اکمال دین ولایت کے ذریعہ
آیۃاللہ العظمیٰ شیخ وحید خراسانی مد ظلہ
ترجمہ سید محمد حسنین باقری
نائب مدیر ماہنامہ اصلاح لکھنؤ
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ( مائدہ ۳)
[آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے]
۳۱۰ھ سے طبری جسے اہل سنت کے برجستہ علماء نے اس آیت کے سلسلہ میں بحث کی ہے ۔ طبری کے بعد سے جن اہم مصادر و منابع نے اس آیت کی شان نزول کو عید غدیر قرار دیا ہے ان کی تعداد ۱۶؍ ہے۔ ( ان منابع کی تفصیل کےلئے دیکھیں : الغدیر علامہ امینیؒ جلد ۱ صفحہ ۲۳۰)
مندرجہ بالا آیت میں بہت سے نکات پوشیدہ ہیں سنی و شیعہ علماء نے اس آیت کے شان نزول کے سلسلے میں گفتگو کی ہے لیکن اس آیت کو سمجھنے اور اس کے پوشیدہ اسرار کو درک کرنے کےلئے غور و فکر ضروری ہے ۔ آیت کا آغاز کلمہ ’’ الیوم‘‘ سے ہے اور یہ خود ایک اہم عنوان ہے۔ یہاں پر لفظ یوم پر الف لام داخل ہوا ہے ۔ جو اس دن کی عظمت کو بیان کررہا ہے۔ اس دن کی عظمت کس لحاظ سے ہے؟ اس پر توجہ ضروری ہے۔
امیرالمومنین ؈ کی عظمت:
علم لغت و ادب کے امام ،عظیم عالم خلیل بن احمد فراہیدی سے کہاگیا : امیر المومنین علیؑ کے بارےمیںکچھ بیان کرو۔ جواب دیا کہ انسان کے فضائل و کمالات کو یا دوستوں کے ذریعہ پہچاناجاتا ہے یا دشمنوں کے ذریعہ لیکن میں ایسی ذات کے بارےمیں کیا کہوں جس کے فضائل کو دشمنوں نے حسد کی وجہ سے چھپایا اور دوستوں نے خوف کی وجہ سے۔ اس کے باوجود علی ابن ابی طالبؑ کے فضائل سے پوری دنیا پُر ہے:
ما اقول فی حق امریٔ کتمت مناقبہ اولیاؤہ خوفاً و اعداؤہ حسداً ۔ ثم ظہر من بین الکتمین ما ملأ الخافقین۔
( تنقیح المقال ترجمۃ الخلیل ابن حمد جلد ۱ صفحہ ۴۰۳، رقم ۳۷۶۹۔ الرواشیخ السماویہ ص ۲۸۹)
حنبلیوں کے امام احمد ابن حنبل نے تصریح کی ہےکہ : ما جاء لاحد من الصحابۃ من الفضائل ماجاء لعلی ابن ابی طالب۔ جتنے فضائل و کمالات علی ابن ابی طالبؑ کے نقل ہوئے اتنے کسی بھی صحابی کے لئے نقل نہیں ہوئے۔
( المستدرک علی الصحیحین حاکم نیشاپوری جلد ۳ ص۱۰۷۔ بحار الانوار جلد ۴ ص ۱۲۴)
واقعہ غدیر خم کا مخالفین کے ذریعہ اعتراف:
قابل غور ہے کہ ابو ہریرہ نے نقل کیا ہےکہ پیغمبرؐ نے فرمایا : جو بھی غدیر کے دن روزہ رکھے اس کا ثواب ساٹھ مہینے روزے کا ہے۔یہ دن وہ ہے کہ جب پیغمبرؐ نے علیؑ کو پہچنواتےہوئے فرمایا : الست اولیٰ بکم من انفسکم ، قالوا : بلیٰ ۔ قال: من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔ جب حضرتؐ نے یہ جملات ارشاد فرمائے حضرت عمر کھڑے ہوئے اور کہا بخٍ بخٍ لک یا بن ابی طالب اصبحت مولای و مولیٰ کل مسلم(او مومن )۔ مبارک ہو مبارک ہو۔ اے ابو طالب کے بیٹے کہ آپ میرے اور ہر مسلمان (مومن)کے مولیٰ ہوگئے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی الیوم اکملت لکم ۔۔۔۔ (امالی شیخ صدوقؒ، صفحہ۵۰۔تاریخ بغداد،ج۸،ص۲۸۴)
’’الیوم‘‘ اس دن کی اہمیت کو بیان کررہا ہے جس دن کا روزہ ساٹھ روزوںکے برابر ہے۔ یہ کون سا دن ہے ؟ اس دن کو ن سا و اقعہ رونما ہوا؟
اکمال دین اور اتمام نعمت کا دن
آیت الیوم اکملت میں اعلان ہوا کہ ’’اس دن میں نے تمہارے دین کو کامل کردیا‘‘۔ دوسرا جملہ ہے کہ ’’اس دن میں نے تم پر اپنی نعمت تمام کردی‘‘۔ پہلے جملہ میں ’’اکمال‘‘ ہے دوسرے جملے میں ’’اتمام‘‘ ہے۔ یہ دونوں کلمے خدا کے فعل(عمل) سے متعلق ہیں۔ تیسرے مرحلےمیں خداوند عالم نے اپنے فعل اور اپنی صفت کو ایک صفت ساتھ بیان کیا ہے۔ ورضیت لکم الاسلام دینا۔ ابتدا میں فعل ہے اس کے بعد صفت ہے۔ آیت کے آغاز میں دین ہے اور آخر میں دین۔ پہلا جملہ ہے : الیوم اکملت لکم دینکم۔ دوسرا جملہ ہے : اتممت علیکم نعمتی ۔ تیسرا جملہ ہے : ورضیت لکم الاسلام دینا۔ اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔
آخری کلمہ یہ ہےکہ اسلام کو پہچانیں تاکہ معلوم ہو کہ کیوں خداوند عالم نے یہ فرمایا ہے :ـ ورضیت لکم الاسلام دینا۔ آج میں نے اسلام کو بعنوان دین پسند کیا۔ اسلام یہ ہے : إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ (سورہ آل عمران،آیت۱۹) [دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے]اور ’’وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ‘‘(سورہ آل عمران،آیت ۸۵)[اور جو اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین تلاش کرے گا تو وہ دین اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ قیامت کے دن خسارہ والوں میں ہوگا] اسلام یہ ہے۔ ’ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (بقرہ، ۱۲۷) [اور اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم علیہ السّلام اور اسماعیل علیہ السّلام خانہ کعبہ کی دیواروں کو بلند کر رہے تھے اوردل میں یہ دعا تھی کہ پروردگار ہماری محنت کو قبول فرمالے کہ تو بہترین سننے والا اورجاننے والا ہے] جناب ابراہیم مامور ہوئے کہ گھر کی بنیادوں کو بلند کریں اور دنیا میں قبلۂ حق کے معمار قرار پائیں۔ جب اس عمل سے فارغ ہوئے تو اس معماری کا بدلہ صرف یہ چاہا کہ کہا : میں تیرے گھر کا معمار تھا۔میرا بیٹا بھی اس میں شریک تھا۔ یہ مجھ سے قبول کرلے اور اس معماری کی جزامجھے دے اور اس طرح دعا فرمائی : رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (سورہ بقرہ،آیت۱۲۸)[پروردگار ہم دونوںکو اپنا مسلمان او ر فرمانبردار قرار دے دے اور ہماری اولاد میں بھی ایک فرمانبردار امت پیدا کر. ہمیں ہمارے مناسک دکھلا دے اورہماری توبہ قبول فرما کہ تو بہترین توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے] یہ ہے اسلام۔
اسلام جس کی عظمت و اہمیت یہ ہے ۔ یہ پیغمبر ؐ کی عمر کے آخری سال ۱۸؍ ذی الحجہ تک ناقص اور خدا کا ناپسندیدہ تھا۔غدیر کے دن یہ اسلام کا مل اور خدا کا پسندیدہ ہوا۔ اب یہاں پر ہمیں کچھ کہنے کی طاقت نہیںہے اس جگہ جہاں انسان زبان نہیں کھول سکتا۔ خدا نے اس دن کیا سمجھانا چاہا؟۔ لیکن بشریت نہیںسمجھی اور آج بھی نہیںسمجھ رہی ہے۔ خدایا تو نے اس دن کو اتنی زیادہ اہمیت دی کہ فرمایا :يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّـهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ(سورہ مائدہ،۶۷)[اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے] ۔
غدیر سے غفلت رسالت کا بطلان ہے
قرآن میں غور کریں پیغمبرؐ سے خدا کے گفتگو کے انداز کو دیکھیں ۔ یہ قرآن کے اشار ات ہیں ۔ علماء کو چاہئے کہ اس نکتہ کو سمجھیں ۔ خدا نے پیغمبرؐ سے اس طرح نرم اور محبت آمیز لہجہ میں بات کی ہے: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ۔ (سورہ انبیاء،آیت۱۰۷) [اور ہم نے آپ کو عالمین کے لئے صرف رحمت بناکر بھیجا ہے] خدا کا پیغمبرؐ سے گفتگو کا انداز یہ ہے : ’’لعمرک ‘‘ (حجر،۷۲) ’’تمہاری جان کی قسم‘‘ ۔ اتنے عظیم پیغمبر ہیں لیکن جب غدیر کا موقع آتا ہے تو انداز بدل جاتا ہے، لہجہ میں فرق آجاتا ہے:يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ۔۔۔ اگر غدیر کے دن سے غفلت ہوجائے تو تمام ر سالت باطل ہوجائے۔ رحمت کا انداز اس شدید لہجہ میں بدل جاتا ہے گویا یہ واقعہ انسان کے سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس سے اہمیت سمجھیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں