پیر، 4 جون، 2018

عمر کا خط معاویہ کے نام


عمر کا خط معاویہ کے نام

علامہ مجلسی علیہ الرحمہ بحار الانوار میں فرماتے ہیںکہ دلائل الامامت کی دوسری جلد سے اس خبر کو نقل کیا گیا ہے :
ابو الحسن محمد بن ہارون بن موسیٰ التلعبکری نے بیان کیا کہ مجھ سے میرے والد ماجد ہارون بن موسیٰ التلعبکری نے بیان کیا، ان سے ابو علی محمد بن ہمام نے بیان کیا۔ انہوںنے کہا کہ ہم سے جعفر بن محمد بن مالک الفزاری کوفی نےبیان کیا، ان سے عبد الرحمان بن سنان الصیرفی نے بیان کیا ، ان سے جعفر بن علی الجواد نےبیان کیا، ان سے حسن بن مسکان نےبیان کیا، ان سے مفضل بن عمر الجعفی نےبیان کیا۔ اور ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ جب حضرت امام حسین کو شہید کردیا گیا تو مدینہ رسولؐ میں حضرت امام حسینؑ کی شہادت اور اہل بیتؑ کی اسیری کی خبر پہنچی اور یہ کہ اہل بیتؑ سے اٹھارہ تن اور ۵۳؍اصحاب حسینی نے جامِ شہادت نوش کیا اور یہ کہ چھ مہینے کا شیر خوار مجاہد علی اصغرؑ پانی کے سوال پر اپنے باپ کے ہاتھوں پر جام شہادت سے سیراب ہوئے اور رسول خداؐ کی نواسیوں کو قیدی بنایا گیا اور آل محمدؐ کے قیدیوں کو دربار یزیدی میں دست بستہ پیش کیا گیا۔ 
اس خبر کو سن کر ازواجِ نبیؐ نے حضرت اُمِّ سلمیٰ کے گھر میں مجلسِ ماتم بپا کی اور مہاجرین اور انصار نے بھی اپنے گھروں میں مجالس و ماتم و سوگواری برپا کیں۔ 
امام حسینؑ کی شہادت اور حضرت زینبؑ و اُمِّ کلثومؑ کی اسیری کی خبر سن کر عبد اللہ بن عمر خطاب چیخ مارتے ہوئے گریباں چاک کئے روتے اور سینہ کوبی کرتے ہوئے اپنے گھر سے باہر نکلے اور انصار اور مہاجرین اور بنی ہاشم سے کہا اولاد رسولؐ خدا کا خون بہادیا گیا اور ان کے اہل حرم کو قیدی اور اسیر بنایا گیا اور تم لوگ زندہ ہو اور کھانے پینے میں مشغول ہو؟
اب میں یزید کے پاس جاؤں گا اور مدینے سے یہ کہہ کر چل دیئے اور کہا کہ میں جب تک مدینے میں داخل نہیں ہوں گا کہ جب تک مدینے والے یزید کے خلاف نفرت کا اظہار نہیں کرتے وہ خود یزید اور یزیدیوں پر لعنت بھیجا کرتے ۔ مدینۂ رسولؐ میں یزید حاکم نے اپنے امیر کو لکھا کہ خلیفہ عمر کا فرزند عبد اللہ تیرے خلاف لوگوں کو بھڑکارہا ہے۔ وہ کہتا ہےکہ یزید نے فرزندِ رسولؐ کو قتل کردیا اور رسولؐ کے اہل بیتؑ کو قیدی بنایا ہے اور جو شخص عبد اللہ بن عمر خطاب کی تائید نہیںکرے گا وہ دین اسلام سے خارج ہے۔ 
عبد اللہ بن عمر یہ کہتے ہوئے دمشق ، یزید کے پاس پہنچ گئے اور فریاد کرتے ہوئے کہا: اے امیر یہ تم نے کیا کیا؟ تم نے اولادِ رسولؐ کا خون بہایا اور آل رسولؐ کو قیدی بنایا۔ ایسا سلوک تو ترک و دیلم اور رومی قیدیوں کے ساتھ بھی روا نہیں ہے۔ 
اس مسندِ خلافت کو چھوڑ کر اب مسلمان کے سامنے حاضر ہوجاؤ اور دیکھو کہ وہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ 
یزید نے عبد اللہ بن عمر خطاب کو خوش آمدید کہا اور اپنے سینے سے لگالیا اور کہا اے عبد اللہ خاموش ہوجاؤ اور جو کچھ تم کہہ رہے ہو اس کے اطراف و جوانب پر غور کرو۔ 
اور یہ بتاؤ کہ تمہارا اپنے باپ عمر خطاب کے بارےمیں کیا نظریہ ہے؟
 وہ خلیفۂ رسولؐ خدا ، ہادی اور مہدی تھے اور رسولؐ خدا کے ناصر اور حامی تھے اور تمہاری بہن حفصہ حضرت رسولؐ خدا کی زوجہ تھیں یا یہ کہتے ہو کہ وہ اللہ کے مطیع فرمان نہیں تھے اور اللہ کی عبادت سے گریزاں تھے؟ عبد اللہ بن عمر خطاب نے کہا:
 میرے ابا میاں ویسے ہی تھے کہ جیسا تم نے ان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہا ہے ۔
اب تم ان کے بارےمیں کیا کہنا چاہتے ہو؟
 یزید نے کہا : اب یہ بتاؤ کہ تمہارے ابا میاں نے میرے ابا جی کے گلے میں خلافتی پٹّہ ڈالا تھا یا میرے ابّا نے تمہارے ابّا میاں کے گلے میں خلافت کا قلادہ ڈالا تھا؟ اور شام کا حاکم مطلق قرار دیا تھا۔ عبد اللہ بن عمر نے اقرار کیا کہ میرے ابّا نے تمہارے ابّا کو شام کی حکومت دے کر ان کی گردن میں قلادہ ڈال دیا تھا۔ 
 یزید نے کہا : اے عبد اللہ اپنے باپ کے اس کام سے تم راضی اور خوش ہو کہ انہوں نے میرے ابا کو شام کی حوکمت بخشی۔ عبد اللہ بن عمر خطاب نےکہا: ہاں یہاں تک تو میں راضی ہوں۔ یزید نے کہا : تم اپنے باپ سے راضی ہو؟ عبد اللہ نے گرد ن ہلا کر یزید کے قول کی تائید کی اور کہا میں اپنے باپ سے خو ش اور راضی ہوں۔ یزید نے عبد اللہ بن عمر کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ مارا اور کہا آؤ عمر خطاب کے فرزند میرے ساتھ چلو میں تمہیں ایک چیز دکھاؤں گا۔ عبد اللہ بن عمر یزید کے ساتھ چل دیئے۔ 
یزید انہیں اپنے خزانے میں لایا اور ایک صندوق طلب کیا اور اس صندوق کےا ندر سے ایک چھوٹی سی صندوقچی نکالی اور اس میں سے ایک طومار نکالا کہ جو سیاہ ریشمی کپڑے پر لکھا تھا یزید نے طومار عبد اللہ بن عمر کو دیا اور اور دریافت  کیا ’’ تم اس تحریر کو پہچانتے ہو؟ یہ خط تمہارے ابا میاں کا ہے یا کسی اور نے لکھ دیا ہے ‘‘۔؟
عبد اللہ بن عمر نے کہا یہ تحریر میرے ابا میاں کی ہے۔ ابن عمر خطاب نے وہ طومار یزید سے لے لیا اور اس کو بوسہ دیا یزید نے کہا: عبد اللہ اس کو پڑھو اور انہوں نے اس کو پڑھنا شروع کردیا۔ 
 ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم : وہ ذات کہ جس نے تلوار کی دھار پر ہم سے اپنا اقرار لیا۔ ہم نے اقرار تو کرلیا لیکن دل میں نفرت بھری تھی۔ ہماری سانسیں بھی گھٹ گئی تھیں، ہماری نیت اور ضمیر میں شک و تردید کی گرہیں پڑھیں تھیں، ہم نے مجبور ہوکر اپنے دین کو چھوڑا اپنے بتوں اور خداؤں کو چھوڑا اور جس کا انکار تھا اس کو قبول کرنا پڑا۔ ہم نے تلوار سے بچنے کی خاطر اطاعت کو قبول کرلیا۔ پھر قبول کرنے میں دینوی فائدے بھی تھے نعمتوں کی فراوانی تھی۔ مجھ کو اپنے آبائی دین سے بے حد محبت تھی۔ میرےد ل میں اس دین کی محبت و الفت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ 
میں اپنے ہُبل ولات و عزّیٰ اور اصنام اور بتوں کی قسم کھا کر اعلان کرتا ہوں کہ عمر نے جس روز سے اپنے معبودوں کی عبادت شروع کی تھی آج تک انہیں دل سے نہیں نکالا ہے اور خانہ کعبہ کا ان خداؤں کے سوائے کوئی پروردگار نہیں ہے۔ 
 میں نے کبھی دل سے محمدؐ کے قول کی تصدیق نہیں کی، اسلام کے قبول کرنے میں میری اپنی سیاست اور تدبیر تھی اور حیلہ گری کا کرشمہ تھا۔ مگر وہ بہت بڑے جادو کو لے کر آئے تھے اور وہ اپنی جادوگری میں بنی اسرائیل و موسیٰ و ہارون و داؤد و سلیمان و عیسیٰ سے بھی بڑھ چڑھ کر تھے ‘‘ ( یہ خط لندن سے شائع ہونے والے عربی جریدے میں کسی نئے متجد د نام سے بھی شائع ہوا ہے )





اس جادو کے سامنے ہم نے ہتھیار ڈال دیئے اور حقیقت یہ ہے کہ ’’ وہ سید السحرۃ‘‘ جادو گروں کےسردار تھے ‘‘ ({ FR 12 })
پس اے ابو سفیان کے جنے اپنی قوم کی سنت کو مضبوطی سے پکڑے رہنا اور اپنی ملت کی پیروی کرتے رہنا اور جس دین پر تمہارے اسلاف کار بند تھے اسی پر قائم رہنا اور اس دین میں یہ ہمارا دین نہیں ہے اس میں کہتے ہیں کہ ان کا اللہ ہے۔ پروردگار ہے۔ انہوں نے اپنا قبلہ بھی بنا لیا ہے اور انہوں نے نماز اور حج کو اسلام کا رکن قرار دیا ہے۔ محمدؐ کی مدد کرنے والے یہی سلمان فارسی تھے۔ وہ لوگ مدعی ہیں کہ سب سے پہلا گھر وہی ہے کہ جو مکے میں ہے اور لوگوں کو ہدایت کرتا ہے اور اس میں اللہ کی نشانیاں ہیں۔ 
 وہ اپنی نماز پتھروں کے لئے پڑھتے ہیں اور ہمارے بتوں پرستش سے ہم کو منع کرتے ہیں۔ اگر ان کا جادو نہ ہوتا تو ہم ہرگز اپنے اصنام و بتوں کو فراموش نہ کرتے اور لات اور عزیٰ کی شان بر قرار رہتی ہے۔ اب چاہے وہ کتناہی جادو کریں مگر ہم لات و عزیٰ کو ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ 
وہ اپنی نماز پتھروں کےلئے پڑھتے ہیں اور ہمارے بتوں کی پرستش سے ہم کو منع کرتے ہیں اگر ان کا جادو نہ ہوتا تو ہم ہرگز اپنے اصنام و بتوں کو فراموش نہ کرتے اور لات و عزیٰ کی شان بر قرار ہتی ۔ اب چاہے وہ کتنا ہی جادو کریں مگر ہم لات و عزیٰ کو ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ 
اے معاویہ اب اچھی طرح آنکھیں کھول کر دیکھ  اور جو کچھ میں کہتا ہوں اس کو غور سے سن اور اپنے دل و دماغ سے اس موضوع پر غور و فکر کر اور ہمیشہ ’’ لات و عزیٰ‘‘ کا شکر گزار رہنا اور اے معاویہ اپنی آزادی میں اور خلافت میں عبد العزیٰ کے احسان کو فراموش مت کرنا۔ میں تجھ کو امت محمدؐ کا حاکم مقرر کررہا ہوں۔ تئجھ کو پورا اختیار ہے ان کے مال و دولت میں، ان کے جان و خون ، شریعت  و حلال و حرام میں، ان کے فرائض اور حقوق میں تو ہر سفید و سیاہ کا مالک مختار ہے۔ اس بات کا اچھی طرح خیال رکھنا کہ ظاہری طور پر تجھ کو انہیں کی طرح دین دار بن کر رہنا ہوگا اور پنہانی طور پر تجھ کو اپنے دین کو تقویت پہنچانی ہے۔ اس روش پر اگر تو کاربند رہے گا تو مسلمان تیری مدد کریں گے تو اپنے امور میں صاحب اختیار ہے، تیرا کوئی محاسبہ نہیں کرے گا ۔ ( مسلمانوں نے اگر معاویہ کی غیر اسلامی رفتار کی عمر سے شکایت کی تو جواب دیا کہ بھئی وہ قیصر اسلام ہے اور آزاد ہے )۔
میں نے بنی ہاشم کے درخشاں چہرے پر پردے چڑھادیئے ہیں۔ میں نے کوشش کی تھی کہ انہیں قتل کر ڈالوں اور اپنے بت پرستی کے دین کو بچالوں مگر حیدرؑ نے میری تدبیر اور حلیہ گری کو کامیابی سے ہمکنار نہ ہونےدیا۔ محمدؐ نے انہیں اپنا داماد قرار دیا اور فاطمہؑ زہرا کی ان کے ساتھ شادی ہوگئی۔ 
اور مسلمان انہیں سیدہ نساء کہتے ہیں۔ 
اب وہ بنی ہاشم کا چاند خاک کے دامن میں سورہا ہے اور میں نے علیؑ و فاطمہؑ و حسنؑ و حسینؑ و زینبؑ اور ام کلثوم اور فضہ پر زندگی تنگ کردی ہے۔ 
میرے ساتھ خالد بن ولید و قنفذ ( ابوبکر کا غلام ) اور ہمارے وفادار لوگ تھے۔ میں نے ان کے دروازے کو زبردست دھکا دیا تو کنیز فضہ نے ہمارے آنے کی وجہ دریافت کی۔ میں نے کہا کہ علیؑ سے کہنا کہ اب اپنے دل میں خلافت کی خواہش مت کریں۔ یہ خلافت ان کےلئے نہیں ہے۔ امرِ خلافت کومسلمانوں نے طے کرلیا ہے اور انہوں نے جس کو خلیفہ بنایا وہی صاحب امر ہوگیا ہے۔ انہوں نے اپنے اجماع کے ذریعے اپنا خلیفہ منتخب کرلیا ہے۔ 
 پروردگار لات و عزیٰ کی قسم اگر ابو بکر کے اوپر امر خلافت کو چھوڑ دیا جاتا تو پھر خلافت اور حکومت مل چکی ہوتی وہ بس میری کوشش اور چالاکی تھی کہ جو فرزند ابو کبشہ خلیفہ بن جانےمیں کامیاب ہوگیا ورنہ ابو بکر سے خلافت کا دور کا بھی تعلق نہ رہتا۔ میں نے اس کی طرح رخ بدلا اور آنکھیں کھولیں اور نزار و قحطان کی داڑھیوں سے کہا۔ تم کیا کہتے ہو۔ خلافت بس قریش ہی کا حق ہے اور جو لوگ اللہ کی اطاعت کرتے ہیں انہیں چاہئے کہ قریش کی اطاعت کریں اور یہ میں نے صرف اس لئے کیا کہ قریش کو علی بن ابی طالبؑ کی تلوار سے اسلامی لڑائیوں میں محمدؐ کی زندگی میں جو جانی نقصانات اٹھانا پڑے ہیں ان کی تلافی ہوجائے اور میں جانتا تھا کہ علیؑ اس وقت نہیں آئیں گے۔ وہ محمدؐ کے دفن کرنے میں مشغول ہیں اور دفن سے فرصت پائیں گے تو پھر انہیں رسولؐ خدا کے قرض کے اسّی(۸۰) ہزار درہم ادا کرنا ہوں گے پھر محمدؐ کے کئے گئے وعدوں کو پورا کریں گے۔ قرآن کی گرد آوری اور جمع کرلینے سے پہلے وہ اپنے گھر سے باہر قدم نہیں نکالیں گے۔ انصاراور مہاجرین تُو تُو میں میں کرنے میں لگے تھے میں نے ان سے کہا : کیا تم نہیں جانتے کہ حضرت رسول خداؐ نے فرمادیا ہے :
 ’’ امامت بس قریش ہی میں رہے گی‘‘
 تو انہوں نے جواب دیا کہ پھر حضرت علیؑ بن ابی طالبؑ امام ہیں اور رسول خداؐ نے اپنی امت سے ان کے واسطے بیعت بھی لے لی ہے اور ہم کو حکم دیا کہ انہیں امیر المومنینؑ کہہ کر سلام کریں اور چار مقامات پر حضرت علیؑ کی بیعت لی گئی ہے ۔ اب قریش یہ کہیں کہ انہیں یہ بات یاد نہیں رہی تو ہم گواہی دیتے ہیںکہ ہم کو یہ واقعات اچھی طرح یاد ہیں اور یہ بیعت و امامت و خلافت اور وصیت برحق ہے اور امر خدا ہے اور اس میں ادعا اور خواہش اور آرزو کا دخل نہیں ہے۔ 
 ہم نے انصار کو جھٹلا دیا۔ اور میں نےچالیس گواہ کھڑے کردیئے۔ انہوں نے محمدؐ کے برخلاف گواہی دی کہ امامت مسلمانوں کو اختیار ہے تو پھر انصار نے کہا : ہمارا حق قریش سے زیادہ ہے ‘‘ کیوں کہ ہم نے اسلام کو پناہ دی اور مدد کی ہے اور دوسرے لوگ ہجرت کرکے ہماری طرف آئے ہیں جب تم لوگ مستحق امامت اور خلافت کو محروم قرار دیتے ہو تو پھر اس امر کے تم لوگ خود حق دار نہیں ہوگے بلکہ ہم خلافت اور امامت کے مستحق ہیں اور لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ ایک امیر ہماری طرف سے اور ایک امیر تمہاری طرف سے ہو۔ میں نے ان سے کہا : دیکھو ابھی چالیس آدمیوں نے گواہی دی ہےکہ حضرت رسول خداؐ نے فرمایاُ: کہ امامت بس قریش کا ہی حق ہے۔ کچھ لوگوں نے اس بات کو قبول کرلیا اور کچھ نے انکار کیا اور جھگڑے کی صورت پیش آگئی۔ ({ FR 23 })
میں نے ان سے کہا : دیکھو ہم میں جو شخص بھی عمر کے لحاظ سے بڑا ہوا اور مہربان بھی بڑھ کر ہو بس اسی کی بیعت کرلو اور اپنی خلافت اس کے حوالے کردو۔ 
لوگوں نے سوال کیا: کہ تم کس کے بارےمیں یہ کہہ رہے ہو؟ میں نے کہا : اب وبکر اور میں نے دیکھا رسول خداؐ نے نماز میں اس کو آغے بـڑھا دیا تھا ( عمر نے قرآن کے خلاف بیان دیا ہے۔ سورۂ حجرات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ رسول خداؐ اور ید اللہؐ کے آگے نہ بڑھ جانا یہ عام حکم ہے۔ حضرت رسول خداؐ اور ید اللہ جہاں بھی ہوں کوئی مسلمان آنحضرتؐ کے آگے نہ آجھائے اور اگر کوئی بھولے سے اس گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا ایمان اور اسلام حبط ہوجائیں گے اور وہ کھرا کافر رہےگ ا) اور جنگ بدر میں میں بھی وہ حضور سرور عالمؑ کے پہلو میں بیٹھا تھا اور رسول خداؐ کو اپنا مشورہ دے رہا تھا اور غار میں بھی ساتھ تھا اور اس کی بیٹی عائشہ کو اپنی زوجہ بھی قرار دیا اور اس کو ام المومنینؑ کا خطاب دیا۔ 
ابو بکر کو خلیفہ بنا لیا اور بنی ہاشم کو ناراض کردیا۔ زبیر ان کا دست راست بنا ہوا تھا اور اس کی تلوار کا شرہ تھا اور یہ لوگ علیؑ کے بغیر بیعت کرنے والے نہیں تھے۔ زبیر اپنی تلوار سونت کر آگیا ۔ میں نے زبیر سے کہا تونے بنی ہاشم کی پشت پناہی کی قسم کھائی ہے اور تو ان کا حامی ہے۔ تیری والدہ صفیہ عبد المطلب ؑ کی بیٹی ہیں اس لئے تو ان کی حمایت کا دم بھرتا ہے۔ زبیر نے کہا: خدا کی قسم میرے واسطے یہ ایک فخر و مباہات اور شرف ہے۔ اور اے حنتمہ کے فرزند اور ضحاک کے بیٹے اور خاموش ہوجا تیرے ماں باپ کےلئے تو شرف کی کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے اس سے وہی بات کہی کہ سقیفہ میں جس پر چالیس آدمی گواہی دے چکے تھے اس نے ہمارے بات کو مسترد کردیا اور شیر کی طرح ہم پر جھپٹا ۔ ہمارے ساتھ سینکڑوں جواں مرد تھے مگر ہم زبیر کے ہاتھ سے تلوار نہ چھین سکے۔ ایک مرتبہ وہ غصے کی وجہ سے ٹھوکر کھا کر زمین پر گرگیا اور ہم اس پر گدھوں کی طرح ٹوٹ پڑے اور اس کے ہاتھ سے تلوار چھین لی اور ہم نے کسی کو اس کی مدد اور حمایت میں نہیں دیکھا۔ 
ہم اس کو گرفتار کرکے ابو بکر کے سامنےلے گئے ابوبکر نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ پھیر دیا اور ہم نے اعلان کردیا کہ زبیر نے ابو بکر کی بیعت کرلی ہے۔ اب ہم نے کہا کہ جو شخص ہماری بیعت کرے گا ۔ وہ زندہ رہے گا۔ اور جس نے ہماری بیعت سے انکار کیا وہ قتل کردیا جائے گا۔ پھر لوگ از خود بڑھ بڑھ کر ابوبکر کی بیعت کرتے ۔ بنی ہاشم کی نخوت نے انہیں بیعت کرنے سے باز رکھا۔ 
میں نے ابوبکر کا ہاتھ پکڑا اور اس کو منبر رسولؐ پر چڑھا دیا۔ اس کا ذہنی توازن بگڑ گیا اور منبر پر جاکر الٹی سیدھی باتیں کرنے لگا اور مجھ سے کہا اے ابو حفصہ مجھ کو ڈر ہے کہ علیؑ کہیں آجائیں اور مجھ کو منبر سے اتاردیں۔ 
میں نے کہا : علیؑ کی طرف سے بے فکر ہو جا اور اس بارے میں ابو عبیدہ بن جراح نے میری مدد کی اور میں ابو بکر کی ہمت بڑھاتا رہا ۔ وہ منبر پر کھڑا ہوا تو لگ رہا تھا کہ مدہوش ہے اور اس کو دین و دنیا کی کچھ خبر نہیں ہے۔ میں نے کہا : ابو بکر خطبہ پڑھ ، وہ ہکلا کر بولا زبان میں لکنت تھی اور آنکھیں بند تھیں۔ میں نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور کہا کچھ تو بول تو میری تمام محنت کو اکارت کررہا ہے۔ وہ پھر بھی کچھ نہیں بولا۔ اب میں نے چاہا کہ دھکا دے کر اس کو منبر سے گرادوں اور خود اس کی جگہ کھڑا ہوجاؤں۔ پھر میں نے سوچا کہ ابھی تو لوگوں کو اس کی شان میں جھوٹی حدیثیں گڑھ گڑھ کر سنائی ہیں۔ وہ سب مجھ کو جھٹلانے لگیں گے اور عین اسی وقت اکثر لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ تو تو بڑی ڈینگیں مار رہا تھا اور اس کے فضائل بیان کررہا تھا۔ جب کہ ہم نے حضرت رسولؐ خدا کی زبانی اس کی شان اور فضل میں ایک لفظ بھی نہیں سنا ہے۔ ان لوگوں سےمیں نے کہا : میں نے جو کچھ بھی ابوبکر کے بارےمیں کہا ہے وہ حضرت رسولؐ خدا کی زبان سنا تھا اور میں نے ابو بکر سے کہا مٹھو میاں بولو کچھ تو بولو! ورنہ نیچے آجاؤ اور میں نے یہ طے کرلیا تھا کہ کچھ بھی ہو میں فوراً منبر پر پہنچ جاؤں گا۔ اب ابوبکر اپنی مری اور دبی آواز میں بولا:
تم نے ایسے شخص کو اپنا ولی بنایا ہے کہ جو تم سے بہتر نہیں ہے جبکہ علیؑ تمہارے درمیان موجود ہیں۔({ FR 29 })
ابوبکر نے آگے کہا : واعلموا ان لی شیطاناً یعرینی وما ارابہ سوای ۔ فاء ذاذللت فقو مونی ۔ لا اقع فی شعورکم و ابشارکم واستغفر اللہ لی ولکم۔
میں اعلان کرتا ہوں کہ مجھ پر ہمیشہ شیطان سوار رہتا ہے اور وہ مجھ کو بری طرح پچھاڑ دیا کرتا ہے۔ اس کا چاہا کچھ اور ہوتا ہے اور میری خواہش کچھ اور ہوتی ہے۔ اگر میں ٹھوکریں کھاؤں تو تم لوگ مجھ کو سیدھا کردینا اور میری غلطی کا تمہارے شعور اور ذہن میں فتور نہ ہو اور تمہارے جسم پر بھی اس کا اثر نہ ہو۔ میں اپنے واسطے اور تمہارے تئیں بھی اللہ سے مغفرت چاہتا ہوں‘‘۔
 ابوبکر یہ کہہ کر منبر سے نیچے آگئے۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور تمام لوگ یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ وہ ایک جگہ بیٹھ گئے اور میں نے لوگوں کو بیعت کرنےکےلئے ان کی طرف اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے دیکھا۔ 
اور جو بیعت سے انکار کرتا میں اس کو ڈرا دھمکا کر بیعت کرنے پر مجبور کرتا۔ لوگ کہتے کہ تم تو حضرت علی ابن ابی طالب کی بیعت کرچکے ہو تو میں انہیں جواب دیتا ہم نے اپنی بیعت کو واپس لے لیا ہے اور اب مسلمانوں کی اکثریت کی اطاعت ہے اور بہت ہی کم لوگ ہیں کہ جو اس اکثریت کے فیصلہ کی مخالفت میں آواز اٹھا رہےہیں۔ علیؑ بھی یہی چاہتے ہیں کہ تم ابو بکر کی بیعت کرکے اکثریت کی بات کو قبول کرو اسی لئے تو وہ اپنے گھر میں گوشہ نشین ہیں۔ اب لوگوں نے اپنی کراہت کے ساتھ ابو بکر کی بیعت کرنا شروع کردیا۔ 
جب ابو بکر کی بیعت ہوگئی تو ہم کو خبر ہوئی کہ علیؑ حضرت فاطمہؑ کو سوار کرکے حسنؑ اور حسینؑ کو ساتھ لے کر مدینہ رسولؐ میں مقیم انصار اور مہاجرین کے گھر جاتے ہیں اور وہ انہیں یاد دلاتے ہیں کہ مسلمانوں نے حضرت رسول خداؐ کے حکم سے چار جگہ پرچار مرتبہ ان کی بیعت کی ہے۔ وہ مسلمانوں کو ہماری حکومت اور خلافت سے متنفر کرتے اور حکومت کے خلاف انہیں ورغلاتے۔ لوگ رات میں ان سے وعدہ کرلیا کرتے کہ ہم ضرور آپ کی مدد اور نصرت کریں گے اور دن میں گھر سے باہر نہ نکلتے اور گھر ہی میں بیٹھ رہتے ۔ 
اب میں ایک روز اپنے لوگوں کو ساتھ لے  کر ان کے گھر کے دروازہ پر پہنچ گیا اور ان کی کنیز فضہ سے کہا کہ علیؑ سے کہو کہ بیعت کرنے کےلئے گھر سے باہر آئیں: ابو بکر کی تمام مسلمانوں نے بیعت کرلی ہے۔ فضہ جواب لائیں کہ حضرت امیر المومنینؑ مشغول ہیں۔ میں نے کہا فضۃ اس بات کو چھوڑ دو اور علیؑ سے کہو کہ اگر تم خود سے باہر نہیں آئے تو پھر ہم تمہیں زبردستی باہر لے آئیں گے۔ 
حضرت فاطمہ ؑ یہ سن کر دروازے پر آئیں اور انہوں نے فرمایا:
 ’’ ایا الضالون المکذبون ماذا تقولون‘‘۔
 اے گمراہو اور خدا اور رسول خداؐ کو جھٹلانے والو! کیا کہتے ہو۔ اور کیا چاہتے ہو؟
 میں نے کہا : اے فاطمہؑ! تو فاطمہؑ نے فرمایا۔ اے عمر! تو کیا چاہتا ہے؟ میں نے کہا : یہ آپ کے ابن عم کو کیا ہوا کہ وہ تمہارے ذریعے جواب دیتے ہیںا ور خود باہر نہیں آتے تو انہوں نے مجھ کو جواب دیا۔ اے شقی ازلی تیرے طغیانی اور سرکشی نے مجھ کو مجبور کیا ہے کہ میں تجھ سے ہم کلام ہوں اور کہا کہ یا حجت اور دلیل لے کر آ اور یہ سمجھ لے کر ہر گمراہ سرکش ہوتا ہے ۔ میں نے کہا : اے فاطمہؑ یہ باطل اور پرانے زمانے سے چلی آرہی عورتوں کی باتوں کو چھوڑ دو اور علیؑ سے کہو کہ باہر نکل آئیں۔ 
اب ان کا کوئی احترام باقی نہیںرہا ہے اور ان کا کوئی چاہنے والا بھی نہیں ملے گا۔ فاطمہؑ نے کہا کیا گروہ شیطان کے بل بوتے پر اے عمر تو ہم کو ڈرا دھمکارہا ہے؟ اور شیطانی گروہ ضعیف اور ناتواں ہے۔ میں نے کہا فاطمہؑ اگر علیؑ باہر نہیں آئے تو آگ اور لکڑیاں لے کر آؤں گا اور تمہیں جلا کر مار ڈالوںگا اور میں نے قنفذ کے ہاتھ سے تازیانہ لے لیا اور فاطمہ زہراؑ کو زدو کوب کیا اور خالد بن ولید سے کہا کہ اپنے لوگوں کو ساتھ لے جا اورلکڑیاں لے کر آؤ اور اس گھر کو آگ لگا دو۔ 
فاطمہؑ نے کہا : اے دشمنِ خدا و رسول خداؐ اور امیر المومنینؑ کے دشمن تجھ کی پھٹکار اور نفرین ہو تو اہل بیتؑ رسولؐ کو ستارہا ہے اور اللہ ہماری محبت کو اجرت رسالت قرار دیتا ہے۔ فاطمہؑ دروازہ کھولنے سے منع کررہی تھیں۔ میں نے ان کے ہاتھ پر زور سے تازیانہ ماردیا اور انہوں نے مجھ کو برا بھلا کہا۔ میں نے ان کے پہلو پر خوب تازیانے برسائے اور وہ گریہ و بکا آہ و فریاد کرتی رہیں۔ 
 میں نے کہا: وہ بھی تو یاد کرو کہ علیؑ کے ہاتھوں قریش کے صنادید کا قتل ہوا ہے اور علیؑ نے ہمارے آباؤ اجداد کو موت کے منہ میں بھیجا ہےا ور تیرے باپ کے جادو کے سامنے ہمیں سر جھکانا پڑ گیا تھا۔ میں نے دروازے کو لاتیں مار مار کر گرادیا اور لکڑیاں جلا کر اس کو آگ لگادی اور فاطمہ کو کیواڑ سے کچل دیا۔ اب فاطمہؑ نے فریاد کی۔ اور مجھ کو لگا کہ مدینہ ان کی مدد کےلئے امنڈ پڑے گا وہ فریاد کررہی تھیں۔ 
’’ اے بابا جان اے رسول خدا آپ کی بیٹی اور حبیبہ کے ساتھ عمر نے یہ سلوک کیا ہے آہ اے فضہ ! آکر مجھ کو سنبھالوں ۔ اس ظالم اور ستم گر نے میرے بچے کو شہید کردیا ہے۔ میں نے انہیں دیوار سے ٹکرا دیا اور ان کے کان سے گوشوارہ ٹوٹ کر زمین پر گر گیا۔ 
علیؑ بڑی تیزی کے ساتھ گھر سے باہر نکلے اور میں نے خالد اور قنفذ سے کہا کہ ہم بڑی مشکل میں پھنس گئے۔ اب دیکھو علیؑ گھر سے باہر نکل آئے ہیں اور یہ ہم سب کو ختم کرڈالیں گے۔ علیؑ نے فاطمہؑ سے کہا اے رحمت اللعالمین کی وارث اپنے بابا جان کی امت کے حق میں بددعا مت کرنا۔ تمہارے لبوں کے اشارے سے قیامت آجائے گی اور ان ستم گاروں کے ساتھ کچھ بے گناہ لوگ بھی مارے جائیں گے اور روئے زمین پر کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ اللہ کی بارگاہ میں آپ کے بابا جان کا ایک مقام ہے۔ آپ کا ایک مرتبہ ہے۔ حضرت نوحؑ نے بد دعا کرکے اہل زمین کو ہلاک کرادیا تھاآپ کے بابا جانؐ اور آپ حضرت نوحؑ سے افضل ہیں۔ قوم ہود بھی نہیں بچی۔ عاد کے لوگ بھی فنا کی آغوش میں چلے گئے اور اگر آپ کے لبوں کو اشارہ ہوا تو امت محمدؐ بھی باقی نہیں رہے گی ۔ حضرت صالحؑ کے ناقے کو شہید کرنےوالے بارہ ہزار قوم ہود کے لوگ مارے گئے تھے۔ حضرت علیؑ انہیں اندر گھر میں لے گئے اور ان کا بچہ قتل ہوگیا۔ حضرت محمدؐ نےا س بچے کا نام محسنؑ رکھا تھا۔ 
ہمارے بہت سے حامی وہاں جمع ہوگئےاور علیؑ کا کوئی حامی نظر نہیں آرہا تھا اور مجھ کو اپنی اکثریت سے تقویت ہورہی تھی۔ ہم نے علیؑ کو گھیر لیا اور ہم اپنے زور سے ان کو گھر سے باہر نکال لائے اور میں نے ان کے سامنے اپنی بیعت کو پیش کیا اور میں اپنی آگاہی اور یقین کے ساتھ یہ بھی بتائے دیتا ہوں اس بات میں کسی رطح کا شک و شبہہ نہیں ہے۔ اگر میں اور روئے زمین پر آباد تمام افراد بشر علیؑ کے خلاف جہاد کرتے تب بھی ہم لوگ علیؑ پر تسلط نہیں پاسکتے تھے۔ میں جانتاہوں کہ علیؑ اپنے کئے گئے عہد کے پابند ہیں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا ہے کہ وہ اپنی حفاظت اور اپنی جان و مال کے لئے تلوار نہیں اٹھائیں گے اور میں ان کے اللہ سے کئے ہوئے عہد کا پورا فائدہ اٹھا رہا تھا۔ ہم علیؑ کو ان کی مرضی کے بر خلاف سقیفہ بنی ساعدہ لے گئے۔ میں اور ابوبکر علیؑ کا مذاق اڑانے کےلئے کھڑے ہوگئے اس وقت علیؑ نے فرمایا: عمر کیا تو یہ چاہتا ہے کہ میں تیری ان برائیوں کو آشکار کردوں کہ جنہیں تو چھپائے ہے۔ 
 میں نے جواب دیا نہیں اے امیر المومنینؑ ۔ میں نے کہا : اے ابو الحسنؑ آپ ابوبکر کی بیعت کرچکے ہو۔ بس اپنی بیعت کا اعلان کردو۔ علیؑ نے اپنا ہاتھ نہیں بڑھایا اور اب میں علیؑ سے بیعت کا مطالبہ نہیںکرسکتا تھا کیونکہ مجھ کو ڈر تھا کہ کہیںعلیؑ یری اس برائی کو آشکار نہ کردیں کہ جس کو وہ پوشیدہ رکھے ہیںا ور ابو بکر بھی یہی چاہتے تھے کہ علیؑ کو اس حال میں نہ دیکھیں۔ 
 علیؑ سقیفہ سے واپس پلٹ رہے تھے اور واپسی پر حضرت رسول خداؐ کے روضۂ اقدس پر آئے اور وہاں بیٹھ گئے۔ 
 ابو بکر نے مجھ سے کہا : وائے ہو تجھ پر اے عمر تونے حضرت فاطمہؑ زہرا پر کیا کیا ستم ڈھائے ہیں۔ خدا قسم یہ خسران اور خسارے کا سبب ہوگا۔ میں نے کہا : ہمارے واسطے یہ بات بڑی ہے کہ جو بھی ہو وہ بیعت کرے اور جس بات کو مسلمان پسند نہ کریں میں اس پر اعتبار نہیںکرتا اور مسلمان اس بات کو پسند نہیں کریں گے کہ علیؑ پر مزید سختیاں کی جائیں۔ 
 ابو بکر نے کہا : پھر یہ تونے کیا کیا؟
میں نے کہا : لگتا ہے کہ وہ تمہارے بیعت کا اظہار کرنے جارہے ہیںا ور حضرت محمدؐ کی قبر پر وہ اعلان کریں گے ۔ وہ قبر رسولؐ پر قبلہ رو بیٹھے تھے اور قبر کی متی پر ہاتھ ٹیکے ہوئے تھے اور ان کے اطراف میں سلمان اور ابوذر و مقداد و عمار حذیفہ بن الیمان حلقہ باندھے ہوئے ہیں ہم ان کے رو بر کھڑے ہوگئے۔ میں نے ابوبکر سے کہا کہ جس طرح علیؑ قبر رسولؐ پر ہاتھ ٹیکے بیٹھےہیں تم بھی اسی طرح بیٹھ جاؤ۔ ابوبکر نے ایسا ہی کیا اور میں نے ابو بکر کا ہاتھ پکڑ کر حضرت علیؑ کے ہاتھ پر رکھ دیا اور اعلان کردیا کہ بیعت ہوگئی۔ حضرت علیؑ نے اپنا دست ید اللٰہی بند کرلیا۔ اس کے بعد میں اور ابو بکر کھڑے ہوگئے اور میں نے کہا ۔ خدا علیؑ کو جزائے خیر دے۔ دیکھو قبر رسولؐ پر پہنچتے ہی تمہارے بیعت سے انکار نہیں کیا۔ اسی وقت ابوذر نے زور سے کہا: 
خدا کی قسم حضرت علیؑ کبھی آزاد کردہ آدمی کی بیعت نہیںکریں گے۔ 
 ہم جس آدمی اور جماعت سے ملاقات کرتے ہیں انہیں بتادیتے کہ علیؑ نے بیعت کرلی ہے اور ابوذر فوراً ہم کو جھوٹا قرار دیتے۔ خدا کی قسم علیؑ نے نہ ابو بکر کی بیعت کی اور نہ ہی میری بیعت کی اور میرے بعد جو بھی خلیفہ ہوگا علیؑ اس کی بھی بیعت نہیں کریں گے اور ان کے بارہ اصحاب نے بھی ہماری بیعت نہیں کی۔ 
اور علیؑ نے جو کچھ تیرے آباؤ اجداد اور خاندان والوں کے حق میں کیا ہے معاویہ تو اچھی طرح جانتا ہے۔ معاویہ تو خود جانتا ہے کہ تیرے والد ابو سفیان اور تیرے بھائی حنظلہ و عتبہ نے محمدؐ کے جھٹلانے میں کیا کچھ نہیں کیا۔ ان کا مکر، مکے میں بھی چھا گیا اور مکے پر ان کا تسلط ہوگیا اور جب وہ مکے سے مدینہ آرہے تھے تو حرا پہاڑ کی چوٹی سے میں نے ان کے قتل کرنے کی تدبیر کی۔ ہم نے گروہ کو جمع کیا اور سب نے ان کے خلاف جنگ کی۔ 
 اور تمہارے باپ ابو سفیان کو اونٹ پر سوار کیا اور کفار قریش کے احزاب و گروہوں کی وہ قیامت کرتے رہے اور محمدؐ کا یہ قول:
 لعن اللہ الراکب والقائد والسایق 
خدا کی لعنت ہو اس راکب و قائد اور سائق پر
اور اے معاویہ وہ راکب تیرا باپ ابوسفیان اور قائد تیرا بھائی عتبہ اور سائق تو خود ہے۔ 
 تیری ماں ہندہ نے کبھی آرام نہیں پایا اور اس نے اپنے غلام وحشی کو اپنا سب کچھ دے دیا اور اس نے حمزہؑ کے ساتھ کیا کیا۔ حمزہ ؑ کو روئے زمین پر اللہ کا شیر کہا جاتا تھا۔ وحشی نے ایک نیزے سے ان کا کام تمام کردیا اور ان کا جگر اور دل ان کے پیکر سے نکا ل کر تیری ماں ہندہ کو پیش کیا۔ ہندہ نے اس جگر کو چبایا مگر اس کو وہ نگل نہیں سکی کیوں کہ محمدؐ نے اپنے جادو سے اس کا منہ باندھ دیا تھا۔ محمدؐ اور ان کے ساتھیوں نے تیری ماں کو ’’ ہندی جگر خوارہ‘‘ کہنا شروع کردیا۔ 
نحن بنات طارق نمشی علی النمارق
کلدرنی المخالق والمسک فی المفارق
ان یقبلوا نعانق او یدبرو انفارق
فراق غیر وامق
ابو سفیان کے لشکر میں عورتوں کا زرد لباس تھا ان کے چہرے سینے اور سر برہنہ تھے اور وہ اپنے سپاہیوں کو محمدؐ کے خلاف مبارزے اور پیکار کےلئے اکسا رہی تھیں اور قتل ہوکر مرجانے پر انہیں رغبت دلارہی تھیں۔ اس بات کو ہرگز مت بھولنا کہ تم اپنی مرضی اور خوشی سے مسلمان نہیں ہوئے ہو۔ فتح مکہ کے روز بادل نا خواستہ تم لوگ مسلمان ہوئے۔ تمہیں زندہ چھوڑ دیا گیا اور تاریخ میںتمہارا نام طلقا ہوگیا۔ 
تیرے باپ نے اپنے دل میں یہ آرزو کی تھی اور خود بخود اس نے کہا : خداکی قسم اے ابو کبشہ کے فرزند میں ایک روز تمہارے خلاف سواروں اور پیادوں کے ساتھ جنگ کروں گا اور اپنے سب دشمنوں کا نابود کردوں گا اور محمدؐ نے اپنے لوگوں کے سامنے اس بات کا اعلان کردیا کہ وہ ابو سفیان کے دل کی بات سے آگاہ ہیں اور انہوں نے تیرے باپ سے کہا : اے ابو سفیان اللہ تیرے شر سے بچانے کےلئے کافی ہے۔ وہ اس روز لوگوں کو یہ دکھا رہے تھے کہ ان سے اور علیؑ سے اور ان کے اہل بیتؑ سے کوئی اونچا اور سر بلند نہیں ہے اور وہ سب سے افضل ہیں۔ 
 ان کا جادوباطل ہوگیا۔ ان کی کوشش کو میں نے بے کار بنا دیا ور ابوبکر کو سب سے بلند کر دکھایا اور ابو بکر کے بعد اسی بلندی پر میں نے اپنے قدم رکھ دیئے۔ اور اب میری آرزو ، تمنا اور خواہش ہے کہ گروہ بنی امیہ کا تمام عالم اسلام پر قبضہ اور تسلط رہے۔ اسی لئے میں نے تجھ کو شام کا والی قرار دیا اور تیری گردن میں اسلامی ملک کا قلادہ ڈٓل دیا ہے اور اس کو تیرے واسطے قرار دیا اور تمہارے بارے میں ، میں نے اس شعر کی بھی پرواہ نہیں کی کہ جس کو محمدؐ نے کہا تھا کہ ان پر یہ وحی نازل ہوئی ہے:
 والشجرۃ الملعونۃ فی القرآن ( اسراء ص ۶)
 قرآن مجید بنی امیہ کو شجرۂ ملعونہ اعلان کرتا ہے ۔ سب مسلمان اس بات کو مانتے ہیں کہ ’’ قرآن میں شجرۂ ملعونہ بنی امیہ‘‘ ہیں۔ اب اس بات سے محمدؐ سے تمہاری دشمنی آشکار ہے۔ تم ہر حال میں شجرۂ ملعونہ رہو گے۔ بنی ہاشم اور بنی عبد الشمس میں دشمنی پرانی ہے اور اب یہ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ 
 میری نصیحت ، وصیت ، حمایت اور پیار و محبت بس تیرے واسطے ہے۔ اے معاویہ اب تو اپنے دل کو تنگ مت کر اور تو اپنی رطف سے زیادہ حلم اور بردباری کی نمائش کرتا رہ۔ میری وصیت پر عمل کرنے میں جلد بازی مت کرنا اور حلم سے کام لینا میں تجھ کو زیادہ سے زیاہد طاقت ور بنادوں گا اور شریعت محمدؐ کا تجھ کو حاکم اور والی بنا کر چھوڑ دوں گا۔ امت محمدؐ تیری خلافت کو دل و جال سے قبول کرے گی۔ اگر تو مسلمانوں کو ڈرادھمکا کر اپنا بنانے کی کوشش کرے گا تو خود ہلاک ہوجائے گا اگر تو اپنی سر بلندی چاہتا ہے تو مسلمانوں کا احترام کرتے رہنا اور اپنی ذات کو تواضع اور انکساری صورت میں ہی ظاہر کرنا۔ 
اور جب تو مسجد محمدؐ میں جائے تو اپنی طرف سے بے حد احترام کرنا اور شریعت محمدؐ پر ظاہر میں پوری طرح عمل کرنا اور تو اپنی رعیت میں اپنی سخاوت اور حلم کی داستانوں کو رواج دینا اس طرح ہر مسلمان کےلئے تیری بخشش عام رہے ۔ حدود کے قائم کرنے میں کسی طر۵ح کی کوتاہی مت کرنا۔ ہاں اپنے مخالفوں کو کمزور بنا دینے میں کسی طرح کا تساہل سستی مت کرنا۔ لوگوں کے سامنے محمدؐ اور ان کی شریعت اور قرآن کی پوری طرح تصدیق کرنا اور فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی مت کرنا۔ سنت محمدیؐ میں تبدیلی مت کرنا۔ اگر تونے سنت محمدیؐ میں تبدیلی کی تو امت ہمارے خالف ہوجائے گی۔ انہیں ان کے ہی ہاتھوں سے قتل کرنا۔ ان سے ان کی پناہ گاہوں کو سلب کردینا، انہیں کی تلوار اور انہیں کا سر ہو۔ اپنی طرف سے ہمیشہ ان پر مہربانی اور کرم کرنا۔ ان کے حق میں کنجوسی مت کرنا۔ انہٰں ان کی قوم کے چودھری کے ذریعے قتل کرنا، ان کے قتل میں تیرا ہاتھ نمایاں نہ ہو۔ تیرا چہرہ ہمیشہ شاد اور بشاش رہے۔ اپنے دربار میں لوگوں کا کھلے دل سے استقبال کرنا، کبھی اپنے غیظ و غضب کو ظاہر مرت ہونے دینا۔ اگر وہ کوئی غلطی کریں تو انہیں معاف کرنا۔ اس طرح وہ تجھ پر واری اور صدقے ہونے لگیں گے اور تیری اطاعت کا دم بھریں گے۔ 
 علیؑ اور ان کے فرزندوں حسنؑ اور حسینؑ کی مخالفت سے کبھی مطمئن ہوکر مت بیٹھ جانا ۔ اگر امت کی تجھ کو حمایت حاصل ہوجائے تو پھر جو تو چاہتا ہے اس کو کر گزرنا اور کبھی چھوٹی باتوں کو اہمیت مت دینا اور بڑے امور سے غافل مت رہنا۔ ہمیشہ میری وصیت کو یاد رکھنا اور میرے عہد و میثاق کو فراموش مت کرنا۔ ان امور کو ہمیشہ پنہاں رکھنا۔ میرے اوامر اور فرامین پر عمل کرتے رہنا اور جن باتوں سے میں نے منع کیا ہے تو بھولے سے بھی ان کے قریب مت پھٹکنا۔ میری اطاعت کے لئے کھڑے ہوجانا اور میری مخالفت سے پرہیز کرنا اور اپنے اسلاف کے راستے ہی پر چلتے رہنا۔ اپنے خونوں کو طلب کرنا اور ان کی روش اور نشانات کو ڈھونڈھ نکال یہ تیرا ہی کام ہے اور میرا فرمان ہے۔ میں نے اپنا باطن اور ظاہر تیرے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے اور یاد رکھنا میرے اس خط کو ہمیشہ راز میں رکھنا اور میرے مرنے کے بعد اپنے کفن میں ساتھ لے جانے کی وصیت کردینا‘‘۔
 میں نے اپنی اولاد کو وصیت کردی ہے کہ وہ ہر حال میں تیرے ساتھ ہی رہیں اور اہل بیتؑ کی دشمنی میں وہ صبح اور شام بسر کریں۔ 
عبد اللہ بن عمر خطاب نئے اپنے باپ کا عہد نامہ پڑھنے کے بعد یزید لعین کے سر نجش کو بسہ دیا اور کہا : الحمد اے امیر الفاسقین ( لعین) تونے ہمارے مذہب کے خارجی اور خارجی کے بیٹے کو قتل کردیا۔ 
خدا کی قسم میرے ابا نے جو کچھ تمہارے ابا میاں کو بتایا ہے وہ مجھ کو نہیں بتایا تھا کاش وہ مجھ کو ان باتوں سے آگاہ  کردیتے۔ انہوں نے مجھ سے یہ تو کہا تھا کہ میں ہر حال میں تیرے باپ معاویہ کے ساتھ رہوں اور میں ہمیشہ اس کے ساتھ رہا ہوں اب میں عہد کرتا ہوں کہ میں اولاد محمدؐ سے میں جس کو بھی دیکھوں گا ہمیشہ ان سے اپنی دشمنی کا اظہار کروں گا اور کبھی کسی سے خوش نہیں ہوں گا۔ یزید پلید نےعبد اللہ بن عمر خطاب کو اپنے انعامات اور اکرامات سے نواز کر مدینے واپس بھیج دیا۔ لوگوں نے عبد اللہ بن عمر سے پوچھا کہ امیر الفاسقین نے تمہیں کیا بتایا؟ تو انہوں نے کہا : ایک حق با بتائی ہے اور اب میری میری آرزو ہے اے کاش میں خود بھی اس معرکے میں ان کے شانہ بہ شانہ ہوتا اور جس نے بھی عبد اللہ بن عمر خطاب سے اس بارے میں کوئی سوال کیا تو وہ یہی جواب دیتے اے کاش میں خود اس معرکے میں میں یزید پلید کے ساتھ ہوتا۔ یزید نے اسی طرح کا ایک عہد نامہ عثمان بن عفان کا بھی عبد اللہ بن عمر کو دکھایا۔ یہ عہد نامہ عمر خطاب کے عہد نامے سے بھی بڑھ کر توہین آمیز تھا۔ ( بحار ، جلد ۸، ص۲۲۹۔۲۳۳۔ طبع کمپانی)
کتابی حوالے
از فعلت فلاتلم صفحہ ۲۵۵، یوم الغدیر و از حوالہ علامہ مجلسی جنوہں نے تاریخ الجامع بلاذری ۱۰۰ھ سے لکھا ہے اور اسی واقعے کو صاحب سللہ تالیفات صابریہ کی دوسری کتاب ’’ثبوت خلافت‘‘ جلد دوئم کے صفحہ ۱۰۲ پر بھی لکھا ہے جو ۱۳۴۴ھ؁ میں ڈاکٹر نور نے شائع کیا اور صاحب انوار انعمانیہ نے بھی اس خفیہ عہد نامہ کو بلاذری کی تاریخ سے نقل کیا ہے اور تنزیہ الانساب حصہ ثانیہ صفحہ ۷۱، ۷۲ پر بھی خط موجود ہے۔ 




3 تبصرے:

  1. یہ خط کیا کسی اہلسنت منابع سے بھی ثابت ہے نیز اسکی اسناد کی آہل تشیع ماہرین علم رجال کے نزدیک کیا سندی حیثیت ہے ؟

    جواب دیںحذف کریں
  2. کیا یہ خط اہلسنت والجماعت کی کتب میں بھی مذکور ہے؟؟

    جواب دیںحذف کریں
  3. اہل سنت کے منابع میں تو نہیں اور مضمون کے دیکھتے ہوئے توقع بھی نییں کی جاسکتی کہ حضرات ایل سنت اسے اپنی کتابوں میں نقل کریں گے علامہ مجلسی نے ہی دلائل الامامۃ کے حوالے سے سے نقل کیا ہے
    نیز اس خط میں موجود باتیں الگ الگ مختلف کتابوں میں موجود ہیں

    جواب دیںحذف کریں