جمعہ، 29 جون، 2018

حضرت ابو الفضل العباسؑ

حضرت ابو الفضل العباسؑ
مولانا سید محمد حسنین باقری جوراسی 
مدرسۂ حجتیہ قم ایران 
حضرت عباس ابن علی ابن ابی طالبؑ ، کنیت ابو الفضل(۱) ، امام حسنؑ و امام حسین ؑکے بھائی ۴/ شعبان {یا۱۱یا ۱۷/ شعبان }  ۲۶ھ؁ کو مدینۂ منورہ میں پیدا ہوئے۔اور   ۶۱ ھ ؁ کو عاشورہ کے دن جام شہادت نوش فرمایا شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک ۳۴ سال بیان کی گئی ہے اس مدت میں سے ۱۴سال اپنے پدر بزرگوار حضرت علی ؑ کے ساتھ اور ۹ /سال اپنے بھائی امام حسن ؑکے ساتھ اور ۱۱/ سال امام حسینؑ کے ساتھ گذارے۔(۲) آپ کی مادر گرامی فاطمہ بنت حزام(۳) جو بنی کلاب کی نسل سے تھیں اور کنیت ام البنین تھی آپ کو امیر المومنین ؑنے حضرت زہراؐ کی شہادت کے بعد جناب عقیل کے مشورہ سے اپنی ہمسری کے لئے منتخب کیا اس لئے کہ حضرت علی ؑ نے جناب عقیل سے خواہش ظاہر کی کہ آپ کے لئے شجاع خاندان کی عورت تلاش کریں تاکہ ایک بہادر اور شجاع بیٹا پیدا ہو لہذا جناب عقیل نے جناب ام البنین سے شادی کرنے کا مشورہ دیا ۔
اس شادی کے نتیجہ میں  چاربیٹے عباسؑ ،عبد اللہ، جعفر ،عثمان پیدا ہوئے ۔(۴)
 امام زین العابدین  ؑ اپنے چچا عباس ؑکی اس طرح توصیف فرماتے ہیں :
’’رحم اللہ عمی العباس فلقدآثر و ابلی و فدا اخاہ بنفسہ حتیٰ قطعت یداہ فابدلہ اللہ عز و جل منھما جناحین یطیربھما مع الملائکۃ فی الجنۃ کما جعل لجعفر بن ابی طالب و ان للعباس عند اللہ تعالیٰ منزلۃ یغبطہ بھا جمیعا الشہداء یوم القیامۃ‘‘(۵)
خدا وند عالم میرے چچا عباس پر رحمت نازل کرے جنھوں نے ایثار کیا اور خود کو مشقت میں ڈالا اور اپنے بھائی پر اپنی جان نثار کردی ۔ یہاں تک کہ ان کے بازو قلم ہوگئے جس کے بدلے میں خدا نے ان کو جناب جعفر بن ابی طالب کی طرح دو پر عطا کئے جس کے ذریعہ وہ جنت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتے ہیں اور جناب عباس خدا کے نزدیک وہ مقام ومنزلت رکھتے ہیں کہ جس پر قیامت کے دن شہداء غبطہ کرینگے ۔
۱۔آپ کی دوسری کنیتیں :ابو القربہ (مقاتل الطالبین ص ۸۴)ابو القاسم (العباس ،مقرم ص ۸۰ بنقل از زیارت الاربعین جابر)
آپ کے القاب : قمر بنی ہاشم (مقاتل الطالبین ص۸۵ )سقا (  مقاتل الطالبین ص۸۴ ) علمدار(مقاتل الطالبین ص۸۵) العبد الصالح (کامل الزیارات  ص ۴۴۱)المواسی الصابر(المزار شیخ مفید ص ۱۲۴)المحتسب(بطل العلقمی ج:۲، ص ۷۰ ) 
۲۔اعیان الشیعہ ج  ۷، ص ۴۲۹
۳۔ الاصابۃ :۔۔
۴۔الخصال ج ۱۷  ،  ص ۳۵ 
امام صادق ؑ جناب عباسؑ کی توصیف میں فرماتے ہیں :
’’کان عمنا العباس نافذالبصیرۃ ،صلب الایمان،جاھد مع ابی عبد اللہ ؑو ابلیٰ بلاء  حسنا و مضی شہیدا (۱)‘‘۔
ہمارے چچا عباس ؑبابصیرت تھے ۔اور قوی ایمان رکھتے تھے امام حسین ؑ کے ساتھ جہاد کیا اور امتحان سے کامیاب باہر آئے اور شہید ہوئے۔
جناب عباس ؑ کے بچپن کے سلسلے میں نقل ہوا ہے ایک دن اپنے پدر بزرگوار امیر المومنین ؑ کے زانو پر بیٹھے ہوئے تھے حضرت ؑنے فرمایا: کہو ایک ۔ جناب عباسؑ نے کہا ایک ۔ آپؑ نے فرمایا : کہو’’ دو‘‘ ۔ عرض کیا: جس زبان سے ایک کہا مجھے شرم آتی ہے کہ اسی سے دو کہوں (۲)آپ کی نوجوانی کے سلسلہ میں کہا گیا ہے کہ جنگ صفین میںموجود تھے ۔(۳) بعض د وسرے مورخین نے ابوالشعشا اور اسکے سات بیٹوں کے قتل کی نسبت آپ کی طرف دی ہے  (۴) خوار زمی نے دوسری جگہ لکھا ہے کہ جنگ صفین میں جب’’ کریب‘‘ امام  علی ؑ کے ساتھ جنگ کے لئے آیا تو حضرتؑ اپنے بیٹے عباسؑ جومثل ایک کامل مردکے تھے کا لباس پہن کرانکے ساتھ جنگ کے لئے باہر آئے (۵)
حضرت عباسؑ کے دو بیٹے تھے فضل اور عبید اللہ ،جو لبابہ بنت عبید اللہ بن عباس بن عبد المطلب سے تھے ۔اور آپ کی نسل عبید اللہ کے ذریعہ آگے بڑھی۔ (۶)
واقعۂ کربلا میں حضرت عباسؑ کی پہلی ماموریت  ۹/محرم کو عصر کے وقت انجام پائی جس میں آپ اپنے بھائی کے حکم سے دشمنوں کے پاس گئے اور ان سے  ایک رات کی مہلت مانگی تاکہ خدا کے ساتھ راز و نیاز کریں  (۷) اس وقت عبد اللہ بن ابی محل (۸) کا غلام کزمان جناب عباسؑ اور ان کے بھائیوں کیلئے امان نامہ لایا جس کو شمر اور عبد اللہ بن ابی محل نے ابن زیاد سے لیا تھا ۔جب ام البنین کے بیٹو ں کی نظر امان نامہ پر پڑی تو کہا: اس سے کہو کہ ہمیں تمہارے امان نامہ کی ضروت نہیں ہے ۔
امان خدا سمیہ کے بیٹے کی امان سے بہتر ہے (۱۰)
۱۔عمدۃ الطالب ، ص ۳۵۶
۲۔ مصابیح القلوب ،ص۳۶۷، مقتل الحسین ؑ ، خوار زمی ، ج ۱، ص۱۷۹، انوار الھدیٰ لیکن مرحوم نقدی نے اس واقعہ کی نسبت حضرت زینب ؐکی طرف بھی دی ہے
۳۔ (زینب الکبریٰ ص۳۵ ) 
۴۔ اعیان الشیعہ ج۷، ص ۴۲۹
۵۔ کبریت احمر، ص ۳۸۵ 
۶۔ مناقب ،خوارزمی، ص ۲۲۷
۷۔ المجدی ،ص ۲۳۱
۸۔کامل بن اثیر، ج ۴، ص ۵۶
۹۔ عبد اللہ بن ابی محل ، حضرت کی ماں جناب ام البنین کا بھتیجہ تھا لہذا جناب عباس ؑ کا ماموںزاد بھائی ہوا ۔
۱۰۔  تاریخ طبری ، ج۵، ص۴۱۵
ایک روایت کے مطابق شمر (جو خود بھی قبیلہ بنی کلاب سے تھا ) پشت خیمہ پر آیا اور آواز دی کہ کہاں ہیں میرے بھانجے ؟
علی ؑ کے بیٹوں نے اس کو جواب نہیں دیا امامؑ نے فرمایا: اس کو جواب دو گرچہ فاسق ہے۔(۱)
عباسؑ و جعفر و عثمان باہر نکلے اور پوچھا تجھ کو کیا ہوگیا ہے ؟ اور کیا چاہتا ہے ؟ اس نے کہا : اے میرے بھانجو!میری طرف آجاؤ تاکہ امان میں رہو اور اپنے کو حسین ؑ کے ساتھ قتل نہ کراؤ(۲)
انھوں نے اس پر لعنت بھیجتے ہوئے فرمایا: خدا تجھ پر اورتیرے امان نامہ پر لعنت کرے ! چونکہ تو(رشتہ میں) ہمارا ماموں ہے اس لئے ہمیں امان دے رہا ہے اور رسول خدا ؐکے فرزند کے لئے امان نہیں ہے ؟
آیا ہم سے چاہتا ہے کہ ملعون اور ملعون زادوں کی اطاعت کریں ؟ شمر یہ جواب سن کر پیچ و تاپ کھاتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔(۳)
  شب عاشور امام حسین ؑ نے اپنے ساتھیوں کو بلا کر ایک خطبہ ارشاد فرمایا:اور ان سے اپنی بیعت کو اٹھاتے ہوئے فرمایا:’’تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ اس لئے کہ ان ظالموں کو صرف مجھ سے سروکار ہے اس موقع پر حضرت عباس ؑ پہلے شخص تھے جنھوں نے وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:کیوں ایسا کریں ؟ کیا اس لئے کہ آپ کے بعد زندہ رہیں ؟خدا کبھی وہ دن نہ لائے (۴)
عاشورا کے دن میمنہ و میسرہ کے سردار معین ہوئے۔ فوج کا علم حضرت عباس ؑکو دیا گیا ۔ ایک کے بعد ایک ساتھی نے میدان کارخ کیا ۔ اس درمیان ایسا بھی ہوتا کہ بعض اصحاب لشکر کے درمیان گھر جاتے تو حضرت عباس ؑان کو نجات دیتے ۔ مثلا عمر بن خالد صیداوی، جابر بن حارث سلمانی و سعد غلام عمر بن خالد صیداوی ،مجمع بن عبد اللہ عائذی جو آغاز جنگ میں  دشمنوں کے محاصرہ میں آگئے تھے ۔ حضرت عباس ؑ نے حملہ کرکے ان کو نجات دی (۵)
۱۔ابصار العین ،ص ۵۸
۲۔ الملھوف ،ص ۱۴۹
۳۔ تاریخ طبری ،ج۵ ص۴۱۶۔ ایک نقل کے مطابق جب حضرت ابو الفضل ؑ نے شمر کو جواب دیا اس وقت حضرت زہیر قین آپ کے پاس آئے اور کہا:آپ کے والد امیر المومنین ؑ نے جناب عقیل سے ایک بہادر خاندان کی عورت کی خواہش ظاہر کی تھی تاکہ اس سے ایک بہادر اور شجاع بیٹا پیدا ہو جو کربلا میں حسین ؑکی مدد کرے لہذا آپ کے والد نے آپ کو اسی دن کے لئے ذخیرہ کیا تھا ۔ایسا نہ ہو کہ آپ اپنی بہنوں اور امام حسین ؑکی مدد سے منھ موڑلیں! جناب عباس یہ سن کر غضبناک ہوئے اور قسم کھائی اور کہا وہ کام کروں گا کہ ہرگز نہ دیکھا ہوگا (کبریت احمر، ص ۳۸۶)
۴۔ تاریخ طبری ، ج۵، ص ۴۱۹
 ۵۔ تاریخ طبری، ج۵، ص ۴۶۴
جب امامؑ کے تمام اصحاب اور بعض بنی ہاشم شہید ہو چکے تو حضرت عباس ؑ نے اپنے بھائیوں عثمان ،عبد اللہ اور جعفر سے فرمایا:کہ آگے بڑھو اور اپنے آقا اور مولا کی مدد کرو یہاں تک کہ ان کے سامنے جام شہادت پیو ۔ وہ سب میدان جنگ میں گئے اور شہید ہوئے (۱) اس کے بعد حضرت عباس ؑعازم میدان جنگ ہوئے ۔
خوارزمی اور ابن اعثم کوفی نے حضرت ؑکی شہادت کے سلسلے میں لکھا ہے کہ حضرت عباس ؑ میدان جنگ میں آئے اس وقت آپ کی زبان پر مندرجہ ذیل رجز جاری تھا۔
اقسمت باللہ الاعزالاعظم
 و بالحجون صادقا و زمزم 
و بالحطیم والفنا المحرم 
لیخضین الیوم جسمی بدمی
دون الحسین ذی الفخار الاقدم
امام اہل الفضل و لتکرم 
ترجمہ: میں قسم کھاتا ہوں خدائے بزرگ و بر تر کی اور حجون و زمزم و حطیم کی اور اس آستانہ کی جو محترم ہے کہ اپنے جسم کو اپنے خون سے رنگین کروں ۔ان حسینؑ کے دفاع میں جو ہمیشہ صاحب فخر اور اہل فضل و کرم ہیں ۔
۱۔ اخبار الطوال، ص ۲۵۷ اپنے بھائیوں کو میدان جنگ میں بھیجتے ہوئے حضرت عباس ؑ کی گفتگو میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ جناب عباسؑ نے اپنے بھائیوں عثمان ،عبداللہ اور جعفر سے کہا میدان جنگ میں جاؤ تاکہ میں تم سے میراث لوں(تاریخ طبری ،ج۵،ص۴۴۸)لیکن علماء شیعہ ،حضرت عباسؑ کی طرف اس نسبت کو جھوٹ اور تہمت مانتے ہیں جس کو دشمنوں نے آپؑ کی شخصیت کو مجروح کرنے کیلئے گڑھا ہے۔اس لئے کہ یہ کام انتہائی پست ہے جس کو دنیا پرست بھی انجام نہیں دیتے چہ رسد بہ حضرت ابو الفضلؑ علاوہ براین کہ ان کی ماں جناب ام البنین کے ہوتے ہوئے آپ کو بھائیوں کی میراث نہیں مل سکتی اس لئے کہ جب ماںموجود ہو تو بھائی کو میراث نہیں ملتی(العباس،مقرم ،ص ۱۱۳)
اسی وجہ سے بعض نے کہا ہے کہ کتابوں میں عربی متن أرثیکم (میںتمہارے غم میں بیٹھوں )أرثیکم ( میں تم سے میراث لوں)سے مشتبہ ہوا ہے یعنی در اصل أثیکم تھا جس کو لوگوں نے غلطی سے أرثکم پڑھا ہے (العباس ، مقرم ،ص ۱۱۴ بنقل از شیخ آقا بزرگ تہرانی صاحب الذریعہ) دوسرے بعض لوگوں نے کہا ہے أرثکم کے بجائے ’’أرزء بکم‘‘یا ’’ارزئکم‘‘(یعنی میں تمہاری مصیبت میں گرفتار ہوں) تھا ( العباس ، مقرم  بنقل از النقد النزیہ، ج ۱، ص ۹۹)
  حضرت عباس ؑ متعدد دشمنوں کو فی النار کرنے کے بعد شہید ہوئے امام حسین ؑآپ کے سر ہانے آئے اور کہا :
 ’’الآن انکسرظہری وقلت حیلتی ‘‘اب میری کمر ٹوٹ گئی اور راہ چارہ مسدود ہوگئی۔ (۱)
ابن شہر آشوب آپ کی شہادت کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ :سقا ،قمر بنی ہاشم، علمدار حضرت عباس ؑ  جو اپنے بقیہ بھائیوں سے بڑے تھے پانی لینے کے لئے باہر آئے ، دشمنوںنے ان پر حملہ کیا آپ نے بھی دشمنوں پر حملہ کیا ۔ اور یہ رجز پڑھا:
لا ارھب الموت اذا الموت رقا
حتیٰ اواری فی المصالیت لقا
 نفسی لنفس المصطفیٰ الطھر وقا
انی انا العباس أعدو بالسقا 
 ولا أخاف الشر یوم الملتقیٰ
’’میں موت سے نہیں ڈر تا ہوں اس لئے کہ موت کمال کا ذریعہ ہے یہاں تک کہ میرا جسم دوسرے بہادروں کے جسم کی طرح خاک میں پوشیدہ ہوجائے میری جان قربان ہو مصطفیٰؐ کی پاک جان پر میں عباس ؑہوں میرا لقب سقا ہے اور دشمن سے مقابلہ کے دن ہرگز خوف و ہراس نہیں رکھتا ‘‘یہ کہہ کر آپ نے حملہ کیا اور دشمنوں کو تتر بتر کردیا زید بن ورقہ جھنی نے درخت کی آڑ میں چھپ کر حکیم بن طفیل سنبسی کی مدد ے داہنے ہاتھ پر وار کیا جب عباسؑ نے شمشیر کو بائیں ہاتھ میں لے کر یہ رجز پڑھا :
واللہ ان قطعتم یمینی
 انی احامی ابدا عن دینی
عن امام صادق الیقین 
 نجل النبی الطاہر الامین 
قسم بخدا اگر میرا داہنا ہاتھ قلم کردو پھر بھی میں ہمیشہ اپنے دین اور صادق الیقین امام اور پاک و امین نبیؐ کے فرزند کی حمایت کروں گا۔
یہ کہہ کر آپ ؑنے سخت جنگ کی یہاں تک کہ آپ پر ضعف طاری ہوا اس موقع پر حکیم بن طفیل طائی نے درخت کے آڑسے آپ کے بائیں ہاتھ پر وار کیا  حضرت عباس ؑ نے اس طرح رجزپڑھا :
یا نفس لا تخشیٰ من الکفار
 و ابشری برحمۃ الجبار
مع النبی السید المختار
قد قطعوا ببغیھم یساری
فاصلھم یا رب حر النار
اے نفس کافروں سے مت ڈر خدائے جبار کی رحمت اور سید مختار نبی اکرم کی ہمنشینی کی بشارت ہو ان ملعونوں نے ظلم و ستم کے ذریعہ میرے بائیں ہاتھ کو بھی قلم کردیاخدایا! ان کو دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال ۔
۱۔مقتل الحسین خوارزمی، ج ۲، ص ۳۴  ؛ انوار الھدیٰ؛ المفتوح، ج ۵، ص ۲۰۷
پھر اس ظالم نے لوہے کا گرز آپ کے سر پر مارا اور آپ کو شہید کیا۔(۱)
اس  مقام پر علامہ مجلسی  مرحوم صاحب مناقب کے کلام کو ذکر کرنے کے بعد بعض مرسل منابع کو نقل کرتے ہوئے حضرت کی شہادت کی کیفیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’جب حضرت عباس ؑ نے اپنے بھائی کی تنہائی کو دیکھا تو آپؑ کے پاس تشریف لائے اور میدان میں جانے کی اجازت چاہی امامؑ نے فرمایا:تم میرے لشکر کے علمدار ہو اگر تم چلے گئے تو لشکر منتشر ہوجائے گا آپ نے عرض کیا :اب میرا سینہ تنگ ہوگیا ہے اور اب زندگی سے سیر ہوچکا ہوں چاہتا ہوں ان منافقوں سے اپنا انتقام لوں امامؑ نے فرمایا: (اگر جانا ہی چاہتے ہو تو ) ان بچوں کیلئے سبیل آب کردو  حضرت عباس ؑ دشمنوں کے مد مقابل آئے اور ان کو نصیحتیں کیں لیکن کسی نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوا واپس آکر امام کو اطلاع دی اس وقت سنا کہ بچے العطش العطش  ہائے پیاس ہائے پیاس کی صدائیں بلند کر رہے ہیں آپ نے مشک لی اور رہوار پر سوار ہوکر فرات کا رخ کیا ۔چار ہزار پہریداروںنے آپ کو گھیر لیا اور تیروں کی بارش کی آپ نے دشمنوں کو منتشر کیا اور ایک روایت کے مطابق اسی افراد کو قتل کیا فرات میں داخل ہوئے اور چلو میںپانی اٹھایا امام اور آپ کے ساتھیوں و بچوں کی پیاس یاد آگئی پانی کو فرات میں پھیکا مشک کو بھر کر ابنے داہنے کندھے پررکھااور خیمہ کی جانب روانہ ہوئے دشمنوں نے راستہ روکا اور ہر طرف سے محاصرہ کرلیا حضرت عباس ؑ نے ان کے ساتھ جنگ کی اچانک نوفل ارزقی نے آپ کے داہنے ہاتھ پر وار کیاآپ نے مشک کو بائیں کندھے پر رکھا نوفل نے ایک وار بائیں بازو پر کیا بازو جدا ہو گیا اس وقت حضرت عباس ؑ نے تسمے کو دانتوں سے دبایا اس درمیان ایک تیر آیا اور مشک میں پیوست ہوگیا۔اور سارا پانی بہہ گیا ایک دوسرا تیر سینۂ مبارک پر لگا گھوڑے سے زمین پر تشریف لائے اور امام حسین ؑ کو آواز دی اے آقا میری مدد کیجئے ۔جب امام آپ کے سرہانے پہونچے دیکھا اپنے خون میں نہائے ہوئے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ جب  حضرت عباس ؑ شہید ہوئے اس وقت امام حسین ؑ نے فرمایا:
 الآن انکسر ظہری و قلت حیلتی (۲)
اب میری کمر ٹوٹ گئی اور راہ چارہ مسدود ہوگئی 
زیارت ناحیہ میں امام زمانہ نے آپ کو اس طرح یاد فرمایا :
السلا م علی ابی الفضل العباس ؑ بن امیر المومنینؑ المواسی أخاہ بنفسہ ،الآخذ لغدہ من امسہ ،الفادی لہ الواقی الساعی الیہ بمائہ ، المقطوعۃیداہ ،لعن اللہ قاتلیہ یزیدبن الرّقاد الجھنی،۔۔۔۔۔۔وحیکم بن الطفیل الطائی ،  (۳)
۱۔مناقب آل ابی طالب ج ۴ ص :۱۱۴
۲۔بحار الانوار، ج ۴۵، ص ۴۱  ؛روضۃ الشہداء، ص ۴۱۵ 
۳۔ اقبال ،ج۳ص۷۴
سلام ہو امیرالمومنین ؑ کے بیٹے ابوالفضل العباس علیہ السلام پر جنہوں نے اپنے بھائی پر اپنی جان نثار کردی اپنے کو فداکیا اورخود کو سپر قراردیا پانی پہنچانے میں پوری کوشش کی لیکن دونوں ہاتھ قلم ہوگئے خدا لعنت کر ے ان کے قاتلین یزید بن رقادجہنی اور حکیم ابن طفیل پر ، حضرت عباس علیہ السلام کا روضہ بقیہ دوسرے شہیدوں سے الگ نہر علقمہ کے کنارے ہے  ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں