پیر، 4 جون، 2018

حدیث سلسلۃ الذہب۔۔۔۔۔ایک جائزہ


حدیث سلسلۃالذہب   ۔۔۔۔  ایک جائزہ

مولانا سید محمد جابر جوراسی       
ایڈیٹر۔ماہنامہ اصلاح       
امام ثامن حضرت علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام سے مروی حدیث قدسی المعروف بہ ’’ حدیث سلسلۃ الذہب ‘‘ کو ذخیرۂ احادیث میں ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے اس حدیث مقدس کے بیان کا ایک شاندار پس منظر بھی ہے۔ 
حاکم وقت مامون رشید عباسی نے جب امام علی رضاؑ کو مدینہ سے خراسان طلب کیا تو اس سفر کے لئے کوفہ اور قم کے سیدھے راستے کو اختیار نہیں کیا گیا کہ کہیں خدشات کے پیش نظر عقیدت مند مزاحم نہ ہوں امامؑ نے اپنے متعلقین کو مدینہ ہی میںچھوڑا اور رجب المرجب ۲۰۰ ہجری کو مامون کے کارندوں کے ساتھ آپ عازم سفر ہوئے اس سفر کے لئے بصرہ اور اہواز کا غیر معروف راستہ اختیار کیا گیا لیکن اس راستہ میں بھی نیشا پور ایسا مشہور شہر پڑتا تھا، مورخین کے بموجب آپؑ کی سواری نیشا پور کے قریب پہنچی تو شہر کے علماء وفضلاء اور عام مسلمان استقبال امامؑ کے لئے بیرون شہر حاضر ہوئے جب امامؑ کا مرکب شہر کے چوک میں پہنچا تو کثرت اژدہام سے شانہ سے شانہ چھل رہا تھا، امام کو نقرئی عماری پر سوار کیا گیا تھا جس کے چاروں طرف پردے لگے ہوئے تھے اس وقت امام المحدثین حافظ ابو ذرعہ رازی ؓ اور محمد ابن اسلم ؓ طوسی کی سربراہی میں اہل علم و حدیث کی ایک جماعت خدمت میں حاضر ہوئی اور امامؑ سے عرض کی : 
اے سید السادات ، اے امام الائمہ، اے مرکز طہارت آپ کو رسول اکرمؐ کا واسطہ اپنے اجداد کے صدقہ میں ہمیں اپنے دیدار کا موقع فراہم کیجئے، اور اپنے جد امجد کی کوئی حدیث بیان فرمائیے، امامؑ نے عماری کے پردے اٹھادئے جانے کا حکم دیا۔ آپ کی زیارت کے اشتیاق میں مجمع کا عجب حال تھا، سواری کی مہار محمد ابن رافع احمد ابن حارث ، یحیٰ ابن یحییٰ اور اسحاق ابن راہویہ تھامے ہوئے تھے۔ لوگ عماری اور سواری کا بوسہ دے رہے تھے۔ کچھ رو رہے تھے ، کچھ زمین پر تڑپ رہے تھے علماء نے عقیدت مندوں سے خاموش رہنے کی اپیل کی شورو غل تھما تو امامؑ نے ان الفاظ میں حدیث کا آغاز فرمایا۔ 
’’حدثنی ابی موسیٰ الکاظم عن ابیہ جعفر الصادق عن ابیہ محمد الباقر عن ابیہ زین العابدین عن ابیہ الحسین الشہید بکربلا عن ابیہ علی المرتضیٰ  قال حدثنی حبیبی و قرۃ عینی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال حدثنی جبریل علیہ السلام قال حدثنی رب العزت سبحانہ و تعالیٰ قال، لاالٰہ الااللہ حصنی فمن قالھا دخل حصنی ومن دخل حصنی امن من عذابی‘‘
(ترجمہ )مجھ سے میرے پدربزرگوار امام موسیٰ کاظمؑ نے بیان فرمایا ان سے امام جعفر صادقؑ نے ان سے امام محمد باقرؑ نے ان سے امام زین العابدین ؑ نے ان سے امام حسینؑ نے ان سے علی مرتضیٰ ؑ نے ان سے رسول کریم محمد مصطفیٰ ؐ نے ان سے جبرئیل امین ؑ نے ان سے خدا وند کریم نے ارشاد فرمایا کہ کلمہ لا الہ الا اللہ میرا قلعہ ہے جو اس کلمہ کو زبان پر جاری کرے گا وہ میرے قلعہ میں داخل ہوگا اور جو میرے قلعہ میں داخل ہوگاوہ میرے عذاب سے محفوظ ہوجائے گا۔ 
امامؑ نے اتنا فرمانے کے بعد عماری کے پردے کھنچوادیئے اور چند قدم آگے بڑھ گئے پھر ٹھہرے اور پردے الٹوا کر فرمایا ’’بشرطھا و شروطھاوانا من شروطھا ۔ کلمہ لا الہ الا اللہ کہنے کا فائدہ ایک شرط اور چند شروط کے ساتھ حاصل ہوگا۔(۱)
اس حدیث کو قلم بند کرنے میں ۲۴ ہزار قلمدان استعمال کئے گئے ۔(۲)
امام احمد بن حنبل کا قول ہے کہ ’’ یہ حدیث جن اسناد و اسماء کے ساتھ بیان کی گئی ہے اگر انہیں پڑھ کر مجنون پر دم کیا جائے تو ’’ لافاقہ من جنونہ ‘‘ ضرور اس کا جنون رخصت ہوجائے گا اور وہ اچھا ہوجائے گا۔ (۳)
ابو القاسم تضیری کا بیان ہے کہ ساسانہ کے رہنے والے بعض روساء نے جب اس سلسلہ حدیث کو سنا تو اسے سونے کے پانی سے لکھوا کر اپنے پاس رکھ لیا  اور وصیت کی کہ اسے میرے کفن میں رکھ دیا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ، ایسے ہی ایک شخص نے خواب میں باخبر کیا کہ خداوند عالم نے ان اسماء کی برکت سے مجھے بخش دیا ہے۔ (۴) فرقہ امامیہ اسی لئے کفن میں شہادت نامہ کے اندر اسمائے معصومین لکھتا ہے اور تلقین میں ان اسمائے مقدس کی یاد دہانی ہوتی ہے۔ 
اس حدیث کے اسناد میں کوئی ایک شخصیت بھی غیر معصوم نہیں اس لئے اس حدیث مبارکہ کو ’’سلسلۃ الذہب‘‘ ’’سونے کی کڑیاں ‘‘کے نام سے پہچانا جاتاہے۔ اب اس حدیث اور بیان حدیث کے موقع کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ باتیں سامنے آتی ہیں:
(۱)امام علی رضا علیہ السلام کو ولی عہد مقرر کرنے کے لئے مامون نے طلب کیا تھا، نیشا پور میں اتنا بڑا مجمع اس لئے بھی تھا کہ امام علی رضاؑ آئندہ کے حکمراں تھے، آپؑ سے حدیث سننے کی فرمائش اس لئے تھی کہ آپ خانوادہ ٔ رسالت کی معروف جلیل القدر علمی شخصیت تھے۔ ان دونوں باتوں کو اگر ملایا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ الٰہی منصب داروں کے پاس دنیا وی حکومت بھی ہونی چاہئے تاکہ پیغام دین کو موثر انداز میں عام کیا جائے اور احکام شریعت کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔ اس منزل میں ولایت فقیہ کی ضرورت  بھی واضح ہوتی ہے۔ 
(۲)حکمرانی کااثر ضرور پڑتا ہے، لیکن شخصیت کے دلوں میں اتر جانے کا سبب اعلیٰ کردار ہوتا ہے، اہل نیشا پور کا اژدہام اگر تصور حکومت کی وجہ سے تھا تو لوگوں میں والہانہ پن امامؑ اور ان کے خانوادہ کے اعلیٰ کردار کی وجہ سے تھا اور یہی وہ خصوصیت ہے جس کے سبب دنیا زدہ افراد ان خاصاں خدا سے حسد کرتے ہیںاور انجام کار ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے پر تل جاتے ہیں، امام علی رضا علیہ السلام اوران جیسوں کی شہادت کا بنیادی راز یہی ہے ، مامون رشید آپ کے فضل و شرف اور آپ کی عوامی مقبولیت کو برداشت نہ کرسکا۔ 
(۳)امام علی رضاؑ نے حدیث قدسی کے آخری فقرہ’’ امن من عذابی ‘‘تک ایک مقام پر بیان فرمایا اوراس میں ’’بشرطہا و شروطہا‘‘ کا اضافہ چند قدم آگے بڑھ کر کیا۔ در اصل ’’کلام الامام امام الکلام ‘‘ (امام کا کلام کلام کا امام ہوتا ہے) ایک ناقابل ردحقیقت ہے کلام امام کی لطافت کو دیکھتے ہوئے ، ہر ایک کیلئے یہ امتیاز کرنا مشکل تھا کہ حدیث قدسی کہاں پر ختم ہوئی اور کلام امامؑ کا کہاں سے آغاز ہوا۔ جبکہ امامؑ نے جو وضاحت فرمائی وہ صحت عقیدہ کے لئے ضروری بھی تھی لہٰذا امامؑ نے چند قدم کا فاصلہ د ے کر یہ واضح کردیا کہ جو پہلے ارشاد ہوا تھا وہ حدیث قدسی تھی اور جو بعد میں کہا گیا وہ امامؑ کا کلام تھا تاکہ یہ جو ہزاروں لکھنے والے حدیث کو لکھ رہے ہیں انہیں اشتباہ نہ ہونے پائے۔ 
(۴) بشرطھا (ایک شرط کے ساتھ) بشروطھا (چند شرطوں کے ساتھ) بظاہر ایک اسرا ر ہے اس لئے بشروطھا جمع ہے اس میں سب شرطیں آگئیں تو پہلے ’’ بشرطھا‘‘ ارشاد فرمانے کا مقصد کیا ہے ؟۔در اصل ، شرط و شروط میں ایک واضح فرق ہے، شرط سے مراد نبوت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا اور بشروطھا سے مراد ائمہ اثنا عشرہ علیھم السلام کی امامت پر اعتقاد ہے۔ امامؑ نے یہ ارشاد فرماکر کہ ’’وانامن شروطھا‘‘ ( ہم بھی ان شرطوں میں سے ایک شرط ہیں ) بات کوا واضح فرمادیا ۔ یا یہ کہا جائے کہ آپ ؑ نے ہمارے اس عقیدہ پر مہر تصدیق ثبت فرمادی کہ ’لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ علی ولی اللہ واولادہ المعصومین حجج اللہ ‘ (سوائے اللہ کے کوئی خدا نہیں ہے، محمد اللہ کے رسول ؐ ہیں، علی اللہ کے ولی ہیں اور ان کی معصوم اولاد اللہ کی حجت ہے)۔ خود امام رضا علیہ السلام کی منزلت امام موسیٰ کاظم ؑ نے یہ ارشاد فرما کر اپنے دوسرے فرزندوں پر واضح فرمادی کہ ھٰذا اخوکم علی ابن موسیٰ عالم آل محمد فسئلوہ عن ادیانکم واحفظوا ما یقول لکم ۔(۵) یہ تمہارا بھائی علی ابن موسیٰ عالم آل محمد ہے لہٰذا تم اس سے اپنے دین کے بارے میں سوال کرو اور یہ جو تمہیں بتائے اسے یاد رکھو۔ 
(۵)حدیث کے اسناد میں جو اسمائے مقدس ہیں وہ ایسے ذی اثر ہیںکہ امام احمد بن حنبل کا قول ہے کہ اگر ان اسماء کو دیوانہ پر دم کردیا جائے تو وہ ہوشمند ہوجائے،یہ اقرار بشمولیت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وا ٓلہ وسلم تمام معصومینؑ کے ذہن و عقل کے کمال کا اعتراف ہے لہٰذا اگر ہمارے قابل صد احترام نبیؑ کیلئے تاریخ میں کہیں لفظ ’ہذیان‘ کا استعمال ہوا ہو تو یہ ایک بہت بڑی جسارت ہی ہوگی۔ حدیث کے اسناد میں جو اسمائے گرامی ہیں ان کے پیش نظر اس حدیث کو’ سلسلۃ الذہب ‘ کا نام دیا جانا، در اصل عظمت معصومینؑ کا روشن و واضح اعتراف ہے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
(منابع)(۱) مسند امام علی رضا علیہ السلام صفحہ۷ طبع مصر ۱۳۴۱ھ؁۔(۲) تفصیلات کے لئے دیکھئے کتاب ’’تاریخ نیشا پور‘‘۔(۳) صواعق محرقہ علامہ ابن حجرمکی صفحہ ۱۲۲۔(۴)تصدیق کیلئے علامہ شبلنجی کی کتاب نور االابصار ملاحظہ ہو۔(۵)اعلام الوریٰ باعلام الہدیٰ طبرسیؒ طبع سوم صفحہ ۳۲۸۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں