باسمہ تعالیٰ
حضرت عباس علیہ السلام کا علم
سید محمد حسنین باقری
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ عالم علم لدنی اور علم الٰہی کا مظہر صرف اور صرف رسولﷺ و آل رسولؑ ہیں۔ تاریخ بشریت میں اگر کسی نے سلونی کا دعویٰ کیا اور اس دعوے کی لاج رکھی تو صرف یہی افراد تھے۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ اس گھر کے پروردہ اور ان آغوشوں کے پلے ہوئے اگر علم و معرفت کی معراج حاصل کرلیں تو جائے تعجب نہیں۔ اگر کسی آغوش میں پل کر اور حصار عصت میں رہ کر کوئی خاتون عالمۂ غیر معلمہ ہو تو اسی گھرانے میں انہیں آغوشوں کے پروردہ جسے ہم تمنائے علیؑ کہتے ہیں اگر وہ علم و فقاہت کی معراج پرپہنچ جائے تو تعجب کا مقام نہیں بلکہ بر عکس اگر اس مقام تک نہ پہنچے تو تعجب ہونا چاہئے۔ حضرت عباسؑ نے جس آغوش میں آنکھ کھولی ، جن گودیوں میںپروان چڑھے وہ ایک طرف حضرت علیؑ جیسا باپ تو دوسری طرف امام حسنؑ و امام حسینؑ جیسے بھائی تھے پھر تیسری طرف عالمۂ غیر معلمہ جناب زینبؑ جیسی بہن تھیں، اس کے علاوہ ام البنین جیسی ماں جن کا عالمہ اور شاعرہ ہونا کتابوں میں مذکور ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ حضرت عباسؑ خود عالم ربانی اور علم لدنی کے حامل تھے۔ اس لئے کہ ’’حضرت عباسؑمیں ایک طرف تو فطری ذہانت و ذکاوت تھی تو دوسری طرح امیر المومنینؑ نے آپ کی استعداد کو اس قدر جلا بخشی کہ جناب عباس ؑ عصمت کبریٰ حضرت فاطمہ زہرا ؐ کی آرزوؤں کا مرکز بن گئے۔ حضرت علیؑنے اپنے بعض اصحاب کی بھی اس طرح پرورش فرمائی تھی کہ ان کے ظرف میں ہستی کے اسرار اور موت و قیامت کے حالات قبل از وقت معلوم کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی تھی مثلاً حبیب ، میثم ، رشید وکمیل؛ کیا ایسی صورت میں ممکن ہے کہ اپنے لخت جگر کو ایسے علوم و اسرار سے باخبر نہ کیا ہو جب کہ حضرت عباسؑمیں اور وں کی بنسبت زیادہ صلاحیت و استعداد تھی۔
کردار علیؑشاہد ہے حضرتؑ نے ہر شخص کو اس کی صلاحیت و استعداد کے بقدر اپنے علم سے بہرہ مند فرمایا۔’’ لہٰذا جب علیؑجیسا فیض رساں علم لٹا رہا ہو اور عباسؑجیسی جامع صفات و صاحب استعداد ذات علم لے رہی ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عباسؑکائنات میں بعد از معصومؑایمان و ایقان میں سب سے اعلیٰ و ارفع مرتبہ پر فائز ہیں۔
حضرت عباسؑنے امیر المومنینؑ کے بعد معلمان الٰہی حضرات حسنینؑسے کسب فیض کیا اور ایک لحظہ کےلئے تاریخ نہیں کہتی کہ حضرت عباسؑفرزند ان زہراؑکی عصمتی و علمی بزم سے دور رہے ہوں، ان دو اماموں کے بحر بیکراں میں غواصی فرمائی اور خوب دل کھول کر معارف الٰہیہ کے درِ بے بہا حاصل کئے مزید اس ماحول کو عالمہ غیر معلمہ زینب کبریؑ نے بام عروج تک پہنچادیا تھا۔
ماحول کی پاکیزگی اور ذاتی فضائل و مناقب ، اخلاص ، طاعت و عبادت کی پابندگی جیسے افعال نے ابو الفضل العباس علیہ السلام میں علم و معرفت کے دریچے وَا کردیئے تھے۔
پیغمبر اکرمﷺ سے مروی ہے:اگر کوئی شخص چالیس روز تک خدا کےلئے کام انجام دیتا رہے تو اس کے قلب و زبان سے حکمت کے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں۔ (۱)
اس حدیث کی روشنی میںاس شخص کےلئے کیا کہا جاسکتا ہے جس نے اپنی پوری عمر خدا کی خوشنودی و رضا کے لئے بسر کی ہو جو ہر برائی سے مبرا اور ہر نیک صفت سے آراستہ رہا ہو۔ اس طرح کے لوگوں پر خدا کے نور کی چھوٹ پڑتی رہتی ہے اور ان کا علم فقط اکتسابی نہیںہوتا بلکہ وہبی ہوا کرتا ہے۔
حضرت عباسؑ کے سلسلے میں یہ روایت بھی نقل ہوئی ہے جس سے آپ کے علم وہبی کی گواہی ملتی ہے :’’ اِنّہ زُقّ العلم زَقّاً ‘‘جناب عباسؑ کو اس طرح علم سکھایا گیا جس طرح پرندہ اپنے بچے کو دانا بھراتا ہے۔ (۲)
اس تشبیہ میں کچھ باتوں کی طرف اشارہ ہے : ایک تو یہ کہ طائر اپنے بچے کو اتنا دانا بھراتا ہے کہ وہ سیر ہوجائے مزید طلب نہ رہے۔ لہٰذا جناب عباسؑ کو اتنا علم دیا گیا کہ اب انہیں کہیں اور سے علم لینے کی ضرورت نہ رہی۔ دوسری بات یہ کہ طائر اپنے بچے کو اس کی ابتدائی عمر میں رزق فراہم کرتا ہے اسی طرح جناب عباسؑ کو بچپنے ہی میں رزق علم اپنے بزرگوں سے مل چکا تھا۔ اور پھر تیسری بات یہ کہ طائر پرندہ کو وہی بھراتا ہے جو لیکر آتا ہے۔ جناب عباسؑ کو امیر المومنینؑ اور حضرات حسنین ؑ نے وہ علم سکھایا جو خدا کے یہاں سے لیکر آئے تھے۔ چوتھا اشارہ یہ کہ بچے میں دانا ہضم کرنے کی صلاحیت تو ہوتی ہے لیکن دانا فراہم کرنے کی توانائی نہیںہوتی اس تعبیر سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ حضرت عباسؑمیں بچپنے ہی سے علم حاصل کرنے کی صلاحیت و قابلیت موجود تھی۔
صاحب کنزالمصائب کے بیان کے مطابق : ’’ان العباسؑ اخذ علما جماً فی اوائل عمرہ عن ابیہ و امہ و اخواتہ‘‘ یعنی حضرت عباسؑ نے صغر سنی میں ہی اپنے والد والدہ اور بھائی بہنوں سے بہت زیادہ علم حاصل کرلیا تھا ۔(۳)
اسی طرح علامہ محمد باقر بیر جندی نے تحریر فرمایا ہے کہ : جناب عباس ؑ خاندان عصمت و طہارت کے عظیم المرتبت علماء و فقہا و افاضل میں اکابر میں تھے بلکہ غیر متعلم تھے۔یعنی آپ وہ عالم تھے جن کو غیر از معصوم کسی نے تعلیم نہیں دیا تھا ۔ (۴)
حضرت علیؑ اور امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی تربیت اور ان حضرات کی آغوش علم و عمل و ایمان نے جناب عباسؑ کو علم کے ساتھ ساتھ ایسی معرفت بھی عطا کی کہ آپ کو توحید کا بلند ترین منارہ قرار دیا ۔ عصمتی تربیت گاہ کی وجہ سے حضرت عباسؑ اسرار لاہوت سے باخبر تھے اور انوار ملکوت کا مظہر بنے ہوئے تھے۔
آپ کی کمسنی کا واقعہ ہے کہ ایک دن امیر المومنین ؑ کے زانوپر بیٹھے تھے تو دوسری طرف جناب زینبؑ تشریف فرما تھیں۔ امیر المومنینؑ نے جناب عباسؑ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا : بیٹا کہو ایک (واحد) جناب عباسؑ نے ـجواب میں کہا: ایک (واحد) امام ؑ نے پھر فرمایا: کہو دو (اثنان) جناب عباسؑ نے جواب دیا : کہ بابا جان جس زبان سے میں نے ایک کہا ہے اس سے دو کہتے ہوئے شرم آرہی ہے۔( یعنی جس زبان سے خدا کی وحدانیت کا اقرار کرلیا اس سے دو کا لفظ استعمال نہیں کرسکتا۔) ۔۔۔ (۵)
حضرت عباسؑ کے اس جواب سے ظاہر ہے کہ ان کے اندر بچپنے ہی سے نور الٰہی ضو فگن تھا ورنہ اس سن و سال کے بچے اس سے کم سطح کی باتوں کو بھی محسوس نہیں کرپاتے لہٰذا ماننا پڑے گا کہ حضرت عباسؑ پر امیر المومنینؑ حضرات حسنین ؑ کے نورانی وعصمتی کردار کے اثرات تھے تو دوسری طرف خدا نے اپنے خاص عطیہ سے بھی نوازا تھا۔
جناب عباسؑ کے علم و معرفت کی گواہ یہ حدیث بھی ہے جس میں امام جعفر صادق ؑ اپنے چچا کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں : کان عمنا العباسؑ نافذ البصیرۃ ،صلب الایمان ، جاہد مع ابی عبد اللہ و ابلا بلاءً حسناً و مضیٰ شہیداً یعنی ہمارے چچا عباس ؑ کمال بصیرت اور مستحکم ایمان والے تھے۔ آپ نے امام حسینؑ کے ساتھ جہاد کیا اور بلا و مصیبت میں گرفتار ہوکر جام شہادت نوش فرمایا۔ (۶)
ابتک کی گفتگو کو سامنے رکھتے ہوئے آسانی سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ جناب عباس علم معصومؑ کا مظہر تھے۔ آپ کو معصومینؑ کی جانب سے علم عطا ہوا تھا، آ پ علم وہبی کے حامل اور عالم ربانی و عالم علم لدنی تھے اور آپ کی عظمت و کردار اور مقام و مرتبہ نتیجہ تھا صحیح علم اور مکمل معرفت کا ۔ غازی ابوالفضل العباسؑ کا علوم اہل بیتؑ سے آراستہ ہونا اور علمی کمال حاصل کرنا ایک ایسی فضیلت ہے جو عام طور پر بیان نہیں ہوپاتی۔ یقینایہ ایک ایسی صفت تھی جو اہل بیتؑ کے بعد جناب عباس کو عطا ہوئی لہذا اگر ہم غازی عباسؑ کے نام لیوا ہیں ، ان سے عقیدت و محبت رکھتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم بھی علمی میدانوں میں کمال حاصل کریں کم از کم یہ سوچ کرعلم حاصل کریں کہ یہ اہل بیتؑ کی میراث اور غازی عباسؑ کی سیرت ہے۔ یقیناً علم کے ساتھ جو معرفت حاصل ہوتی ہے وہ بغیر علم کے کبھی حاصل نہیں ہوسکتی اگر ابو الفضل العباس نے وہ عظیم کارنامہ انجام دیا جس کی نظیر دنیا پیش نہیں کرسکتی ، امام معصوم کی اطاعت میں اس طرح سر تسلیم خم کیا کہ اطاعت اولی الامر کی تفسیر بن گئےتو وہ نتیجہ تھا علم و معرفت کا۔ لہذا ہم بھی اگر جناب عباس کو اپنا مقتدا مانتے ہیں ، ان کی سیرت پر چلنے کے دعوے دار ہیں، دنیامیں غازی عباس کی طرح عزت کی زندگی جینا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی علم کو اہمیت دیکر اسے حاصل کرنا ہوگا اور علمی میدانوں میں ترقی کرکے اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کو دوبارہ واپس لینا ہوگا۔ آج اگر ہم نے علمی میدانوں میں ترقی کی، خوب علم حاصل کیا، علمی کارنامے انجام دیے تو گویا ہل بیتؑ کی میراث کی حفاظت کی اور اپنی ملکیت کو اپنے پاس رکھا جس سے یقیناً اہل بیتؑ اور غازی عباس کی خوشنودی کا سامان فراہم کیا۔
لہذا آئیے آج ہی عہد کریں کہ اہل بیتؑ کی میراث کی اور ان کی ملکیت یعنی علم جس کے وارث صرف اور صرف ہم ہیں اسے جس طرح حاصل کرنا چاہیے حاصل کریں گے اور اس کی حفاظت کا فریضہ انجام دیں گے۔
۱۔بحار الانوار،ج۷۰،ص۲۴۲؛کنزالعمال،۳،ص۵۲۷۱۔۲۔حقائق العباسیہ محمد ابراہم کلباسی صفحہ ۲۹۷ ، چہرہ درخشاں جلد ایک صفحہ ۸، فرسان الہیجا جلد ۱ صفحہ ۱۹۲۔۳۔معالی السبطین جلد۱ صفحہ ۴۳۱۔۴۔کبریت احمر جلد۳ صفحہ ۳۵ بنقل از صحیفہ وفا،ص۱۶۲۔۵۔ مستدرک الوسائل نوری جلد۱۵ صفحہ ۲۱۵، حدیث ۱۸۰۴۰ابواب احکام اولاد باب ۷۹ بنقل از کبریت احمر صفحہ ۷۳۳۔۶۔ عمدۃ الطالب صفحہ ۲۳۹ از کبریت احمر صفحہ ۷۳۵۔���
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں