باسمہ تعالیٰ
حضرت فاطمہ ع مکمل نمونہ عمل
سید محمد حسنین باقری، لکھنؤ
صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، پیغمبر اکرم ﷺ و امّ المومنین حضرت خدیجہ کی اکلوتی بیٹی، امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی رفیقۂ حیات اور امام حسن و امام حسین و جناب زینب و جناب ام کلثوم( اور جناب محسن) ؊ کی مادر گرامی اور نو اماموں کی جدۂ ماجدہ ہیں۔
اسم گرامی ’’فاطمہ‘‘ کا انتخاب قدرت نے اس لئے کیا تھا کہ آپ اپنی پیروی و محبت کرنے والوں کو آتش جہنم سے نجات دلانے والی ہیں (قال رسولُ اللّهﷺ: إنَّما سُمِّيَت ابنَتي فاطِمَةُ لأنَّ اللّه َ عزّ و جلّ فَطَمَها وفَطَمَ مَن أحَبَّها مِنَ النَّارِ.(أمالي الطوسي : ۳۰۰ .)یا اس لئے کہ آپ کی عظمت ومنزلت تک کسی عام انسان کی رسائی ناممکن ہے۔(قال الصادقؑ: اِنَّما سُمّیتْ فاطمۃ لانّ الخلْق فُطِمُوا عن مَعْرِفَتِھا(تفسیر فرات کوفی،ص۵۸۱؛ بحار۴۳؍۶۵)
القاب: زہرا، سیدۃالنساء، صدیقہ، طاہرہ،مبارکہ، زکیہ، راضیہ، مرضیہ، شہیدہ، مظلومہ، مقہورہ، مغصوبہ، بتول، محدّثہ اور بضعۃالرسول وغیرہ ہیں۔
ولادت باسعادت جمعہ کے دن ۲۰؍جمادی الاخریٰ ۵ بعثت کو مکہ مکرمہ میں ہوئی۔
پانچ برس کی عمر میں ۱۰ بعثت میں ۱۰ رمضان المبارک کو آپ کی مادر گرامی ام المومنین حضرت خدیجہؑ کا انتقال ہوگیا۔اسی سال حضرت ابوطالبؑ کا بھی انتقال ہوا۔ اس سال مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت واقع ہوئی۔
یکم ذی الحجہ ۲ ہجری کو حضرت فاطمہؑ کی شادی حضرت علی ؑ کے ساتھ ہوئی۔ حضرت امیرالمومنینؑ نے زرہ فروخت کرکے پانچ سو درہم کامہر شادی سے پہلے ادا کیا ،مہر ہی سے ۶۳ درہم کا جہیز مہیا ہوا۔ شادی کے بعد شوہر کے گھر میں سارے کام خود ہی انجام دیتی تھیںجیسا کہ جب پیغمبر اکرمﷺ نے (شائد دوسروں کے پیغام اور نمونہ عمل کے لئے) گھر کے اندر کے کاموں کو جناب فاطمہؑ اور گھر کے باہر کے کاموں کو حضرت علیؑ سے مخصوص فرمایا، اس مو قع پر حضرت زہرا علیہا السلام نے فرمایا:’’ فَلَا یَعْلَمُ مَا دَاخَلَنِی مِنَ السُّرُوْرِاِلّاللّٰہُ بِاِکْفَاءِ رَسُوْلُ اللہِ تَحَمُّلَ رِقَابَ الرِّجَالِ‘‘.(وسائل الشیعہ ج ۱۴،ص۱۲۳ ،ح۲۵۳۴۱؛۱۔مستدرک الوسائل، ج۱۳ص۴۸ / بحارالانوار، ج۴۳ ص۸۱ و ص۳۱)خداکے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ اس تقسیم سے میں کتنا خوش ہوئی اس لئے کہ میں مردوں کے شانہ بشانہ ہونے سے نجات پاگئی اور نامحرموں کے ساتھ ملنے جلنے اور ان سے ملاقات سے میں بچ گئی ۔
۷ ہجری میں جناب فضہ کے کنیز کے طور پر آنے کے بعد گھر کے سارے کام ایک دن خود کرتی تھیں اور ایک دن جناب فضہ۔جیسا کہ جناب سلمان کہتے ہیں کہ میں گھر میں داخل ہوا دیکھا حضرت زہرا علیہاالسلام بیٹھی ہوئی چکی چلا رہی ہیںاور چکی کے دستہ پر ہاتھوں سے جاری خون لگا ہوا ہے اور ایک طرف امام حسینؑ گریہ فرمارہے ہیں۔ میں نے یہ دیکھ کر کہا :اے بنت رسولؐ آپ کے ہاتھ زخمی ہوگئے ہیں اور یہ فضہ موجود ہیں (لہٰذا ان سے کام کروالیجئے) شہزادیؑ نے فرمایا:’’اَوْصَانِی رَسُوْلُ اللہِ اَنْ تَکُوْنَ الْخِدْمَۃُ لَہَا یَوْماً وَلِیْ یَوْماً فَکَانَ اَمْسِ یَوْمَ خِدْ مِتِہَا وَالْیَوْمُ یَوْمَ خِدْمَتِی‘‘ (دلائل الامۃ، ص۱۴۰؛۲۔دلائل الامامۃ، ص۴۹ / کتاب عوالم، ج۱۱ص۲۰۵)۔پیغمبرؐ اسلام نے مجھ سے وصیت فرمائی ہے کہ ایک دن فضہ گھر کاکام انجام دیں اور ایک دن میں۔ کل فضہ کے کام کا دن تھا اور آج میرے کام کا دن ہے۔یہ اہل بیتؑ کے گھرانے میں غلام نوازی اور انسانیت کا ایک نمونہ۔
شادی کے بعد حضرت علیؑ نے جناب فاطمہ زہراؑ کے بارے میں فرمایا کہ ’’میں نے ان کو خدا کی عبادت میں بہترین مددگار پایا‘‘۔گویا بیوی کو اپنے شوہر کے لئے عبادت خدا میں بھی مددگار ہونا چاہئے۔
آپ نے عورتوں کی معراج ’پردہ‘ کو بتایا اور خود بھی ہمیشہ اس پر عامل رہیں اور پردہ کرکے رہتی دنیا تک کے لئے ایک آئیڈیل اور نمونۂ عمل چھوڑ گئیں کہ عورت کی عزت و آبرو اور اس کی واقعی اہمیت و عظمت اور اس کا وقار و کامیابی اس کے پردہ ہی میں ہے۔
فرماتی ہیں:’’ خَیْرٌلَلنِّسَاءِ اَن لَا یَرَیْنَ الرِّجَالَ وَلَا یَرَاہُنَّ الرِّجَالُ‘‘.(کشف الغمہ، ج۲ص۲۳ / مکارم الاخلاق، ج۱ص۲۶۷ / بحارالانوار، ج۱۰۱ص۳۶)
ایک عورت کے لئے سب سے بہتر اور سب سے اچھا یہ ہے کہ کوئی (نامحرم) مرد اس کو نہ دیکھے اور نہ وہ کسی (نامحرم) مرد کی طرف نگاہ کرے ۔
دوسری جگہ فرمایا:اَدْنیٰ مَا تَکونُ مِنْ ربِّھا ان تلزمَ قَعرَ بیتِھا ۔
( بحارالانوار، ج 43، ص 92؛ ج 100، ص 250؛ مناقب ابن مغازلي، ص 381؛ مقتل خوارزمي، ص 62. )
جس وقت عورت اپنے گھر میں امور خانہ داری اور اپنے بچوں کی تربیت میں مشغول ہوتی ہے اس وقت وہ خدا سے بہت قریب ہوتی ہے۔
زندگی کے کسی بھی رُخ پر کمی کا تصور نہ پایا گیا۔ باپ کا بھی خیال، شوہر کی بھی خدمت اور بچوں کی تربیت، ساتھ ہی ساتھ گھریلو ذمہ داریاں، عبادت الہی میں توجہ اور اس کی بجاآوری، دینی و سماجی امور پر توجہ اور ان کی انجام دہی۔ اگرچہ عورت کےلئے ایک ساتھ سارے پہلؤں پر توجہ دینا بہت سخت ہوتا ہے لیکن حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام نے کسی بھی طرف ذرہ برابر کمی نہ آنے دی اور عورتوں کےلئے مثال قائم کردی کہ تمام حالات میں اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دیا جاسکتا ہے۔آپ نے بظاہر اقتصادی و مالی مشکلات میں گھر کا انتظام بہت ہی اچھے انداز سے چلانے کا نمونہ بھی پیش کیا۔ ساس بہو کے رشتوں میں بھی کبھی تلخی نہ آنے دی، اپنی طرف سے کسی کو بھی ذرہ برابر شکوہ کا موقع نہیں دیا۔
آپ کی عظمت و منزلت کو جہاں سورۂ کوثر، سورۂ دہر، آیۂ تطہیر، آیۂ مباہلہ وغیرہ نے بیان کیا وہیں حدیث قدسی میں ارشاد خداوندی ہے:
’’یَا أحمدُ لَولاكَ لَمَا خَلَقْتُ الأفلاكَ، ولَولا عليٌّ لما خلقتك، ولولا فاطمة لما خلقتكما‘‘.
(کشف اللآلي، للعرندس ،السيد مير جہاني فی الجنۃ العاصمۃ، والعلامۃ المرندي في (ملتقۃ البحرين): ص14، و(مستدرک سفينۃ البحار): ج3 ص334، (عوالم العلوم): ص26 عن (مجمع النورين)، و(من فقہ الزہراء (عليہا السلام): ج1 ص19.)
اے احمدؐ! اگر آپ نہ ہوتے میں زمین و آسمان کو خلق نہ کرتا، اگر علیؑ نہ ہوتے آپ کو پیدا نہ کرتا اور اگر فاطمہؑ نہ ہوتیں میں آپ دونوں کو پیدا نہ کرتا۔
پیغمبر رحمتﷺ نے بھی اپنے قول و عمل سے دنیا کے سامنے حضرت فاطمہؑ کے فضائل و مناقب اور عظمت و اہمیت کو بیان کیا۔ ایک دو نہیں متعدد حدیثیں عالم اسلام کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں مثلا: معتبر کتابوں میں حضرت عائشہ سے یہ جملہ انتہائی عظمت و منزلت کو ظاہر کر رہا ہے:
مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَشْبَهَ سَمْتًا وَهَدْيًا وَدَلًّا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ فَاطِمَةَ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهَا ، كَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَيْهِ قَامَ إِلَيْهَا فَأَخَذَ بِيَدِهَا، وَقَبَّلَهَا، وَأَجْلَسَهَا فِي مَجْلِسِهِ۔۔۔(سنن أبو داود،ح5217وصحیح الترمذي (3872)۔
یعنی رسول اکرمؐ سے ہر اعتبار سے سب سے زیادہ مشابہ فاطمہ زہرا تھیں، اور جب بھی وہ پیغمبرؐ کے پاس آتی تھیں تو نبی اکرمؐ کھڑے ہوجایا کرتے تھے، ہاتھ پکڑتے تھے، بوسہ دیتے تھے، اور اپنی جگہ پر بٹھایا کرتے تھے، یہی برتاؤ فاطمہ زہراؑ بھی نبی کے ساتھ کرتی تھیں۔
اسی طرح بہت سی معتبر کتابوں منجملہ صحاح ستہ میں یہ حدیث موجود ہے کہ پیغمبرؐ نے فرمایا:’’فاطمة بضعة مني فمن اذاها آذاني ومن آذاني آذى الله‘‘یا ’’ فمن اغضبھا اغضبنی‘‘. فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اس کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی، جس نے اسے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا، جس نے مجھے غضبناک کیا اس نے خدا کو غضبناک کیا۔
)صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، باب مناقب اقرباء رسول خداؐ، مناقب حضرت زہراؑ؛ صحیح ابی داود، ج12، باب مکروہات جمع میان زنان؛ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، باب فضائل حضرت زہراؑ؛ صحیح ترمذی، ج 2، ص319 باب فضیلت فاطمہؑ، علامہ امینیؒ نے ’الغدیر‘ ج۷،ص۲۳۲ پر اسی حدیث کو ساٹھ معتبر علمائے اہل سنت سے نقل کیا ہے)۔
اور رسول اکرمؐ کا حضرت فاطمہؑ سے خطاب کہ: انّ اللہ یَغْضِبُ لِغَضبکِ و یرضی لرضاکِ۔ (مستدرک حاکم، ۳؍۱۵۴ و۔۔)
یہ اور اس طرح کی متعدد معتبر و صحیح اور متفق علیہ احادیث کی روشنی میں ثابت ہے کہ حضرت فاطمہؑ کی ناراضگی، خدا و رسولؐ کی ناراضگی ہے۔ حضرت فاطمہؑ کا غضب ناک ہونا، خدا و رسولؐ کا غضبناک ہونا ہے۔ اور حضرت فاطمہؑ کی مرضی ہی خدا و رسولؐ کی مرضی ہے۔
رسول اکرمؐ کی طرح علم الٰہی کے حامل، پیغمبر ؐ کے حقیقی جانشین، زمین پر خدا کی حجت اور نمائندہ الٰہی یعنی ائمہ معصومین علیھم السلام نے پیغمبرؐ کی طرح حضرت زہراؑ کی عظمت و فضیلت کو اپنے قول و عمل کے ذریعہ پیش کیا ہے مثلاً:امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: هي الصديقةُ الكبرى وعلى معرفتِها دارت القرون الأولى۔(بحار ۱۰۵؍۴۳، ح۱۹؛ امالی طوسیؒ)۔
یہی صدیقۂ کبری ہیں اور آپ کی معرفت و شناخت پر ہی گذشتہ کے ادوار گردش کر رہے ہیں ۔
امام حسن عسکري؈ نے فرمایا:’’ نَحْنُ حُجج الله على خلقه ، وجّدتنا فاطمة عليها السلام حُجّة الله علينا‘‘۔(تفسير أطيب البيان۱۳؍۲۲۶)
ہم ائمہؑ اللہ کی تمام مخلوقات پر اس کی حجت ہیں اور ہماری جدۂ ماجدہ حضرت فاطمہ ہمارے اوپر حجت ہیں۔
امام زمانہ ؑ کا ارشاد گرامی ہے:فِی ابنَةِ رَسولِ اللَّهِ لي أُسوَةٌ حَسَنَةٌ۔ رسولؐ کی بیٹی میں میرے لئے اسوۂ حسنہ ہے۔
( الغیبۃ، شیخ طوسی، ص286، ؛ الاحتجاج، طبرسی، ج 2، ص 537، ( ») ; بحارالانوار، ج 53، ص 180.)۔
خدا و رسولؐ کو غضبناک کرنے اور اذیت دینے کے سلسلے میں ارشاد الٰہی ہے:’’یقینا جو لوگ خدا اور اس کے رسول کو ستاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہے اور خدا نے ان کے لئے رسوا کن عذاب مہیاّ کر رکھا ہے‘‘۔(سورہ احزاب، آیت ۵۷)
اس کے علاوہ سورہ توبہ، آیت ۶۱؛سورہ ممتحنہ، آیت۱۳؛سورہ طٰہٰ، آیت ۸۱ وغیرہ بھی اس سلسلے میں صریح ہیں۔
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم غور و فکر کریں اور قرآن و حدیث و سیرت پیغمبر اکرمؐ کو سامنے رکھتے ہوئے حقیقی اسلام کو پہچاننے کی کوشش کریں تاکہ آخرت میں کف افسوس ملنا نہ پڑے، وہ کام کریں جس سے خدا و رسولؐ راضی ہوں اور ہر اس کام سے پرہیز کریں جو خدا و رسول کی نارضگی کا سبب ہے، وہی راستہ اختیار کریں جو خدا و رسولؐ کا راستہ ہے اور قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؑ حق تھیں، ان کا ہر قدم حق تھا، ان کا ہر اقدام حق تھا، انھوں نے جو عمل بھی انجام دیا وہی سو فیصد صحیح تھا، انھوں نے جو راستہ اپنایا صرف وہی حق ہے، وہی صحیح ہے۔پیغمبر اکرمﷺ کے بعد جس کو حضرت فاطمہ ؑ نے اپنا امام و رہبر تسلیم کیا ہم نے اسی کو مانیں اور یہ ثابت و مسلّم ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؑ نے پیغمبرؐ کے بعد صرف اور صرف حضرت علی علیہ السلام کو اپنا امام و رہبر اور بطور جانشین تسلیم کیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ جب آپ نے کامیابی کا معیار بتایا تو فرمایا:
إنَّ السَّعیدَ كُلَّ السَّعیدِ، حَقَّ السَّعیدِ مَنْ احَبَّ عَلیّا فى حَیاتِهِ وَ بَعْدَ مَوْتِهِ،, وان الشقي كلّ الشقي حق الشقي من ابغض عليا في حياته و بعد وفاته۔
ینابیع المودۃ ۱؎ ۳۷۶؛شرح نهج البلاغه ابن ابى الحدید:ج2، ص 449 )40.؛;المتقي الهندي ج13 ص 145 حديث36458 ، ؛بحار الانوار 27: 74/1.)
بیشک سب سے بڑا سعادت مند اور خوش نصیب شخص، مکمل طور پر کامیاب ،جسے حق ہے کامیابی کا وہ ہے جس نے علیؑ سے ان کی زندگی اور مرنے کے بعد محبت کی ۔اور بد بخت و بد نصیب ہے مکمل طور پر شقی ہے، جسے حق ہے بدبختی کا وہ ہے جو علیؑ سے زندگی میں یا مرنے کے بعد دشمنی رکھے۔
صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہؑ کے سلسلے میں صحیح بخاری جیسی مسلمانوں کی اہم و معتبر کتاب میں جو جملات ملتے ہیں یہ ہر مسلمان کے قابل غور ہیں کہ وہ حکام وقت سے سخت ناراض تھیں:
فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ مِنْ ذَلِكَ فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم سِتَّةَ أَشْهُرٍ فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ لَيْلا وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ فَصَلَّى عَلَيْهَا عَلِيٌّ۔(صحيح البخاري – البخاري – ج 5 – ص 82 – 83)
البتہ یہ بات صرف صحیح بخاری ہی نہیں بلکہ بہت سی معتبر و مشہور کتب اہل سنت میں موجود ہے ، یہ جملہ:قال فهجرته فاطمة فلم تكلمه حتى ماتت،(حضرت فاطمہؑ نے خلیفہ اول سے ناراض ہوکر ان سے قطع تعلق کرلیا اور مرتے وقت تک ان سے بات نہیں کی) مندر جہ ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
(صحيح بخاری،ج۸،ص۳ ؛صحيح مسلم ،ج۵، ص۱۵۳۔۱۵۴؛السنن الکبری، بیہقی،ج۶،ص۳۰۰؛عمدۃ القاري،عينی، ج۱۷،ص۲۵۷۔۲۵۹ ؛صحيح ابن حبان،ج۱۱،ص۱۵۲۔۱۵۳؛شرح نہج البلاغہ – ابن أبی الحديد، ج۶،ص۴۷۔۵۱؛ الطبقات الکبری، – محمد بن سعد،ج۲،ص۳۱۵؛تاريخ المدينہ، – ابن شبہ نميری،ج۱،ص۱۹۶)
آخری وقت حضرت فاطمہؑ نے کس انداز سے ان ’’دونوں‘‘ سے اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا اس کے لئے مندرجہ ذیل کتابوں میں ہم مراجعہ کریں:
(بحار، ج۲۸ص۳۰۳ / دلائل الامامۃ، ج۱ص۴۵ وص۱۴ / الامامۃ والسیاسۃ، ابن قطیبہ دینوری، ج۳ص۱۲ و ۱۴تحقیق زینی،ج۱، ص۲۰)
لیکن اس عظمت و جلالت اور صریحی آیات و احادیث اور عمل رسولؐ کے بعد بھی نتیجہ کیا ہوا؟!!رسول اکرمؐ کے بعد حضرت فاطمہ زہراؑ کے ساتھ کیسا برتاؤ ہوا،کیسا سلوک ہوا؟، باغ فدک زبردستی چھینا گیا، تمام مالی فائدے بند کردئے گئے، خلیفۂ وقت نے صدیقۂ طاہرہؑ کے مطالبے کو رد کردیا، دربار خلافت میں جھٹلایا گیا!، حضرت علیؑ کی تکذیب ہوئی، خلیفہ ثانی نے جلتا ہوا دروازہ حضرت فاطمہ ؑ پر گرایا جس سے جناب محسنؑ شکم مادر میں شہید ہوگئے، پسلیاں ٹوٹ گئیں، سینے میں کیل در آئی، پہلو ٹوٹ گیا، خلیفہ ثانی نے تازیانہ مارا جس سے بازو ٹوٹ گیا،جب خلیفہ اول نے مجبور ہوکر فدک کے بارے میں نوشتہ دیا تو دوم نے چھین کر پھاڑ دیا اور سیلی ماری، بستر بیماری پر پڑیں شہادت کے وقت تک اٹھنے کے لائق نہ رہیں، ایسے مصائب ڈھائے گئے کہ ۱۸ ہی سال کی عمر میں سر کے بال سفید ہو گئے، کمر جھک گئی، عصا کے سہارے چلنے پر مجبور ہوئیں، جسم اتنا کمزور ہوا کہ ’’صارت کالخیال‘‘ صرف ایک ڈھانچہ رہ گیا تھا، دعا کرتی تھیں کہ ’’الہی عجّل وفاتی سریعاً‘‘ پروردگار اب سیدہ کو اس دنیا سے اٹھا لے، مرثیہ پڑھا: صبّت علیّ مصائبٌ۔۔۔ بابا آپ کے بعد جو مصائب ڈھائے گئے اگر دنوں پر پڑتے تو تاریک شب میں بدل جاتے۔
آپؑ نے در بار خلافت میں خلفائے وقت کے خلاف اپنے اور علیؑ کے مسلم الثبوت حق کے دفاع کے لئے معرکۃالآرا خطبہ ارشاد فرمایا جسے ’خطبۂ فدک‘ کہا جاتا ہے جو ایک طرف حقانیت اہل بیتؑ و حقانیت امیرالمومنینؑ کی دلیل بھی ہے نیز علیؑ و فاطمہؑ سےدشمنی کرنے والوں کے باطل ہونے اور دشمنِ خدا و رسولؐ ہونے کی دلیل بھی ہے۔
یہ مصائب اور سختیوں کا اظہار ہی تھا کہ آخری وقت وصیت فرمائی:یا علی! انا فاطمة بنت محمد زوجنی الله منک لاکون لک فی الدنیا و الآخرة انت أولی بی من غیری حنطنی و غسلنی و کفنی باللیل و صل علی و ادفنی باللیل و لا تعلم احدا و استودعک الله و اقرء علی ولدی السلام الی یوم القیامة (بحار الانوار، ج ۴۳، ص ۲۱۴؛ بیت الاحزان،ص۱۵۲).
اے علیؑ! میں فاطمہؐ بنت محمدؐ ہوں! خدا وند عالم نے مجھے آپ کی زوجہ قرار دیا تاکہ دنیا و آخرت میں آپ کے ساتھ رہوں، آپ دوسروں کی بنسبت میرے نزدیک شائستہ تر ہیں۔ ، مجھے شب میں حنوط اور غسل دیجئے، شب ہی میں مجھ پر نماز پڑھئے اور شب ہی میں دفن کیجئے، کسی کو بھی خبر نہ کیجئے، آپ کو خدا کے سپرد کرتی ہوں اور اپنے بیٹوں پر قیامت تک سلام بھیجتی ہوں۔
ایک وصیت یہ تھی:’’ آپ کے جنازے پر ان میں سے کوئی نہ آئے جن سے آپ زندگی میں ناراض تھیں، ان میں سے کوئی آپ کی نماز جنازہ نہ پڑھے اور رات کو جنازہ اٹھایا جائے ۔
چنانچہ اسی وجہ سے حضرت ابوبکر و عمر کو اجازت نہ دی گئی۔ (طبقات ابن سعد الجزء الثامن ذکر فاطمہ صفحہ ۱۹) اور نہ حضرت عائشہ کو اجازت دی گئی۔
( الاستیعاب جلد ۲ صفحہ ۷۷۲)
امام حاکم کا قول ہے کہ:’’حضرت فاطمہ ؐ رات کو دفن ہوئیں، حضرت علیؑ نے غسل دیا جنازہ اٹھایا اور رات کو دفن کیا اور حضرت ابو بکر کو اس کی اطلاع نہ ہوئی۔ (مستدرک الجزء الثالث صفحہ ۱۶۲)
حضرت ابوبکر نے صریحی اعتراف کیا کہ کاش میں نے فاطمہ کے گھر پر حملہ نہ کیا ہوتا، کاش میں نے سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کو قبول نہ کیا ہوتا۔۔۔
(میزان الاعتدال،ذہبی،ج3,109-؛لسان المیزان ابن حجر-ج4-ص889-؛تاریخ طبری-ج3-430))
مظالم و مصائب کا نتیجہ تھا کہ ۱۸ ہی سال کی عمر مبارک میں ۳؍جمادی الاخریٰ یا ۱۳؍ جمادی الاولیٰ ۱۱ ہجری کو جام شہادت نوش کیا، آپؑ کی شہادت کتنی سخت اور عظیم تھی کہ حضرت علیؑ جیسے عظیم المرتبت اور صابر انسان نے بھی جو مرثیہ پڑھا ہے وہ ہر دردمند انسان کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے بالخصوص ہر محبّ علیؑ و فاطمہؑ کو متوجہ کرتا ہے کہ سیدۂ کونینؑ کی المناک شہادت پر شناخت و معرفت کے ساتھ غم منائے اور گریہ و بکا و عزاداری کرے۔
حضرت علی ؑ نے دفن کے وقت جو جملات ارشاد فرمائے:
آپ سے بہت جلد ملحق ہوجانے والی بیٹی کا سلام ہو۔آپ کی برگزیدہ بیٹی کی رحلت سے میرا صبر و شکیب جاتا رہا۔ میری ہمت و توانائی نے ساتھ چھوڑ دیا۔۔۔یہ امانت مجھ سے چھین لی گئی، گروی رکھی ہوئی چیز چھڑا لی گئی، ۔ اب تو میرا غم بے پایان اور میری راتیں بے خواب رہیں گی۔۔۔آپ کی بیٹی آپؐ کو بتائیں گی کہ کس طرح آپ کی امت نے اُن پر ظلم ڈھانے کےلئے ایکا کرلیا، آپ ان سے پورے طور سے پوچھیں اور تمام مظالم و واردات دریافت کریں۔(نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۲۰۰)
اور بنت نبیؐ پر ڈھائے گئے مظالم کی نشانی یہ بھی ہے کہ آج تک اس مظلومہ کی قبر کا صحیح پتہ نہیں ہے، احتمال ہے کہ جنت البقیع میں ہو، لیکن یہ معلوم نہ ہونا اور قبر کا پوشیدہ رہنا ہر رسولؐ کے چاہنے والے کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ بنت نبیؐ پر کیا گزری ؟ انھوں نے یہ وصیت کیوں کی کہ قبر پوشیدہ رہے؟آج تک اس مظلومہ و مقہورہ کی قبر کیوں پوشیدہ ہے؟؟؟!!!
ایسی ذات گرامی جو پوری کائنات کےلئے آئیڈیل اور نمونۂ عمل ہے، ہم کوشش کریں کہ اس صدیقہ طاہرہؑ کو اپنے لئے نمونۂ عمل بنائیں اور آپ کو پہچاننے اور صحیح معرفت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ کنیزان جناب سیدہؑ کو خصوصی طور پر چاہئے کہ شہزادی کو نمونۂ عمل بنائیں ، آپ کے نقش قدم پر چلیں، گھر اور باہر بلکہ ہر جگہ آپ کی ہی سیرت کو اپنائیں، حجاب و پردہ پر خصوصی توجہ دیں، اپنے کو پردہ کا پابند بنائیں،بے پردہ رہ کر حضرت فاطمہ ؑ کو تکلیف پہنچانے سے بچیں۔ گھر میں ماں باپ، ساس سسر، شوہر اور اولاد کے ساتھ وہ طریقہ اپنائیں جو حضرت زہراؑ نے اپنایا تھا ، سب کا خیال رکھیں، سب کے حقوق ادا کریںتاکہ گھر کا ماحول بھی خوش گوار رہے اور گھر جنت نظیر بن جائے۔ اولاد کی تربیت پر خصوصی توجہ دیں، ان کو دین کا پابند بنائیں، ان کی دنیا و آخرت دونوں کی فکر کریں۔اور شہزادی کا یہ پیغام و معیار ہمیشہ اپنی نگاہوں میں رکھیں:’’ اِنْ کُنْتَ تَعْمَلُ بِمَا اَمَرْنَاکَ وَتَنْتَھِی عَمّا زَجَرْنَاک عَنْہُ فَاَنْتَ مِنْ شِیْعَتِنَا وَ اِلَّا فَلَا ‘۔اگر تم ہماری بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہو اور ہماری منع کی ہوئی باتوں سے خود کو بچاتے ہو تو تم ہمارے شیعہ ہو اور اگر ایسا نہیں ہے تو تم ہمارے شیعہ نہیں ہو۔اور مایوسی کا شکار نہ ہوں اس لئے فرمایا ہے:شِیْعَتُنَا مِنْ خِیَارِ اَہْلِ الْجَنَّۃِ وَکُلُّ مُحِبِّیْنَا وَمَوَالِی اَوْلِیائِنَا وَمُعَادِیْ اَعْدَائِنَا وَالْمُسْلِمُ بِقَلْبِہٖ وَلِسَانِہٖ لَنَا لَیْسُوْا مِنْ شِیْعَتِنَا اَذَا خَالَفُوا اَوَامِرِنَا وَنَوَاہِیْنَا فِی سَائِرِ الْمُوْبِقَاتِ وَہُمْ مَعَ ذَالِکَ فِی الْجَنَّۃِ وَلٰکِنْ بَعْدَ مَا یُطَہَّرُوْنَ مِنْ ذُنُوْبِہِمْ بِالْمَلَایَا وَالرَّزَایَا۔اَوْفِی عَرَصَاتِ الْقِیَامَۃِ بِاَنْوَاعِ شَدَائِدِہَا۔اَوْفِی الطَّبَقِ الْاَعْلیٰ مِنْ جَہَنَّمَ بِعَذَابِہَا اِلٰی اَنْ نَسْتَقِذَہُمْ بحُبِّنَا وَنَنْقُلَہُمْ اِلٰی حَضْرَتِنَا۔
ہمارے شیعہ اہل جنت کے بہتر ین افراد میں سے ہیں، ہمارے محب اور ہمارے محبوں کے دوست اور ہمارے دشمنوں کے دشمن سب جنت میں جائیںگے اور یہ وہ ہیں جو لوگ دل وزبان سے ہمارے حکم کی تعمیل کرتے ہیں لیکن جو ہمارے منع کرنے کے باوجود باز نہیں آتے وہ ہمارے سچے شیعہ نہیں ہیں۔یہ لوگ بھی (براہ راست جنت میں نہیں جائیں گے بلکہ) گناہوں سے پاک ہونے، روز قیامت کی مشکلیں برداشت کرنے اور ایک مدت تک جہنم کے طبقہ بالا میں اپنے جہنم کے عذاب کا مزہ چکھنے کے بعد جنت میں جائیں گے اور ان کو ہم اس لئے جنت دلائیں گے کہ وہ ہم سے محبت کرتے ہیں ہم انھیں اپنے سامنے جنت میں منتقل کریں گے۔
( تفسیر امام حسن عسکریؑ ص ۳۰۸؛۱۔بحارالانوار، ج۶۵ص۱۵۵ / تفسیر البرہان، ج۴ص۲۱)
لہذا جب شہزادی کے سہارے نجات کے امیدوار ہیں تو اتنی انسانیت و غیرت کا مظاہرہ ضرور کریں کہ ان کی مخالفت سے اپنے کو بچائیں، وہی سیرت و طریقہ اپنائیں جو صدیقہ طاہرہؑ چاہتی ہیں اور ہر اس کام سے بچیں جو آپؑ کو ناپسند ہے۔
اور یہ دعا کرتے رہیں کہ خدا وند عالم اسی شہزادی کے صدقے میں ان کو ہم سے راضی و خوشنود بنائے اور اسی کے صدقے میں آپ کے بیٹے، جانشین رسولؐ، حضرت حجت ارواحنا لہ الفدا کے ظہور میں تعجیل فرمائے تاکہ وعدۂ الہی پورا ہو، ظلم و ستم کا خاتمہ ہو، امن و امان قائم ہو؛تمام ظالمین کیفر کردار کو پہنچیں اور دنیا عدل و انصاف کا گہوارہ بن جائے۔(آمین یا رب العالمین)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں