ولایت رکن توحید
آیۃاللہ مصباح یزدی
ترجمہ سید محمد حسنین باقری
حدیث سلسلۃالذھب :لاالہ الااللہ حصنی فمن دخل حصنی امن من عذابی۔لکن بشرطھا و شروطھا و انا من شروطھا(بحارالانوار، جلد۴۹،صفحہ ۱۲۱)
حدیث قدسی میں ارشاد پروردگار ہے: لاالہ اللہ میرا قلعہ ہے جو بھی میرے قلعہ میں داخل ہوا وہ میرے عذاب سے محفوظ ہوگیا۔
امام علی رضا علیہ السلام نے اس حدیث کو اپنے آباء و اجداد طاہرین کے ذریعہ بیان کرنے کے بعد فرمایا:لیکن چند شرطوں کے ساتھ اور میں ان میں سے ایک ہوں۔
ولایۃ علی بن ابی طالب حصنی فمن دخل حصنی امن من عذابی (عیون اخبار الرضا، جلد۲، صفحہ ۱۳۶)
حدیث قدسی میں قول خداوند عالم ہے:علی ابن ابی طالبؑ کی ولایت میرا قلعہ ہے جو بھی اس قلعہ میں داخل ہوا وہ عذاب سے محفوظ ہوگیا۔
دونوں میں کون سی نسبت ہے؟ خدا کا حصن (قلعہ)، توحید ہے یا ولایت علیؑ ؟ یا خدا کے دو حصن ہیں ایک توحید اور ایک ولایت؟
دونوں حدیثوں کو کیسے جمع کریں؟
پہلی حدیث کے تتمہ سے نتیجہ واضح ہے۔ بشروطھا و انا من شروطھا۔توحید حصن خدا ہے لیکن اس کی شرط ولایت ائمہؑ ہے۔
توحید کا قلعہ اسی وقت مضبوط و مستحکم ہوگا جب ولایت کے ساتھ ہو۔دوسری حدیث ذیل ہے پہلی حدیث کا۔ کس طرح؟
خلقت انسانی کا سبب و مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے ارادہ و اختیار سے خدا شناس و خدا پرست ہو اور اس سے نزدیک ہوجائے۔ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (سورہ ذاریات، آیت۵۶)(اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے)۔ اور عبادت کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ قرب خدا کا وسیلہ ہے۔
تمام انسانوں کا اصلی و نہائی ہدف قرب خدا ہے اور قرب خدا کا وسیلہ عبادت ہے، آخری ہدف یہ ہے کہ اُس مقام تک پہنچ جائے کہ جس کو پہلوئے خدا سے تعبیر کیا گیا ہے: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِيكٍ مُّقْتَدِرٍ (سورہ قمر، آیت۵۵)(اس پاکیزہ مقام پر جو صاحبِ اقتدار بادشاہ کی بارگاہ میں ہے).
جیسا کہ فرعون کی زوجہ کی زبانی نقل ہوا :وَضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ (سورہ تحریم، آیت ۱۱)۔(اور خدا نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی زوجہ کی مثال بیان کی ہے کہ اس نے دعا کی کہ پروردگار میرے لئے جنّت میں ایک گھر بنادے)
خدا نے نمونہ بنایا ان کی اس دعا میں۔ جو معرفت و ہمت پیدا کی اور خدا سے درخواست کی خدا کے قرب کی یعنی میرے لئے خدا کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔
انسانی خلقت کا ہدف خدا کی بندگی ہے۔ یعنی لاالہ الااللہ۔ اپنے ہدف تک پہنچنا یعنی عذاب سے محفوظ ہونا۔
جو چیز ہماری خلقت و پیدائش کا سبب ہے اگر ہم نے اسے انجام دیا گویا اپنے ہدف تک پہنچ گئے اور ہم نے حفاظت و مصونیت حاصل کرلی۔ جب ہدف خدا کی بندگی ہے تو اس ہدف تک پہنچنے کے بعد پھر کیا نقص باقی رہ جاتا ہے؟
اس ہدف تک پہنچنے سے انسان ایک حصن و قلعہ میں داخل ہوجاتا ہے۔
پس کلمہ توحید کا مطلب ہے کہ خدا کے علاوہ کوئی بھی قابل پرستش نہیں ہے یعنی صرف او رصرف اسی کی پرستش ہونا چاہئیے۔ عمل میں ہمارا راستہ پرستش خدا ہونا چاہیئے۔یعنی ہم ’وما خلقت الجنّ و الانس الا لیعبدون‘ کا مصداق بن جائیںاس صورت میں پھر کوئی خطرہ نہیں ہے۔ خطرہ اس وقت ہوتا ہے جب راستہ سے منحرف ہوجائے لیکن جب راستہ کو صحیح طے کرے اور مقصد تک پہنچ جائے پھر کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لہذا کلمہ لاالہ الااللہ ایک ایسا قلعہ ہے جس سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ جو بھی اس قلعہ میں داخل ہوگیا وہ محفوظ ہے پھر تو شیاطین اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
توحید کا کلمہ، کلمۂ نجات، کلمۂ اخلاص و کلمۂ سعادت ہے۔ کیا اس کا مطلب صرف یہی ہے کہ زبان سے لاالہ الا اللہ کہنا کافی ہے؟۔
اگر صرف زبان سے کہنا کافی ہوتا تو بہت سے افراد اس قلعہ میں داخل ہوجاتے، تمام منافقین بھی لاالہ الا اللہ کہتے تھے اور نماز بھی پڑھتے تھے، معاویہ جیسے افراد بھی یہ کلمہ کہتے تھے۔ اگر صرف کہنا کافی ہو تو مسئلہ بہت آسان ہے۔ اس صورت میں اس دنیا کو پیدا کرنا کہ ایک کلمہ سے جس کے تمام مسائل حل ہوجائیں ، پیدا کرنا عبث و بیکار ہوتا۔
واضح ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس کلمہ کا محتوی اور اس کے لوازم عملی مراد ہیں۔ لازم ہے کہ ایسا عقیدہ ہو جو عمل میں مجسم ہو۔ لیکن کیسا عقیدہ منظور ہے؟
توحید یعنی ’’خالقیت‘‘ و ’’ربوبیت تکوینی‘‘ اور ’’ربوبیت تشریعی‘‘ میں توحید
توحید کے کئی مفہوم ہیںجیسے نوع کی جب تحلیل کریں تو اس سے جنس و فصل حاصل ہوتے ہیں۔ جنس و فصل کو نوع پر حمل کریں تو حمل اولی ذاتی ہے جیسا کہ خود مفہوم نوع کی تحلیل سے دو یا تین مفہوم حاصل ہوتے ہیںاسی طرح جب مفہوم توحید اور لاالہ الااللہ کو تحلیل کیا جائے تو اس سے چند مفاہیم حاصل ہوتے ہیں(یعنی اس کے اندر چند مفاہیم موجود ہیں)۔ پہلا مفہوم یہ حاصل ہوتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی خالق نہیں اس لئے الوہیت و پرستش اس کی شان ہے جو پیدا کرنے والا ہو۔ ثانیا بہت سے لوگ خالقیت کے تو قائل ہیں لیکن بت کو پوجتے ہیں ، مکہ کے بت پرست بھی خالقیت خدا کے قائل تھے جبکہ بتوں کو پوجتے تھے۔ کہتے تھے: مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ(سورہ زمر، آیت۳)( ہم ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں گے).
دوسرا مسئلہ جو توحید کی تحلیل سے حاصل ہوتا ہے ، اللہ کی ربوبیت ہے یعنی خداوند عالم دنیا کو پیدا کرنے کے علاوہ اس کا اختیار بھی اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے اس کے ارادے پر کوئی حاکم نہیں ہے۔ کوئی بھی چیز اس کے ارادے کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی، دنیا جہان کا صاحب اختیار وہ ہے۔ یہ نظریہ بعض یہودیوں کے غلط نظریہ کے برخلاف ہے ۔ بعض کا عقیدہ یہ تھا کہ خدا نے پیدا کرکے چھوڑ دیا ہے۔ اب دنیا کی تدبیر و انتظام خدا کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ مفوّضہ نامی فرقہ کا بھی یہی عقیدہ تھا ؛ ان کا کہنا تھا کہ: خداوند عالم نے دنیا کا اختیار انسان کو تفویض (سپرد) کردیا ہے۔
پس دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ ہم ربوبیت میں توحید کے قائل ہوں۔ ربوبیت تکوینی یعنی خداوندعالم دنیا کو تکوینی طور پر چلارہا ہے۔ إِنَّ اللَّـهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ (سورہ آل عمران، آیت۳۷)(وہ جسے چاہتا ہے رزق عطا کرتا ہے) وَاللَّـهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ(سورہ آل عمران، آیت۱۵۶) ۔ اور دنیا کے تمام تربیتی اور مدیریتی امور خدا کے ہی ذریعہ ہیں دنیا میں ہر عمل کرنے والا خدا کے اذن سے عمل کرتا ہے۔
ابلیس کے پاس بھی اس مرحلہ تک توحید تھی(یعنی اس حد تک وہ بھی موحد تھا) وہ خدا کی خالقیت کا بھی قائل تھا اور خدا کی ربوبیت کا بھی قائل تھا۔ ابلیس نے کہا: خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ(سورہ اعراف، آیت۱۲)۔(-تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور انہیں خاک سے بنایا ہے)۔ یعنی خدا کی خالقیت کو تسلیم کرتا تھا۔ اور کہا: قَالَ أَنظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ (سورہ اعراف، آیت۱۴)(اس نے کہا کہ پھر مجھے قیامت تک کی مہلت دے دے)۔ یعنی خدا کی تکوینی ربوبیت کو بھی مانتا تھا۔ اس نے اعتراف کیا کہ تو میرا ربّ ہے اور خدا سے مہلت مانگی اور مہلت دینا خدا ہی کا کام ہے یہ بھی مانتا تھا۔ اس نے کہا ’’تم مجھے مہلت دو‘‘ یعنی مانتا تھا کہ دنیا کی مدیریت و انتظام خدا کے ہاتھ میں ہے۔ یہاں تک ابلیس موحد تھا۔ توحید در خالقیت بھی رکھتا تھا اور توحید در ربوبیت کا بھی قائل تھا۔لہذا سوال اٹھتا ہے کہ ابلیس میں کہاں پر کمی تھی؟۔ کمی یہ تھی کہ وہ یہ نہیں مانتا تھا کہ جو بات بھی خدا کہے اس کی اطاعت و پیروی کرنا چاہئیے۔ اس نے کہا: میں انھیں باتوں کو مانوں گا جو میری سمجھ میں آئیں اور میری عقل وہاں تک پہنچ جائے لیکن تیرا کہنا ہے کہ جو مجھ سے کم تر ہے اس کو سجدہ کروں ’’قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ (سورہ اعراف، آیت۱۲) میں اس حکم کو نہیں مانوں گا۔ قَالَ لَمْ أَكُن لِّأَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ (سورہ حجر، آیت۳۳)۔(اس نے کہا کہ میں ایسے بشر کو سجدہ نہیں کرسکتا جسے تو نے سیاہی مائل خشک مٹی سے پیدا کیا ہے)
ابلیس کی خطا و غلطی ربوبیت تشریعی میں تھی۔ ربوبیت تشریعی کا مطلب ہے کہ چونکہ خداوندعالم دنیا کا صاحب اختیار اور مالک ہے لہذا جو بھی حکم وہ دے اس کی اطاعت ضروری ہے اور جو قانون بھی وہ وضع کرے وہ معتبر ہے ۔ استقلالی طور پر کوئی دوسرا قانون وضع کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی کہتے تھے۔۔۔احی الموتی (سورہ آل عمران، آیت۴۹) اس کے آگے فرماتے : باذن اللہ (خدا کے اذن سے)۔ خدا وند عالم نے بھی فرمایا: وَتُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِي۔۔۔(سورہ مائدہ، آیت۱۱۰) حضرت عیسیٰ علیہ السلام ذاتی طور پر با اختیار نہیں تھے۔ پیغمبر اکرمﷺ اور ائمہ معصومین علیہم السلام بھی جن احکام کا تشریعی طور پر ہم کو حکم دیتے ہیں وہ اس اعتبار سے کہ یہ حکم باذن اللہ ہے لہذا ہم پر ان کی اطاعت واجب ہے۔ یہ حضرات بغیر اذن خدا کے کوئی کام نہیں کرتے۔ اگر کوئی بغیر خدا کے اذن کے کوئی قانون وضع کرے اس کے لئے اعلان پروردگار ہے: قُلْ آللَّـهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّـهِ تَفْتَرُونَ (سورہ یونس، آیت۵۹)(کیا خدا نے تمہیں اس کی اجازت دی ہے یا تم خدا پر افترا کررہے ہو).
لہذا جب ہم ان سب کو قبول کریں تبھی موحّد ہیں۔ توحید کا مطلب یہ تمام مفاہیم ہیں ۔ خدا ایک ہے یعنی :
۔تنہا وہ خالق ہے۔
۔تنہا وہی رب تکوینی اور رب العالمین ہے۔ لاربّ سواہ (بحار الانوار،ج۴۷،ص۳۰۹)
۔ تنہا وہی ربّ تشریعی ہے یعنی قانون گزاری کا حق صرف اسی کو ہے۔
ولایت، ربوبیت تشریعی میں سے ہے
اگر ان مفاہیم اور ان باتوں کو ہم تسلیم کرتے ہیںتو یہ بھی معلوم رہنا چاہئیے کہ خداوند عالم کا ارادہ اس بات سے متعلق ہے کہ عالم اسلام میں قانون بیان کرنے والے اور قانون کا اجرا کرنے والے سب سے پہلے پیغمبر اکرم ﷺ ہیں اور اس کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام ہیں۔ اگر بعض روایات میں یہ کہا گیا ہے کہ : و من جحدکم کافر (من لایحضرہ الفقیہ، ج۲،ص۶۱۳) یہ یوں ہی نہیں کہا گیاہے۔ اگر کسی کے لئے ثابت ہوجائے کہ خدا نے کہا ہے ’’علیؑ کی اطاعت کرو‘‘ اس کے باوجود وہ کہے کہ ’’ نہیں میں نہیں کروں گا‘‘، تو یہ عمل عین عمل ابلیس ہے۔ ممکن ہے کسی کے لئے ثابت نہ ہوا ہو، یا نہ سمجھا ہو، یا سمجھ نہ سکا ہو ایسا شخص مستضعف ہے اور جس حد تک نہیں سمجھا یا سمجھ نہیں سکا تو وہ معذور ہے۔ لیکن جو سمجھ گیا اور جس نے خود پیغمبر ؐ سے سنا : من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘ اگر ایسا شخص انکار کرے تو وہ قلبا کافر ہے، اگرچہ ظاہرا مسلمان ہو۔ یعنی خدا کے حکم کو نہیں مان رہا ہے۔ جب معلوم ہوجائے سمجھ جائے کہ خدا نے ان کو معین کیا ہے پھر بھی انکار کرے تو فقہی اصطلاح میں کہتے ہیں کہ منافق ہے۔لیکن منافق کے معنی یہ ہیں کہ باطنی طور پر کافر ہے اور ظاہر میں مسلمان ہے؛ ظاہراً پاک ہے اس کے ساتھ شادی جائز ہے ، اس کا ذبیحہ حلال ہے۔ منافقین قلبی طور پر خدا کے حکم کو قبول نہیں کرتے اور اپنے دل میں کہتے ہیں کہ ’’ خدا نے بیجا کہا ، علی کو پیغمبر کا جانشین نہیں ہونا چاہئے، علی جوان تھے ان میں اس کام کی صلاحیت نہیں تھی‘‘۔
لہذا توحید اسی وقت مکمل ہوگی جب ’’توحید در خالقیت‘‘ ، ’’ربوبیت تکوینی‘‘ اور ’’ربوبیت تشریعی‘‘ سب ایک ساتھ جمع ہوجائیں اور انسان تینوں کا ایک ساتھ قائل ہوجائے، اس لئے کہ باوجودیکہ ابلیس خدا کی خالقیت اور ربوبیت تکوینی کو مانتاتھا پھر بھی خداوند عالم نے فرمایا:’’ کان من الکافرین‘‘ (سورہ بقرہ، آیت۳۴) یہ نسبت اس لئے ہے کہ شیطان ربوبیت تشریعی کو نہیں مانتا تھا۔ ہم اگر توحید کو قبول کرتے ہوں اور کلمہ ’’لاالہ الااللہ‘‘ کو صحیح کہنا چاہیں تو ضروری ہے کہ خدا کو خالقیت میں وحدانیت ، ربوبیت تکوینی اور ربوبیت تشریعی میں بھی مانیں۔ خدا کی ربوبیت تشریعی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے احکام و دستورات کو بھی مانیں، اس لئے کہ خدا وند عالم کا قول ہے :’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ‘‘(سورہ نساء، آیت۵۹)(ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں).
لہذا اگر ہم ان افراد کے احکام و دستورات کو نہ مانیں تو ہم نے خدا کے احکام کو تسلیم نہیں کیا ہے؛ یعنی ہم نے خدا کی ربوبیت تشریعی کو قبول نہیں کیا ہے اور ایسی صورت میں توحید مکمل نہیں ہے۔ پس کلمہ لاالہ الااللہ‘‘ علی علیہ السلام کی ولایت کو بھی شامل ہوگا۔امام رضا علیہ السلام کا قول ’’انا من شروطھا‘‘ باہری شرط نہیں ہے باین معنی کہ ایک دفعہ کہیں ’’لاالہ الا اللہ‘‘ خدا کا قلعہ ہے پھر کہیں ایک اور چیز کا اس میں اضافہ ہو، بلکہ وہ خود اسی کلمہ کے اندر سے نکلے ۔ ولایت علی علیہ السلام کو تسلیم کرنا اس کے بعد ولایت امام رضا اور دیگر تمام ائمہ کی ولایت کو قبول کرنا خود توحید کے لوازم میں سے ہے۔اس لئے کہ خدا نے کہا ہے۔ اور اگر ان کو نہ مانیں اور قبول نہ کریں تو ربوبیت میں از جہت توحید کمی ہے یعنی توحید مکمل نہیں ہے۔ چونکہ خدا وند عالم اپنے بندوں کی بنسبت ربوبیت تشریعی رکھتا ہے اور وہ کوئی بھی قانون وضع کرے اس کو ماننا اور اس کی پیروی کرنا ضروری ہے لہذا ولایت کو نہ ماننے کا مطلب ہے ہم نے اس کی ربوبیت تشریعی کو نہیں مانا تو ہماری توحید بھی ناقص ہے مکمل نہیں ہوئی۔(ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں)
توحید کے کسی مرحلہ کا انکار توحید کا انکار ہے
ممکن ہے کوئی کہے کہ ابلیس کا مرتبہ بہت سے کفار سے بلند ہے اس لئے کہ کافر کہتے ہیں خدا ہی نہیں یعنی نہ تو توحید در خالقیت کو مانتے ہیں نہ توحید در ربوبیت تکوینی کو اور نہ توحید در ربوبیت تشریعی کو لیکن ابلیس تو توحید کے دو مرحلہ کو تو مانتا ہے گویا دو بٹا تین اس کے پاس توحید تھی لہذا کیسے رجیم ہوگیا اور تمام برے لوگ اس کی پیروی میں دوزخ میں جائیں گے اور وہ ان سب کا سردار ہے؟ دوزخیوں کا سردار تو ان کفار کو ہونا چاہئیے جو بالکل ہی خدا کو نہیں مانتے؟۔مسئلہ یہ ہے کہ یہ تین مراحل و مراتب صورت میں تو تین ہیں لیکن تینوں کی حقیت ایک ہے۔ توحید یعنی تینوں مراحل ، اور موحد یعنی جو تینوں مراحل کو مانتا ہواگر کسی ایک مرحلہ کو نہ مانے تو اس نے ہرگز توحید کو نہیں مانا۔اگر کوئی کہے کہ میں مکمل اسلام کو تو مانتا ہوں لیکن نماز کو نہیں مانتا ؛ یہ مومن ہے یا کافر ؟ مسلمان وہی ہے جو اس مجموعہ کو مانتا ہو اگر ایک ذرہ بھی کم ہوجائے تو کوئی فائدہ نہیں۔ اگر کوئی بہترین کھانا تیار کرے ، بہت ہی معیاری ڈش پکائے اور اس میں تھوڑا سا زہر گرجائے تو کیا ہوگا؟ یہ بہترین ڈش ، بہت ہی اچھا کھانا اگر اس میں تھوڑا سا زہر پڑ جائے تو پورا کھانا خراب ہوجائے گا۔ لہذا اگرمجموعہ سالم ہو توحید کے تینوں مراحل کو مانے تب ہی موحد ہوگا۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ چونکہ شیطان خالقیت کو تسلیم کرتا تھا لہذا بہت سوں سے بہتر ہے۔ایسا کیوں ہے؟ کتنے ہی افراد ایسے ہیں جو وجود خدا ہی کے منکر ہیں یا نبوت ہی کو نہیں مانتے ، کچھ بھی تسلیم نہیں کرتے کیوں ایسے افراد شیطان کے برابر یا شیطان سے بہتر ہوں؟ جواب یہ ہے کہ شیطان ایسے رکن کا منکر ہوا جو اعتقادات کی بنیاد ہی کو ختم کردیتا ہے، اس انکار سے یہ مجموعہ ہی ختم ہوگیا اور خراب ہوگیا۔ ایسی صورت میں انکار جتنا شدید تر و سخت ہوگا اتنا ہی کفر کا مرتبہ بھی بلند ہے۔ شیطان اتنا عناد و دشمنی رکھتا ہے کہ خدا کے مقابل کھڑا ہوکر کہتا ہے : قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ(سورہ ص، آیت۸۲)(اس نے کہا تو پھر تیری عزّت کی قسم میں سب کو گمراہ کروں گا) اس طرح کی دشمنی سے کفر کا مرتبہ بھی آگے بڑھے گا۔
یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ درحقیقت ولایت توحید کے اندر ہی ہے، توحید میں داخل ہے اس لئے کہ توحید منحل ہوتی ہے توحید در خالقیت، ربوبیت تکوینی اور ربوبیت تشریعی میں(یعنی توحید کے اندر یہ تینوں داخل ہیں)۔ اور ولایت، ربوبیت تشریعی میں سے ہے یعنی خدا کہتا ہے لازم ہے کہ حاکم کو میں ہی معین کروں، قانون کو میں ہی وضع کروں اور اگر اس میں کوئی دخل دے تو یہ شرک ہے۔
آج جامع الشرائط فقیہ و مجتہد کی ولایت حصن الٰہی ہے
یہاںتک کی ہماری گفتگو سے یہ ثابت ہوا کہ ائمہ علیہم السلام کی ولایت توحید ہی میں شامل ہے اب ہم چاہتے ہیں کہ ایک قدم اور آگے بڑھائیں۔
حدیث مقبولۂ عمر ابن حنظلہ کو سبھی نے سنا ہے کہ جب امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہ سوال ہوا کہ جب حکومتی امور میں ہماری رسائی آپ تک نہ ہو تو کیا کریں؟ اگر میراث کے مسئلہ یا کسی اور مسئلہ میں اختلاف پیش آجائے اور قاضی کے فیصلہ کی ضرورت ہو اور آپ تک رسائی نہ ہو تو کیا کریں؟ امام نے فرمایا: جامع الشرائط فقہا کی طرف رجوع کروپھر فرمایا: ۔۔۔فانّی قد جعلتہ علیکم حاکما فاذا حکم بحکم و لم یقبلہ منہ فانما بحکم اللہ استخف و علینا ردّ و الراد علینا کافر رادّ علی اللہ و ھو علی حد من الشرک باللہ۔۔۔‘‘ (بحارالانوار، ج۲،ص۲۲۱) امام کے اس کلام کا مطلب کیا ہے؟یہ جو امام نے فرمایا کہ جامع الشرائط فقیہ کے حکم کو رد کرنا شرک کا حکم رکھتا ہے ، اس کا مطلب کیا ہے؟ جو شخص جامع الشرائط فقیہ کو رد و انکار کرتا ہے وہ یہ نہیں کہتا ہے کہ دو خدا ہیں بلکہ کہتا ہے کہ : میں اس فقیہ کے حکم کو نہیں مانتا ہوں ۔ یہ فقیہ نہ خدا ہے نہ پیغمبر ہے نہ امام معصوم ہے۔ بلکہ ایک فقیہ ہے۔ کیوں اس کے حکم کا انکار شرک کا باعث ہے؟
اگر میرا سابق کا بیان آپ کے ذہن مبارک میں ہو اور اس کی تھوڑی تحلیل کیجئے تو آپ دیکھیں گے کہ یہ مطلب بھی اسی سے حاصل ہورہا ہے؛ اس لئے کہ جب امام معصوم علیہ السلام کی اطاعت واجب ہے اور انھوں نے فرمایا : کہ میں نے فلاں کو اپنا وکیل یا حاکم یا نائب بنایا ہے اور لازم ہے کہ اس کی اطاعت کرو ، اس کی اطاعت کا کیا حکم ہے ؟ جب امیرالمومنین علیہ السلام ایک شخص مثلا مالک اشتر کو معین کریں اور فرمائیں: میں نے ان کو عامل قرار دیا ان کی اطاعت تم پر لازم ہے، تو کیا کرنا چاہئے؟ ایسی صورت میں مالک اشتر کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ یہ امام معصوم کی اطاعت ہے۔ کیوں امام معصوم کی اطاعت ہے؟اس لئے کہ خدا کی اطاعت ہے۔ یہ حکم ، خدا کی تشریعی ربوبیت کا مصداق ہے۔ اور جب امام فرمائیں: بعد کے مرحلہ میں تمہارا حاکم (مجتہد و )ولی فقیہ ہے ۔ تو اس کی اطاعت بھی خدا کی تشریعی ربوبیت کا مصداق ہوگی۔ ایسی صورت میں یہ مطلب واضح ہوجائے گا کہ اس کے حکم کا انکار خدا کے شرک کے جیسا ہے، ھو علی حد من الشرک باللہ۔
ابلیس کیوں ایک الہی قانون کو انکار کرنے اور حضرت آدم کا سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے مشرک ہوگیا؟شیطان تشریع الہی کا انکار کرنے کی وجہ سے مشرک ہوگیا۔امام معصوم کی رد اور ان کا انکار بھی شرک کا سبب ہوتا ہے۔ البتہ یہ شرک باطنی شرک ہے۔ یہ ایسا شرک نہیں ہے جو گردن زدنی کا سبب ہو بلکہ یہ شرک ایمان کے مقابلے میں ہے۔ یہ اس شرک کے علاوہ ہے جو اسلام کے مقابلے میں ہے۔ یہ باطنی کفر و شرک ہے اس کے ظاہری احکام محفوظ ہیں یعنی پاک ہے، اس کا ذبیحہ حلال ہے اور اس کے ساتھ شادی کی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ صدر اسلام کے منافقین اسی طرح تھے۔ ظاہری شرک اسلام کے مقابلے میں ہے اور باطنی شرک ایمان کے مقابلے میں۔ ھو علی حد من الشرک باللہ۔ یعنی جب میں یہ کہوں کہ : تم محمد ابن مسلم کی طرف رجوع کرو جو وہ کہیں اطاعت کرو۔ اگر اطاعت نہ کی اور میری بات کا نکار کیا تو گویا خدا کی بات کا انکار کیا ہے اور یہ شرک تشریعی ہے۔ اگر خلیفہ اموی یا خلیفہ عباسی کے معین کئے ہوئے قاضی کی اطاعت کی گویا اس کے حکم کو خدا کے حکم کے ساتھ شریک قرار دیا ہے۔ پس مشرک ہوگئے۔ اس رخ سے جب توحید کی تحلیل کریں اور اس کے مراتب و مراحل کو سامنے رکھیں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ توحید ، امیرالمومنینؑ کی ولایت کو، امام رضاؑ کی ولایت کو اور تمام ائمہؑ کی ولایت کو بھی شامل ہے اور اس کے بعد کے مرحلے میں فقیہ کی ولایت کو بھی اپنے اندرسمیٹے ہوئے ہے۔لہذا اگر کوئی کہے کہ آج فقیہ (و مجتہد جامع الشرائط) کی ولایت خدا کا قلعہ ہے اور من دخلہ امن من عذاب اللہ؛ تو اس نے کوئی غلط بات نہیں کہی ہے۔ اُسی دلیل کی بنیاد پر کہ لاالہ الااللہ خدا کا قلعہ ہے ۔اُسی دلیل کی بنیاد پر کہ ولایت علی ابن ابی طالب خدا کا قلعہ ہے، اور اُسی دلیل کی بنیاد پر کہ امام رضا کی ولایت توحید کی شرطوں میں سے ہے؛ اُسی دلیل کی بنیاد پر فقیہ کی ولایت بھی جو امام زمانہؑ کی مرضی ہے ، حصن الٰہی کا جزء ہے۔(ماہنامہ اصلاح، لکھنؤ)
٭…٭…٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں