باسمہ تعالیٰ
رسالہ حقوق حضرت امام زین العابدین علیہ السلام
ترجمہ سید محمد حسنین باقری
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام، پیغمبر اکرم ﷺ کے چوتھے جانشین برحق یعنی امیر المومنین، امام حسن و امام حسین علیہم السلام کے بعد ہمارے چوتھے امام ہیں۔آپ اپنے آباؤ اجداد کی طرح امامِ منصوص، معصوم، اعلم زمانہ اور افضل کائنات تھے۔
آپ کی ولادت باسعادت ۳۸ ہجری میں ہوئی تھی اس لحاظ ہے اس سال یعنی ۱۴۳۸ھ میں ولادت کو ۱۴ سوسال مکمل ہوگئے۔ اس انتہائی پُرمسرت موقع پر ضرورت ہے کہ آپؑ کی الٰہی تعلیمات سے زیادہ سے زیادہ آشنا ہواجائے تاکہ اس کی روشنی میں اپنی دینی و دنیوی زندگی کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لئے بھی حقّ و حقیقت کو پہچاننے کا موقع فراہم کیا جاسکے۔
آج جہاں ہر طرف حقوق بشر کے صرف نعرے نظر آرہے ہیں ، ضرورت ہے کہ معلم انسانیت ، نمائندہ الٰہی، جانشین پیغمبرؐ کے ذریعہ بیان کئے گئے واقعی و حقیقی انسانی حقوق کو پہچانیں اس کے ذریعہ ایک طرف انسانیت کو پروان چڑھائیں تو دوسری طرف حقیقی اسلام کو پہچانتے ہوئے بنام اسلام انسانی حقوق پائمال کرنے والوں کے چہروں پر پڑی ہوئی نقابوں سے دھوکا کھانے کے بجائے استعمار اور انسانی دشموں کے ہاتھوں استعمال ہونے والے ان آلۂ کار پہچانیں۔
امام سجادؑ سے منسوب ’’رسالۂ حقوق‘‘ جس میں امام علیہ السلام نے انسان پر عائد ہونے والے حقوق کو بیان فرمایاہے۔ یہ رسالہ متعدد کتابوں میں نقل ہوا ہے۔ تحف العقول، ابن شعبہ حرّانی(متوفیٰ ۳۸۱ھ)، من لا یحضرہ الفقیہ اور الخصال، محمد بن علی بن بابویہ المعروف شیخ صدوقؒ(م ۳۸۲ھ) جیسی تین اہم کتابوں میں یہ رسالہ نقل ہواہے۔ صاحب تحف العقول نے اس رسالہ کو دیگر روایات کی طرح بغیر سند کے ذکر کیا ہےلیکن مرحوم شیخ صدوقؒ نے سند متصل سے روایت کیا ہے۔
تینوں کتابوں میں الفاظ و عبارات میں معمولی سا اختلاف بھی ہے مثلاً من لا یحضرہ الفقیہ میں اس رسالہ کا مقدمہ بیان نہیں ہوا بلکہ ’حق اللہ الاکبر‘ سے آغاز ہے۔ خصال کی عبارت میں شرح بھی ہے۔
گرچہ متعدد افراد نے اس رسالہ کا اردو ترجمہ کیا ہے اس وقت بھی بعض ترجمے بازار میں موجود ہیں لیکن چودہ سو سالہ ولادت کے اہم موقع پر امامؑ کے اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے اور اس سال میں امام کا جشن منانے والوں کے قافلے میں شامل ہونے کے لئے ترجمہ آپ کے سامنے ہے نقائص و غلطیوں کا اعتراف ہے اپنی حد تک کوشش کی ہے ۔خدا سے دعا ہے کہ اس ناچیز عمل کو قبول فرمائے۔
سید محمد حسنین باقری
۱۵؍جمادی الاولیٰ ۱۴۳۸ھ
باسمہ تعالیٰ
رسالہ حقوق
(۱) خداوند عالم کا حق:
فأَمَّا حَقُّ اللهِ الأَكْبَرُ فَإنَّكَ تَعْبُدُهُ لا تُشْرِكُ بهِ شَيْئاً، فَإذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ بإخلاص جَعَلَ لَكَ عَلَى نَفْسِهِ أَنْ يَكفِيَكَ أَمْرَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَيَحْفَظَ لَكَ مَا تُحِبُّ مِنْهَما.
خداوند عالم کا تمہارے اوپر حق یہ ہے کہ:
اسی کی عبادت کرو، اس کے سوا کسی کو بھی معبود قرار نہ دو،ہر گز خدا کا شریک کسی کو نہ بناؤ، اس لئے کہ اگر خدا کا حق ادا کرتے ہوئے خلوص و صدق دل سے اسی کی عبادت کروگے تو اس کام کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ تمہاری دنیا و آخرت دونوں کو سنوار دے گا دونوں جگہ وہ تمہارے آئے گا۔ اور دنیا و آخرت میں جو بھی چاہو گے وہ تمہارے لئے محفوظ کردے گا۔
(۲) نفس کا حق:
وَأَمَّا حَقُّ نَفْسِكَ عَلَيْكَ فَأَنْ تَسْتَوْفِيَهَا فِي طَاعَةِ اللهِ فَتُؤَدّي إلَى لِسَانِكَ حَقَّهُ وَإلَى سَمْعِك حَقَّهُ وَإلَى بَصَرِكَ حَقّهُ وَإلَى يَدِكَ حَقَّهَا وَإلَى رِجْلِك حَقَّهَا وَإلَى بَطْنِكَ حَقَّهُ وَإلَى فَرْجِكَ حَقَّهُ وَتَسْتَعِينَ باللهِ عَلَى ذَلِك.
تمہارے اوپر تمہارے نفس کا حق یہ ہے کہ اس کو خداوند عالم کی اطاعت و بندگی میں لگاؤ، اس کی مخالفت سے نفس کو بچاؤ اس طرح سے کہ اپنی زبان ، کان ، آنکھ،ہاتھ، پیر، شکم اور زیر شکم کے ذریعہ ان کے حقوق ادا کرو اور اس بارے میں خدا سے مدد طلب کرو۔
(۳) زبان کا حق:
وَأَمَّا حَقُّ اللّسَان فَإكْرَامُهُ عَنِ الْخَنَى* وتَعْوِيدُهُ عَلَى الْخَيْرِ وَحَمْلُهُ عَلَى الأَدَب وَإجْمَامُهُ* إلاّ لِمَوْضِعِ الْحَاجَةِ وَالْمَنْفَعَةِ لِلدِّينِ وَالدُّنْيَا وَإعْفَاؤُهُ عَنِ الْفُضُول اُلشَّنِعَةِ الْقَلِيلَةِ الْفَائِدَةِ الَّتِي لا يُؤْمَنُ ضَرَرُهَا مَعَ قِلَّةِ عَائِدَتِهَا.وَيُعَدُّ شَاهِدَ الْعَقْلِ وَالدَّلِيلَ عَلَيْه وَتَزَيُّنُ الْعَاقِلَ بعَقْلِهِ حُسْنُ سِيرَتِهِ فِي لِسَانِهِ.
وَلا قُوَّةَ إلا باللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ.
زبان کا حق یہ ہے کہ اس کو برائی اور بے ہودہ گوئی سے محفوظ رکھو اور اسے نیک و شائستہ بات کہنے کا عادی بناؤ اس کو با ادب بناؤ ، اس کو ضرورت کے وقت یادین و دنیا کے فائدے ہی کےلئے استعمال کرو ورنہ اسے بند رکھو۔
اپنی زبان کو پُرگوئی، فضول و بے فائدہ باتوں سے محفوظ رکھو، اس لئے کہ زبان عقل کی گواہ اور اس پر دلیل ہوتی ہے یعنی زبان کے ذریعہ عقل کا پتا چلتا ہے۔ اور عقل مند کا کمال اپنی زبان کو عقلی باتوں اور زبان کے ذریعہ نیک کردار پیش کرنے میں ہے۔ خدائے علی و عظیم کے سوا کسی کی جانب سے قوت و مدد نہیں ہے۔
(۴) کان کا حق:
وَأَمَّا حَقُّ السَّمْعِ فَتَنْزِيهُهُ عَنْ أَنْ تَجْعَلَهُ طَرِيقًا إلَى قَلْبكَ إلا لِفُوهَة كَرِيمَة تُحْدِثُ فِي قَلبكَ خَيْرًا أَو تَكْسِبُ خُلُقًا كَرِيمًا فَإنَّهُ بَابُ الْكَلامِ إلَى الْقَلْب يُؤَدِّي إلَيْهِ ضُرُوبُ الْمَعَانِي عَلَى مَا فِيهَا مِن خَيْر أَو شَرِّ.وَلَا قُوَّۃَ الّا بِاللہِ ۔
’و حقّ السَّمعِ تَنْزِیْھُہ عَن سمَاعِ الْغِیْبَۃِ مَا لَا یَحِلّ سماعہ‘
کان کا حق یہ ہے کہ اس کو اپنے دل تک اچھی خبر پہنچانے یا نیک کردار اختیار کرنے کا ذریعہ بناؤ اس لئے کہ کان دل کا دروازہ اور اس تک پہنچنے کا راستہ ہے یہی اس تک اچھائی یا برائی پہنچاتا ہے خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں۔
کان کا حق یہ بھی ہے کہ اس کو غیبت سنانے اور ایسی باتیں سنانے سے جن کا سننا جائز نہیں ہے، محفوظ رکھو۔
(۵)آنکھ کا حق:
وَأَمَّا حَقُّ بَصَرِكَ فَغَضُّهُ عَمَّا لا يَحِلُّ لَكَ وتَرْكُ ابْتِذَالِهِ إلاّ لِمَوضِعِ عِبْرَة تَسْتَقْبلُ بهَا بَصَرًا أَو تَسْتَفِيدُ بهَا عِلْمًا، فَإنَّ الْبَصَرَ بَابُ الِاعْتِبَارِ.
’و حقّ البصر أن تغضّہ عما لا یحل لک و تعتبر بالنظر بہ‘
تمہاری آنکھ کا حق تمہارے اوپر یہ ہے کہ اسے ناجائز و حرام چیزوں کے دیکھنے سے بند رکھو اور اس کی حفاظت کرو اس کو صرف عبرت حاصل کرنے کےلئے استعمال کرو جس سے صاحب بصیر ت ہوجاؤ یا اس سے علم حاصل کرو، اس کو ذریعۂ علم بناؤ اس لئے کہ آنکھ عبرت کا وسیلہ ہے۔
اور آنکھ کا حق یہ بھی ہے کہ اس کو ہر طرح کی ناجائز چیز دیکھنے سے بند رکھو اور آنکھ کے ذریعہ عبرت حاصل کرو۔
(۶)پیر کاحق:
وَأَمَّا حَقُّ رِجْلَيْكَ فَأَنْ لا تَمْشِي بهِمَا إلَى مَا لا يَحِلُّ لَكَ وَلا تَجْعَلْهُمَا مَطِيَّتَكَ فِي الطَّرِيقِ الْمُسْتَخِفَّةِ بأَهْلِهَا فِيهَا فَإنَّهَا حَامِلَتاكَ وَسَالِكتانَ بكَ مَسْلَكَ الدِّينِ وَالسَّبْقُ لَكَ، وَلا قُوَّةَ إلا بالله.
’فبھما تقف علی الصراط فانظر ان لا تزلّ بک فتردّی فی النار‘
تمہارے پیروںکا حق تمہارے اوپر یہ ہے کہ ان کے ذریعہ کسی ایسی جگہ نہ جاؤ جہاں جانا تمہارے لئے جائز نہیں ہے۔ اور انہیں ایسے راستہ پر نہ چلاؤ جس پر چلنے والا پشیمان یا شرمندہ ہو اس لئے کہ یہی پیر تم کو اٹھائے رہتے ہیں یہی تمہیں دین کی طرف لے جانے والے ہیں اور دین کی جانب سبقت کا سبب بنتے ہیں ۔ خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیں۔
انہیں پیروں کے ذریعہ پل صراط پر کھڑے ہوگے لہٰذا توجہ دو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں لڑ کھڑا دیں اور تمہیں آتش جہنم میں گرادیں۔
(۷) ہاتھ کا حق:
وَأَمَّا حَقُّ يَدِكَ فَأَنْ لا تَبْسُطَهَا إلَى مَا لا يَحِلُّ لَكَ فَتَنَالَ بمَا تَبْسُطُهَا إلَيْهِ مِنَ اللهِ الْعُقُوبَةَ فِي الآجِلِ، وَمِنَ النَّاسِ بلِسَانِ اللائِمَةِ فِي الْعَـاجِلِ، وَلا تَقْبضَهَا مِمَّا افْتَرَضَ اللهُ عَلَيْهَا وَلَكِنْ تُوقّرَِهَا بقَبْضِهَا عَنْ كَثِير مِمَّا يَحِلُّ لَهَا وبَسْطِهَا إلَى كَثِير مِمَّا لَيسَ عَلَيْهَا، فَإذَا هِيَ قَدْ عُقِلَتْ وَشُرِّفَتْ فِي الْعَاجِلِ وَجَبَ لَهَا حُسْنُ الثَّوَاب فِي الآجِلِ.
تمہارے اوپر تمہارے ہاتھوں کا حق یہ ہے کہ انہیں کسی ایسی چیز کی طرف نہ بڑھا ؤ جو تمہارے لئے جائز نہیں ہے۔ ورنہ آئندہ عذاب الٰہی میں گرفتار ہوگے اور لوگوں کی زبان ملامت سے بھی محفوظ نہیں رہوگے۔ خیال رکھو کہ انہیں واجب کاموں سے نہ روکو اور ہاتھوں کا اس طرح احترام کرو کہ اس کو حرام کاموں سے بچاؤ اور اس سے بے ضرر کاموں کو انجام دو۔ اس لئے کہ اگر ہاتھ اس دنیا میں حرام سے محفوظ رہیں اور انھیں عقل و منطق کے مطابق استعمال کیا جائے تو انسان آخرت میں بہترین ثواب کا مستحق ہوگا۔
(۸) پیٹ کا حق:
وَأَمَّا حَقُّ بَطْنِكَ فَأَنْ لا تَجْعَلَهُ وِعَاءً لِقَلِيل مِنَ الْحَرَامِ وَلا لِكَثِير، وَأَنْ تَقْتَصِدَ لَهُ فِي الْحَلالِ وَلا تُخرِجَهُ مِنْ حَدِّ التَّقْوِيَةِ إلَى حَدِّ التَّهْوِينِ وَذَهَاب الْمُرُوَّةِ، وَضَبْطُهُ إذَا هَمَّ بالْجُوعِ والظمأ فَإنَّ الشَّبْعَ الْمُنْتَهِي بصَاحِبهِ إلَى التُّخمِ مَكْسَلَةٌ وَمَثْبَطَةٌ وَمَقْطَعَةٌ عَنْ كُلِّ برِّ وَكَرَم. وَإنَّ الري الْمُنْتَهِي بصَاحِبهِ إلَى السُّكْرِ مَسْخَفَةٌ وَمَجْهَلَةٌ وَمَذْهَبَةٌ لِلْمُرُوَّةِ.
تمہارے پیٹ کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ اسے حرام چیزوں کا ظرف قرار نہ دو چاہے وہ حرام چیز کم ہو یا زیادہ ۔ اور حلال میں بھی میانہ روی کا خیال رکھو حد سے تجاوز نہ کرو۔ تقویت کی حد سے شکم پری اور بے مروتی کی حد تک نہ پہنچو۔ جب بھی شکم بھوکا یا پیاسا ہو تو کنٹرول کرو اس لئے کہ ضرورت سے زیادہ پیٹ کا بھرنا پیٹ کو نقصان پہنچاتا ہے، سستی کا سبب ہوتا ہے کہ جس کے نتیجے میں ہر نیک اور اچھے کام سے محروم رہ جاتے ہو۔ نشہ آور اور مست کرنے والی چیز پینا اپنی اہمیت کو کم کرناہے جو جہالت ونادانی اور بے مروتی کا سبب ہے۔
(۹) شرمگاہ کا حق:
وَأَمَّا حَـقُّ فَرْجِكَ فَحِفْظُهُ مِمَّا لا يَحِلُّ لَكَ وَالاسْتِعَانَةُ عَلَيْهِ بغَضِّ الْبَصَرِ – فَإنَّهُ مِنْ أَعْوَنِ الأَعْوَانِ- وَكَثْرَةُ ذِكْرِ الْمَوتِ وَالتَّهَدُّدِ لِنَفْسِكَ باللهِ وَالتَّخوِيفِ لَهَا بهِ، وَباللهِ الْعِصْمَةُ وَالتَّأْيِيدُ وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إلا بهِ.
’و اما حق فَرْجک أن تُحصنہ عن الزنا و تحفظہ من أن ینظر الیہ‘
تمہاری شرمگاہ کا تمہارے اوپر حق یہ ہے کہ اس کو ہر اس کام سے محفوظ رکھو جو تمہارے لئے جائز نہیں ہے اس کےذریعہ محرمات سے چشم پوشی کرنے میں مدد حاصل کرو۔ اس لئے کہ یہ بہترین مددگار ہے۔ اور موت کو بہت زیادہ یاد کرنے اور نفس کو خوف خدا دلانے کے ذریعہ مدد حاصل کرو اس راہ میں محفوظ رہنا اور تائید کی توفیق خدا ہی کی جانب سے ہے خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔
اور تمہاری شرمگاہ کا تمہارے اوپر حق یہ بھی ہے کہ اس کو زنا سے محفوظ رکھو اور نامحرم کی نگاہ سے چھپاؤ۔
ثم حقوق الأفعال(اعمال و افعال کے حقوق):
(۱۰) نماز کا حق:
فَأَمَّا حَقُّ الصَّلاةِ فَأَنْ تَعْلَمَ أنّهَا وِفَادَةٌ إلَى اللهِ وَأَنَّكَ قَائِمٌ بهَا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ، فَإذَا عَلِمْتَ ذَلِكَ كُنْتَ خَلِيقًا أَنْ تَقُومَ فِيهَا مَقَامَ الذَّلِيلِ الرَّاغِب الرَّاهِب الْخَائِفِ الرَّاجِي الْمِسْكِينِ الْمُتَضَرِّعِ الْمُعَظِّمِ مَنْ قَامَ بَيْنَ يَدَيْهِ بالسُّكُونِ وَالإطْرَاقِ وَخُشُوعِ الأَطْرَافِ وَلِينِ الْجَنَاحَ وَحُسْنِ الْمُنَاجَاةِ لَهُ فِي نَفْسِهِ وَالطَّلَب إلَيْهِ فِي فَكَاكِ رَقَبَتِكَ الَّتِي أَحَاطَتْ بهِ خَطِيئَتُكَ وَاسْتَهلَكَتْهَا ذُنُوبُكَ. وَلا قُوَّةَ إلا باللهِ.
نماز کے حق کے سلسلے میں تمہیں یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ نماز تمہیں خدا کے حضور پہنچاتی ہے اور نماز میں تم خدا کے روبرو ہوتے ہو تو تمہیں اس طرح کھڑے ہونا چاہئے جس طرح ایک ذلیل و ناچیز، عاجز و مشتاق، حیران و خوف زدہ، امیدوار و محتاج اور تضرع و زاری کرنے والا کھڑا ہوتا ہے۔ جس کے سامنے تم کھڑے ہو اس کی عظمت و بزرگی سمجھتے ہوئے سکون و اطمینان کے ساتھ سر جھکائے اعضاء کے خشوع اور فروتنی کے ساتھ اس کی عظمت کا لحاظ رکھو اور اپنے دل میں اس سے بہترین طریقہ سے مناجات و دعا کے ذریعہ اپنی گردن کو خطاؤں سے آزاد کرنے کی التماس کرو جو اس کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اور ان گناہوں کی بخشش کی دعا کرو اور خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔
(۱۱) روزہ کا حق:
وَأَمَّا حَقُّ الصَّوْمِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنَّهُ حِجَابٌ ضَرَبَهُ اللهُ عَلَى لِسَانِكَ وَسَمْعِكَ وبَصَرِكَ وَفَرْجِكَ وبَطْنِكَ لِيَسْتر’َكَ بهِ مِن النَّارِ وَهَكَذَا جَاءَ فِي الْحَديثِ “الصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ” فَإنْ سَكَنَتْ أَطْرَافُـكَ فِي حَجَبَتِهَا* رَجَوْتَ أَنْ تَكُونَ مَحْجُوبًا. وَإنْ أَنْتَ تَرَكْتَهَا تَضْطَرِبُ فِي حِجَابهَا وتَرْفَعُ جَنَبَاتِ الْحِجَاب فَتُطّلِعُ إلَى مَا لَيْسَ لَهَا بالنَّظْرَةِ الدَّاعِيـَةِ لِلشَّهْوَةِ وَالقُوَّةِ الْخَارِجَةِ عَنْ حَدِّ التَّقِيَّةِ للهِ لَمْ تَأمَنْ أَنْ تَخرِقَ الْحِجَابَ وَتَخرُجَ مِنْهُ. وَلا قُوَّةَ إلا باللهِ.
روزہ کا حق یہ ہے کہ جان لو روزہ ایک حجاب و پردہ ہے جسے خدا وند عالم نے تمہاری زبان، کان، آنکھ، شرمگاہ اور تمہارے پیٹ پر ڈال رکھا ہے تاکہ اس کے ذریعہ تمہیں دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھے لہذا اگر تم نے روزہ کو ترک کیا تو گویا خدا کے ڈالے ہوئے حجاب کو تم نے پارہ کیا۔ اسی طرح حدیث میں بھی بیان ہوا ہے کہ روزہ آتش دوزخ سے بچنے کی سپر ہے ۔
اگر اس حجاب سے تمہارے اعضاو جوارح کو سکون و آرام ملے تو امیدوار رکھو کہ تم پردے میں ہو اور اگر تم نے اس پردہ کا پاس و لحاظ نہ کیا تو تم نے خدا کے حجاب میں رخنہ ڈالا اور جب تم نے پردہ اٹھا دیا تو تمہاری نگاہ اس چیز کو دیکھے گی جس کو تمہیں نہیں دیکھنا چاہیے اور اس کے مقابلے اپنے اختیارات و کنٹرول کی طاقت کو کم کیا ہے۔ وہ تمہیں خدا کی پناہ سے نکال دے گی اور جہاں پردہ چاک ہوجائے اور تم اس سے باہر نکل جاؤ تو وہاں تمہیں خود کو محفوظ نہیں سمجھنا چاہیے۔ خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔
(۱۲) حج کا حق:
وَأَمَّا حَقُّ الحَجّ أَنْ تَعْلَمَ أَنّه وِفادةٌ إلى رَبّكَ، و فِرارٌ إليه من ذُنوبكَ وفيهِ قبولُ تَوبتِكَ وقَضاءُ الفَرضِ الَّذي أوجَبَه الله عَليك.
حج کے حق کے بارے میں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ تمہارے ربّ کی جانب ایک سفر اور تمہارا اپنے گناہوں سے خدا کی طرف فرار ہے۔ اس میں تمہاری توبہ قبول ہوتی ہے اور اس واجب کو انجام دیتے ہو جس کو خدا نے تم پر واجب کیا ہے۔
(۱۳) صدقہ کا حق:
وَأَمَّا حَقُّ الصَّدَقَةِ فَأَنْ تَعْلَمَ أنَّها ذُخرُكَ عِنْدَ رَبكَ وَوَديعَتُكَ الَّتِي لا تَحْتَاجُ إلَى الإشْهَادِ، فَإذا عَلِمْتَ ذَلِك كُنْتَ بمَا اسْتَودَعْتَهُ سِرًّا أَوْثقَ بمَا اسْتَوْدَعْتَهُ عَلانِيَةً، وَكُنْتَ جَدِيرًا أَنْ تَكونَ أَسْرَرْتَ إلَيْهِ أَمْرًا أَعْلَنْتَهُ، وَكَانَ الأَمْرُ بَيْنَكَ وبَيْنَهُ فِيهَا سِرًّا عَلَى كُلِّ حَال وَلَمْ تَسْتَظْهِرْ عَلَيْهِ فِيمَا اسْتَوْدَعْتَهُ مِنْهَا بإشْهَادِ الأَسْمَاعِ وَالأَبْصَارِ عَلَيْهِ بهَا كَأنَّهَا أَوْثقُ فِي نَفْسِكَ لا كَأنَّكَ لا تثِقُ بهِ فِي تَأْديَةِ وَديعَتِكَ إلَيْكَ، ثُمَّ لَمْ تَمْتَنَّ بهَا عَلَى أَحَد لأَنّهَا لَكَ فَإذا امْتَنَنْتَ بهَا لَمْ تَأْمَنْ أَنْ تَكُونَ بهَا مِثْلَ تَهْـجِينِ* حَالِكَ مِنْهَا إلَى مَنْ مَنَنْتَ بهَا عَلَيْهِ لأَنَّ فِي ذلِكَ دَلِيلاً عَلَى أَنّكَ لَمْ تُرِدْ نفْسَكَ بهَـا، وَلَوْ أَرَدْتَ نفْسَكَ بهَا لَمْ تَمْتَنَّ بهَا عَلَى أَحَد. وَلا قُوَّةَ إلا باللهِ.
صدقہ کے حق کے بارے میں تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ تمہارے خدا کے پاس تمہارا ذخیرہ اور امانت ہے جس کے لئے گواہ کی ضرورت نہیں۔اور جب تم کو یہ بات معلوم ہوگئی تو جو صدقہ پوشیدہ طور پر چھپا کر دوگے اس سے تم اس صدقہ کی بنسبت زیادہ مطمئن رہوگے جو علی الاعلان اور کھلم کھلا دیتے ہو، تمہارے لئے مناسب یہی ہے کہ اب تک جو علانیہ او ر بطور آشکار انجام دیتے تھے اب اسے چھپا کر اور پوشیدہ طور پر انجام دو۔ بہر صورت تمہارے اور تمہارے صدقہ کے درمیان بات پوشیدہ ہی رہے۔ صدقہ دینے میں اپنے آنکھوں وکانوں کو بھی گواہ مت بناؤ یعنی اس طرح صدقہ دو کہ حتی تمہاری آنکھیں بھی نہ دیکھیں اور تمہارے کان بھی نہ سنیں، اس لئے کہ یہ ضروری نہیں ہے۔ اس صدقہ پر بھروسہ ہے کہ تمہاری طرف پلٹ آئے گا۔ اس شخص کی طرح نہ ہوجاؤ جو صدقہ کے پلٹنے پر بھروسہ نہیں رکھتا۔پھر اپنے صدقہ کے ذریعہ کسی پر احسان مت جتاؤکیونکہ وہ تمہارا ہی ہے اور اگر اس پر احسان جتاؤ گے تو تم اس بات سے محفوظ نہیں رہوگے کہ اس شخص کی طرح تم بھی بد حالی میں مبتلا ہوجاؤ جس میں وہ شخص مبتلا ہے جس پر تم نے احسان جتایا ہے۔
(۱۴) قربانی کا حق:
وَأمَّا حَقُّ الهَدْيِ فَأَنْ تُخلِصَ بهَا الإرَادَةَ إلَى رَبكَ وَالتَّعَرُّضَ لِرَحْمَتِهِ وَقَبُولِهِ ولا تُرِيدَ عُيُونَ النَّاظِرِينَ دُونهُ، فـَإذَا كُنْتَ كَذَلِكَ لَمْ تَكُنْ مُتَكَلِّفًا ولا مُتَصَنِّعًا وَكُنْتَ إنَّمَا تَقْصِدُ إلَى الله. وَاعْلَمْ أَنَّ الله يُرَادُ بالْيَسِيرِ وَلا يُرَادُ بالْعَسِيرِ كَمَا أَرَادَ بخَلْقِهِ التَّيْسِيرَ وَلَمْ يُرِدْ بهِمُ التَّعْسِيرَ، وَكَذَلِكَ التَّذَلُّلَ أَوْلَى بكَ مِن التَّدَهْقُن*ِ لأَنَّ الْكُلْفَةَ وَالْمَئونَةَ فِي الْمُتَدَهْقِنِينَ. فَأمَّا التَّذَلُّلُ وَالتَّمَسْكُنُ فَلا كُلْفَةَ فِيهِمَا وَلا مَئونةَ عَلَيْهِمَا لأَنَّهُمَا الْخِلْقَةَ وهُمَا مَوجُودَانِ فِي الطَّبيعَةِ. وَلا قُوَّةَ إلا باللهِ.
قربانی کا حق یہ ہے کہ تم اس کے ذریعہ اپنے پروردگار کی جانب اپنے ارادہ کو خالص کرو اور اس کی رحمت و قبولیت کے لئے ہی اسے انجام دو۔ قربانی کے ذریعہ تمہارا مقصد لوگوں کو دکھانا نہ ہونا چاہیے اگر اس بات کاخیال کرکے یہ عمل انجام دوگے تو خود کو زحمت و کلفت میں نہیں ڈالوگے، تمہارا عمل تصنع سے محفوظ رہےگا اور اس عمل میں تمہارا مقصود خداوند عالم ہے۔
اور جان لو کہ خداوند عالم کی بارگاہ میں آسانی سے باریاب ہوا جاسکتا ہے اس میں زحمت و مشقت کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا کہ خدا نے اپنے بندوں کی آسانی چاہی ہے انھیں زحمت و مشقت میں مبتلا کرنا نہیں چاہا ۔ اسی طرح اس کی بارگاہ میں تمہارا فروتنی کرنا تمہارے غرور و تکبر کرنے سے بہتر ہے کیونکہ کلفت و مشقت، جاہ و منصب کے بھوکے لوگوں کے لئے اور انھیں کی جانب سے ہے لیکن فروتنی اور درویش منشی میں نہ کسی طرح کی زحمت ہے اور نہ کوئی خرچ، اس لئے کہ یہ فطرت و سرشت کے مطابق ہے اور مخلوق کی طبیعت میں موجود ہے۔ خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں۔
ثم حقوق الأئمة:راہنما و رہبروں کے حقوق
(۱۵) حاکم کا حق:
فأَمَّا حَقُّ سَائِسِكَ بالسُّلْطَانِ فَأَنْ تَعْلَمَ أنّكَ جُعِلْتَ لَهُ فِتنَة وأنَّهُ مُبْتَلىً فِيكَ بمَا جَعَلَهُ اللهُ لَهُ عَلَيْكَ مِنَ السُّلْطَانِ وَأَنْ تُخلِصَ لَهُ فِي النَّصِيحَةِ وَأَنْ لا تُمَاحِكَهُ* وَقَدْ بُسِطْتَ يَدُهُ عَلَيْكَ فَتَكُونَ سَبَبَ هَلاكِ نفْسِكَ وَهلاكِهِ.
وتَذَلَّلْ وتَلَطَّفْ لإِعْطَائِهِ مِنَ الرِّضَا مَا يَكُفُّهُ عَنْكَ وَلا يَضُرُّ بدينِكَ وتَسْتَعِينُ عَلَيْهِ فِي ذلِكَ باللهِ. ولا تُعَازَّهُ* ولا تُعَانِدَهُ فَإنَّكَ إنْ فَعَلْتَ ذلِكَ عَقَقْتَهُ* وَعَقَقْتَ نَفْسَكَ فَعَرَضْتَهَا لِمَكرُوهِهِ وَعَرَضْتَهُ لِلْهَلَكَةِ فِيكَ وَكُنْتَ خَلِيقًا أَنْ تَكُونَ مُعِينًا لَهُ عَلَى نفْسِكَ وَشَرِيكًا لَهُ فِيمَا أَتى إلَيْكَ.وَلا قُوَّةَ إلا باللهِ.
پیشوائے حکومت کا تمہارے اوپر حق یہ ہے کہ تم کو اس کے لئے امتحان و آزمائش کا سبب قرار دیا گیا ہے اور وہ بھی تمہارے اوپر تسلط رکھنے کی وجہ سے آزمایا جاتا ہے لہذا تم اس کی نصیحت کو غور سے اور خلوص کے ساتھ سنو اس سے اختلاف و منازعہ نہ کرو جبکہ وہ تمہارے اوپر مسلط ہے ورنہ اس صورت میں تم اپنی اور اس کی ہلاکت و نابودی کا سبب بنوگے اس کے ساتھ نرمی و فروتنی کا مظاہرہ کرو کہ اس کی رضا حاصل کرلو تاکہ وہ تمہارے دین کو کوئی نقصان نہ پہنچائے اور اس سلسلہ میں تم خدا سے مدد طلب کرو اور اس پر برتری حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو اور اس سے عناد و دشمنی نہ کرو ورنہ خود کو بھی نقصان پہنچاؤ گے اور اس کو بھی۔ اور وہ تمہاری جانب کوئی توجہ نہیں دے گا اور تم کو نقصان پہنچائے گا نیز اس کی جانب سے جو نقصان پہنچے گا اس میں تم اس کے معاون قرار پاؤ گے اور جو برتاؤ تمہارے ساتھ کرے اس میں شریک ہوگے۔ خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیں۔
(۱۶) استاد کا حق:
وأَمَّا حَقُّ سَائِسِكَ بالعِلْــــــــمِ فالتَّعْظِيمُ لَهُ والتَّوْقِيرُ لِمَجْلِسِهِ وَحُسْــــنُ الاسْــــتِمَاعِ إليهِ وَالإقْبَــــــالُ عَلَيْه وَالْمَعُونةُ لَهُ عَلَى نفْسِكَ فِيمَــــا لا غِنَى بكَ عَنْهُ مِنْ الْعِلْمِ بأَنْ تُفَرِّغَ لَهُ عَقلَكَ وَتُحْضِرَهُ فَهْمَــــــــــــــكَ وتُزَكِّي لَهُ قَلْبَكَ وتُجَلِّى لَهُ بَصَرَكَ بتَرْكِ اللّذَّاتِ وَنقْص الشّهَوَاتِ، وَأَنْ تَعْلَــــــــــمَ أَنَّكَ فِيمَا أَلقَى إلَيْكَ رَسُولُهُ إلَى مَنْ لَقِيَكَ مِنْ أَهْلِ الْجَهْلِ فَلَزِمَكَ حُسْنُ التَّأْدِيَةِ عَنْهُ إلَيْهِمْ، ولا تَخُنْهُ فِي تَأْدِيَةِ رِسَـــــــــــــــالَتِهِ وَالْقِيَامِ بهَا عَنْهُ إذا تَقَلَّدْتَهَا. وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إلا باللهِ.
و أن لا تَرْفَعَ صوتَكَ عليهِ و لا تُجيبَ أحداً يَسْألُه عن شَي ء حتى يكونَ هو الذي يُجيبُ و لا تُحدَّثَ في مَجْلِسِه أحداً و لا تَغْتَابَ عِنْدَه أحداً و أن تَدْفَعَ عنه إذا ذُكِرَ عِندَكَ بسُوء و أن تَسْتُرَ عُيوبَه و تُظْهِرَ مَناقِبَهُ و لا تُجالِسَ لَهُ عَدوَاً و لا تُعادي له وَليّاً، فإذا فَعَلْتَ ذلكَ شَهِدَتْ لَكَ مَلائِكَةُ اللّه بأنَّكَ قَصَدْتَه و تَعَلَّمْتَ عِلْمَه للّه جَلَّ اسْمُه لا لِلنَّاسِ
تمہیں تعلیم دینے والے ، تمہارے استاد کا تمہارے اوپر حق یہ ہے کہ اس کا احترام کرو ،اس کے کلاس اور جلسۂ درس کی تعظیم و تکریم کرو، اس کے درس کو غور سے سنو اور اس کی جانب مکمل طور پر توجہ دو۔ اس کی مدد کرو تاکہ جس کی تمہیں ضرورت ہے وہ تمہیں سکھائے۔ اس سلسلے میں تم اپنی عقل کو آمادہ کرو اور اپنے فہم و شعور اور دل کو اس کے سپرد کردو، لذتوں کو چھوڑ کر اور خواہشوں کو گھٹا کر اپنی نظر کو اس پر مرکوز کردو۔ تم کو یہ جان لینا چاہئے کہ جو چیز وہ تمہیں سکھا رہا ہے اس میں تم اس کے قاصد ہو چنانچہ تمہارے اوپر لازم ہے کہ تم اس چیز کی دوسروں کو تعلیم دو اور اس قرض کو بخوبی ادا کرو اور اس کا پیغام پہنچانے میں خیانت نہ کرو اور جس چیز کو تم نے اپنے ذمہ لیا ہے اس پر عمل کرو اور طاقت و قوت صرف خدا ہی کی طرف سے ہے۔
اور استاد کے سامنے اپنی آواز بلند نہ کرو اور اس سے سوال کرنے والوں میںسے کسی کا جواب تم نہ دینے لگو بلکہ اسے خود جواب دینے دو۔ اور اس کی مجلس درس میں کسی سے بات نہ کرواور کسی سے اس کی غیبت نہ کرواور جب تمہارے سامنے اس کا ذکر برائی کے ساتھ کیا جائے تو تم اس کا دفاع کرو اور اس کے عیوب کی پردہ پوشی کرو اور اس کے دوست سے دشمنی نہ کرو۔ اگر تم ایسا کروگے تو خدا کے فرشتے گواہی دیں گے کہ تم نے خدا کا قصد کیا تھا اور تم نے خدا کے واسطے اس کا علم سیکھا تھا نہ کہ لوگوں کے لئے۔
(۱۷)مولا و آقا کا حق:
وأمَّا حَقُّ سَائِسِكَ بالمِلْكِ* فَنَحْوٌ مِنْ سَائِسِكَ بالسُّلْطَانِ إلاّ أَنَّ هذَا يَمْلِكُ مَـــــــــــــــا لا يَمْلِكُهُ ذاكَ، تَلْزِمُكَ طَاعَتُهُ فِيمَــــــــــا دَقَّ وَجَلَّ مِنْكَ إلاّ أَنْ تُخرِجَكَ مِنْ وُجُـــــــــوب حَقِّ الله، ويَحُولَ بَينَكَ وبَيْنَ حَقِّهِ وَحُقُوقِ الخَلْقِ، فَــــــإذَا قَضَيْتَهُ رَجَــــــــــــــــــعْتَ إلَى حَقِّهِ* فَتَشَاغَلْتَ بهِ. ولا قُوَّةَ إلاّ باللهِ.
وأمَّا حَقُّ سَائِسِكَ بالمِلْكِ فَأن تطیعہ و لا تَعصیَہ الا فیما یسخط اللہ عزّ و جلّ فانّہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق۔
تمہارے مالک اور تمہارے اوپر اختیار رکھنے والے کا حق سلطان اور بادشاہ کے حق کی طرح ہے البتہ مالک کا خصوصی حق بھی ہے جو سلطان کا نہیں ہے، اس کا خصوصی حق تم کو ہر چھوٹی و بڑی چیز میں اطاعت و پیروی کا پابند بناتا ہے کہ ہر طرح اس کی اطاعت کرو سوائے ان جگہوں کے جہاں خدا کے حق سے ٹکراؤ ہو رہا ہو کہ بہر صورت حق خدا تمام حقوق پر مقدم ہے۔ اور جب تم نے خدا کے حق کو اد کردیا تو مالک کے حق ادا کرنے کا مرحلہ آتا ہے لہذا اس میں مشغول ہوجاؤ ،اور یاد رکھو کہ خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔
اور مالک کا حق یہ ہے کہ اس کی اطاعت و پیروی کرو، اس کی مخالفت سے بچوسوائے ان باتوں کے جو خدا کی ناراضگی اور غضب کا سبب ہو اس لئے کہ کسی بھی مخلوق کی اطاعت خدا کی مخالفت کرکے نہیں ہوسکتی۔
ثم حقوق الرعية:رعایا کے حقوق
(۱۸) رعایا و عوام کا حق :
فَأَمّا حُقُوقُ رَعِيّتِكَ بِالسّلْطَانِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنّكَ إِنّمَا اسْتَرْعَيْتَهُمْ بِفَضْلِ قُوّتِكَ عَلَيْهِمْ فَإِنّهُ إِنّمَا أَحَلّهُمْ مَحَلّ الرّعِيّةِ لَكَ ضَعْفُهُمْ وَ ذُلّهُمْ فَمَا أَوْلَى مَنْ كَفَاكَهُ ضَعْفُهُ وَ ذُلّهُ حَتّى صَيّرَهُ لَكَ رَعِيّةً وَ صَيّرَ حُكْمَكَ عَلَيْهِ نَافِذاً لَا يَمْتَنِعُ مِنْكَ بِعِزّةٍ وَ لَا قُوّةٍ وَ لَا يَسْتَنْصِرُ فِيمَا تَعَاظَمَهُ مِنْكَ إِلّا بِاللّهِ بِالرّحْمَةِ وَ الْحِيَاطَةِ وَ الْأَنَاةِ وَ مَا أَوْلَاكَ إِذَا عَرَفْتَ مَا أَعْطَاكَ اللّهُ مِنْ فَضْلِ هَذِهِ الْعِزّةِ وَ الْقُوّةِ الّتِي قَهَرْتَ بِهَا أَنْ تَكُونَ لِلّهِ شَاكِراً وَ مَنْ شَكَرَ اللّهَ أَعْطَاهُ فِيمَا أَنْعَمَ عَلَيْهِ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ۔
فَأَمّا حُقُوقُ رَعِيّتِكَ بِالسّلْطَانِ فَأَنْ تَعْلَمَ أنَّهُم صارُوا رَعيتَكَ لِضَعْفِهِم و قُوَّتِكَ فيَجِبُ أنْ تَعدِلَ فيهم و تَكونَ لَهم كالوالِدِ الرَّحيمِ،و تَغْفِرَ لَهم جَهْلَهُم و لا تُعاجِلَهُم بالعُقوبَةِ، و تشكر الله عزَّ وجَلَّ علي ما آتاكَ مِنَ القُوَّةِ عليهِم۔
حکومت میں تمہاری رعایا کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تم نے اپنی قوت و طاقت کی وجہ سے انھیں اپنی رعایا بنایا ہے۔ اور ان کی کمزوری و عاجزی نے انھیں تمہاری رعایا بنایا ہے۔پس وہ کس بات کا مستحق ہے کہ جس کی کمزوری و ذلت نے اس حد تک تمہیں بے نیاز کردیا ہے کہ اس ذلت و کمزوری نے اس کو تمہاری رعایا اور تمہارا زیردست و تابع بنایاہے، اور اس حد تک تمہارے حکم کو اس پر نافذ کیا ہے کہ اپنی عزت و طاقت کے ساتھ تمہارے مقابلہ میں کھڑا نہیں ہوسکتا، اسے تمہارے ترحم و حمایت اور صبر و تسلی کے علاوہ تمہاری جو بات ناگوار گزرتی ہے توا س میں وہ خدا ہی سے مدد چاہتا ہے اور جب تم کو یہ معلوم ہو کہ خدا نے تم کو کتنی عزت و قوت عطا کی ہے کہ جس کے ذریعہ تم دوسروں پر غالب آگئے تو اس وقت تمہارا کیا فریضہ ہے؟ سوائے اس کے کہ تم خدا کے شکر گزار ہوجاؤ اور جو خدا کا شکر ادا کرتا ہے خدا اس کو زیادہ نعمت عطا کرتا ہے خدا کے علاوہ کوئی طاقت و قوت نہیں۔
اور جو لوگ تمہاری رعایا اور تمہارے زیر تسلط ہیںان کا حق یہ ہے کہ تم ان کی کمزوری اور اپنی طاقت کی وجہ سے ان کے حاکم اور وہ تمہاری رعایا بن گئے ہیں،لہذا تمہارے لئے ضروری ہے کہ ان کے سلسلے میں عدل و انصاف سے کام لو، ان کے ساتھ مہربان باپ کی طرح پیش آؤ، ان سے نادانی میں جو غلطی ہوجائے اسے معاف کردو،ان کے کسی غلط کام میں سزادینے میں جلدی نہ کرو، اور خدا نے جو طاقت تمہیں عطا کی اس پر اس کے شکرگزار بنو۔
(۱۹) شاگرد کا حق:
وَ أَمّا حَقّ رَعِيّتِكَ بِالْعِلْمِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنّ اللّهَ قَدْ جَعَلَكَ لَهُمْ فِيمَا آتَاكَ مِنَ الْعِلْمِ وَ وَلّاكَ مِنْ خِزَانَةِ الْحِكْمَةِ فَإِنْ أَحْسَنْتَ فِيمَا وَلّاكَ اللّهُ مِنْ ذَلِكَ وَ قُمْتَ بِهِ لَهُمْ مَقَامَ الْخَازِنِ الشّفِيقِ النّاصِحِ لِمَوْلَاهُ فِي عَبِيدِهِ الصّابِرِ الْمُحْتَسِبِ الّذِي إِذَا رَأَى ذَا حَاجَةٍ أَخْرَجَ لَهُ مِنَ الْأَمْوَالِ الّتِي فِي يَدَيْهِ كُنْتَ رَاشِداً وَ كُنْتَ لِذَلِكَ آمِلًا مُعْتَقِداً وَ إِلّا كُنْتَ لَهُ خَائِناً وَ لِخَلْقِهِ ظَالِماً وَ لِسَلَبِهِ وَ عِزّهِ مُتَعَرّضاً ۔
فَإنْ أحْسَنْتَ في تعلُّمِ الناسِ و لَم تَخرِقْ بهم و لَم تَضْجُرْ عليهم زادَكَ الله مِنْ فَضلِهِ، و إنْ أنت مَنَعْتَ الناسَ علمَكَ أو خَرَقْتَ بهم عِنْدَ طَلَبَهِم العِلمَ مِنكَ كانَ حقاً عَلي اللّهِ عز وجل أن يَسْلِبَكَ الْعِلْمَ و بَهاءَهُ و يَسقُطَ مِنَ القلوب مَحَلَّكَ ۔
تمہاری علمی رعیت ، یعنی تمہارے شاگردوں، کا حق یہ ہے کہ تمہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ خدا نے تمہیں جو علم عطا کیا ہے اور حکمت کا جو خزانہ تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں شاگردوں کا سرپرست بنایا ہے پھر اگر تم نے اس سرپرستی کے حق کو اچھی طرح ادا کردیا اور ان کےلئے مہربان خزانچی اور خیر خواہ مولا قرار پائے جو کہ صابر خدا خواہ ہے کہ جب وہ کسی ضرورت مند کو دیکھتا ہے تو وہ اپنے پاس موجود اموال میں سے اسے دیتا ہے تو تم رشد یافتہ اور با ایمان خادم ہو ورنہ خدا کے خیانت کار اور اس کی مخلوق کے لئے ظالم اور عزت و نعمت کے سلب ہونے کا سبب ہو۔
پھر اگر تم لوگوں کو تعلیم دینے میں نیکی کروگے اور ان کےساتھ سختی و بد خلقی سے پیش نہیں آؤ گے تو خدا اپنے لطف و کرم سے تمہارے علم میں اضافہ کرے گا اور اگر تم لوگوں کو اپنے علم سے محروم کروگے اور ان کے سبق لیتے وقت ان کےساتھ سختی و بدخلقی سے پیش آؤ گے تو خدا کو یہ حق ہے کہ وہ تم سے علم چھین لے اور لوگوں کے دلوں سے تمہاری عظمت و منزلت کو ختم کردے۔
(۲۰) شریک حیا ت کا حق:
وَ أَمّا حَقّ رَعِيّتِكَ بِمِلْكِ النّكَاحِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنّ اللّهَ جَعَلَهَا سَكَناً وَ مُسْتَرَاحاً وَ أُنْساً وَ وَاقِيَةً وَ كَذَلِكَ كُلّ وَاحِدٍ مِنْكُمَا يَجِبُ أَنْ يَحْمَدَ اللّهَ عَلَى صَاحِبِهِ وَ يَعْلَمَ أَنّ ذَلِكَ نِعْمَةٌ مِنْهُ عَلَيْهِ وَ وَجَبَ أَنْ يُحْسِنَ صُحْبَةَ نِعْمَةِ اللّهِ وَ يُكْرِمَهَا وَ يَرْفَقَ بِهَا وَ إِنْ كَانَ حَقّكَ عَلَيْهَا أَغْلَظَ وَ طَاعَتُكَ بِهَا أَلْزَمَ فِيمَا أَحْبَبْتَ وَ كَرِهْتَ مَا لَمْ تَكُنْ مَعْصِيَةً فَإِنّ لَهَا حَقّ الرّحْمَةِ وَ الْمُؤَانَسَةِ وَ مَوْضِعُ السّكُونِ إِلَيْهَا قَضَاءُ اللّذّةِ الّتِي لَا بُدّ مِنْ قَضَائِهَا وَ ذَلِكَ عَظِيمٌ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ۔
فانَّ لَها عَلَيْكَ أنْ تَرْحَمَها لأَنَّها أسيرُكَ و تُطْعِمُها و تَكْسُوها،فِإذا جَهِلَتْ عَفَوْتَ عَنْها
بیوی کے سلسلے میںنکاح کے ذریعہ جو حق تمہارے اوپر مسلم ہوگیا ہے وہ یہ ہے کہ تم یہ جان لو کہ اسے خدا نے تمہارے لئے باعث سکون و آرام اور مونس و انیس اور نگہبان قرار دیا ہے اسی طرح تم دونوں پر یہ فرض ہے کہ اپنے شریک حیات کے وجود پر خدا کا شکر ادا کرے اور یہ جان لے کہ یہ خدا کی نعمت ہے جو اس نے اسے عطا کی ہے اس لئے ضروری ہے کہ وہ خدا کی نعمت کی قدر کرے اور اس کےساتھ نرمی سے پیش آئے اگر چہ تمہاری شریک حیات پر تمہارا حق زیادہ سخت ہے اور جو تم پسند کرتے ہو اور جو پسند نہیںکرتے اس میں اس پر تمہاری طاعت زیادہ لازم ہے بس اس میں گناہ نہ ہو، لیکن اس کا بھی تم پر یہ حق ہے کہ تم اس کےساتھ نرمی و محبت سے پیش آؤ اور وہ بھی اس لذت اندوزی کےلئے تمہارے لئے مرکز سکون ہے کہ جس سے مفر نہیں ہے اور یہ بجائے خود بہت بڑا حق ہے اور خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیںہے۔
اس کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ تم اس کےساتھ نرمی و محبت سے پیش آؤ کہ وہ تمہاری اسیر ہے اسے کھانا کھلاؤ کپڑا پہناؤ اور اگر اس سے نادانی سے کوئی غلطی ہوجائے تو اسے معاف کردو۔
(۲۱) غلام کا حق:
وَ أَمّا حَقّ رَعِيّتِكَ بِمِلْكِ الْيَمِينِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنّهُ خَلْقُ رَبّكَ وَ لَحْمُكَ وَ دَمُكَ وَ أَنّكَ تَمْلِكُهُ لَا أَنْتَ صَنَعْتَهُ دُونَ اللّهِ وَ لَا خَلَقْتَ لَهُ سَمْعاً وَ لَا بَصَراً وَ لَا أَجْرَيْتَ لَهُ رِزْقاً وَ لَكِنّ اللّهَ كَفَاكَ ذَلِكَ ثُمّ سَخّرَهُ لَكَ وَ ائْتَمَنَكَ عَلَيْهِ وَ اسْتَوْدَعَكَ إِيّاهُ لِتَحْفَظَهُ فِيهِ وَ تَسِيرَ فِيهِ بِسِيرَتِهِ فَتُطْعِمَهُ مِمّا تَأْكُلُ وَ تُلْبِسَهُ مِمّا تَلْبَسُ وَ لَا تُكَلّفَهُ مَا لَا يُطِيقُ فَإِنْ كَرِهْتَهُ خَرَجْتَ إِلَى اللّهِ مِنْهُ وَ اسْتَبْدَلْتَ بِهِ وَ لَمْ تُعَذّبْ خَلْقَ اللّهِ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
تمہارے مملوک و غلام اور نوکر کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ تمہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ تمہارے پروردگار ہی کا پیدا کیا ہوا ہے وہ بھی تمہاری ہی طرح گوشت اور خون رکھتا ہے تم اس لئے اس کے مالک نہیں ہو کہ تم نے اسے پیدا کیا ہے بلکہ اسے خدا نے پیدا کیا ہے اور نہ تم نے اس کو کان اور آنکھ عطا کی ہے اور نہ اس کی روزی تمہارے ہاتھ میں ہے بلکہ اس سلسلہ میں خدا نے تمہاری مدد کی ہے کہ اسے تمہارے تابع کر دیا اور تم کو اس کا امین قرار دیا اور اسے تمہارے سپرد کردیا تاکہ تم اس کی حفاظت کرو اور اس کے ساتھ اسی جیسا سلوک کرواسے وہی کھانا کھلاؤ جو تم کھاتے ہو اور وہی کپڑا پہناؤ جو تم پہنتے ہو اور اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دو اگر وہ تمہیں پسند نہیں ہے تو تم اس کی اس ذمہ داری سے بری ہوجاؤ جو خدا کی طرف سے تم پر عائد ہوئی ہے اور اس کو دوسرے سے بدل لو خدا کی مخلوق کو تکلیف نہ دو ،کہ خدا کے علاوہ کوئی طاقت و قوت نہیں ہے۔
وأما حق الرحم: رشتہ داروں کے حقوق:
(۲۲) ماں کا حق:
فَحَقّ أُمّكَ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنّهَا حَمَلَتْكَ حَيْثُ لَا يَحْمِلُ أَحَدٌ أَحَداً وَ أَطْعَمَتْكَ مِنْ ثَمَرَةِ قَلْبِهَا مَا لَا يُطْعِمُ أَحَدٌ أَحَداً وَ أَنّهَا وَقَتْكَ بِسَمْعِهَا وَ بَصَرِهَا وَ يَدِهَا وَ رِجْلِهَا وَ شَعْرِهَا وَ بَشَرِهَا وَ جَمِيعِ جَوَارِحِهَا مُسْتَبْشِرَةً بِذَلِكَ فَرِحَةً مُوَابِلَةً مُحْتَمِلَةً لِمَا فِيهِ مَكْرُوهُهَا وَ أَلَمُهَا وَ ثِقْلُهَا وَ غَمّهَا حَتّى دَفَعَتْهَا عَنْكَ يَدُ الْقُدْرَةِ وَ أَخْرَجَتْكَ إِلَى الْأَرْضِ فَرَضِيَتْ أَنْ تَشْبَعَ وَ تَجُوعَ هِيَ وَ تَكْسُوَكَ وَ تَعْرَى وَ تُرْوِيَكَ وَ تَظْمَأَ وَ تُظِلّكَ وَ تَضْحَى وَ تُنَعّمَكَ بِبُؤْسِهَا وَ تُلَذّذَكَ بِالنّوْمِ بِأَرَقِهَا وَ كَانَ بَطْنُهَا لَكَ وِعَاءً وَ حَجْرُهَا لَكَ حِوَاءً وَ ثَدْيُهَا لَكَ سِقَاءً وَ نَفْسُهَا لَكَ وِقَاءً تُبَاشِرُ حَرّ الدّنْيَا وَ بَرْدَهَا لَكَ وَ دُونَكَ فَتَشْكُرُهَا عَلَى قَدْرِ ذَلِكَ وَ لَا تَقْدِرُ عَلَيْهِ إِلّا بِعَوْنِ اللّهِ وَ تَوْفِيقِهِ۔
تمہیں اپنی ماں کے حقوق کے سلسلے میں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس نے تمہیں ایک مدت تک اس طرح اٹھایا اوربرداشت کیا کہ اس طرح کوئی بھی کسی کو نہیں اٹھاسکتا۔ یعنی نو مہینے تم کو اپنے شکم میں رکھا اور اس مدت میں زحمتوں و مشقتوں کا سامنا کیا اور اس مدت میں اس نے تم کو اپنا خون جگر پلایا کہ اس طرح کوئی بھی کسی کو شکم سیر نہیں کرسکتا۔ اور اس پوری مدت میں اس نے اپنے کان، آنکھ، ہاتھوں ، پیروں اور حتی بال و کھال بلکہ تمام اعضاء و جوارح سے خوشی خوشی تمہاری حفاظت کی اور تمہارا خیال رکھا اور اس میں مسرت و نشاط محسوس کرتی رہی۔ وہ اس مدت میںمسلسل تکلیفیں ، سختیاں ، رنج و غم اور سنگینی بھی برداشت کرتی رہی ۔ یہاں تک کہ خدوند عالم نے تم کو اس سے جدا کیا اور زمین پر اتارا۔
اب وہ اس بات پر راضی رہی کہ خود بھوکی رہے لیکن تم کو شکم سیر کیا۔ خود لباس کی فکر نہ کرکے تم کو لباس فراہم کیا۔ خود پیاسی رہی لیکن تم کو پیاسا رہنے نہ دیا گرمی و سردی برداشت کی لیکن تم کو محفوظ رکھا ، خود دھوپ و بارش کی پرواہ نہ کرکے تم کو سایہ مہیا کیا۔ اپنی سختیوں اور تکلیفوں کے ذریعہ اس نے تمہارے لئے آرام و نعمت کی زندگی آمادہ کی۔ اپنی نیندیں نذر بیداری کرکے اس نے تمہیں خواب راحت کے مزے لینے کے مواقع فراہم کئے۔ اس کا شکم تمہارے وجود کی پرورش کا گھر اور اس کی آغوش تمہاری محافظ اور پناہ گاہ تھی۔ اس کا سینہ تمہارے شیر پینے اور سیراب ہونے کا چشمہ تھا اور اس کا نفس تمہارا نگہبان تھا۔ ماں نے تمہاری خاطر زمانہ کی سردی و گرمی کو برداشت کیا۔ لہٰذا اس کی زحمتوں اور تکلیفوں کا شکریہ ادا کرو۔ البتہ تم اپنی ماں کا شکریہ ادا کرنے پر بھی قدرت نہیں رکھتے مگر صرف اتنا ہی جتنا خدا تمہاری مدد کرے اور جتنی تم کو توفیق دے دے کہ اس کی مدد اور توفیق ہی کے ذریعہ تم ماں کی زحمتوں و مشقتوں کا شکریہ اور اس کے ساتھ نیکی و احسان کرسکتے ہو۔
(۲۳) باپ کا حق:
وَ أَمّا حَقّ أَبِيكَ فَتَعْلَمُ أَنّهُ أَصْلُكَ وَ أَنّكَ فَرْعُهُ وَ أَنّكَ لَوْلَاهُ لَمْ تَكُنْ فَمَهْمَا رَأَيْتَ فِي نَفْسِكَ مِمّا يُعْجِبُكَ فَاعْلَمْ أَنّ أَبَاكَ أَصْلُ النّعْمَةِ عَلَيْكَ فِيهِ وَ احْمَدِ اللّهَ وَ اشْكُرْهُ عَلَى قَدْرِ ذَلِكَ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
باپ کے حق کے سلسلے میں تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ تمہاری اصل و بنیاد ہے اور تم اس کی شاخ و فرع ہو اور اگر باپ نہ ہوتا تو تمہارا وجود ہی نہ ہوتا لہٰذا جب بھی تم اپنے اندر کوئی ایسی چیز دیکھو جو تم کو خود پسندی میں مبتلا کردے اور تمہارے اندر غرور و تکبر پیدا کرنے لگے تو اس وقت تم یہ خیال کرو کہ اس نعمت کی اصل و بنیاد اور اس کا سبب تمہارا باپ ہی ہے لہٰذا حمد خدا بجالاتے ہوئے اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرو ۔اور خدا کی طاقت و قوت کے علاوہ کوئی طاقت نہیں۔
(۲۴) اولاد کا حق:
وَ أَمّا حَقّ وَلَدِكَ فَتَعْلَمُ أَنّهُ مِنْكَ وَ مُضَافٌ إِلَيْكَ فِي عَاجِلِ الدّنْيَا بِخَيْرِهِ وَ شَرّهِ وَ أَنّكَ مَسْئُولٌ عَمّا وُلّيتَهُ مِنْ حُسْنِ الْأَدَبِ وَ الدّلَالَةِ عَلَى رَبّهِ وَ الْمَعُونَةِ لَهُ عَلَى طَاعَتِهِ فِيكَ وَ فِي نَفْسِهِ فَمُثَابٌ عَلَى ذَلِكَ وَ مُعَاقَبٌ فَاعْمَلْ فِي أَمْرِهِ عَمَلَ الْمُتَزَيّنِ بِحُسْنِ أَثَرِهِ عَلَيْهِ فِي عَاجِلِ الدّنْيَا الْمُعَذّرِ إِلَى رَبّهِ فِيمَا بَيْنَكَ وَ بَيْنَهُ بِحُسْنِ الْقِيَامِ عَلَيْهِ وَ الْأَخْذِ لَهُ مِنْهُ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
تمہارے اوپر تمہاری اولاد کا حق یہ ہے کہ یہ باور کرو کہ وہ تم ہی سے ہے دنیا میں تمہیں سے وابستہ ہے اس کی اچھائیاں و برائیاں بھی تمہاری ہی طرف پلٹتی ہیں۔ یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ اس کی تربیت کرو اس کو ادب سکھاؤ۔ خداوندعالم کی طرف اس کی راہنمائی کرو پھر یاد رکھو کہ اس وظیفہ کو انجام دینے کی صورت میں ثواب کے مستحق ہوگے اور اگر تاخیر و لاپرواہی کرو گے تو عذاب و سزا کے مستحق قرار پاؤ گے۔
اس کے سلسلے میں اس طرح سے نیک اور اچھے انداز میں عمل کرو کہ اس کی اچھائی کا اثر دنیا میں ظاہر ہوا اس خداوندعالم کے نزدیک تمہارے اور اس کے درمیان عذر رہے۔اس کی اچھی بہترین سرپرستی کرنے اور اس سے نتیجہ حاصل کرنے میں خدا کے علاوہ کوئی طاقت و قوت نہیں ہے۔
(۲۵) بھائی کا حق:
وَ أَمّا حَقّ أَخِيكَ فَتَعْلَمُ أَنّهُ يَدُكَ الّتِي تَبْسُطُهَا وَ ظَهْرُكَ الّذِي تَلْتَجِئُ إِلَيْهِ- وَ عِزّكَ الّذِي تَعْتَمِدُ عَلَيْهِ وَ قُوّتُكَ الّتِي تَصُولُ بِهَا فَلَا تَتّخِذْهُ سِلَاحاً عَلَى مَعْصِيَةِ اللّهِ وَ لَا عُدّةً لِلظّلْمِ بِحَقّ اللّهِ وَ لَا تَدَعْ نُصْرَتَهُ عَلَى نَفْسِهِ وَ مَعُونَتَهُ عَلَى عَدُوّهِ وَ الْحَوْلَ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ شَيَاطِينِهِ وَ تَأْدِيَةَ النّصِيحَةِ إِلَيْهِ وَ الْإِقْبَالَ عَلَيْهِ فِي اللّهِ فَإِنِ انْقَادَ لِرَبّهِ وَ أَحْسَنَ الْإِجَابَةَ لَهُ وَ إِلّا فَلْيَكُنِ اللّهُ آثَرَ عِنْدَكَ وَ أَكْرَمَ عَلَيْكَ مِنْهُ .
اپنے بھائی کے حق کے سلسلے میں تمہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ تمہارا دست و بازو ہے جس سے تم کام کرتے ہو اور تمہارے لئے پشت پناہ و تکیہ گاہ ہے جہاں تم پناہ لیتے ہو۔ وہ تمہاری عزت و آبرو ہے جس پر تم اعتماد کرتے ہو، اور تمہاری قوت وطاقت ہے جس کے ذریعہ تم حملہ کرتے ہو لہٰذا اسے خدا کی معصیت و نافرمانی کا وسیلہ وذریعہ نہ بناؤ۔ اس کے ذریعہ سے خدا کی مخلوق پر ظلم نہ کرو۔ تم اس کے حق میں اس کی مدد کرو اور اس کے دشمن کے خلاف اس کی نصرت کرو۔ اس کے اور شیطان کے درمیان حائل ہوجاؤ اور اسے نصیحت کرنے میں پورا حق ادا کرو اور اسے خدا کی طرف دعوت دو پھر اگر وہ اپنے پروردگار کا مطیع ہوجائے اور اس کے حکم کو تسلیم کرے تو بہت ہی اچھا ہے ورنہ تمہارے نزدیک خدا کو مقدم ہونا چاہئے۔ اور خدا ہی کا اکرام و اعزاز اوراس کا خیال ہونا چاہئے۔ (نہایۃ الرحم)
عام حقوق
(۲۶) آزاد کرنے والے کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الْمُنْعِمِ عَلَيْكَ بِالْوَلَاءِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنّهُ أَنْفَقَ فِيكَ مَالَهُ وَ أَخْرَجَكَ مِنْ ذُلّ الرّقّ وَ وَحْشَتِهِ إِلَى عِزّ الْحُرّيّةِ وَ أُنْسِهَا وَ أَطْلَقَكَ مِنْ أَسْرِ الْمَلَكَةِ وَ فَكّ عَنْكَ حِلَقَ الْعُبُودِيّةِ وَ أَوْجَدَكَ رَائِحَةَ الْعِزّ وَ أَخْرَجَكَ مِنْ سِجْنِ الْقَهْرِ وَ دَفَعَ عَنْكَ الْعُسْرَ وَ بَسَطَ لَكَ لِسَانَ الْإِنْصَافِ وَ أَبَاحَكَ الدّنْيَا كُلّهَا فَمَلّكَكَ نَفْسَكَ وَ حَلّ أَسْرَكَ وَ فَرّغَكَ لِعِبَادَةِ رَبّكَ وَ احْتَمَلَ بِذَلِكَ التّقْصِيرَ فِي مَالِهِ فَتَعْلَمَ أَنّهُ أَوْلَى الْخَلْقِ بِكَ بَعْدَ أُولِي رَحِمِكَ فِي حَيَاتِكَ وَ مَوْتِكَ وَ أَحَقّ الْخَلْقِ بِنَصْرِكَ وَ مَعُونَتِكَ وَ مُكَانَفَتِكَ فِي ذَاتِ اللّهِ فَلَا تُؤْثِرْ عَلَيْهِ نَفْسَكَ مَا احْتَاجَ إِلَيْكَ
اور تمہارے اس آقا کا حق جس نے تم کو نعمت سے نوازا اور تم کو آزاد کیا ہے یہ ہے کہ اس نے تم کو آزادی دلانے کیلئے اپنا مال خرچ کیا ہے اور تم کو غلامی کی ذلت و وحشت سے نکال کر حریت و آزادی کی عزت میں پہنچا دیا ہے ملکیت کی اسیری سے تمہیں آزاد کیا اور تم کوغلامی کی زنجیر سے نجات دلائی۔ تمہارے لئے عزت کی فضا ہموار کی اور تم کو قہر و غضب کے قید خانہ سے نکالا اور سختیوں سے تم کو رہائی دلائی۔ اور تمہارے لئے عدل کی زبان کھولی اور ساری دنیا کو تمہارے لئے مباح کردیا اور تمہیں تمہارے نفس کا مالک بنادیا اور تمہیں قید خانہ سے آزاد کرایا اور تمہیں تمہارے پروردگار کی عبادت کیلئے آسودہ خاطر کیا اور تمہاری خاطر اپنا مال خرچ کیا۔ اور یاد رکھوکہ وہ تمہاری حیات و ممات میں تمہارے سارے عزیزوں سے زیادہ تم سے قریب ہے لہٰذا راہ خدا میں وہ سب سے زیادہ تمہاری مدد و تعاون کا مستحق ہے اس لئے جب تک اسے ضرورت ہے اس کو اپنے اوپر مقدم کرو۔
(۲۷) آزاد شدہ کا حق:
وَ أَمّا حَقّ مَوْلَاكَ الْجَارِيَةِ عَلَيْهِ نِعْمَتُكَ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنّ اللّهَ جَعَلَكَ حَامِيَةً عَلَيْهِ وَ وَاقِيَةً وَ نَاصِراً وَ مَعْقِلًا وَ جَعَلَهُ لَكَ وَسِيلَةً وَ سَبَباً بَيْنَكَ وَ بَيْنَهُ فَبِالْحَرِيّ أَنْ يَحْجُبَكَ عَنِ النّارِ فَيَكُونُ فِي ذَلِكَ ثَوَابٌ مِنْهُ فِي الآْجِلِ وَ يَحْكُمُ لَكَ بِمِيرَاثِهِ فِي الْعَاجِلِ إِذَا لَمْ يَكُنْ لَهُ رَحِمٌ مُكَافَأَةً لِمَا أَنْفَقْتَهُ مِنْ مَالِكَ عَلَيْهِ وَ قُمْتَ بِهِ مِنْ حَقّهِ بَعْدَ إِنْفَاقِ مَالِكَ فَإِنْ لَمْ تَقُمْ بِحَقّهِ خِيفَ عَلَيْكَ أَنْ لَا يَطِيبَ لَكَ مِيرَاثُهُ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ۔
وأمَّا حَقُّ مَولاكَ الَّذي أنعَمتَ عليهِ فأنْ تَعْلَمَ أنَّ اللّهَ عز وجل جَعَلَ عِتقَكَ لَهٌ وَسيلَةً إليهِ و حِجاباً لَكَ مِنَ النَّار، و أنَّ ثوابَكَ في العاجِلِ مِيراثُهُ إذا لَم يَكُنْ لَه رَحِمٌ مُكافَأَةً بما أنفَقْتَ مِنْ مالِكَ، و في الآجلِ الجَنَّةَ
تمہارے آزاد کردہ کا تمہارے اوپر حق یہ ہے کہ تمہیں معلوم رہے کہ خداوند عالم نے تمہیں اس کا حمایت کرنے والا، پشت پناہ اور مددگار بنایا ہے اور اسے تمہارے اور اپنے درمیان وسیلہ قرار دیا ہے ۔ سزاوار ہے کہ وہ تمہیں جہنم سے نجات عطا کرے اور اس کا یہ ثواب آخرت میں تمہیں نصیب ہو ا وردنیا میں بھی اگر اس کا کوئی وارث نہ ہو تو تمہیں اس کے وارث ہو کیونکہ تم نے اس پر پیسہ خرچ کیا ہے اور اس کو آزاد کیا ہے اور اس کے حق کو قائم کیا ہے اور اگر تم ان چیزوں کا خیال نہیں رکھو گے تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کی میراث تمہارے لئے پاک نہیں ہوگی۔ اور خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔
تمہارے اوپر تمہارے اس مولا کا حق جس نے تم پر احسان کیا ہے، یہ ہے کہ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اس کو خدا نے تمہارے آزاد کرنے کو خود تک رسائی کا ذریعہ بنایا ہے۔ اور اسے تمہارے اور آتش جہنم کے درمیان حائل کردیا ہے۔ جان لو کہ اس نیک عمل کی دنیا میں تو یہ جزاہے کہ اگر اس کا کوئی وارث نہیں ہے تو اس کی میراث تم پاؤ گے کیونکہ تم نے اس پر مال خرچ کیا ہے اور آخرت میں اس کی جزا جنت ہے۔
(۲۸) احسان کرنے والے کا حق:
وَ أَمّا حَقّ ذِي الْمَعْرُوفِ عَلَيْكَ فَأَنْ تَشْكُرَهُ وَ تَذْكُرَ مَعْرُوفَهُ وَ تَنْشُرَ لَهُ الْمَقَالَةَ الْحَسَنَةَ وَ تُخْلِصَ لَهُ الدّعَاءَ فِيمَا بَيْنَكَ وَ بَيْنَ اللّهِ سُبْحَانَهُ فَإِنّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ كُنْتَ قَدْ شَكَرْتَهُ سِرّاً وَ عَلَانِيَةً ثُمّ إِنْ أَمْكَنَ مُكَافَأَتُهُ بِالْفِعْلِ كَافَأْتَهُ وَ إِلّا كُنْتَ مُرْصِداً لَهُ مُوَطّناً نَفْسَكَ عَلَيْهَا۔
جس نے تمہارے ساتھ بھلائی و احسان کیا ہے اس کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ اس کا شکریہ ادا کرو اور اس کا ذکر خیر کرو اس کی نیکیوں اور اچھی باتوں کو پھیلاؤ۔ اس کے لئے خلوص کے ساتھ خدا سے دعا کرو کیونکہ اگر تم نے ایسا کیا تو گویا علی الاعلان اور پوشیدہ طور پر اس کا شکریہ ادا کیا پھر اگر تمہارے لئے ممکن ہو تو اس کا بدلہ چکاؤ ورنہ اس کے انتظار میں رہو اور اس کام کیلئے خود کو تیار رکھو۔
(۲۹) مؤذّن کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الْمُؤَذّنِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنّهُ مُذَكّرُكَ بِرَبّكَ وَ دَاعِيكَ إِلَى حَظّكَ وَ أَفْضَلُ أَعْوَانِكَ عَلَى قَضَاءِ الْفَرِيضَةِ الّتِي افْتَرَضَهَا اللّهُ عَلَيْكَ فَتَشْكُرَهُ عَلَى ذَلِكَ شُكْرَكَ لِلْمُحْسِنِ إِلَيْكَ وَ إِنْ كُنْتَ فِي بَيْتِكَ مُهْتَمّاً لِذَلِكَ لَمْ تَكُنْ لِلّهِ فِي أَمْرِهِ مُتّهِماً وَ عَلِمْتَ أَنّهُ نِعْمَةٌ مِنَ اللّهِ عَلَيْكَ لَا شَكّ فِيهَا فَأَحْسِنْ صُحْبَةَ نِعْمَةِ اللّهِ بِحَمْدِ اللّهِ عَلَيْهَا عَلَى كُلّ حَالٍ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
اور اذان دینے والے کا حق یہ ہے کہ تم اس بات سے آگاہ رہو کہ وہ تم کو تمہارے پروردگار کی یاد دلانے والاہے اور تم کو تمہارے حصہ کی طرف بلانے والاہے اور خدا نے جو فریضہ تم پر ضروری قرار دیا ہے اس کے انجام دینے میں وہ تمہارا بہترین مددگار ہے لہٰذا اس خدمت پر اس کی اس طرح قدردانی کرو جس طرح تم احسان کرنے والے کی قدر کرتے ہو۔ اور اگر تم اپنے گھر میں اس کے سلسلے میں بدگمان ہو تو اس خدا ئی کام میں اس سے بدبین و بدگمان نہ ہو اور یہ بات تم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ یقیناً ایک خدا داد نعمت ہے لہٰذا خدا کی نعمت کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور ہر حال میں اس پر خدا کا شکریہ ادا کرو۔ خدا کی طاقت کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔
(۳۰) امام جماعت کا حق:
وَ أَمّا حَقّ إِمَامِكَ فِي صَلَاتِكَ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنّهُ قَدْ تَقَلّدَ السّفَارَةَ فِيمَا بَيْنَكَ وَ بَيْنَ اللّهِ وَ الْوِفَادَةَ إِلَى رَبّكَ وَ تَكَلّمَ عَنْكَ وَ لَمْ تَتَكَلّمْ عَنْهُ وَ دَعَا لَكَ وَ لَمْ تَدْعُ لَهُ وَ طَلَبَ فِيكَ وَ لَمْ تَطْلُبْ فِيهِ وَ كَفَاكَ هَمّ الْمَقَامِ بَيْنَ يَدَيِ اللّهِ وَ الْمُسَاءَلَةِ لَهُ فِيكَ وَ لَمْ تَكْفِهِ ذَلِكَ فَإِنْ كَانَ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ تَقْصِيرٌ كَانَ بِهِ دُونَكَ وَ إِنْ كَانَ آثِماً لَمْ تَكُنْ شَرِيكَهُ فِيهِ وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ عَلَيْكَ فَضْلٌ فَوَقَى نَفْسَكَ بِنَفْسِهِ وَ وَقَى صَلَاتَكَ بِصَلَاتِهِ فَتَشْكُرَ لَهُ عَلَى ذَلِكَ وَ لَا حَوْلَ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
تمہاری نماز میں تمہارے امام یعنی امام جماعت کا حق یہ ہے کہ تم اس بات کی جانب متوجہ رہو کہ اس نے تمہارے اور خداکے درمیان رابطہ پیدا کرنے اور سفارت کے علاوہ تم کو خدا کی بارگاہ میں حاضر ہونے اور اس کی طرف لے جانے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
نماز میں وہ تمہاری طرف سے ترجمانی کرتا ہے تم اس کی طرف سے کچھ نہیں کہتے ہو وہ تمہارے لئے دعا کرتا ہے تم اس کے لئے نہیںکرتے ہو۔ وہ تمہارے لئے طلب کرتا ہے تم اس کیلئے طلب نہیں کرتے ۔ جگہ کی اہمیت اور خدا کی بارگاہ میںکھڑے ہونے، اس سے سوال کرنے کو اس نے تمہاری طرف سے اپنے ذمہ لیا ہے جبکہ تم نے اس کی طر ف سے کوئی چیز اپنے ذمہ نہیں لی اگر اس سلسلے میں کوئی کمی یا نقص پیش آجائے تو اس کا ذمہ دار وہ ہوگا تم نہیںہوگے۔ اگر وہ گناہ کرے تو گناہ میں تم اس کے شریک نہیں ہو اور اسے تم پر برتری حاصل نہیں ہے۔ اس نے اپنے کو تمہاری سپر بنایا ہے اور اپنی نماز کو تمہاری نماز کی سپر قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس وجہ سے اس کے شکر گزار رہو۔ خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔
(۳۱) ہمنشین کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الْجَلِيسِ فَأَنْ تُلِينَ لَهُ كَنَفَكَ وَ تُطِيبَ لَهُ جَانِبَكَ وَ تُنْصِفَهُ فِي مُجَارَاةِ اللّفْظِ وَ لَا تُغْرِقَ فِي نَزْعِ اللّحْظِ إِذَا لَحَظْتَ وَ تَقْصِدَ فِي اللّفْظِ إِلَى إِفْهَامِهِ إِذَا لَفَظْتَ وَ إِنْ كُنْتَ الْجَلِيسَ إِلَيْهِ كُنْتَ فِي الْقِيَامِ عَنْهُ بِالْخِيَارِ وَ إِنْ كَانَ الْجَالِسَ إِلَيْكَ كَانَ بِالْخِيَارِ وَ لَا تَقُومَ إِلّا بِإِذْنِهِ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ۔
’ و تَنسي زَلاَّتَهُ و تَحْفَظَ خَيراتَه إلاَّ خَيراً‘
ہمنشین کا حق یہ ہے کہ اس کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ، خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کرو اوراسے خوش آمدید کہو۔اس کیساتھ گفتگو میں انصاف سے کام لو،یکبارگی اور اچانک اس سے توجہ نہ ہٹاؤ ، اس سے گفتگو میں تمہاری نیت اس کو سمجھانا ہو۔ اگر اس ہمنشینی میں تم نے پہل کی ہے تو تم کو اختیار ہے جب بھی چاہو اٹھکر جاسکتے ہو۔ لیکن اگر وہ تمہاری طرف آیا ہے اور اس نے ہمنشینی کا آغاز کیا ہے تو اختیار اس کو ہے لہٰذا جب تک اس سےاجازت نہ لے لو نہ اٹھو۔ خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیںہے۔
اس کی غلطیوں و خطاؤں کو فراموش کردو اور اس کی اچھائیوں و نیکیوں کو یاد رکھو، اس کے سامنے اچھائی کے سوا کچھ نہ کہو۔
(۳۲) پڑوسی کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الْجَارِ فَحِفْظُهُ غَائِباً وَ كَرَامَتُهُ شَاهِداً وَ نُصْرَتُهُ وَ مَعُونَتُهُ فِي الْحَالَيْنِ جَمِيعاً لَا تَتَبّعْ لَهُ عَوْرَةً وَ لَا تَبْحَثْ لَهُ عَنْ سَوْءَةٍ لِتَعْرِفَهَا فَإِنْ عَرَفْتَهَا مِنْهُ عَنْ غَيْرِ إِرَادَةٍ مِنْكَ وَ لَا تَكَلّفٍ كُنْتَ لِمَا عَلِمْتَ حِصْناً حَصِيناً وَ سِتْراً سَتِيراً لَوْ بَحَثَتِ الْأَسِنّةُ عَنْهُ ضَمِيراً لَمْ تَتّصِلْ إِلَيْهِ لِانْطِوَائِهِ عَلَيْهِ لَا تَسْتَمِعْ عَلَيْهِ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُ لَا تُسْلِمْهُ عِنْدَ شَدِيدَةٍ وَ لَا تَحْسُدْهُ عِنْدَ نِعْمَةٍ تُقِيلُ عَثْرَتَهُ وَ تَغْفِرُ زَلّتَهُ وَ لَا تَدّخِرْ حِلْمَكَ عَنْهُ إِذَا جَهِلَ عَلَيْكَ وَ لَا تَخْرُجْ أَنْ تَكُونَ سِلْماً لَهُ تَرُدّ عَنْهُ لِسَانَ الشّتِيمَةِ وَ تُبْطِلُ فِيهِ كَيْدَ حَامِلِ النّصِيحَةِ وَ تُعَاشِرُهُ مُعَاشَرَةً كَرِيمَةً وَ لَا حَوْلَ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
پڑوسی کا حق یہ ہے کہ اس کی غیر موجودگی میں اس کی (چیزوں کی اور اس کی عزت و آبرو کی )حفاظت کرو اور اس کی موجودگی میں اس کا احترام کرو اور ہر حال میں اس کے معاون و مددگار رہو۔ اس کی پوشیدہ باتوں اور اسرار کی ٹوہ میں نہ رہو۔ اس کی برائیوں اور کمزوریوں کو جاننے کی کوشش نہ کرو۔ اور اگر بغیر قصد و ارادہ اور بغیر زحمت و مشقت کے تمہیں اس کی کسی کمزوری یا عیب کا پتہ چل جائے تو تم اس کیلئے مضبوط و محکم قلعہ اور ایسا ضخیم و دبیز پردہ بن جاؤ کہ مستور و پیچیدہ ہونے کی وجہ سے نیزے بھی اسے تلاش نہ کرسکیں۔
اور اس کے خلاف باتوں پر دھیان نہ دو کہ اس کو خبر تک نہ ہو اور اسے پریشانیوں اور مشکلات میں تنہا چھوڑ کر الگ نہ ہوجاؤ اور لغزشوں سے در گزر کرو اور اس کے گناہوں و لغزشوں سے چشم پوشی کرو اور اگر وہ تمہارے سلسلے میں نادانی کربیٹھے تو تم اسے برداشت کرو اور اس کے مقابل بردباری کا مظاہرہ کرو۔ اس کے ساتھ مسالمت و صلح آمیز برتاؤ کرو۔ اس کو برا بھلا نہ کہو اس پر سب و شتم نہ کرو اور اگر کسی ناصح نے اسے دھوکہ دیا ہے تو تم اس کا سدباب کرو۔ اس کے ساتھ شرافت و بزرگواری سے پیش آؤ۔ جان لو کہ خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔
(۳۳) دوست کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الصّاحِبِ فَأَنْ تَصْحَبَهُ بِالْفَضْلِ مَا وَجَدْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَ إِلّا فَلَا أَقَلّ مِنَ الْإِنْصَافِ وَ أَنْ تُكْرِمَهُ كَمَا يُكْرِمُكَ وَ تَحْفَظَهُ كَمَا يَحْفَظُكَ وَ لَا يَسْبِقَكَ فِيمَا بَيْنَكَ وَ بَيْنَهُ إِلَى مَكْرُمَةٍ فَإِنْ سَبَقَكَ كَافَأْتَهُ وَ لَا تُقَصّرَ بِهِ عَمّا يَسْتَحِقّ مِنَ الْمَوَدّةِ تُلْزِمُ نَفْسَكَ نَصِيحَتَهُ وَ حِيَاطَتَهُ وَ مُعَاضَدَتَهُ عَلَى طَاعَةِ رَبّهِ وَ مَعُونَتَهُ عَلَى نَفْسِهِ فِيمَا لَا يَهُمّ بِهِ مِنْ مَعْصِيَةِ رَبّهِ ثُمّ تَكُونُ عَلَيْهِ رَحْمَةً وَ لَا تَكُونُ عَلَيْهِ عَذَاباً وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
اور تمہارے رفیق و ساتھی کا حق یہ ہے کہ جہاں تک تم سے ہوسکے اس کے ساتھ عطا و بخشش کے ساتھ مصاحبت کرو اور اگر یہ نہ کرسکو تو کم از کم اس کے ساتھ انصاف سے پیش آؤ اور جس طرح وہ تمہارا خیال کرتا ہے اور تمہاری عزت و احترام کرتا ہے تم بھی اس کا خیال رکھو اور اس کی تعظیم و تکریم کرو۔ جس طرح وہ تمہاری حفاظت و پاسبانی کی کوشش و سعی کرتا ہے تم بھی اسی طرح اس کی حفاظت میں سعی و کوشش کرو کہ کسی بھی اچھے کام میں وہ تم سے آگے نہ نکلنے پائے اور اگر وہ تمہارے اوپر سبقت لے جائے تو تم اس کا جبران کرو اور جہاں تک ممکن ہو اس کی دوستی میں کوتاہی نہ کرو۔ اور اپنے اوپر لازم قرار دے لو کہ اس کے خیر خواہ اور محافظ اور اپنے رب کی طاعت و عبادت میں اس کے پشت پناہ و مددگار رہو۔ اور اس سلسلے میں بھی اس کی مدد کرو کہ معصیت و گناہ کا ارادہ بھی نہ کرے۔ تمہیں تو اس کیلئے رحمت و محبت کا ذریعہ ہونا چاہئے نہ کہ عذاب کا۔ خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔
(۳۴) شریک کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الشّرِيكِ فَإِنْ غَابَ كَفَيْتَهُ وَ إِنْ حَضَرَ سَاوَيْتَهُ وَ لَا تَعْزِمْ عَلَى حُكْمِكَ دُونَ حُكْمِهِ وَ لَا تَعْمَلْ بِرَأْيِكَ دُونَ مُنَاظَرَتِهِ وَ تَحْفَظُ عَلَيْهِ مَالَهُ وَ تَنْفِي عَنْهُ خِيَانَتَهُ فِيمَا عَزّ أَوْ هَانَ فَإِنّهُ بَلَغَنَا أَنّ يَدَ اللّهِ عَلَى الشّرِيكَيْنِ مَا لَمْ يَتَخَاوَنَا وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
شریک کا حق یہ ہے کہ اگر وہ موجود نہ ہو تو تم اس کے امور انجام دو اور اگر موجود ہو تو اسے برابر سمجھو۔ اس سے مشورہ کے بغیر اپنی مرضی سے فیصلہ نہ کرو۔ اس کے مال کی اس کیلئے حفاظت کرو۔اس کے امور میں چاہے کم ہو یا زیادہ ، خیانت نہ کرو اس لئے کہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ دو شریک و ساتھیوں پر خدا کا ہاتھ رہتا ہےجب تک کہ آپس میں خیانت نہ کریں۔ خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔
(۳۵) مال كا حق:
وَ أَمّا حَقّ الْمَالِ فَأَنْ لَا تَأْخُذَهُ إِلّا مِنْ حِلّهِ وَ لَا تُنْفِقَهُ إِلّا فِي حِلّهِ وَ لَا تُحَرّفَهُ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَ لَا تَصْرِفَهُ عَنْ حَقَائِقِهِ وَ لَا تَجْعَلَهُ إِذَا كَانَ مِنَ اللّهِ إِلّا إِلَيْهِ وَ سَبَباً إِلَى اللّهِ وَ لَا تُؤْثِرَ بِهِ عَلَى نَفْسِكَ مَنْ لَعَلّهُ لَا يَحْمَدُكَ وَ بِالْحَرِيّ أَنْ لَا يُحْسِنَ خِلَافَتَهُ فِي تَرِكَتِكَ وَ لَا يَعْمَلَ فِيهِ بِطَاعَةِ رَبّكَ فَتَكُونَ مُعِيناً لَهُ عَلَى ذَلِكَ أَوْ بِمَا أَحْدَثَ فِي مَالِكَ أَحْسَنَ نَظَراً لِنَفْسِهِ فَيَعْمَلَ بِطَاعَةِ رَبّهِ فَيَذْهَبَ بِالْغَنِيمَةِ وَ تَبُوءَ بِالْإِثْمِ وَ الْحَسْرَةِ وَ النّدَامَةِ مَعَ التّبِعَةِ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
مال کا حق یہ هہے کہ اسے حلال راستے كکے علاوہ کسی اور ذریعہ سے حاصل نہ کرو۔ اور حلال کاموں كکے علاوہ کسی بھی جگہ اسے استعمال نہ کرو، اسے بے جا اور فضول خرچ نہ کرو، صحیح راستے سے کسی اور جگہ نہ لے جاؤ، اور خدا نے جو مال تمہیں دیا ہے اور اس کی جانب سے تم تک پہنچا ہے اسے اس کے راستے ہی میں خرچ کرو یا اس راہ میں خرچ کرو جو خدا تک پہنچنے کا وسیلہ و ذریعہ ہو۔ اور جو تمہارا احسان مند اور شکر گزار نہیں هہےاس کو مال کے سلسلے میں اپنے اوپر مقدم نہ کرو۔ اور سزاوار یہی ہے کہ اس کے سلسلے میں خدا كکی اطاعت كکو نہ چھوڑو۔ ایسا نہ ہو کہ یہ مال دوسروں کیلئے تمہاری میراث کے طور پر باقی رہ جائے اور تمہاری جانب سے وارث کیلئے مدد ہو جو تم سے بہتر راستے میں خرچ کرے اور تمہارے بجائے وہ اطاعت خدا میں خرچ کرکے فائدہ اٹھائے اور افسوس و پشیمانی اور گناہ کا بوجھ تمہارے حصے میں رہ جائے۔ خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیں۔
(۳۶) قرض خواہ کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الْغَرِيمِ الطّالِبِ لَكَ فَإِنْ كُنْتَ مُوسِراً أَوْفَيْتَهُ وَ كَفَيْتَهُ وَ أَغْنَيْتَهُ وَ لَمْ تَرْدُدْهُ وَ تَمْطُلْهُ فَإِنّ رَسُولَ اللّهِ (ص) قَالَ مَطْلُ الْغَنِيّ ظُلْمٌ وَ إِنْ كُنْتَ مُعْسِراً أَرْضَيْتَهُ بِحُسْنِ الْقَوْلِ وَ طَلَبْتَ إِلَيْهِ طَلَباً جَمِيلًا وَ رَدَدْتَهُ عَنْ نَفْسِكَ رَدّاً لَطِيفاً وَ لَمْ تَجْمَعْ عَلَيْهِ ذَهَابَ مَالِهِ وَ سُوءَ مُعَامَلَتِهِ فَإِنّ ذَلِكَ لُؤْمٌ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
تمہارے قرض خواہ کا حق یہ ہے کہ اگر تمہارے پاس ہے اور تمہاری استطاعت میں ہے تو اس کا قرض ادا کرو اور اس کا کام چلا دو ۔ اور اسے بے نیاز کردو۔ اس میں دیر نہ کرو اور ٹال مٹول کے ذریعہ اسے پریشان نہ کرو۔ اس لئے کہ رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: دولت مند و مالدار کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اگر تمہارے پاس نہ ہو تو اسے نرم لہجے اور خوش زبانی کے ذریعہ راضی کرو اور اس سےمزیدفرصت و مہلت مانگو اور اسے خوش خوش اپنے پاس سے واپس جانے دو اور چونکہ اس سے مال لے رکھا ہے اس لئے اس کے ساتھ بدسلوکی نہ کرو، اس لئے کہ یہ پستی اور گری ہوئی بات ہے۔ خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیں۔
(۳۷) معاشر کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الْخَلِيطِ فَأَنْ لَا تَغُرّهُ وَ لَا تَغُشّهُ وَ لَا تَكْذِبَهُ وَ لَا تُغْفِلَهُ وَ لَا تَخْدَعَهُ وَ لَا تَعْمَلَ فِي انْتِقَاضِهِ عَمَلَ الْعَدُوّ الّذِي لَا يَبْقَى عَلَى صَاحِبِهِ وَ إِنِ اطْمَأَنّ إِلَيْكَ اسْتَقْصَيْتَ لَهُ عَلَى نَفْسِكَ وَ عَلِمْتَ أَنّ غَبْنَ الْمُسْتَرْسِلِ رِبًا وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
جو تمہارے ساتھ معاشرت کرے، تمہارے ساتھ بہت زیادہ گھل مل جائے اس کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ اس کو دھوکہ نہ دو ، اس کے ساتھ جھوٹ چالبازی کے ذریعہ دوستی نہ کرو۔ اس کے ساتھ فریب و مکاری سے پیش نہ آؤ۔اس دشمن کی طرح اس کے ساتھ کارشکنی نہ کرو اور دھوکہ نہ دوکہ جو اپنے مدّمقابل کا پاس و لحاظ نہیں کرتا۔ اور اگر وہ تم پر بھروسہ کرے تو حتیٰ الامکان اس کے لئے سعی و کوشش کرو اور یاد رکھو کہ بھروسہ کرنے والے کو دھوکہ دینا ربا کی طرح ہے۔ خدا کے علاوہ کوئی طاقت و قوت نہیں ہے۔
(۳۸) مدعی اور مدعا علیہ کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الْخَصْمِ الْمُدّعِي عَلَيْكَ فَإِنْ كَانَ مَا يَدّعِي عَلَيْكَ حَقّاً لَمْ تَنْفَسِخْ فِي حُجّتِهِ وَ لَمْ تَعْمَلْ فِي إِبْطَالِ دَعْوَتِهِ وَ كُنْتَ خَصْمَ نَفْسِكَ لَهُ وَ الْحَاكِمَ عَلَيْهَا وَ الشّاهِدَ لَهُ بِحَقّهِ دُونَ شَهَادَةِ الشّهُودِ فَإِنّ ذَلِكَ حَقّ اللّهِ عَلَيْكَ وَ إِنْ كَانَ مَا يَدّعِيهِ بَاطِلًا رَفَقْتَ بِهِ وَ رَوّعْتَهُ وَ نَاشَدْتَهُ بِدِينِهِ وَ كَسَرْتَ حِدّتَهُ عَنْكَ بِذِكْرِ اللّهِ وَ أَلْقَيْتَ حَشْوَ الْكَلَامِ وَ لَغْطَهُ الّذِي لَا يَرُدّ عَنْكَ عَادِيَةَ عَدُوّكَ بَلْ تَبُوءُ بِإِثْمِهِ وَ بِهِ يَشْحَذُ عَلَيْكَ سَيْفَ عَدَاوَتِهِ لِأَنّ لَفْظَةَ السّوْءِ تَبْعَثُ الشّرّ وَ الْخَيْرُ مَقْمَعَةٌ لِلشّرّ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
وَ أَمّا حَقّ الْخَصْمِ الْمُدّعَى عَلَيْهِ فَإِنْ كَانَ مَا تَدّعِيهِ حَقّاً أَجْمَلْتَ فِي مُقَاوَلَتِهِ بِمَخْرَجِ الدّعْوَى فَإِنّ لِلدّعْوَى غِلْظَةً فِي سَمْعِ الْمُدّعَى عَلَيْهِ وَ قَصَدْتَ قَصْدَ حُجّتِكَ بِالرّفْقِ وَ أَمْهَلِ الْمُهْلَةِ وَ أَبْيَنِ الْبَيَانِ وَ أَلْطَفِ اللّطْفِ وَ لَمْ تَتَشَاغَلْ عَنْ حُجّتِكَ بِمُنَازَعَتِهِ بِالْقِيلِ وَ الْقَالِ فَتَذْهَبَ عَنْكَ حُجّتُكَ وَ لَا يَكُونَ لَكَ فِي ذَلِكَ دَرَكٌ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
جو شخص تمہارے خلاف دعوے دار ہے اس کا تمہارے اوپر حق یہ ہے کہ اگر وہ صحیح بات کہہ رہا ہو تو اس کی دلیل کو رد نہ کرو اور اس کے دعوے کو باطل قرار نہ دو بلکہ اس موقع پر تم اپنے مخالف بن جاؤ اور اس کی جانب سے اپنے خلاف فیصلہ کرو اور گواہوں کی گواہی کے بغیر اس کے گواہ بنو اس لئے کہ یہ خدا کا حق ہے تمہارے اوپر۔ اور اگر اس کا دعویٰ غلط ہے اس نے تم پر جھوٹا دعویٰ کیا ہے تو اس کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ اس کو خوف دلاؤ ۔ اس کو اس کے دین کی قسم دو۔ خدا کی یاد دلاتے ہوئے اس کی شدت و تندی کو گھٹاؤاس کےساتھ سخت کلامی سے پیش نہ آؤ کیونکہ یہ کام دشمن کے ظلم کو تم سے ہٹا نہیں سکتا۔ بلکہ اس سے تم اس کے گناہ میں شریک ہوگے اور اس کے باعث دشمن کی تلوار تمہارے خلاف اور زیادہ تیز ہوجائے گی اس لئے کہ بری بات شر کو بھڑکانے والی ہوتی ہے اور اچھی بات برائی کی جڑ کاٹ دیتی ہے۔ خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔
اور جس کے خلاف تم نے دعویٰ قائم کیا ہے اس کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ اگر تم اس دعوے میں حق بجانب ہو تو اس سے حق لینے کے لئے صبر و تحمل سے کام لو کیونکہ مدعی علیہ کیلئے دعویٰ ہی شدید جھٹکا ہے۔ اپنی دلیل کو آرام و نرمی کے ساتھ اسے سمجھاؤ۔ اسے مہلت دو، واضح و روشن بیان کے ذریعہ اس سے پوری مہربانی سے پیش آؤ۔ اس کےساتھ جھگڑے و اختلاف میں قیل و قال کے درمیان اپنی دلیل سے پیچھے نہ ہٹ جاؤ کہ تمہاری دلیل ہاتھوں سے نکل جائے کہ تم اس کی تلافی نہ کر سکو اور خدا کے علاوہ کوئی قدر ت و طاقت نہیں ہے۔
(۳۹) مشورہ کرنے والے کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الْمُسْتَشِيرِ فَإِنْ حَضَرَكَ لَهُ وَجْهُ رَأْيٍ جَهَدْتَ لَهُ فِي النّصِيحَةِ وَ أَشَرْتَ عَلَيْهِ بِمَا تَعْلَمُ أَنّكَ لَوْ كُنْتَ مَكَانَهُ عَمِلْتَ بِهِ وَ ذَلِكَ لِيَكُنْ مِنْكَ فِي رَحْمَةٍ وَ لِينٍ فَإِنّ اللّينَ يُؤْنِسُ الْوَحْشَةَ وَ إِنّ الْغِلَظَ يُوحِشُ مَوْضِعَ الْأُنْسِ وَ إِنْ لَمْ يَحْضُرْكَ لَهُ رَأْيٌ وَ عَرَفْتَ لَهُ مَنْ تَثِقُ بِرَأْيِهِ وَ تَرْضَى بِهِ لِنَفْسِكَ دَلَلْتَهُ عَلَيْهِ وَ أَرْشَدْتَهُ إِلَيْهِ فَكُنْتَ لَمْ تَأْلُهُ خَيْراً وَ لَمْ تَدّخِرْهُ نُصْحاً وَ لَا حَوْلَ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
تم سے مشورہ کرنے والے کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ اگر اس کے کام کے سلسلے میں تمہیں صحیح بات معلوم ہے تو اس کو نصیحت کرنے اور صحیح راہنمائی کرنے کی کوشش کرو او رجو کچھ تمہیں معلوم ہے اس کو بتادو اس طرح سے کہ گویا تم خود ہی اس کام کو کررہے ہو۔ اور یہ اس لئے ہے کہ وہ تمہاری طرف سے مہربانی و نرمی سے روبرو ہو اس لئے کہ نرمی اختیار کرنا وحشت و اجنبیت کو ختم کردیتا ہے اور سخت گیری و حشت و اجنبیت پیدا کرتی ہے۔ اور اگر تم خود مشورہ نہیں دے سکتے لیکن تمہاری نظر میں کوئی ایسا ہو جس پر تم کو بھروسہ ہو اور تم خود اس سے مشورہ کرنا پسند کرتے ہو تو اس کو اس جانب راہنمائی کرو اور اس کا پتہ بتادو۔ اس کے سلسلے میں کوتاہی نہ کرو اور نصیحت کرنے میں دریغ نہ کرو۔ خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔
(۴۰) مشورہ دینے والے کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الْمُشِيرِ عَلَيْكَ فَلَا تَتّهِمْهُ فِيمَا لَا يُوَافِقُكَ عَلَيْهِ مِنْ رَأْيِهِ إِذَا أَشَارَ عَلَيْكَ فَإِنّمَا هِيَ الآْرَاءُ وَ تَصَرّفُ النّاسِ فِيهَا وَ اخْتِلَافُهُمْ فَكُنْ عَلَيْهِ فِي رَأْيِهِ بِالْخِيَارِ إِذَا اتّهَمْتَ رَأْيَهُ فَأَمّا تُهَمَتُهُ فَلَا تَجُوزُ لَكَ إِذَا كَانَ عِنْدَكَ مِمّنْ يَسْتَحِقّ الْمُشَاوَرَةَ وَ لَا تَدَعْ شُكْرَهُ عَلَى مَا بَدَا لَكَ مِنْ إِشْخَاصِ رَأْيِهِ وَ حُسْنِ وَجْهِ مَشُورَتِهِ فَإِذَا وَافَقَكَ حَمِدْتَ اللّهَ وَ قَبِلْتَ ذَلِكَ مِنْ أَخِيكَ بِالشّكْرِ وَ الْإِرْصَادِ بِالْمُكَافَأَةِ فِي مِثْلِهَا إِنْ فَزِعَ إِلَيْكَ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
جو تمہارا مشاور ہے اور تمہیں مشورہ دے رہا ہے اس کا تمہارے اوپر حق یہ ہے کہ اگر اس کی رائے تمہارے موافق نہ ہو اور تمہیں اس کا مشورہ پسند نہ آئے تو اسے متہم نہ کرو، اسے الزام نہ دو اس لئے کہ نظریات اور آراء کے سلسلے میں لوگ مختلف هہوتے ہیں۔ اور اگر اس کی رائے كکے سلسلے میں تم بدبین هہو اور تم کو اس کی رائے میں کوئی عیب نظر آئے تو تم تو اس کی رائے ماننے میں مختار هہو ضروری نہیں کہ اس کے مشورہ پر عمل کرو لیکن اس مشورہ کے سلسلے میں تم اس پر الزام نہیں رکھ سکتے اسے متہم کرنا جائز نہیں ہے۔ خاص کر ایسی صورت میں جبکہ تمہارے نزدیک اس میں مشورہ دینے کی صلاحیت پائی جاتی ہو۔ اور جب وہ تم کو صحیح مشورہ دے اور اچھی رائے پیش کرے تو اس کا شکریہ ادا کرنا نہ بھولو اور اس نعمت پر خدا کی بھی حمد و تسبیح کرو۔ اور کبھی وہ تم سے مشورہ کرے تو اس طرح تم بھی صحیح اور اچھے مشورہ سے اس کی جزا دو۔ خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں۔
(۴۱) نصیحت طلب کرنے والے کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الْمُسْتَنْصِحِ فَإِنّ حَقّهُ أَنْ تُؤَدّيَ إِلَيْهِ النّصِيحَةَ عَلَى الْحَقّ الّذِي تَرَى لَهُ أَنّهُ يَحْمِلُ وَ تَخْرُجَ الْمَخْرَجَ الّذِي يَلِينُ عَلَى مَسَامِعِهِ وَ تُكَلّمَهُ مِنَ الْكَلَامِ بِمَا يُطِيقُهُ عَقْلُهُ فَإِنّ لِكُلّ عَقْلٍ طَبَقَةً مِنَ الْكَلَامِ يَعْرِفُهُ وَ يَجْتَنِبُهُ وَ لْيَكُنْ مَذْهَبُكَ الرّحْمَةَ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ جو تم سے نصیحت چاہے اس کا حق یہ ہے کہ اس کو اتنی نصیحت کرو جتنے کا وہ مستحق ہو اور جتنا وہ برداشت کرسکتا ہو۔ اس طرح سے اور اس انداز سے نصیحت کرو کہ اس کے کان کو بھلی لگے۔ اور اس کی عقل کے مطابق اس سے بات کرو ۔ اس لئے کہ ہر عقل کے لیے ایک انداز سخن ہوتا ہے وہ اسی کو سمجھتی ہے۔ مہربانی و دل سوزی کا رویہ اپناؤ۔ خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیں۔
(۴۲) نصیحت کرنے والے کا حق:
وَ أَمّا حَقّ النّاصِحِ فَأَنْ تُلِينَ لَهُ جَنَاحَكَ ثُمّ تَشْرَئِبّ لَهُ قَلْبَكَ وَ تَفْتَحَ لَهُ سَمْعَكَ حَتّى تَفْهَمَ عَنْهُ نَصِيحَتَهُ ثُمّ تَنْظُرَ فِيهَا فَإِنْ كَانَ وُفّقَ فِيهَا لِلصّوَابِ حَمِدْتَ اللّهَ عَلَى ذَلِكَ وَ قَبِلْتَ مِنْهُ وَ عَرَفْتَ لَهُ نَصِيحَتَهُ وَ إِنْ لَمْ يَكُنْ وُفّقَ لَهَا فِيهَا رَحِمْتَهُ وَ لَمْ تَتّهِمْهُ وَ عَلِمْتَ أَنّهُ لَمْ يَأْلُكَ نُصْحاً إِلّا أَنّهُ أَخْطَأَ إِلّا أَنْ يَكُونَ عِنْدَكَ مُسْتَحِقّاً لِلتّهَمَةِ- فَلَا تَعْبَأْ بِشَيْءٍ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى كُلّ حَالٍ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
نصیحت کرنے والے کا حق یہ ہے کہ اس سے تواضع و خاکساری کے ساتھ پیش آؤ پھر قلبی طور پر اس کی طرف متوجہ ہو اور اس کی طرف کان لگاؤ تاکہ اس کی نصیحت کو سمجھ سکو پھر اس کی نصیحت میں غور و فکر کرو اگر اس نے صحیح بات کہی ہو تو اس پر خدا کی حمد بجالاؤ اور اس سے نصیحت قبول کرو اور اس کی نصیحت کی قدر کرو۔ اور اگر اس نے صحیح بات نہ کہی ہو تو پھر بھی اس کے ساتھ مہربانی کا رویہ اختیار کرو اس کو متہم نہ کرو۔ تمہیں یہ معلوم رہنا چاہئے کہ اس نے تمہاری بھلائی اور خیر خواہی میں کوتاہی نہیں کی ہے ہاں اس سے غلطی ہوئی ہے اور اگر وہ تمہاری نظر میں تہمت کا مستحق ہوتو اس کی کسی بات پر بھروسہ نہ کرو۔ خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔
(۴۳) بڑے و بزرگ کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الْكَبِيرِ فَإِنّ حَقّهُ تَوْقِيرُ سِنّهِ وَ إِجْلَالُ إِسْلَامِهِ إِذَا كَانَ مِنْ أَهْلِ الْفَضْلِ فِي الْإِسْلَامِ بِتَقْدِيمِهِ فِيهِ وَ تَرْكُ مُقَابَلَتِهِ عِنْدَ الْخِصَامِ وَ لَا تَسْبِقْهُ إِلَى طَرِيقٍ وَ لَا تَؤُمّهُ فِي طَرِيقٍ وَ لَا تَسْتَجْهِلْهُ وَ إِنْ جَهِلَ عَلَيْكَ تَحَمّلْتَ وَ أَكْرَمْتَهُ بِحَقّ إِسْلَامِهِ مَعَ سِنّهِ فَإِنّمَا حَقّ السّنّ بِقَدْرِ الْإِسْلَامِ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
تم سے بڑے اور بزرگ کا حق یہ ہے کہ تم اس کے سن و سال کی وجہ سے اس کا احترام کرو۔ اور اگر وہ اسلام میں اہل فضیلت ہو تو اس کے اسلام کو اہمیت دو اس طرح سے کہ اس کو اپنے سے مقدم سمجھو اور اس کے ساتھ اختلاف و دشمنی سے بچو۔ اس سے آگے نہ چلو اور راستے میں اس پر سبقت نہ کرو۔ اس سے جہالت و نادانی سے پیش نہ آؤ۔ اگر وہ تمہارے ساتھ ایسا کرے تو تم برداشت کرو اور اسلام اور بزرگی و بڑائی کی وجہ سے اس کا احترام و اکرام کرو اس لئے کہ عمر میں بڑائی کا حق اسلام کے برابر ہے ۔ خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔
( ۴۴) چھوٹے کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الصّغِيرِ فَرَحْمَتُهُ وَ تَثْقِيفُهُ وَ تَعْلِيمُهُ وَ الْعَفْوُ عَنْهُ وَ السّتْرُ عَلَيْهِ وَ الرّفْقُ بِهِ وَ الْمَعُونَةُ لَهُ وَ السّتْرُ عَلَى جَرَائِرِ حَدَاثَتِهِ فَإِنّهُ سَبَبٌ لِلتّوْبَةِ وَ الْمُدَارَاةُ لَهُ وَ تَرْكُ مُمَاحَكَتِهِ فَإِنّ ذَلِكَ أَدْنَى لِرُشْدِهِ
تم سے چھوٹے اور کمسن کا حق یہ ہے کہ اس کے ساتھ مہر و محبت سے پیش آؤ، اس کی پرورش کرو، اس کو تعلیم دو اور سکھاؤ ، اس سے در گزر کرو، اس کی پردہ پوشی کرو، اسے لباس پہناؤ، اس کے ساتھ نرم رویہ اپناؤ، اس کی مدد کرو، اس کی بچکانہ حرکتوں اور بچپنے کی غلطیوں پر پردہ ڈالو اس لئے کہ یہ انداز و طریقہ اور برتاؤ توبہ کا سبب ہے، اس کے ساتھ رواداری کا باعث اور اسے تحریک نہ کرنے ، اسے نہ بھڑکانے کا سبب ہے جس کے نتیجے میں اس کے کامیاب ہونے اور آگے بڑھنے میں معاون ہے۔
(۴۵) سائل کا حق:
وَ أَمّا حَقّ السّائِلِ فَإِعْطَاؤُهُ إِذَا تَيَقّنْتَ صِدْقَهُ وَ قَدَرْتَ عَلَى سَدّ حَاجَتِهِ وَ الدّعَاءُ لَهُ فِيمَا نَزَلَ بِهِ وَ الْمُعَاوَنَةُ لَهُ عَلَى طَلِبَتِهِ وَ إِنْ شَكَكْتَ فِي صِدْقِهِ وَ سَبَقَتْ إِلَيْهِ التّهَمَةُ لَهُ وَ لَمْ تَعْزِمْ عَلَى ذَلِكَ لَمْ تَأْمَنْ أَنْ يَكُونَ مِنْ كَيْدِ الشّيْطَانِ أَرَادَ أَنْ يَصُدّكَ عَنْ حَظّكَ وَ يَحُولَ بَيْنَكَ وَ بَيْنَ التّقَرّبِ إِلَى رَبّكَ فَتَرَكْتَهُ بِسَتْرِهِ وَ رَدَدْتَهُ رَدّاً جَمِيلًا وَ إِنْ غَلَبْتَ نَفْسَكَ فِي أَمْرِهِ وَ أَعْطَيْتَهُ عَلَى مَا عَرَضَ فِي نَفْسِكَ مِنْهُ- فَإِنّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
سائل کا حق یہ ہے کہ اگر تمہارے پاس صدقہ تیار ہے ( یا تمہیں اس کی سچائی کا یقین ہے) تو اسے دے دو اور اس کی ضرورت پوری کردو ۔ اور اس کی ناداری و فقر کے دور ہونے کی دعا کرو۔ اس مطالبہ پر اس کی مدد کرو اور اگر تم کو اس کی بات پر یقین نہ ہو، اس کے ضرورت مند ہونے کا شک ہو ،وہ متہم قرار دیا چکا ہو لیکن تم کو یقین نہ ہو (یعنی تم کو اس کی بات پر یقین تو نہ ہو لیکن اس کے جھوٹے ہونے کا یقین بھی نہ ہو اور یہ احتمال پایا جارہا ہو کہ ہوسکتا ہے وہ ضرورت مند ہو) تو ممکن ہے تم کو اس سلسلے میںمشکوک بنا کر اور اس کے بارے میں وسوسہ ڈال کر شیطان تم کو بہکا رہا ہو اور تم کو فائدے سے روکنا چاہ رہا ہو اور وہ تقرب خدا اور تمہارے درمیان حائل ہونا چاہ رہا ہو لہٰذا اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو اور مناسب و شائستہ جواب دو۔ اور اس صورت میں اگر کچھ دے دو تو یہ بہت اچھا ہے ۔
(۴۶) مسئول کا حق:
وَ أَمّا حَقّ الْمَسْئُولِ فَحَقّهُ إِنْ أَعْطَى قُبِلَ مِنْهُ مَا أَعْطَى بِالشّكْرِ لَهُ وَ الْمَعْرِفَةِ لِفَضْلِهِ وَ طَلَبِ وَجْهِ الْعُذْرِ فِي مَنْعِهِ وَ أَحْسِنْ بِهِ الظّنّ وَ اعْلَمْ أَنّهُ إِنْ مَنَعَ فَمَالَهُ مَنَعَ وَ أَنْ لَيْسَ التّثْرِيبُ فِي مَالِهِ وَ إِنْ كَانَ ظَالِماً فَ إِنّ الْإِنْسانَ لَظَلُومٌ كَفّارٌ-
جس سے سوال کیا جائے، جس سے مانگا جائے اس کا حق یہ ہے کہ اگر اس نے کچھ دیا تو اسے شکریہ کے ساتھ قبول کرو اور اس کی قدر دانی کرو اور اگر اس نے کچھ نہیں دیا تو اسے خوشی کے ساتھ معذور سمجھو اور اس کے سلسلے میں حسن ظن رکھو اور یہ جان لو کہ اگر اس نے کچھ دینے سے دریغ کیا ہے تو اپنے ہی مال میں دریغ کیا ہے لہٰذا کوئی اعتراض و ملامت نہیں ہوسکتی اگر چہ وہ ظالم ہو اس لئے کہ انسان ظالم ہے اور حق کو چھپانے والا ہے۔
(۴۷) خوش کرنے والے کا حق:
وَ أَمّا حَقّ مَنْ سَرّكَ اللّهُ بِهِ وَ عَلَى يَدَيْهِ فَإِنْ كَانَ تَعَمّدَهَا لَكَ حَمِدْتَ اللّهَ أَوّلًا ثُمّ شَكَرْتَهُ عَلَى ذَلِكَ بِقَدْرِهِ فِي مَوْضِعِ الْجَزَاءِ وَ كَافَأْتَهُ عَلَى فَضْلِ الِابْتِدَاءِ وَ أَرْصَدْتَ لَهُ الْمُكَافَأَةَ وَ إِنْ لَمْ يَكُنْ تَعَمّدَهَا حَمِدْتَ اللّهَ وَ شَكَرْتَهُ وَ عَلِمْتَ أَنّهُ مِنْهُ تَوَحّدَكَ بِهَا وَ أَحْبَبْتَ هَذَا إِذْ كَانَ سَبَباً مِنْ أَسْبَابِ نِعَمِ اللّهِ عَلَيْكَ وَ تَرْجُو لَهُ بَعْدَ ذَلِكَ خَيْراً فَإِنّ أَسْبَابَ النّعَمِ بَرَكَةٌ حَيْثُ مَا كَانَتْ وَ إِنْ كَانَ لَمْ يَتَعَمّدْ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
خداوند عالم نے جس کے ذریعہ تمہیں خوشحال کیا ہے اور تم کو مسرت و خوشی حاصل ہوئی ہے، اس کا حق یہ ہےکہ اگر اس کا ارادہ تم کو خوش کرنے کا تھا تو پہلے تو خدا کا شکر ادا کرو پھر اس شخص کی خوبی و نیکی کے مقابلے میں جس نے خوشحال کیا ہے جتنا وہ مستحق ہے اس کا بدلہ چکاؤ، جزا دو اور اس کے احسان و نیکی کے آغاز کے مقابلے میں نیکی و احسان کرو، نیک بدلہ دو اور اگر اس کا ارادہ تمہاری خوشی نہیں تھا تو خدا کی حمد و ثنا کرتے ہوئے شکر بجا لاؤ اور جان لو کہ یہ خوشی ا سکی وجہ سے ہے وہی تمہاری خوشحالی کا سبب ہوا ہے۔ چونکہ وہ تمہارے لئے خدا کی نعمت کا سبب بنا ہے لہذا اس سے محبت کرو او راس کی بھلائی چاہو اس لئے کہ جیسے بھی ہوں اور بغیر قصد کےہوں تب بھی نعمتوں کے اسباب بھی نعمت ہیں۔ خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔
(۴۸)تمہارے ساتھ برائی کرنے والے کا حق:
وَ أَمّا حَقّ مَنْ سَاءَكَ الْقَضَاءُ عَلَى يَدَيْهِ بِقَوْلٍ أَوْ فِعْلٍ فَإِنْ كَانَ تَعَمّدَهَا كَانَ الْعَفْوُ أَوْلَى بِكَ لِمَا فِيهِ لَهُ مِنَ الْقَمْعِ وَ حُسْنِ الْأَدَبِ مَعَ كَثِيرِ أَمْثَالِهِ مِنَ الْخَلْقِ فَإِنّ اللّهَ يَقُولُ وَ لَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولئِكَ ما عَلَيْهِمْ مِنْ سَبِيلٍ إِلَى قَوْلِهِ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ وَ قَالَ عَزّ وَ جَلّ وَ إِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصّابِرِينَ هَذَا فِي الْعَمْدِ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ عَمْداً لَمْ تَظْلِمْهُ بِتَعَمّدِ الِانْتِصَارِ مِنْهُ فَتَكُونَ قَدْ كَافَأْتَهُ فِي تَعَمّدٍ عَلَى خَطَإٍ وَ رَفَقْتَ بِهِ وَ رَدَدْتَهُ بِأَلْطَفِ مَا تَقْدِرُ عَلَيْهِ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
جس نے اپنے قول و فعل سے تمہارے ساتھ برائی کی ہے اس کا حق یہ ہےکہ اگر اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے تو بہتر یہی ہے کہ اس سے درگزر کرو تاکہ کدورت ختم ہوجائے اور اس طرح کے لوگوں کے ساتھ اسی طرح پیش آؤاس لئے کہ خداوند عالم فرماتا ہے: جس نے اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد اس کا انتقام لیا تو اس پر کوئی الزام نہیں۔(یہاں تک کہ فرمایا:) یہ صحیح کام ہے۔ پھر ارشاد ہوا: اگر سزا دو تو اتنی ہو جتنا تم کو نقصان پہنچا ہے او راگر صبر کرلو اور درگزر کرو تو صبر کرنے والوں کے لئے یہی بہتر ہے۔ یہ عمدا اور جان بوجھ کر بدی کرنے والے کے لئے تھا۔
لیکن اگر کسی نے تمہارے ساتھ جان بوجھ کر برائی نہ کی ہو تو تم بھی جانتے بوجھتے ہوئے بدلہ لینے میں اس پر ظلم نہ کروورنہ جان بوجھ کر برائی کے ذریعہ بدلہ لینے میں تم خطا کار قرار پاؤ گے بلکہ جہاں تک ہوسکے اس کے ساتھ نرمی و پیار و محبت سے پیش آؤ۔
(۴۹) ہمکیش و ہم مذہب کا حق:
وَ أَمّا حَقّ أَهْلِ مِلّتِكَ عَامّةً فَإِضْمَارُ السّلَامَةِ وَ نَشْرُ جَنَاحِ الرّحْمَةِ وَ الرّفْقُ بِمُسِيئِهِمْ وَ تَأَلّفُهُمْ وَ اسْتِصْلَاحُهُمْ وَ شُكْرُ مُحْسِنِهِمْ إِلَى نَفْسِهِ وَ إِلَيْكَ فَإِنّ إِحْسَانَهُ إِلَى نَفْسِهِ إِحْسَانُهُ إِلَيْكَ إِذَا كَفّ عَنْكَ أَذَاهُ وَ كَفَاكَ مَئُونَتَهُ وَ حَبَسَ عَنْكَ نَفْسَهُ فَعُمّهُمْ جَمِيعاً بِدَعْوَتِكَ وَ انْصُرْهُمْ جَمِيعاً بِنُصْرَتِكَ وَ أَنْزَلْتَهُمْ أَنْزِلْهُمْ جَمِيعاً مِنْكَ مَنَازِلَهُمْ كَبِيرَهُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ وَ صَغِيرَهُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ وَ أَوْسَطَهُمْ بِمَنْزِلَةِ الْأَخِ فَمَنْ أَتَاكَ تَعَاهَدْتَهُ بِلُطْفٍ وَ رَحْمَةٍ وَ صِلْ أَخَاكَ بِمَا يَجِبُ لِلْأَخِ عَلَى أَخِيهِ
جو عمومی طور پر تمہارے ہم مسلک و ہم مذہب ہیں ان کا حق تمہارے اوپر یہ ہے کہ تہہ دل سے ان کی سلامتی کے طلب گار رہو اور لطف و مہربانی کا سایہ ان پر کئے رہو اور جو انمیں سے برے ہیں ان کے ساتھ بھی رفق و مہربانی کرو، ان کے ساتھ انس و الفت برقرار کرو، ان کی اصلاح کی کوشش کرو۔ اور ان لوگوں کا شکریہ ادا کرو جو اپنے ساتھ اور تمہارے ساتھ اچھائی و نیکی کرتے ہیں۔ چونکہ ان کا اپنے ساتھ احسان و نیکی کرنا تمہارے ساتھ احسان و نیکی کرنے کی طرح ہے اس لئے کہ تم کو تکلیف پہنچانے سے خودداری کرتے ہوئے تم کو زحمت میں نہیں ڈالا ان سب کےلئے دعا کرو، اپنی مدد کے ذریعہ ان سب کو مدد پہنچاؤ اور ہر ایک کے لئے اپنی بنسبت مقام و مرتبہ کے قائل ہو ان کے بزرگوں کو اپنے باپ کی طرح سمجھو۔ ان کے چھوٹوں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھو۔ اور میانہ سال افراد کو اپنے بھائی کی طرح سمجھو اور جو بھی تمہارے پاس آئے تو اس کے ساتھ لطف و مہربانی کا رویہ اپناتے ہوئے ان کی دل جوئی کرو اور اپنے بھائی کے ساتھ بھائی والا برتاؤ کرو۔
(۵۰) اہل کتاب کا حق:
وَ أَمّا حَقّ أَهْلِ الذّمّةِ فَالْحُكْمُ فِيهِمْ أَنْ تَقْبَلَ مِنْهُمْ مَا قَبِلَ اللّهُ وَ تَفِيَ بِمَا جَعَلَ اللّهُ لَهُمْ مِنْ ذِمّتِهِ وَ عَهْدِهِ وَ تَكِلَهُمْ إِلَيْهِ فِيمَا طُلِبُوا مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَ أُجْبِرُوا عَلَيْهِ وَ تَحْكُمَ فِيهِمْ بِمَا حَكَمَ اللّهُ بِهِ عَلَى نَفْسِكَ فِيمَا جَرَى بَيْنَكَ وَ بَيْنَهُمْ مِنْ مُعَامَلَةٍ وَ لْيَكُنْ بَيْنَكَ وَ بَيْنَ ظُلْمِهِمْ مِنْ رِعَايَةِ ذِمّةِ اللّهِ وَ الْوَفَاءِ بِعَهْدِهِ وَ عَهِدِ رَسُولِ اللّهِ ص حَائِلٌ فَإِنّهُ بَلَغَنَا أَنّهُ قَالَ مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِداً كُنْتُ خَصْمَهُ فَاتّقِ اللّهَ وَ لَا حَوْلَ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ
اہل ذمہ (یعنی وہ اہل کتاب جو اسلام کی پناہ میں ہوں) ان کا حق یہ ہے کہ ان سے جو چیز خدا نے قبول کی ہے تم بھی قبول کرو۔ اور خدا نے ان کے لئے جو عہد اور ذمہ داری معین کی ہے اس کےسلسلے میں وفادار رہو اور ان کو وہ دو ان کے حوالے کرو جو وہ چاہتے ہیں اور جس پر مجبور ہوں ان کے معاملات میں حکم خدا پر عمل کرو۔ اور چونکہ وہ اسلام کی پناہ میں ہیں لہذا خدا و رسول کے عہد کو پورا کرنے کی خاطر ان پر ظلم و ستم نہ کرو۔ اس لئے کہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا: ’’جو بھی اس شخص پر ظلم کرے جس سے عہد و پیمان کیا ہے تو میں اس کا دشمن و مخالف ہوں۔ خدا سے ڈرتے رہو خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔
فَهَذِهِ خَمْسُونَ حَقّاً مُحِيطاً بِكَ لَا تَخْرُجْ مِنْهَا فِي حَالٍ مِنَ الْأَحْوَالِ يَجِبُ عَلَيْكَ رِعَايَتُهَا وَ الْعَمَلُ فِي تَأْدِيَتِهَا وَ الِاسْتِعَانَةُ بِاللّهِ جَلّ ثَنَاؤُهُ عَلَى ذَلِكَ وَ لَا حَوْلَ وَ لا قُوّةَ إِلّا بِاللّهِ- وَ الْحَمْدُ لِلّهِ رَبّ الْعالَمِين
یہ پچاس حقوق ہیں جو تمہارے پورے وجود کو گھیرے ہوئے ہیں اور زندگی کے کسی بھی موڑ پر اور کسی بھی حالت میں تم اپنے کو ان حقوق سے بری نہ سمجھنا، ہر حال میں ان حقوق کا خیال کرنا اور انکی ادائگی کی کوشش کرتے رہنا تم پر واجب ہے اور لائق حمد و ثنائے پروردگار سے مدد طلب کرتے رہو تاکہ ان حقوق کے ادا کرنے کی تمہیں توفیق حاصل ہو خداوند عالم کے علاوہ کوئی طاقت و قوت نہیں ہے اور ساری تعریفیں عالمین کے پروردگار کے لئے ہیں۔
ضضض