پیر، 4 جون، 2018

شادی میں تاخیر کیوں؟


شادی میں تاخیر کیوں؟
سید محمد حسنین باقری
اسلام نے شادی کے سلسلے میں بہت زیادہ تاکید کی اور اسے انسانی و سماجی ضرورت نیز مرد و عورت کی تکمیل کا ذریعہ گردانتے ہوئے، جلدی و وقت پر انجام دینے پر زور دیا ہے خصوصاً لڑکیوں کی شادی کےلئے بہت زیادہ تاکید کی ہے۔یقیناً وقت پر شادی کرنے کے بہت زیادہ فائدے اور اس عمل میں تاخیر کے بہت سے نقصانات ہیں۔چاہے لڑکا ہو یا لڑکی اگر شادی وقت پر نہ ہو تو اس کے نقصانات بہت زیادہ ہوتے ہیں، جس کا احساس بعد میں ہوتا ہے۔آج جوانوں کے درمیان غلط دوستیاں و تعلقات، وقت و ٹائم کی بربادی، گناہوں میں ملوث ہونا، خودارضاعی جیسے تباہ کن گناہوں کا شکار ہونا، پڑھائی وکام میں دل نہ لگنا، صحت کا خراب ہونا، شادی کے بعد تعلقات کا سازگار نہ ہوپانا، طلاق تک کی نوبت پہنچ جانا و غیرہ، یہ سب شادی میں تاخیر کے بعض نقصانات ہیں جن کا مشاہدہ ہم بآسانی کرسکتے ہیں۔
 جب خدا ہمارا خالق ہے اور نبیؐ و آل نبیؑ خدا کی جانب سے ہادی و رہبر بناکر بھیجے گئے تو یقیناً وہ ہماری مصلحتوں کو ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ اگر ان کی طرف سے جلدی شادی کرنے اور وقت پر شادی کرنے کی تاکید کی گئی ہے تو اس کا مطلب ہے اسی میں ہمارا فائدہ ہے اور اس پر عمل نہ کرنے یا ٹالنے میں ہمارا نقصان ہے۔ ہم لاکھ ترقی کرجائیں، معاشرہ جتنا بھی ہمارے اعتبار سے آگے بڑھ جائے، ہم اپنی مصلحتوں کو خدا سے بہتر نہیں سمجھ سکتے۔ 
پہلے کسی حد تک شادیاں وقت پر ہوتی تھیں لیکن آہستہ آہستہ اس میں کمی آتی جارہی ہے۔ کبھی تو ہمارے اپنے تصورات حائل ہوتے ہیں، کبھی ہماری بے جا خواہشات رکاوٹ بنتی ہیں، کبھی ہمارے رسم و رواج آڑے آتے ہیں، کبھی ہمارے بے جا توقعات ہم کو آگے بڑھنے سے روک دیتے ہیں، کبھی اپنے کو نظر انداز کرکے سامنے والے میں ساری خوبیاں ،سارے کمالات کی توقع کرنا مانع ہوتا ہے، کبھی یہ غلط تصور کہ جلدی شادی تعلیم میں اور آگے بڑھنے میں رکاوٹ ہے ہم کو آگے نہیں بڑھنے دیتا۔
ایک پہلو یہ بھی قابل توجہ ہے کہ ایک طرف شادی میں تاخیر دوسری طرف ہر طرح کی آزادی، مخلوط تعلیم، بے پردگی و بے حجابی، تعلقات و روابط میں کوئی رکاوٹ نہ ہونا، بڑھتی ہوئی عریانیت، ٹیلی ویژن،سیریل و فلموں میں کوئی اخلاقی پہلو کا تصور نہ ہونا، ہر شخص کے ہاتھ میں موبائل جس پر کسی طرح کا کنٹرول نہیں، سوشل میڈیا کا بغیر کسی اخلاقی ضابطہ کے استعمال۔ جس کا سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض جوان گناہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے خدا نے خواہشات مرد و عورت دونوں کے وجود میں رکھے ہیں اور ان خواہشات کے لئے صحیح و جائز راستہ شادی(دائمی و موقت) کی شکل میں رکھا ہے، اور وہ بھی بہت آسان اور انتہائی سستا۔ جب اس پر عمل نہ ہوگا یا اس کو سخت بنادیا جائے گا تو ہم پریشان بھی ہونگے، زندگیاں بھی برباد ہونگی، معاشرہ تباہی کا شکار بھی ہوگا،اولاد بے راہ روی کا شکار بھی ہوگی، غلط راستہ بھی اختیار کرے گی گناہوں میں مبتلا بھی ہوگی، دوسرے مذہب والے ہمارےداماد و بہو بھی بنیں گے۔ 
یہ رشتہ میں تاخیر کا رجحان ہمارے معاشرے میں ایسی خاموش دراڑیں ڈال رہا ہے جو معاشرتی ڈھانچے کے زمین بوس ہونے کا پیش خیمہ ہیں۔لیکن حیف کہ اس کاعملی ادراک ہم میں سے بہت سے افراد کو نہیں ہے۔
آئیے!اس تاخیر کے بعض اسباب و وجوہات اور ان کے راہ حل کی جانب اشارہ کرتے ہیں:
(۱): بعض لوگ سوچتے ہیں کہ جبتک سارے رسم و رواج، ساری تمناؤں اور آرزؤں کو پورا کرنے کا پیسہ نہ ہو ہم شادی نہیں کریں گےجبکہ واقعی اسلامی شادی میں سوائے مہر کے کوئی خرچ واجب نہیں ہے اور اس کی کوئی مقدار بھی معین نہیں ہے۔ یعنی اسلام نے شادی کو بہت سستا و آسان پیش کیا ہے ہم اپنی رسم و رواج کی وجہ سے اسے مہنگا بناکر اپنے لئے سخت بنا لیتے ہیں، نتیجہ میں خود بھی پریشان ہوتے نقصانات بھی اٹھاتے ہیں اور نوجوانوں کی زندگی کو بھی جہنم بنا دیتے ہیں۔
(۲):بعض جگہوں پر لڑکی کے والدین لڑکے میں وہ تمام کامیابیاں دیکھنا چاہتے ہیں جو پچاس سال کی عمر میں حاصل ہوتی ہیں۔مکان اپنا ہو،گاڑی پاس ہو،تنخواہ کم از کم اتنی ہو، تعلیم اتنی ہو وغیرہ وغیرہ۔گویا خدا کے رازق ہونے پر بھروسہ نہیں ہے لڑکے کی جاب کو رازق سمجھتے ہیں اگر لڑکے یا لڑکے والوں میں بھی یہ فکر ہوکہ لڑکا کچھ کرنے لگے تب شادی کریں گے تو یہ بھی غلط ہے یعنی ہم کو خدا پر بھروسہ نہیں یا معصومؑ کی تعلیمات پر بھروسہ نہیں ہے۔ اسی طرح لڑکی والوں میں یہ فکر زیادہ پائی جاتی ہے کہ لڑکا کرتا کیا ہے؟ کتنی سیلری ہے؟ گویا رازق لڑکا ہی ہے اور اس کی جاب ہے۔ جبکہ اس سلسلے میں خصوصی طور پر احادیث و تعلیمات معصومینؑ میں زور دیا گیا ہے، صریحی طور پر معصومینؑ نے شادی کو بھی رزق کا ذریعہ بتایا ہے، شادی کے ذریعہ بھی خدا رزق عطا کرتا ہے۔ شرط ہے کہ ہم کو خدا پر بھروسہ ہو۔ 
(۳):بعض جگہوں پر چاہے لڑکی والے ہوں یا لڑکے والے، اپنے مقابل میں ہر طرح کی خوبیاں چاہتے ہیں، کسی طرح کی کمی ناقابل قبول ہوتی ہے جبکہ کبھی اپنا جائزہ نہیں لیتے۔ اگر ہمارے اندر کچھ کمیاں ہیں تو سامنے والے میں بھی اگر سارے کمالات نہ ہوں تو وہ بھی شریک زندگی بن سکتا ہے۔
(۴):کہیں کہیں پر لڑکوں کا تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ جانا اور لڑکیوں کا اس میدان میں آگے نکل جانا ہے بھی ایک سبب ہے گزشتہ کئی برسوں کے بورڈ امتحانات کے نتائج اس بات کے شاہد ہیں،اس کی وجہ سے تعلیم کے لحاظ سے کبھی ہم پلہ رشتہ ملنا مشکل ہوجاتا ہے۔کچھ عرصہ سے لڑکیوں میں بڑھتے ہوئے مزید اعلیٰ تعلیم کے رجحان نے اس کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔یقیناً تعلیم بہت ضروری ہے، ترقی کرنا آگے بڑھنا بہت اچھا ہے لیکن اگر یہ تعلیم آئندہ کی زندگی کو دشوار بنا رہی ہو، اس تعلیم کے نتیجے میں عائلی زندگی متاثر ہورہی ہو تو یقیناً غور کرنے کی ضرورت ہے۔ راستہ وہ اختیار کرنا چاہیے جس سے تعلیم بھی ہو اور زندگی بھی چلے، ترقی بھی ہو گھر بھی بسا رہے۔
(۵): اچھی تعلیم کی وجہ سے لڑکیوں کو روزگار کے مواقع نسبتاً آسانی سے مل جاتے ہیں۔جس کا بعض مقامات پر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ والدین ان لڑکیوں پر مالی انحصار کرنا شروع کردیتے ہیںاور دوسرا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ نوکریوں کے لحاظ سے ہم پلہ رشتے ملنا مشکل ہوجاتے ہیں۔ اس میں بھی ضرورت ہے کہ والدین اولاد کی آئندہ کی زندگی کو دیکھیں اور نوکریوں میں بھی مقصد صرف نوکری نہ ہو بلکہ گھر بسانا بھی ہو اور ہم اس سلسلے میں ہم پلہ رشتہ دیکھنے کے بجائے، دین و ایمان، کردار و کیرکٹر کو معیار قرار دیں۔
(۶): کچھ والدین کا اس معاملہ میں بالکل توجہ نہ دینا ہے۔لڑکیوں کی عمریں اٹھائیس تیس سال ہوجاتی ہیں لیکن انھیں کم عمر ہی تصور کیا جاتا ہے۔ایک زمانہ تھا کہ اٹھارہ بیس کی عمر میں مائیں رشتوں کی تلاش میں سرگرداں ہوجایا کرتی تھیں۔شادی وقت پر ہی مناسب ہوتی ہے۔ لڑکے لڑکی دونوں کے مستقبل کو بھی نگاہ میں رکھ کر اور ان کی جوانی کو تباہی و بربادی سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ والدین توجہ دیں۔ وقت پر شادی کے لئے اقدام کریں تاکہ اولاد کی زندگی محفوظ رہ سکے اور آئندہ وہ سکون و آرام کی زندگی بسر کرسکے۔
(۷):جس لڑکی کی عمر تیس سال سے اوپر ہوجاتی ہے اس کے لئے عمر کے لحاظ سے رشتے مشکل ہوجاتے ہیں کیونکہ اکثر لڑکے والے کم عمر لڑکی کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ اس کے لئے دونوں طرف سے ضروری ہے کہ اپنی عمر کو بھی مد نظر رکھیں۔ اپنی عمر کے لحاظ سے رشتہ کریں۔ اور جب وقت پر شادی کریں گے تو رشتے بھی اچھے و مناسب ملیں گے۔
(۸):گھر والوں کے حد درجہ نخرے بھی کبھی رکاوٹ بنتے ہیں۔اول تو جلدی کوئی لڑکی، لڑکے کی ماں بہن کوبھاتی نہیں،ہزار طرح کے عیب نظر آتے ہیں۔ اور اگر کوئی لڑکی پسند آبھی جائے تو پھر فرمائشوں اور رسم و رواج کے نام پر لڑکی والوں کا مکمل استحصال کیا جاتا ہے۔ ادھر لڑکی والے بھی لڑکے میں ساری کامیابیاں ایک ساتھ ڈھوڈھتے ہیں؛ لڑکے کے گھر والے کتنے ہیں؟ لڑکا کرتا کیا ہے؟ سیلری کتنی ہے؟ پرائیویٹ جاب ہے یا سرکاری؟ ہائٹ کتنی ہے؟ تعلیم کتنی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ شائد یہ ساری چیزیں ٹھیک ہوں لیکن ان کی بنیاد پر شادی میں دیر ہورہی ہو، جوان کی زندگی متاثر ہورہی ہو، بہکنے کے احتمالات بڑھ رہے ہوں تو اولاد کی خاطر اس کی آئندہ زندگی کی خاطر اگر تمام مطلوبہ چیزوں میں کمی ہو تو اس کو بہانہ بناکر شادی میں دیر نہ کرنا چاہئے۔
(۹): ایک وجہ حد سے زیادہ آزادی ہے۔ جب دین و شریعت کو بالائے طاق رکھ کر بے پردگی، حرام تعلقات قائم کرنے، نامحرم سے دوستی کرنے کی آزادی دی جائے گی تواس کا لازمی نتیجہ یا تو شادی میں دشواری و رکاوٹ کی شکل میں سامنے آئے گا یا شادی کے سلسلے میں اختلاف نظر ہوگا۔ اولاد اپنے بوائے فرینڈ یا گرل فرینڈ سے چاہے گی ماں باپ کہیں اور سے۔ 
اس آزادی کے نتیجے میں کبھی کبھی مزید افسوسناک صورت حال یہ آتی ہے کہ دین ومذہب کا بھی پاس و لحاظ نہیں رہ جاتا،خاندان کی ذلت و رسوائی کی فکر بھی نہیں ہوتی۔جوان غیر مومن و غیر مسلم کو زندگی کا ساتھی بناتے ہیں جس سے دنیا بھی برباد ہوتی اور آخرت بھی۔ لہذا ضروری ہے کہ اس بیجا آزادی پر بھی کنٹرول کیا جائے، ہر طرح کی دوستی پر نظر رکھی جائے، حجاب و پردہ کی رعایت کی جائے۔ تاکہ بعد میں کف افسوس ملنا نہ پڑے۔
(۱۰): ایک سبب یہ بھی ہے کہ سیریل و فلموں کے ذریعہ مصنوعی خوبصورتی اور عشق و معاشقہ پر مشتمل مواد دیکھ کر بعض جوان اسی طرح کا خیالی ساتھی چاہتے ہیں، فلموں و سیریلوں میں دیکھے ہیرو ہیروئن کو اپنا آئیڈیل بناکر ویسا ہی ساتھی تلاش کرنے لگتے ہیں۔ جبکہ وہ یہ فراموش کردیتے ہیں کہ یہ خوبصورتی بناوٹی و مصنوعی ہے، حقیقت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔ اس وقتی و کچھ دیر کی خوبصورتی پر کتنا خرچ ہوتا ہے اس کا ہر ایک کو اندازہ نہیں ہوتا ہے۔ ( البتہ یہی معاملہ بعض شادی شدہ افراد کا بھی ہوتا جس کی وجہ سے آپسی رشتے میں درار پڑ جاتی ہے)۔ لہذا خیالی پلاؤ کے بجائے حقیقت کو بھی نگاہوں میں رکھنا چاہیے اور پھر اپنی جانب بھی توجہ دینا چاہیے۔
(۱۱): بعض جگہ پر ممکن ہے ایک سبب ناکامی کا احساس اور اس حوالے سے دل میں خوف کا پایا جانا ہو۔ بہت ممکن ہے یہ صرف وہم و خیال ہی ہو لہذا اس طرح کے خیالات کو اہمیت نہ دینا چاہیے۔ ثانیاً اگر ایسا کوئی معاملہ ہو تو اس کا راہ حل علاج و معالجہ ہے۔ 
(۱۲): ایک سبب واقعی مناسب رشتہ نہ ملنا ، سماج میں اپنی عزت و آبرو بچانے کے لئے اتنی رقم نہ ہونا، ماں باپ کا راضی نہ ہونا، سامنے والوں کے معیار و شرائط پر پورا نہ اترنا وغیرہ وغیرہ بھی ہیں۔ اس کے لئے بلکہ ہر رکاوٹ کے لئے گذشتہ باتوں کے علاوہ سب سے اہم و ضروری خدا پر بھروسہ، اس کی بارگاہ میں دعا اور اہل بیت علیہم السلام سے توسل ہے۔ جب خدا نے شادی کے لئے کہا ہے تو وہی راستہ بھی نکالتا ہے، جب اہلبیتؑ نے شادی پر زور دیا ہے تو وہ خدا کی جانب سے ہمارے لئے اسباب بھی مہیا کرتے ہیں اور ہر طرح کی مشکلات اور رکاوٹوں کو دور بھی کرتے ہیںبشرطیکہ ان پر بھروسہ ہو اپنی جانب سے تلاش و کوشش کے ساتھ ان سے بھی کہیں۔ انشاءاللہ ساری رکاوٹیں دور ہونگی۔
اس کے علاوہ مزید وجوہات بھی ہیں۔وجوہات جو بھی ہوں لیکن یاد رہے کہ اس سے ہمارا معاشرتی نظام درہم برہم ہورہا ہے اورہماری نوجوان نسل بروقت شادی نہ ہونے کی وجہ سے میڈیا کی پھیلائی ہوئی بے حیائی کا بآسانی شکار ہورہی ہے۔اور جو محفوظ ہے وہ اپنے ساتھ ایک خاموش نفسیاتی جنگ کا شکار ہے۔
مغرب تو اس طرز سے اپنے آپ کوبرباد کرچکا اور ان کی آبادی اب ریورس گیئر میں چل رہی ہے لیکن ہم جانتے بوجھتے بخوشی خود اس گڑھے میں گر رہے ہیں ۔شائد ہم سب اس اجتماعی خرابی اور زوال کے ذمہ دار ہیں۔
دعا ہے کہ خداوند عالم ہم سب کو شادیوں کے سلسلے میں سنجیدہ ہونے کی توفیق عطا فرمائے، اپنی فکر، اپنی سوچ اور اپنے رسم و رواج میں جکڑ کر اس مقدس عمل کو سخت بنانے سے محفوظ رکھے، وقت پر شادی کے لئے اقدام کرنے کی توفیق عنایت کرے، جو نوجوان شادی کی عمر کو پہنچ چکے ہیں ان کی شادی کے اسباب مہیا فرمائے، اس سلسلے میں ہر طرح کی رکاوٹوں کو دور فرمائے۔ آمین۔rrr

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں