پیر، 4 جون، 2018

ولایت اور نماز

باسمہ تعالیٰ

ولایت اور نماز

سید محمد حسنین باقری

عَنْ زُرَارَۃ عَنْ اَبِی جَعْفَرٍ عَلَیْہِ السَّلَام قَالَ:یُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسَۃِ اَشْیَاءٍ عَلَی الصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ وَ الْحَجِّ وَالصَّومِ وَالْوِلَایَۃِ قَالَ زُرَارَۃُ فَقُلْتُ:وَ اَیُّ شَی ءٍ مِنْ ذٰلِکَ اَفْضَلٌ فَقَالَ:اَلْوِلَایَۃُ اَفْضَلٌ لِاَنَّھَا مِفْتَاحُھُنَّ وَالْوَالِی ھُوَ الدَّلِیْلُ عَلَیْھِنَّ قُلْتُ:ثُمَّ الَّذِی یَلِیَ ذٰلِکَ فِی الْفَضْلِ؟قَالَ:اَلصَّلَاۃُ اِنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ قَالَ:اَلصَّلَاۃُ عَمُوْدُ دِیْنِکُمْ (کافی، ج۲،ص ۱۸)

زرارہ سے مروی ہے:امام باقر علیہ السلام نےفرمایا:اسلام کی بنیادپانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے:نماز، زکات، حج، روزہ اور ولایت ،زرارہ کہتے ہیں: میں نےامامؑسے معلوم کیا:ان پانچ میں کس کا رتبہ بلند ہے اورکون چیز افضل ہے؟امامؑ نے فرمایا:ولایت، کیونکہ ولایت ان سب کی کنجی ہے اور والی اس کا رہنما ہے، میں نے عرض کیا:ولایت کے بعد کس چیز کا رتبہ ہے، امامؑ نے فرمایا :نماز ،کیونکہ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے:نماز تمہارے دین کا ستون ہے۔
نماز کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ اس کو ’ستون دین‘ کہا گیا ہے۔ مذکورہ حدیث میں بھی سب سے پہلے نماز کا تذکرہ ہے جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی مسلم ہے اور جسے امام باقر ؑ نے بھی بیان فرمایا کہ ولایت اساس و بنیاد اور تمام اعمال کی اولین شرط ہے ۔ اسی طرح امام باقر علیہ السلام ہی کا ارشاد گرامی ہے: ’’فمن لم یتولّنا لم یرفع اللہ لہ عملا‘‘۔ جو شخص ہماری ولایت قبول نہیں کرتا خدا اس کے اعمال قبول نہیں کرتا۔ (اصول کافی، ج۱،ص۴۳۰)
نماز تمام اعمال کی قبولیت کی شرط ہے اور نماز کی قبولیت کی شرط ولایت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جتنی تاکید ولایت کی ہوئی ہے اتنی کسی چیز کی نہیں ہے ۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ جس طرح ولایت رسولؐ کے بغیر ولایت خدا ناممکن ہے اسی طرح ولایت علیؑ و اولاد علیؑ کے بغیر نہ تو ولایت رسولؐ ممکن ہے اور نہ ولایت خدا۔ یہی ولایت ائمہ علیہم السلام ہے جو ہمیں ولایت رسولؐ اور ولایت خدا تک پہنچاتی ہے۔ ولایت خدا کی تکمیل ولایت علی علیہ السلام پر ہوتی ہے ۔امیرالمومنین ؑ کا ارشاد ہے ’’ہم باب خدا ہیں ہم سے راہ خدا پہچانی جاتی ہے‘‘(اصول کافی، ج۱،ص۱۴۵۔۱۹۳) چونکہ حق کا تصور بغیر ولایت کے نہیں ہے لہذا نماز کی قبولیت بھی بغیر ولایت ائمہؑ کے ناممکن ہے۔
قرآن میں بھی نماز پڑھنے کا نہیں بلکہ نماز قائم کرنے کا حکم ہے جس کا بظاہر مفہوم یہ ہے کہ صرف نماز پڑھ لینا رکوع و سجدہ کر لینا معیار نہیں ہے اس سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ قیام نماز ضروری ہیں یعنی ایسی نماز جو تمام شرائط منجملہ ولایت کے ساتھ ہو ۔
جب خداوند عالم نےشیطان کو سجدہ کا حکم دیا تو شیطان نے تکبر کیاخداوند عالم سے چاہا کہ اس حکم سے معاف رکھے اس کے بدلے ایسی عبادت کرے کہ کسی نے بھی خدا کی ایسی عبادت نہ کی ہو۔ خداوند عالم نے اس کے جواب میں فرمایا :
 عبادت وہی ہے جو میں حکم دوں نہ یہ کہ جو تم چاہو۔ ( یہ مفہوم امام جعفر صادق علیہ السلام کی روایت میں بیان ہوا ہے ۔ (بحار الانوار جلد ۶۳ ص ۲۵۰)
یعنی عبادت کا مطلب ہے حکم خدا کی بجا آوری۔ اس کی اطاعت کرتے ہوئے اور جیسا اس نے کہا ہے اسی کے مطابق بجالائی جائے تبھی عبادت ہے ورنہ نہیں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : خدا کی قسم اگر ابلیس خدا کے حکم کی مخالفت اور تکبر کے بعد دنیا کی عمر کے برابر بھی سجدہ کرتا تب بھی اس کے لئے کوئی فائدہ نہیں تھا اور خدا اس سے قبول نہیں فرماتا صرف اس صورت میں کہ وہ حکم خدا کے مطابق آدم کو سجدہ کرتا۔
حکم خدا سے پیغمبرؐ نے جس کو اپنے بعد کے لئے معین فرمایا اور اپنا جانشین بنایا اس کو چھوڑ کر خداوندعالم ہرگز کسی کے اعمال قبول نہیں فرمائے گا اور ایسے شخص کی نیکیاں اوپر نہیں جا سکتیں۔ صرف اس صورت میں کہ جس طرح خدا نے حکم دیا اسی طرح بجالائیںا ور جس امام کی ولایت کا خدا نے حکم دیا ہے اس کی اطاعت کریں اور اس دروازہ سے وارد ہوں جو خدا اور اور اس کے رسول نے کھولا ہے(وسائل الشیعہ ج ۱ باب ۲۹،حدیث ۵)
امام محمد باقر یا امام جعفر صادق علیہما السلام کا ارشاد گرامی ہے :بنی اسرائیل میں ایک خاندان تھا جو اپنی چالیس روزہ عبادت کے بعد جو بھی خداوندعالم سے طلب کرتا خدا انہیں عطا فرماتا تھا۔ انھیں میں سے ایک اور نے چالیس دن عبادت کی لیکن اس کی دعا قبول نہیں ہوئی۔ حضرت عیسیٰ کے پاس آکر شکایت کی ۔حضرت عیسیٰؑ نے نماز پڑھ کر خدا کی بارگاہ میں دعا کی وحی نازل ہوئی:
اے عیسیٰؑ! وہ اس دروازے سے نہیں آیا جس سے آنا چاہئیے اس نے مجھے پکارا تو لیکن اپنے دل میں تمہاری نسبت شک رکھتا تھا۔ لہٰذا اگر اسی طرح اتنا زیادہ مجھے پکارے کہ اس کی گردن ٹوٹ جائے اور انگلیاں جدا ہو جائیں تب بھی میں اس کی دعا کو قبول نہیں کروں گا۔
حضرت عیسیٰ ؑ نے اس شخص سے سوال کیا کہ تم میری نبوت کے بارے میں شک رکھتے ہو؟اس نے اعتراف کیا اور جناب عیسیٰؑ سے مطالبہ کیا کہ خدا سے دعا کریں کہ خدا اس کے دل سے شک کو ختم کر دے۔ حضرت عیسیٰؑ نے دعا کی خدا نے اس کی توبہ کو قبول کیا اورا س کی دعا مستحاب ہوئی۔(اصول کافی ج ۲ ص ۲۰۰ح۹)
رسول اکرمؐ نے خطبہ غدیر میں فرمایا:اے لوگو!خداوندعالم نے اپنے دین کو علیؑ کی امامت کے ذریعہ کامل کیا ۔لہٰذا جو بھی علیؑ اور میری اولاد میں ان کے جانشینوں کی امامت کو قبول نہ کرے ۔ تو دنیا و آخرت میں اس کےا عمال اکارت ہوں گے اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔(احتجاج ج ۱ ص۷۶)
اس بات میں کوئی تعجب بھی نہیں ہے اس لئے کہ خداوندعالم نے بھی رسول اکرمؐ کی ۲۳ سالہ زحمتوں کو ولایت امیرالمومنینؑ کی تبلیغ سے مشروط کرتے ہوئے فرمایا:و ان لم تفعل فما بلغت رسالۃ (مائدہ ۶۷)
یعنی اے رسول اگر آپ نے ولایت علیؑ کے پہنچانے کے اپنے وظیفہ کو انجام نہ دیا تو کوئی بھی کار رسالت انجام نہیں دیا ۔
دوسری جگہ فرماتا ہے :مَّثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ۔۔۔۔۔ (سورہ ابراہیم ۱۸)
’’جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی ہے جسےمحشر کے دن کی تند ہوا اڑا لے جائے کہ وہ اپنے حاصل کئے ہوئے پر بھی کوئی اختیار نہ رکھیں گے اور یہی بہت دور تک پھیلی ہوئی گمراہی ہے‘‘
امام محمد باقر علیہ السلام کی روایت میں اہل بیت ؑ کی ولایت کاانکار کرنے والے اس آیت کا مصداق بتائے گئے ہیں۔ (کافی ج ۱ص ۱۸۴ح۸)
اسی وجہ سے امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:ہمارے دشمن کے لئے کوئی فرق نہیں ہے چاہے روزہ رکھے، نمازہ پڑھے یا زنا و چوری کرے وہ آتش جہنم کا شکار ہوگا وہ جہنمی ہے (عقاب الاعمال ص۲۵۱ح۱۸)
عصر حاضر میں بھی وہ دروازہ جس کی ولایت کے قبول کئے بغیر کوئی عبادت قابل قبول نہیں ہے وہ امام زمانہ ؑ کا با برکت وجود ہے۔ زیارت جامعہ میں ان حضرات کو خطاب کرتے ہوئے ہم کہتے ہیں:بموالاتکم تقبل الطاعۃ المفترضۃ۔آپ کی ولایت ہی کے ذریعہ خداوندعالم واجبی عبادتوں کو قبول کرتا ہے۔
لہٰذا اگر کوئی اس راستہ کے علاوہ کسی اور ذریعہ سے خدا کی بندگی کرے تو خداوندعالم اس سے قبول نہیںکرے گا۔ امام جعفرصادق علیہ السلام نے مفضل ابن عمر کو ایک خط میں لکھا:جو بھی نماز پڑھے، زکات ادا کرے حج و عمرہ بجالائے لیکن جس کی اطاعت خدا نے لازم قرار دی اس کی معرفت نہ رکھتا ہو تو نہ ا س نے کوئی نماز پڑھی نہ روزہ رکھا، نہ زکات دی نہ حج و عمرہ بجالایا۔ نہ جنابت سے غسل کیا اور نہ پاک ہوا نہ حرام سے بچا اور نہ حلال کو حلال رکھا۔ اس کے لئے نماز ہی نہیں ہے چاہے رکوع و سجدہ کرے اس کے لئے زکات و حج نہیں ہے۔ یہ تمام اعمال اس کی شناخت و معرفت کے بعد ہی انجام پاتے ہیں جس کی اطاعت کا حکم دے کر خدا نے لوگوں پر احسان کیا ہے۔(بحار ج ۲۷ ص ۱۷۶و۱۷۵)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :جب بندہ بارگاہ خدا میں حاضر ہوگا تو سب سے پہلے جس چیز کا سوال ہو گا وہ نماز واجب، زکات واجب، روزہ واجب، حج واجب، اور ہم اہل بیتؑ کی ولایت ہے۔ اگر اس نے ہماری ولایت کا اقرار کیا اور اس پر دنیا سے گیا ہو تو اس کی نماز ، روزہ ، حج و زکات قبول ہونگے اور اگر بارگاہ خداوندی میں ہماری ولایت کا اقرار نہ کرے تو خداوندعالم اس کے اعمال کو قبول نہیں کرے گا۔ (بحار الانوار ج ۲۷ ص۱۶۷)
رسول اکرمؐ نے فرمایا:امیرالمومنین علیؑ ابن ابی طالبؑ کے چہرہ پر نگاہ کرنا عبادت ہے اور ان کا تذکرہ عبادت ہے۔
پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا :اگر کوئی بندہ قیامت کے دن ستر انبیاء کے برابر بھی عمل لے کر آئے خداوندعالم اس سے کوئی عمل قبول نہیں فرمائے گا جب تک میری اور میرے اہل بیتؑ کی ولایت نہ رکھتا ہو۔
ابو حازم سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے معلوم کیا: وہ کونسی چیز ہے جو بارگاہ رب العزت میں نماز کے قبول ہونے کا سبب واقع ہوتی ہے؟ آپ نے فرمایا:’’وِلَایَتُنَا وَالْبَرَائَۃُ مِنْ اَعْدَائِنَا‘‘ہماری ولایت ومحبت اور ہمارے دشمنوں سےاظہار نفرت و بیزاری بارگاہ خداوندی میں نمازوں کے قبول ہونے کا سبب واقع ہوتی ہے۔(مناقب آل ابی طالب:ج۳،ص۲۷۴)
حضرت امام صادق علیہ السلام اس قول خداوندی (اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ)(سورہ فاطر:آیت ۱۰)’’پاکیزہ کلمات اسی کی طرف بلند ہوتے ہیں اور عمل صالح انھیں بلند کرتا ہے اور جو لوگ برائیوں کی تدبیر کرتے ہیں ان کے لئے شدید عذاب ہے‘‘کے بارے میں فرماتےہیں:
اس سے ہم اہل بیت مراد ہیں جنھیں دل میں جگہ دینا ضروری ہے’’فَمَنْ لَمْ یَتَوَلَّنَا لَمْ یَرْفَعِ اللہُ عَمَلاً‘‘پس جو بھی شخص ہماری ولایت اور رہبری کو قبول نہیں کرتا ہے خداوندعالم اس کے کسی بھی عمل کو قبول نہیں کرتا ہے۔(الکافی:ج۱،ص ۴۳۰)
ابن مسعود سے مروی ہے(رسول اکرمؐ فرماتے ہیں):مَنْ صَلّی صَلَاۃً وَ لَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ فِیْھَا وَ عَلٰی اَھْلِ بِیْتِیْ لَمْ تُقْبَلْ مِنْہُ ۔(الغدید (علامہ امینی):ج۲،ص۳۰۴)جو شخص نماز پڑھے اور مجھ پر اور میرے اہل بیت پر درود نہ بھیجے اس کی نماز قبول نہیں ہے۔
عَنْ مُحَمَّدِبْنِ مُسْلِمٍ قَالَ:سَمِعْتُ اَبَا جَعْفَرٍ عَلَیْہِ السَّلَامِ یَقُوْلُ:کُلُّ مَنْ دَانَ اللہُ بِعَبَادَۃٍ یَجْھَدُ فِیْھَا نَفْسَہُ وَ لَااِمَامَ لَہُ مِنَ اللہِ فَسَعْیُہُ غَیْرُ مَقْبُوْلٍ(کافی:ج۱،باب معرفت امامؑ،ص۱۸۳)
محمد بن مسلم سے روایت ہے کہ میں نے امام باقر علیہ السلام کو یہ فرماتے سنا ہے:
جو شخص خدا پر ایمان رکھتا ہو اورعمدہ طریقہ سے عبادت کرتا ہو لیکن خدا کی طرف سے معین کسی امام صالح کی پیروی نہ کرتا ہو اس کی ساری محنت و مشقت بیکار ہے اور وہ درجہ مقبولیت تک نہیں پہنچتی ہے۔(اصول کافی،ج۱، باب معرفت امامؑ،ص۱۸۳)
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جس وقت مومن بندے کو قبر میں اتارا جاتا ہے تو پانچ چیزیں اس کے ساتھ قبر میں داخل ہوتی ہیں، ان میں سے ایک چیز سب سے زیادہ نورانی ہوتی ہے اور مومن کے چہرے کے سامنے رہتی ہے (اور ایک دائیں،دوسری بائیں جانب، تیسری سرہانے اور چوتھی پیروں کی طرف کھڑی رہتی ہے اور جس طرف سے بھی عذاب داخل ہونا چاہتا ہے تو وہ چیزیں مانع واقع ہو جاتے ہیں)اگرعذاب دائیں جانب سے داخل ہونا چاہتا ہے تونماز مانع ہو جاتی ہے، اگر بائیں جانب سے داخل ہونا چاہتا ہے تو زکات مانع ہو جاتی ہے، اگر سر کی جانب سے داخل ہونا چاہتا ہے تو حج مانع ہو جاتا ہے اورپیروں کی جانب سے داخل ہونا چاہتا ہے تو روزہ مانع ہو جاتا ہے وہ چیز(ولایت)جو سب سے زیادہ نورانی ہے دوسری چیزوں سے سوال کرتی ہے:تم کون ہو، خدا تمہیں جزائے خیر دے؟ان میں سے ایک کہتی ہے: میں نماز ہوں، دوسری کہتی ہے: میں زکات ہوں، تیسری کہتی ہے:میں حج ہوں اور چوتھی چیز کہتی ہے : میں روزہ ہوں،اب وہ چاروں چیزیں اس سے معلوم کرتی ہیں: تم کون ہو جو ہم سے زیادہ نورانی نظر آتی ہو؟وہ جواب دیتی ہے: میں آل محمد علیہم الصلاۃ والسلام کی ولایت ہوں۔
مندرجہ بالامضامین کی روایتیں شیعوں کی حدیثی کتابوں میں اتنی زیارہ ہیں کہ فقہاء نے اپنی فقہی کتابوں کے آغاز میں ایک باب اس نام سے قائم کیا ہے:’’ بغیر ائمہ علیہم السلام کی ولایت کے عبادت کا باطل ہونا‘‘یعنی جو عبادت بھی بغیر ائمہ ؑ کی ولایت کے اور ان کی امامت کا عقیدہ رکھے بغیر ہو وہ باطل ہے۔
عظیم شیعہ محدث مرحوم شیخ حرعاملی نے اپنی کتاب و سائل الشیعہ کی پہلی جلد کے باب ۲۹ کو اس مطلب سے مخصوص کیا ہے اور اس میں ۱۹ حدیثیں نقل کی ہیں اور محدث نوری نے مستدرک الوسائل میں ۶۶ مزید حدیثوں کا اضافہ کیا ہے۔
 اس طرح کی روایات اہل سنت کی کتابوں میں بھی نقل ہوئی ہیں:جابر ابن عبد اللہ انصاری نے رسول اکرمؐ سے نقل کیا کہ آنحضرتؐ نے فرمایا :یا علی! لو ان امتی صاموا حتی یکونوا کالحنایا وصلوا حتی یکونوا کالاوتار و بغضوک لاکبھم اللہ فی النار ۔اے علیؑ!اگر میری امت بہت ہی زیادہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے لیکن تم سے دشمنی رکھتی ہوتو خداوندعالم ان کو دوزخ کے حوالے کرے گا۔(مناقب ابن مغازی۔ ۲۹۷؍ح۳۴۰)
ولایت اہل بیت علیہم السلام سے متعلق امام شافعی کا ایک مشہور شعر ہے:
یا آل رسول اللہ حبکم فرض من اللہ فی القرآن انزلہ
کفاکم من عظیم القدر انّکم من لم یصل علیکم لا صلاۃ لہ
اے اہل بیت رسالت آپ کی محبت تو اس قرآن میں واجب کی گئی ہے جس کو خدا نے نازل فرمایا ہے اورآپ کی قدر و منزلت کے بارے میںبس اتنا جان لینا کافی ہے کہ جو آپ پر نماز میں درود نہ بھیجےاس کی نماز قبول نہیں ہے۔(ینابیع المؤدۃ :ج ۲،ص۳۴۳۔صواعق محرقہ :باب ۱۱،فصل ۱)
علامہ طباطبائی ’’تفسیر المیزان‘‘میں لکھتے ہیں:اہل بیت اطہار علیہم السلام کی محبت اور ولایت کے بغیر نماز کا کوئی فائدہ نہیں ہے اسی لئے ہم لوگ نماز سے پہلے اپنی اذان و اقامت میں ’’اَشْھَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَلِیُّ اللہ‘‘قرائت نماز میں (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم)اور تشہد میں درود شریف پڑھ کر محمدؐ و آل محمدؐ کی محبت اور ان کی ولایت کا ثبوت پیش کرتے ہیں ، ائمہ اطہار علیہم السلام کی امامت کا اقرار کرتے ہیں، اسی لئے ہم لوگ سورۂ حمد کی قرائت میں (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم)کے یہ معنی مراد لیتے ہیں :بارالہٰا!تو ہم کو ائمہ علیم السلام کی راہ پر گامزن رکھ اور ہمیں امامت کے پیروکار اوردوستدار ولایت میں سے قرار دے، اسی آیۂ مبارکہ کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:’’صراط مستقیم‘‘سے علی بن ابی طالب علیہ السلام مراد ہیں اور امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں:’’نَحْنُ صِرَاطُ الْمُسْتَقِیْمِ‘‘ہم (ائمہ طاہرین) صراط مستقیم ہیں۔(تفسیر المیزان :ج۱،ص۴۱)
جنگ نہروان میں حضرت علی علیہ السلام کے مقابلہ میں آنے والے سب لوگ (جنھیں تاریخ اسلام میں خوارج کا نام دیا گیا ہے)بے نمازی نہیں تھے بلکہ ان میں اکثر نمازی اور روزہ دار تھے، ان کی پیشانی پر مکرر اور طولانی سجدوں کی وجہ سے گٹھے پڑے ہوئے تھے لیکن ان کے دل اہل بیت رسولؐ کی محبت سے خالی تھے اوراہل بیت علیہم السلام کی ولایت کے منکر تھے، ان لوگوں نے امام علی بن ابی طالب علیہ السلام کے مقابلے میں قیام کیا اور آپ کی طرف تلواریں چلائی۔(جس بنا پر ان کی نمازیں قبول نہیں ہیں۔(تفسیر نماز:ص۳۹)
کرب و بلاکی المناک تاریخ کو دیکھیں تو اس میں بھی ملے گا کہ جو لوگ امام حسین علیہ السلام اور ان کی اولاد و اصحاب کو شہید کرنے کے لئے کربلائے معلیٰ میں یزیدی لشکر میں موجود تھے وہ سب ’’تارک الصلاۃ‘‘ نہیں تھے بلکہ ان میں اکثر نمازی تھے اورجماعت کے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے، لیکن ان میں کسی ایک کی بھی نماز قبول نہیں ہے کیونکہ وہ سب دشمن اہل بیتؑ تھےاور ان کےدل ولایت آل محمدؐ سے خالی تھے۔
 نتیجہ یہی ہے کہ جب تک دل میں علیؑ و اولاد علیؑ کی ولایت نہ ہو نہ نماز قبول ہے اور نہ کوئی دوسری عبادت۔ ولایت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ جانشین رسول کو ماننے میں بھی حکم خدا و رسولؐ کے آگے سر تسلیم خم کیا جائے، اور ولایت سے مراد یہ بھی ہے کہ اپنے کو مکمل طور پر ولایت کا تابع قرار دیا جائے، اپنی مرضی، اپنی پسند و ناپسند، اپنی فکر، اپنی خوشی ، اپنی سوچ بلکہ مکمل طور اپنے کو مولیٰ کے حوالے کردیا جائے۔ جو بھی ان کی مرضی ہو، ان کا حکم ہو، ان کی منشا ہواسی کے مطابق زندگی گزاری جائے، ہر عمل صرف اور صرف انہیں کی مرضی و خوشنودی کا خیال کرکے انجام دیا جائے، انہی کی مرضی کے مطابق زندگی گزاری جائے، کسی بھی عمل منجملہ نماز میں اپنی مرضی و خوشی یا اپنی پسند و فکر کو شامل نہ کیا جائے۔ جو علیؑ نے چاہا وہی کریں، جیسا علیؑ نے کیا ویسے ہی عمل کریںیہ ہے ولایت۔اور اگر ولایت ہے تو کبھی نماز نہیں چھوڑی جائے گی یہ ممکن ہی نہیں کہ ولایت ہو اور نماز نہ ہو۔ جب علیؑ کی نماز کبھی نہیں چھوٹی تو کسی علیؑ کو مولیٰ ماننے والے کی نماز بھی نہیں چھوٹ سکتی، جب علیؑ نے صرف اور صرف مرضیٔ خدا کا خیال رکھا تو ہر علیؑ کا ماننے والا ہمیشہ مرضیٔ علیؑ کا خیال رکھے گا۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا’’ و ما تنال ولایتنا الا بالعمل و الورع‘‘۔ ہماری ولایت عمل اور تقویٰ کے علاوہ کسی اور طریقے سے نصیب نہیں ہوسکتی(اصول کافی،ج۲، ص۷۵؛ بحار الانوار،۷۱،ص۱۸۷)۔ اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ علیؑ نے کیا چاہا اور کیسے کیا؟ یہ ہر آدمی نہ جان سکتا ہے اور نہ وہاں تک پہنچ سکتا ہے لہذا یا تو ہمارے پاس اتنا علم، صلاحیت، مہارت، تقویٰ و پرہیزگاری ہو کہ ’ولیٔ خدا ‘ کی مرضی تک پہنچ سکیں، جو آسان نہیں اور اکثر افراد میں نہیں لہذا دوسرا راستہ یہی ہے جن کے پاس اتنا علم و مہارت و صلاحیت اور تقویٰ و پرہیزگاری ہے اور جن کا حکم امامؑ نے دیا اور جن کی تائید امامؑ نے بھی کی اور جو صرف اور صرف حکم امامؑ و مرضیٔ امامؑ ہم تک پہنچاتے ہیںان سے مرضی مولیٰ معلوم کریں اور اسی کے مطابق زندگی گزاریں۔
دعا ہے ہم کو صحیح ولایت کو سمجھنے، واقعی معنی میں مولائی بننے کی توفیق عنایت فرمائےاور دنیا و آخرت میں اسی ولایت سے وابستہ رکھے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں