِدْقِہٰامِنْھُمْ بِنَافَمَایَحبِسُنَاعَنْھْم اِلاّٰمَایَتَّصِلُ بِنَامِمّٰا نُکْرِہہُ وَلَانُوْثِرُہُ مِنْھُمْ۔
ہمارے شیعوں کو خدا وند عالم اپنی اطاعت کی توفیق عطا فرمائے اگر وعدہ وفائی میں ان لوگوں کے دل ایک ہوتے تو ہماری بابرکت ملاقات میں تاخیر نہ ہوتی بلکہ ہمارے دیدار کی سعادت حقیقی اور سچی معرفت کے ساتھ ان کو حاصل ہوتی ۔ ان کے ناپسند یدہ اور نا مناسب کام مجھے محبوس بنائے ہوئے ہیں۔ (بحا ر الانوارجلد ۵۳، ص۱۷۷، احتجاج طبرسی)
کیا ہم اپنے عہد و پیمان پر عمل پیرا پیں؟!
وَ مَعْرِفَتُنَا بِالزَّلَلِ الَّذِی أَصَابَکُمْ مُذْ جَنَحَ کَثِیرٌ مِنْکُمْ إِلَى مَا کَانَ السَّلَفُ الصَّالِحُ عَنْهُ شَاسِعاً وَ نَبَذُوا الْعَهْدَ الْمَأْخُوذَ مِنْهُمْ وَراءَ ظُهُورِهِمْ کَأَنَّهُمْ لا یَعْلَمُونَ
 ہم اپنے شیعوں سے ہونے والی لغرشوں سے غافل نہیں ہیں ، ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو ان بعض برے کاموں کی طرف مائل ہیں جن سے گزشتہ نیک لوگ احتراز کر تے تھے اور جو عہدوپیمان خدا کی جانب توجہ رکھنے اور گناہوں سے دور رہنے کی خاطر ان سے لیا گیا تھا انھوں نے اس کو پس پشت ڈال دیا ہے گویا وہ جانتے ہی نہیں ۔ 
(احتجاج طبرسی جلد سوم ، چہارم  ۳۵۰ تا  ۳۵۲  )
امامؑ کو ناراض کرنے والے کاموں سے پرہیز ضروری ہے
 فَلْیَعْمَلْ کُلُّ امْرِی ئٍ مِنْکُم! مَایَقْرُبُ بِہِ مِنْ مَحَبَّبِنَاوَلْیَتَجَنَّبْ مَایُدْنیِہِ مِنْ کَرٰاھِیَّتِنَاوَسَخَطِنَا،فَإِنَّ امْرَأً يَبْغَتُهُ فُجْأَةً حينَ لا تَنْفَعُهُ تَوْبَةٌ، وَ لا يُنْجيهِ مِنْ عِقابِنا نَدَمٌ عَلى حَوْبَة۔
تم میںسے ہر شخص کو اس چیز پر عمل کرنا چاہئے جو ہماری دوستی سے تم کو قریب کر دے اور ہر اس شے سے پر ہیز کرنا چاہئے جو ہماری ناراضگی سے قریب کردے ، کیوں کہ خدا وند عالم انسان کو اچانک اپنی جانب لے جاتا ہے کہ اس وقت توبہ فائدہ نہ دے گا اور گناہوں پر پشیمانی ہمارے عذاب سے نجات نہیں دے گی (احتجاج طبرسی جلد سوم ، چہارم  ۳۵۰ تا  ۳۵۲  )
فائدہ اور نقصان
َ أَنَّهُ مَنِ اتَّقَى رَبَّهُ مِنْ إِخْوَانِکَ فِی الدِّینِ وَ خَرَجَ عَلَیْهِ بِمَا هُوَ مُسْتَحِقُّهُ کَانَ آمِناً مِنَ الْفِتْنَةِ الْمُظِلَّةِ وَ مِحَنِهَا الْمُظْلِمَةِ الْمُضِلَّةِ وَ مَنْ بَخِلَ مِنْهُمْ بِمَا أَعَارَهُ اللَّهُ مِنْ نِعْمَتِهِ عَلَى مَنْ أَمَرَهُ بِصِلَتِهِ فَإِنَّهُ یَکُونُ خَاسِراً بِذَلِکَ لِأُولَاهُ وَ آخِرَتِه
 جو بھی خدا کیلئے اپنے دینی بھائی کے حال کی رعایات کرے اور حقوق الہیٰ اس کے مستحقین کو ادا کرے وہ شخص آنے والے امتحان ومصیبت اور مشکل رنج وزحمت سے امان میں رہے گا اور جو بھی عاریت دی ہوئی نعمت میں ان لوگوں سے بخل کرے جن سے صلہ رحمی کرنے کا حکم ہے ، ایسا شخص دنیا و آخرت میں گھاٹے میں رہے گا۔ (احتجاج طبرسی،ترجمہ اردو،ج۳ و ۴،ص۳۵۴)
شیطان نماز کا دشمن ہے
 فَمَااُرْغِمَ اَنْفُ الشَّیْطَانِ بِشَیْئٍ مِثْلِ الصَّلٰوۃِ فَصَلَّھَاوَاَرْغِمْ اَنْفَ الشَّیْطَانِ۔
’’نمازسے بہترکوئی اورعمل نہیںہے جوشیطان کوذلیل ورسواء کرتاہے،یعنی نمازکے ذریعہ شیطان کی ناک زمین پررگڑی جاتی ہے اوراس کی بہت ہی تذلیل ہوتی ہے،پس تم نماز ادا کرواوراس کے ذریعہ شیطان کے تکبرکی ناک کوخاک میں ملادواوراسے ذلیل کردو‘‘‘۔
(بحارالانوار،ج٥٣،ص١٨٢احتجاج)
نماز کو تاخیر سے پڑھنا!
 مَلْعُونٌ، مَلْعُونٌ، مَنْ اَخَّرَالْمَغْرِبَ اِلیٰ اَنْ تَشْتَبِکَ النُّجُومُ ،مَلْعُونٌ مَلْعُونٌ، مَنْ اَخَّرَ الْغَدٰاۃَ اِلیٰ اَنْ تَنْقَضِیَ النُّجُومُ۔
ملعون ہےملعون وہ شخص جونمازمغرب مین اتنی تاخیر کرے کہ تارے کِھل جائیں(یعنی ستارے نظرآنے لگیں)،اوروہ شخص بھی ملعون ہے ملعون جونمازصبح میں اتنی تاخیرکرے کہ آسمان سے سارے ستارے غائب ہوجائیں ‘‘۔
(بحارالانوار،ج٥٢،ص١٥،غیبت شیخ)
مال امام کھانے والالعنتی ہے
لَعْنَۃُ اللہِ وَالْمَلائِکَۃِ وَالنَّاسِ أجْمَعینَ علیٰ مَنِ السْتَحَّلَ مِنْ أمْوالِنَا دِرْھَماً۔ مَنْ اَکَلَ مِنْ اَمْوَالِنَاشَیْئاًفَاِنَّمَایَآکُلُ فی بَطْنِہِ نَاراًوَسَیَصْلیٰ سَعیِراً۔
اللہ، ملائکہ اور تمام انسانوں کی اس پر لعنت ہو جو ہمارے اموال میں سے ایک درہم بھی اپنے لئے حلال جانے۔ جو بھی ہمارا مال کھائے گویا وہ اپنے شکم میں آگ بھر رہاہے۔ اور عنقریب دوزخ میں جائے گا۔
(بحار الانوار جلد ۵۳،صفحہ ۱۸۳؛ کمال الدین،ص۵۲۱)
مال امام کا بے جا تصرف جائز نہیں ہے
 وَأمّا مَا سَئَلْتَ عَنْہُ مِنْ أمْرِ مَنْ یَسْتَحِلُّ ما فی یَدِہِ مِنْ أمْوَالِنَا أوْیَتَصَرّفَ فیہِ تَصَرُّفُہُ فی مالِہ مِنْ غَیْرِ  أمْرِنا فَمَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ فَھُوَ مَلْعونٌ و نحْنُ خُصَماؤُہٗ یَوْمَ القیامَۃِ۔
(محمد بن جعفر سے فرمایا:) اور جو تم نے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا ہے جس کے پاس ہمارا مال ہے اس کو اپنے لئے حلال سمجھتا ہے یا ہماری اجازت کے بغیر اس میں اسی طرح تصر ف کرتا ہے جس طرح اپنے مال میں تو یاد رکھو کہ ایسا شخص ملعون ہے اور روز قیامت وہ ہمارے دشمنوں میں شمار ہوگا ۔(کمال الدین ص۵۲۰/۴۹)
امام کو ہمارے مال کی ضرورت نہیں بلکہ۔۔۔
اَمَّااَمْوٰالُکُمْ فَلاٰنَقْبَلُھَااِلاَّلِتَطَھَّرُوافَمَنْ شَائَ فَلْیَصِلْ وَمَنْ شَائَ فَلْیَقْطَعْ فَمَاآتَانِی اللَّہُ خَیْرٌ مِمّٰاآتَاکُم۔
ہم تمہارے اموال کو صرف اس لئے قبول کرتے ہیںکہ تم پاک ہوجاؤ لہٰذا جو بھی پاک ہونا چاہتا ہے وہ ہم تک(خمس) پہنچائے اور اگر نہیں چاہتا تو نہ دے۔ اور خدا وند عالم نے جو کچھ تم کو عطا کیا ہے اس سے بہتر ہمیں عطا کیا ہے۔
(بحار الانوار ۵۳/۱۸۰؛ کمال الدین، ص۴۸۴)
غیر کے مال میں تصرف جائز نہیں
 فَلاَیَحِلُّ لِاَحَدٍاَنْ یَتَصَرَّفَ مِنْ مَالِ غَیْرِہِ بِغَیْرِاِذْنِہِ  فَکَیْفَ یَحِلُّ ذَلِکَ فیِ مَالِنَا
کسی کے لئے جائزنہیں ہے کہ وہ کسی اورکے مال کواس کی اجازت کے بغیر اپنے تصرف میں لائے جب ایساہے توپھرکسی شخص کے لئے یہ کیسے جائزہے کہ وہ(ہماری اجازت کے بغیر)ہمارے مال میں تصرف کرے اور اسے اپنے استعمال میں لے آئے ‘‘۔
(کمال الدین ،ص٥٢١)
امام کی اجازت کے بغیر مال امام میں تصرف جائز نہیں ہے
 وَ أمَّا الْمُتَلَبِّسُونَ بِأمْوالِنَا فَمَنِ اسْتَحَلَّ شَیئاً مِنْھا فَأکَلَہٗ فَاِنَّمَا یَأکُلُ النِّیْرانَ۔
جس کے اختیار میں ہمارا مال ہے اگر وہ اس میں سے کچھ بھی اپنے لئے مباح سمجھے اور اسے کھائے تو گویا اس نے دوزخ کی آگ کھائی ہے۔
(بحار الانوار ۵۳/۱۸۱)


زمین کبھی بھی حجت الٰہی سے خالی نہیں رہ سکتی
 اِنَّ الْاَرْضَ لاٰتَخْلُومِنْ حُجَّۃٍ اِمّٰاظٰاہِراًوَاِمَّامَغْمُوراً۔
کیا تم نہیں جانتے کہ زمین حجت خدا سے کبھی خالی نہیں رہتی اب چاہے وہ حجت ظاہر بظاہر ہو یا پردۂ غیب میں ہو۔
(بحار الانوار ج ۵۳،ص ۱۹۱؛کمال الدین، ص٥١١)


ظہور میں تعجیل کی  دعا کا فائدہ ہم ہی کوہے
  اَکْثِرُواالدُّعٰائَ بِتَعْجیلِ الْفَرَجِ فَاِنَّ ذَلِکَ فَرَجُکُمْ
’’فرج جلدی ہونے کے واسطے دعابہت زیادہ کروکیونکہ اسی میں تمہارے لئے فرج (کامیابی ،سکون،آرام)ہے ‘‘۔
(کمال الدین ،ص٤٨٥؛ غیبت طوسی،۲۹۲)



بیجا سوالات سے پرہیز کرو
 فَاَغْلِقُوااَبْوٰابَ السَئٰوالِ عَمّٰالاٰ یَعْنیِکُمْ وَلاَتَتَکَلَّفُواعِلْمَ مَاقَدْکَفَیْتُم ْ
’’جن باتوں کاتم سے تعلق نہیں ہے اورتمہارے فائدے میں نہیں ہیں ان کے متعلق سوال کرنے کاسلسلہ بندکردو،لایعنی اوربے مقصد سوالات کرنے سے گریزکرو،اوراپنے آپ کوایسے معلومات حاصل کرنے کی زحمت میں نہ ڈالوجن کی ذمہ داری تمہارے اوپرنہیں ڈالی گئی یعنی جس کاچاہناتمہارے لئے ضروری نہیں تم ان کے بارے معلومات حاصل کرنے کے لئے خودکومصیبت میں نہ ڈالو‘‘۔ (بحارالانوار،ج٥٢،ص٩٢،احتجاج)

امام زمانہ کی ہم سے محبت
لَوْلَامَاعِنْدَنَامِنْ مَحَبَّۃِ صَلَاحِکُمْ وَرَحْمَتِکُمْ وَالْاِشْفَاقِ عَلَیْکُمْ لَکُنّٰاعَنْ مُخٰاطَبَتِکُمْ فی شُغْلٍ            
’’اگرہمیں تم سے محبت نہ ہوتی اوررتم پرہم مہربان اورشفیق نہ ہوتے اورہمیں تم سے ہمدردی نہ ہوتی اورہم تمہاری بہتری کانہ سوچتے توہم تم سے بات کرناہی چھوڑدیتے یعنی ہماراتم سے بات کرنااس بات کی نشانی ہے کہ ہم تم سے محبت کرتے ہیں تمہیں چاہتے ہیں،تمہاری خیر مانگتے ہیں،ہم تمہارے ہمدردہیں‘‘۔
(بحارالانوار،ج٥٣،ص١٧٩)

امام کے سلسلے میں اقرار ضروری ہے
الَّذی یَجِبُ عَلَیْکُمْ وَ لَکُمْ انْ تَقُولُوا: إنّا قُدْوَهٌ وَ ائِمَّهٌ وَ خُلَفاءُ اللهِ فی ارْضِهِ، وَ اُمَناوُهُ عَلی خَلْقِهِ، وَ حُجَجُهُ فی بِلادِهِ، نَعْرِفُ الْحَلالَ وَ الْحَرامَ، وَ نَعْرِفُ تَاْویلَ الْکِتابِ وَ فَصْلَ الْخِطابِ۔(تفسیر عیّاشی:۱؍۱۶۔ بحارالانوار۸۹؍۹۶؍۵۸)
تمہارے لئے ضروری ہے تم یہ عقیدہ رکھو اور اس بات اقرار کرو کہ: ہم اہل بیت رسالتؑ ہی تمام امور کا محور و بنیاد، قائد و حاکم، ھادی و راہنما ہیں ہم ہی روئے پر زمین پر اللہ کی حجت اور اس کے بندوں پر اس کے امین و اس کے شہروں میں اس کی حجت ہیں۔ہم ہی ہیں جو حرام و حلال کی معرفت رکھتے اور قرآن کی تفسیر و تاویل کو جانتے ہیں۔

بچوں کو کیسے نمازی بنائیں؟

بچوں کو کیسے نمازی بنائیں؟
حجۃالاسلام مولانا سید منظر صادق زیدی

بچوں کی اچھی تربیت اور انہیں کمال وارتقاء کی جانب راہنمائی کرنا ہر ماں باپ کی صرف دلی خواہش ہی نہیں بلکہ مذہبی فریضہ بھی ہے پیغمبر اکرمؐ ارشاد فرماتے ہیں ادبوا اولادکم فانکم مسئولون اپنی اولاد کی تربیت کرو کیونکہ تم سے اس سلسلہ میں سوال کیا جائے گا۔ امیر المومنینؑ کا ارشاد ہے کہ ’’اکرموا اولادکم و احسنوا آدابھم‘‘اپنے بچوں کا احترام کرو اور ان کی اچھی تربیت کرو۔
امام زین العابدینؑ اولاد کے حقوق کے سلسلہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ :
وَ أَمّا حَقّ وَلَدِكَ فَتَعْلَم۔۔۔۔۔۔
تمہارے اوپر تمہاری اولاد کا حق یہ ہے کہ یہ باور کرو کہ وہ تم ہی سے ہے دنیا میں تمہیں سے وابستہ ہے اس کی اچھائیاں و برائیاں بھی تمہاری ہی طرف پلٹتی ہیں۔ یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ اس کی تربیت کرو اس کو ادب سکھاؤ۔ خداوندعالم کی طرف اس کی راہنمائی کرو پھر یاد رکھو کہ اس وظیفہ کو انجام دینے کی صورت میں ثواب کے مستحق ہوگے اور اگر تاخیر و لاپرواہی کرو گے تو عذاب و سزا کے مستحق قرار پاؤ گے۔ اس کے سلسلے میں اس طرح سے نیک اور اچھے انداز میں عمل کرو کہ اس کی اچھائی کا اثر دنیا میں ظاہر ہوا اس خداوندعالم کے نزدیک تمہارے اور اس کے درمیان عذر رہے۔اس کی اچھی بہترین سرپرستی کرنے اور اس سے نتیجہ حاصل کرنے میں خدا کے علاوہ کوئی طاقت و قوت نہیں ہے۔(رسالۂ حقوق)
جب بچوں کی تربیت انہیں اچھائیوں کا خوگر بنانا والدین کا مذہبی فریضہ ہے تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ شریعت نے ’’نماز‘‘کے بارے میں والدین کو ہدایات نہ دی ہوں جبکہ ’’نماز‘‘ دین کے اہم ترین فرائض میں شامل ہے چنانچہ نماز کے بارے میں معصومینؑ کے بے شمار تاکیدی ارشادات پائے جاتے ہیں کبھی نماز کو ’’آنکھوں کی ٹھنڈک‘‘کہا گیا قرۃ عینی فی الصلوٰۃ۔(پیغمبر اکرمؐ ،نہج الفصاحہ، ص۱۳۴۳)
کبھی نماز کو وہ حیثیت عطا کی گئی جو سر کو بدن میں حاصل ہے۔موضع الصلوٰۃ من الدین کموضع الراس من الجسد (کنز العمال ج ۷ ح ۱۸۹۷۶)۔ تو کبھی دین کا ستون الصلوٰۃ عمود دینکم (میزان الحکمۃ ج ۵ص۳۷۰)کبھی اسے اعمال کی میزان قرار دیا گیا اور اعلان ہوا کہ ان قبلت قبل ما سواھا ۔اور کبھی اسے مومن کی معراج قرار دیا گیا۔’’ الصلوٰۃ معراج المومن ‘‘نماز مومن کی معراج ہے (کشف الاسرار ج۲ ص ۶۷۶)جب والدین اپنے بچوں کو بلندیوں کی جانب لے جانا چاہتے ہیں تو اولاً’’معراج‘‘سے بلند مقام کون سا ہو سکتا ہے؟لہٰذا والدین کو چاہئیے کہ اپنے بچوں کو نماز سکھائیں،نمازی بنائیں۔
یہ بات بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ بچپن کی سیکھی ہوئی باتیں زندگی بھر یاد رہتی ہیں اور روایات میں ہے کہ ’’النقش فی الصغر کالنقش علیٰ الحجر‘‘بچپن میں کسی چیز کا سکھانا ہے گویا پتھر پر نقش کندہ کرنے کے مانند ہے۔ پتھر پر کندہ نقوش جیسے کبھی مٹتے نہیں ہیں ایسے ہی بچپن میں یاد کی ہوئی چیزیں کبھی حافظہ سے محو نہیں ہوتیں۔موجودہ حالات میں جب ہمیں معلوم ہے کہ روز بروز بے دینی اور بے حیائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہےوالدین کی زیادہ ذمہ داری ہےکہ بچوں کو بچپن ہی میں دین سکھا دیں اور انہیں اتنا دیندار بنا دیں کہ بڑے ہو کر بے دینی کے ماحول سے متاثر نہ ہو سکیں ۔
لیکن اہم سوال یہ ہے کہ بچوں کو نمازی کیسے بنایا جائے؟اس کے جواب میں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ نماز سکھانا یا بچوں کو نیکیوں کا خوگر بنانا در حقیقت ’’تربیت‘‘ کا حصہ ہے لہٰذا بچوں کو ’’نمازی بنانے‘‘ کے لئے بھی تربیت کے اصولوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ سردست بطور اختصار چند باتوں کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے :
(۱)محبت و شفقت:
تربیت کا اولین اور اہم ترین اصول’’محبت و شفقت‘‘ہے۔ قول مشہور ہے کہ ’’از محبت خارھا گل می شود‘‘ مربی کی جانب سے محبت و شفقت کا اظہار دیکھنے کے بعد تربیت حاصل کرنے والاخود بخود اپنے مربی کا شیدا ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو اس کے کردار میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ محبت اور تربیت میں کتنا عمیق رابطہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اجرت رسالت کسی اور شی کو نہیں بلکہ ’’قربیٰ کی محبت ‘‘کو قرار دیا گیا ہے۔
لہٰذا بچوں کو نمازی بنانے کے لئے بھی بے جا سختی یا شدت پسندی کے بجائے محبت و شفقت کے ذریعہ عبادت و بندگی خصوصاً نماز کا عاشق و شیدا بنانے کی کوشش کرنا چاہئیے۔
(۲)آئیڈیل ہونا :
تربیت میں آئیڈیل اور مثالی نمونہ کا پیش نظر ہونا بہت ضروری ہے۔ ہر بچہ فطری طور پر کسی نہ کسی کو اپنا آئنڈیل بناتا ہے لہٰذا نماز کے لئے بھی بچوں کے لئے آئیڈیل اور مثالی کردار کا سامنے ہونا ضروری ہے۔ قرآن کریم نے اسی لئے پیغمبراکرمؐ کا تعارف ’’اسوۂ حسنہ کے طور پر کرایا ہے۔اور بچوں کے لئے سب سے پہلا آئیڈیل ماں باپ ہوتے ہیں اور شعوری ولاشعوری طور پر بچے والدین سے بہت سی باتیں سیکھتے ہیں۔ گھر میں اگر نمازی نماز کو اہمیت دینے والے آئیڈیل ماں باپ یا بزرگ ہوں گے تو بچے بھی نماز کی طرف راغب ہوں گے۔ اگر بچے یہ دیکھیں گے کہ ہمارے والدین ،گھر کے بزرگ نماز کو بہت اہمیت دیتے ہیں ،تمام کاموں اور مصروفیات کو ترک کرکے نماز ادا کرتے ہیں کیسے بھی حالات ہوں نماز ادا کرتے ہیں تو بچے بھی نمازی ہوں گے لیکن اگر خدانخواستہ گھر میں نماز کا ماحول نہ ہو، والدین خود بھی نمازی نہ ہوں تو بچوں کو کیسے نمازی بنا سکتے ہیں؟
(۳)گھر کا ماحول:
بچے ماحول سے بہت متاثر ہوتے ہیں اور جیسا ماحول ہوتا ہے بچے عموماً ویسے ہی ماحول میں ڈھل جاتے ہیں اگرگھر میں دعا و عبادات اور نماز کا ماحول ہے تو یقیناً بچے بھی عبادت گذار اور نمازی ہوں گے لیکن اگر خدا نخواستہ گھر کا ماحول ایسا نہ ہو تو فقط کہنے سننے سے بچے نمازیں نہیں بن سکتے۔

(۴)نمازی بچوں سے دوستی:
انسانی زندگی میں دوستی کا بہت اہم رول ہے چنانچہ روایات میں ہے کہ ’’المرء علیٰ دین خلیلہ‘‘انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔ دوستی انسان کے کردار کو سنوار بھی سکتی ہے اور بگاڑ بھی دیتی ہے لہٰذا ہمیں اپنے بچوں کے دوستوں پر نظر رکھنا چاہئیے کہ ہمارے بچوں کی صحبت کیسی ہے؟اگر ہمارے تعلقات اور ہمارے بچوں کی رفت و آمد دیندار گھرانوں میں ہو تو بچے بھی دیندار رہیں گے اور اگر خدانخواستہ بے دین گھرانوں سے ہو تو لاشعودی طور پر ہمارے بچے بھی بے دین ہو جائیں گے لہٰذا کوشش ہونا چاہئیے کہ ہمارے بچوں کی دوستی، نمازی بچوں کے ساتھ ہو۔
(۵)نماز کے بارے میں گفتگو:
بچوں کے ساتھ نماز کے بارے میں گفتگو کرنا چاہئے۔ انہیں نماز کی عظمت و اہمیت، فضائل، ترک نماز کے نقصانات، سزا وغیرہ کے بارے میں روایات اور دلچسپ واقعات سنائے جائیں تا کہ ان کے اندر نماز کا شوق پیدا ہو سکے ۔
(۶)تشویق و ترغیب:
انسان کی زندگی میں تشویق و ترغیب اور انعام و قدردانی بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ معمولی سی تشویق یا قدر دانی بچے کے دل میں ایسی جگہ بناتی ہے کہ بچہ اسے بہت دنوں تک یاد رکھتا ہے اور خود سے اس کا تذکرہ کرتا ہے ۔چنانچہ بچے اکثر اسکول سے آکر بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ آج مجھے اتنے اسٹار ملے ہیں۔انہیں اسٹار کو حاصل کرنے کے لئے بچہ زیادہ محنت کرتا ہے۔ یہی صورتحال اگر نماز و عبادات کے بارے میں بھی اختیار کی جائے تو یقیناً مؤثر ہوگی۔ نماز کا انعام مادی بھی ہو سکتا ہے اور معنوی بھی۔ مثلاً انہیں کوئی تحفہ دیا جائے یا کسی مذہبی مقام کی زیارت کے لئے لے جایا جائے یا جس بچہ میں مذہبی جذبہ زیادہ ہو اس کے ساتھ زیادہ شفقت و محبت کا برتاؤ کیا جائے لیکن یہ کام اعتدال کی حد میں ہونا چاہئیے اور ایسا نہ ہو کہ دوسرے بچوں کے حقوق ضائع ہو جائیں۔ اسی کے ساتھ بچوں کو یہ احساس بھی ہونا چاہئیے کہ یہ خصوصی برتاؤ کیوں ہو رہا ہے۔
امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالبؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ علموا صبیانکم الصلوٰۃ‘‘ اپنے بچوں کو نماز سکھاؤ ۔ ۔۔۔ 
صبیان صبی کی جمع ہے اور صبی بچہ کو کہا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز سیکھنا بچوں کے ذمہ داری نہیں ہے بلکہ بزرگوں کا فریضہ ہے ۔ بچوں کو سکھائیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ’’ صبی‘‘ کو سکھانا ہے یعنی بچپن میں سکھادینا ہے۔ یہ انتطار نہیں کرنا ہے کہ بالغ ہونے پر خود سیکھ لے گا۔ 
ایک تفصیلی روایت میں امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ جب بچہ تیسرے سال میں داخل ہوجائے تو اس سے سات مرتبہ لا الہ الا اللہ۔ کہلایا جائے۔ سات ماہ بعد ’’محمد رسول اللہ‘‘، سات بار کہلایا جائے۔
جب پانچ سال کا ہوجائے اور مسجد میں آنے لگے تو اس کا رخ قبلہ کی طرف کرکے اس سے سجدہ کرائیں جب سات سال کا ہوجائے تو ہاتھ منہ دھوکر نماز پڑھنے کےلئے کہا جائے اور جب نو سال کا ہوجائے تو اسے وضو کرنا سکھایا جائے اور اس کے ترک کرنے پر تنبیہ کی جائے۔ نماز کا حکم دیا جائے اور نماز ترک کرنے پر تنبیہ کی جائے۔
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ بچوں کو ان کی عمر کے لحاظ سے دھیرے دھیرے اور مرحلہ بہ مرحلہ نماز و عبادات سکھائے جائیں ۔ شروع میں انتہائی مختصر ۔ عمر میں اضافہ کے ساتھ اضافہ کیا جائے۔ اور بہرحال یہ کام سن بلوغ سے کافی پہلے انجام پانا چاہئے ۔ 
عبادت کی جان ریاکاری سے پاک، خلوص نیت کے ساتھ انجام دیا جانا ہے۔ اس لئے عموماً شریعت کی تاکید یہی ہے کہ نیک اعمال اس طرح انجام دیئے جائیں کہ دوسروں کو خبر نہ ہو لیکن نماز کےمعاملہ میں ایسا اس گھر میں بیٹھ کر گوشۂ تنہائی میں نماز پڑھنے کے بجائے مسجد میں نماز پڑھنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ مسجد میں بھی فرادیٰ پڑھنے کے بجائے جماعت کے ساتھ پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ لہٰذا جب بزرگ حضرات نماز پڑھنے کے لئے مسجد جائیں تو بچوںکو اپنے ہمراہ مسجد لے جائیں تاکہ بچپن سے انہیں مسجد سے انسیت ہو اور بڑے ہوکر مسجد سے گریزاں نہ ہوں مسجد میں بھی جوانوں اور بچوں کے لئے ایسے پروگراموں کا انعقاد ہوتا رہے کہ جس سے جوان اور بچے مسجد کی طرف راغب ہوسکیں تو نور علیٰ نور ہے۔ تبلیغ کے لئے  بھی مفید ہے مختلف مساجد میں لے جانا بھی مفید ہے۔لیکن یہ خیال رہے کہ بچے مسجد میں پہنچ کر نماز کی طرف مائل ہوں دوسروں کی نماز خراب نہ کریں۔ 
کچھ مختلف اور متنوع چیزوں کے ذریعہ بھی بچوں میں نماز کی جانب رغبت پیدا کی جاسکتی ہے مثلاً ان کے لئے چھوٹی سی جا نماز ، خوشنما تسبیح ، سجد گاہ فراہم کرنا اور ان کو یہ احساس دلانا کہ یہ ان کےلئے خصوصی تحفہ ہے۔ چھوٹی بچی کےلئے نماز کی چادر بنانا۔ نماز سے متعلق تصاویر یا پزل وغیرہ یا بچوں سے مسجد ، نماز جماعت ، نماز عید کی پینٹنگ بنوانا، بچوں کی نظموں کے ذریعہ انہیں وضو اور نماز کے احکام یاد کرانا وغیرہ۔(ماہنامہ اصلاح)

شیعہ نماز کا طریقہ Shia namaz ka tareeqa

نماز کا طریقہ

نماز شروع کرنے سے قبل کچھ احکام ہیں جن کی بجا آوری ضروری ہے:
باطہارت قبلہ کی طرف رخ کرکے سیدھے کھڑے ہوں،اگر مرد ہیں تو پورا لباس پہن کر کھڑے ہوں تو بہتر ہے۔ ورنہ کم از کم شرم گاہیں پوشیدہ رہنا ضروری ہے۔ اگر عورت ہیں تو آپ پر واجب ہے کہ ماتھے اور منہ ، گٹے تک ہاتھ اور ٹخنے تک پاؤں کے علاوہ سارا جسم چھپا ہو۔ پہلے اذان کہئے، اس کے بعد اقامت ۔ اقامت ختم کرکے نماز شروع کیجئے۔ 
جو نماز پڑھنی ہے خلوص اور توجہ سے اس کی نیت کیجئے (مثلاً نمازصبح پڑھتا یا پڑھتی ہوں قربۃً الی اللہ ) نیت کے ساتھ ہی دونوں ہاتھ اٹھاکر تکبیرۃ الاحرام یعنی ’’اَللہ ُ اَکبرْ‘‘ کہئے۔ خیال رکھئے کہ پورا جسم قبلہ رخ ہو۔ تکبیر کہتے وقت اور اس کے بعد جسم کو حرکت نہ دیں۔(پوری نماز میں کچھ بھی پڑھتے وقت بدن سکون کی حالت میں ہو ، ہل نہ رہا ہو) تکبیر کہہ کر دونوں ہاتھ رانوں پر رکھئے۔ نگاہ سجدہ گاہ پر ہو۔اس حالت میں قرائت یعنی سورہ حمد پڑھئے، پھر دوسرا شروع کیجئے ۔ اللہ اکبر کہئے اس کے بعد قیام متصل بہ رکوع یعنی اسی قیام کی حالت سے رکوع میں جائیے۔ 
رکوع یہ ہے کہ اس طرح جھکا جائے کہ ہتھیلیاں گھٹنوں تک پہنچ جائیں، دونوں ہتھیلیاں گھٹنوں پر رکھی جائیں، گردن اور پشت ہموار ہو۔ اسی حالت میں اطمینان کے ساتھ ذکر یعنی تین مرتبہ ’’سُبْحَانَ اللہ‘‘ کہیں یا ایک بار کہیں : ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ وَ بِحَمْدِ ہ ‘‘۔ اس کے بعد درود پڑھنے کا ثواب ہے۔ 
پھر سیدھے کھڑے ہوکر کہیں : ’’سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہ‘‘۔ اس کے بعد فوراً ہاتھ کانوں تک لے جاکر کہیں ’’اَللہُ اَکبر‘‘  پھر سجدے میں جائیں۔ 
 سجدہ یہ ہے کہ پیشانی ، دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے اور دونوں پیروں کے انگوٹھوں کے سرے زمین پر ٹھہرے ہوں۔ اسی حالت میں اطمینان ہی کی حالت میں پڑھئے: ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ وَ بِحَمْدِہ‘‘یا تین بار ’’سُبْحَانَ اللہ‘‘ کہیے اور ہوسکے تو ایک بار درود بھی پڑھئے۔ 
 سجدے سے سراٹھا کر اس طرح بیٹھئے کہ دائیں پیر کی پشت بائیں پیر کے تلوے پر ہو۔ دونوں ہاتھ رانوں پر ہوں اس کے بعدکہئے: ’’اَسْتَغْفِرُ اللہَ رَبِّیْ وَ اَتُوْبُ اِلَیْہ‘‘۔ 
پھر اللہ اکبر کہہ کر سجدہ میں جائیے اور پہلے سجدے کی طرح ذکر کیجئے۔ذکر ختم کرکے پہلے کی طرح بیٹھئے پھر بِحَوْلِ اللہِ وَ قُوَّتِہ اَقُوْمُ وَ اَقْعُدْ،کہتے ہوئے کھڑے ہوجائیے۔ 
اب دوسری رکعت شروع ہوگئی ۔اس میں بھی پہلے سورہ حمد پڑھئے۔ اس کے بعد کوئی دوسرا سورہ پڑھئیے۔سورہ ختم کرنے کے بعد ہاتھوں کو چہرے کے سامنے کرکے قنوت پڑھئے۔ قنوت میں صرف ذکر خدا کرنا یا کوئی مختصر دعا پڑھنا بھی کافی ہے۔ 
پھر اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں جائیے اور پہلی رکعت کی طرح رکوع کے بعد دو سجدے بجالائیے۔
دونوں سجدوں کے بعد بیٹھئے اوراللہ اکبر کہہ کر کہئے : اَلْحَمْدُ لِلہ ۔اس کے بعد اس طرح تشہد پڑھئیے:
’’اَشْهَدُ اَنْ لااِلهَ اِلاَّ اللّهُ وَحْدَهُ لاشَرِیكَ لَهُ، وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُه، اَلّلهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّد وَ آلِ مُحَمَّد "
اگر نماز دو رکعتی یعنی صبح یا ظہر، عصر، عشاء کی قصر ہو تو تشہد کے بعد اس طرح سلام پڑھئے : ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلیٰ عِبَادِ اللہِ الصّٰلِحِیْن۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہ ۔ 
اب تین مرتبہ ہاتھ کانوں تک اٹھا کر ’اللہ اکبر‘ کہئے۔ اس عمل پر دو رکعتی نماز ختم ہوجاتی ہے۔
اگر مغرب کی تین رکعتی نماز ہو تو تشہد کے بعد سلام پڑھنے کے بجائے بِحَوْلِ اللہِ وَ قُوَّتِہٖ اَقُوْمُ وَ اَقْعُدْ کہتے ہوئے سیدھے کھڑے ہو جائیں اورتیسری رکعت میں پڑھئیے یعنی تین مرتبہ کہئے:
سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرْ ۔(انھیں تسبیحات اربعہ کہتے ہیں )، نماز پڑھنے والے کو اختیار ہے کہ تیسری اور چوتھی رکعت میں یہ تسبیحات پڑھے یا سورۂ حمد پڑھے۔ تسبیحات اربعہ کا پڑھنا بہتر ہے۔ 
پھر اَسْتَغْفِرُ اللہَ رَبِّیْ وَ اَتُوْبُ اِلَیْہ،  اَللہُ اَکْبَرْکہہ کر رکوع میں جائیے۔ رکوع کے بعد پھر سجدہ میں جائیے دونوں سجدوں کے بعد تشہد پڑھ کر سلام پڑھئیے۔
اگر نماز چار رکعتی یعنی ظہر یا عصر یا عشاء کی ہو تو تیسری رکعت کے دونوں سجدوں کے بعد ’’بحول اللہ۔۔‘‘ کہہ کر کھڑے ہوجائیں اور تیسری رکعت کی طرح تسبیحات اربعہ یا سورۂ حمد پڑھ کر گذشتہ رکعات کی طرح رکوع اور دونوں سجدوں سے فراغت کے بعد تشہد و سلام کے بعد نماز ختم کیجئے۔ضروری ہے جو ترتیب بیان ہوئی اسی طرح نماز پڑھی جائے اور موالات یعنی پے در پے انجام دی جائے۔
٭…٭…٭

حقوق، معصومین؊ کی نگاہ میں

باسمہ تعالیٰ
حقوق، معصومین؊ کی نگاہ میں
ترجمہ محمد حسنین باقری

ارشاد پیغمبر اکرم ﷺ:خیال کرو اگر کسی کے ذمہ کسی کی کوئی امانت ہے تو وہ مالک کو واپس کرے اور یاد رکھو کہ مسلمان کا خون ہرگز حلال نہیں ہے، مسلمان کے مال میں تصرف جائز نہیں ہے مگر جب اجازت ہو۔ اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور میرے بعد اسلام سے کفر کی طرف نہ چلے جاؤ ۔( ۱)
پیغمبر اکرم ﷺ:میری امت کے مفلس وہ لوگ ہیں جو نماز روزہ و زکات کے ساتھ وارد محشر ہوں لیکن چونکہ دنیا میں حق الناس ادا نہ کیا ہوگا اس لئے مشکل میں گرفتار ہونگے۔ کسی کو برا بھلا کہا ہوگا ، کسی کی طرف غلط نسبت دی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا۔ ان اعمال کی وجہ سے خدا کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔ ان کی نیکیوں کو اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیا جائے گا اور زیادہ نہ ہوں تو صاحب حقوق کے گناہوں کو اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیا جائے گا اس کے بعد انہیں آتش دوزخ کے حوالے کردیا جائے گا۔ یہ لوگ قیامت کے دن کے مفلسین میں سے ہوں گے۔ (۲)
پیغمبر اسلام ﷺ:جو بھی اپنے کسی مسلمان بھائی کا حق ادا نہ کرے تو خداوند عالم اس کو رزق کی برکت سے محروم کردیتا ہے جب تک کہ تو بہ نہ کرے۔ (۳)
امیرالمومنین حضرت علیؑ:بندوں کا ایک دوسرے پر ظلم کرنا قابل بخشش نہیں ہے۔ (۴)
حضرت علیؑ:خداوند عالم قیامت کے دن فرمائے گا: آج میں تمہارے درمیان عدل و انصاف کے ذریعہ فیصلہ کروں گا۔ میری بارگاہ میں کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیںہوسکتا۔ آج میں کمزور کا حق طاقت ور سے لوںگا۔ آج میں مظلوم کے حق میں ظالم سے قصاص لوں گا یا اس طریقہ سے کہ ظالم کی نیکیوں کو مظلوم کے نامۂ اعمال میں لکھ دوں گا یا مظلوم کے گناہوں کوختم کرکے ظالم کے نام ان گناہوں کو لکھ دوں گا۔(۵)
حضرت علیؑ:خداوندعالم نے اپنے بندوں کے حقوق کو اپنے حقوق پر مقدم کیا ہے۔ جو بھی بندگان خدا کے حقوق کا خیال کرے وہی حقوق الٰہی کا خیال کرے گا۔ (۶)
امام جعفر صادقؑ :مومنین کے حقوق ادا کرنے سے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں ہے(۷)
امام جعفر صادقؑ :پل صراط پر ایک ایسا موڑ ہے جہاں سے وہ شخص گزر ہی نہیں سکتا جس کے ذمہ حق الناس ہو۔ (۸)
آج صرف وہی ظالمین نجات پاسکتے ہیں جن کے سلسلے میں مظلوم اپنے حق سے درگزر کرے۔ (۹)
امام جعفر صادقؑ :تم میں سے جو بھی چاہتا ہے کہ اس کی د عا مستجاب ہو تو وہ اپنی درآمد اور کمائی کو پاک و پاکیزہ کرےا ور لوگوں کے حقوق ادا کرے۔ اس لئے کہ جس بندہ کے شکم میں مال حرام ہویا اس کے ذمہ کسی کا حق ہو تو اس کی دعا خدا تک نہیں پہنچتی۔ (۱۰)
امام جعفر صادقؑ :جو بھی اپنے بھائی کا مال ناحق کھائے اور اس کو واپس نہ کرے تو قیامت کے دن انگارے کھائے گا۔ (۱۱)
امام جعفر صادقؑ :خداوند عالم نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ تین طرح کے لوگوں کو جنت میں داخل نہیں کرے گا: (۱) جو خدا کا انکار کرے۔ (۲) جو امام و رہبر کی مخالفت کرے۔ (۳) جو مسلمان کے حق کو ادا نہ کرے۔ (۱۲)
(۱)حقوق صفحہ ۳۰۔ (۲) محجۃ البیضا۸؍ ۳۴۰۔ بی ۷؍ ۲۷۴۔ وسائل ۱۳؍۷۸۔ (۳)بحار ۱۰۱؍ ۲۹۳۔  (۴) نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۵۔ (۵)۔ (۶)میزان الحکمت ۲؍۴۸۔ (۷)میزان الحکمت۲؍۴۸۱۔ (۸)وسائل ۳۳۹۔ (۹)بحار ۷؍ ۲۶۸۔ (۱۰)عدۃ الداعی صفحہ ۱۲۸ بحار ۹۳؍۳۲۰۔ (۱۱)وسائل ۱۱؍ ۳۴۳۔ (۱۲)SSSSS

خطبہ امام سجاد علیہ السلام دربار شام میں

باسمہ تعالیٰ
خطبہ امام سجاد علیہ السلام
دربار شام میں

انتہائی نازک اور حساس وہ موقع تھا جب امام زین العابدین علیہ السلام کو ایک قیدی کی حیثیت سے مسجد اموی یعنی دربار یزید میں پیش کیا گیا۔ یزید اپنے پورے جاہ و جلال کا مظاہر کرنا چاہتا تھا۔ اس نے خطیب کو حکم دیا کہ وہ منبر پر جائے اور منقصت علیؑ و حسینؑ میں جو منہ میں آئے وہ بکے۔ ابتدا سے لے کر آج تک ہوتا آیا ہے کہ زر خرید عالم و خطیب  ومفتی اللہ کی رضا نہیں بلکہ حاکم کی مرضی دیکھ کر بات کرتے ہیں یہی اس خطیب نے کیا جسارت کی انتہا کردی خاموش ہوا تو امام نے ایک جملہ ارشاد فرمایا:ویلک ایھا الخاطب! اشتریتَ مرضاۃَ المخلوقِ بسخط الخالقِ، فتبوء مقعدک من النّار۔’’ افسوس ہو تجھ پر اے خطیب کہ تونے مخلوق کی خوشنودی کے لئے خالق کے غضب کو مول لے لیا اور اپنا ٹھکانہ جہنم کو بنالیا‘‘۔ پھر یزید سے فرمایا: اتأذن لی أن اصعد ھذہ الأعواد، فاتکلّم بکلمات، للہ فیھا رضی، و لھؤلاء الجلساء اجرٌ‘‘ ’’مجھے اجازت دے کہ اس لکڑی پر جاکر ایسے کلمات الٰہی کے ذریعہ بات کروں جس میں خدا کی خوشنودی اور حاضرین کے لئے اجر و ثواب ہو‘‘۔
 منبر کو لکڑی سے تعبیر کرکے آپ نے یہ پیغام دے دیا کہ اگر منبر سے توہین آل محمدؐ ہو تو وہ منبر نہیں لکڑی ہے۔ اس پس منظر میں یہ حقیقت بھی ہے کہ اگر پالان شتر پر فضائل آل محمدؐ بیان ہوں تو بادی النظر میں تو وہ پالان شتر ہے لیکن حقیقت و معنویت میں وہ منبر ہے۔منبر پر کوئی بات خلاف مرضیٔ معبود اور تعلیمات معصومینؑ کے خلاف نہ بیان ہونا چاہئے۔ اور اپنی جسارتوں سے توہین منبر کا مرتکب نہ ہونا چاہئے۔ 
 یزید کی اجازت نہیں تھی لیکن اہل دربار کے اصرار پر طوعاً و کرہاً اس نے اجازت دی زنجیر و طوق ہتھکڑی و بیڑی کو سنبھالے آپ منبر پر تشریف لے گئے۔ 
امام نے حمد و نثا ئے الٰہی کے بعد فرمایا:
أَیُّهَا النَّاسُ أُعْطِینَا سِتّاً وَ فُضِّلْنَا بِسَبْعٍ أُعْطِینَا الْعِلْمَ وَ الْحِلْمَ وَ السَّمَاحَةَ وَ الْفَصَاحَةَ وَ الشَّجَاعَةَ وَ الْمَحَبَّةَ فِی قُلُوبِ الْمُؤْمِنِینَ وَ فُضِّلْنَا بِأَنَّ مِنَّا النَّبِیَّ الْمُخْتَارَ مُحَمَّداً وَ مِنَّا الصِّدِّیقُ وَ مِنَّا الطَّیَّارُ وَ مِنَّا أَسَدُ اللَّهِ وَ أَسَدُ رَسُولِهِ وَ مِنَّا سِبْطَا هَذِهِ الْأُمَّةِ مَنْ عَرَفَنِی فَقَدْ عَرَفَنِی وَ مَنْ لَمْ یَعْرِفْنِی أَنْبَأْتُهُ بِحَسَبِی وَ نَسَبِی۔
’’ اے لوگو! ہمیں چھ چیزیں عطا کی گئی ہیں اور سات چیزوں سے فضیلت بخشی گئی ہے۔ ہمیں چھ چیزیں جو دی گئیں ہیں وہ ہیں علم حلم ، جواں مردی ، فصاحت ، شجاعت اور مومنین کے دلوں میں ہماری محبت۔
جن سات چیزوں سے ہمیں فضیلت عطا کی گئی ہے وہ یہ کہ رسول مختارؐ  ہم میں سے ہیں، صدیق ( سب سے پہلے رسول خداؐ کی تصدیق کرنے والے حضرت علیؑ ) ہم میں سے ہیں ، ہم ہی میں طیار ( جعفر طیارؒ) ہیں، ہم ہی میں سے شیر خدا ( حضرت علیؑ) اور شیر رسولؐ (حضرت حمزہؒ) ہیں۔ ہم ہی میں اس امت کےد و سبط ( فرزند ان رسولؐ،حسنؑ و حسینؑ) ہیں، جو مجھے جانتا ہے وہ بہرحال جانتا ہے جو نہیں جانتا تو میں اس کو اپنے حسب و نسب سے آگا ہ کررہا ہوں۔ 
أَیُّهَا النَّاسُ أَنَا ابْنُ مَکَّةَ وَ مِنَی أَنَا ابْنُ زَمْزَمَ وَ الصَّفَا أَنَا ابْنُ مَنْ حَمَلَ الرُّکْنَ بِأَطْرَافِ الرِّدَا أَنَا ابْنُ خَیْرِ مَنِ ائْتَزَرَ وَ ارْتَدَی أَنَا ابْنُ خَیْرِ مَنِ انْتَعَلَ وَ احْتَفَی أَنَا ابْنُ خَیْرِ مَنْ طَافَ وَ سَعَی أَنَا ابْنُ خَیْرِ مَنْ حَجَّ وَ لَبَّی أَنَا ابْنُ مَنْ حُمِلَ عَلَی الْبُرَاقِ فِی الْهَوَاءِ أَنَا ابْنُ مَنْ أُسْرِیَ بِهِ مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی أَنَا ابْنُ مَنْ بَلَغَ بِهِ جَبْرَئِیلُ إِلَی سِدْرَةِ الْمُنْتَهَی أَنَا ابْنُ مَنْ دَنا فَتَدَلَّی فَکانَ قابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنی أَنَا ابْنُ مَنْ صَلَّی بِمَلَائِکَةِ السَّمَاءِ أَنَا ابْنُ مَنْ أَوْحَی إِلَیْهِ الْجَلِیلُ مَا أَوْحَی أَنَا ابْنُ مُحَمَّدٍ الْمُصْطَفَی أَنَا ابْنُ عَلِیٍّ الْمُرْتَضَی أَنَا ابْنُ مَنْ ضَرَبَ خَرَاطِیمَ الْخَلْقِ حَتَّی قَالُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ۔
’’ اے لوگو! میں مکہ و منیٰ کا فرزند ہوں، میں زمزم و صفا کا مرزند ہوں، میں اس بہترین انسان کا فرزند ہوں، جس نے اپنی عبا بچھا کر حجر الاسود کو اس کی جگہ پر رکھا، میں اس بہترین انسان کا فرزند ہوں جس نے لباس احرام پہنا، میں اس بہترین انسان کا فرزند ہوں جس نے جوتے پہنے اور طواف کے لئے برہنہ پا ہوا۔ میں اس بہترین انسان کا فرزند ہوں جس نے طواف کیا اور صفا و مروہ میں سعی کی، میں اس بہترین انسان کا فرزند ہوں جو حج بجالایا، اور لبیک کہی، میں اس کا فرزند ہوں جسے مکہ سے مسجد الاقصیٰ تک سیر کرائی گئی ، میں اس کا فرزند ہوں جو شب معراج سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچا، میں اس کا فرزند ہوں جو دو کمانوں سے بھی کم فاصلے تک خدا سے قریب ہوا۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کی اقتدا آسمان کے فرشتوں نے کی۔ میں اس کا فرزند ہوں کہ خدائے تعالیٰ نے اس پرجو وحی کرنا تھی وہ وحی کی ۔ میں خدا کے برگزیدہ رسول محمدؐ کا فرزند ہوں۔ میں علی مرتضیٰؑ کا فرزند ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جس نے لوگوں کی ناکوں پر ضربیں لگائیں یہاں تک کہ انہوں نے ’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘ کہا ( خدا کے سوا کوئی معبود نہیں)۔
أَنَا ابْنُ مَنْ ضَرَبَ بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللَّهِ بِسَیْفَیْنِ وَ طَعَنَ بِرُمْحَیْنِ وَ هَاجَرَ الْهِجْرَتَیْنِ وَ بَایَعَ الْبَیْعَتَیْنِ وَ قَاتَلَ بِبَدْرٍ وَ حُنَیْنٍ وَ لَمْ یَکْفُرْ بِاللَّهِ طَرْفَةَ عَیْنٍ أَنَا ابْنُ صَالِحِ الْمُؤْمِنِینَ وَ وَارِثِ النَّبِیِّینَ وَ قَامِعِ الْمُلْحِدِینَ وَ یَعْسُوبِ الْمُسْلِمِینَ وَ نُورِ الْمُجَاهِدِینَ وَ زَیْنِ الْعَابِدِینَ وَ تَاجِ الْبَکَّائِینَ وَ أَصْبَرِ الصَّابِرِینَ وَ أَفْضَلِ الْقَائِمِینَ مِنْ آلِ یَاسِینَ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِینَ أَنَا ابْنُ الْمُؤَیَّدِ بِجَبْرَئِیلَ الْمَنْصُورِ بِمِیکَائِیلَ أَنَا ابْنُ الْمُحَامِی عَنْ حَرَمِ الْمُسْلِمِینَ وَ قَاتِلِ الْمَارِقِینَ وَ النَّاکِثِینَ وَ الْقَاسِطِینَ وَ الْمُجَاهِدِ أَعْدَاءَهُ النَّاصِبِینَ وَ أَفْخَرِ مَنْ مَشَی مِنْ قُرَیْشٍ أَجْمَعِینَ وَ أَوَّلِ مَنْ أَجَابَ وَ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَ لِرَسُولِهِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَ أَوَّلِ السَّابِقِینَ وَ قَاصِمِ الْمُعْتَدِینَ وَ مُبِیدِ الْمُشْرِکِینَ وَ سَهْمٍ مِنْ مَرَامِی اللَّهِ عَلَی الْمُنَافِقِینَ وَ لِسَانِ حِکْمَةِ الْعَابِدِینَ وَ نَاصِرِ دِینِ اللَّهِ وَ وَلِیِّ أَمْرِ اللَّهِ وَ بُسْتَانِ حِکْمَةِ اللَّهِ وَ عَیْبَةِ عِلْمِهِ
میں اس کا فرزند ہوں جو رسول خداؐ کےہمراہ  ڈٹا رہا اور دشمنوں سے جنگ کی، جس نے دو نیزوں سے جنگ کی ، دوبار ہجرت کی، میں اس کا فرزند ہوں جس نے دوبار بیعت کی ، جنگ بدر و حنین میں دشمنوں سے جنگ کی اور ایک لمحے کے لئے بھی کفر اختیار نہ کیا۔ میں صالح المومنین کا فرزند ہوں، وارث رسولؐ کا فرزند ہوں، میں ملحدوں کو تہس نہس کرنے والے کا فرزند ہوں، میں مسلمانوں کے یعسوب کا فرزند ہوں، مجاہدوں کے نور اور عابدوں کی زینت، گریہ کرنے والے تاج اور سب سے زیادہ صابر، پروردگار کے رسول آل یٰسین میں سب سے افضل نمازی کا فرزند ہوں۔ میں مارقین(اہل جمل) ، ناکثین (اہل صفین) اور قاسطین (اہل نہروان) سے قتال کرنے والے ، دشمنان ناصبی سے جہاد کرنے والے ، تمام قریش میں سب سے زیادہ مایہ ناز اور مومنین میں سب سے پہلے خدا و رسولؐ کی صدا پر لبیک کہنے والے سابقین میں اول ،کینہ توزوں کی کمر توڑنے والے مشرکین کو خاک چٹانے والے ، منافقین کے خلاف اللہ کا چلایا ہوا تیر ، عابدوں کی حکمت سے بھرپور زبان ، دین خدا کے مددگار ، امر خدا کے ولی ،حکمت خدا کا باغ اور علم خدا کا مرکز۔
سَمِحٌ سَخِیٌّ بَهِیٌّ بُهْلُولٌ زَکِیٌّ أَبْطَحِیٌّ رَضِیٌّ مِقْدَامٌ هُمَامٌ صَابِرٌ صَوَّامٌ مُهَذَّبٌ قَوَّامٌ قَاطِعُ الْأَصْلَابِ وَ مُفَرِّقُ الْأَحْزَابِ أَرْبَطُهُمْ عِنَاناً وَ أَثْبَتُهُمْ جَنَاناً وَ أَمْضَاهُمْ عَزِیمَةً وَ أَشَدُّهُمْ شَکِیمَةً أَسَدٌ بَاسِلٌ یَطْحَنُهُمْ فِی الْحُرُوبِ إِذَا ازْدَلَفَتِ الْأَسِنَّةُ وَ قَرُبَتِ الْأَعِنَّةُ طَحْنَ الرَّحَی وَ یَذْرُوهُمْ فِیهَا ذَرْوَ الرِّیحِ الْهَشِیمَ لَیْثُ الْحِجَازِ وَ کَبْشُ الْعِرَاقِ مَکِّیٌّ مَدَنِیٌّ خَیْفِیٌّ عَقَبِیٌّ بَدْرِیٌّ أُحُدِیٌّ شَجَرِیٌّ مُهَاجِرِیٌّ مِنَ الْعَرَبِ سَیِّدُهَا وَ مِنَ الْوَغَی لَیْثُهَا وَارِثُ الْمَشْعَرَیْنِ وَ أَبُو السِّبْطَیْنِ الْحَسَنِ وَ الْحُسَیْنِ ذَاکَ جَدِّی عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ۔
وہی جو بخشش کرنےو الا جواں مرد، داتا، وجیہ، ہوشمند ، پاک و پاکیزہ مجازی مرضیٔ خدا ، پیشگام ، بلند ہمت، رہبر، صابر ، بہت روزہ رکھنے والا، مہذب بہت عبادت گزار ، اصلاب کا قطع کرنےو الا، کافروں کی ٹولی پراگندہ کرنےو الا، سب سے زیادہ ہمت والا، انتہائی قوی دل اور صلابت والا، کافروں کے مقابل شیر دلاور، جس نے اچھلتے نیزوں اور جنگی بہادروں کے قریب کافروں کو سنگ آسیا کی طرح روند ڈالا، اور یوں تہس نہس کیا جیسے تیز ہوا بھوسہ اڑا جاتی ہے، و ہ حجازی شیر، عراق کا یکہ تاز، مکی ، مدنی ، حیف، منیٰ اور مکہ کا معزز ، بلد واحد کا شیر مرد، جو شجرۂ رضوان کا یکتا تھا، عربوں کا سردار ، جنگ کا شیر دونوں مشعر کا وارث، حسن و حسینؑ دونوں فرزندان رسولؐ کا باپ ، یہ ہیں میرے جد علیؑ بن ابی طالبؑ۔
(بیشتر اردو ترجمہ مولانا سید علی اختر رضوی شعورؔ گوپال پوری مرحوم )
 امام نے اپنے جد رسول اور علی مرتضیٰ کو پہنچوانے کے بعد اپنے والد بزرگوار کا تعارف کرایا۔پھر فرمایا:میں فاطمہ زہرا ؑکا فرزند ہوں، میں سردار نساء عالمینؑ کا فرزند ہوں، میں خدیجۃ الکبریٰؑ کا فرزند ہوں، میںا س کا فرزند ہوں جسے ظلم سے قتل کیا گیا۔ میں اس کا فرزند ہوں جسے پس گردن سے ذبح کیا گیا، میںا س کا فرزند ہوں جسے پیاسا قتل کیا گیا۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کی لاش کربلا میں پڑی ہوئی ہے، میں اس کا فرزند ہوں جس کا عمامہ اور ردا کولوٹ لیا گیا۔
امام سجادؑ اسی طرح تقریرفرماتے رہے اور لوگ داڑھیں مار مار کر رورہے تھے ۔ صدائے گریہ و نالہ بلند تھی۔ یزید ڈرا کہ کہیں فتنہ و انقلاب نہ برپا ہوجائے ، موذن کو حکم دیا : اذان دے۔موذن نے کہا: اللہ اکبر اللہ اکبر 
امام سجادؑ نے فرمایا: ( خدا سے بڑی کوئی چیز نہیں) موذن نے کہا: اشہدان لاالٰہ الا اللہ
امام سجادؑ نے فرمایا: اس بات کی شہادت دیتے ہیں میرے تمام روئیں، میری جلد، میرا گوشت اور میرا تمام خون۔
موذن کے کہا: اشہد ان محمداً رسول اللہ
امام سجادؑ نے موذن سے فرمایا: تجھے انہیں محمدؐ کی قسم ذرا خاموش ہوجاتاکہ میں ایک بات کہوں ، پھر آپ نے منبر سے یزید کومخاطب کیا :یا یزید! محمد ھٰذا جدی ام جدک؟اے یزید محمدؐ تیرے جد ہیں یا میرے جد ہیں؟
اگر تو کہے کہ تیرے ہیں تو نے جھوٹ کہا اور کفر بکا، اور اگر تیرا اعتقاد ہے کہ وہ میرے جد ہیں تو تونے ان کی عترت کو کیوں قتل کیا؟
 کیوں میرے باپ کو قتل کیا اور ان کے حرم کو قیدی بنایا۔
 یہ فرما کر اپنے ہاتھوں سے گریبان چاک کیا اور رونے لگے اس کے بعد لوگوں سے خطاب کیا :
اے لوگو! کیا تم میں کوئی ہے جس کا جد خدا کا رسول ہو؟
 یہ سنتے ہی مجمع سے صدائے گریہ اور تیز ہوگئی۔
پھر فرمایا: خدا کی قسم! دنیا بھر میں میرے سوا کوئی نہیں جس کے جد رسولؐ خدا ہوں، پھر کیوں اس شخص ( یزید) نے میرے باپ کو قتل کیا اور رومیوں کی طرح قیدی بنایا۔
اے یزید! اس کرتوت کے بعد بھی تو کہتا ہے کہ محمد خداؐ کے رسول ہیں؟ قبلہ رخ بیٹھا ہے تجھ پر تف ہے ، قیامت میں میرے جد اور پدر بزرگوار تجھ پر دعویٰ کریں گے۔ 
 یزید چلایا: اے موذن اقامت کہو
مجمع میں ہاؤ ھو بلند ہوا، اعتراض کی آوازیں ابھرنے لگیں۔ بعض لوگوں نے یزید کے پیچھے نماز پڑھی بعض نے نہیں پڑھی اور منتشر ہوگئے۔ ( مناقب جلد ۴ صفحہ ۱۶۴۔کامل بہائی جلد ۲ صفحہ ۳۰۰)
امام سجادؑ نے بحالت اسیری ظالم کے دربار میں فضائل آل محمد علیہم السلام کے دریابہائے اور ان کے مصائب اس طرح بیان کئے کہ دربار میں آنسوؤں کا سیل جاری ہوگیا جو یزید ی حکومت کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گیا ۔ بقول جوشؔ ملیح آبادی مرحوم
یوں بجھا کر رکھ دیئے آہوںنے دولت کے دیئے
آنسوؤں میں بہہ گئے طبل و علم کے دبدبے

رسالہ حقوق حضرت امام زین العابدین علیہ السلام

باسمہ تعالیٰ
رسالہ حقوق  حضرت امام زین العابدین علیہ السلام
ترجمہ سید محمد حسنین باقری

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام، پیغمبر اکرم ﷺ کے چوتھے جانشین برحق یعنی امیر المومنین، امام حسن و امام حسین علیہم السلام کے بعد ہمارے چوتھے امام ہیں۔آپ اپنے آباؤ اجداد کی طرح امامِ منصوص، معصوم، اعلم زمانہ اور افضل کائنات تھے۔
آپ کی ولادت باسعادت ۳۸ ہجری میں ہوئی تھی اس لحاظ ہے اس سال یعنی ۱۴۳۸ھ میں ولادت کو ۱۴ سوسال مکمل ہوگئے۔ اس انتہائی پُرمسرت موقع پر ضرورت ہے کہ آپؑ کی الٰہی تعلیمات سے زیادہ سے زیادہ آشنا ہواجائے تاکہ اس کی روشنی میں اپنی دینی و دنیوی زندگی کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لئے بھی حقّ و حقیقت کو پہچاننے کا موقع فراہم کیا جاسکے۔  
آج جہاں ہر طرف حقوق بشر کے صرف نعرے نظر آرہے ہیں ، ضرورت ہے کہ معلم انسانیت ، نمائندہ الٰہی، جانشین پیغمبرؐ کے ذریعہ بیان کئے گئے واقعی و حقیقی انسانی حقوق کو پہچانیں اس کے ذریعہ ایک طرف انسانیت کو پروان چڑھائیں تو دوسری طرف حقیقی اسلام کو پہچانتے ہوئے بنام اسلام انسانی حقوق پائمال کرنے والوں کے چہروں پر پڑی ہوئی نقابوں سے دھوکا کھانے کے بجائے استعمار اور انسانی دشموں کے ہاتھوں استعمال ہونے والے ان آلۂ کار پہچانیں۔
امام سجادؑ سے منسوب ’’رسالۂ حقوق‘‘ جس میں امام علیہ السلام نے انسان پر عائد ہونے والے حقوق کو بیان فرمایاہے۔ یہ رسالہ متعدد کتابوں میں نقل ہوا ہے۔ تحف العقول، ابن شعبہ حرّانی(متوفیٰ ۳۸۱ھ)، من لا یحضرہ الفقیہ اور الخصال، محمد بن علی بن بابویہ المعروف شیخ صدوقؒ(م ۳۸۲ھ) جیسی تین اہم کتابوں میں یہ رسالہ نقل ہواہے۔ صاحب تحف العقول نے اس رسالہ کو دیگر روایات کی طرح بغیر سند کے ذکر کیا ہےلیکن مرحوم شیخ صدوقؒ نے سند متصل سے روایت کیا ہے۔
تینوں کتابوں میں الفاظ و عبارات میں معمولی سا اختلاف بھی ہے مثلاً من لا یحضرہ الفقیہ میں اس رسالہ کا مقدمہ بیان نہیں ہوا بلکہ ’حق اللہ الاکبر‘ سے آغاز ہے۔ خصال کی عبارت میں شرح بھی ہے۔
گرچہ متعدد افراد نے اس رسالہ کا اردو ترجمہ کیا ہے اس وقت بھی بعض ترجمے بازار میں موجود ہیں لیکن چودہ سو سالہ ولادت کے اہم موقع پر امامؑ کے اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے اور اس سال میں امام کا جشن منانے والوں کے قافلے میں شامل ہونے کے لئے ترجمہ آپ کے سامنے ہے نقائص و غلطیوں کا اعتراف ہے اپنی حد تک کوشش کی ہے ۔خدا سے دعا ہے کہ اس ناچیز عمل کو قبول فرمائے۔
سید محمد حسنین باقری
۱۵؍جمادی الاولیٰ ۱۴۳۸ھ
باسمہ تعالیٰ

رسالہ حقوق

(۱) خداوند عالم کا حق:
فأَمَّا حَقُّ اللهِ الأَكْبَرُ فَإنَّكَ تَعْبُدُهُ لا تُشْرِكُ بهِ شَيْئاً، فَإذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ بإخلاص جَعَلَ لَكَ عَلَى نَفْسِهِ أَنْ يَكفِيَكَ أَمْرَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَيَحْفَظَ لَكَ مَا تُحِبُّ مِنْهَما.
 خداوند عالم کا تمہارے اوپر حق یہ ہے کہ: 
اسی کی عبادت کرو، اس کے سوا کسی کو بھی معبود قرار نہ دو،ہر گز خدا کا شریک کسی کو نہ بناؤ، اس لئے کہ اگر خدا کا حق ادا کرتے ہوئے خلوص و صدق دل سے اسی کی عبادت کروگے تو اس کام کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ تمہاری دنیا و آخرت دونوں کو سنوار دے گا دونوں جگہ وہ تمہارے آئے گا۔ اور دنیا و آخرت میں جو بھی چاہو گے وہ تمہارے لئے محفوظ کردے گا۔ 
(۲) نفس کا حق:
 وَأَمَّا حَقُّ نَفْسِكَ عَلَيْكَ فَأَنْ تَسْتَوْفِيَهَا فِي طَاعَةِ اللهِ فَتُؤَدّي إلَى لِسَانِكَ حَقَّهُ وَإلَى سَمْعِك حَقَّهُ وَإلَى بَصَرِكَ حَقّهُ وَإلَى يَدِكَ حَقَّهَا وَإلَى رِجْلِك حَقَّهَا وَإلَى بَطْنِكَ حَقَّهُ وَإلَى فَرْجِكَ حَقَّهُ وَتَسْتَعِينَ باللهِ عَلَى ذَلِك.
 تمہارے اوپر تمہارے نفس کا حق یہ ہے کہ اس کو خداوند عالم کی اطاعت و بندگی میں لگاؤ، اس کی مخالفت سے نفس کو بچاؤ اس طرح سے کہ اپنی زبان ، کان ، آنکھ،ہاتھ، پیر، شکم اور زیر شکم کے ذریعہ ان کے حقوق ادا کرو اور اس بارے میں خدا سے مدد طلب کرو۔ 
(۳) زبان کا حق: 
وَأَمَّا حَقُّ اللّسَان فَإكْرَامُهُ عَنِ الْخَنَى* وتَعْوِيدُهُ عَلَى الْخَيْرِ وَحَمْلُهُ عَلَى الأَدَب وَإجْمَامُهُ* إلاّ لِمَوْضِعِ الْحَاجَةِ وَالْمَنْفَعَةِ لِلدِّينِ وَالدُّنْيَا وَإعْفَاؤُهُ عَنِ الْفُضُول اُلشَّنِعَةِ الْقَلِيلَةِ الْفَائِدَةِ الَّتِي لا يُؤْمَنُ ضَرَرُهَا مَعَ قِلَّةِ عَائِدَتِهَا.وَيُعَدُّ شَاهِدَ الْعَقْلِ وَالدَّلِيلَ عَلَيْه وَتَزَيُّنُ الْعَاقِلَ بعَقْلِهِ حُسْنُ سِيرَتِهِ فِي لِسَانِهِ.
وَلا قُوَّةَ إلا باللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ.
زبان کا حق یہ ہے کہ اس کو برائی اور بے ہودہ گوئی سے محفوظ رکھو اور اسے نیک و شائستہ بات کہنے کا عادی بناؤ اس کو با ادب بناؤ ، اس کو ضرورت کے وقت یادین و دنیا کے فائدے ہی کےلئے استعمال کرو ورنہ اسے بند رکھو۔ 
اپنی زبان کو پُرگوئی، فضول و بے فائدہ باتوں سے محفوظ رکھو، اس لئے کہ زبان عقل کی گواہ اور اس پر دلیل ہوتی ہے یعنی زبان کے ذریعہ عقل کا پتا چلتا ہے۔ اور عقل مند کا کمال اپنی زبان کو عقلی باتوں اور زبان کے ذریعہ نیک کردار  پیش کرنے میں ہے۔ خدائے علی و عظیم کے سوا کسی کی جانب سے قوت و مدد نہیں ہے۔ 
(۴) کان کا حق:
وَأَمَّا حَقُّ السَّمْعِ فَتَنْزِيهُهُ عَنْ أَنْ تَجْعَلَهُ طَرِيقًا إلَى قَلْبكَ إلا لِفُوهَة كَرِيمَة تُحْدِثُ فِي قَلبكَ خَيْرًا أَو تَكْسِبُ خُلُقًا كَرِيمًا فَإنَّهُ بَابُ الْكَلامِ إلَى الْقَلْب يُؤَدِّي إلَيْهِ ضُرُوبُ الْمَعَانِي عَلَى مَا فِيهَا مِن خَيْر أَو شَرِّ.وَلَا قُوَّۃَ الّا بِاللہِ ۔
’و حقّ السَّمعِ تَنْزِیْھُہ عَن سمَاعِ الْغِیْبَۃِ مَا لَا یَحِلّ سماعہ‘
 کان کا حق یہ ہے کہ اس کو اپنے دل تک اچھی خبر پہنچانے یا نیک کردار اختیار کرنے کا ذریعہ بناؤ اس لئے کہ کان دل کا دروازہ اور اس تک پہنچنے کا راستہ ہے یہی اس تک اچھائی یا برائی پہنچاتا ہے خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں۔ 
کان کا حق یہ بھی ہے کہ اس کو غیبت سنانے اور ایسی باتیں سنانے سے جن کا سننا جائز نہیں ہے، محفوظ رکھو۔ 
(۵)آنکھ کا حق: 
 وَأَمَّا حَقُّ بَصَرِكَ فَغَضُّهُ عَمَّا لا يَحِلُّ لَكَ وتَرْكُ ابْتِذَالِهِ إلاّ لِمَوضِعِ عِبْرَة تَسْتَقْبلُ بهَا بَصَرًا أَو تَسْتَفِيدُ بهَا عِلْمًا، فَإنَّ الْبَصَرَ بَابُ الِاعْتِبَارِ.
’و حقّ البصر أن تغضّہ عما لا یحل لک و تعتبر بالنظر بہ‘
تمہاری آنکھ کا حق تمہارے اوپر یہ ہے کہ اسے ناجائز و حرام چیزوں کے دیکھنے سے بند رکھو اور اس کی حفاظت کرو اس کو صرف عبرت حاصل کرنے کےلئے استعمال کرو جس سے صاحب بصیر ت ہوجاؤ یا اس سے علم حاصل کرو، اس کو ذریعۂ علم بناؤ اس لئے کہ آنکھ عبرت کا وسیلہ ہے۔
 اور آنکھ کا حق یہ بھی ہے کہ اس کو ہر طرح کی ناجائز چیز دیکھنے سے بند رکھو اور آنکھ کے ذریعہ عبرت حاصل کرو۔ 
(۶)پیر کاحق:
وَأَمَّا حَقُّ رِجْلَيْكَ فَأَنْ لا تَمْشِي بهِمَا إلَى مَا لا يَحِلُّ لَكَ وَلا تَجْعَلْهُمَا مَطِيَّتَكَ فِي الطَّرِيقِ الْمُسْتَخِفَّةِ بأَهْلِهَا فِيهَا فَإنَّهَا حَامِلَتاكَ وَسَالِكتانَ بكَ مَسْلَكَ الدِّينِ وَالسَّبْقُ لَكَ، وَلا قُوَّةَ إلا بالله.
’فبھما تقف علی الصراط فانظر ان لا تزلّ بک فتردّی فی النار‘
تمہارے پیروںکا حق تمہارے اوپر یہ ہے کہ ان کے ذریعہ کسی ایسی جگہ نہ جاؤ جہاں جانا تمہارے لئے جائز نہیں ہے۔ اور انہیں ایسے راستہ پر نہ چلاؤ جس پر چلنے والا پشیمان یا شرمندہ ہو اس لئے کہ یہی پیر تم کو اٹھائے رہتے ہیں یہی تمہیں دین کی طرف لے جانے والے ہیں اور دین کی جانب سبقت کا سبب بنتے ہیں ۔ خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیں۔
 انہیں پیروں کے ذریعہ پل صراط پر کھڑے ہوگے لہٰذا توجہ دو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں لڑ کھڑا دیں اور تمہیں آتش جہنم میں گرادیں۔ 
(۷) ہاتھ کا حق:
وَأَمَّا حَقُّ يَدِكَ فَأَنْ لا تَبْسُطَهَا إلَى مَا لا يَحِلُّ لَكَ فَتَنَالَ بمَا تَبْسُطُهَا إلَيْهِ مِنَ اللهِ الْعُقُوبَةَ فِي الآجِلِ، وَمِنَ النَّاسِ بلِسَانِ اللائِمَةِ فِي الْعَـاجِلِ، وَلا تَقْبضَهَا مِمَّا افْتَرَضَ اللهُ عَلَيْهَا وَلَكِنْ تُوقّرَِهَا بقَبْضِهَا عَنْ كَثِير مِمَّا يَحِلُّ لَهَا وبَسْطِهَا إلَى كَثِير مِمَّا لَيسَ عَلَيْهَا، فَإذَا هِيَ قَدْ عُقِلَتْ وَشُرِّفَتْ فِي الْعَاجِلِ وَجَبَ لَهَا حُسْنُ الثَّوَاب فِي الآجِلِ.
 تمہارے اوپر تمہارے ہاتھوں کا حق یہ ہے کہ انہیں کسی ایسی چیز کی طرف نہ بڑھا ؤ جو تمہارے لئے جائز نہیں ہے۔ ورنہ آئندہ عذاب الٰہی میں گرفتار ہوگے اور لوگوں کی زبان ملامت سے بھی محفوظ نہیں رہوگے۔ خیال رکھو کہ انہیں واجب کاموں سے نہ روکو اور ہاتھوں کا اس طرح احترام کرو کہ اس کو حرام کاموں سے بچاؤ اور اس سے بے ضرر کاموں کو انجام دو۔ اس لئے کہ اگر ہاتھ اس دنیا میں حرام سے محفوظ رہیں اور انھیں عقل و منطق کے مطابق استعمال کیا جائے تو انسان آخرت میں بہترین ثواب کا مستحق ہوگا۔
(۸) پیٹ کا حق: 
وَأَمَّا حَقُّ بَطْنِكَ فَأَنْ لا تَجْعَلَهُ وِعَاءً لِقَلِيل مِنَ الْحَرَامِ وَلا لِكَثِير، وَأَنْ تَقْتَصِدَ لَهُ فِي الْحَلالِ وَلا تُخرِجَهُ مِنْ حَدِّ التَّقْوِيَةِ إلَى حَدِّ التَّهْوِينِ وَذَهَاب الْمُرُوَّةِ، وَضَبْطُهُ إذَا هَمَّ بالْجُوعِ والظمأ فَإنَّ الشَّبْعَ الْمُنْتَهِي بصَاحِبهِ إلَى التُّخمِ مَكْسَلَةٌ وَمَثْبَطَةٌ وَمَقْطَعَةٌ عَنْ كُلِّ برِّ وَكَرَم. وَإنَّ الري الْمُنْتَهِي بصَاحِبهِ إلَى السُّكْرِ مَسْخَفَةٌ وَمَجْهَلَةٌ وَمَذْهَبَةٌ لِلْمُرُوَّةِ.
تمہارے پیٹ کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ اسے حرام چیزوں کا ظرف قرار نہ دو چاہے وہ حرام چیز کم ہو یا زیادہ ۔ اور حلال میں بھی میانہ روی کا خیال رکھو حد سے تجاوز نہ کرو۔ تقویت کی حد سے شکم پری اور بے مروتی کی حد تک نہ پہنچو۔ جب بھی شکم بھوکا یا پیاسا ہو تو کنٹرول کرو اس لئے کہ ضرورت سے زیادہ پیٹ کا بھرنا پیٹ کو نقصان پہنچاتا ہے، سستی کا سبب ہوتا ہے کہ جس کے نتیجے میں ہر نیک اور اچھے کام سے محروم رہ جاتے ہو۔ نشہ آور اور مست کرنے والی چیز پینا اپنی اہمیت کو کم کرناہے جو جہالت ونادانی اور بے مروتی کا سبب ہے۔ 
(۹) شرمگاہ کا حق:
وَأَمَّا حَـقُّ فَرْجِكَ فَحِفْظُهُ مِمَّا لا يَحِلُّ لَكَ وَالاسْتِعَانَةُ عَلَيْهِ بغَضِّ الْبَصَرِ – فَإنَّهُ مِنْ أَعْوَنِ الأَعْوَانِ- وَكَثْرَةُ ذِكْرِ الْمَوتِ وَالتَّهَدُّدِ لِنَفْسِكَ باللهِ وَالتَّخوِيفِ لَهَا بهِ، وَباللهِ الْعِصْمَةُ وَالتَّأْيِيدُ وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إلا بهِ.
’و اما حق فَرْجک أن تُحصنہ عن الزنا و تحفظہ من أن ینظر الیہ‘
 تمہاری شرمگاہ کا تمہارے اوپر حق یہ ہے کہ اس کو ہر اس کام سے محفوظ رکھو جو تمہارے لئے جائز نہیں ہے اس کےذریعہ محرمات سے چشم پوشی کرنے میں مدد حاصل کرو۔ اس لئے کہ یہ بہترین مددگار ہے۔ اور موت کو بہت زیادہ یاد کرنے اور نفس کو خوف خدا دلانے کے ذریعہ مدد حاصل کرو اس راہ میں محفوظ رہنا اور تائید کی توفیق خدا ہی کی جانب سے ہے خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔ 
اور تمہاری شرمگاہ کا تمہارے اوپر حق یہ بھی ہے کہ اس کو زنا سے محفوظ رکھو اور نامحرم کی نگاہ سے چھپاؤ۔
ثم حقوق الأفعال(اعمال و افعال کے حقوق):
(۱۰) نماز کا حق:
فَأَمَّا حَقُّ الصَّلاةِ فَأَنْ تَعْلَمَ أنّهَا وِفَادَةٌ إلَى اللهِ وَأَنَّكَ قَائِمٌ بهَا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ، فَإذَا عَلِمْتَ ذَلِكَ كُنْتَ خَلِيقًا أَنْ تَقُومَ فِيهَا مَقَامَ الذَّلِيلِ الرَّاغِب الرَّاهِب الْخَائِفِ الرَّاجِي الْمِسْكِينِ الْمُتَضَرِّعِ الْمُعَظِّمِ مَنْ قَامَ بَيْنَ يَدَيْهِ بالسُّكُونِ وَالإطْرَاقِ وَخُشُوعِ الأَطْرَافِ وَلِينِ الْجَنَاحَ وَحُسْنِ الْمُنَاجَاةِ لَهُ فِي نَفْسِهِ وَالطَّلَب إلَيْهِ فِي فَكَاكِ رَقَبَتِكَ الَّتِي أَحَاطَتْ بهِ خَطِيئَتُكَ وَاسْتَهلَكَتْهَا ذُنُوبُكَ. وَلا قُوَّةَ إلا باللهِ.
 نماز کے حق کے سلسلے میں تمہیں یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ نماز تمہیں خدا کے حضور پہنچاتی ہے اور نماز میں تم خدا کے روبرو ہوتے ہو تو تمہیں اس طرح کھڑے ہونا چاہئے جس طرح ایک ذلیل و ناچیز، عاجز و مشتاق، حیران و خوف زدہ، امیدوار و محتاج اور تضرع و زاری کرنے والا کھڑا ہوتا ہے۔ جس کے سامنے تم کھڑے ہو اس کی عظمت و بزرگی سمجھتے ہوئے سکون و اطمینان کے ساتھ سر جھکائے اعضاء کے خشوع اور فروتنی کے ساتھ اس کی عظمت کا لحاظ رکھو اور اپنے دل میں اس سے بہترین طریقہ سے مناجات و دعا کے ذریعہ اپنی گردن کو خطاؤں سے آزاد کرنے کی التماس کرو جو اس کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اور ان گناہوں کی بخشش کی دعا کرو اور خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔
(۱۱) روزہ کا حق:
وَأَمَّا حَقُّ الصَّوْمِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنَّهُ حِجَابٌ ضَرَبَهُ اللهُ عَلَى لِسَانِكَ وَسَمْعِكَ وبَصَرِكَ وَفَرْجِكَ وبَطْنِكَ لِيَسْتر’َكَ بهِ مِن النَّارِ وَهَكَذَا جَاءَ فِي الْحَديثِ “الصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ” فَإنْ سَكَنَتْ أَطْرَافُـكَ فِي حَجَبَتِهَا* رَجَوْتَ أَنْ تَكُونَ مَحْجُوبًا. وَإنْ أَنْتَ تَرَكْتَهَا تَضْطَرِبُ فِي حِجَابهَا وتَرْفَعُ جَنَبَاتِ الْحِجَاب فَتُطّلِعُ إلَى مَا لَيْسَ لَهَا بالنَّظْرَةِ الدَّاعِيـَةِ لِلشَّهْوَةِ وَالقُوَّةِ الْخَارِجَةِ عَنْ حَدِّ التَّقِيَّةِ للهِ لَمْ تَأمَنْ أَنْ تَخرِقَ الْحِجَابَ وَتَخرُجَ مِنْهُ. وَلا قُوَّةَ إلا باللهِ.
 روزہ کا حق یہ ہے کہ جان لو روزہ ایک حجاب و پردہ ہے جسے خدا وند عالم نے تمہاری زبان، کان، آنکھ، شرمگاہ اور تمہارے پیٹ پر ڈال رکھا ہے تاکہ اس کے ذریعہ تمہیں دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھے لہذا اگر تم نے روزہ کو ترک کیا تو گویا خدا کے ڈالے ہوئے حجاب کو تم نے پارہ کیا۔ اسی طرح حدیث میں بھی بیان ہوا ہے کہ روزہ آتش دوزخ سے بچنے کی سپر ہے ۔ 
اگر اس حجاب سے تمہارے اعضاو جوارح کو سکون و آرام ملے تو امیدوار رکھو کہ تم پردے میں ہو اور اگر تم نے اس پردہ کا پاس و لحاظ نہ کیا تو تم نے خدا کے حجاب میں رخنہ ڈالا اور جب تم نے پردہ اٹھا دیا تو تمہاری نگاہ اس چیز کو دیکھے گی جس کو تمہیں نہیں دیکھنا چاہیے اور اس کے مقابلے اپنے اختیارات و کنٹرول کی طاقت کو کم کیا ہے۔ وہ تمہیں خدا کی پناہ سے نکال دے گی اور جہاں پردہ چاک ہوجائے اور تم اس سے باہر نکل جاؤ تو وہاں تمہیں خود کو محفوظ نہیں سمجھنا چاہیے۔ خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔
(۱۲) حج کا حق: 
وَأَمَّا حَقُّ الحَجّ أَنْ تَعْلَمَ أَنّه وِفادةٌ إلى رَبّكَ، و فِرارٌ إليه من ذُنوبكَ وفيهِ قبولُ تَوبتِكَ وقَضاءُ الفَرضِ الَّذي أوجَبَه الله عَليك.
حج کے حق کے بارے میں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ تمہارے ربّ کی جانب ایک سفر اور تمہارا اپنے گناہوں سے خدا کی طرف فرار ہے۔ اس میں تمہاری توبہ قبول ہوتی ہے اور اس واجب کو انجام دیتے ہو جس کو خدا نے تم پر واجب کیا ہے۔
(۱۳) صدقہ کا حق:
وَأَمَّا حَقُّ الصَّدَقَةِ فَأَنْ تَعْلَمَ أنَّها ذُخرُكَ عِنْدَ رَبكَ وَوَديعَتُكَ الَّتِي لا تَحْتَاجُ إلَى الإشْهَادِ، فَإذا عَلِمْتَ ذَلِك كُنْتَ بمَا اسْتَودَعْتَهُ سِرًّا أَوْثقَ بمَا اسْتَوْدَعْتَهُ عَلانِيَةً، وَكُنْتَ جَدِيرًا أَنْ تَكونَ أَسْرَرْتَ إلَيْهِ أَمْرًا أَعْلَنْتَهُ، وَكَانَ الأَمْرُ بَيْنَكَ وبَيْنَهُ فِيهَا سِرًّا عَلَى كُلِّ حَال وَلَمْ تَسْتَظْهِرْ عَلَيْهِ فِيمَا اسْتَوْدَعْتَهُ مِنْهَا بإشْهَادِ الأَسْمَاعِ وَالأَبْصَارِ عَلَيْهِ بهَا كَأنَّهَا أَوْثقُ فِي نَفْسِكَ لا كَأنَّكَ لا تثِقُ بهِ فِي تَأْديَةِ وَديعَتِكَ إلَيْكَ، ثُمَّ لَمْ تَمْتَنَّ بهَا عَلَى أَحَد لأَنّهَا لَكَ فَإذا امْتَنَنْتَ بهَا لَمْ تَأْمَنْ أَنْ تَكُونَ بهَا مِثْلَ تَهْـجِينِ* حَالِكَ مِنْهَا إلَى مَنْ مَنَنْتَ بهَا عَلَيْهِ لأَنَّ فِي ذلِكَ دَلِيلاً عَلَى أَنّكَ لَمْ تُرِدْ نفْسَكَ بهَـا، وَلَوْ أَرَدْتَ نفْسَكَ بهَا لَمْ تَمْتَنَّ بهَا عَلَى أَحَد. وَلا قُوَّةَ إلا باللهِ.
صدقہ کے حق کے بارے میں تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ تمہارے خدا کے پاس تمہارا ذخیرہ اور امانت ہے جس کے لئے گواہ کی ضرورت نہیں۔اور جب تم کو یہ بات معلوم ہوگئی تو جو صدقہ پوشیدہ طور پر چھپا کر دوگے اس سے تم اس صدقہ کی بنسبت زیادہ مطمئن رہوگے جو علی الاعلان اور کھلم کھلا دیتے ہو، تمہارے لئے مناسب یہی ہے کہ اب تک جو علانیہ او ر بطور آشکار انجام دیتے تھے اب اسے چھپا کر اور پوشیدہ طور پر انجام دو۔ بہر صورت تمہارے اور تمہارے صدقہ کے درمیان بات پوشیدہ ہی رہے۔ صدقہ دینے میں اپنے آنکھوں وکانوں کو بھی گواہ مت بناؤ یعنی اس طرح صدقہ دو کہ حتی تمہاری آنکھیں بھی نہ دیکھیں اور تمہارے کان بھی نہ سنیں، اس لئے کہ یہ ضروری نہیں ہے۔ اس صدقہ پر بھروسہ ہے کہ تمہاری طرف پلٹ آئے گا۔ اس شخص کی طرح نہ ہوجاؤ جو صدقہ کے پلٹنے پر بھروسہ نہیں رکھتا۔پھر اپنے صدقہ کے ذریعہ کسی پر احسان مت جتاؤکیونکہ وہ تمہارا ہی ہے اور اگر اس پر احسان جتاؤ گے تو تم اس بات سے محفوظ نہیں رہوگے کہ اس شخص کی طرح تم بھی بد حالی میں مبتلا ہوجاؤ جس میں وہ شخص مبتلا ہے جس پر تم نے احسان جتایا ہے۔
(۱۴)  قربانی کا حق: 
وَأمَّا حَقُّ الهَدْيِ فَأَنْ تُخلِصَ بهَا الإرَادَةَ إلَى رَبكَ وَالتَّعَرُّضَ لِرَحْمَتِهِ وَقَبُولِهِ ولا تُرِيدَ عُيُونَ النَّاظِرِينَ دُونهُ، فـَإذَا كُنْتَ كَذَلِكَ لَمْ تَكُنْ مُتَكَلِّفًا ولا مُتَصَنِّعًا وَكُنْتَ إنَّمَا تَقْصِدُ إلَى الله. وَاعْلَمْ أَنَّ الله يُرَادُ بالْيَسِيرِ وَلا يُرَادُ بالْعَسِيرِ كَمَا أَرَادَ بخَلْقِهِ التَّيْسِيرَ وَلَمْ يُرِدْ بهِمُ التَّعْسِيرَ، وَكَذَلِكَ التَّذَلُّلَ أَوْلَى بكَ مِن التَّدَهْقُن*ِ لأَنَّ الْكُلْفَةَ وَالْمَئونَةَ فِي الْمُتَدَهْقِنِينَ. فَأمَّا التَّذَلُّلُ وَالتَّمَسْكُنُ فَلا كُلْفَةَ فِيهِمَا وَلا مَئونةَ عَلَيْهِمَا لأَنَّهُمَا الْخِلْقَةَ وهُمَا مَوجُودَانِ فِي الطَّبيعَةِ. وَلا قُوَّةَ إلا باللهِ.
قربانی کا حق یہ ہے کہ تم اس کے ذریعہ اپنے پروردگار کی جانب اپنے ارادہ کو خالص کرو اور اس کی رحمت و قبولیت کے لئے ہی اسے انجام دو۔ قربانی کے ذریعہ تمہارا مقصد لوگوں کو دکھانا نہ ہونا چاہیے اگر اس بات کاخیال کرکے یہ عمل انجام دوگے تو خود کو زحمت و کلفت میں نہیں ڈالوگے، تمہارا عمل تصنع سے محفوظ  رہےگا اور اس عمل میں تمہارا مقصود خداوند عالم ہے۔
اور جان لو کہ خداوند عالم کی بارگاہ میں آسانی سے باریاب ہوا جاسکتا ہے اس میں زحمت و مشقت کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا کہ خدا نے اپنے بندوں کی آسانی چاہی ہے انھیں زحمت و مشقت میں مبتلا کرنا نہیں چاہا ۔ اسی طرح اس کی بارگاہ میں تمہارا فروتنی کرنا تمہارے غرور و تکبر کرنے سے بہتر ہے کیونکہ کلفت و مشقت، جاہ و منصب کے بھوکے لوگوں کے لئے اور انھیں کی جانب سے ہے لیکن فروتنی اور درویش منشی میں نہ کسی طرح کی زحمت ہے اور نہ کوئی خرچ، اس لئے کہ یہ فطرت و سرشت کے مطابق ہے اور مخلوق کی طبیعت میں موجود ہے۔ خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں۔
ثم حقوق الأئمة:راہنما و رہبروں کے حقوق
(۱۵) حاکم کا حق:
فأَمَّا حَقُّ سَائِسِكَ بالسُّلْطَانِ فَأَنْ تَعْلَمَ أنّكَ جُعِلْتَ لَهُ فِتنَة وأنَّهُ مُبْتَلىً فِيكَ بمَا جَعَلَهُ اللهُ لَهُ عَلَيْكَ مِنَ السُّلْطَانِ وَأَنْ تُخلِصَ لَهُ فِي النَّصِيحَةِ وَأَنْ لا تُمَاحِكَهُ* وَقَدْ بُسِطْتَ يَدُهُ عَلَيْكَ فَتَكُونَ سَبَبَ هَلاكِ نفْسِكَ وَهلاكِهِ.
وتَذَلَّلْ وتَلَطَّفْ لإِعْطَائِهِ مِنَ الرِّضَا مَا يَكُفُّهُ عَنْكَ وَلا يَضُرُّ بدينِكَ وتَسْتَعِينُ عَلَيْهِ فِي ذلِكَ باللهِ. ولا تُعَازَّهُ* ولا تُعَانِدَهُ فَإنَّكَ إنْ فَعَلْتَ ذلِكَ عَقَقْتَهُ* وَعَقَقْتَ نَفْسَكَ فَعَرَضْتَهَا لِمَكرُوهِهِ وَعَرَضْتَهُ لِلْهَلَكَةِ فِيكَ وَكُنْتَ خَلِيقًا أَنْ تَكُونَ مُعِينًا لَهُ عَلَى نفْسِكَ وَشَرِيكًا لَهُ فِيمَا أَتى إلَيْكَ.وَلا قُوَّةَ إلا باللهِ.
پیشوائے حکومت کا تمہارے اوپر حق یہ ہے کہ تم کو اس کے لئے امتحان و آزمائش کا سبب قرار دیا گیا ہے اور وہ بھی تمہارے اوپر تسلط رکھنے کی وجہ سے آزمایا جاتا ہے لہذا تم اس کی نصیحت کو غور سے اور خلوص کے ساتھ سنو اس سے اختلاف و منازعہ نہ کرو جبکہ وہ تمہارے اوپر مسلط ہے ورنہ اس صورت میں تم اپنی اور اس کی ہلاکت و نابودی کا سبب بنوگے اس کے ساتھ نرمی و فروتنی کا مظاہرہ کرو کہ اس کی رضا حاصل کرلو تاکہ وہ تمہارے دین کو کوئی نقصان نہ پہنچائے اور اس سلسلہ میں تم خدا سے مدد طلب کرو اور اس پر برتری حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو اور اس سے عناد و دشمنی نہ کرو ورنہ خود کو بھی نقصان پہنچاؤ گے اور اس کو بھی۔ اور وہ تمہاری جانب کوئی توجہ نہیں دے گا اور تم کو نقصان پہنچائے گا نیز اس کی جانب سے جو نقصان پہنچے گا اس میں تم اس کے معاون قرار پاؤ گے اور جو برتاؤ تمہارے ساتھ کرے اس میں شریک ہوگے۔ خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیں۔
(۱۶)    استاد کا حق:  
وأَمَّا حَقُّ سَائِسِكَ بالعِلْــــــــمِ فالتَّعْظِيمُ لَهُ والتَّوْقِيرُ لِمَجْلِسِهِ وَحُسْــــنُ الاسْــــتِمَاعِ إليهِ وَالإقْبَــــــالُ عَلَيْه وَالْمَعُونةُ لَهُ عَلَى نفْسِكَ فِيمَــــا لا غِنَى بكَ عَنْهُ مِنْ الْعِلْمِ بأَنْ تُفَرِّغَ لَهُ عَقلَكَ وَتُحْضِرَهُ فَهْمَــــــــــــــكَ وتُزَكِّي لَهُ قَلْبَكَ وتُجَلِّى لَهُ بَصَرَكَ بتَرْكِ اللّذَّاتِ وَنقْص الشّهَوَاتِ، وَأَنْ تَعْلَــــــــــمَ أَنَّكَ فِيمَا أَلقَى إلَيْكَ رَسُولُهُ إلَى مَنْ لَقِيَكَ مِنْ أَهْلِ الْجَهْلِ فَلَزِمَكَ حُسْنُ التَّأْدِيَةِ عَنْهُ إلَيْهِمْ، ولا تَخُنْهُ فِي تَأْدِيَةِ رِسَـــــــــــــــالَتِهِ وَالْقِيَامِ بهَا عَنْهُ إذا تَقَلَّدْتَهَا. وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إلا باللهِ.
و أن لا تَرْفَعَ صوتَكَ عليهِ و لا تُجيبَ أحداً يَسْألُه عن شَي ء حتى يكونَ هو الذي يُجيبُ و لا تُحدَّثَ في مَجْلِسِه أحداً و لا تَغْتَابَ عِنْدَه أحداً و أن تَدْفَعَ عنه إذا ذُكِرَ عِندَكَ بسُوء و أن تَسْتُرَ عُيوبَه و تُظْهِرَ مَناقِبَهُ و لا تُجالِسَ لَهُ عَدوَاً و لا تُعادي له وَليّاً، فإذا فَعَلْتَ ذلكَ شَهِدَتْ لَكَ مَلائِكَةُ اللّه بأنَّكَ قَصَدْتَه و تَعَلَّمْتَ عِلْمَه للّه جَلَّ اسْمُه لا لِلنَّاسِ
تمہیں تعلیم دینے والے ، تمہارے استاد کا تمہارے اوپر حق یہ ہے کہ اس کا احترام کرو ،اس کے کلاس اور جلسۂ درس کی تعظیم و تکریم کرو، اس کے درس کو غور سے سنو اور اس کی جانب مکمل طور پر توجہ دو۔ اس کی مدد کرو تاکہ جس کی تمہیں ضرورت ہے وہ تمہیں سکھائے۔ اس سلسلے میں تم اپنی عقل کو آمادہ کرو اور اپنے فہم و شعور اور دل کو اس کے سپرد کردو، لذتوں کو چھوڑ کر اور خواہشوں کو گھٹا کر اپنی نظر کو اس پر مرکوز کردو۔ تم کو یہ جان لینا چاہئے کہ جو چیز وہ تمہیں سکھا رہا ہے اس میں تم اس کے قاصد ہو چنانچہ تمہارے اوپر لازم ہے کہ تم اس چیز کی دوسروں کو تعلیم دو اور اس قرض کو بخوبی ادا کرو اور اس کا پیغام پہنچانے میں خیانت نہ کرو اور جس چیز کو تم نے اپنے ذمہ لیا ہے اس پر عمل کرو اور طاقت و قوت صرف خدا ہی کی طرف سے ہے۔
اور استاد کے سامنے اپنی آواز بلند نہ کرو اور اس سے سوال کرنے والوں میںسے کسی کا جواب تم نہ دینے لگو بلکہ اسے خود جواب دینے دو۔ اور اس کی مجلس درس میں کسی سے بات نہ کرواور کسی سے اس کی غیبت نہ کرواور جب تمہارے سامنے اس کا ذکر برائی کے ساتھ کیا جائے تو تم اس کا دفاع کرو اور اس کے عیوب کی پردہ پوشی کرو اور اس کے دوست سے دشمنی نہ کرو۔ اگر تم ایسا کروگے تو خدا کے فرشتے گواہی دیں گے کہ تم نے خدا کا قصد کیا تھا اور تم نے خدا کے واسطے اس کا علم سیکھا تھا نہ کہ لوگوں کے لئے۔
(۱۷)مولا و آقا کا حق: 
وأمَّا حَقُّ سَائِسِكَ بالمِلْكِ* فَنَحْوٌ مِنْ سَائِسِكَ بالسُّلْطَانِ إلاّ أَنَّ هذَا يَمْلِكُ مَـــــــــــــــا لا يَمْلِكُهُ ذاكَ، تَلْزِمُكَ طَاعَتُهُ فِيمَــــــــــا دَقَّ وَجَلَّ مِنْكَ إلاّ أَنْ تُخرِجَكَ مِنْ وُجُـــــــــوب حَقِّ الله، ويَحُولَ بَينَكَ وبَيْنَ حَقِّهِ وَحُقُوقِ الخَلْقِ، فَــــــإذَا قَضَيْتَهُ رَجَــــــــــــــــــعْتَ إلَى حَقِّهِ* فَتَشَاغَلْتَ بهِ. ولا قُوَّةَ إلاّ باللهِ.
وأمَّا حَقُّ سَائِسِكَ بالمِلْكِ فَأن تطیعہ و لا تَعصیَہ الا فیما یسخط اللہ عزّ و جلّ فانّہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق۔
  تمہارے مالک اور تمہارے اوپر اختیار رکھنے والے کا حق سلطان اور بادشاہ کے حق کی طرح ہے البتہ مالک کا خصوصی حق بھی ہے جو سلطان کا نہیں ہے، اس کا خصوصی حق تم کو ہر چھوٹی و بڑی چیز میں اطاعت و پیروی کا پابند بناتا ہے کہ ہر طرح اس کی اطاعت کرو سوائے ان جگہوں کے جہاں خدا کے حق سے ٹکراؤ ہو رہا ہو کہ بہر صورت حق خدا تمام حقوق پر مقدم ہے۔ اور جب تم نے خدا کے حق کو اد کردیا تو مالک کے حق ادا کرنے کا مرحلہ آتا ہے لہذا اس میں مشغول ہوجاؤ ،اور یاد رکھو کہ خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔
اور مالک کا حق یہ ہے کہ اس کی اطاعت و پیروی کرو، اس کی مخالفت سے بچوسوائے ان باتوں کے جو خدا کی ناراضگی اور غضب کا سبب ہو اس لئے کہ کسی بھی مخلوق کی اطاعت خدا کی مخالفت کرکے نہیں ہوسکتی۔
ثم حقوق الرعية:رعایا  کے حقوق
(۱۸)   رعایا و عوام کا حق :
فَأَمّا حُقُوقُ رَعِيّتِكَ بِالسّلْطَانِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنّكَ إِنّمَا اسْتَرْعَيْتَهُمْ بِفَضْلِ قُوّتِكَ عَلَيْهِمْ فَإِنّهُ إِنّمَا أَحَلّهُمْ مَحَلّ الرّعِيّةِ لَكَ ضَعْفُهُمْ وَ ذُلّهُمْ فَمَا أَوْلَى مَنْ كَفَاكَهُ ضَعْفُهُ وَ ذُلّهُ حَتّى صَيّرَهُ لَكَ رَعِيّةً وَ صَيّرَ حُكْمَكَ عَلَيْهِ نَافِذاً لَا يَمْتَنِعُ مِنْكَ بِعِزّةٍ وَ لَا قُوّةٍ وَ لَا يَسْتَنْصِرُ فِيمَا تَعَاظَمَهُ مِنْكَ إِلّا بِاللّهِ بِالرّحْمَةِ وَ الْحِيَاطَةِ وَ الْأَنَاةِ وَ مَا أَوْلَاكَ إِذَا عَرَفْتَ مَا أَعْطَاكَ اللّهُ مِنْ فَضْلِ هَذِهِ الْعِزّةِ وَ الْقُوّةِ الّتِي قَهَرْتَ بِهَا أَنْ تَكُونَ لِلّهِ شَاكِراً وَ مَنْ شَكَرَ اللّهَ أَعْطَاهُ فِيمَا أَنْعَمَ عَلَيْهِ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ۔
فَأَمّا حُقُوقُ رَعِيّتِكَ بِالسّلْطَانِ فَأَنْ تَعْلَمَ أنَّهُم صارُوا رَعيتَكَ لِضَعْفِهِم و قُوَّتِكَ فيَجِبُ أنْ تَعدِلَ فيهم و تَكونَ لَهم كالوالِدِ الرَّحيمِ،و تَغْفِرَ لَهم جَهْلَهُم و لا تُعاجِلَهُم بالعُقوبَةِ، و تشكر الله عزَّ وجَلَّ علي ما آتاكَ مِنَ القُوَّةِ عليهِم۔
حکومت میں تمہاری رعایا کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تم نے اپنی قوت و طاقت کی وجہ سے انھیں اپنی رعایا بنایا ہے۔ اور ان کی کمزوری و عاجزی نے انھیں تمہاری رعایا بنایا ہے۔پس وہ کس بات کا مستحق ہے کہ جس کی کمزوری و ذلت نے اس حد تک تمہیں بے نیاز کردیا ہے کہ اس ذلت و کمزوری نے اس کو تمہاری رعایا اور تمہارا زیردست و تابع بنایاہے، اور اس حد تک تمہارے حکم کو اس پر نافذ کیا ہے کہ اپنی عزت و طاقت کے ساتھ تمہارے مقابلہ میں کھڑا نہیں ہوسکتا، اسے تمہارے ترحم و حمایت اور صبر و تسلی کے علاوہ تمہاری جو بات ناگوار گزرتی ہے توا س میں وہ خدا ہی سے مدد چاہتا ہے اور جب تم کو یہ معلوم ہو کہ خدا نے تم کو کتنی عزت و قوت عطا کی ہے کہ جس کے ذریعہ تم دوسروں پر غالب آگئے تو اس وقت تمہارا کیا فریضہ ہے؟ سوائے اس کے کہ تم خدا کے شکر گزار ہوجاؤ اور جو خدا کا شکر ادا کرتا ہے خدا اس کو زیادہ نعمت عطا کرتا ہے  خدا کے علاوہ کوئی طاقت و قوت نہیں۔
اور جو لوگ تمہاری رعایا اور تمہارے زیر تسلط ہیںان کا حق یہ ہے کہ تم ان کی کمزوری اور اپنی طاقت کی وجہ سے ان کے حاکم اور وہ تمہاری رعایا بن گئے ہیں،لہذا تمہارے لئے ضروری ہے کہ ان کے سلسلے میں عدل و انصاف سے کام لو، ان کے ساتھ مہربان باپ کی طرح پیش آؤ، ان سے نادانی میں جو غلطی ہوجائے اسے معاف کردو،ان کے کسی غلط کام میں سزادینے میں جلدی نہ کرو، اور خدا نے جو طاقت تمہیں عطا کی اس پر اس کے شکرگزار بنو۔

(۱۹)  شاگرد کا حق:
وَ أَمّا حَقّ رَعِيّتِكَ بِالْعِلْمِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنّ اللّهَ قَدْ جَعَلَكَ لَهُمْ فِيمَا آتَاكَ مِنَ الْعِلْمِ وَ وَلّاكَ مِنْ خِزَانَةِ الْحِكْمَةِ فَإِنْ أَحْسَنْتَ فِيمَا وَلّاكَ اللّهُ مِنْ ذَلِكَ وَ قُمْتَ بِهِ لَهُمْ مَقَامَ الْخَازِنِ الشّفِيقِ النّاصِحِ لِمَوْلَاهُ فِي عَبِيدِهِ الصّابِرِ الْمُحْتَسِبِ الّذِي إِذَا رَأَى ذَا حَاجَةٍ أَخْرَجَ لَهُ مِنَ الْأَمْوَالِ الّتِي فِي يَدَيْهِ كُنْتَ رَاشِداً وَ كُنْتَ لِذَلِكَ آمِلًا مُعْتَقِداً وَ إِلّا كُنْتَ لَهُ خَائِناً وَ لِخَلْقِهِ ظَالِماً وَ لِسَلَبِهِ وَ عِزّهِ مُتَعَرّضاً ۔
فَإنْ أحْسَنْتَ في تعلُّمِ الناسِ و لَم تَخرِقْ بهم و لَم تَضْجُرْ عليهم زادَكَ الله مِنْ فَضلِهِ، و إنْ أنت مَنَعْتَ الناسَ علمَكَ أو خَرَقْتَ بهم عِنْدَ طَلَبَهِم العِلمَ مِنكَ كانَ حقاً عَلي اللّهِ عز وجل أن يَسْلِبَكَ الْعِلْمَ و بَهاءَهُ و يَسقُطَ مِنَ القلوب مَحَلَّكَ ۔
 تمہاری علمی رعیت ، یعنی تمہارے شاگردوں، کا حق یہ ہے کہ تمہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ خدا نے تمہیں جو علم عطا کیا ہے اور حکمت کا جو خزانہ تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں شاگردوں کا سرپرست بنایا ہے پھر اگر تم نے اس سرپرستی کے حق کو اچھی طرح ادا کردیا اور ان کےلئے مہربان خزانچی اور خیر خواہ مولا قرار پائے جو کہ صابر خدا خواہ ہے کہ جب وہ کسی ضرورت مند کو دیکھتا ہے تو وہ اپنے پاس موجود اموال میں سے اسے دیتا ہے تو تم رشد یافتہ اور با ایمان خادم ہو ورنہ خدا کے خیانت کار اور اس کی مخلوق کے لئے ظالم اور عزت و نعمت کے سلب ہونے کا سبب ہو۔ 
پھر اگر تم لوگوں کو تعلیم دینے میں نیکی کروگے اور ان کےساتھ سختی و بد خلقی سے پیش نہیں آؤ گے تو خدا اپنے لطف و کرم سے تمہارے علم میں اضافہ کرے گا اور اگر تم لوگوں کو اپنے علم سے محروم کروگے اور ان کے سبق لیتے وقت ان کےساتھ سختی و بدخلقی سے پیش آؤ گے تو خدا کو یہ حق ہے کہ وہ تم سے علم چھین لے اور لوگوں کے دلوں سے تمہاری عظمت و منزلت کو ختم کردے۔ 
(۲۰)   شریک حیا ت کا حق:
وَ أَمّا حَقّ رَعِيّتِكَ بِمِلْكِ النّكَاحِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنّ اللّهَ جَعَلَهَا سَكَناً وَ مُسْتَرَاحاً وَ أُنْساً وَ وَاقِيَةً وَ كَذَلِكَ كُلّ وَاحِدٍ مِنْكُمَا يَجِبُ أَنْ يَحْمَدَ اللّهَ عَلَى صَاحِبِهِ وَ يَعْلَمَ أَنّ ذَلِكَ نِعْمَةٌ مِنْهُ عَلَيْهِ وَ وَجَبَ أَنْ يُحْسِنَ صُحْبَةَ نِعْمَةِ اللّهِ وَ يُكْرِمَهَا وَ يَرْفَقَ بِهَا وَ إِنْ كَانَ حَقّكَ عَلَيْهَا أَغْلَظَ وَ طَاعَتُكَ بِهَا أَلْزَمَ فِيمَا أَحْبَبْتَ وَ كَرِهْتَ مَا لَمْ تَكُنْ مَعْصِيَةً فَإِنّ لَهَا حَقّ الرّحْمَةِ وَ الْمُؤَانَسَةِ وَ مَوْضِعُ السّكُونِ إِلَيْهَا قَضَاءُ اللّذّةِ الّتِي لَا بُدّ مِنْ قَضَائِهَا وَ ذَلِكَ عَظِيمٌ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ۔
فانَّ لَها عَلَيْكَ أنْ تَرْحَمَها لأَنَّها أسيرُكَ و تُطْعِمُها و تَكْسُوها،فِإذا جَهِلَتْ عَفَوْتَ عَنْها
بیوی کے سلسلے میںنکاح کے ذریعہ جو حق تمہارے اوپر مسلم ہوگیا ہے وہ یہ ہے کہ تم یہ جان لو کہ اسے خدا نے تمہارے لئے باعث سکون و آرام اور مونس و انیس اور نگہبان قرار دیا ہے اسی طرح تم دونوں پر یہ فرض ہے کہ اپنے شریک حیات کے وجود پر خدا کا شکر ادا کرے اور یہ جان لے کہ یہ خدا کی نعمت ہے جو اس نے اسے عطا کی ہے اس لئے ضروری ہے کہ وہ خدا کی نعمت کی قدر کرے اور اس کےساتھ نرمی سے پیش آئے اگر چہ تمہاری شریک حیات پر تمہارا حق زیادہ سخت ہے اور جو تم پسند کرتے ہو اور جو پسند نہیںکرتے اس میں اس پر تمہاری طاعت زیادہ لازم ہے بس اس میں گناہ نہ ہو، لیکن اس کا بھی تم پر یہ حق ہے کہ تم اس کےساتھ نرمی و محبت سے پیش آؤ اور وہ بھی اس لذت اندوزی کےلئے تمہارے لئے مرکز سکون ہے کہ جس سے مفر نہیں ہے اور یہ بجائے خود بہت بڑا حق ہے اور خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیںہے۔ 
اس کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ تم اس کےساتھ نرمی و محبت سے پیش آؤ کہ وہ تمہاری اسیر ہے اسے کھانا کھلاؤ کپڑا پہناؤ اور اگر اس سے نادانی سے کوئی غلطی ہوجائے تو اسے معاف کردو۔ 
(۲۱)   غلام کا حق:
 وَ أَمّا حَقّ رَعِيّتِكَ بِمِلْكِ الْيَمِينِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنّهُ خَلْقُ رَبّكَ وَ لَحْمُكَ وَ دَمُكَ وَ أَنّكَ تَمْلِكُهُ لَا أَنْتَ صَنَعْتَهُ دُونَ اللّهِ وَ لَا خَلَقْتَ لَهُ سَمْعاً وَ لَا بَصَراً وَ لَا أَجْرَيْتَ لَهُ رِزْقاً وَ لَكِنّ اللّهَ كَفَاكَ ذَلِكَ ثُمّ سَخّرَهُ لَكَ وَ ائْتَمَنَكَ عَلَيْهِ وَ اسْتَوْدَعَكَ إِيّاهُ لِتَحْفَظَهُ فِيهِ وَ تَسِيرَ فِيهِ بِسِيرَتِهِ فَتُطْعِمَهُ مِمّا تَأْكُلُ وَ تُلْبِسَهُ مِمّا تَلْبَسُ وَ لَا تُكَلّفَهُ مَا لَا يُطِيقُ فَإِنْ كَرِهْتَهُ خَرَجْتَ إِلَى اللّهِ مِنْهُ وَ اسْتَبْدَلْتَ بِهِ وَ لَمْ تُعَذّبْ خَلْقَ اللّهِ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ‏
تمہارے مملوک و غلام اور نوکر کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ تمہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ تمہارے پروردگار ہی کا پیدا کیا ہوا ہے وہ بھی تمہاری ہی طرح گوشت اور خون رکھتا ہے تم اس لئے اس کے مالک نہیں ہو کہ تم نے اسے پیدا کیا ہے بلکہ اسے خدا نے پیدا کیا ہے اور نہ تم نے اس کو کان اور آنکھ عطا کی ہے اور نہ اس کی روزی تمہارے ہاتھ میں ہے بلکہ اس سلسلہ میں خدا نے تمہاری مدد کی ہے کہ اسے تمہارے تابع کر دیا اور تم کو اس کا امین قرار دیا اور اسے تمہارے سپرد کردیا تاکہ تم اس کی حفاظت کرو اور اس کے ساتھ اسی جیسا سلوک کرواسے وہی کھانا کھلاؤ جو تم کھاتے ہو اور وہی کپڑا پہناؤ جو تم پہنتے ہو اور اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دو اگر وہ تمہیں پسند نہیں ہے تو تم اس کی اس ذمہ داری سے بری ہوجاؤ جو خدا کی طرف سے تم پر عائد ہوئی ہے اور اس کو دوسرے سے بدل لو خدا کی مخلوق کو تکلیف نہ دو ،کہ خدا کے علاوہ کوئی طاقت و قوت نہیں ہے۔ 
وأما حق الرحم: رشتہ داروں کے حقوق:
(۲۲)   ماں کا حق:
فَحَقّ أُمّكَ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنّهَا حَمَلَتْكَ حَيْثُ لَا يَحْمِلُ أَحَدٌ أَحَداً وَ أَطْعَمَتْكَ مِنْ ثَمَرَةِ قَلْبِهَا مَا لَا يُطْعِمُ أَحَدٌ أَحَداً وَ أَنّهَا وَقَتْكَ بِسَمْعِهَا وَ بَصَرِهَا وَ يَدِهَا وَ رِجْلِهَا وَ شَعْرِهَا وَ بَشَرِهَا وَ جَمِيعِ جَوَارِحِهَا مُسْتَبْشِرَةً بِذَلِكَ فَرِحَةً مُوَابِلَةً مُحْتَمِلَةً لِمَا فِيهِ مَكْرُوهُهَا وَ أَلَمُهَا وَ ثِقْلُهَا وَ غَمّهَا حَتّى دَفَعَتْهَا عَنْكَ يَدُ الْقُدْرَةِ وَ أَخْرَجَتْكَ إِلَى الْأَرْضِ فَرَضِيَتْ أَنْ تَشْبَعَ وَ تَجُوعَ هِيَ وَ تَكْسُوَكَ وَ تَعْرَى وَ تُرْوِيَكَ وَ تَظْمَأَ وَ تُظِلّكَ وَ تَضْحَى وَ تُنَعّمَكَ بِبُؤْسِهَا وَ تُلَذّذَكَ بِالنّوْمِ بِأَرَقِهَا وَ كَانَ بَطْنُهَا لَكَ وِعَاءً وَ حَجْرُهَا لَكَ حِوَاءً وَ ثَدْيُهَا لَكَ سِقَاءً وَ نَفْسُهَا لَكَ وِقَاءً تُبَاشِرُ حَرّ الدّنْيَا وَ بَرْدَهَا لَكَ وَ دُونَكَ فَتَشْكُرُهَا عَلَى قَدْرِ ذَلِكَ وَ لَا تَقْدِرُ عَلَيْهِ إِلّا بِعَوْنِ اللّهِ وَ تَوْفِيقِهِ۔
 تمہیں اپنی ماں کے حقوق کے سلسلے میں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس نے تمہیں ایک مدت تک اس طرح اٹھایا اوربرداشت کیا کہ اس طرح کوئی بھی کسی کو نہیں اٹھاسکتا۔ یعنی نو مہینے تم کو اپنے شکم میں رکھا اور اس مدت میں زحمتوں و مشقتوں کا سامنا کیا اور اس مدت میں اس نے تم کو اپنا خون جگر پلایا کہ اس طرح کوئی بھی کسی کو شکم سیر نہیں کرسکتا۔ اور اس پوری مدت میں اس نے اپنے کان، آنکھ، ہاتھوں ، پیروں اور حتی بال و کھال بلکہ تمام اعضاء و جوارح سے خوشی خوشی تمہاری حفاظت کی اور تمہارا خیال رکھا اور اس میں مسرت و نشاط محسوس کرتی رہی۔ وہ اس مدت میںمسلسل تکلیفیں ، سختیاں ، رنج و غم اور سنگینی بھی برداشت کرتی رہی ۔ یہاں تک کہ خدوند عالم نے تم کو اس سے جدا کیا اور زمین پر اتارا۔ 
اب وہ اس بات پر راضی رہی کہ خود بھوکی رہے لیکن تم کو شکم سیر کیا۔ خود لباس کی فکر نہ کرکے تم کو لباس فراہم کیا۔ خود پیاسی رہی لیکن تم کو پیاسا رہنے نہ دیا گرمی و سردی برداشت کی لیکن تم کو محفوظ رکھا ، خود دھوپ و بارش کی پرواہ نہ کرکے تم کو سایہ مہیا کیا۔ اپنی سختیوں اور تکلیفوں کے ذریعہ اس نے تمہارے لئے آرام و نعمت کی زندگی آمادہ کی۔ اپنی نیندیں نذر بیداری کرکے اس نے تمہیں خواب راحت کے مزے لینے کے مواقع فراہم کئے۔ اس کا شکم تمہارے وجود کی پرورش کا گھر اور اس کی آغوش تمہاری محافظ اور پناہ گاہ تھی۔ اس کا سینہ تمہارے شیر پینے اور سیراب ہونے کا چشمہ تھا اور اس کا نفس تمہارا نگہبان تھا۔ ماں نے تمہاری خاطر زمانہ کی سردی و گرمی کو برداشت کیا۔ لہٰذا اس کی زحمتوں اور تکلیفوں کا شکریہ ادا کرو۔ البتہ تم اپنی ماں کا شکریہ ادا کرنے پر بھی قدرت نہیں رکھتے مگر صرف اتنا ہی جتنا خدا تمہاری مدد کرے اور جتنی تم کو توفیق دے دے کہ اس کی مدد اور توفیق ہی کے ذریعہ تم ماں کی زحمتوں و مشقتوں کا شکریہ اور اس کے ساتھ نیکی و احسان کرسکتے ہو۔ 
(۲۳)    باپ کا حق:
وَ أَمّا حَقّ أَبِيكَ فَتَعْلَمُ أَنّهُ أَصْلُكَ وَ أَنّكَ فَرْعُهُ وَ أَنّكَ لَوْلَاهُ لَمْ تَكُنْ فَمَهْمَا رَأَيْتَ فِي نَفْسِكَ مِمّا يُعْجِبُكَ فَاعْلَمْ أَنّ أَبَاكَ أَصْلُ النّعْمَةِ عَلَيْكَ فِيهِ وَ احْمَدِ اللّهَ وَ اشْكُرْهُ عَلَى قَدْرِ ذَلِكَ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
باپ کے حق کے سلسلے میں تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ تمہاری اصل و بنیاد ہے اور تم اس کی شاخ و فرع ہو اور اگر باپ نہ ہوتا تو تمہارا وجود ہی نہ ہوتا لہٰذا جب بھی تم اپنے اندر کوئی ایسی چیز دیکھو جو تم کو خود پسندی میں مبتلا کردے اور تمہارے اندر غرور و تکبر پیدا کرنے لگے تو اس وقت تم یہ خیال کرو کہ اس نعمت کی اصل و بنیاد اور اس کا سبب تمہارا باپ ہی ہے لہٰذا حمد خدا بجالاتے ہوئے اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرو ۔اور خدا کی طاقت و قوت کے علاوہ کوئی طاقت نہیں۔ 
(۲۴)     اولاد کا حق:
وَ أَمّا حَقّ وَلَدِكَ فَتَعْلَمُ أَنّهُ مِنْكَ وَ مُضَافٌ إِلَيْكَ فِي عَاجِلِ الدّنْيَا بِخَيْرِهِ وَ شَرّهِ وَ أَنّكَ مَسْئُولٌ عَمّا وُلّيتَهُ مِنْ حُسْنِ الْأَدَبِ وَ الدّلَالَةِ عَلَى رَبّهِ وَ الْمَعُونَةِ لَهُ عَلَى طَاعَتِهِ فِيكَ وَ فِي نَفْسِهِ فَمُثَابٌ عَلَى ذَلِكَ وَ مُعَاقَبٌ فَاعْمَلْ فِي أَمْرِهِ عَمَلَ الْمُتَزَيّنِ بِحُسْنِ أَثَرِهِ عَلَيْهِ فِي عَاجِلِ الدّنْيَا الْمُعَذّرِ إِلَى رَبّهِ فِيمَا بَيْنَكَ وَ بَيْنَهُ بِحُسْنِ الْقِيَامِ عَلَيْهِ وَ الْأَخْذِ لَهُ مِنْهُ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
تمہارے اوپر تمہاری اولاد کا حق یہ ہے کہ یہ باور کرو کہ وہ تم ہی سے ہے دنیا میں تمہیں سے وابستہ ہے اس کی اچھائیاں و برائیاں بھی تمہاری ہی طرف پلٹتی ہیں۔ یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ اس کی تربیت کرو اس کو ادب سکھاؤ۔ خداوندعالم کی طرف اس کی راہنمائی کرو پھر یاد رکھو کہ اس وظیفہ کو انجام دینے کی صورت میں ثواب کے مستحق ہوگے اور اگر تاخیر و لاپرواہی کرو گے تو عذاب و سزا کے مستحق قرار پاؤ گے۔ 
اس کے سلسلے میں اس طرح سے نیک اور اچھے انداز میں عمل کرو کہ اس کی اچھائی کا اثر دنیا میں ظاہر ہوا اس خداوندعالم کے نزدیک تمہارے اور اس کے درمیان عذر رہے۔اس کی اچھی بہترین سرپرستی کرنے اور اس سے نتیجہ حاصل کرنے میں خدا کے علاوہ کوئی طاقت و قوت نہیں ہے۔ 
(۲۵) بھائی کا حق:
وَ أَمّا حَقّ أَخِيكَ فَتَعْلَمُ أَنّهُ يَدُكَ الّتِي تَبْسُطُهَا وَ ظَهْرُكَ الّذِي تَلْتَجِئُ إِلَيْهِ- وَ عِزّكَ الّذِي تَعْتَمِدُ عَلَيْهِ وَ قُوّتُكَ الّتِي تَصُولُ بِهَا فَلَا تَتّخِذْهُ سِلَاحاً عَلَى مَعْصِيَةِ اللّهِ وَ لَا عُدّةً لِلظّلْمِ بِحَقّ اللّهِ وَ لَا تَدَعْ نُصْرَتَهُ عَلَى نَفْسِهِ وَ مَعُونَتَهُ عَلَى عَدُوّهِ وَ الْحَوْلَ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ شَيَاطِينِهِ وَ تَأْدِيَةَ النّصِيحَةِ إِلَيْهِ وَ الْإِقْبَالَ عَلَيْهِ فِي اللّهِ فَإِنِ انْقَادَ لِرَبّهِ وَ أَحْسَنَ الْإِجَابَةَ لَهُ وَ إِلّا فَلْيَكُنِ اللّهُ آثَرَ عِنْدَكَ وَ أَكْرَمَ عَلَيْكَ مِنْهُ .
اپنے بھائی کے حق کے سلسلے میں تمہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ تمہارا دست و بازو ہے جس سے تم کام کرتے ہو اور تمہارے لئے پشت پناہ و تکیہ گاہ ہے جہاں تم پناہ لیتے ہو۔ وہ تمہاری عزت و آبرو ہے جس پر تم اعتماد کرتے ہو، اور تمہاری قوت وطاقت ہے جس کے ذریعہ تم حملہ کرتے ہو لہٰذا اسے خدا کی معصیت و نافرمانی کا وسیلہ وذریعہ نہ بناؤ۔ اس کے ذریعہ سے خدا کی مخلوق پر ظلم نہ کرو۔ تم اس کے حق میں اس کی مدد کرو اور اس کے دشمن کے خلاف اس کی نصرت کرو۔ اس کے اور شیطان کے درمیان حائل ہوجاؤ اور اسے نصیحت کرنے میں پورا حق ادا کرو اور اسے خدا کی طرف دعوت دو پھر اگر وہ اپنے پروردگار کا مطیع ہوجائے اور اس کے حکم کو تسلیم کرے تو بہت ہی اچھا ہے ورنہ تمہارے نزدیک خدا کو مقدم ہونا چاہئے۔ اور خدا ہی کا اکرام و اعزاز اوراس کا خیال ہونا چاہئے۔ (نہایۃ الرحم)
عام حقوق
(۲۶)  آزاد کرنے والے کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الْمُنْعِمِ عَلَيْكَ بِالْوَلَاءِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنّهُ أَنْفَقَ فِيكَ مَالَهُ وَ أَخْرَجَكَ مِنْ ذُلّ الرّقّ وَ وَحْشَتِهِ إِلَى عِزّ الْحُرّيّةِ وَ أُنْسِهَا وَ أَطْلَقَكَ مِنْ أَسْرِ الْمَلَكَةِ وَ فَكّ عَنْكَ حِلَقَ الْعُبُودِيّةِ وَ أَوْجَدَكَ رَائِحَةَ الْعِزّ وَ أَخْرَجَكَ مِنْ سِجْنِ الْقَهْرِ وَ دَفَعَ عَنْكَ الْعُسْرَ وَ بَسَطَ لَكَ لِسَانَ الْإِنْصَافِ وَ أَبَاحَكَ الدّنْيَا كُلّهَا فَمَلّكَكَ نَفْسَكَ وَ حَلّ أَسْرَكَ وَ فَرّغَكَ لِعِبَادَةِ رَبّكَ وَ احْتَمَلَ بِذَلِكَ التّقْصِيرَ فِي مَالِهِ فَتَعْلَمَ أَنّهُ أَوْلَى الْخَلْقِ بِكَ بَعْدَ أُولِي رَحِمِكَ فِي حَيَاتِكَ وَ مَوْتِكَ وَ أَحَقّ الْخَلْقِ بِنَصْرِكَ وَ مَعُونَتِكَ وَ مُكَانَفَتِكَ فِي ذَاتِ اللّهِ فَلَا تُؤْثِرْ عَلَيْهِ نَفْسَكَ مَا احْتَاجَ إِلَيْكَ
اور تمہارے اس آقا کا حق جس نے تم کو نعمت سے نوازا اور تم کو آزاد کیا ہے یہ ہے کہ اس نے تم کو آزادی دلانے کیلئے اپنا مال خرچ کیا ہے اور تم کو غلامی کی ذلت و وحشت سے  نکال کر حریت و آزادی کی عزت میں پہنچا دیا ہے ملکیت کی اسیری سے تمہیں آزاد کیا اور تم کوغلامی کی زنجیر سے نجات دلائی۔ تمہارے لئے عزت کی فضا ہموار کی اور تم کو قہر و غضب کے قید خانہ سے نکالا اور سختیوں سے تم کو رہائی دلائی۔ اور تمہارے لئے عدل کی زبان کھولی اور ساری دنیا کو تمہارے لئے مباح کردیا اور تمہیں تمہارے نفس کا مالک بنادیا اور تمہیں قید خانہ سے آزاد کرایا اور تمہیں تمہارے پروردگار  کی عبادت کیلئے آسودہ خاطر کیا اور تمہاری خاطر اپنا مال خرچ کیا۔ اور یاد رکھوکہ وہ تمہاری حیات و ممات میں تمہارے سارے عزیزوں سے زیادہ تم سے قریب ہے لہٰذا راہ خدا میں وہ سب سے زیادہ تمہاری مدد و تعاون کا مستحق ہے اس لئے جب تک اسے ضرورت ہے اس کو اپنے اوپر مقدم کرو۔ 
(۲۷)    آزاد شدہ کا حق:
وَ أَمّا حَقّ مَوْلَاكَ الْجَارِيَةِ عَلَيْهِ نِعْمَتُكَ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنّ اللّهَ جَعَلَكَ حَامِيَةً عَلَيْهِ وَ وَاقِيَةً وَ نَاصِراً وَ مَعْقِلًا وَ جَعَلَهُ لَكَ وَسِيلَةً وَ سَبَباً بَيْنَكَ وَ بَيْنَهُ فَبِالْحَرِيّ أَنْ يَحْجُبَكَ عَنِ النّارِ فَيَكُونُ فِي ذَلِكَ ثَوَابٌ مِنْهُ فِي الآْجِلِ وَ يَحْكُمُ لَكَ بِمِيرَاثِهِ فِي الْعَاجِلِ إِذَا لَمْ يَكُنْ لَهُ رَحِمٌ مُكَافَأَةً لِمَا أَنْفَقْتَهُ مِنْ مَالِكَ عَلَيْهِ وَ قُمْتَ بِهِ مِنْ حَقّهِ بَعْدَ إِنْفَاقِ مَالِكَ فَإِنْ لَمْ‏ تَقُمْ بِحَقّهِ خِيفَ عَلَيْكَ أَنْ لَا يَطِيبَ لَكَ مِيرَاثُهُ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ۔
وأمَّا حَقُّ مَولاكَ الَّذي أنعَمتَ عليهِ فأنْ تَعْلَمَ أنَّ اللّهَ عز وجل جَعَلَ عِتقَكَ لَهٌ وَسيلَةً إليهِ و حِجاباً لَكَ مِنَ النَّار، و أنَّ ثوابَكَ في العاجِلِ مِيراثُهُ إذا لَم يَكُنْ لَه رَحِمٌ مُكافَأَةً بما أنفَقْتَ مِنْ مالِكَ، و في الآجلِ الجَنَّةَ
تمہارے آزاد کردہ کا تمہارے اوپر حق یہ ہے کہ تمہیں معلوم رہے کہ خداوند عالم نے تمہیں اس کا حمایت کرنے والا، پشت پناہ اور مددگار بنایا ہے اور اسے تمہارے اور اپنے درمیان وسیلہ قرار دیا ہے ۔ سزاوار ہے کہ وہ تمہیں جہنم سے نجات عطا کرے اور اس کا یہ ثواب آخرت میں تمہیں نصیب ہو ا وردنیا میں بھی اگر اس کا کوئی وارث نہ ہو تو تمہیں اس کے وارث ہو کیونکہ تم نے اس پر پیسہ خرچ کیا ہے اور اس کو آزاد کیا ہے اور اس کے حق کو قائم کیا ہے اور اگر تم ان چیزوں کا خیال نہیں رکھو گے تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کی میراث تمہارے لئے پاک نہیں ہوگی۔ اور خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔ 
تمہارے اوپر تمہارے اس مولا کا حق جس نے تم پر احسان کیا ہے، یہ ہے کہ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اس کو خدا نے تمہارے آزاد کرنے کو خود تک رسائی کا ذریعہ بنایا ہے۔ اور اسے تمہارے اور آتش جہنم کے درمیان حائل کردیا ہے۔ جان لو کہ اس نیک عمل کی دنیا میں تو یہ جزاہے کہ اگر اس کا کوئی وارث نہیں ہے تو اس کی میراث تم پاؤ گے کیونکہ تم نے اس پر مال خرچ کیا ہے اور آخرت میں اس کی جزا جنت ہے۔ 
(۲۸)  احسان کرنے والے کا حق:
وَ أَمّا حَقّ ذِي الْمَعْرُوفِ عَلَيْكَ فَأَنْ تَشْكُرَهُ وَ تَذْكُرَ مَعْرُوفَهُ وَ تَنْشُرَ لَهُ الْمَقَالَةَ الْحَسَنَةَ وَ تُخْلِصَ لَهُ الدّعَاءَ فِيمَا بَيْنَكَ وَ بَيْنَ اللّهِ سُبْحَانَهُ فَإِنّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ كُنْتَ قَدْ شَكَرْتَهُ سِرّاً وَ عَلَانِيَةً ثُمّ إِنْ أَمْكَنَ مُكَافَأَتُهُ بِالْفِعْلِ كَافَأْتَهُ وَ إِلّا كُنْتَ مُرْصِداً لَهُ مُوَطّناً نَفْسَكَ عَلَيْهَا۔
جس نے تمہارے ساتھ بھلائی و احسان کیا ہے اس کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ اس کا شکریہ ادا کرو اور اس کا ذکر خیر کرو اس کی نیکیوں اور اچھی باتوں کو پھیلاؤ۔ اس کے لئے خلوص کے ساتھ خدا سے دعا کرو کیونکہ اگر تم نے ایسا کیا تو گویا علی الاعلان اور پوشیدہ طور پر اس کا شکریہ ادا کیا پھر اگر تمہارے لئے ممکن ہو تو اس کا بدلہ چکاؤ ورنہ اس کے انتظار میں رہو اور اس کام کیلئے خود کو تیار رکھو۔
(۲۹) مؤذّن کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الْمُؤَذّنِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنّهُ مُذَكّرُكَ بِرَبّكَ وَ دَاعِيكَ إِلَى حَظّكَ وَ أَفْضَلُ أَعْوَانِكَ عَلَى قَضَاءِ الْفَرِيضَةِ الّتِي افْتَرَضَهَا اللّهُ عَلَيْكَ فَتَشْكُرَهُ عَلَى ذَلِكَ شُكْرَكَ لِلْمُحْسِنِ إِلَيْكَ وَ إِنْ كُنْتَ فِي بَيْتِكَ مُهْتَمّاً لِذَلِكَ لَمْ تَكُنْ لِلّهِ فِي أَمْرِهِ مُتّهِماً وَ عَلِمْتَ أَنّهُ نِعْمَةٌ مِنَ اللّهِ عَلَيْكَ لَا شَكّ فِيهَا فَأَحْسِنْ صُحْبَةَ نِعْمَةِ اللّهِ بِحَمْدِ اللّهِ عَلَيْهَا عَلَى كُلّ حَالٍ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
اور اذان دینے والے کا حق یہ ہے کہ تم اس بات سے آگاہ رہو کہ وہ تم کو تمہارے پروردگار کی یاد دلانے والاہے اور تم کو تمہارے حصہ کی طرف بلانے والاہے اور خدا نے جو فریضہ تم پر ضروری قرار دیا ہے اس کے انجام دینے میں وہ تمہارا بہترین مددگار ہے لہٰذا اس خدمت پر اس کی اس طرح قدردانی کرو جس طرح تم احسان کرنے والے کی قدر کرتے ہو۔ اور اگر تم اپنے گھر میں اس کے سلسلے میں بدگمان ہو تو اس خدا ئی کام میں اس سے بدبین  و بدگمان نہ ہو اور یہ بات تم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ یقیناً ایک خدا داد نعمت ہے لہٰذا خدا کی نعمت کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور ہر حال میں اس پر خدا کا شکریہ ادا کرو۔ خدا کی طاقت کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔ 
(۳۰)    امام جماعت کا حق:
وَ أَمّا حَقّ إِمَامِكَ فِي صَلَاتِكَ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنّهُ قَدْ تَقَلّدَ السّفَارَةَ فِيمَا بَيْنَكَ وَ بَيْنَ اللّهِ وَ الْوِفَادَةَ إِلَى رَبّكَ وَ تَكَلّمَ عَنْكَ وَ لَمْ تَتَكَلّمْ عَنْهُ وَ دَعَا لَكَ وَ لَمْ تَدْعُ لَهُ وَ طَلَبَ فِيكَ وَ لَمْ تَطْلُبْ فِيهِ وَ كَفَاكَ هَمّ الْمَقَامِ بَيْنَ يَدَيِ اللّهِ وَ الْمُسَاءَلَةِ لَهُ فِيكَ وَ لَمْ تَكْفِهِ ذَلِكَ فَإِنْ كَانَ فِي شَيْ‏ءٍ مِنْ ذَلِكَ تَقْصِيرٌ كَانَ بِهِ دُونَكَ وَ إِنْ كَانَ آثِماً لَمْ تَكُنْ شَرِيكَهُ فِيهِ وَ لَمْ‏ يَكُنْ لَهُ عَلَيْكَ فَضْلٌ فَوَقَى نَفْسَكَ بِنَفْسِهِ وَ وَقَى صَلَاتَكَ بِصَلَاتِهِ فَتَشْكُرَ لَهُ عَلَى ذَلِكَ وَ لَا حَوْلَ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
تمہاری نماز میں تمہارے امام یعنی امام جماعت کا حق یہ ہے کہ تم اس بات کی جانب متوجہ رہو کہ اس نے تمہارے اور خداکے درمیان رابطہ پیدا کرنے اور سفارت کے علاوہ تم کو خدا کی بارگاہ میں حاضر ہونے اور اس کی طرف لے جانے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ 
نماز میں وہ تمہاری طرف سے ترجمانی کرتا ہے تم اس کی طرف سے کچھ نہیں کہتے ہو وہ تمہارے لئے دعا کرتا ہے تم اس کے لئے نہیںکرتے ہو۔ وہ تمہارے لئے طلب کرتا ہے تم اس کیلئے طلب نہیں کرتے ۔ جگہ کی اہمیت اور خدا کی بارگاہ میںکھڑے ہونے، اس سے سوال کرنے کو اس نے تمہاری طرف سے اپنے ذمہ لیا ہے جبکہ تم نے اس کی طر ف سے کوئی چیز اپنے ذمہ نہیں لی اگر اس سلسلے میں کوئی کمی یا نقص پیش آجائے تو اس کا ذمہ دار وہ ہوگا تم نہیںہوگے۔ اگر وہ گناہ کرے تو گناہ میں تم اس کے شریک نہیں ہو اور اسے تم پر برتری حاصل نہیں ہے۔ اس نے اپنے کو تمہاری سپر بنایا ہے اور اپنی نماز کو تمہاری نماز کی سپر قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس وجہ سے اس کے شکر گزار رہو۔ خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔ 
(۳۱)    ہمنشین کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الْجَلِيسِ فَأَنْ تُلِينَ لَهُ كَنَفَكَ وَ تُطِيبَ لَهُ جَانِبَكَ وَ تُنْصِفَهُ فِي مُجَارَاةِ اللّفْظِ وَ لَا تُغْرِقَ فِي نَزْعِ اللّحْظِ إِذَا لَحَظْتَ وَ تَقْصِدَ فِي اللّفْظِ إِلَى إِفْهَامِهِ إِذَا لَفَظْتَ وَ إِنْ كُنْتَ الْجَلِيسَ إِلَيْهِ كُنْتَ فِي الْقِيَامِ عَنْهُ بِالْخِيَارِ وَ إِنْ كَانَ الْجَالِسَ إِلَيْكَ كَانَ بِالْخِيَارِ وَ لَا تَقُومَ إِلّا بِإِذْنِهِ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ۔
’ و تَنسي زَلاَّتَهُ و تَحْفَظَ خَيراتَه إلاَّ خَيراً‘
ہمنشین کا حق یہ ہے کہ اس کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ، خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کرو اوراسے خوش آمدید کہو۔اس کیساتھ گفتگو میں انصاف سے کام لو،یکبارگی اور اچانک اس سے توجہ نہ ہٹاؤ ، اس سے گفتگو میں تمہاری نیت اس کو سمجھانا ہو۔ اگر اس ہمنشینی میں تم نے پہل کی ہے تو تم کو اختیار ہے جب بھی چاہو اٹھکر جاسکتے ہو۔ لیکن اگر وہ تمہاری طرف آیا ہے اور اس نے ہمنشینی کا آغاز کیا ہے تو اختیار اس کو ہے لہٰذا جب تک اس سےاجازت نہ لے لو نہ اٹھو۔ خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیںہے۔ 
اس کی غلطیوں و خطاؤں کو فراموش کردو اور اس کی اچھائیوں و نیکیوں کو یاد رکھو، اس کے سامنے اچھائی کے سوا کچھ نہ کہو۔
(۳۲)   پڑوسی کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الْجَارِ فَحِفْظُهُ غَائِباً وَ كَرَامَتُهُ شَاهِداً وَ نُصْرَتُهُ وَ مَعُونَتُهُ فِي الْحَالَيْنِ جَمِيعاً لَا تَتَبّعْ لَهُ عَوْرَةً وَ لَا تَبْحَثْ لَهُ عَنْ سَوْءَةٍ لِتَعْرِفَهَا فَإِنْ عَرَفْتَهَا مِنْهُ عَنْ غَيْرِ إِرَادَةٍ مِنْكَ وَ لَا تَكَلّفٍ كُنْتَ لِمَا عَلِمْتَ حِصْناً حَصِيناً وَ سِتْراً سَتِيراً لَوْ بَحَثَتِ الْأَسِنّةُ عَنْهُ ضَمِيراً لَمْ تَتّصِلْ إِلَيْهِ لِانْطِوَائِهِ عَلَيْهِ لَا تَسْتَمِعْ عَلَيْهِ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُ لَا تُسْلِمْهُ عِنْدَ شَدِيدَةٍ وَ لَا تَحْسُدْهُ عِنْدَ نِعْمَةٍ تُقِيلُ عَثْرَتَهُ وَ تَغْفِرُ زَلّتَهُ وَ لَا تَدّخِرْ حِلْمَكَ عَنْهُ إِذَا جَهِلَ عَلَيْكَ وَ لَا تَخْرُجْ أَنْ تَكُونَ سِلْماً لَهُ تَرُدّ عَنْهُ لِسَانَ الشّتِيمَةِ وَ تُبْطِلُ فِيهِ كَيْدَ حَامِلِ النّصِيحَةِ وَ تُعَاشِرُهُ مُعَاشَرَةً كَرِيمَةً وَ لَا حَوْلَ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
پڑوسی کا حق یہ ہے کہ اس کی غیر موجودگی میں اس کی (چیزوں کی اور اس کی عزت و آبرو کی )حفاظت کرو اور اس کی موجودگی میں اس کا احترام کرو اور ہر حال میں اس کے معاون و مددگار رہو۔ اس کی پوشیدہ باتوں اور اسرار کی ٹوہ میں نہ رہو۔ اس کی برائیوں اور کمزوریوں کو جاننے کی کوشش نہ کرو۔ اور اگر بغیر قصد و ارادہ اور بغیر زحمت و مشقت کے تمہیں اس کی کسی کمزوری یا عیب کا پتہ چل جائے تو تم اس کیلئے مضبوط و محکم قلعہ اور ایسا ضخیم و دبیز پردہ بن جاؤ کہ مستور و پیچیدہ ہونے کی وجہ سے نیزے بھی اسے تلاش نہ کرسکیں۔ 
اور اس کے خلاف باتوں پر دھیان نہ دو کہ اس کو خبر تک نہ ہو اور اسے پریشانیوں اور مشکلات میں تنہا چھوڑ کر الگ نہ ہوجاؤ اور لغزشوں سے در گزر کرو اور اس کے گناہوں و لغزشوں سے چشم پوشی کرو اور اگر وہ تمہارے سلسلے میں نادانی کربیٹھے تو تم اسے برداشت کرو اور اس کے مقابل بردباری کا مظاہرہ کرو۔ اس کے ساتھ مسالمت و صلح آمیز برتاؤ کرو۔ اس کو برا بھلا نہ کہو اس پر سب و شتم نہ کرو اور اگر کسی ناصح نے اسے دھوکہ دیا ہے تو تم اس کا سدباب کرو۔ اس کے ساتھ شرافت و بزرگواری سے پیش آؤ۔ جان لو کہ خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔ 
(۳۳)    دوست کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الصّاحِبِ فَأَنْ تَصْحَبَهُ بِالْفَضْلِ مَا وَجَدْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَ إِلّا فَلَا أَقَلّ مِنَ الْإِنْصَافِ وَ أَنْ تُكْرِمَهُ كَمَا يُكْرِمُكَ وَ تَحْفَظَهُ كَمَا يَحْفَظُكَ وَ لَا يَسْبِقَكَ فِيمَا بَيْنَكَ وَ بَيْنَهُ إِلَى مَكْرُمَةٍ فَإِنْ سَبَقَكَ كَافَأْتَهُ وَ لَا تُقَصّرَ بِهِ عَمّا يَسْتَحِقّ مِنَ الْمَوَدّةِ تُلْزِمُ نَفْسَكَ‏ نَصِيحَتَهُ وَ حِيَاطَتَهُ وَ مُعَاضَدَتَهُ عَلَى طَاعَةِ رَبّهِ وَ مَعُونَتَهُ عَلَى نَفْسِهِ فِيمَا لَا يَهُمّ بِهِ مِنْ مَعْصِيَةِ رَبّهِ ثُمّ تَكُونُ عَلَيْهِ رَحْمَةً وَ لَا تَكُونُ عَلَيْهِ عَذَاباً وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
اور تمہارے رفیق و ساتھی کا حق یہ ہے کہ جہاں تک تم سے ہوسکے اس کے ساتھ عطا و بخشش کے ساتھ مصاحبت کرو اور اگر یہ نہ کرسکو تو کم از کم اس کے ساتھ انصاف سے پیش آؤ اور جس طرح وہ تمہارا خیال کرتا ہے اور تمہاری عزت و احترام کرتا ہے تم بھی اس کا خیال رکھو اور اس کی تعظیم و تکریم کرو۔ جس طرح وہ تمہاری حفاظت و پاسبانی کی کوشش و سعی کرتا ہے تم بھی اسی طرح اس کی حفاظت میں سعی و کوشش کرو کہ کسی بھی اچھے کام میں وہ تم سے آگے نہ نکلنے پائے اور اگر وہ تمہارے اوپر سبقت لے جائے تو تم اس کا جبران کرو اور جہاں تک ممکن ہو اس کی دوستی میں کوتاہی نہ کرو۔ اور اپنے اوپر لازم قرار دے لو کہ اس کے خیر خواہ اور محافظ اور اپنے رب کی طاعت و عبادت میں اس کے پشت پناہ و مددگار رہو۔ اور اس سلسلے میں بھی اس کی مدد کرو کہ معصیت و گناہ کا ارادہ بھی نہ کرے۔ تمہیں تو اس کیلئے رحمت و محبت کا ذریعہ ہونا چاہئے نہ کہ عذاب کا۔ خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔ 
(۳۴)   شریک کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الشّرِيكِ فَإِنْ غَابَ كَفَيْتَهُ وَ إِنْ حَضَرَ سَاوَيْتَهُ وَ لَا تَعْزِمْ عَلَى حُكْمِكَ دُونَ حُكْمِهِ وَ لَا تَعْمَلْ بِرَأْيِكَ دُونَ مُنَاظَرَتِهِ وَ تَحْفَظُ عَلَيْهِ مَالَهُ وَ تَنْفِي عَنْهُ خِيَانَتَهُ فِيمَا عَزّ أَوْ هَانَ فَإِنّهُ بَلَغَنَا أَنّ يَدَ اللّهِ عَلَى الشّرِيكَيْنِ مَا لَمْ يَتَخَاوَنَا وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
شریک کا حق یہ ہے کہ اگر وہ موجود نہ ہو تو تم اس کے امور انجام دو اور اگر موجود ہو تو اسے برابر سمجھو۔ اس سے مشورہ کے بغیر اپنی مرضی سے فیصلہ نہ کرو۔ اس کے مال کی اس کیلئے حفاظت کرو۔اس کے امور میں چاہے کم ہو یا زیادہ ، خیانت نہ کرو اس لئے کہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ دو شریک و ساتھیوں پر خدا کا ہاتھ رہتا ہےجب تک کہ آپس میں خیانت نہ کریں۔ خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔
(۳۵) مال  كا حق:
وَ أَمّا حَقّ الْمَالِ فَأَنْ لَا تَأْخُذَهُ إِلّا مِنْ حِلّهِ وَ لَا تُنْفِقَهُ إِلّا فِي حِلّهِ وَ لَا تُحَرّفَهُ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَ لَا تَصْرِفَهُ عَنْ حَقَائِقِهِ وَ لَا تَجْعَلَهُ إِذَا كَانَ مِنَ اللّهِ إِلّا إِلَيْهِ وَ سَبَباً إِلَى اللّهِ وَ لَا تُؤْثِرَ بِهِ عَلَى نَفْسِكَ مَنْ لَعَلّهُ لَا يَحْمَدُكَ وَ بِالْحَرِيّ أَنْ لَا يُحْسِنَ خِلَافَتَهُ فِي تَرِكَتِكَ وَ لَا يَعْمَلَ فِيهِ بِطَاعَةِ رَبّكَ فَتَكُونَ مُعِيناً لَهُ عَلَى ذَلِكَ أَوْ بِمَا أَحْدَثَ فِي مَالِكَ أَحْسَنَ نَظَراً لِنَفْسِهِ فَيَعْمَلَ بِطَاعَةِ رَبّهِ فَيَذْهَبَ بِالْغَنِيمَةِ وَ تَبُوءَ بِالْإِثْمِ وَ الْحَسْرَةِ وَ النّدَامَةِ مَعَ التّبِعَةِ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
مال کا حق یہ هہے کہ اسے حلال راستے كکے علاوہ کسی اور ذریعہ سے حاصل نہ کرو۔ اور حلال کاموں كکے علاوہ کسی بھی جگہ اسے استعمال نہ کرو، اسے بے جا اور فضول خرچ نہ کرو، صحیح راستے سے کسی اور جگہ نہ لے جاؤ، اور خدا نے جو مال تمہیں دیا ہے اور اس کی جانب سے تم تک پہنچا ہے اسے اس کے راستے ہی میں خرچ کرو یا اس راہ میں خرچ کرو جو خدا تک پہنچنے کا وسیلہ و ذریعہ ہو۔ اور جو تمہارا احسان مند اور شکر گزار نہیں هہےاس کو مال کے سلسلے میں اپنے اوپر مقدم نہ کرو۔ اور سزاوار یہی ہے کہ اس کے سلسلے میں خدا كکی اطاعت كکو نہ چھوڑو۔ ایسا نہ ہو کہ یہ مال دوسروں کیلئے تمہاری میراث کے طور پر باقی رہ جائے اور تمہاری جانب سے وارث کیلئے مدد ہو جو تم سے بہتر راستے میں خرچ کرے اور تمہارے بجائے وہ اطاعت خدا میں خرچ کرکے فائدہ اٹھائے اور افسوس و پشیمانی اور گناہ کا بوجھ تمہارے حصے میں رہ جائے۔ خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیں۔ 
(۳۶) قرض خواہ کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الْغَرِيمِ الطّالِبِ لَكَ فَإِنْ كُنْتَ مُوسِراً أَوْفَيْتَهُ وَ كَفَيْتَهُ وَ أَغْنَيْتَهُ وَ لَمْ تَرْدُدْهُ وَ تَمْطُلْهُ فَإِنّ رَسُولَ اللّهِ (ص) قَالَ مَطْلُ الْغَنِيّ ظُلْمٌ وَ إِنْ كُنْتَ مُعْسِراً أَرْضَيْتَهُ بِحُسْنِ الْقَوْلِ وَ طَلَبْتَ إِلَيْهِ طَلَباً جَمِيلًا وَ رَدَدْتَهُ عَنْ نَفْسِكَ رَدّاً لَطِيفاً وَ لَمْ تَجْمَعْ عَلَيْهِ ذَهَابَ مَالِهِ وَ سُوءَ مُعَامَلَتِهِ فَإِنّ ذَلِكَ لُؤْمٌ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
تمہارے قرض خواہ کا حق یہ ہے کہ اگر تمہارے پاس ہے اور تمہاری استطاعت میں ہے تو اس کا قرض ادا کرو اور اس کا کام چلا دو ۔ اور اسے بے نیاز کردو۔ اس میں دیر نہ کرو اور ٹال مٹول کے ذریعہ اسے پریشان نہ کرو۔ اس لئے کہ رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: دولت مند و مالدار کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اگر تمہارے پاس نہ ہو تو اسے نرم لہجے اور خوش زبانی کے ذریعہ راضی کرو اور اس سےمزیدفرصت و مہلت مانگو اور اسے خوش خوش اپنے پاس سے واپس جانے دو اور چونکہ اس سے مال لے رکھا ہے اس لئے اس کے ساتھ بدسلوکی نہ کرو، اس لئے کہ یہ پستی اور گری ہوئی بات ہے۔ خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیں۔ 
(۳۷) معاشر کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الْخَلِيطِ فَأَنْ لَا تَغُرّهُ وَ لَا تَغُشّهُ وَ لَا تَكْذِبَهُ وَ لَا تُغْفِلَهُ وَ لَا تَخْدَعَهُ وَ لَا تَعْمَلَ فِي انْتِقَاضِهِ عَمَلَ الْعَدُوّ الّذِي لَا يَبْقَى عَلَى صَاحِبِهِ وَ إِنِ اطْمَأَنّ إِلَيْكَ اسْتَقْصَيْتَ لَهُ عَلَى نَفْسِكَ وَ عَلِمْتَ أَنّ غَبْنَ الْمُسْتَرْسِلِ رِبًا وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
جو تمہارے ساتھ معاشرت کرے، تمہارے ساتھ بہت زیادہ گھل مل جائے اس کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ اس کو دھوکہ نہ دو ، اس کے ساتھ جھوٹ چالبازی کے ذریعہ دوستی نہ کرو۔ اس کے ساتھ فریب و مکاری سے پیش نہ آؤ۔اس دشمن کی طرح اس کے ساتھ کارشکنی نہ کرو اور دھوکہ نہ دوکہ جو اپنے مدّمقابل کا پاس و لحاظ نہیں کرتا۔ اور اگر وہ تم پر بھروسہ کرے تو حتیٰ الامکان اس کے لئے سعی و کوشش کرو اور یاد رکھو کہ بھروسہ کرنے والے کو دھوکہ دینا ربا کی طرح ہے۔ خدا کے علاوہ کوئی طاقت و قوت نہیں ہے۔ 
 (۳۸) مدعی اور مدعا علیہ کا حق:
 وَ أَمّا حَقّ الْخَصْمِ الْمُدّعِي عَلَيْكَ فَإِنْ كَانَ مَا يَدّعِي عَلَيْكَ حَقّاً لَمْ تَنْفَسِخْ فِي حُجّتِهِ وَ لَمْ تَعْمَلْ فِي إِبْطَالِ دَعْوَتِهِ وَ كُنْتَ خَصْمَ نَفْسِكَ لَهُ وَ الْحَاكِمَ عَلَيْهَا وَ الشّاهِدَ لَهُ بِحَقّهِ دُونَ شَهَادَةِ الشّهُودِ فَإِنّ ذَلِكَ حَقّ اللّهِ عَلَيْكَ وَ إِنْ كَانَ مَا يَدّعِيهِ بَاطِلًا رَفَقْتَ بِهِ وَ رَوّعْتَهُ وَ نَاشَدْتَهُ بِدِينِهِ وَ كَسَرْتَ حِدّتَهُ عَنْكَ بِذِكْرِ اللّهِ وَ أَلْقَيْتَ حَشْوَ الْكَلَامِ وَ لَغْطَهُ الّذِي لَا يَرُدّ عَنْكَ عَادِيَةَ عَدُوّكَ بَلْ تَبُوءُ بِإِثْمِهِ وَ بِهِ يَشْحَذُ عَلَيْكَ سَيْفَ عَدَاوَتِهِ لِأَنّ لَفْظَةَ السّوْءِ تَبْعَثُ الشّرّ وَ الْخَيْرُ مَقْمَعَةٌ لِلشّرّ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
 وَ أَمّا حَقّ الْخَصْمِ الْمُدّعَى عَلَيْهِ فَإِنْ كَانَ مَا تَدّعِيهِ حَقّاً أَجْمَلْتَ فِي مُقَاوَلَتِهِ بِمَخْرَجِ الدّعْوَى فَإِنّ لِلدّعْوَى غِلْظَةً فِي سَمْعِ الْمُدّعَى عَلَيْهِ وَ قَصَدْتَ قَصْدَ حُجّتِكَ بِالرّفْقِ وَ أَمْهَلِ الْمُهْلَةِ وَ أَبْيَنِ الْبَيَانِ وَ أَلْطَفِ اللّطْفِ وَ لَمْ تَتَشَاغَلْ عَنْ حُجّتِكَ بِمُنَازَعَتِهِ بِالْقِيلِ وَ الْقَالِ فَتَذْهَبَ عَنْكَ حُجّتُكَ وَ لَا يَكُونَ لَكَ فِي ذَلِكَ دَرَكٌ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
 جو شخص تمہارے خلاف دعوے دار ہے اس کا تمہارے اوپر حق یہ ہے کہ اگر وہ صحیح بات کہہ رہا ہو تو اس کی دلیل کو رد نہ کرو اور اس کے دعوے کو باطل قرار نہ دو بلکہ اس موقع پر تم اپنے مخالف بن جاؤ اور اس کی جانب سے اپنے خلاف فیصلہ کرو اور گواہوں کی گواہی کے بغیر اس کے گواہ بنو اس لئے کہ یہ خدا کا حق ہے تمہارے اوپر۔ اور اگر اس کا دعویٰ غلط ہے اس نے تم پر جھوٹا دعویٰ کیا ہے تو اس کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ اس کو خوف دلاؤ ۔ اس کو اس کے دین کی قسم دو۔ خدا کی یاد دلاتے ہوئے اس کی شدت و تندی کو گھٹاؤاس کےساتھ سخت کلامی سے پیش نہ آؤ کیونکہ یہ  کام دشمن کے ظلم کو تم سے ہٹا نہیں سکتا۔ بلکہ اس سے تم اس کے گناہ میں شریک ہوگے اور اس کے باعث دشمن کی تلوار تمہارے خلاف اور زیادہ تیز ہوجائے گی اس لئے کہ بری بات شر کو بھڑکانے والی ہوتی ہے اور اچھی بات برائی کی جڑ کاٹ دیتی ہے۔ خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔ 
اور جس کے خلاف تم نے دعویٰ قائم کیا ہے اس کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ اگر تم اس دعوے میں حق بجانب ہو تو اس سے حق لینے کے لئے صبر و تحمل سے کام لو کیونکہ مدعی علیہ کیلئے دعویٰ ہی شدید جھٹکا ہے۔ اپنی دلیل کو آرام و نرمی کے ساتھ اسے سمجھاؤ۔ اسے مہلت دو، واضح و روشن بیان کے ذریعہ اس سے پوری مہربانی سے پیش آؤ۔ اس کےساتھ جھگڑے و اختلاف میں قیل و قال کے درمیان اپنی دلیل سے پیچھے نہ ہٹ جاؤ کہ تمہاری دلیل ہاتھوں سے نکل جائے کہ تم اس کی تلافی نہ کر سکو اور خدا کے علاوہ کوئی قدر ت و طاقت نہیں ہے۔ 
(۳۹) مشورہ کرنے والے کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الْمُسْتَشِيرِ فَإِنْ حَضَرَكَ لَهُ وَجْهُ رَأْيٍ جَهَدْتَ لَهُ فِي النّصِيحَةِ وَ أَشَرْتَ عَلَيْهِ بِمَا تَعْلَمُ أَنّكَ لَوْ كُنْتَ مَكَانَهُ عَمِلْتَ بِهِ وَ ذَلِكَ لِيَكُنْ مِنْكَ فِي رَحْمَةٍ وَ لِينٍ فَإِنّ اللّينَ يُؤْنِسُ الْوَحْشَةَ وَ إِنّ الْغِلَظَ يُوحِشُ مَوْضِعَ الْأُنْسِ وَ إِنْ لَمْ يَحْضُرْكَ لَهُ رَأْيٌ وَ عَرَفْتَ لَهُ مَنْ تَثِقُ بِرَأْيِهِ وَ تَرْضَى بِهِ لِنَفْسِكَ دَلَلْتَهُ عَلَيْهِ وَ أَرْشَدْتَهُ إِلَيْهِ فَكُنْتَ لَمْ تَأْلُهُ خَيْراً وَ لَمْ تَدّخِرْهُ نُصْحاً وَ لَا حَوْلَ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
 تم سے مشورہ کرنے والے کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ اگر اس کے کام کے سلسلے میں تمہیں صحیح بات معلوم ہے تو اس کو نصیحت کرنے اور صحیح راہنمائی کرنے کی کوشش کرو او رجو کچھ تمہیں معلوم ہے اس کو بتادو اس طرح سے کہ گویا تم خود ہی اس کام کو کررہے ہو۔ اور یہ اس لئے ہے کہ وہ تمہاری طرف سے مہربانی و نرمی سے روبرو ہو اس لئے کہ نرمی اختیار کرنا وحشت و اجنبیت کو ختم کردیتا ہے اور سخت گیری و حشت و اجنبیت پیدا کرتی ہے۔ اور اگر تم خود مشورہ نہیں دے سکتے لیکن تمہاری نظر میں کوئی ایسا ہو جس پر تم کو بھروسہ ہو اور تم خود اس سے مشورہ کرنا پسند کرتے ہو تو اس کو اس جانب راہنمائی کرو اور اس کا پتہ بتادو۔ اس کے سلسلے میں کوتاہی نہ کرو اور نصیحت کرنے میں دریغ نہ کرو۔ خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔ 
(۴۰) مشورہ دینے والے کا حق:
 وَ أَمّا حَقّ الْمُشِيرِ عَلَيْكَ فَلَا تَتّهِمْهُ فِيمَا لَا يُوَافِقُكَ عَلَيْهِ مِنْ رَأْيِهِ إِذَا أَشَارَ عَلَيْكَ فَإِنّمَا هِيَ الآْرَاءُ وَ تَصَرّفُ النّاسِ فِيهَا وَ اخْتِلَافُهُمْ فَكُنْ عَلَيْهِ فِي رَأْيِهِ بِالْخِيَارِ إِذَا اتّهَمْتَ رَأْيَهُ فَأَمّا تُهَمَتُهُ فَلَا تَجُوزُ لَكَ إِذَا كَانَ عِنْدَكَ مِمّنْ يَسْتَحِقّ الْمُشَاوَرَةَ وَ لَا تَدَعْ شُكْرَهُ عَلَى مَا بَدَا لَكَ مِنْ إِشْخَاصِ رَأْيِهِ وَ حُسْنِ وَجْهِ مَشُورَتِهِ فَإِذَا وَافَقَكَ حَمِدْتَ اللّهَ وَ قَبِلْتَ ذَلِكَ مِنْ أَخِيكَ بِالشّكْرِ وَ الْإِرْصَادِ بِالْمُكَافَأَةِ فِي مِثْلِهَا إِنْ فَزِعَ إِلَيْكَ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
 جو تمہارا مشاور ہے اور تمہیں مشورہ دے رہا ہے اس کا تمہارے اوپر حق یہ ہے کہ اگر اس کی رائے تمہارے موافق نہ ہو اور تمہیں اس کا مشورہ پسند نہ آئے تو اسے متہم نہ کرو، اسے الزام نہ دو اس لئے کہ نظریات اور آراء کے سلسلے میں لوگ مختلف هہوتے ہیں۔ اور اگر اس کی رائے كکے سلسلے میں تم بدبین هہو اور تم کو اس کی رائے میں کوئی عیب نظر آئے تو تم تو اس کی رائے ماننے میں مختار هہو ضروری نہیں کہ اس کے مشورہ پر عمل کرو لیکن اس مشورہ کے سلسلے میں تم اس پر الزام نہیں رکھ سکتے اسے متہم کرنا جائز نہیں ہے۔ خاص کر ایسی صورت میں جبکہ تمہارے نزدیک اس میں مشورہ دینے کی صلاحیت پائی جاتی ہو۔ اور جب وہ تم کو صحیح مشورہ دے اور اچھی رائے پیش کرے تو اس کا شکریہ ادا کرنا نہ بھولو اور اس نعمت پر خدا کی بھی حمد و تسبیح کرو۔ اور کبھی وہ تم سے مشورہ کرے تو اس طرح تم بھی صحیح اور اچھے مشورہ سے اس کی جزا دو۔ خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں۔ 
(۴۱) نصیحت طلب کرنے والے کا حق:
 وَ أَمّا حَقّ الْمُسْتَنْصِحِ فَإِنّ حَقّهُ أَنْ تُؤَدّيَ إِلَيْهِ النّصِيحَةَ عَلَى الْحَقّ الّذِي تَرَى لَهُ أَنّهُ يَحْمِلُ وَ تَخْرُجَ الْمَخْرَجَ الّذِي يَلِينُ عَلَى مَسَامِعِهِ وَ تُكَلّمَهُ مِنَ الْكَلَامِ بِمَا يُطِيقُهُ عَقْلُهُ فَإِنّ لِكُلّ عَقْلٍ طَبَقَةً مِنَ الْكَلَامِ يَعْرِفُهُ وَ يَجْتَنِبُهُ وَ لْيَكُنْ مَذْهَبُكَ الرّحْمَةَ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ جو تم سے نصیحت چاہے اس کا حق یہ ہے کہ اس کو اتنی نصیحت کرو جتنے کا وہ مستحق ہو اور جتنا وہ برداشت کرسکتا ہو۔ اس طرح سے اور اس انداز سے نصیحت کرو کہ اس کے کان کو بھلی لگے۔ اور اس کی عقل کے مطابق اس سے بات کرو ۔ اس لئے کہ ہر عقل کے لیے ایک انداز سخن ہوتا ہے وہ اسی کو سمجھتی ہے۔ مہربانی و دل سوزی کا رویہ اپناؤ۔ خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیں۔ 
(۴۲) نصیحت کرنے والے کا حق:
وَ أَمّا حَقّ النّاصِحِ فَأَنْ تُلِينَ لَهُ جَنَاحَكَ ثُمّ تَشْرَئِبّ لَهُ قَلْبَكَ وَ تَفْتَحَ لَهُ سَمْعَكَ حَتّى تَفْهَمَ عَنْهُ نَصِيحَتَهُ ثُمّ تَنْظُرَ فِيهَا فَإِنْ كَانَ وُفّقَ فِيهَا لِلصّوَابِ حَمِدْتَ اللّهَ عَلَى ذَلِكَ وَ قَبِلْتَ مِنْهُ وَ عَرَفْتَ لَهُ نَصِيحَتَهُ وَ إِنْ لَمْ يَكُنْ وُفّقَ لَهَا فِيهَا رَحِمْتَهُ وَ لَمْ تَتّهِمْهُ وَ عَلِمْتَ أَنّهُ لَمْ يَأْلُكَ نُصْحاً إِلّا أَنّهُ أَخْطَأَ إِلّا أَنْ يَكُونَ عِنْدَكَ مُسْتَحِقّاً لِلتّهَمَةِ- فَلَا تَعْبَأْ بِشَيْ‏ءٍ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى كُلّ حَالٍ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
 نصیحت کرنے والے کا حق یہ ہے کہ اس سے تواضع و خاکساری کے ساتھ پیش آؤ پھر قلبی طور پر اس کی طرف متوجہ ہو اور اس کی طرف کان لگاؤ تاکہ اس کی نصیحت کو سمجھ سکو پھر اس کی نصیحت میں غور و فکر کرو اگر اس نے صحیح بات کہی ہو تو اس پر خدا کی حمد بجالاؤ اور اس سے نصیحت قبول کرو اور اس کی نصیحت کی قدر کرو۔ اور اگر اس نے صحیح بات نہ کہی ہو تو پھر بھی اس کے ساتھ مہربانی کا رویہ اختیار کرو اس کو متہم نہ کرو۔ تمہیں یہ معلوم رہنا چاہئے کہ اس نے تمہاری بھلائی اور خیر خواہی میں کوتاہی نہیں کی ہے ہاں اس سے غلطی ہوئی ہے اور اگر وہ تمہاری نظر میں تہمت کا مستحق ہوتو اس کی کسی بات پر بھروسہ نہ کرو۔ خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔
(۴۳)  بڑے و بزرگ کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الْكَبِيرِ فَإِنّ حَقّهُ تَوْقِيرُ سِنّهِ وَ إِجْلَالُ إِسْلَامِهِ إِذَا كَانَ مِنْ أَهْلِ الْفَضْلِ فِي الْإِسْلَامِ بِتَقْدِيمِهِ فِيهِ وَ تَرْكُ مُقَابَلَتِهِ عِنْدَ الْخِصَامِ وَ لَا تَسْبِقْهُ إِلَى طَرِيقٍ وَ لَا تَؤُمّهُ فِي طَرِيقٍ وَ لَا تَسْتَجْهِلْهُ وَ إِنْ جَهِلَ عَلَيْكَ تَحَمّلْتَ وَ أَكْرَمْتَهُ بِحَقّ إِسْلَامِهِ مَعَ سِنّهِ فَإِنّمَا حَقّ السّنّ بِقَدْرِ الْإِسْلَامِ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
تم سے بڑے اور بزرگ کا حق یہ ہے کہ تم اس کے سن و سال کی وجہ سے اس کا احترام کرو۔ اور اگر وہ اسلام میں اہل فضیلت ہو تو اس کے اسلام کو اہمیت دو اس طرح سے کہ اس کو اپنے سے مقدم سمجھو اور اس کے ساتھ اختلاف و دشمنی سے بچو۔ اس سے آگے نہ چلو اور راستے میں اس پر سبقت نہ کرو۔ اس سے جہالت و نادانی سے پیش نہ آؤ۔ اگر وہ تمہارے ساتھ ایسا کرے تو تم برداشت کرو اور اسلام اور بزرگی و بڑائی کی وجہ سے اس کا احترام و اکرام کرو اس لئے کہ عمر میں بڑائی کا حق اسلام کے برابر ہے ۔ خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔ 
( ۴۴)  چھوٹے کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الصّغِيرِ فَرَحْمَتُهُ وَ تَثْقِيفُهُ وَ تَعْلِيمُهُ وَ الْعَفْوُ عَنْهُ وَ السّتْرُ عَلَيْهِ وَ الرّفْقُ بِهِ وَ الْمَعُونَةُ لَهُ وَ السّتْرُ عَلَى جَرَائِرِ حَدَاثَتِهِ فَإِنّهُ سَبَبٌ لِلتّوْبَةِ وَ الْمُدَارَاةُ لَهُ وَ تَرْكُ مُمَاحَكَتِهِ فَإِنّ ذَلِكَ أَدْنَى لِرُشْدِهِ
 تم سے چھوٹے اور کمسن کا حق یہ ہے کہ اس کے ساتھ مہر و محبت سے پیش آؤ، اس کی پرورش کرو، اس کو تعلیم دو اور سکھاؤ ، اس سے در گزر کرو، اس کی پردہ پوشی کرو، اسے لباس پہناؤ، اس کے ساتھ نرم رویہ اپناؤ، اس کی مدد کرو، اس کی بچکانہ حرکتوں اور بچپنے کی غلطیوں پر پردہ ڈالو اس لئے کہ یہ انداز و طریقہ اور برتاؤ توبہ کا سبب ہے، اس کے ساتھ رواداری کا باعث اور اسے تحریک نہ کرنے ، اسے نہ بھڑکانے کا سبب ہے جس کے نتیجے میں اس کے کامیاب ہونے اور آگے بڑھنے میں معاون ہے۔ 
(۴۵)  سائل کا حق:
وَ أَمّا حَقّ السّائِلِ فَإِعْطَاؤُهُ إِذَا تَيَقّنْتَ صِدْقَهُ وَ قَدَرْتَ عَلَى سَدّ حَاجَتِهِ وَ الدّعَاءُ لَهُ فِيمَا نَزَلَ بِهِ وَ الْمُعَاوَنَةُ لَهُ عَلَى طَلِبَتِهِ وَ إِنْ شَكَكْتَ فِي صِدْقِهِ وَ سَبَقَتْ إِلَيْهِ التّهَمَةُ لَهُ وَ لَمْ تَعْزِمْ عَلَى ذَلِكَ لَمْ تَأْمَنْ أَنْ يَكُونَ مِنْ كَيْدِ الشّيْطَانِ أَرَادَ أَنْ يَصُدّكَ عَنْ حَظّكَ وَ يَحُولَ بَيْنَكَ وَ بَيْنَ التّقَرّبِ إِلَى رَبّكَ فَتَرَكْتَهُ بِسَتْرِهِ وَ رَدَدْتَهُ رَدّاً جَمِيلًا وَ إِنْ غَلَبْتَ نَفْسَكَ فِي أَمْرِهِ وَ أَعْطَيْتَهُ عَلَى مَا عَرَضَ فِي نَفْسِكَ مِنْهُ- فَإِنّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
سائل کا حق یہ ہے کہ اگر تمہارے پاس صدقہ تیار ہے ( یا تمہیں اس کی سچائی کا یقین ہے) تو اسے دے دو اور اس کی ضرورت پوری کردو ۔ اور اس کی ناداری و فقر کے دور ہونے کی دعا کرو۔ اس مطالبہ پر اس کی مدد کرو اور اگر تم کو اس کی بات پر یقین نہ ہو، اس کے ضرورت مند ہونے کا شک ہو ،وہ متہم قرار دیا چکا ہو لیکن تم کو یقین نہ ہو (یعنی تم کو اس کی بات پر یقین تو نہ ہو لیکن اس کے جھوٹے ہونے کا یقین بھی نہ ہو اور یہ احتمال پایا جارہا ہو کہ ہوسکتا ہے وہ ضرورت مند ہو) تو ممکن ہے تم کو اس سلسلے میںمشکوک بنا کر اور اس کے بارے میں وسوسہ ڈال کر شیطان تم کو بہکا رہا ہو اور تم کو فائدے سے روکنا چاہ رہا ہو اور وہ تقرب خدا اور تمہارے درمیان حائل ہونا چاہ رہا ہو لہٰذا اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو اور مناسب و شائستہ جواب دو۔ اور اس صورت میں اگر کچھ دے دو تو یہ بہت اچھا ہے ۔
(۴۶)  مسئول کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الْمَسْئُولِ فَحَقّهُ إِنْ أَعْطَى قُبِلَ مِنْهُ مَا أَعْطَى بِالشّكْرِ لَهُ وَ الْمَعْرِفَةِ لِفَضْلِهِ وَ طَلَبِ وَجْهِ الْعُذْرِ فِي مَنْعِهِ وَ أَحْسِنْ بِهِ الظّنّ وَ اعْلَمْ أَنّهُ إِنْ مَنَعَ فَمَالَهُ مَنَعَ وَ أَنْ لَيْسَ التّثْرِيبُ فِي مَالِهِ وَ إِنْ كَانَ ظَالِماً فَ إِنّ الْإِنْسانَ لَظَلُومٌ كَفّارٌ-
 جس سے سوال کیا جائے، جس سے مانگا جائے اس کا حق یہ ہے کہ اگر اس نے کچھ دیا تو اسے شکریہ کے ساتھ قبول کرو اور اس کی قدر دانی کرو اور اگر اس نے کچھ نہیں دیا تو اسے خوشی کے ساتھ معذور سمجھو اور اس کے سلسلے میں حسن ظن رکھو اور یہ جان لو کہ اگر اس نے کچھ دینے سے دریغ کیا ہے تو اپنے ہی مال میں دریغ کیا ہے لہٰذا کوئی اعتراض و ملامت نہیں ہوسکتی اگر چہ وہ ظالم ہو اس لئے کہ انسان ظالم ہے اور حق کو چھپانے والا ہے۔ 
(۴۷)    خوش کرنے والے کا حق:
وَ  أَمّا حَقّ مَنْ سَرّكَ اللّهُ بِهِ وَ عَلَى يَدَيْهِ فَإِنْ كَانَ تَعَمّدَهَا لَكَ حَمِدْتَ اللّهَ أَوّلًا ثُمّ شَكَرْتَهُ عَلَى ذَلِكَ بِقَدْرِهِ فِي مَوْضِعِ الْجَزَاءِ وَ كَافَأْتَهُ عَلَى فَضْلِ الِابْتِدَاءِ وَ أَرْصَدْتَ لَهُ الْمُكَافَأَةَ وَ إِنْ لَمْ يَكُنْ تَعَمّدَهَا حَمِدْتَ اللّهَ وَ شَكَرْتَهُ وَ عَلِمْتَ أَنّهُ مِنْهُ تَوَحّدَكَ بِهَا وَ أَحْبَبْتَ هَذَا إِذْ كَانَ سَبَباً مِنْ أَسْبَابِ نِعَمِ اللّهِ عَلَيْكَ وَ تَرْجُو لَهُ بَعْدَ ذَلِكَ خَيْراً فَإِنّ أَسْبَابَ النّعَمِ بَرَكَةٌ حَيْثُ مَا كَانَتْ وَ إِنْ كَانَ لَمْ يَتَعَمّدْ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
خداوند عالم نے جس کے ذریعہ تمہیں خوشحال کیا ہے اور تم کو مسرت و خوشی حاصل ہوئی ہے، اس کا حق یہ ہےکہ اگر اس کا ارادہ تم کو خوش کرنے کا تھا تو پہلے تو خدا کا شکر ادا کرو پھر اس شخص کی خوبی و نیکی کے مقابلے میں جس نے خوشحال کیا ہے جتنا وہ مستحق ہے اس کا بدلہ چکاؤ، جزا دو اور  اس کے احسان و نیکی کے آغاز کے مقابلے میں نیکی و احسان کرو، نیک بدلہ دو اور اگر اس کا ارادہ تمہاری خوشی نہیں تھا تو خدا کی حمد و ثنا کرتے ہوئے شکر بجا لاؤ اور جان لو کہ یہ خوشی ا سکی وجہ سے ہے وہی تمہاری خوشحالی کا سبب ہوا ہے۔ چونکہ وہ تمہارے لئے خدا کی نعمت کا سبب بنا ہے لہذا اس سے محبت کرو او راس کی بھلائی چاہو اس لئے کہ جیسے بھی ہوں اور بغیر قصد کےہوں تب بھی نعمتوں کے اسباب بھی نعمت ہیں۔ خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔
(۴۸)تمہارے ساتھ برائی کرنے والے کا حق:
وَ أَمّا حَقّ مَنْ سَاءَكَ الْقَضَاءُ عَلَى يَدَيْهِ بِقَوْلٍ أَوْ فِعْلٍ فَإِنْ كَانَ تَعَمّدَهَا كَانَ الْعَفْوُ أَوْلَى بِكَ لِمَا فِيهِ لَهُ مِنَ الْقَمْعِ وَ حُسْنِ الْأَدَبِ مَعَ كَثِيرِ أَمْثَالِهِ مِنَ الْخَلْقِ فَإِنّ اللّهَ يَقُولُ وَ لَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولئِكَ ما عَلَيْهِمْ مِنْ سَبِيلٍ إِلَى قَوْلِهِ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ وَ قَالَ عَزّ وَ جَلّ وَ إِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصّابِرِينَ هَذَا فِي الْعَمْدِ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ عَمْداً لَمْ تَظْلِمْهُ بِتَعَمّدِ الِانْتِصَارِ مِنْهُ فَتَكُونَ قَدْ كَافَأْتَهُ فِي تَعَمّدٍ عَلَى خَطَإٍ وَ رَفَقْتَ بِهِ وَ رَدَدْتَهُ بِأَلْطَفِ مَا تَقْدِرُ عَلَيْهِ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
جس نے اپنے قول و فعل سے تمہارے ساتھ برائی کی ہے اس کا حق یہ ہےکہ اگر اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے تو بہتر یہی ہے کہ اس سے درگزر کرو تاکہ کدورت ختم ہوجائے اور اس طرح کے لوگوں کے ساتھ اسی طرح پیش آؤاس لئے کہ خداوند عالم فرماتا ہے: جس نے اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد اس کا انتقام لیا تو اس پر کوئی الزام نہیں۔(یہاں تک کہ فرمایا:) یہ صحیح کام ہے۔ پھر ارشاد ہوا: اگر سزا دو تو اتنی ہو جتنا تم کو نقصان پہنچا ہے او راگر صبر کرلو اور درگزر کرو تو صبر کرنے والوں کے لئے یہی بہتر ہے۔ یہ عمدا اور جان بوجھ کر بدی کرنے والے کے لئے تھا۔
لیکن اگر کسی نے تمہارے ساتھ جان بوجھ کر برائی نہ کی ہو تو تم بھی جانتے بوجھتے ہوئے بدلہ لینے میں اس پر ظلم نہ کروورنہ جان بوجھ کر برائی کے ذریعہ بدلہ لینے میں تم خطا کار قرار پاؤ گے بلکہ جہاں تک ہوسکے اس کے ساتھ نرمی و پیار و محبت سے پیش آؤ۔
(۴۹)    ہمکیش و ہم مذہب کا حق:
وَ أَمّا حَقّ أَهْلِ مِلّتِكَ عَامّةً فَإِضْمَارُ السّلَامَةِ وَ نَشْرُ جَنَاحِ الرّحْمَةِ وَ الرّفْقُ بِمُسِيئِهِمْ وَ تَأَلّفُهُمْ وَ اسْتِصْلَاحُهُمْ وَ شُكْرُ مُحْسِنِهِمْ إِلَى نَفْسِهِ وَ إِلَيْكَ فَإِنّ إِحْسَانَهُ إِلَى نَفْسِهِ إِحْسَانُهُ إِلَيْكَ إِذَا كَفّ عَنْكَ أَذَاهُ وَ كَفَاكَ مَئُونَتَهُ وَ حَبَسَ عَنْكَ نَفْسَهُ فَعُمّهُمْ جَمِيعاً بِدَعْوَتِكَ وَ انْصُرْهُمْ جَمِيعاً بِنُصْرَتِكَ وَ أَنْزَلْتَهُمْ أَنْزِلْهُمْ جَمِيعاً مِنْكَ مَنَازِلَهُمْ كَبِيرَهُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ وَ صَغِيرَهُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ وَ أَوْسَطَهُمْ بِمَنْزِلَةِ الْأَخِ فَمَنْ أَتَاكَ تَعَاهَدْتَهُ بِلُطْفٍ وَ رَحْمَةٍ وَ صِلْ أَخَاكَ بِمَا يَجِبُ لِلْأَخِ عَلَى أَخِيهِ
جو عمومی طور پر تمہارے ہم مسلک و ہم مذہب ہیں ان کا حق تمہارے اوپر یہ ہے کہ تہہ دل سے ان کی سلامتی کے طلب گار رہو اور لطف و مہربانی کا سایہ ان پر کئے رہو اور جو انمیں سے برے ہیں ان کے ساتھ بھی رفق و مہربانی کرو، ان کے ساتھ انس و الفت برقرار کرو، ان کی اصلاح کی کوشش کرو۔ اور ان لوگوں کا شکریہ ادا کرو جو اپنے ساتھ اور تمہارے ساتھ اچھائی و نیکی کرتے ہیں۔ چونکہ ان کا اپنے ساتھ احسان و نیکی کرنا تمہارے ساتھ احسان و نیکی کرنے کی طرح ہے اس لئے کہ تم کو تکلیف پہنچانے سے خودداری کرتے ہوئے تم کو زحمت میں نہیں ڈالا ان سب کےلئے دعا کرو، اپنی مدد کے ذریعہ ان سب کو مدد پہنچاؤ اور ہر ایک کے لئے اپنی بنسبت مقام و مرتبہ کے قائل ہو ان کے بزرگوں کو اپنے باپ کی طرح سمجھو۔ ان کے چھوٹوں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھو۔ اور میانہ سال افراد کو اپنے بھائی کی طرح سمجھو اور جو بھی تمہارے پاس آئے تو اس کے ساتھ لطف و مہربانی کا رویہ اپناتے ہوئے ان کی دل جوئی کرو اور اپنے بھائی کے ساتھ بھائی والا برتاؤ کرو۔
(۵۰)   اہل کتاب کا حق:
 وَ أَمّا حَقّ أَهْلِ الذّمّةِ فَالْحُكْمُ فِيهِمْ أَنْ تَقْبَلَ مِنْهُمْ مَا قَبِلَ اللّهُ وَ تَفِيَ بِمَا جَعَلَ اللّهُ لَهُمْ مِنْ ذِمّتِهِ وَ عَهْدِهِ وَ تَكِلَهُمْ إِلَيْهِ فِيمَا طُلِبُوا مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَ أُجْبِرُوا عَلَيْهِ وَ تَحْكُمَ فِيهِمْ بِمَا حَكَمَ اللّهُ بِهِ عَلَى نَفْسِكَ فِيمَا جَرَى بَيْنَكَ وَ بَيْنَهُمْ مِنْ مُعَامَلَةٍ وَ لْيَكُنْ بَيْنَكَ وَ بَيْنَ ظُلْمِهِمْ مِنْ رِعَايَةِ ذِمّةِ اللّهِ وَ الْوَفَاءِ بِعَهْدِهِ وَ عَهِدِ رَسُولِ اللّهِ ص حَائِلٌ فَإِنّهُ بَلَغَنَا أَنّهُ قَالَ مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِداً كُنْتُ خَصْمَهُ فَاتّقِ اللّهَ وَ لَا حَوْلَ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
اہل ذمہ (یعنی وہ اہل کتاب جو اسلام کی پناہ میں ہوں) ان کا حق یہ ہے کہ ان سے جو چیز خدا نے قبول کی ہے تم بھی قبول کرو۔ اور خدا نے ان کے لئے جو عہد اور ذمہ داری معین کی ہے اس کےسلسلے میں وفادار رہو اور ان کو وہ دو ان کے حوالے کرو جو وہ چاہتے ہیں اور جس پر مجبور ہوں ان کے معاملات میں حکم خدا پر عمل کرو۔ اور چونکہ وہ اسلام کی پناہ میں ہیں لہذا خدا و رسول کے عہد کو پورا کرنے کی خاطر ان پر ظلم و ستم نہ کرو۔ اس لئے کہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا: ’’جو بھی اس شخص پر ظلم کرے جس سے عہد و پیمان کیا ہے تو میں اس کا دشمن و مخالف ہوں۔ خدا سے ڈرتے رہو خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔
فَهَذِهِ خَمْسُونَ حَقّاً مُحِيطاً بِكَ لَا تَخْرُجْ مِنْهَا فِي حَالٍ مِنَ الْأَحْوَالِ يَجِبُ عَلَيْكَ رِعَايَتُهَا وَ الْعَمَلُ فِي تَأْدِيَتِهَا وَ الِاسْتِعَانَةُ بِاللّهِ جَلّ ثَنَاؤُهُ عَلَى ذَلِكَ وَ لَا حَوْلَ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ- وَ الْحَمْدُ لِلّهِ رَبّ الْعالَمِين‏
یہ پچاس حقوق ہیں جو تمہارے پورے وجود کو گھیرے ہوئے ہیں اور زندگی کے کسی بھی موڑ پر اور کسی بھی حالت میں تم اپنے کو ان حقوق سے بری نہ سمجھنا، ہر حال میں ان حقوق کا خیال کرنا اور انکی ادائگی کی کوشش کرتے رہنا تم پر واجب ہے اور لائق حمد و ثنائے پروردگار سے مدد طلب کرتے رہو تاکہ ان حقوق کے ادا کرنے کی تمہیں توفیق حاصل ہو خداوند عالم کے علاوہ کوئی طاقت و قوت نہیں ہے اور ساری تعریفیں عالمین کے پروردگار کے لئے ہیں۔ 

ضضض