ولایت امیرالمومنین علیہ السلام
آیۃاللہ جوادی آملی مد ظلہ
ترجمہ محمد حسنین باقری
’’ انسان کامل‘‘ ایک ایسا آئینہ ہے جو خداوند عالم کے جمال و کمال و جلال کے علاوہ کچھ بھی نہیں دکھاتااور جو کچھ و جتنا بھی جمال و کمال و جلالِ حق اس میں روشن ہو اسی کو پیش کرتا ہے۔ صاف و شفاف آئینہ کی خصوصیت یہ ہوتی ہےکہ خود کچھ نہیں رکھتا بلکہ جو صورت بھی اس کے مقابل آئے اسی کو دکھاتا ہے اسی طرح انسان کامل کا قول و فعل، رفتار و گفتار، سکوت و تقریر، اس کی زندگی کے تمام شعبے بلکہ اس کی زندگی کا ہر رخ خدا ئی جلوہ ہوتا ہے اس لئے کہ اس کی تمام چیزیں تمام امور خداوند عالم کے لئے ہیں۔ اسی وجہ سے خداوند عالم نے اس کے قول و فعل و تقریر کو حجت قرار دیا ہے۔
انسان کامل کی سب سے واضح و روشن فرد حضرت امیر المومنینؑ ہیں وہ ایسی ممتاز شخصیت ہیں جن کی نظیر نہ گزشتہ میں ممکن تھی نہ آئندہ ممکن ہے۔ اس لئے کہ وہ ایسے خدا کا مظہر ہیں جس کی مثل و نظیر نہیںہے ’’لیس کمثلہ شیٔ‘‘ (سورہ شوریٰ۱۱)[اس کے جیسا کوئی نہیں ہے] اور ’’ولم یکن لہ کفواً احد ( سورہ توحید ۴)[اور نہ اس کا کوئی کفو اور ہمسر ہے] ۔
اور حضرت امیر ؑ کا نور مقام بالا و مقام صعود اور عالم غیب میں رسول اکرمﷺ کے نور کے ساتھ متحد تھا۔
امیر المومنینؑ خدا کے ’’ اسم اعظم‘‘ کا مظہر ہیں۔ اور اسم اعظم جو سب سے بڑا درجہ ہے وہ نہ لفظ ہے جس کے تلفظ کے ذریعہ کائنات میں تصرف کیا جاسکے اور نہ مفہوم وجود ذہنی و علم حصولی ہے کہ جس کے تصور سے کوئی مسئلہ حل ہوسکے۔ بلکہ اسم اعظم ایک مقام و منزل ہے کہ جو بھی اس مقام تک پہنچ جائے وہ کائنات میں تصرف کرسکتا ہے اور خلاف عادت و خارق العادۃکاموں کو انجام دے سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امام علیؑ کا اسم اعظم کے مقام تک پہنچنے کا راز آپؑ کا قلب سلیم ہے جس میں حق سبحانہ کی مہر و محبت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس طرح کے قلوب خدا کے ارادۂ فعلی کے نازل ہونے کا مرکز ہیں۔ جیسا کہ امام حسن عسکری علی السلام فرماتے ہیں :
’’ قلوبنا او عیۃ لمشیۃ اللہ‘‘ ( بحار الانوار ۲۵/۳۳۷) ’ہمارے قلوب خداوند عالم کے ارادے و مشیت کا ظرف ہیں‘۔
نیز امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’ ان الامام وکر لارادۃ اللہ عزوجل لایشاء الا من یشاء اللہ ۔ ( بحار ۲۵/۳۸۵)
’امام کا دل خداوند عالم کے ارادے کا آشیانہ ہے وہ خدا کے ارادہ کے علاوہ کوئی اور ارادہ نہیںکرتا‘۔ لہٰذا امام علیؑ کا نفس حق سبحانہ کے ارادۂ فعلی کا مظہر ہے وہ اپنے ارادہ سے اپنی مراد کو اپنے نفس کے خارج میں وجود میں لاتے ہیں۔ یعنی جس طرح خداوند عالم کے تکوینی ارادہ اور صرف ’’کُن‘‘ (ہوجا) کہنے سے ہر امر وقوع پذیر ہوجاتا ہے اسی طرح حضرت علیؑ کے ’’بسم اللہ‘‘ کہنے سے بھی ہر چیز وقوع پذیر ہوجاتی ہے۔ اس لئے کہ حضرت علیؑ کی ’بسم اللہ‘ خدا کے ’کُنْ‘ کی طرح ہے اور خداوند عالم کا فعل اپنے ولی یعنی امیرالمومنینؑ کے قلب کے موطن میں ظہور کرتاہے۔
ولایت خدا کا مظہر:
’’ ولی‘‘ خدا وند عالم کے اسمائے فعلی میںسے ہے جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے : وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِن بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَيَنشُرُ رَحْمَتَهُ ۚ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ (شوریٰ ۲۸)[وہی وہ ہے جو ان کے مایوس ہوجانے کے بعد بارش کو نازل کرتاہے اور اپنی رحمت کو منتشر کرتا ہے اور وہی قابل تعریف مالک اور سرپرست ہے]اسی طرح دوسری جگہ فرماتا ہے : إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّـهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ ۖ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ (اعراف ۱۹۶)[بیشک میرا مالک و مختار وہ خداہے جس نے کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک بندوں کا والی و وارث ہے]’ ولایت‘ چاہے تکوینی ہو یا تشریعی ، خداوند عالم کے تمام اوصاف فعلی کی طرح صرف اسی سے مخصوص ہے اس میںکوئی اس کا شریک نہیںہے۔ اس لئے کہ تکوین و تشریع کا نظام تمام کا تمام خدا کے اختیار میں ہے۔ لیکن چونکہ ولی خداوند عالم کے اسمائے فعلی میں سے ہے اس لئے وہ مظہر چاہتا ہے لہٰذا قرآن کریم نے باوجودیکہ ولایت صرف اور صرف خداوند عالم سے مخصوص ہے، دوسرے افراد کی ولایت کا بھی تذکرہ کیا ہے یعنی بعض اس مقام تک پہنچتے ہیں کہ خداوند عالم کی ولایت کا مظہر بن جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیںکہ ولایت کے مظاہر مختلف مراتب رکھتےہیں اور اس اسم شریف کامظہرِ تام و کامل صاحبِ ولایت کلیہ بھی حضرت امیر المومنینؑ ہیں۔ حضرت امیرؑ تکوین و تشریع میں خدائے سبحان کی ولایت کا مظہر کامل ہیں اسی وجہ سے کائنات میں تصرف کرتے ہیں۔ اور زمینی و آسمانی قوتوں کو اپنے زیر تسلط اور اپنے اختیار میں رکھتے ہیں۔
قرآن کریم نے آیت : إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ (مائدہ ۵۵)[ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں]میں امیر المومنینؑ کی ولایت تکوینی و تشریعی کی تصریح کی ہے اس لئے کہ اولاً علمائے شیعہ و سنی اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت حضرت علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے ثانیاً اس آیت میں ولایت سے مراد دونوں ولایتیں ( تشریعی و تکوینی) ہیں ۔
ولایت علیؑ کی برتری:
قرآن کریم حضرت سلیمان سلام اللہ علیہ کے وزیر آصف بن برخیا کی ولایت تکوینی کے سلسلے میں فرماتا ہے : قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ ۚ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَـٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي۔۔۔(نمل ۴۰)[اور ایک شخص نے جس کے پاس کتاب کا ایک حصہّ علم تھا اس نے کہا کہ میں اتنی جلدی لے آؤں گا کہ آپ کی پلک بھی نہ جھپکنے پائے اس کے بعد سلیمان نے تخت کو اپنے سامنے حاضر دیکھا تو کہنے لگے یہ میرے پروردگار کا فضل و کرم ہے] اس آیت نے طیّ الارض سے بڑی کرامت کو غیر پیغمبر کےلئے بیان کیا ہے جس کا منشا و سبب ان کی کتاب کی بنسبت معرفت ہے۔ اس میں شک نہیںکہ اس طرح کی ولایت سے برتر و عظیم تر ولایت حضرت علیؑ کےلئے ثابت ہے۔ اس لئے کہ آصف ابن برخیا کے پاس کتاب کا تھوڑا سا علم تھا لیکن حضرت امیرؑ پوری کتاب سے آشنا تھا مکمل کتاب کا علم رکھتے تھے اسی لئے آپ کی ولایت کا دائرہ بہت وسیع تھا۔
حضرت علیؑ کے مکمل کتاب کے عالم ہونے کی دلیل یہ آیت ہے : وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا ۚ قُلْ كَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ (رعد ۴۳)(اور یہ کافر کہتے ہیں کہ آپ رسول نہیں ہیں کہہ دیجئے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان رسالت کی گواہی کے لئے خدا کافی ہے اور وہ شخص کافی ہے جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے)چونکہ اس آیت میں پیغمبرؐ کی رسالت کا انکار کرنے والوں کے سامنے دو گواہ بیان کئے گئے ہیں۔ خداوند عالم کی گواہی سب سے برتر گواہی ہے اور دوسرے اس ذات کی گواہی جس کے پاس مکمل کتاب کا علم ہے جو روایات کے مطابق امیر المومنینؑ کی ذات والا صفات ہے۔ جیسا کہ امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں: ’’ الذی عندہ علم الکتاب ھو امیر المومنین ‘‘ جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ امیر المومنینؑ ہیں۔ پھر حضرت سے پوچھا گیا کہ جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا وہ اعلم ہے یا جس کے پاس پوری کتاب کا علم تھا؟ حضرتؑ نے جواب دیا : ماکان علم الذی عندہ علم من الکتاب عند الذی عندہ علم الکتاب الا بقدر ماتاخذا لبعوضۃ بجناحھا من ماء البحر (تفسیر قمی جلد ۱ ص ۴۶۷)جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا وہ امیر المومنینؑ کے علم کی بنسبت اسی طرح ہے جس طرح مکھی کے پر کا پانی سمندر کی بنسبت۔ واضح ہے کہ حضرت علیؑ اس عظیم منزلت پر فائز ہونے کے بعد نہ صرف مُلک پر تصرف رکھتے اور اس کا قطب و مرکز ہیں ’’ انّ محلی منھا محل القطب من الرحی (نہج البلاغہ خطبہ ۳)بلکہ ملکوت بھی حضرت کے ارد گرد گھومتے ہیں اس پر استوار ہیں اور اسی کے ذریعہ باقی ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں