پیر، 4 جون، 2018

امام سجاد علیہ السلام کی حکیمانہ زندگی

باسمہ تعالیٰ

امام سجاد علیہ السلام کی حکیمانہ زندگی

سید محمد حسنین باقری، لکھنؤ 
موبائل نمبر: 9598956660
حضرت علی ابن الحسین امام سجّاد علیہ السلام کی بابرکت و پاکیزہ زندگی دیگر معصومین علیہم السلام کی طرح حکمت سے معمور تھی، آج امام کی چودہ سوسالہ ولادت باسعادت کے انتہائی پُرمسرت موقع پر ضرورت ہے کہ آپؑ کی حکیمانہ زندگی پر ایک نظر ڈالی جائے تاکہ اس کی روشنی میں اپنی دینی و دنیوی زندگی کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی حقّ و حقیقت کو پہچاننے کا موقع فراہم کیا جاسکے۔ 
امام زین العابدین علیہ السلام، پیغمبر اکرم ﷺ کے چوتھے جانشین برحق یعنی امیر المومنین، امام حسن و امام حسین علیہم السلام کے بعد ہمارے چوتھے امام ہیں۔آپ اپنے آباؤ اجداد کی طرح امامِ منصوص، معصوم، اعلم زمانہ اور افضل کائنات تھے۔
آپؑ کی ولادت بروز جمعہ ۱۵؍جمادی الاولیٰ ۳۸ ہجری(۱) کو علی الظاہر کوفہ(۲) میں ہوئی۔یہ زمانہ امیرالمومنینؑ کی ظاہری خلافت کا دور تھا اور اس درمیان امام حسین علیہ السلام بھی کوفہ میں تھے۔ گرچہ بعض مورخین نے جائے ولادت ’مدینہ‘(۳) لکھا ہے۔تاریخ ولادت میں دوسری تاریخیں بھی نقل ہوئی ہیںجنمیں ۵ شعبان المعظم(۴) ایران و عراق وغیرہ میں رائج ہے۔
آپ کا اسم گرامی اپنے دادا امیرالمومنین علیہ السلام کے نام نامی پر ’’علی‘‘ تھا۔ اُس دور میں جب کہ حقّ علیؑ ضائع ہورہا تھا ، امام علی ؑ پر سبّ و شتم ہورہا تھا، حضرت علیؑ کی مخالفت عام ہوچکی تھی اور نام علی ہی کو چھپانے کی کوششیں ہورہی تھیں ،امام حسین علیہ السلام نے اپنے تینوں بیٹوں کا نام ’علی‘ ہی رکھا۔اور امام علیؑ کے دفاع میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والی اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ زہرا علیہاالسلام کے نام پر اپنی تمام بیٹیوں کا نام ’فاطمہ‘ رکھا۔گویا نام علی و نام فاطمہ کے ذریعہ بھی دفاع حق کیا اور باطل کی سازشوں کو ناکام کیا ۔اور چاہنے والوں کے لئے ایک عملی پیغام بھی دیا کہ اولاد کے نام میں نیا پن ڈھونڈھنے کے بجائے اثرات و مقصد کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیئے اور اثرات کے اعتبار سے سب سے اچھے نام ائمہ معصومینؑ کےنام ہیں لہذا انھیں ہی ترجیح دینا چاہئے۔
 آپؑ نے دو قوموں کی ممتاز شرافتوں کو اپنی ذات جمع کیا تھاباپ کی طرف سے تو روئے زمین کے سب سے عظیم گھرانے سے تعلق رکھتے ہی تھے، ماں کی طرف سے بھی عجم کے ایک عظیم گھرانہ کی فرد قرار پائے؛ اسی وجہ سے آپؑ کا ایک لقب ہے ’’ابن الخیرتین‘‘ (یعنی دو بہترین خاندانوں کی اولاد)۔
امام سجاد علیہ السلام کی والدہ گرامی جناب ’شہر بانو‘ تھیں جن کے مختلف نام تاریخ نے لکھے ہیں جو قول مشہور کے مطابق عجم کے مشہور صاحب شرف و فضیلت خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور امیرالمومنینؑ کی ظاہری خلافت کے دور میں مدینہ آئیں۔جب حضرت علی ؑ نے ایران کی بغاوت کو فرو کرنے کے لئے حریث بن جابر کو بھیجا اور اس نے وہاں سے مال غنیمت کے ساتھ دو شہزادیوں کو بھیجا جن میں سے جناب شہر بانو کا عقد امام حسینؑ کے ساتھ اور کیہان بانو کا عقد محمد بن ابی بکر کے ساتھ ہوا(۵)۔ جناب شہر بانو کا انتقال امام سجادؑ کی ولادت کے بعد دس دن کے اندر ہی ہوگیا تھا(۶)۔
چوتھے امام کی ایک شادی اپنی چچا زاد بہن یعنی امام حسن علیہ السلام کی بیٹی فاطمہ سے ہوئی جن سے امام محمد باقر علیہ السلام پیدا ہوئے (گویا امام باقر ؑ وہ امام ہیں جن کے دادا بھی امام تھے اور نانا بھی)۔مورخین نے دیگر چھ ازواج کا تذکرہ بھی کیا ہے جن سے کل اولاد کی تعداد پندرہ بیان کی ہے۔ (۷)
حضرت علی ابن الحسین علیہ السلام اپنے صفات و کمالات کی وجہ سے متعدد القاب سے مشہور ہوئے مثلاً: زین العابدین، سیدالساجدین، ذوالثفنات، عابد، ساجد، سجّاد، ذکی و امین وغیرہ۔ اور کنیت ابومحمد، ابولحسن و ابوالحسین وغیرہ ہیں۔
’’زین العابدین‘‘ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے آپ کو یہ لقب عطا فرمایا تھا اور یہ خبر دے گئے تھے’’ اذا کان یوم القیامۃ يُنادِي مُنادٍ  أينَ زَينُ العابِدينَ؟ فَكَأنّي أنظُرُ إلي وَلَدِی عَلِيِّ بنِ الحُسَينِ‏ عليه السلام يَخطُرُ بَينَ الصُّفُوفِ‘ (۸)کہ روز قیامت جب ’این زین العابدین‘ (کہاں ہیں عبادت گزاروں کی زینت) پکارا جائے گا تو میرا فرزند علی بن الحسین لبیک کہتا ہوا بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوگا۔اور اس کی مزید تائید اس واقعہ سے بھی ہوگئی کہ آپ نماز تہجد میں مصروف تھے کہ شیطان نے بہ شکل اژدھا آکر آپ کو اذیت دینا شروع کیا اور پیروں کے انگوٹھے کو چبانے لگا لیکن جب آپ نے کوئی توجہ نہ کی تو شکست کھاکر چلا گیا اور ایک آواز غیبی آئی: ’’انت زین العابدین‘‘ ۔’ظاہر ہے کہ اس آواز کا کوئی تعلق اس اژدھا یا ابلیس سے نہیں ہے بلکہ یہ ایک ندائے قدرت ہے جو اِس فتح مبین کے موقع پر بلند ہوئی تھی جس طرح کہ اس سے پہلے علیؑ کی میدانی فتح پر لا فتیٰ الا علی کی آواز فضائے عرش سے گونج رہی تھی‘۔(۹)اس واقعہ کی روشنی میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اللہ کے معصوم و برگزیدہ نبی جناب موسیٰ علیہ السلام کے لئے جب دربار فرعون میں عصا اژدھا بنا تھا تو اس وقت کے لئے قرآن نے کہا : قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ ۖ سَنُعِيدُهَا سِيرَتَهَا الْأُولَىٰ   (۱۰)،(حکم ہوا کہ اسے لے لو اور ڈرو نہیں کہ ہم عنقریب اسے اس کی پرانی اصل کی طرف پلٹا دیں گے)’’وَأَلْقِ عَصَاكَ ۚ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ يَا مُوسَىٰ لَا تَخَفْ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ۔(۱۱)،(اب تم اپنے عصا کو زمین پر ڈال دو اس کے بعد موسیٰ نے جب دیکھا تو کیا دیکھا کہ وہ سانپ کی طرح لہرا رہا ہے موسیٰ الٹے پاؤں پلٹ پڑے اور مڑ کر بھی نہ دیکھا آواز آئی کہ موسیٰ ڈرو نہیں میری بارگاہ میں مرسلین نہیں ڈرا کرتے ہیں)۔ 
جناب موسیٰؑ جیسے عظیم و برگزیدہ نبی کے لئے قرآن کے یہ الفاظ ہیں گویا اعلان ہورہا کہ ہم ان آیات میں غور کرتے ہوئے اللہ کی طرف سے عطا کردہ عظمت اہل بیتؑ و عظمت امام سجادؑ کو پہچانیں کہ خدا نے انھیں فخر انبیاء و مرسلین بنایا ہے۔اگر یہ فخر موسیؑ و فخر انبیاء نہ ہوتے تو یہاں علی بن الحسینؑ نماز میں ضرور متاثر ہوتے اور وہاں علی بن ابی طالبؑ گہوارے میں ڈر گئے ہوتے۔ لیکن جو فخر موسیٰ ؑ و فخر انبیاءؑ تھے کسی بھی مرحلہ پر شیطان سے متاثر نہیں ہوئے جبکہ شیطان خود اعتراف کرچکا تھا کہ قَالَ رَبِّ ۔۔۔ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ۔إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ﴿(۱۲)(شیطان نے کہا کہ پروردگار ۔۔۔ میں ان بندوں۔۔۔ میں سب کو اکٹھا گمراہ کروں گا۔علاوہ تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے خالص بنا لیا ہے)۔قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ  إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ (۱۳)(شیطان نے کہا تو پھر تیری عزّت کی قسم میں سب کو گمراہ کروں گا۔ علاوہ تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے خالص بنالیا ہے)یعنی پہلے ہی دن اس نے خالص بندوں یعنی محمد و آل محمدؑ کے سلسلے میں اعتراف کرلیا تھا کہ انہیں ہرگز نہیں بہکا سکتا پھر بھی اس نے کوشش کی لیکن اس کوشش کے نتیجہ میں عظمت اہل بیتؑ لوگوں کے سامنے مزید نکھر کر سامنے آئی اور دنیا کو پیغام فکر دیا کہ اسی واقعہ سے سہی ان کی حقانیت و عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی پیروی کو اپنے اوپر لازم قرار دے لے۔اور اپنوں کو پیغام دیا کہ عبادت میں شیطانی وسوسوں سے بچتے رہیں اور اس عمل میں شیطان کو مایوس کرتے ہوئے عبادت کو پوری توجہ اور انہماک سے انجام دیں اس لئے کہ شیطان کا کام عبادت سے دور کرنا اور عبادت میں خلل ڈالنا و مختلف بہانوں سے عبادت کو بے اہمیت بتاکر اس میں رکاوٹ کھڑی کرنا ہے یا عبادت میں اپنی مرضی و خوشی شامل کرواکر عبادت کو عبادت خدا ہونے سے خارج کروانا ہے۔ امام سجادؑ کا حقیقی ماننے والا اس واقعہ سے درس لیتے ہوئے کبھی بھی عبادت میں کمی نہ آنے دیگا، عبادت الٰہی کے سلسلے میں کسی طرح کے شک و وسوسے کا شکار نہ ہوگا ، اس میں کسی طرح کی غفلت و کوتاہی نہ کرے گا، اپنی عبادت کو شیطان کی شرکت سے محفوظ رکھتے ہوئے اس کو صرف اور صرف رضائے معبود و خوشنودیٔ پروردگار کے لئے انجام دے گا ۔ 
اسی لقب ’’زین العابدین‘‘ یا ’’سید الساجدین‘‘ و ’’سید العابدین‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کی آیت وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ(۱۴)۔ (اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے)، کو سامنے رکھیں جس میں جنّ و انس کی غرض خلقت ،عبادت کو بیان کیا گیا ہے یعنی جناتوں و انسانوں کو اس لئے پیدا کیاگیا کہ وہ ’عابد‘ بنیں اور امام سجادؑ تمام عابدوں کے لئے زینت ہیں!۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جس کی عبادت کائنات میں شہرۂ آفاق تھی، جسے ’زین العابدین‘ کے لقب سے یاد کیا گیا جب ان کی عبادت کی شدت و کثرت پر تعجب کیا گیا تو فرمایا کہ ذرا وہ صحیفہ تو لے آؤ جس میں میرے جد امیرالمومنینؑ کی عبادتوں کا تذکرہ ہے اور پھر اس صحیفہ کو سامنے رکھ کر فرمایا کہ ’’من یبلغ ذلک‘‘ (اس منزل عبادت کو کون پاسکتا ہے؟!) اور کیوں نہ ہو، اگر آپ کی عبادت نے آپ کو ’زین العابدین‘ بنا دیا تو امیرالمومنینؑ کی ’ایک ضربت ثقلین کی عبادت پر بھاری‘ تھی۔(۱۵)۔
اس حکمت سے معمور زندگی کا ایک پہلو آپؑ کی عظیم الشان کتاب ’’صحیفہ کاملہ‘‘ ہے جو ایسے دور میں امامؑ نے لکھی اور اپنے فرزندوں امام محمد باقرؑ و جناب زید کو لکھوائی کہ حکومت کی طرف سے لکھنے پر پابندی لگی ہوئی تھی گویا آل محمدؐ کی جانب سے تعلیم و کتابت کی اہمیت کو بھی بتایا اور پابندی کے اسباب کی جانب بھی متوجہ کیا۔ اس کتاب کی عظمت کا ایک پہلو اس کے مختلف نام ہیں یعنی اس کتاب کو ’صحیفہ سجادیہ‘ ، ’اخت القرآن‘ ، ’زبور آل محمد‘ اور ’انجیل اہل بیتؑ‘ بھی کہا جاتا ہے گویا اس میں قرآن کی جھلک بھی ہے اور زبور و انجیل کا پرتو بھی۔ اور یہ بھی اعلان کہ اس کتاب کو لکھنے والے اور اس دعا کو انشاء کرنے والے امام سجادؑ عالم قرآن بھی اور عالم زبور و انجیل بھی۔گرچہ موجودہ صحیفہ میں ۵۴ دعائیں ہیں لیکن جیسا کہ اس کتاب کے مقدمہ میں موجود ہے کہ امام نے ۷۵ دعائیں لکھوائیں تھیں(۱۶)۔یہ دعائیں امام کی حکیمانہ زندگی کی عکاس بھی ہیں اور معرفت و حکمت کا دریا ہونے کے ساتھ ساتھ راہنما و درس زندگی بھی ہیں۔
امام سجاد علیہ السلام نے اپنی حکیمانہ زندگی میں اس انداز سے عبادت کی ہے کہ ’زین العابدین‘ بنے ۔ اس عبادت میں صرف نماز و روزہ ہی نہیں ہے بلکہ امام کا ہر عمل ہے جسے امام انجام دے رہے تھے۔ انھیں اعمال میں ایک عمل عزاداریٔ سیدالشہداؑ بھی تھی۔ان ہنگامی حالات اور انتہائی پُر آشوب دور میں آپ نے گریہ و بکا ، تاثرات غم اور مسلسل اشکباری کا سہارا لیا جو حکمت سے معمور اور بالکل فطری حیثیت رکھتا تھا، اور جس سے روکنا بھی کسی کے بس میں نہیں تھا۔ امام سجادؑ نے واقعہ کربلا کے بعد اپنی پوری عمر عزاداریٔ سیدالشہداؑ کو انتہائی اہتمام و توجہ کے ساتھ انجام دے کر اعلان کیا یہ بھی ایک عظیم عبادت ہے اور عظیم عبادت ہی نہیں بلکہ حقّ و انسانیت کے لئے قربانی دینے والوں کے مقصد کو زندہ رکھتے ہوئے انسانیت کے دشمنوں کو بے نقاب کرنے کا بھی ذریعہ ہے۔لہذا ضروری ہے کہ ہم بھی امام کی اس سیرت سے درس لیتے ہوئے عزاداری کو اہمیت دیں، اس کا اہتمام کریں، اس میں کوئی کوتاہی نہ کریں، اس سے غافل نہ ہوں اور اسے عبادت سمجھیں اور عبادت سمجھ کر انجام دیں نہ رسم سمجھیں اور نہ رسم سمجھ کر انجام دیں اور اس کے ذریعہ دنیا کو وہ پیغام بھی دیں جو امام سجادؑ دینا چاہتے تھے۔
دوسری طرف نمازوں اور سجدوں کے ساتھ امام نے عزاداری کو انجام دیکر یہ پیغام بھی دیا کہ حقیقی عزادار وہی ہے جو سجدوں و نماز و عبادات کو بھی اہمیت دیتا ہو اور حقیقی عابد وہی ہے جو عزاداری سیدالشہداؑ کو اسی اہتمام سے بجا لاتا ہو۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، دونوں کی بجاآوری ضروری ہے اور اسمیں تقابل و ٹکراؤ بھی صحیح نہیں ہے۔ یہ سوچنا ہی شائد غلط ہو کہ کیا انجام دینا ضروری ہے اور کیا غیر ضروری۔ جب امام سجاد علیہ السلام نے دونوں کو انتہائی اہتمام سے انجام دیا تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ دونوں کو انجام دیں ، دونوں میں کوئی کمی نہ آنے دیں، نماز و دیگر عبادات بجا لاکر واقعی عزادار بنیں اور عزاداری کرکے واقعی عابد بنیں۔
 امام سجاد ؑ کی حکیمانہ زندگی کا جب آغاز ہوا تو اس وقت امیرالمومنین علیہ السلام موجود تھے، ظاہری خلافت کا دور تھادو سال کے تھے جب مسجد کوفہ میں امام علیؑ کو شہید کیا گیا۔جس کے بعد امام حسن و امام حسین علیہما السلام مدینہ واپس آگئے، تقریبا دس سال بعد یعنی ۵۱ ھ میںحاکم شام کے ذریعہ امام حسن علیہ السلام کو زہر دیا گیا۔پھر والد کی امامت کا دور شروع ہواجس کا اختتام کربلا کے دردناک واقعہ پر ہوا جس موقع پر خود امام سجادؑ شریک تھے ، سارے مصائب و آلام کی منزلوں کو طے کیا گرچہ عاشور کے دن مصلحت الٰہی کے تحت آپ بیمار ہوئے (چونکہ امام حسین علیہ السلام کے بعد امام زین العابدینؑ کی امامت خداوند عالم کی جانب سے طے تھی جس کی خبر پیغمبر اکرم ﷺ بھی دے چکے تھے اس لئے اس دن بظاہر یہ مصلحت الٰہی قرار پائی کہ امام بیمار ہوں تاکہ آپ سے حکم جہاد ساقط ہو ورنہ امام وقت امام حسین ؑ کی نصرت اور آپ پر جان دینا ضروری قرار پاتا)۔ میدان کربلا کے انتہائی عظیم و جانکاہ مصائب و آلام سے گزر کر اس سے سخت منزل بے مقنع و چادر مخدرات عصمت و طہارت کے ساتھ بازار کوفہ ، بازار شام اور دربار شام سے گزرے ۔ لیکن ان حالات میں بھی اپنی حکیمانہ روش کے ذریعہ پرچم توحید کو بلند رکھا اور دین الٰہی کی حفاظت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیا۔گویا اعلان کیا کہ عظمت پروردگار کو ہمارے ذریعہ پہچانو تب ہی معرفت ممکن ہے اور اگر ہمارے واقعی چاہنے والے ہو تو ہماری زندگی کو نگاہوں کے سامنے رکھتے ہوئے عظمت و توحید پروردگار کا ہر لمحہ خیال رکھو اور کسی بھی حالت میں عبادت الٰہی میں کمی نہ آنے دو۔
واقعہ کربلا کے بعد یزید کے ذریعہ مدینۃالنبوی کی تاراجی بھی اپنی آنکھوں سے دیکھی ’’جب ۶۲ ہجری میں اہل مدینہ نے یزید کے ہاتھوں خاندان نبوت کے قتل عام اور کسی حد تک اس کی ملحدانہ حرکتوں سے آگاہ ہونے کے بعد یزید کی معطلی کا اعلان کردیا اور عبداللہ بن حنظلہ کو اپنا سردار بناکر یزید کے گورنر عثمان بن محمد بن ابی سفیان کو مدینہ سے نکال دیا۔ یزید نے مسلم بن عقبہ کو جو خونریزی کی کثرت کے سبب ’’مسرف‘‘ کے نام سے مشہور ہے، فوج کثیر دیکر اہلِ مدینہ کی سرکوبی کو روانہ کیا۔ اہل مدینہ نے باب الطیبہ کے قریب مقام ’’حَرّہ‘‘ پر شامیوں کا مقابلہ کیا۔ گھمسان کا رَن پڑا، مسلمانوں کی تعداد شامیوں سے بہت کم تھی باوجودیکہ انھوں نے دادِ مردانگی دی، مگر آخر شکست کھائی۔ مدینہ کے چیدہ چیدہ بہادر رسول اللہؐ کے بڑے بڑے صحابی انصار و مہاجرین اس ہنگامۂ آفت میں شہید ہوئے، شامی شہر میں گُھس گئے۔ مزارات کو اُن کی زینت و آرائش کی خاطر مسمار کردیا، ہزاروںعورتوں سے بدکاری کی، شہر کو لوٹ لیا، تین دن قتل عام کرایا، دس ہزار سے زائد باشندگان مدینہ جن میں سات سو مہاجر و انصار اور اتنے ہی حاملان و حافظان قرآن و علماء و صلحاء و محدث تھے۔ اس واقعہ میں مقتول ہوئے ہزاروں لڑکے لڑکیاں غلام بنائی گئیںاور باقی لوگوں سے بشرط قبول غلامی یزید کی بیعت لی گئی، مسجد نبوی اور آنحضرتؐ کے حرمِ محترم میں گھوڑے بندھوائے گئے۔ یہاں تک کہ لِید کے انبار لگ گئے۔ یہ واقعہ جو تاریخ اسلام میں ’’واقعہ حَرّہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اور ۲۷؍ذی الحجہ ۶۳ھ کو ہوا تھا۔(یزید ابن معاویہ، مسلم ابن عقبہ اور خوارج جیسوں کا دور حاضر میں نمونہ داعش، القاعدہ،سپاہ صحابہ، طالبان اور بوکو حرام جیسے افراد و تنظیموں کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے )
امام زین العابدین علیہ السلام کی حکیمانہ روش کے وجہ سے اس رسوائی سے آپؑ کا گھرانہ محفوظ رہا ، یزید امام سجاد ؑ سے متعرض نہیں ہوا، آپؑ مدینہ سے باہر ’’ینبع‘‘ نامی جگہ جہاں کھیتی باڑی کا کام ہوتا تھا، چلے گئے۔یہ وہی جگہ ہے جہاں حضرت علی علیہ السلام خلیفہ سوم کے دور میں قیام پذیر تھے۔‘‘(۱۷)جس موقع پر مروان جیسے بدترین دشمن نے بھی آپ سے پناہ کی درخواست کی کہ مدینہ مخالف ہوگیا ہے اور میں اپنے بچوں کے لئے خطرہ محسوس کرتا ہوں تو آپ نے فرمایا کہ میرے گاؤں بھیج دو میں ان کی حفاظت کا ذمہ دار ہوں اور اس طرح اس شخص کے گھرانے کو پناہ دی جس نے سب سے پہلے قتل امام حسین علیہ السلام کا اشارہ دیا تھا۔آپؑ کا مروان کو پناہ دینا بتا رہا تھا کہ آپ انھیں علی بن ابی طالبؑ کی روایات کے حامل ہیں جنھوں نے اپنے قاتل کو بھی جام شیر پلانے کی سفارش کی تھی اور حضرت امام حسینؑ کے جنھوں نے دشمنوں کی فوج کو پانی پلوایا ،وہی کردار آج امام زین العابدینؑ کے قالب میں نگاہوں کے سامنے ہے (۱۸) اور ایک طرف پوری دنیا اور حقوق انسانی کے کھوکھلے دعوے کرنے والوں کو پیغام دے رہا ہے کہ آؤ دشمن کے ساتھ انسانی ہمدردی کا نمونہ دیکھو اور اس شکل میں انسانیت کے نمونۂ کامل تک پہنچو۔اور پھر امام کا یہ طریقہ اپنے چاہنے والوں کو بھی دعوت دے رہا کہ امام کے اس کردار کی روشنی میں دین و مذہب و اسلام کے لئے قربانی کا نمونہ بھی دیکھو اور اس کی روشنی میں اپنے لئے راستہ طے کرو۔ 
حکیمانہ زندگی کا ایک بہترین نمونہ واقعہ کربلا کے بعد اسیری کے عالم میں تبلیغ دین اور حق کی حفاظت اور باطل کو بے نقاب کرنا تھا۔آپ موقع ملنے پر کبھی آنسؤں کے ذریعہ تو کبھی مصائب کربلا بیان کرکے تو کبھی خطبات کے ذریعہ تبلیغ حق کرتے ہوئے باطل کے چہرے کو بھی بے نقاب کرتے رہے۔ آپ نے خطبات کے ذریعہ کوفہ و شام اور دربار یزید میں جانشین بلافصل امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے حق ہونے اور آپ کے فضائل و مناقب کو علی الاعلان بیان فرمایا، اپنے خاندان کی فضیلت و حقانیت کو ثابت کیا۔ انھیں خطبات میں آپ نے کربلا کی جنگ اور اس کے اہداف و مقاصد کو پیش کیا۔ ایک طرف اپنے گھرانے کی مظلومیت و شہادت و مصائب کو پیش کیا تو دوسری طرف(شام میں بیٹھے ہوئے) غاصب حاکم اسلامی کے چہرے پر پڑی ہوئی نقاب کو اتار کر رہتی دنیا تک کے لئے یزید کو قاتل فرزند نبیؐ کے طور پر پہچنوا دیا۔ گرچہ اس سے قبل پیغمبرؐ کے بعد سے ۶۱ھ کے درمیان خاندان نبوت کے اصلی قاتلوں کو پہچاننا آسان نہ تھا لیکن یہ کارنامہ امام زین العابدین علیہ السلام کا ہے کہ آپؑ نے شام میں بیٹھے ہوئے یزید کو اصلی قاتلِ نواسۂ رسولؐ کے طور پر پہچنوا دیا حتی یہی نہیں بلکہ لوگوں کے ذہنوں کو اس سے پہلے کے مجرموں کی طرف بھی متوجہ کردیا تاکہ راہ حق مکمل طور پر آشکار ہوجائے اور لوگ حقیقی اسلام تک پہنچنے کے لئے کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی کا یہ واقعہ یقینا عبرت انگیز بھی ہے اور دعوت فکر دینے والا بھی کہ امام سفر کی حالت میں اپنی نسبت کو ظاہر نہیں فرماتے تھے سوال ہوا: ما بالکُ اذا سافرتَ کتمتَ نسبکَ اھل الرفقۃ؟ آپ اپنے ہمراہیوں کے سامنے کیوں اپنی نسبت اور خاندان کو ظاہر نہیں فرماتے؟ کہ رسولؐ کے نواسے ہیں اور علیؑ و حسین ؑ کے بیٹے؟ آپ جواب دیتے ہیں: أکرہُ أن آخُذَ برسول اللہ ما لا أعطی مثلہ (۱۹)۔ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ رسولؐ سے نسبت ظاہر کرنے کے بعد اپنے کو ویسا ہی ظاہر نہ کروں۔یہ جواب یقیناً اپنے چاہنے والوں کے لئے پیغام تھا کہ جب اپنے کو خاندان عصمت و طہارت سے منسوب کرو، اپنے کو علیؑ کا ماننے والا کہو، اپنے کو غلام اہل بیتؑ و کنیز سیدہؑ کہو تو اس نسبت کی لاج بھی رکھو، ویسا ہی کردار و عمل بھی پیش کروجس سے معلوم ہو کہ تمہارا تعلق ہم سے ہے اور ہمارے چاہنے والے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ زبان سے تو اپنے کو شیعۂ علیؑ کہو، زبان سے علوی و جعفری و حسینی کہو، زبان سے تو کنیز سیدہؑ و کنیز زینبؑ کہو لیکن عمل و کردار اس کی گواہی نہ دے رہا ہو۔  
امام سجادؑ نے جہاں غریبوں و محتاجوں کی کفالت انجام دی، ان کی دستگیری کی، ان کو سہارا دیا، راتوں میں ان کے گھروں میں اناج اور ضروریات زندگی خود پہنچائی۔ جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ میرے بابا رات کی تاریکی میں پشت پر روٹیاں اٹھا کر فقرا کو پہنچاتے تھے اور فرماتے  تھے: تاریکیٔ شب میں صدقہ، خداوند عالم کے آتش غضب کو خاموش کرتا ہے(۲۰) حتی نقل ہے کہ سو گھرانوں کی کفالت کرتے۔(۲۱)
دوسری طرف غلاموں و کنیزوں کی تربیت و پرورش کے ذریعہ کی اس دور میں ان کو آزاد زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کئے چونکہ امامؑ کا ایک طریقہ یہ تھا کہ ہر سال غلام خریدتے تھے ایک سال تک ان کی تربیت کرتے پھر ماہ رمضان کے بعد عید کے دن انھیں آزاد کردیتے تھے۔ گویا اس طرح ایک طرف ان کی تربیت بھی کر رہے تھے، ان کو ایک علم و ادب سے آشنا بھی کر رہے تھے تو دوسری طرف انھیں آزاد کرکے آزادی کی زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرہے تھے۔ گویا اس طرح امام نے اسلام اور مذہب اہل بیتؑ میں انسانی ہمدردی کا ایک بہترین نمونہ بھی پیش کیا اور دوسروں بالخصوص زیردستوں و نوکروں و غلاموں کے ساتھ پیش آنے کا طریقہ بھی بتایا۔
حالانکہ امام سجادؑ کا دور زندگی انتہائی پر آشوب اور سخت و کٹھن دور تھا لیکن اس دور میں امام نے اپنی الٰہی حکمت عملی سے ایک طرف اپنے چاہنے والوں کی حفاظت کی، ان تک پیغام حق پہنچانے کے لئے مختلف راستے اختیار کئے تو دوسری طرف دشمنوں اور مخالفین کے ساتھ بھی آپ کا طریقہ ایسا تھا کہ ان کو مزید دشمنی و مخالفت کا موقع نہ مل سکا اسی طرح بہت سے ایسے افراد جو معاویہ کے غلط پروپگنڈہ اور سازشوں کے نتیجے میں امیرالمومنینؑ و خاندان نبوت کے سلسلے میں غلط فہمی کا شکار تھے ان کے ساتھ امام کا برتاؤ ایسا تھا کہ ان کو اپنی غلط فہمی اور معاویہ کی سازشوں کا احساس ہوجاتا اور ان میں سے بہت سے افراد امام کے گرویدہ ہوجاتے تھے۔ 
امام سجاد علیہ السلام کی ۵۷ سالہ حکیمانہ زندگی کا بظاہر خاتمہ حاکم وقت ولید بن مروان کے ہاتھوں زہر (۲۲)کے ذریعہ شہادت کی شکل میں ۲۵ محرم ۹۵ھ (۲۳) کو مدینہ منورہ میں ہوا۔ البتہ تاریخ شہادت میں بعض نے ۱۲ محرم ۹۴ھ(۲۴) بھی لکھا ہے ۔آپ جنت البقیع میں اپنے چچا امام حسنؑ کے پہلو میں دفن ہوئے۔لیکن آپ کی حکیمانہ زندگی کے نقوش آج چودہ سو سالہ ولادت باسعادت کے موقع پر ہمیں دعوت دے رہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ امام سے آشنا ہوں، زیادہ سے زیادہ آپ کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اپنی زندگی کو آپؑ کے کردار کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔اس دعا کے ساتھ کہ خدا وند عالم ہم سب کو جلد از جلد وہ دن نصیب فرمائے جب ہم منتقم خون حسینؑ ، وارث امام سجادؑ حضرت امام عصر عج کے دیدار کا شرف حاصل کریں اور آپ کے اعوان و انصار میں شمار ہوں۔ 
حواشی:
۱۔بحرالانساب،ص۵۲۔ مسارالشیعہ، ص۳۱ و مصباح المتہجد،ص۷۳۳۔
۲۔شذرات الذھب،ج۱،ص۱۰۴۔
۳۔ارشاد شیخ مفیدؒ۔ فصول المہمہ، ص۱۸۷۔
۴۔مطالب السوول،ج۲،ص۴۱۔فصول المہمہ، ابن صبّاغ مالکی،ص۲۱۲۔ کشف الغمہ،ج۲،۔ص۷۴۔
۵۔نقوش عصمت۔
۶۔اثبات الوصیۃ مسعودی،ص۱۴۳۔
۷۔ ارشاد شیخ مفیدؒ۔
۸۔علل الشرائع۔
۹۔نقوش عصمت۔
۱۰۔سورہ طٰہٰ ۲۱۔
۱۱۔سورہ نمل ،آیت ۱۰۔
۱۲۔سورہ حجر، آیت۳۹ و ۴۰۔
۱۳۔سورہ ص، آیت ۸۲ و ۸۳۔
۱۴۔سورہ ذاریات، آیت۵۶۔
۱۵۔نقوش عصمت۔
۱۶۔ صحیفہ کاملہ۔
۱۷۔چودہ ستارے۔
۱۸۔معراج انسانیت۔
۱۹۔ نثر الدر، ج۱ ،ص۳۴۱۔ بنقل از حیات فکری و سیاسی امامان، ص۲۶۴۔
۲۰۔ مختصر تاریخ دمشق، ج۱۷،ص۲۳۸۔
۲۱۔ حلیۃالاولیاء،ج۳،ص۱۳۶۔ کشف الغمہ، ج۲،ص۷۷ و ۸۷۔ مختصر تاریخ دمشق ،ج۱۷، ص۲۳۸۔
۲۲۔ الاتحاف بحب الاشراف ،شبراوی، ص۱۴۳۔
۲۳۔اصول کافی،ج۲،ص۴۹۱۔ ارشاد شیخ مفیدؒ۔
۲۴۔توضیح المقاصد ،ص۳۔
منابع: 
(۱) قرآن کریم
(۲) صحیفہ سجادیہ
(۳) الارشاد، شیخ مفیدؒ۔
(۴)معراج انسانیت، سیدالعلماءؒ۔
(۵) حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، علامہ رسول جعفریان
(۶)تحلیلی از زندگانی امام سجاد علیہ السلام، باقر شریف قرشی
(۷)  نقوش عصمت، علامہ ذیشان حیدر جوادیؒ
(۸)چودہ ستارے، علامہ نجم الحسن کرارویؒ
(۹)۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں