جمعہ، 29 جون، 2018

عزاداری اور گریہ و بکا دین و شریعت اور سیرت پیغمبرؐ کے آئینہ میں

عزاداری اور گریہ و بکا 
دین و شریعت اور سیرت پیغمبرؐ کے آئینہ میں 
سید محمد حسنین باقری
نواسۂ رسول ؐ، فرزند بتولؑ،سید الشہداء حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کی عزاداری شعائر الہی کی تعظیم کا نمونۂ کامل اور پیرویٔ قرآن ہے اس لئے کہ ارشاد الہی ہے :’’وَمَنْ یُعَظِّمْ شَعَائِرَ اﷲِ فَإِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوب‘‘(۱)یہ ایسا عمل جسے ہر دور میں انجام دیا جاتارہا ہے اور قیامت تک انجام دیا جاتا رہے گا اس لئے کہ عزاداریٔ سید الشہدائؑ ،ظلم کے خلاف آواز، ظالم سے نفرت اور مظلوم سے حمایت کا اعلان ہے :یہ عزاداری سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور سیرت اصحاب و تابعین ہے ؛یہ عزاداری حق کی جیت اور باطل کی شکست کا اعلان ہے ،یہ عزاداری کمزوروں اور مستضعفین کو قوت عطا کرنے والی ہے۔
مسلمان اسی لئے عزائے حسین ؑ برپا کرتا ہے کہ اسے معلوم ہے کہ آج اسلام کا نام باقی ہے اسی شہادت حسین ؑ کی وجہ سے اگر قربانیٔ حسینؑ نہ ہوتی تو نہ اسلام ہوتا نہ مسلمان ،اگر اسلام ہوتا بھی تو اسلام یزیدی ہوتا اسلام محمدی ہرگز نہ ہوتا ۔پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نواسے نے اپنے نانا کے دین کو بچانے ہی کے لئے قربان گاہ میں قدم رکھا اور آواز دی:میرا یہ قیام دین محمدی کی حفاظت کے لئے ہے میرے قیام کا مقصد:  ’’وَ أَنِّی لَمْ أخْرُجْ أَشِرًا وَ لا بَطِرًا وَ لا مُفْسِدًا وَ لا ظَالِمًا وَ اِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِصلاحِ فِی أُمَۃِ جَدِّیْ صلیّ اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم   أُرِیْدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَنْہٰی عَنِ الْمُنْلکَرِ وَ أَسِیْرُ بِسِیْرِۃِ جَدِّی وَ أَبِی عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبؑ(۲)۔(میں ظلم و فساد برپا کرنے کے لئے نہیں نکلا ہوں میرے قیام کا مقصد نانا کے دین کی حفاظت اور اس کی اصلاح ہے میں احکام الہی کا نفاذ چاہتا ہوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے نکلا ہوں میں چاہتا ہوں کہ اپنے نانااور والد گرامی کی سیرت کو زندہ کروں اور اس پر عمل پیرا ہوں)۔
جب امام حسین ؑنے اس عظیم مقصد کے لئے راہ خدا میں اپنا سب کچھ لٹا دیا تو آج ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اس یاد کو زندہ رکھتے ہوئے حسینی مشن کو آگے بڑھاتے رہیں اور عزائے حسین علیہ السلام کے ذریعہ اسلام کی کامیابی اور باطل کی شکست کا اعلان کرتے رہیں ۔عزاداری کی مخالفت کا راز بھی یہی ہے کہ باطل نہیں چاہتا دشمنان اسلام کے چہرے بے نقاب ہوں اور اسلامی مشن کو دوام ملے ۔دشمن عزا کو معلوم ہے کہ جب تک یہ عزاداری باقی ہے اسلام حقیقی باقی رہے گا ۔جب تک حسین ؑ کا نام زندہ ہے اس وقت تک پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نام بھی زندہ رہے گا ۔جب تک کربلا کا تذکرہ ہوتا رہے گا اس وقت تک اسلام کا تذکرہ بھی ہوتا رہے گا۔لہذا آئیے اسلام کی بقا کے لیے عزاداری کی حفاظت کریں ،نام محمدی کی حفاظت کے لیے حسین مظلومؑ کی یاد کو زندہ رکھیں،اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لیے عزائے حسین ؑ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
عزائے حسینؑ کو ختم کرنے کی کوششیں ہوئی ہیں اور ہمیشہ ہوتی رہیں گی ،اس کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال ہوئے  ہیں اور ہوتے رہیں گے! یہ الگ بات ہے کہ حق وہی ہے کہ تمام کوششوں کے باوجود بھی جس کی لَو مدھم نہ پڑے،تمام مخالفتوں کے باوجود بھی جس میں کسی طرح کی کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا رہے ،جیسا کہ ہوبھی رہا ہے۔
جیسا کہ عرض کیا کہ ہر دور میں اعتراضات ہوتے رہے ہیں اور ہمیشہ انکا جواب دیا گیا ہے ۔آج کوئی ایسا اعتراض نہیں ہے جو نیا ہو یا جسکا جواب نہ دیا گیا ہو لیکن تعجب یہی ہے کہ دشمنان اسلام اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے وہی اعتراضات دہراتے رہتے ہیں ۔ لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بسا اوقات جواب نہ دینے سے معترض اپنے زعم ناقص میں یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ میں نے کوئی بہت بڑی بات کہہ دی ۔بطور مثال ایک نام نہاد دشمن اہلبیت نے ہمیشہ کی طرح اپنے دل کا عناد ظاہر کرنے کے لیے عزاداریٔ سیدالشہداء علیہ السلام کو کم کرنے اور راہ خدا میں آپؑ کی قربانی کی اہمیت گھٹانے کی غرض سے مسلمانوں کو منحرف کرنے کی کوشش کی ۔
اس سلسلے میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ محراب میں اپنی سزا کو پہنچنے والا(بالفرض اگر محراب میں مارا گیا ہو!)، میدان میں پشت فرس پر اللہ کی راہ میں دین کی حفاظت کی خاطرشہید ہونے والے سے کبھی بھی افضل تو کیا اس کے ہم پلہ نہیں ہو سکتاورنہ اگر جگہ ہی معیار ہو تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو بستر ہی پر اس دنیا سے تشریف لے گئے لہذا وہ تو بدرجۂ اولیٰ محراب میں مارے جانے والے سے معاذ اللہ مفضول قرار پائیںگے!؟
اسلام میں یہ ہرگز نہیں دیکھا جائے گا کہ فلاں کس طرح مرا ہے بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون ہے؟ خدا کے نزدیک اس کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ پھر یہ دیکھنا ہے کہ آیا وہ اللہ کی راہ میں شہید ہوا ہے یا اپنی سزا کو پہنچا ہے؟! 
امام حسینؑ کی ذات والاصفات وہ ہے جس کے سلسلے میں ہر انصاف پسند یہ مانتا ہے کہ آپ ؑ اللہ کی راہ میں اور اپنے نانا کے دین کی حفاظت کے لئے شہید ہوئے ،آپ کی شہادت پر انبیاء و اصیاء اور ملائکہ کے علاوہ زمین و آسمان نے بھی گریہ کیا ،آپؑ کی مظلومیت پر اشرف المخلوقات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی روئے  لہذا امام حسین علیہ السلام کی قربانی کا کسی شہید سے بھی مقایسہ نہیں کیا جا سکتا ۔اگر کوئی سید الشہداء ہے تو صرف اور صرف ابو عبد اللہ الحسین ؑ ہیں۔
امام حسین ؑ پر گریہ:-جیسا کہ عرض کیا گیا کہ حضرت اباعبداللہ علیہ السلام کی عزاداری اور آپؑ پر گریہ و بکاء ہمیشہ دشمنوں کے لیے ناگوار رہا اور انھوں نے ہمیشہ اس پر اعتراض اور اس کی مخالفت کی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو امام حسین- کی عزاداری اور آپؑ کے مصائب پر گریہ و زاری ایک طرف تو فطری تقاضوں میں سے ہے جس سے نہ اسلام نے روکا ہے اور نہ کسی مذہب نے ،دوسری طرف یہ عمل پیغمبر   صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت اور صحابہ کی روش ہے ۔حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے شہادت حسینؑ سے قبل ہی صرف خبر سن کر گریہ کیا اور آنسو بہائے ہیں۔ہم ذیل میں قرآن و حدیث اور سنت پیغمبر  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روشنی میں اہل سنت کی معتبر کتابوں سے اس پر نظر ڈالتے ہیں:
الف:گریہ قرآن کی نظر میں:قرآن کریم میںجناب یعقوبؑ کے سلسلے میں ذکر ہوتا ہے:’’ وَتَوَلَّی عَنْہُمْ وَقَالَ یَاأَسَفَی عَلَی یُوسُفَ وَابْیَضَّتْ عَیْنَاہُ مِنَ الْحُزْنِ فَہُوَ کَظِیمٌ ۔ قَالُوا تَاﷲِ تَفْتَأُ تَذْکُرُ یُوسُفَ حَتَّی تَکُونَ حَرَضًا أَوْ تَکُونَ مِنْ الْہَالِکِین‘‘(۳)
(اور یعقوبؑ نے ان لوگوں کی طرف سے منھ پھیر لیا اور روکر کہنے لگے :ہائے افسوس یوسفؑ پر اور اس قدر روئے کہ ان کی آنکھیں صدمہ سے سفید ہوگئیں ۔وہ تو بڑے رنج کے ضابط تھے ۔یہ دیکھ کر ان کے بیٹے کہنے لگے کہ آپ تو ہمیشہ یوسف ؑکو یاد ہی کرتے رہیے گا یہاں تک کہ بیمار ہو جائیے گا یا جان ہی دے دیجیے گا ۔)
طبری نے اس آیت کی تفسیر میں یوں نقل کیا ہے کہ حضرت یعقوب ؑسے جناب یوسف ؑکے فراق کا عرصہ ۸۰؍سال تھا ، اس مدت میں مسلسل جناب یعقوب ؑروتے رہے یہاں تک کہ آپؑ کی آنکھیں سفید ہوگئیں جبکہ جناب یعقوب ؑیہ بھی جانتے تھے کہ جناب یوسفؑ زندہ ہیں۔(۴)
طبری ہی نے جناب آدمؑ کے سلسلے میں لکھا ہے کہ : جب آدم ؑکے بیٹے کو اس کے بھائی نے قتل کردیا تو جناب آدمؑ نے اس پر گریہ کیا ۔(۵)
ب:گریہ سیرت رسول  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلممیںحضور اکرمؐ کی زندگی میں متعدد مواقع ایسے آئے کہ آپؐ نے گریہ فرمایا یہاں تک کہ بعض مواقع پر دوسروں سے بھی رونے کے لئے کہا۔ذیل میں اہل سنت کی کتابوں سے بعض موارد پیش کیے جارہے ہیں : 
رسولؐ شہدائے احد اور جناب حمزہؑ کی شہادت پر روئے اور دوسروں سے بھی رونے کے لئے کہا ۔(۶)اور پیغمبر  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا ؐ کے لئے نقل ہوا ہے کہ ہر جمعہ کو اپنے چچا حمزہؑ کی قبر کی زیارت کرتیں اور کنار قبر نماز پڑھتیں و گریہ کرتی تھیں(۷)
 اپنے داداجناب عبد المطلبؑ کی وفات پر گریہ کیا۔(۸)
جنگ موتہ کے شہیدوں پر روئے(۹)۔
جناب جعفر بن ابی طالبؑ کی شہادت پر گریہ کیااور دوسروں سے گریہ کے لئے کہا(۱۰)
اپنی ماں کی قبر پر گریہ کیا ۔(۱۱)
فاطمہؑ بنت اسدؑ کے دنیا سے گزرجانے پر روئے ۔(۱۲)
عبد اللہ بن مظعون کی میت پر گریہ کیا ۔(۱۳)
زید بن حارثہ کی شہادت پر گریہ کیا(۱۴)
اپنے بیٹے ابراہیم کی وفات پر روئے(۱۵)
اپنے ایک نواسے کی جدائی پر روئے(۱۶)
اپنے بعض اصحاب مثلا عبد الرحمن ابن عوف ،سعد ابن ابی وقاص اور عبد اللہ ابن مسعود کے ساتھ سعد ابن عبادہ کی عیادت کے لئے گئے وہاں آپؐ نے اور آپ کے اصحاب نے گریہ کیا(۱۷)۔
پیغمبرؐ کی وفات پر اصحاب کا گریہ:پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ کے غم میں زمین و آسمان بھی مغموم ہوئے ،ملائکہ نے غم منایا ،ایسے وقت میں آپؐ کے اصحاب کا آپ پر گریہ کرنا اور غم منانا ایک فطری امر ہے ۔ذیل میں بعض مثالیں پیش ہیں:
قیس نے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جدائی پر مرثیہ پڑھا(۱۸)
اصحاب کے گروہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر آنسو بہائے(۱۹)
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیٹی حضرت زہرا  ؐ نے اپنے بابا کی جدائی پر گریہ کیا(۲۰)
عمر و ابوبکر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر گریہ کیا(۲۱)
اہل سنت کے بزرگوں کے مرنے پر عزاداری و سوگواری:
احمد ابن حنبل کے مرنے پر مسلمانوں نے ان کے سوگ میں گریہ و زاری کی(۲۲)
عالم اہل سنت ’’جوینی‘‘ کی وفات پر بازاروں میں تعطیل ہوئی ،مرثیے کہے گئے۔انکے چار سو شاگرد تھے جنھوں نے ایک سال تک عزاداری منائی،سروں سے عمامے اتار دیے،نوحہ و گریہ کرتے ہوئے جلوس کی شکل میں سڑکوں پر نکلے(۲۳)۔
ابن جوزی کی موت پر عزاداری منائی گئی اور مجلس و ماتم ہوا(۲۴)۔
ابن تیمیہ کے مرنے پر لوگوں نے گریہ و زاری کیا اور آنسو بہائے(۲۵)۔
امام حسین ؑپر آنحضرت ؐ کا گریہ:۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جب جبرئیل امین نے شہادت امام حسین ؑکی خبر سنائی تو آپ ؐنے گریہ کیا۔اس سلسلے میں متعدد روایتیں متعدد راویوں سے وارد ہوئی ہیں ۔ جن بزرگوں سے روایت نقل ہوئی ہے ان میں مندرجہ ذیل اصحاب و ازواج ہیں:ام الفضل بنت حارث(۲۶)،ام المومنین زینب بنت جحش(۲۷)،ام المومنین عائشہ(۲۸)، ام المومنین جناب ام سلمہ(۲۹)،انس ابن مالک(۳۰)
امام حسین ؑپر اصحاب پیغمبر ؐ کا گریہ :روایت میں ہے کہ امام حسین ؑکی شہادت کی خبر سن کر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمے ساتھ آپؐ کے اصحاب نے بھی گریہ کیا (۳۱)
جنگ صفین کے موقع پر کربلا سے گزرتے ہوئے امیر المومنین حضرت علی  ؑاور ابن عباس نے امام حسینؑ پر آنسو بہائے(۳۲)
اس کے علاوہ دیگر جن اصحاب اور بزرگان نے امام حسینؑ پر آنسو بہائے ان میں سے بعض یہ ہیں:انس ابن مالک(۳۳)؛زید ابن ارقم(۳۴)؛ جناب ام سلمہ(۳۵)؛حسن ابن ابوالحسن بصری(۳۶)؛ربیع ابن خُثیم تابعی(۳۷)وغیرہ۔۔۔۔۔
مذکورہ تمام مثالوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی عزیز کے مرجانے پر آہ و بکاء اور گریہ و زاری تقاضائے فطرت ہے جو اسلام کے منافی نہیں ہے اور دنیا سے جانے والے پر آنسو بہانا خلاف اسلام نہیں اور بالخصوص امام حسین ؑ کی عزاداری اور آپ پر آنسوبہانا مطابق اسلام اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت ہے ۔گریہ و بکاء اور عزاداری کی مخالفت سنت رسولؐ کی مخالفت ہے۔ ٭٭٭
(۱)۔سورہ حج: ۳۲
(۲)۔بحارالانوار،ج۴۴،ص۳۲۹،باب۳۷ باب ما جری علیہ بعد بیعۃالناس؛المناقب،ج۴،ص۸۹،فصل فی مقتلہ -۔۔۔
(۳)۔سورۂ یوسف۸۴ و ۸۵
(۴)۔تاریخ طبری ، ج۱، ص۳۷؛
(۵)۔تفسیر طبری ، ج۱۳، ص۳۲۔
(۶)۔السیرۃ الحلبیۃ ، ج۲، ص۲۶۰(حالات جنگ احد،شہادت جناب حمزہ)؛الاستیعاب،ج۱،ص۲۷۵؛مسند،بھامشۃمنتخب کنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال،امام احمد حنبل،ج۲،ص۴۰؛ المستدرک علی الصحیحین،حاکم نیشاپوری،کتاب الجنائز،ج۱،ص۳۸۱؛مغازی،واقدی،ج۱،ص۳۱۵۔۳۱۷؛استیعاب،ابن البرواسد الغابہ،ابن اثیر؛طبقات ابن سعد،ج۳ص۱۱ ،طبع دار صادر بیروت؛امتاع الاسماع،ج۱،ص۱۶۳؛تاریخ طبری،ج۲،ص۵۳۲ طبع مصر؛(حالات جناب حمزہ)تاریخ طبری،ج۲،ص۲۷۔
(۷)۔سنن بیہقی،ج۴،ص۷۸۸؛مستدرک الصحیحین حاکم نیشاپوری،ج۱،ص۳۷۷۔
(۸)۔تذکرۃ الخواص ، ص۷۔
(۹)۔صحیح بخاری،ج۲،ص۲۰۴،کتاب فضائل الصحابہ،باب مناقب خالد؛البدایہ والنہایہ ،ابن کثیر،ج۴،ص۲۵۵؛سنن الکبری،بیہقی،ج۴،ص۷۰؛انساب الاشراف،ج۲،ص۴۳؛شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،ج۱۵،ص۷۳۔
(۱۰۔کامل ابن اثیر ، ج۲، ص۹۰؛اسد الغابہ،ج۲،ص۲۸۹؛الاستیعاب،ج۱،ص۲۲۱؛الاصابہ(زندگانی جعفر ابن ابی طالبؑ)۔
۱۱۔صحیح مسلم ، ج۲، ص ۶۷۱، کتاب الجنائز ، باب ۳۶، ح۱۰۸؛مسند احمد حنبل،ج۲،ص۴۴۱؛سنن نسائی،ج۴،ص۹۰،کتاب الجنائز؛سنن ابن ماجہ،ج۱،ص۵۰۱،حدیث۱۵۷۲۔ (۱۲)۔ذخائر العقبی، ص ۵۶۔
(۱۳)۔جامع الاصول،محمد ابن اثیر جزری،ج۱۱،ص۹۵،نمبر۸۵۶۶فی الجنائز باب تقبیل ا  لمیت وقال الترمذی :حدیث حسن صحیح و فی الباب عن ابن عباس و جابر و عائشہ:’’انّ ابا بکر قبّل النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم و ھو میّت‘‘۔
(۱۵)۔صحیح بخاری،ج۱،ص۱۵۸؛صحیح مسلم ،ج۴،ص۱۸۰۸،کتاب الصبیان؛سنن ابن داؤد،ج۳،ص۱۹۳،باب البکاء علی ا  لمیت؛سنن ابن ماجہ،ج۱،ص۵۰۷ وص۴۷۳،کتاب الجنائز؛سنن ترمذی،ج۴،ص۲۲۶،کتاب الجنائز،باب الرخصۃ فی البکاء علی ا  لمیت،۔
(۱۶)۔صحیح بخاری،کتاب الجنائز،باب قول النبی  ﷺ ’’یعذب ا  لمیت ببعض بکاء اہلہ‘‘؛کتاب المرضی ،باب:عبادۃ الصبیان،ج۴،ص۳ و۱۹۱؛کتاب التوحید،باب انّ رحمۃ اللہ قریب من المحسنین؛صحیح مسلم،کتاب الجنائز،باب البکاء علی ا  لمیت،ج۲،ص۶۳۶،حدیث۱۱؛سنن ابی داؤد،کتاب الجنائز،باب البکاء علی ا  لمیت ،ج۳،ص۱۹۳،حدیث ۳۱۲۵؛سنن نسائی،ج۴،ص۲۲،کتاب الجنائز،باب الامر بالاحتساب والصبر؛مسند احمد حنبل،ج۵،ص۲۰۴و۲۰۶ و۲۰۷۔
(۱۷)۔صحیح مسلم،ج۲،ص۶۳۶،کتاب الجنائز،باب ۶۔
(۱۸)۔الاصابۃ فی تمییز الصحابہ،ابن حجر عسقلانی،ج۳،ص۲۵۳،نمبر ۷۲۶۳،حرف قاف(البتہ بہت سے اصحاب نے پیغمبر  ﷺ کی وفات پر مرثیہ پڑھا ۔مزید اطلاع کے لئے ’’الاصابۃ‘‘دیکھیے
(۱۹)۔اسد الغابہ،ج۵،ص۱۰۲؛جامع الاصول ،ابن اثیر جزری،نمبر۸۵۳۴سنن نسائی،ج۴،ص۱۳ فی الجنائز،باب فی بکاء علی ا  لمیت۔
(۲۰)۔مختصر حیاۃ الصحابہ،دہلوی،ص۲۸۵؛ارشاد الساری فی شرح بخاری،ج۲،ص۴۰۶؛مستدرک علی الصحیحین،حاکم نیشاپوری،ص۳۷۷،کتاب الجنائز۔
(۲۱)۔دلائل النبوۃ،ابوبکر بیہقی،ج۷،ص۲۶۶،باب ماجاء فی عظم المصیبۃ بوفاۃ رسول اللہ  ﷺ؛صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابہ،فضائل ام ایمن ،حدیث ۱۰۳؛حلیۃالاولیاء،ابونعیم اصفہانی،ج۲،ص۶۷،نمبر۱۴۷؛سنن ابن ماجہ،کتاب الجنائز،حدیث۱۶۳۵،ج۱،ص۵۳۴۔ 
(۲۲)۔تاریخ بغداد،خطیب بغدادی،ج۴،ص۴۲۳۔
(۲۳)۔سیر اعلام النبلاء،ذہبی،ج۱۸،ص۴۶۸۔
(۲۴)۔سیر اعلام النبلاء،ج۱۸،ص۳۷۹۔
(۲۵)۔تاریخ ابن کثیر،ج۱۴،ص۱۲۸۔
(۲۶)۔مستدرک صحیحین ،ج۳،ص۱۷۶ اور اس کا خلاصہ صفحہ ۱۷۹ پر؛تاریخ ابن عساکر،حدیث۶۳۱ اسی سے ملتی جلتی حدیث نمبر ۶۳۰؛مجمع الزوائد،ج۹،ص۱۷۹؛مقتل خوارزمی،ج۱،ص۱۵۹ و ۱۶۲،تاریخ ابن اثیر،ج۶،ص۲۳۰(جلد ۸ صفحہ ۱۹۹ پر بھی اشارہ کیا ہے)؛امالی شجری،ص۱۸۸؛فصول المہمہ، ابن صباغ مالکی،ص۱۴۵؛روض النضیر،ج۱،ص۸۹؛صواعق محرقہ،ص۱۵۵ (بعض میں صفحہ۱۹۰)؛کنز العمال،ج۶،ص۲۲۳(طبع قدیم)،الخصائص الکبری،ج۲،ص۱۲۵۔
(۲۷)۔تاریخ ابن عساکر،حالات امام حسین -،حدیث۶۲۹؛مجمع الزوائد،ج۹،ص۱۸۸؛کنزالعمال،ج۱۳،ص۱۱۲؛تاریخ ابن کثیر،ج۸،ص۱۹۹۔
طبقات ابن سعد،حدیث۲۶۹؛تاریخ ابن عساکر،حالات امام حسین -،حدیث۶۲۷؛مقتل خوارزمی،ج۱،ص۱۵۹؛مجمع الزوائد،ج۹،ص۱۸۷ و۱۸۸؛کنز العمال ،ج۱۳،ص۱۰۸طبع جدید اور ج۶،ص۲۲۳ طبع قدیم ؛الصواعق المحرقہ،ابن حجر،ص۱۵۵؛خصائص السیوطی،ج۲،ص۱۲۵ و۱۲۶؛جوھرۃ الکلام للقرۃ الغولی،ص۱۱۷۔
(۲۸)۔مستدرک صحیحین ،ج۴،ص۳۹۸؛المعجم الکبیر ،طبیرانی،حدیث۵۵؛تاریخ ابن عساکر،حدیث۶۱۹؛طبقات ابن سعد،تحقیق و نشر عبدالعزیز طباطبائی،ص۴۲ ۔۴۴،حدیث۶۲۸؛تاریخ الاسلام ،ذہبی،ج۳،ص۱۱ ؛سیر اعلام النبلاء،ج۳،ص۱۹۴و۱۹۵؛مقتل خوارزمی،ج۱،ص۱۵۸و۱۵۹؛ذخائر العقبی،محب الطبریی،ص۱۴۸و۱۴۹؛تاریخ ابن کثیر،ج۶،ص۲۳۰؛کنز العمال،متقی،ج۱۶،ص۲۶۶۔
(۲۹)۔مسند احمد حنبل،ج۳،ص۲۴۲ و۲۶۵،تاریخ ابن عساکر ،حالات امام حسین -،ح۶۱۵ و ۶۱۷؛معجم الکبیر ،طبرانی،حالات امام حسین -،ح۴۷؛مقتل خوارزمی،ج۱،ص۱۶۰۔۱۶۲؛تاریخ الاسلام،ذہبی،ج۳،ص۱۰ ؛سیر اعلام النبلاء،ج۳،ص۱۹۴؛ذخائر العقبی،ص۱۴۶و۱۴۷؛مجمع الزوائد،ج۹،ص۱۸۷(اور صفحہ ۱۹۰ پر دوسری سند کے ساتھ)؛تاریخ ابن کثیر،باب الاخبار بمقتل الحسین ؑ،ج۶،ص۲۲۹اورج۸،ص۱۹۹؛کنزالعمال،ج۱۶،ص۲۶۶؛الصواع قالمحرقہ،ابن حجر،ص۱۱۵؛الدلائل ابی نعیم،ج۳،ص۲۰۲،الروض النضیر،ج۱،ص۱۹۲؛المواھب اللدنیہ، قسطلانی،ج۲،ص۱۹۵؛ خصائص سیوطی،ج۲،ص۲۵؛ موارد الضمآن بزوائد صحیح ابن حبان،ابوبکر ھیتمی،ص۵۵۴۔ٰ
(۳۰)۔تاریخ ابن کثیر ، ج۱۱، ص ۲۹و ۳۰، تذکرۃ الحفاظ ، ج۲، ص ۱۶۴، کامل ابن اثیر ، ج۵۰، ص ۳۶۴، مستدرک حاکم ، ج۳، ص ۱۷۱، مسند احمد ، ج۳، ص ۳۴۲۔
امام حسین ؑ پر پیغمبر  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے گریہ کے سلسلے میںان منابع کو بھی دیکھا جاسکتا ہے:مستدرک حاکم ، ج۱، ص ۳۶۱؛تاریخ الخمیس،ج۲،ص۷۴؛طبقات الکبری،ج۳،ص۴۷؛صحیح بخاری،ج۱،ص۱۴۸؛صحیح مسلم،ج۴،ص۱۸۰۸،کتاب الصبیان؛سنن ابی داؤد،ج۳،ص۱۹۳،باب البکاء علی ا  لمیت؛سنن ابن ماجہ،ج۱،ص۴۷۳،کتاٰب الجنائز وص۵۰۷؛صحیح بخاری،ج۱،ص۱۵۸؛سنن ترمذی،ج۴،ص۲۲۶،کتاب الجنائز،باب الرخصۃفی البکاء علی ا  لمیت(علمائے اہل سنت کے نزدیک یہ حدیث ’’حسن‘‘ہے)۔
(۳۱)۔مقتل ،ابن جوزی،ج۱،ص۱۶۴۔
(۳۲)۔مقتل خوارزمی،ص۱۶۲،باب ثامن؛تذکرۃ الخواص،ابن جوزی،ص۲۲۵؛کتاب صفین،نصر ابن مزاحم،ص۵۸۔
(۳۳)۔ینابیع المؤدۃ،قندوزی حنفی،ص۳۸۹ بنقل از ترمذی۔
(۳۴)۔اسد الغابہ،ج۲،ص۲۱؛سیر اعلام النبلاء،ج۳،ص۳۱۵؛کامل ابن اثیر،ج۳،ص۴۳۴۔
(۳۵)۔صواعق محرقہ،ص۱۹۶۔
(۳۶)۔تذکرۃ الخواص،ص۲۶۵؛انساب الاشراف،ج۳،ص۲۲۷؛المعجم الکبیر،ج۳،ص۱۲۷۔
(۳۷)۔تذکرۃ الخواص،ص۲۶۸۔٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں