عالم با عمل
آیةاللہ العظمی محمد تقی بہجت قدس سرہ ١٣٣٤ھ کے اواخر میں ایران کے صوبۂ گیلان میں واقع شہر فومن میں ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے.١٦ سال کی عمر ہی میں سایۂ مادری سے محروم ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی ۔١٣٤٨ھ میں عراق کا سفر کیا .٤سال کربلائے معلی میں سیدالشہداـکے جوار میں رہ کر کسب علم کیا پھر باب مدینة العلم کی چوکھٹ پر تعلیم و تربیت کے لیے نجف اشرف کا رخ کیا اور وہاں پر وقت کے بزرگ مراجع سے کسب فیض کر کے ١٣٦٣ھ میں ایران واپس آئے۔
آپ دور حاضر کے برجستہ مراجع تقلید میں شمار کیے جاتے اور اخلاق و عرفان کے عظیم معلم ہونے کے ساتھ ساتھ بے پناہ معنوی فیوض و برکات کا سرچشمہ اور سیرت اہل بیت کا ایک نمونہ تھے ۔
آپ نے اپنی ٩٦ سالہ بابرکت عمر میں دنیا کے سامنے زہد و تقویٰ ،علم و عمل اور خوف و خشیت الٰہی کا وہ نمونہ پیش کیا کہ خاص و عام کی توجہ کا مرکز اور ہر دلعزیز شخصیت رہے۔ آپ نے کثرت سے شاگردوں کی تربیت کی اور تقوی و خوف الٰہی کا وہ نمونہ پیش کیا کہ مرجع خاص و عام قرار پائے جس کی دلیل آپ کی تشیع جنازہ ہے جو قم کی تاریخ میں بے نظیر ہے ۔
اس مرد مومن اور عالم باعمل نے یکشنبہ ،٢٣جمادی الاول ١٤٣٠ھ کو حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے ولیعصر ہاسپٹل قم میں انتقال کیا.سہ شنبہ ٢٥جمادی الاول کو لاکھوں کے مجمع میں تشیع جنازہ ہوئی ،آیةاللہ جوادی آملی نے نماز جنازہ پڑھائی ،حرم معصومۂ قم میں دفن کیے گئے۔
قارئین کے استفادہ کے لیے اس فقیہ اہل بیت کی زندگی کے چند پہلو اور کچھ فرمودات پیش ہیں تاکہ اس مرد مومن کی زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے ہم بھی اس طرح زندگی گزارنے کی کوشش کریں دعا کے ساتھ کہ ہمیں بھی علم و عرفان اور تقوائے الٰہی کی دولت عطا ہو اور ہم بھی عالم باعمل بنیں۔
اول وقت نماز کی اہمیت:آیةاللہ بہجت نے آقائے قاضی مرحوم کی زبانی نقل کیا کہ وہ فرمایا کرتے تھے:''اگر کوئی شخص اول وقت نماز کا پابند ہو اور مقامات عالیہ تک نہ پہنچے تو مجھے لعنت کرے''اول وقت میں ایک خاص راز ہے ''حافظوا علی الصلوات''یعنی نماز کی بجاآوری میں کوشا رہیے،اس جملہ میں خود ایک نکتہ ہے جو ''اقیموا الصلوة''نماز پڑھیے ،کے علاوہ ہے۔اور اگر نمازی خیال رکھتا ہو اور پابند ہوکہ نماز کو اول وقت پڑھے تو یہ خود بہت زیادہ آثار رکھتا ہے اگرچہ حضور قلب بھی نہ رکھتا ہو۔
تفکر ایک سال کی عبادت سے بہتر!:آیةاللہ بہجت نے فرمایا:نجف کے ایک بزگ عالم نے سحر کے وقت نماز شب کے لیے اپنے بیٹے کو پکارا اور کہا:اٹھو اور چند رکعت نماز شب پڑھ لو.لڑکے نے جواب دیا:اچھا،وہ عالم نماز میں مشغول ہوگئے کچھ دیر کے بعد پھر دیکھا تو دیکھا کہ بیٹا نہیں اٹھا ہے.دوبارہ پکارا کہ اٹھو اور چند رکعت نماز پڑھ لو،لڑکے نے پھر جوابدیا کہ:اچھا.وہ عالم دوبارہ نماز میں مشغول ہوگئے لیکن دیلھا کہ بیٹا بستر سے نہیں اٹھ رہا ہے.تیسری مرتبہ پھر پکارا ،تو بیٹے نے جواب دیا کہ :بابا جان میں تفکر کررہا ہوں ، جس کے بارے میں امام صادق ـ نے فرمایا ہے کہ:تفکر ساعة خیر من عبادة سنة''
وہ عالم سخت ناراض ہوئے اور کہا...(آقای بہجت نے وہ کلمات زبان پر جاری نہیں کیے لیکن ان کے شاگرد کے بقول کہ ہم لوگ سمجھ گئے کہ اس عالم نے کہا :)اے بدبخت!وہ تفکر ایک سال یا ساٹھ سال سے بہتر ہے جو انسان کو نماز شب پڑھنے کے لیے وادار کرے ،نہ یہ کہ نماز شب کے وقت انسان بستر پر پڑا رہے اور تفکر کرے اور اس بہانے نماز نہ پڑھے!؟۔
عمل صالح کی اہمیت:ایک دن آقا نے عمل صالح کی جزا کے سلسلے میں فرمایا:ایک دن نجف میں ایک عالم نے راستہ میں ایک فقیر کو ایک درہم صدقہ دیا.رات میں خواب میں دیکھا کہ ان کو آراستہ باغ میں ایک عالیشان محل میں دعوت دی گئی ہے۔انھوں نے پوچھا کہ یہ باغ اور محل کس کا ہے؟ جواب ملا کہ تمہارا ہے.انتہائی تعجب سے پوچھا کہ میں تو ایسا کوئی عمل انجام نہیں دیا کہ اس عظیم نعمت کا مستحق قرار پاؤں. کہا گیا:تعجب ہورہا ہے؟ کہا:ہاں!جواب ملا کہ تعجب نہ کرو، یہ تمہارے اس ایک درہم کی جزا ہے جسے تم نے خلوص نیت کے ساتھ فقیر کو دیا تھا!۔
فرمودات
محبت اہل بیت سے ہر گز دست بردار نہ ہوں اس لئے کہ اسی محبت میں تمام چیزیں ہیں ،اگر ہمارے پاس کوئی چیز ہے تو اسی محبت کی وجہ سے ہے۔
خدہی ا جانتا ہے کہ اہل بیت رسالت کی رحمت کتنی وسیع ہے!ان کی رحمت ،خداوند عالم کی رحمت واسعہ کے تابع ہے۔
ائمہ اطہار خوف جہنم بھی رکھتے تھے اور شوق جنت بھی لیکن عبادت کو خوف و شوق میں نہیں انجام دیتے تھے۔
اگر امام کی معرفت آگے بڑھے گی تو خدا کی معرفت میں بھی اضافہ ہوگا اس لئے کہ امام ـ سے بڑھ کر کون سی آیت ہے.امام ایسا آئینہ ہے جو پوری دنیا کی حقیقت کو دکھاتا ہے۔
ائمہ ہم سے غافل نہیں ہیں گرچہ ہم ان سے غافل ہوجائیں۔
جو مصیبت بھی ہم پر آتی ہے وہ اہل بیت اور ان سے مروی احادیث سے دوری کی وجہ سے ہوتی ہے۔
نجات اس شخص کے لئے ہے جو اہل بیت کو ہر جگہ اپنا مخاطب اور حاضر و ناظر سمجھے۔
ائمہ کے نقش قدم پر چلیے نہ کہ دوسروں کے ،ہمیشہ علمائے دین سے رابطہ رکھیے ۔
جوانوں کو چاہیے کہ اپنے عقائد و اعمال کو مستحکم کریں اس لئے کہ ایسی صورت میں دنیا کی کوئی بھی بری ثقافت (یا کوئی بھی نقصان پہنچانے والی چیز )اثر نہیں کرے گی اور ان کو چاہیے کہ خدا پر توکل کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کریں اور عمل کریں۔
یہ بات واضح ہے کہ اگر انسان عقیدہ و عمل دونوں اعتبار سے گناہ اور معصیت کو ترک کرے یعنی تمام گناہوں کو چھوڑنے کا دل سے قصد کرے اور ا س پر عقیدہ بھی رکھے اور عملی طور سے تمام گناہوں کو ترک بھی کرے اور کسی گناہ کا مرتکب نہ ہو تو وہ دوسروں سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔دوسرے اس کے محتاج ہوتے ہیں لیکن وہ کسی کا محتاج نہیںہوتا۔اور اسکے ساتھ ہی ساتھ گناہوںسے بچنا ،حسنات ونیکیوں کے وجود میں آنے کاسبب بنتا ہے اور برائیاںوسیئات اس سے دور ہوتی ہیںیعنی اس کو توفیق حاصل ہوتی ہے کہ اچھائیوں کو انجام دے اور برائیوں سے بچے(وَماخلقتُ الجنّ والانس الالیعبدون)ہم نے جن وانس کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔بندگی و عبادت یہ ہے کہ عقیدہ عمل کے اعتبارسے بھی گناہوںکوترک کرے۔
بعض افرادیہ خیال کرتے ہیںکہ ہم ترک معصیت کی منزل سے گزرچکے ہیںہم سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا جبکہ اس بات سے غافل ہیںکہ گناہ صرف چندکبائرسے مخصوص نہیںہے یعنی ایسانہیںہے کہ صرف گناہانِ کبیرہ ہی گناہ ومعصیت ہوںاوران سے بچنے سے ترک معصیت انجام پارہاہے؛.ایسانہیںبلکہ گناہان صغیرہ پراصراربھی گناہ کبیرہ ہے.کوئی چھوٹایامعمولی گناہ ہے اگرہم اس کومستقل انجام دیںاوراس کی تکرارکریںتووہ بھی گناہ کبیرہ ہوجائے گا مثلااپنے نوکرکوڈرانے کے لئے اس کی طرف غضبناک نگاہوںسے دیکھنا بھی اذیت اورحرام ہے اسی طرح گنہ گارکی طرف مسکراکردیکھنابھی اس کی تشویق اورمعصیت میں مدد ہے لہذا اس طرح کے بظاہرچھوٹے اورمعمولی کام بھی معصیت اورگناہ ہیں۔
علماء وصلحاء سے دوری بھی انسان کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے.جب انسان ایسے افرادسے دوررہتاہے توبسااوقات اس کاایمان ودین بھی بہت جلداس سے رخصت ہوجاتاہے۔
خداکرے ہم صرف زبانی دعوے کرنے والے نہ ہوں،ہمارے پاس فقط لقلقۂ زبانی نہ ہوبلکہ عملی میدان میںہم آگے ہوں،جوکچھ کہیںاس پرعمل پیرا بھی ہوںاورعمل بھی بغیرعلم کے نہ کریںبلکہ علم کے ساتھ کریںاورعلم کے ساتھ ثابت قدم رہیں،جتنی باتیںجانتے ہیںاس پرعمل کریں اورجس کے بارے میںنہیںجانتے اسمیںسکوت اختیار کریںاوراحتیاط سے کام لیںتاکہ یقین حاصل کرلیںکہ قطعًا یہ راستہ پشیمانی والانہیںہے.دوسروںکے اعمال پرنظرنہ رہے بلکہ شریعت کودیکھیںکہ وہ ہم سے کیاچاہتی ہے،کن چیزوںکاہمیں حکم دے رہی ہے اورکن چیزوںسے ہمیں روک رہی ہے؛اسی کے مطابق عمل کریں۔
احکام الہی کی انجام دہی ،خاصکرنمازمیںخضوع وخشوع پیداکرنے کے لئے نمازکے شروع میںامام زمانہ سے واقعی توسل کریںتاکہ عمل کو مکمل طورپرانجام دے سکیں۔
غصے کے علاج کے لئے پورے اعتقادکے ساتھ زیادہ سے زیادہ صلوةپڑھیں(اللھم صلِّ علی محمدوآل محمد)
اہلبیتـ؛خصوصًاامام زمانہ کی محبت اپنے دل میں پیداکرنے کے لئے اللہ کی معرفت حاصل کریںپھراس کی اطاعت کریںاوراس کی محبت اپنے دل میںپیداکریں،اس لئے کہ خداسے محبت کرنامحمدوآل محمدۖ کی محبت کاسبب بنتا ہے۔
حقیرکی نظرمیںسب سے بہترذکر،ذکرعملی ہے؛عقیدہ وعمل میںمعصیت کوترک کرنا۔
قرب الہی حاصل کرنے کے لئے اپنااستاداپنے علم کوبنایئے؛جتنی باتیںجانتے ہیںسب پرعمل کیجئے،اپنی معلومات کوپیروںتلے نہ روندیے۔
اگرانسان اپنی تمام عبادات،خاصکرنمازجوسرفہرست ہے، اسکی اصلاح کرلے تووہ کامیاب ہوگا۔
زیارت کی توفیق کا پیسہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ہم شیعہ حضرات ہر روز امیر المومنین ـ،ائمہ معصومین اور رسول اکرم ۖکے سامنے زانوئے ادب کیوں نہیں تہہ کرتے اور ان کی حدیثوںمیں پوشیدہ بے شمار آداب و معارف اور حکمت پر کیوں نہیں توجہ دیتے۔
توسلات بہت ہی مفید ہے ،ان امام زادوں کے زیارت کے لئے زیادہ جائیے ،جس طرح ہر پھل ایک خاص وٹامن رکھتا ہے اسی طرح ان میں سے ہر شخصیت ایک خاص اثر اور خصوصیت رکھتی ہے۔
شب عید غدیر اور اسی طرح کی دوسری راتوں میں ان راتوں اور ان دنوں کی فضیلت ،ان سے متعلق شخصیات کی عظمت و فضیلت،ان کے دشمنوں کے مطاعن،اور ولایت کے سلسلے میں وارد روایات کو دلیل و برہان کے ساتھ ذکر کرنا چاہیے تاکہ سامعین کے مذہبی عقائد کی تقویت کا سبب بنیں .نہ کہ اس طرح کی مجالس ہنسی مذاق اور لہو ولعب میں گزار دی جائیں۔
شیعوں کا ایک امتیاز امام زادوں کی قبریں اور مزارات ہیں لہذا ان کی زیارت سے ہرگز غافل نہ ہوں اور اپنے کو اپنے ہی ہاتھوں محروم نہ کریں۔
سید محمد حسنین باقری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں