پیر، 4 جون، 2018

دعائے ابو حمزہ ثمالی


(عظیم الشان دعائے سحر)
دعائے ابوحمزہ ثمالی ؒ 
سید محمد حسنین باقری،لکھنؤ
 رمضان المبارک میں سحر کے وقت پڑھی جانے والی بلند معنی و مفہوم سے لبریز عظیم الشان دعا امام زین العابدین علیہ السلام کی دعا ہے چونکہ یہ دعا ابو حمزۂ ثمالی کے ذریعہ بیان ہوئی ہے اس لئے ’’دعائے ابو حمزۂ ثمالی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔(آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ إلی تصانیف الشیعہ، ج 8، ص 186، قم، اسماعیلیان، 1408ق.)۔
محدث شیخ عباس قمی ؒ نے اپنی مشہور کتاب ’’مفاتیح الجنان‘‘ میں نقل کیا ہے کہ: ’’مصباح شیخؒ میں ابوحمزہؒ کی روایت ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام ماہ رمضان میں رات کے بیشتر حصہ میں نمازیں ادا فرماتے تھے اور جب وقتِ سحر ہوجاتا تھا تو یہ پڑھتے تھے۔
یہ دعا آل محمد ؑ کے ذریعہ عظمت پروردگار کو بھی بیان کررہی ہے نیز بہت ہی اہم اور ضروری و مفید مطالب پر مشتمل ہے اگر ایک طرف اس میں دعا کا سلیقہ اور طریقہ اور عبد و معبود کے درمیان رابطہ کو بتایا گیا ہے تو دوسری طرف ہمارے لئے بہت سی ضروری و مفید باتیں بھی بیان کی گئی ہیں۔ ’’دعا معصوم نے غیر معصوموں کوتعلیم دی ہے لہٰذا اس میں معبود کےمقابل بندہ کے کمال تذلل کا مظاہرہ ہے ۔معصومین علیہم السلام کی تعلیم کردہ بعض دعاؤں کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ تعلیم کرنے والے تو معصومینؑ ہوتے ہیں لیکن در اصل ان دعاؤں میں ترجمانی غیر معصوموں کی جانب سے ہوتی ہے‘‘۔(ماہنامہ اصلاح ’امام سجادؑ نمبر‘)۔
یقینا یہ دعائیں عظمت و حقانیت اہلبیتؑ کی دلیل بھی ہیں اوردنیا کےلئے صحیح اسلام کی ترجمانی بھی کرتی ہیں۔
 لہذا کوشش ہونا چاہیے کہ اس مبارک مہینہ و قبولیت دعا کے مہینے میں اس اہم دعا سے بھی غافل نہ رہیں ۔ تلاوت و قرائت دعا کے ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ ضرور دیکھیں۔خدا سے دعا ہے ہم سب کو اس مہینہ میں تعلیمات آل محمدؐ پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ قارئین کے استفادہ کے لئے اس دعا کے اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں: 
اس دعا کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے:
إلھِی لاَ تُؤَدِّبْنِی بِعُقُوبَتِکَ، وَلاَ تَمْکُرْ بِی فِی حِیلَتِکَ، مِنْ ٲَیْنَ لِیَ الْخَیْرُ یَارَبِّ وَلاَ یُوجَدُ إلاَّ مِنْ عِنْدِکَ وَمِنْ ٲَیْنَ لِیَ النَّجاۃُ وَلا تُسْتَطاعُ إلاَّ بِکَ لاَ الَّذِیارَبِّ وَلاَ یُوجَدُ إلاَّ مِنْ عِنْدِکَ وَمِنْ ٲَیْنَ لِیَ النَّجاۃُ وَلا تُسْتَطاعُ إلاَّ بِکَ لاَ الَّذِی ٲَحْسَنَ اسْتَغْنی عَنْ عَوْ نِکَ وَرَحْمَتِکَ، وَلاَ الَّذِی ٲَسائَ وَاجْتَرَٲَ عَلَیْکَ وَلَمْ یُرْضِکَ خَرَجَ عَنْ قُدْرَتِکَ، یَا رَبِّ یَا رَبِّ یَا رَبِّ۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے پروردگار !مجھے اپنے عذاب میں گرفتار نہ کرنا، اور مجھے اپنی قدرت کے ساتھ نہ آزمانا، مجھے کہاں سے بھلائی حاصل ہوسکتی ہے اے پالنے والے جب کہ وہ تیرے سوا کہیں موجود نہیں۔ مجھے کیسے نجات مل سکے گی جبکہ اس پر تیرے سوا کسی کو قدرت نہیں، نہ ہی کوئی نیکی کرنے میں تیری مدد اور رحمت سے بے نیاز ہے اور نہ ہی کوئی برائی کرنے والا تیرے سامنے جرأت کرنیوالا اور تیری رضا جوئی نہ کرنیوالاتیرے قابو سے باہر ہے اے پالنے والے اے پروردگار والے اے معبود۔
ہم نے تجھے تیرے ہی ذریعہ سے پہچانا ہے اور تونے ہی ہماری رہبری کی ہے ورنہ تو نہ ہوتا تو ہم کیا جانتے کہ تو کون ہے۔ تعریف ہے بس اس خدا کی جس کو پکارتاہوں تو سن لیتا ہے۔ اگر چہ میں اس کے بلانے پر دیر کرتا ہوں اور تعریف ہے اس خدا کی جس سے عرض حاجت کرتا ہوں اور بلا سفارش راز دل کہتا ہوں تو حاجت روائی کردیتا ہے۔ اگر چہ میں اس کا اہل نہیںہوں۔ 
 میں اس کے علاوہ کسی کو نہیں پکارتا کہ سب رد کردیتے ہیں اور اس کے سوا کسی سے آس نہیں لگاتا کہ سب مایوس کردینے والےہیں۔ 
شکر ہے کہ اس نے اپنے حوالے رکھ کر عزت دی ہے ورنہ لوگوں کے حوالے کردیتا تو لوگ ذلیل کردیتے۔ وہ بے نیاز ہو کر بھی ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم کو یوں برداشت کرتا ہے جیسے ہم نےکوئی گناہ کیا ہی نہیں۔ وہ سب سے زیادہ قابل تعریف اور لائق شکر ہے۔ ۔۔۔
پروردگار!تیرا ہی فرمان ہے اور تو ہی صادق الوعد ہے اور تیرا ہی یہ قول برحق ہے کہ ’’فضل خدا کا سوال کرو ، وہ تمہارے حال پر بڑا مہربان ہے ‘‘۔ اور معبود یہ تیری صفت نہیں کہ سوال کا حکم دے اور پھر عطا نہ کرے جب کہ تو تمام اہل مملکت کو بار بار بلا طلب عطا کرنےوالا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 پروردگار! میری اس دعامیں خوف بھی ہے اور رغبت بھی گناہوں کو دیکھتاہوں تو ڈر جاتا ہوں اور کرم کو دیکھتا ہوں تو پر امید ہوجاتا ہوں۔ 
 معبود ، تو معاف کردے گا تو بہترین رحم کرنےوالا ہے اور عذاب کرے گا تو ظالم نہیںہے بلکہ انصاف کرنےوالا ہے۔ 
میں اپنے برے اعمال کے باوجود تیرے جو د و کرم کے واسطے سے مانگنے کی جرأت کررہا ہوں اور میری بے حیائی کے باوجود میرا سہارا تیری رحمت اور تیری مہربانی ہے۔ ۔۔۔
پروردگار! میں تیرے فضل و کرم کی پناہ لینے کے لئے تیری طرف بھاگ کر آیا ہوں ۔ اب تو اس حسن ظن کی لاج رکھ لے اور اپنے وعدہ ٔمغفرت کو پورا کردے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ 
پروردگار ! اپنی پردہ پوشی سے مجھے عزت دے اور اپنے کرم سے میری تنبیہ کو نظر انداز فرما دے کہ تیرے علاوہ کسی اور کو ان گناہوں کا علم ہوتا تو میں کبھی گناہ نہ کرتا اور تیرے عذاب میں بھی عجلت کا خیال ہوتا تو میں گناہوں سے پرہیز کرتا۔ نہ اس لئے کہ تیری ہستی معمولی اور تیری ذات ناقابل توجہ ہے ( معاذ اللہ ) بلکہ اس لئے کہ تو بہترین پردہ پوش ، کریم، مہربان ، عیوب کا چھپانے والا، گناہوں کا بخشنے والا اور غیب کا جاننے والا ہے۔ تو اپنے کرم سے گناہوں پر پردہ ڈال دیتا ہے اور اپنے حلم سے عذاب کو ٹال دیتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
 اے محسن و منعم ! میرا اعتماد نجات کے بارےمیںاپنے اعمال پر نہیںہے بلکہ تیرے فضل و کرم پرہے۔ تو اہل تقویٰ اور اہل مغفرت ہے، بلا مانگے نعمتیں عطا کرتا ہے اور گناہ بھی بخش دیتا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتاکہ میں کس کس چیز کا شکریہ ادا کروں ۔ نیکیوں کےمشہور کردینے کا یا برائیوں پر پردہ ڈال دینے کا ؟ بہترین عطیوں کا یا مصیبتوں سے نجات دلانےکا؟ اے محبت کرنےوالوں کے دوست اورپناہ گزینوں کی خنکی چشم۔ تو ہمارا محسن ہے اور ہم تیرے گناہ گار ۔ اب ہماری برائیوں کو اپنے رحم و کرم کے ذریعہ در گزر فرما۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروردگار ! جب بھی یہ کہتا ہوں کہ اب میں آمادہ ہوگیا اور تیار ہوکر نماز کےلئے کھڑا ہوگیا اور تجھ سے مناجات شروع کردی تو مجھے نماز میں نیند آنے لگتی ہے اور مناجات میں بےکیفی محسوس ہونےلگتی ہے اور جب بھی یہ سوچتا ہوںکہ اب میرا باطن درست ہوگیا ہے اور میری منزل توابین سے قریب تر ہوگئی ہے تو کوئی نہ کوئی مصیبت آڑے آجاتی ہے اور میرے قدموں میں لغزش پیدا کردیتی ہے اور تیری خدمت کی راہ میں حائل ہوجاتی ہے۔ 
 ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تونے مجھے اپنے دروازے سے ہٹادیا ہے اور اپنی خدمت سے  دور کردیا ہے یا اپنے حق کا خیال نہ کرنےوالا دیکھ کر دربار سے الگ کردیا ہے یا اپنی جانب سے کنارہ کش پاکر مجھے چھوڑ دیا ہے یا جھوٹوں کی صف میں دیکھ کر نظر اندازکردیا ہے یا نعمتوں کا شکر گذار نہ پاکر محروم کردیا ہے۔ یا مجلس علماء سے الگ دیکھ کر ترک کردیا ہے یا غافلوں میںدیکھ کر رحمتوں سے مایوس کردیا ہے یا اہل باطل کا ہم نشیں پاکر انہیں کے حوالےکردیا ہے یا میری آواز کوناگوار قرار دے کر اپنی بارگاہ سے دور کردیا ہے یا میرے جرائم و معاصی کا بدلہ دے دیا ہے، یا میری بے حیائی کی سزا دی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
پروردگار! میں وہی بچہ ہوں جسے تونے پالا ہے۔ میں وہی جاہل ہوں جسے تونے علم دیا ہے۔ میںوہی گمراہ ہوں جسے تونے ہدایت دی ہے۔ میں وہی پست ہوں جسے تونے بلند کیا ہے۔ میں وہی پیاسا ہوں جسے تونے سیراب کیا ہے۔ میںوہی برہنہ ہوں جسے تونے لباس پہنایا ہے۔ میں وہی فقیر ہوں جسے تونے غنی بنایا ہے۔ میں وہی ضعیف ہوں جسے تونے قوت دی ہے۔ میں وہی ذلیل ہوں جسے تونے عزت دی ہے۔ میں وہی مریض ہوں جسے تونے شفا دی ہے۔ میں وہی سائل ہوں جسے تونےعطا کیاہے۔ میں وہی گنہ گار ہوں جس کی تونے پردہ پوشی کی ہے۔ میں وہی خطاکار ہوں جسے تونے سنبھالا ہے ۔ میں وہی نادار ہوں جسے تونے بکثرت عطا کیا ہے۔ میں وہی کمزور ہوں جس کی تونے مدد کی ہے اور میں وہی نکالا ہوا ہوں جسے تونے پناہ دی ہے ۔میں وہی ہوں جس نے تنہائی میں تجھ سے حیا نہیں کی اور مجمع میں تیرا خیال نہیں کیا میرے مصائب عظیم ہیں۔ میں نے اپنےمولا کی شان میںگستاخی کی ہے۔ میں نے آسمان و زمین کے خدائے جبار کی مخالفت کی ہے۔ میں نے گناہ کےلئے رشوت دی ہے۔ میں نے نگاہ کے نام پر تیزی سے سبقت کی ہے۔ 
 میں وہی ہوں جسے تونے مہلت دی ہے تو میں سنبھلا نہیں۔ پردہ پوشی کی ہے تو میں نے حیا نہیں کی ۔ گناہ کئے ہیں تو بڑھتا ہی چلا گیا ، اور تونے نظروں سے گرادیا تو کوئی پرواہ نہیں کی ۔ پھر بھی تونے اپنے حلم سے مہلت دی اور اپنے پردہ سے عیب پوشی کی جیسے کہ تجھے خبر ہی نہیںہے کہ میں کیا ہوں اور مجھے گناہوں کےعذاب سے اس طرح بچایا ہے جیسے کہ تجھے خود شرم آگئی ہے۔ پروردگار ! میں نے جب بھی گناہ کیا ہے۔ تو میں تیری خدائی کا منکر یا تیرے حکم کا معمولی سمجھنےو الا یاتیرے عذاب کےلئے آمادہ یا تیرے وعدہ عتاب کی توہین کرنےوالا نہیں تھا۔ بلکہ صورت حال صرف یہ تھی کہ گناہ سامنےآیا اور نفس نے اسے آراستہ کردیا ۔ خواہشات نے غلبہ پالیا اوربدبختی نے ساتھ دے دیا ۔ تیری عیب پوشی نے سہارا دے دیا اور میں گناہ کر بیٹھا۔  اب توہی بتا کہ میں گناہ کر بیٹھا تو تیرے عذاب سے کون بچاسکتا ہے ؟ اور کل کون چھٹکارا دلاسکتاہےاور اگر تونے نا امید کردیا تو کس سے امید وابستہ کروں گا؟۔ میرےسارے اعمال تیرے نامہ اعمال میں محفوظ ہیں اور اگر تیرے کرم و وسعت رحمت کی امید نہ ہوتی تو میں انہیں یاد کرکے مایوس ہوچکا ہوتا لیکن تو سننے والا اور امیدوں کا بر لانے والا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
 میرے مالک! بندہ مالک کو چھوڑ کر کدھر جائے اور مخلوق خالق کےماسوا کس کی پناہ لے ۔ پروردگار! تو زنجیروں میں جکڑ بھی دےگا اور مجمع عام میں عطا سے انکار بھی کردے گا اور لوگوں کو ہمارے عیوب سے آگاہ بھی کردے گا اور ہمیں جہنم کا حکم بھی دے دے گا اور اپنے نیک بندوں سے الگ بھی کردے گا تو بھی میں تجھ سے امید کو منقطع نہیںکروں گا اورتیری معافی سے آس نہ توڑوں گا اور تیری محبت کو دل سے نہ نکالوں گا اس لئے کہ میںتیری نعمتوں اور پردہ پوشی کو فراموش نہیں کرسکتا۔پروردگار! میرے دل سےمحبت دنیا کو نکال دے اور مجھے اپنے منتخب بندے حضرت خاتم النبیینؐ کے ساتھ قرار دے۔ مجھے منزل توبہ تک پہنچا دے اور توفیق دے کہ میں اپنے نفس کے حالات پر گریہ کر سکوں۔ میں نے اپنی عمر کو خواہشات اور بے جا امیدوں میں برباد کردیا ہے اور اب نیکیوں سےمایوس لوگوں کی منزل میںآگیا ہوں کہ اگر اس عالم میں دنیا سے چلا گیا اور اس قبر میں پہنچ گیا جسے اپنے آرام کےلئے ہموار نہیں کیا اور اس میں عمل صالح کا فرش نہیں بچھا یا تو مجھ سے بدتر حالت والاکون ہوگا۔  میں کیسے نہ روؤں جب کہ مجھے نہیں معلوم کہ میرا انجام کیاہوگا۔ مجھے نفس برابر دھوکہ دے رہا ہے اور روزگار برا بر مبتلائے فریب کئے ہوئے ہے۔ موت کے پر میرے بالائے سر جنبش کررہےہیں۔ میں کیسے نہ روؤں ؟ میں جاں کنی کا تصور کرکے رو رہا ہوں میں قبر کی تاریکی اور لحد کی تنگی کےلئے رو رہا ہوں۔ میں منکر و نکیر کے سوال کےلئے رو رہا ہوں میں اپنی قبر سے برہنہ ، ذلیل اور گناہوںکابوجھ لاد کے نکلنےکے تصور سے رو رہا ہوں۔ جب داہنے بائیں دیکھوں گا اور کوئی پرسانِ حال نہ ہوگا۔ سب اپنے اپنے حال میںپریشان ہوں گے ۔ کچھ نیک بندے ہوں گے جن کے چہرے روشن اورہشاش بشاش ہوں گے تو ( انہیں میری کیا پرواہ) اور کچھ چہرے خود ہی ذلیل اور گر دآلود ہوں گے ( تووہ کیاکریں گے)۔۔۔۔۔۔۔۔
پروردگار! اگر موت قریب آگئی اور اعمال نے تجھ سے قریب نہیں کیا ہے تو اب گناہوں کے اعتراف کو وسیلہ قرار دیتا ہوں کہ تو اگر معاف کردے گا تو تجھ سے زیادہ منصفانہ فیصلہ کرنے والا کون ہے اس دنیا میں میری غربت اور وقت موت میرےکرب قبر میں میری تنہائی اورلحد میں میری وحشت اور وقت حساب میری ذلت پر رحم کرنا اور میرے ان تمام گناہوں کو معاف کردینا جن کی لوگوں کو اطلاع بھی نہیں ہے اورپھر اس پردہ داری کو بر قرار رکھنا۔ 
 پروردگار! اُس وقت میرے حال پر رحم کرنا جب میںبستر مرگ پر ہوں اور احباب کروٹیں بدلوا رہےہوں۔ اس وقت رحم کرنا جب میں تختۂ غسل پر ہوںاور ہمسایہ کے نیک افراد غسل دے رہےہوں۔ اُس وقت کرم کرنا جب تابوت میں اقرباء کےکاندھوں پر سوار ہوں۔ اس وقت مہربانی کرنا جب تنہا قبر میںوارد ہوں اور پھر اس نئے گھرمیںمیری غربت پررحم کرنا تاکہ تیرے علاوہ کسی سے مانوس نہ ہوں۔ 
میرے مالک! تو اگر مجھے میرے حوالےکردے گا تو میں ہلاک ہوجاؤں گا  اور تو سنبھالا نہ دے گا تو میں کس سے فریاد کروںگا۔ تیری عنایت شامل حال نہ ہوگی تو میں کس کےسامنے درد دل کا اظہار کروں گا اور تو مشکلات میںسکون نہ دے گا تو میں کس سے پناہ مانگوں گا۔ پروردگار! تو رحم نہ کرے گا تو میرا دوسرا کون ہے۔ اور تیرا فضل نہ ہوگا تو میں کس سے امید رکھوں گا ۔ وقت نکل جانے پرگناہ سے بھاگ کر کس کی طرف جاؤں گا۔ پروردگار ! میں تیرا امید وار کرم ہوں ۔مجھ پرعذاب نہ کرنا۔ میری امیدوںکو پورا کرنا ۔میرے خو ف کو تمام کردینا کہ اتنے گناہوں میںتیری مغفرت کے علاوہ کسی کی امید نہیں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
 خدایا ! پروردگار ! تیری عزت و جلال کی قسم کہ اگر تونےمجھ سے میرے گناہوں کامحاسبہ کیا تو میں تجھ سے تیری معافی کا مطالبہ کروںگا۔ اور اگر تونے مجھ سے میری ذلت کے بارےمیں پوچھا تو میں تجھ سے تیرے کرم کے بارےمیںسوال کروںگا اور اگر تونے مجھے جہنم میںڈال دیا تو میں سب کو بتادوںگا کہ میں تیرا چاہنے والا تھا۔  پروردگار! اگر تو صرف اولیاء کرام اور اہل اطاعت ہی کو بخشےگا تو گناہگار کدھر جائیںگےا ور اگر صرف اہل وفا ہی پر نگاہ کرم کرے گا تو بد عمل کس سے فریاد کریںگے۔ پروردگار! تجھے معلوم ہے کہ اگر تو مجھے جہنم میں ڈال دے گا تو تیرے دشمن خوش ہوں گے اور جنت عطا کردے گا تو تیرا رسولؐ خوش ہوگا اورظاہر ہے کہ تو اپنے رسولؐ کی خوشی کو دشمن کی خوشی پر مقدم رکھے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروردگار! میں اپنے نفس، دین ، مال اور تمام نعتوں کےبارےمیں شیطان رجیم سے پناہ مانگتا ہوں۔ توبہترین سننےوالا اور جاننے والا ہے۔  معبود! تیرے غضب سےپناہ دینے والا کوئی نہیں ہے اور تیرے علاوہ کوئی ٹھکانہ بھی نہیں ہے۔لہٰذا مجھے عذاب میںمبتلا نہ کرنا ، ہلاکت میں واپس نہ کردینا اور عذاب الیم میں پلٹا نہ دینا۔ پروردگار! میرے اعمال کو قبول فرما۔میرے ذکر کو بلند فرما۔میرے درجات کو اعلیٰ قرار دے۔ میرے بوجھ کو ختم کردے۔ میری خطاؤں کو نظر انداز کردے۔ میری منزل ، میری گفتگو ،میری دعا سب کا ثواب جنت اور اپنی رضا کو قرار دیدے۔ میرے تمام مطالب کو پورا فرما اور مجھے اپنے فضل و کرم سےمزید عطا فرما کہ میںتیری ہی طرف متوجہ ہوں۔ 
 پروردگار! تونے اپنی کتاب میں ہم سے فرمایا ہے کہ ہم اپنے ظالموں کو معاف کردیں تو ہم نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے تو اسے معاف کردے اس لئے کہ تو مجھ سے زیادہ اس کا حق دار ہے اور تونے حکم دیا ہےکہ ہم اپنے دروازے سے سائل کو واپس نہ کریں تو ہم تیرے دروازے پر آئے ہیں۔ اب ہمیں بھی بغیر حاجتوں کو پورا کئے ہوئے واپس نہ کرنا۔ تونے حکم دیا ہے کہ ہم اپنے غلاموں سےنیک برتاؤ کریں ہم بھی تو تیرے بندے ہیں ۔ اب تو بھی ہمیں جہنم سے آزاد کردے۔ 
اے رنج و غم کی پناہ گاہ اور سختیوں کے فریاد رس! ہم تیری بارگاہ اور تیری پناہ میں حاضر ہوئے ہیں۔ تیرے علاوہ کسی کی پناہ درکار نہیںہے اور نہ کسی سے کشائش احوال کی التماس ہے۔ تو فریاد رسی کر۔ رنج و غم کو دور فرما، کہ تو اسیروںکا رہا کرنےوالا اور کثیر گناہوں کا معاف کرنے والا ہے ۔ میرے مختصر اعمال کو قبول فرما اور میرے کثیر گناہوں کو بخش دے ۔ تو بہترین مہربان اور بخشنےوالا ہے۔
 پروردگار! میں تجھ سے وہ ایمان مانگتا ہوں جو دل میں پیوست ہوجائے۔ اور اس یقین صادق کا طلب گار ہوںجس کے بعد یہ اطمینان رہے کہ جو میرے حق میں لکھ دیاگیا ہے وہ ضرور پہنچے گا۔ اب اپنی تقسیم سےمیری زندگانی کو خوش حال بنادے کہ تو ارحم الراحمین ہے۔
ابو حمزہ ثمالی کی شخصیت :
یہ دعا چونکہ امام زین العابدین علیہ السلام نے ابوحمزہ ثمالی کو تعلیم فرمائی تھی اس لئے آج یہ ’’دعائے ابوحمزہ ثمالی‘‘ ہی کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں پر مناسب ہے کہ اس عظیم الشان شخصیت کے بارے میں بھی ہمیں معلوم ہو: یہ عظیم عالم، متقی و پرہیزگار، آداب اہلبیتؑ سے آراستہ اور ان کے علوم و معارف کے حامل، کوفہ کے باشندےنام ثابت بن ابی صفیہ تھا ، ’ابو حمزہ ثمالی‘ کے نام سے مشہور تھے ۔[ثابت کے والد] ابی صفیہ کا نام دینار ہے اور وہی ابو حمزہ ثمالی ہیں(نجاشی، احمد بن علی، فہرست أسماء مصنفی الشیعہ(رجال نجاشی)، ص 115، قم، دفتر انتشارات اسلامی، طبع ششم، 1365ش)۔قبیلہ ثمالی کی طرف منسوب ہیں جو بنی ازد کی ایک شاخ ہے اس قبیلہ کو ثُمالہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ثمالہ کے معنی بقیہ یا باقی چیز کے ہیں اور اس قبیلہ نے ایک جنگ میں شرکت کی جسمیں پورا قبیلہ کام آگیا صرف چند افراد باقی رہ گئے جنھیں ثُمالہ کہا جاتا تھا(نقوش عصمت، ص ۲۹۵)۔
ابو حمزہ ثمالی،امام زین العابدین علیہ السلام کے خاص صحابی تھے اور آپ سے خصوصی انس رکھتے تھے اس کے علاوہ امام محمد باقر علیہ السلام،امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام موسی کاظم علیہ السلام کے بھی صحابی تھے اور ان چاروں اماموں سے احادیث نقل کی ہیں(رجال نجاشی، ص 115؛ کشی، محمد بن عمر، اختیار معرفۃ الرجال، ص 124، نشر دانشگاہ مشہد، 1348ش.) ابو حمزہ ثمالی ائمہ اطہار علیہم السلام کے صحابی،ثقہ اور قابل اعتماد شخص ہیں،یہاں تک کہ امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام علی رضا علیہ السلام سے روایت نقل کی گئی ہے کہ : "ابو حمزہ ثمالی اپنے زمانہ کے سلمان ہیں "۔(رجال نجاشی، ص 115.)۔ حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے بھی نقل کیا گیا ہے کہ : "ابو حمزہ ثمالی اپنے زمانہ کے لقمان تھے،انھوں نے ہم معصومینؑ میں سے چار افراد، یعنی امام علی بن حسینؑ ،امام محمد باقرؑ،امام جعفر صادقؑ کے علاوہ امام موسی کاظمؑ کا ایک مختصر زمانہ درک کیا ہے" ۔۔(ایضا، ص 203.).کوفہ کے رہنے والے تھے اور وہاں کے زاہدوں میں شمار ہوتے تھے۔ابو حمزہ ثمالی اس قدر مشہور تھے کہ اہل سنت مثلاً ابن ماجہ (تہذیب التہذیب ۲؍۸) وغیرہ نے بھی ان سے روایت نقل کی ہے(ملاحظہ ہو: سبحانی، جعفر، موسوعۃ طبقات الفقہاء، ج 1، ص 304، قم، مؤسسہ امام صادقؑ، 1418ق.)۔یہ ان کی وثاقت و عظمت اور ایمان کی دلیل ہی ہے کہ ابن معین نے شیعہ و محب اہلبیتؑ ہونے کی وجہ سے ان پر تنقید کی ہے۔ (میزان الاعتدال ۱؍۳۶۳۔ تہذیب التہذیب ۲؍۷) 
ابو حمزہ ثمالی کے پانچ نیک اور صالح بیٹے تھے جن میں تین یعنی نوح،حمزہ اورمنصور نے کوفہ میں زید بن علیؑ بن الحسینؑ کے قیام میں شرکت کی ہے اور ان کے ہمراہ امویوں کا مقابلہ کیا (ایضا، ص 115.)
 ابو حمزہ کے یہ تینوں بیٹے قیام زید کے برجستہ ترین اور اہم افراد میں شمار ہوتے ہیں انھوں نے امام زین العابدین علیہ السلام کے بیٹے کے ہمراہ ظلم کے خلاف قیام کیا۔جب جنگ اپنے شباب پر تھی، جناب زید بن علیؑ کے ساتھیوں نے کمزوری و شکست کا احساس کیا تو بہت سے افراد نے بیعت کو توڑ کر راہ فرار اختیار کی، صرف تھوڑے سے لوگ جناب زید کے ہمراہ باقی بچے جنمیں سے ابو حمزہ کے بیٹے نوح، حمزہ اور منصور تھے۔ ان لوگوں نے آخری وقت تک استقامت و ثابت قدمی کا ثبوت دیا اور امام سجاد علیہ السلام کے بیٹے کے ساتھ درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
ابو حمزہ کے دوسرے دو بیٹے علی اور حسین، امام موسی کاظم علیہ السلام کے زمانے میں زندہ تھے۔ یہ دونوں محدثین و فقہائے شیعہ میں شمار ہوتے ہیں اور امام موسی کاظم علیہ السلام و دیگر ائمہؑ سے روایات نقل کی ہیں۔(اعیان الشیعہ، ج۴ ،ص۱۰ و نامہ دانشوران، ج۱ ،ص۵۰)
ابو حمزہ ثمالی کے علاوہ ان کے خاندان کے افراد بھی سارے کے سارے عظیم شخصیتیں اورثقات تھے(رجال کشی، ص 406.)
تالیفات :
ابو حمزہ ثمالی کی تالیفات میں سے "تفسیر قرآن"(ابن ندیم نے اپنی کتاب ’فہرست‘ میں اس کو بیان کیا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل یہ کتاب ایران میں شائع ہوئی ہے)،"کتاب النوادر"(اس کتاب کا موضوع حدیث ہے اور اس کو حسن بن محبوب نے ابوحمزہ ثمالی سے نقل کیا ہے)،اور"کتاب الزہد۔(شیخ طوسی، الفہرست، محقق و مصحح: آل بحر العلوم، سید محمد صادق، ص 105، نجف، المکتبۃ المرتضویہ، طبع اول، )باقی بچی ہیں اور "رسالہ حقوق امام سجادؑ" جو اپنی نوعیت کا بے مثال رسالہ ہے، کو بھی ابو حمزہ ثمالی نے امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل کیاہے۔(رجال نجاشی، ص 116. و من لایحضرہ الفقیہ)۔اور مورد بحث دعا جسے امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل کیا۔
اس کے علاوہ ابو حمزہ ثمالی کے زرین آثار شیعہ و سنی کی اہم کتابوں میں مختلف موضوعات پر نظر آتے ہیں(من لایحضرہ الفقیہ۔ ج۲، ص۴۵۹ و قاموس الرجال، ج۲ ، ص۴۴۴)۔
وفات:
بعض مشہور روایتوں کے مطابق ابو حمزہ ثمالی نے سنہ۱۵۰ ھ میں وفات پائی ہے۔(شیخ طوسی، محمد بن حسن، الابواب (رجال طوسی)، محقق و مصحح: قیومی اصفہانی، جواد، ص 110، قم، دفتر انتشارات اسلامی، طبع سوم، 1427ق.)۔ لیکن ابن سعد ان کی وفات کو منصور کی خلافت کے زمانہ میں جانتے ہیں۔(ابن سعد کاتب واقدی، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق: عطا، محمد عبد القادر، ج 6، ص 345، بیروت، دار الکتب العلمیہ، طبع اول، 1410ق.)اور منصور کی خلافت ۱۳۶ سے ۱۵۸ ھ تک تھی۔ شیعوں کی احادیث کی شہرت یہ ہے کہ حسن بن محبوب، ابو حمزہ ثمالی سے حدیث نقل کرتے تھے، جبکہ ہم جانتے ہیں کہ ابن محبوب سنہ۲۲۴ھ میں فوت ہوئے ہیں اور اس وقت ان کی عمر ۷۵ سال تھی(لہذا حسن بن محبوب کا سنہ ولادت 149 ہجری ہےدیکھئے: امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، ج 4، ص 9، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1406ق.)۔ یعنی ابو حمزہ ثمالی کی وفات کے زمانہ [سنہ۱۵۰ھ]میں حسن بن محبوب دو سال سے کم تر عمر کے تھے ۔ پس جو تاریخ وفات ابن محبوب نے نقل کی ہے صحیح تر لگتی ہے،کیونکہ اگر ابو حمزہ ثمالی کی وفات کو ہم سنہ ۱۵۸ ھ مان لیں،تو اس زمانہ میں ابن محبوب کی عمر ۸ سال تھی اور اس قسم کی چیز کو ان کے ابو حمزہ ثمالی سے نقل کرنا  مناسب لگتا ہے(اعیان الشیعہ، ج 4، ص 10.)۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابو بصیر سے فرمایا کہ ابو حمزہ سے ملاقات کرنا تو میرا سلام کہہ دینا اور کہنا کہ تم فلاں مہینہ میں فلاں دن انتقال کرجاؤ گے۔ ابو بصیر نے عرض کی کہ وہ آپ کے واقعی شیعوں میں ہیں؟ فرمایا: بیشک میرے پاس جو کچھ بھی ہے تم لوگوں کے لئے خیر ہے۔ ابو بصیر نے عرض کی کیا آپ کے شیعہ آپ کے ساتھ رہیں گے؟ فرمایا: بے شک اگر ان کے دل میں خوف خدا و رسولؐ ہے اور گناہوں سے پرہیز کرتے ہیں تو یقیناً۔
مآخذ:
مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمیؒ
نقوش عصمت، علامہ ذیشان حیدر جوادیؒ
تحلیلی از زندگانی امام سجاد علیہ السلام، علامہ باقر شریف قرشی
ویب سائٹس
 ٭…٭…٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں