اخباریت
اخباری شیعہ امامیہ فقہائ کا ایک ایسا گروہ ہے جو فقط احادیث و روایات کو فقہ اور استبناط و استخراج احکام شرعی کا منبع و ماخذ مانتا ہے۔ یہ گروہ جو گیارہویں صدی ہجری کے بعد وجود میں آیا ہے وہ اجتہاد کے لئے استعمال ہونے والی راہ و روش اور علم اصول کو صحیح نہیں سمجھتا ہے۔ جبکہ ان کے برخلاف اصولی فقہائ احکام فقہی کے استنباط و استخراج کے لئے اجتہاد کی راہ و روش اور اصول فقہ کو لازم و ضروری سمجھتے ہیں۔
شیعہ امامیہ اخباری و اصولی علمائ میں یہ اختلاف نظر گیارہوں صدی ہجری سے پہلے بھی غیر واضح اور مخفی طور پر موجود تھا۔ لیکن اس صدی میں اس اختلاف نظر نے شدت اختیار کر لی اور یہ دو اصطلاح اخباری و اصولی رواج پا گئی اور یہ دونوں گروہ آشکار اور باقاعدہ طور ایک دوسرے کے مقابلہ میں آ گئے۔
محمد امین استر آبادی، عبد اللہ بن صالح بن جمعہ سماہیجی بحرانی اور میرزا محمد اخباری کا شمار تندرو اخباریوں میں ہوتا ہے۔ جبکہ شیخ یوسف بحرانی، سید نعمت اللہ جزائری، ملا محسن فیض کاشانی، محمد تقی مجلسی، محمد طاہر قمی اور شیخ حر عاملی اس مسلک کے اعتدال پسند اور میانہ رو افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں شیخ وحید بھبھانی، شیخ اںصاری اور شیخ جعفر کاشف الغطائ جیسے اصولی علمائ مد مقابل کے طور پر قرار پاتے ہیں۔
اخباریوں اور اصولیوں کے اہم ترین اختلافات حرمت و جواز اجتہاد، انحصار ادلہ بہ کتاب و سنت، منع از تحصیل ظن، تقسیم بندی روایات کی روش، جواز تقلید غیر معصوم (ع)، اخذ ظواہر کتاب، حسن و قبح عقلی، بعض موارد میں اصالۃ البرائۃ جاری کرنا، قیاس کی بعض اقسام کے استعمال کی حرمت، کتب اربعہ و ۔۔۔ کی تمام احادیث کا صحیح ماننا، جیسے مسائل ہیں۔
اخباریت کی تشکیل کے تاریخی وسائل
شیعہ امامیہ فقہ سے متعلق اخباری و اصولی نظریات کے تقابل کی بازگشت صدر اسلام تک ہوتی ہے۔ صدر اسلام کی ابتدائی تین صدیوں میں امامیہ کے فقہی مکاتب و مذاہب کے مطالعہ سے ایسے گروہ کو پہچانا جا سکتا ہے جو متون روایات کی پیروی کرنے والوں کے برخلاف مختلف طریقوں سے اجتہاد و استنباط کا سہارا لیتے تھے۔
حدیث کی طرف میلان کا عروج
چوتھی صدی ہجری بمطابق دسویں صدی عیسوی کو قم کے حدیثی مکتب کے تسلط کے دور کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔ ابن ابی عقیل عمانی و ابن جنید اسکافی جیسے اہل اجتہاد و استنباط فقہائ اقلیت میں شمار ہوتے تھے۔ اس دور کے برجستہ حدیثی فقہائ میں محمد بن یعقوب کلینی (۳۲۸ یا ۳۲۹ ق۔ ۹۴۰ یا ۹۴۱ ع)، علی بن بابویہ قمی (۳۲۸ ق)، ابن قولویہ (۳۶۸ یا ۳۶۹ ق۔ ۹۷۹ ع) و محمد بن بابویہ قمی (۳۸۱ ق۔ ۹۹۱ ع) جیسے افراد کا شمار کیا جا سکتا ہے۔ جنہوں نے قدیمی ترین فقہی۔حدیثی کتابوں کی تالیف میں نہایت اہم کردار ادا کئے ہیں۔[1]
فقہ استدلالی کی طرف رجحان
شیخ مفید (۴۱۳ ق۔ ۱۰۲۲ ع) کے دور اور ان کے بعد سید مرتضی (۴۳۶ ق۔ ۱۰۴۴ ع) اور شیخ طوسی (۴۶۰ ق۔ ۱۰۶۸ ع) اور اس کے بعد شیعہ امامیہ کی علم اصول فقہ کی اولین کتاب کی تالیف کے ساتھ ہی فقہ امامیہ میں جدید باب کا آغاز ہو جاتا ہے جس نے صدیوں تک حدیثی میلان رکھنے والے فقہائ کے اوپر اجتہاد و استنباط کرنے والے فقہائ کو برتری بخشی۔ ان دونوں رجحانات کے تقابل کا سلسلہ مذکورہ علمائ کی تالیفات میں جگہ جگہ مشاہدہ میں آتا ہے۔ شیخ مفید، جن کا شمار اہل استنباط فقہائ میں ہوتا ہے، اپنی تالیف اوائل المقالات میں فقہائ کو مطلق طور پر اور حدیثی علمائ کو بارہا اہل النقل اور اصحاب الآثار جیسی تعبیرات کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔[2] سید مرتضی کی ایک تالیف میں فقہائ اصحاب حدیث سے ان فقہائ کو تعبیر کیا گیا ہے جو اصولی روش کے حامل نہیں ہیں، اور اصولی روش کے فقہائ کو مورد حمایت قرار دیا گیا ہے۔[3]
چھٹی صدی میں اخباری اصطلاح کا ظہور
اخباری اصطلاح کا استعمال پہلی بار سن چھٹی صدی ہجری بمطابق بارہویں صدی عیسوی کے نصف اول میں کتاب ملل و نحل میں جس کے مولف شہرستانی ہیں، دیکھنے میں آتا ہے۔[4] اور اس کے بعد چھٹی صدی ہجری کے شیعہ امامی عالم عبد الجلیل قزوینی رازی نے اپنی کتاب نقض میں ان دو اصطلاحوں اصولی و اخباری کو ایک دوسرے کے مقابلہ میں قرار دیا ہے۔[5]
اہل حدیث فقہائ کا مکتب جسے چوتھی صدی ہجری کے اواخر اور پانچویں صدی ہجری کے اوائل میں اصولی فقہائ کی کوششوں نے کمزور کر دیا تھا۔ اس نے اپنے محدود وجود کو امامیہ کے فقہی مجامع و محافل میں محفوظ کر لیا، یہاں تک کہ گیارہویں صدی ہجری کی ابتدائ میں اسے ایک بار پھر محمد امین استر آبادی (۱۰۳۳ یا ۱۰۳۶ ق۔ ۱۶۲۴ یا ۱۶۲۷ ع) کے ذریعہ ایک نئے قالب میں پیش کیا گیا۔[6] اور اس نے اپنے تیز و تند حملوں کا رخ اصولیوں کی طرف کر دیا۔ بعض کا ماننا ہے کہ ابن ابی جمہور احسایی (با قید حیات ۹۰۴ ق۔ ۱۴۹۹ ع) کا شمار ان لوگوں میں ہیں جنہوں نے اخباریوں کے لئے راہ کو ہموار کیا۔ انہوں نے ایک رسالہ میں جس کا عنوان العمل باخبار اصحابنا تھا، اس سلسلہ میں اپنے دلائل پیش کئے۔[7]
اخباریت کی تاریخی قدمت کے مد نظر، اخباری عنوان کا رواج اور اطلاق اس خاص گروہ اور آج کے موجودہ معنی و اصطلاح کے مطابق جو گیارہویں صدی ہجری میں اور اخباریت کی جدید تحریک کے ظہور کے ساتھ اس کے بانی محمد امین استر آبادی سے ہوتا ہے جسے بعض افراد نے (اخباری صلب) کی صفت کے ساتھ متصف کیا ہے۔[8]
اخباریت کا زوال
گیارہویں صدی ہجری میں اخباریوں اور اصولیوں کے درمیان آشکارا طور پر تقابل کے آغاز اور بعد کی صدیوں میں اس کے جاری رہنے اور آیت اللہ وحید بہبہانی (متوفی 1205 ق) جیسے بزرگ اصولی عالم کے ظہور کے ساتھ ہی شیعہ حوزہ ھای علمیہ سے اخباریوں کا اثر و رسوخ رفتہ رفتہ کم ہونے لگا۔ اخباریوں کی اس شکست میں آیت اللہ وحید بہبہانی موثر ترین اصولی علمائ میں سے ہیں۔ انہوں نے اصولیوں سے اس مقابلہ کے رخ کو نظری دائرہ سے عملی سلسلہ کی طرف موڑ دیا اور اس سلسلہ میں انہوں نے اخباریوں کے پیشوا شیخ یوسف بحرانی کی امامت میں نماز جماعت کی اقتدائ کو حرام قرار دیا[9] اور ان کے بعد شیخ مرتضی انصاری (1281 ق)[10] اور شیخ جعفر نجفی کاشف الغطائ (1227 یا 1228 ق)[11] وغیرہ جیسے اصولی علمائ نے اصولی نظریات کی تبلیغ و ترویج اور علم اصول کی تدوین و تدریس کے ساتھ، اخباریوں کو مکمل طور پر میدان سے باہر کر دیا اور آج شیعہ حوزات علمیہ میں اصولی افکار و نظریات حاکم ہیں اور اخباری نظریات پراکندہ صورت اور حالت کے علاوہ دیکھنے میں نہیں آتے ہیں۔
تندرو اخباری
کہا جاتا ہے کہ محمد امین استر آبادی جو متاخرین شیعوں میں اخباری مسلک کے رئیس کے عنوان سے معروف ہیں۔ سب سے پہلے انہوں نے علم اصول اور مجتہدین پر تنقید کی ابتدائ کی اور انہوں نے شیعہ امامیہ کو دو حصوں اخباری و مجتہدین (اصولی) میں تقسیم کیا[12] اور وہ خود ابتدائ میں مجتہدین میں شمار ہوتے تھے اور انہوں نے بڑے بڑے مجتہدین سے اجازات کسب کئے تھے لیکن بعد میں ان ہی کی روش پر حملہ کرنے لگے۔[13] گویا وہ نہایت شدت کے ساتھ اپنے استاد میرزا محمد استر آبادی کے افکار کے تحت تاثیر تھے،[14] محمد امین نے اپنے نظریات اور تعلیمات کو الفوائد المدنیۃ نامی کتاب میں تدوین کیا جس کا شمار اخباریوں کے مہم ترین منبع میں ہوتا ہے۔
گیارہویں صدی ہجری میں اخباری مسلک کے ایک تند اور متعصب پیرو میں عبد اللہ بن صالح جمعہ سماھیجی بحرانی کا نام بھی آتا ہے وہ منیۃ الممارسین نامی کتاب کے مولف ہیں۔[15] شیخ یوسف بحرانی تحریر کرتے ہیں کہ وہ اہل اجہتاد کو بیحد برا کہتے تھے۔ جبکہ ان کے والد ملا صالح خود اہل اجتہاد تھے۔[16]
ابو احمد جمال الدین محمد بن عبد النبی، محدث نیشاپوری استر آبادی (متوفی 1232 ق۔ 1817 ع) جو میرزا محمد اخباری کے نام سے معروف ہیں۔ وہ بڑے نامدار اصولی علمائ جیسے میرزا ابو القاسم قمی، شیخ جعفر نجفی کاشف الغطائ، میر سید علی طباطبایی، سید محمد باقر حجۃ الاسلام اصفہانی اور محمد ابراہیم کلباسی کا ذکر برائی کے ساتھ کرتے تھے [17]اور ان کے ساتھ آشکارا دشمنی رکھتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ ان کے قتل کے حکم پر اس زمانہ کے نامور علمائ جن میں سید محمد مجاہد، میر سید علی طباطبایی کے بیٹے، شیخ موسی، کاشف الغطائ کے بیٹے، سید عبد اللہ شبر اور شیخ اسد اللہ کاظمینی شامل ہیں، نے دستخط کئے تھے۔
معتدل اخباری
شیخ یوسف بحرانی (ولادت 1186 ق۔ 1772 ع) نے اخباریوں اور اصولیوں کے درمیان معتدل روش کا انتخاب کیا۔[18] ان کا کہنا تھا کہ وہ فقہ میں محمد تقی مجلسی کی روش اور ان کے مسلک پر ہیں، جو اخباریوں و اصولیوں کی اعتدال پسندی پر مبنی ہے۔[19] آیت اللہ وحید بہبہانی کو شیخ یوسف بحرانی کی مخالفت سے پرہیز نہیں تھا اور وہ لوگوں کو ان کی امامت میں نماز پڑھنے سے منع کرتے تھے۔[20] شیخ یوسف بحرانی، اخباری مسلک کے رئیس ہونے کے عنوان سے جہاں بھی وہ مناسب سمجھتے تھے انہیں ایسے تند و تیز انتقادات سے جو شیعوں اور اخباری و اصولی علمائ کے درمیان شگاف اور اختلاف کا باعث ہوں، منع کرتے تھے۔
سید نعمت اللہ جزائری شوشتری (متوفی 1112 ق۔ 1700 ع) حالانکہ اخباری مسلک تھے اس کے باوجود وہ مجتہدین اور ان کے مقلدین کی تائید میں اور ان کی نظریات کے احترام کی بیحد سعی کرتے تھے۔[21]
بعض نے ملا محسن فیض کاشانی (1091 ق۔ 1680 ع) کا شمار بھی اخباریوں میں کیا ہے۔[22] فیض کاشانی کہتے ہیں: میں قرآن و حدیث کا مقلد ہوں اور ان کے علاوہ سے اجنبی ہوں۔[23] اگر چہ ظاہری طور پر ان کی مراد یہاں تصوف سے تقابل ہے نہ کہ اجتہاد اور علم اصول سے؛ البتہ فیض کاشانی معتقد ہیں کہ عام لوگوں (غیر معصوم) کی عقلیں ناقص اور غیر قابل اعتبار ہیں اور حجت نہیں ہیں۔[24] فیض کاشانی نے اپنی بعض تالیفات جیسے الکلمات الکمنونہ میں آشکارا طور پر مجتہدین پر حملہ کیا ہے اور ان کی اسولی روش پر تنقید کی ہے ۔ ان کی بعض کتابوں منجملہ مذکورہ کتاب میں موجود ان کی نظریات کی تحقیق اور مطالعہ سے ان کے اخباری مسلک ہونے میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اصولی حضرات نے اجتہاد اصولی کا باب وا کرکے مکلفین کے لئے تکلیف شرعی کو سخت کر دیا ہے اور ان چیزوں کے بارے میں بات کی ہے جس بارے میں اللہ (عز و جل) نے کوئی قول پیش نہیں کیا ہے جبکہ حکمت اس بات میں تھی کہ وہ چیزیں ایسے ہی مسکوت رہ جاتیں۔[25]
محمد تقی مجلسی (متوفی 1070 ق۔ 1660 ع) کا شمار بھی اخباری مسلک کے معتدل افراد میں ہوتا ہے اور جیسا کہ بیان کیا گیا وہ محمد امین استر آبادی کے افکار و نظریات کی واضح اور صریح انداز میں تائید کرتے تھے۔[26]
ملا خلیل بن غازی قزوینی (متوفی 1089 ق۔ 1678 ع) شیخ حر عاملی، محمد باقر مجلسی، ملا محسن فیض کاشانی کے معاصرین میں اور شیخ بہایی اور میر داماد کے شاگردوں میں ہیں۔ وہ اجتہاد کی مکمل طور پر مخالفت کرتے تھے اور اس کا انکار کرتے تھے۔[27]
محمد طاہر قمی (1098 ق۔ 1687 ع) کا شمار بھی اخباری مسلک کے اعتدال پسند افراد میں ہوتا ہے۔[28]
شیخ حر عاملی (متوفی 1104 ق۔ 1693 ع) نے اپنی مشہور کتاب وسائل الشیعہ کے خاتمہ میں اپنے اخباری ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔[29]
اخباریت سے مقابلہ
وحید بھبھانی
اصولیوں اور اخباریوں کا مقابلہ جس کا آغاز گیارہویں صدی ہجری میں ہوا اور جس میں اخباریوں کی تند روی سے اضافہ ہوتا گیا۔ آخر میں مجتہدین کی طرف سے خاص طور پر شیخ وحید بہبہانی (متوفی 1205 ق۔ 1791 ع) کی طرف سے اخباریت کے خلاف ایک سنجیدہ اور منظم مقابلہ میں تبدیل ہو گیا۔[30] وحید بھبھانی کے زمانہ میں عراق کے شہر خاص طور پر کربلا اور نجف اخباریوں کا مرکز تھے اور اس زمانہ میں ان کی زعامت شیخ یوسف بحرانی کے ہاتھوں میں تھی۔ اس زمانہ میں اہل اصول و اجتہاد شدید طور پر گوشہ نشینی کا شکار ہو گئے تھے، یہاں تک کہ شیخ وحید بھبھانی نے کربلا کی طرف ہجرت کی[31] اور اخباریت کے خلاف سنجیدہ اور شدید مقابلہ کا محاذ کھول دیا۔
وہ اپنی علمی بحثوں اور استدلال کے ساتھ جو انہوں نے اخباریت کے بطلان پر قائم کی تھیں، اجتہادی روشوں کے اثبات اور اخباریت کی رد میں عملی اقدامات کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے اور جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ انہوں نے شیخ یوسف بحرانی جو اس زمانہ میں اخباری مسلک کے رئیس تھے، کی اقتدائ میں نماز پڑھنے کو حرام قرار دے دیا تھا۔[32] شیخ وحید بہبہانی اور اس زمانہ کے دیگر برجستہ اصولی علمائ کے اقدامات کے سبب اصولی مسلک افراد گوشہ نشینی کی حالت سے باہر نکل کر اخباریت کے مقابلہ میں قدرت حاصل کر لی۔
شیخ وحید بھبھانی کی منجملہ تالیفات میں سے جو انہوں نے اخباریت کے رد اور مجتہدین کے دفاع کی راہ میں تحریر کی ہیں، ایک رسالۃ الاجتہاد والاخبار ہے۔ وحید بہبہانی کو ان کے اخباریوں کے ساتھ شدید و طولانی عملی و نظری مقابلہ کے سبب انہیں تیرہویں صدی ہجری کا مروج مذہب، رکن طایفہ شیعہ، پایہ استوار شریعت اور نیز مجدد مذہب اور مروج طریقہ اجتہاد کہا گیا ہے۔[33]
شیخ انصاری
شیخ وحید بھبھانی کے بعد شیخ مرتضی انصاری (۱۲۸۱ ق۔ ۱۸۶۴ ع) کو علم اصول فقہ کا بانی سمجھا جا سکتا ہے۔ ان سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا ہے: اگر امین استر آبادی زندہ ہوتے تو اس اصول کو قبول کر لیتے۔[34]
کاشف الغطائ
اخباریوں سے مقابلہ کرنے والے دیگر علمائ میں سے ایک شیخ جعفر نجفی کاشف الغطائ (۱۲۲۷ یا ۱۲۲۸ ق۔ ۱۸۱۲ یا ۱۸۱۳ ع) ہیں۔ وہ میرزا محمد اخباری کے مخالفین میں سے تھے۔ اور اسی سلسلہ میں انہوں نے ایک رسالہ کشف الغطائ عن معایب میرزا محمد عدو العلمائ کے عنوان سے تالیف کیا تھا۔ انہوں نے اپنے اس رسالہ کو فتح علی شاہ قاجار کو بھی بھیجا تھا تا کہ وہ میرزا محمد اخباری کی حمایت سے دست بردار ہو جائیں۔[35]
اخباریوں کا جغرافیائی انتشار
گیارہویں سے تیرہویں صدی ہجری تک اخباریت کا رواج ایران و عراق اور بحرین و ھندوستان کے زیادہ تر مذہبی شہروں میں ہو چکا تھا۔[36] اخباریت کے فروغ کے زمانہ میں اس کا زیادہ تر اثر قزوین کے مغربی علاقے میں تھا جو ایسے اخباریوں کا مرکز تھا جو ملا خلیل قزوینی (۱۰۸۹ ق) کے شاگردوں اور مریدوں میں سے تھے۔[37] لہذا اس شہر کا شمار اس مسلک کے مہم ترین شہروں میں کیا جاتا تھا۔ لیکن اصولیوں کے اخباریوں سے مقابلہ اور ان کے دن بہ دن کمزور ہو جانے کے بعد سے اس مکتب کا دائرہ نہایت محدود ہوتا چلا گیا۔
اخباریوں اور اصولیوں کے بنیادی اختلافات
سید نعمت اللہ جزائری نے کتاب منبع الحیات اور ملا رضی قزوینی نے لسان الخواص میں اصولیوں اور اخباریوں کے درمیان پائے جانے والے عمدہ اختلافات کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح سے عبد اللہ بن صالح سماھیجی بحرانی نے کتاب منیۃ الممارسین میں اخباریوں اور اصولیوں کے درمیان پائے جانے والے چالیس فرق کو بیان کیا ہے۔ شیخ جعفر کاشف الغطائ نے بھی کتاب الحق المبین میں اخباریوں اور اصولیوں کے درمیان موجود فرقوں کی تحقیق و تجزیہ پیش کیا ہے۔ اور اسی طرح سے میرزا محمد اخباری نے کتاب الطھر الفاصل میں ۵۹ فرق کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سید محمد دزفولی نے کتاب فاروق الحق میں ان اختلافات کی تعداد ۸۶ تک ذکر کی ہے۔ اور شیخ حر عاملی نے بھی الفواید الطوسیۃ کے فائدہ نمبر ۹۲ میں ان دو گروہوں کے درمیان اختلافات کا ذکر کیا ہے۔
اجتہاد کا حرام ہونا
اخباری، اجتہاد کو حرام جانتے ہیں۔ جبکہ اصولی اسے واجب کفایی مانتے ہیں اور حتی بعض علمائ نے واجب عینی بھی کہا ہے۔ ملا محمد امین استر آبادی نے کتاب الفوائد المدنیۃ میں اجتہاد کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ علمائ ما سبق کی روش اجتہاد پر مبنی نہیں تھی۔[38]
انحصار ادلہ بہ کتاب و سنت
اخباری، ادلہ فقہی کو کتاب و سنت تک منحصر جانتے ہیں۔ اور اصولیوں کے بر خلاف اجماع اور عقل کو حجت نہیں مانتے ہیں۔
دوسرے اختلافات
۱۔ منع از تحصیل ظن؛ اخباری ظن و گمان یا ادلہ ظنی کے ذریعہ حاصل ہونے والے احکام کو نہیں مانتے ہیں اور مجتہدین کے بر خلاف فقط علم کو حجت جانتے ہیں۔
۲۔ تقسیم بندی روایات؛ اخباریوں کے نزدیک احادیث دو قسم کی ہوتی ہیں: ۱۔ صحیح ۲۔ ضعیف جبکہ مجتہدین کی تالیفات میں روایات کی چار اقسام بیان صحیح، حسن، موثق اور ضعیف بیان ہوئی ہیں۔
۳۔ غیر معصوم کی تقلید؛ اصولی لوگوں کو دو گروہ مجتہد اور مقلد میں تقسیم کرتے ہیں۔ لیکن اخباری غیر معصوم کی تقلید کو جائز نہیں سمجھتے ہیں۔
۴۔ اخذ ظواہر کتاب؛ اصولی ظاہر قرآن کو حجت سمجھتے ہیں اور اسے ظاہر روایات پر ترجیح دیتے ہیں۔ البتہ اخباری ظاہر قرآن کو فقط اس صورت میں جائز سمجھتے ہیں جب معصومین (ع) سے کوئی تفسیر موجود ہو۔
۵۔ کتب اربعہ کی تمام احادیث کا صحیح ہونا؛ اخباری، اصولیوں کے برخلاف کبت اربعہ کی تمام روایات کو صحیح اور قطعی الصدور مانتے ہیں۔
۶۔ حسن و قبح عقلی؛ اخباری حسن و قبح عقلی کو تسلیم کرتے ہیں لیکن اصولیوں کے بر خلاف احکام مستقلات عقلی کو حجت شرعی نہیں مانتے ہیں۔
۷۔ قیاس کی بعض اقسام پر عمل کو حرام قرار دینا؛ اخباری قیاس کی بعض قسموں جیسے قیاس اولویت، قیاس منصوص العلۃ اور حتی تنقیح مناط کو جنہیں اصولی معتبر مانتے ہیں، کو احادیث میں نہی شدہ قیاس سمجھتے اور انہیں باطل مانتے ہیں۔[39]
۸۔ اصالۃ البرائۃ؛ اصولی شبہہ حکمیہ تحریمیہ میں بھی اور شبہہ حکمیہ وجوبیہ میں بھی دونوں میں اصالۃ البرائۃ جاری کرتے ہیں۔ جبکہ اخباری صرف شبہہ حکمیہ وجوبیہ میں ان کے ساتھ موافقت رکھتے ہیں۔
۹۔ روایات کے تعارض کی صورت میں اصالۃ البرائۃ؛ اخباری اصولیوں کے برخلاف روایات میں تعارض کے وقت برائت اصلیہ سے تمسک کرتے ہوئے ترجیح کو جائز نہیں سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ استر آبادی کتاب فوائد المدنیۃ میں تحریر کرتے ہیں:
میرا ماننا ہے کہ برائت اصلیہ سے تمسک کرنا بطور کلی اکمال دین سے پہلے تک صحیح تھا لیکن اس کے بعد جب دین اپنے کمال تک پہچ گیا تو برائت کے کوئی محل باقئ نہیں رہ جاتا ہے۔ اس لئے کہ ائمہ علیہم السلام سے منقول متواتر روایات تمام ان مواقع کے لئے جن کی عوام کو ضرورت ہوتی ہے، ہم تک پہچ چکی ہیں اور روز قیامت تک موضوعات کے حقایق ثابت ہو چکے ہیں اور اسی طرح سے دو افراد کے ہر طرح کے اختلافات کی صورت میں حکم بیان کیا جا چکا ہے۔[40]
شیخیہ و اخباریت کا رابطہ
شیخیہ سے اخباریوں کے رابطہ کے سلسلہ میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ اگر بزرگان شیخیہ بذات خود اخباریوں سے کسی بھی طرح کے رابطہ کا انکار کرتے ہیں۔ لیکن ان کے مخالفین شیخیہ و اخباریوں کے درمیان بعض بنیادی رابطہ کے قائل ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ شیخیہ مسلک کی پیدائش اخباری مکتب کے افکار سے متاثر رہی ہے۔[41] اسی طرح سے بعض کا ماننا ہے کہ شیخیہ فرقہ کے افراد نہ پوری طرح سے اصولیوں کے پیرو ہیں اور نہ ہی اخباریوں کے بلکہ ان کا مسلک ان دونوں اصولی و اخباری کے درمیان کا راستہ ہے۔
یوروپی محققین کی توجہ
بیسویں صدی عیسوی کے دوسرے نصف میں اخباریت کے سلسلہ میں یوروپی محققین کی تحقیقات میں اضافہ ہو گیا۔ ۱۹۵۸ عیسوی میں اسکارچہ نے ایک مقالہ میں جس کا عنوان: ایران کے شیعہ امامیہ اخباری اور اصولی کے درمیان مباحثات کے سلسلہ میں تھا۔ اس میں اس نے تفصیل کے ساتھ ان کے آرائ و نظریات پر تنقید و تحلیل پیش کی ہے اور ان دونوں کے درمیان پائے جانے والے بعض اختلافات کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد ۱۹۸۰ ع میں مادلونگ نے ایک مقالہ دائرۃ المعارف اسلام تحریر کیا، جس میں اس نے موضوع کے ضمن میں اخباریت کا تعارف پیش کیا ہے۔[42] کولبرگ نے بھی ۱۹۸۵ عیسوی میں ایک مقالہ اخباریان کے عنوان سے تالیف کیا ہے۔[43]
حوالہ جات
مدرسی طباطبایی، مقدمهای بر فقه شیعه، ص۳۴ کے بعد
مفید، اوائل المقالات، ص۱۹، ۲۳، جم
سید مرتضی، «رساله فی الرد علی اصحاب العدد »، ص۱۸
1/147
شهرستانی، الملل و النحل، ص۲۵۶، ۳۰۰-۳۰۱
مدرسی طباطبایی، مقدمهای بر فقه شیعه، ص۵۷
حر عاملی، امل الآمل، ج۲، ص۲۵۳؛ خوانساری، روضات الجنات، ج۷، ص۳۳
بحرانی، لؤلؤه البحرین، ص۱۱۷
خوانساری، ج۲، ص۹۴.
اعتماد السلطنه، ص۱۳۷؛ مدرس، ج۱، ص۱۹۱ و ۱۹۲، مدرسی طباطبایی، ص۶۱.
خوانساری، ج۲، ص۲۰۲.
کشمیری، نجوم السماء، ص۴۱؛ تنکابنی، قصص العلماء، ص۳۲۱؛ بحرانی، لؤلؤه البحرین، ص۱۱۷
استرابادی، الفوائد المدنیه، ص۲؛ نیز خوانساری، روضات الجنات، ج۱، ص۱۲۰
خوانساری، روضات الجنات، ج۱، ص۱۲۰؛ نیز نک: استرابادی، الفوائد المدنیه، ص۱۱، جم
خوانساری، روضات الجنات، ج۲، ص۲۴۷؛ تنکابنی، قصص العلماء، ص۳۱۰
بحرانی، لؤلؤه البحرین، ص۹۸
خوانساری، روضات الجنات، ج۲، ص۱۲۷ کے بعد؛ نفیسی، تاریخ اجتماعی و سیاسی ایران در دوره معاصر، ص۲۵۰
کشمیری، نجوم السماء، ص۲۷۹؛ تنکابنی، قصص العلماء، ص۲۷۱؛ مدرس، ریحانه الادب، ج۳، ص۳۶۰
کشمیری، نجوم السماء، ص۲۸۳
مامقانی، نقیح المقال، ج۲، ص۸۵
مدرس، ریحانة الادب ج۳، ص۱۱۳
برای نمونه: خوانساری، روضات الجنات، ج۶، ص۸۵
فیض کاشانی، ده رساله، ص۱۹۶
فیض کاشانی، ده رساله، ص۱۶۹-۱۷۰
فیض کاشانی، الکلمات الکمنونه، ص۲۰۹ و ۲۱۵.
57 S, ,.EI
خوانساری، روضات الجنات، ج۳، ص۲۷۰؛ تنکابنی، قصص العلماء، ص۲۶۳
مدرس، ریحانه الادب، ج۴، ص۴۸۹
حر عاملی، وسائل الشیعه، ج۲۰، ص۱۰۵- ۱۱۲.
صالحی، مقدمه بر غنیمة المعاد فی شرح الارشاد (موسوعه) برغانی، ج۱، ص۲۵؛ مدرسی طباطبایی، مقدمهای بر فقه شیعه، ص۶۰
خوانساری، روضات الجنات، ج۲، صص۹۴، ۹۵
مامقانی، تنقیح المقال، ج۲، ص۸۵
خوانساری، روضات الجنات، ج۲، ص۹۴
اعتمادالسلطنه، المآثر و الاثار، ص۱۳۷؛ مدرس، ریحانة الادبف ج۱، ص۱۹۱- ۱۹۲؛ مدرسی طباطبایی، مقدمهای بر فقه شیعه، ص۶۱
خوانساری، روضات الجنات، ج۲، ص۲۰۲
حائری، تشیع و مشروطیت ایران، ص۸۶
صالحی، مقدمه بر غنیمة المعاد فی شرح الارشاد (موسوعه) برغانی، ج۱، ص۲۶
استرآبادی، الفوائد المدنیه، ص۴۰
دزفولی، «فاروق الحق »، ص۳ به بعد؛ خوانساری، روضات الجنات، ج۱، صص۱۲۷-۱۳۰؛ : امین، اعیان الشیعه، ج۳، ص۲۲۳
استرآبادی، الفوائد المدنیه، ص۱۰۶
رازی، آثار الحجه، ج ۱، ص ۱۶۸
: S , 2.EI
رجوع کریں: ایرانیکا
منابع
استرابادی، محمد امین، الفوائد المدنیه، چ سنگی.
امین، محسن، اعیان الشیعه، به کوشش محسن امین، بیروت، ۱۴۰۳ق.
اعتماد السلطنه، محمد حسن، المآثر و الاثار، چ سنگی، کتابخانه سنائی.
بحرانی، یوسف، لؤلؤه البحرین، به کوشش محمد صادق بحرالعلوم، قم، مؤسسه آل البیت.
تنکابنی، محمد، قصص العلماء، تهران، ۱۳۶۹ق.
حائری، عبدالهادی، تشیع و مشروطیت ایران، تهران، ۱۳۶۰ش.
حر عاملی، محمد، امل الامل، به کوشش احمد حسینی، نجف، ۱۳۸۵ق.
وہی، وسائل الشیعه، بیروت، ۱۳۸۹ق.
خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات، قم، ۱۳۹۱ق.
دزفولی، فرج الله، «فاروق الحق »، در حاشیه حق المبین.
رازی، محمد، آثار الحجه، قم، ۱۳۳۲ق.
سید مرتضی، علی، «رساله فی الرد علی اصحاب العدد »، رسائل الشریف المرتضی، قم، ۱۴۰۵ق، ج۲.
شهرستانی، محمد، الملل و النحل، به کوشش محمد بن فتح الله بدرانی، قاهره، ۱۳۵۷ق /۱۹۳۶م.
صالحی، عبدالحسین، مقدمه بر غنیمة المعاد فی شرح الارشاد (موسوعه) برغانی، تهران، مطبعه احمدی.
فیض کاشانی، محسن، ده رساله، به کوشش رسول جعفریان، اصفهان، ۱۳۷۱ش.
فیض کاشانی، محسن، الکلمات المکنونه، تصحیح و مقدمه ابراهیم احمدیان، پایان نامه کارشناسی ارشد دانشگاه تهران، ۱۳۷۷ش.
قزوینی رازی، عبدالجلیل، نقض، به کوشش جلال الدین محدث ارموی، تهران، ۱۳۳۱ق.
کشمیری، محمدعلی، نجوم السماء، چاپخانه جعفری، ۱۳۰۳ق.
مامقانی، عبدالله، تنقیح المقال، نجف، ۱۳۵۰ق.
مدرس، محمد علی، ریحانه الادب، تبریز، ۱۳۴۶ق.
مدرسی طباطبایی، حسین، مقدمهای بر فقه شیعه، ترجمه محمدآصف فکرت، مشهد، ۱۳۶۸ش.
مفید، محمد، اوائل المقالات، قم، ۱۴۱۳ق.
نفیسی، سعید، تاریخ اجتماعی و سیاسی ایران در دوره معاصر، تهران، ۱۳۳۵ش.
انگریزی منبع
EI2,S,Iranica.
تالیف: محققین کی ایک جماعت
ترجمہ: سید اعجاز موسوی (قم المقدسہ)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں