پیر، 4 جون، 2018

امام سجاد کی روایات میں قرآن


باسمہ تعالیٰ
امام سجاد علیہ السلام کی روایات میں قرآن 
(مندرجہ ذیل مضمون محترم آزادہ عباسی کی فارسی تحریر ’’مبانی قرآنی گفتارھای امام سجاد علیہ السلام‘‘  کا ترجمہ ہے)
امام زین العابدین علیہ السلام، عترت رسول اکرم ﷺ کی ایک فرد اور واضح مصداق ہیں۔آپؑ عِدل قرآن اور عالم قرآن ہیں، اس بات کی تائید مشہور و متفق علیہ حدیث ثقلین بھی کر رہی ہے۔امام کاکلام ہمیشہ قرآن کے ہمراہ ہے اور آپ کی قرآن کے ساتھ معیت قیامت تک باقی رہے گی ۔ احادیث کے مطابق امام سجاد علیہ السلام ان افراد میں سے ہیں جو تبیین و توضیح قرآن کے عہدہ دار ہیں۔ اس سے قطع نظر آپ کاکلام قرآنی مبانی پر مشتمل ہے آپ کی گفتگو قرآن کے محور پر ہے لہذا ذیل میں امامؑ کےکلام و اقوال کے قرآنی مبانی کو پیش کیا جارہا ہے:
ابتدا ہی میں اس جانب توجہ بھی ضروری ہے کہ کلی طور پر امام سجاد علیہ السلام کےکلمات و بیانات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: وہ کلمات جو صحیفہ سجادیہ میں ذکر ہوئے اور وہ کلمات جو صحیفہ سجادیہ کے علاوہ دیگر حدیثی کتابوں میں معتبر اسناد کے ساتھ موجود ہیں۔جس کا ایک نمونہ علامہ عزیز اللہ عطاردی کی کتاب ’’مسند امام سجاد علیہ السلام‘‘ ہے۔ اس کتاب میں امام زین العابدین علیہ السلام کی روایات کو مختلف عناوین کے تحت ذکرکیا گیا ہے مثلاً: علم ، توحید، نبوت، امامت، مناقب اہل بیتؑ، قرآن، شیعہ، اصحاب، فضائل شیعہ، ایمان و کفر، دعاوغیرہ۔۔۔
صحیفہ سجادیہ کے سلسلے میں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ اس عظیم الشان کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ قرآن کریم کے ساتھ مکمل طور پر ہماہنگ ہے۔ صحیفہ سجادیہ کے مطالب نہ صرف قرآن کے ساتھ ظاہری طور پر موافق و مطابق ہیں بلکہ صحیفہ کی ہر دعا کے فقرہ کے لئے قرآنی شاہد بھی پیش کیا جاسکتا ہے اور اس کی شرح و توضیح کے لئے قرآن کریم سے استناد کیا جاسکتا ہے۔علماء و محققین اس بات پر متفق ہیں کہ معنی و مطالب کے اعتبار سے صحیفہ سجادیہ اور قرآن کے درمیان عمیق رابطہ پایا جاتا ہےاور یہ رابطہ اتنا عمیق اور گہرا ہے کہ صحیفہ سجادیہ کو ’اخت القرآن‘‘ کہا گیا ہے۔توجہ رہے کہ اس رابطہ و ہماہنگی کا راز علوم آل محمد ؑ کا منبع فیض الٰہی سے وابستہ ہونا اور علوم کا وہاں سے حاصل کرنا ہے ۔ اور چونکہ قرآن اور صحیفہ سجادیہ کا منبع و سرچشمہ ایک ہی ہے لہذا دونوں کی تعلیمات و مطالب ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ البتہ یہ ہماہنگی امام سجاد کے تمام کلمات میں پائی جاتی ہے۔ مثلا امام سجاد ؑ کے ارشادات پر مشتمل رسالہ حقوق میں امام نے فرمایا:  وَأَمَّا حَقُّ بَصَرِكَ فَغَضُّهُ عَمَّا لا يَحِلُّ لَكَ وتَرْكُ ابْتِذَالِهِ إلاّ لِمَوضِعِ عِبْرَة تَسْتَقْبلُ بهَا بَصَرًا أَو تَسْتَفِيدُ بهَا عِلْمًا، فَإنَّ الْبَصَرَ بَابُ الِاعْتِبَارِ‘‘ (۱) [تمہاری آنکھ کا حق تمہارے اوپر یہ ہے کہ اسے ناجائز و حرام چیزوں سے بند رکھو اور اس کی حفاظت کرو اس کو صرف عبرت حاصل کرنے کےلئے استعمال کرو جس سے صاحب بصیر ت ہوجاؤ یا اس سے علم حاصل کرو، اس کو ذریعۂ علم بناؤ اس لئے کہ آنکھ عبرت کا وسیلہ ہے۔]
جیسا کہ اس نورانی کلام میں ظاہر ہے کہ امام نے آنکھ کے سلسلے میں سورہ نور کی آیت ۳۱ کے مفہوم سے استفادہ فرمایا ہے ۔ اسی طرح امام سجاد علیہ السلام نے اپنی تمام گفتگو اور تمام کلمات میں قرآن کریم کی آیات سے استفادہ کیا ہے اور قرآنی آیات کو اپنے کلام کے مبانی کے طور پر پیش کیا ہے۔ صحیفہ کی دعا نمبر ۵۲ میں آپؑ نے قرآن کو خداوند عالم کی جانب سے نازل شدہ کتاب تسلیم کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’قبلتُ کتابَکَ‘‘(۲) [میں نے تیری کتاب کو قبول کیا]اور ایک دوسری دعا میں قرآن کریم کے ہادی ہونے کی وجہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن نور ہے: ’’وَ جعلتَہ نوراً نَھتدی مِن ظُلَمِ الضَّلالۃ‘‘ (۳) [اور ایسا نور بنا دیا ہے جس کا اتباع کرکے ہم گمراہی کی تاریکیوں اور جہالت کے اندھیروں میں ہدایت پاسکیں]
قابل ذکر ہے کہ امام سجاد ؑ اپنی دعاؤںمیں مسلسل خدا سے یہ طلب فرماتے ہیں کہ کلام الٰہی کے مقابلہ توفیق حاصل ہو تاکہ قرآن کا حق ادا کریں اور اس کے اوامر کے مقابلے تسلیم رہیں۔ آپؑ اس سلسلے میں فرماتے ہیں: ’’ فَاجْعَلنا ممّن یَرعاہ حقَّ رعایتہ و یَدینُ لک باعتقاد التّسلیم لمحکم آیاتہ‘‘ (۴) [ہم کو ان لوگوں میں قرار دے دینا جو اس کی مکمل حفاظت کرتے ہیں اور اس کی محکم آیات کے سامنے سر تسلیم خم کرنے ہی کو اپنا دین قرار دیتے ہیں۔ ]
امام زین العابدین علیہ السلام کے نورانی کلمات و ارشادات چاہے صحیفہ سجادیہ میں ہوں یا دوسری احادیث میں ان میں توجہ کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ امام سجاد ؑ کی نگاہوں میں دوسرے ائمہ ؑ کی طرح قرآن خاص اہمیت کا حامل ہے۔لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ قرآنی آیات امام معصوم کے بیانات و ارشادات کا ایک مضبوط مبنا ہے۔ اور اس کی دلیل بعض شواہد ہیں جو ذیل میں ذکر کئے جارہے ہیں۔ ان شواہد کو چار کلی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
۱۔ امام سجاد علیہ السلام کے بیانات میں قرآنی آیات کی طرف استناد
امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنےتمام بیانات و کلمات کو قرآنی آیات کی روشنی میں بیان فرمایا ہے جیسا کہ قرآن کریم کی آیات ، تقریباً ۴۷ بار صحیفہ کی دعاؤ ں میں ذکر ہوئی ہیں۔ جبکہ صحیفہ کے علاوہ حضرت کے دوسرے ارشادات میں یہ تعداد زیادہ ہے۔
مثلاً صحیفہ میں بیان فرمایا ہے:
 حَتّى‏ اِذا بَلَغَ أقْصى‏ اَثَرِهِ، وَ اسْتَوْعَبَ حِسابَ عُمُرِهِ، قَبَضَهُ اِلى‏ ما نَدَبَهُ اِلَيْهِ مِنْ مَوْفُورِ ثَوابِهِ، اَوْ مَحْذُورِ عِقابِهِ، لِيَجْزِىَ الَّذينَ اَسآؤُا بِما عَمِلُوا، وَ يَجْزِىَ الَّذينَ اَحْسَنُوا بِالْحُسْنى‏ عَدْلاً مِنْهُ  تَقَدَّسَتْ اَسْمآؤُهُ، وَ تَظاهَرَتْ الآؤُهُ، لايُسْئَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَ هُمْ يُسْئَلُونَ. (۵)
صحیفہ سجادیہ کی پہلی دعا کے اس حصے میں دو عبارتیں استعمال ہوئی ہیں جو قرآن کریم کی دو آیتیں ہیں:
سورہ نجم میں ہے:وَلِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى ﴿٣١﴾
(اوراللہ ہی کے لئے زمین و آسمان کے کل اختیارات ہیں تاکہ وہ بدعمل افراد کو ان کے اعمال کی سزادے سکے اور نیک عمل کرنے والوں کو ان کے اعمال کا اچھا بدلہ دے سکے)
  کہ اس آیت کا ایک حصہ مکمل طور پر امام کی دعا میں بیان ہوا ہے اور حضرتؑ نے اس کی جانب استناد فرمایا ہے۔
دوسری آیت سورہ انبیاء کی ۲۳ ویں آیت ہے:لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ ﴿٢٣﴾
(اس سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ہے اور وہ ہر ایک کا حساب لینے والا ہے)
یہ آیہ کریمہ بھی امامؑ کی پہلی دعا کے اس حصے میں نظر آرہی ہےاور حضرت نے اپنے مطلب کو بیان کرنے کے لئے اس آیت کی طرف استناد فرمایا ہے۔
صحیفہ کے علاوہ دوسری جگہ حضرت کا ارشاد گرامی ہے:
قال علی بن الحسین ؑ : ان اللہ عزوجل علم انہ یکون فی آخرالزمان اقوام متعمقون فأنزل اللہ تعالیٰ: ’’قل ھو اللہ احد‘‘ و الآیات من سورۃ الحدید الیٰ قولہ : ’’علیم بذات الصدور‘‘ فمن رام وراء ذلک ھلک۔(۶)
قابل توجہ ہے کہ بعض آیات کی تفسیر کے سلسلے میں حضرت سے جو سوالات ہوئے اور امامؑ نے جوابات ارشاد فرمائے ان کی تعداد تقریباً ۱۲۲ ہے۔(۷) چونکہ ان جگہوں پر آیات کے بعینہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں لہذا اس حصہ میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام سجادؑ کے بہت سے کلمات و بیانات قرآنی آیات کی تفسیر و توضیح ہیں۔
البتہ بعض جگہوں پر امامؑ نے اپنی گفتگو کے ضمن میں اس جانب اشارہ فرمایا کہ یہ عبارت قرآنی آیت ہے۔ مثلا حضرت فرماتے ہیں:(۸)
فقلت و قولک الحق الا صدق و اقسمت و قسمک الا بر الاوفی ’’و فی السماء رزقکم و ما توعدون‘‘ ثم قلت: ’’فو ربّ السماء و الارض انہ لحق مثل ما انکم تنطقون‘‘۔
یہ کلمات جو حضرتؑ نے پروردگار کی بارگاہ میں بیان فرمائے ہیں یہ سورہ ذاریات کی آیات ۲۲ و ۲۳ ہیں۔
۲۔امام سجاد علیہ السلام کے بیانات کی تطبیق قرآنی آیات کے ساتھ
دوسرا حصہ امام کے بیانات کا وہ ہے جس میں امامؑ کے کلمات میں قرآنی آیات بعینہ تو بیان نہیں ہوئے ہیں لیکن قرآنی آیات کے مطابق ہیں اور وہی مضمون و مطلب ہے جس سے یہ بھی ظاہر ہوجاتا کہ امام علیہ السلام قرآن پر مکمل تسلط اور احاطہ رکھتے ہیں اور شائد امام نے اپنی گفتگو کو آیات کے مطابق ہی پیش فرمایا ہے جس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ امام سجاد علیہ السلام کی گفتگو اور کلمات قرآنی مبانی پر مشتمل ہیں مثلا: 
الف) صحیفہ سجادیہ میں: 
’’حمدا تقر بہ عیوننا اذا برقت الابصار و تبیض بہ وجوھنا اذا اسودت الابشار‘‘
صحیفہ سجادیہ کے ان کلمات پر غور کرنے سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ یہ الفاظ قرآن کی آیات کے مطابق ہیں۔ جیسے: ’’حمدا‘‘ مطابق ہے آیت ’’الحمد للہ رب العالمین‘‘[ساری حمد خدا کے لئے ہے جو عالمین کا رب ہے] (سورہ حمد آیت ۱) کے ۔
’’تقر بہ عیوننا اذا برقت الابصار‘‘ یہ جملہ مطابق ہے اس آیت کے: ’’فاذا برق البصر‘‘ (سورہ قیامت ۷)
نیز اس آیت کے : ’’لیوم تشخص فیہ الابصار‘‘ (سورہ ابراہیم،۴۲)
’’ و تبیض بہ وجوھنا‘‘ یہ جملہ مطابق ہے اس آیت کے: ’’یوم تبیض وجوہ‘‘ (سورہ آل عمران، ۱۰۶)
’’اذا اسودت الابشار‘‘ جملہ مطابق ہے اس آیت کے:’’ ضاحکۃ مستبشرۃ‘‘ (سورہ  عبس ،۳۹)
ب) دوسرے بیانات میں:
کان من دعاء السجادؑ اذا ذکر الشیطان فاستعاذتہ۔۔۔اللھم ۔۔۔اجعل بیننا و بینہ سترا لا یھتکہ و ردما مصمتا لا یفتقہ‘‘ (۹)
امامؑ کے یہ جملات کہ بعض نقل کے مطابق صحیفہ سجادیہ میں بھی ذکر ہوئے ہیں، اس آیت کے مطابق ہیں: ’’وَإِذَا قَرَأْتَ ٱلْقُرْءَانَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱلْـَٔاخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُورًا‘‘ [اور جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے درمیان حجاب قائم کردیتے ہیں](سورہ اسراء، آیت ۴۵)
اس قسم کے لئے دوسری مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے: ’’قال علی بن الحسینؑ من قال اذا أوی الی فراشہ:
’’اللھم انت الاول فلاشی ء قبلک و انت الظاھر لاشیٔ بعدک و انت الباطن فلا شیٔ دونک و انت الآخر لا شیٔ بعدک‘‘ (۱۰)
اگر غور کیا جائے تو امامؑ کے یہ الفاظ سورہ حدید کی ابتدائی آیات کے مطابق ہیں: ’’هُوَ ٱلْأَوَّلُ وَٱلْـَٔاخِرُ وَٱلظَّـٰهِرُ وَٱلْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ ‘‘ [وہی اوّل ہے وہی آخر وہی ظاہر ہے وہی باطن اور وہی ہر شے کا جاننے والا ہے] (سورہ حدید، آیت ۳)
۳۔ قرآنی الفاظ
امام سجاد علیہ السلام کے ارشادات و کلمات کے قرآنی مبانی پر مشتمل ہونے کا تیسرا حصہ وہ قرآنی تعبیریں اور عبارتیں ہیں جنہیں امامؑ نے استعمال کیا ہے البتہ نہ تو بعینہ الفاظ قرآن کو اعراب و ضمائر کے ساتھ استعمال کیا اور نہ اس کے مطالب کو بلکہ اپنے مطلب کو بیان کرنے کے لئے قرآنی الفاظ کا سہارا لیا۔ مثلاً : 
الف) صحیفہ سجادیہ میں:
’’حمداً یرتفع منا الی اعلی علیین فی کتاب مرقوم یشھدہ المقربون‘‘ [] (۱۱) 
جیسا کہ اس عبارت میں لفظ ’’ کتاب مرقوم‘‘ جو امامؑ نے اپنی دعا میں استعمال فرمایا ہے یہ قرآنی لفظ ہے  اس فرق کے ساتھ کہ قرآن کریم میں یہ لفظ رفعی حالت میں پیش کے ساتھ ہے یعنی ’’کتاب مرقوم‘‘ [ایک لکھا ہوا دفتر ہے](سورہ مطففین آیت ۲۰)  یہاں مجرور ہے۔
اسی طرح اس کے بعد کی عبارت یعنی ’’یشھدہ المقربون‘‘[جس کے گواہ ملائکہ مقربین ہیں] (مطففین، ۲۱)یہ قرآن کی آیت ہے اور عیناً آنحضرتؑ کے کلام میں ذکر ہوئی ہے۔
ب) دیگر ارشادات میں:
ما بال اقوام اذا ذکر عندھم آل ابراہیم فرحوا و استبشروا و اذا ذکر عند آل محمد (ص) اشمأزت قلوبھم و ۔۔۔(۱۲)
عبارت ’’ اشمأزت قلوبھم ‘‘ ایک قرآنی آیت سے متعلق ہے جو امام ےن استعمال فرمایا ہے۔ 
قرآن میں اس طرح جملہ ہے:ـ وَإِذَا ذُكِرَ ٱللَّـهُ وَحْدَهُ ٱشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱلْـَٔاخِرَةِ[اور جب ان کے سامنے خدائے یکتا کا ذکر آتا ہے تو جن کا ایمان آخرت پر نہیں ہے ان کے دل متنفر ہوجاتے ہیں](سورہ زمر، آیت۴۵)
جیسا کہ ملاحظہ فرمارہے ہیں کہ حضرتؑ نے اپنے کلام میں قرآنی عبارت سے استفادہ فرمایا ہے البتہ عینا قرآنی الفاظ نہیں ہیں۔
۴۔ قرآن کی اہمیت کا بیان:
امام سجاد علیہ السلام کے کلمات و ارشادات میں قرآنی مبنا کے شواہد کا آخری حصہ ان کلمات و بیانات سے متعلق ہے جنمیں آپؑ نے بہت سے مقامات پر قرآن کی منزلت و اہمیت کو بیان فرمایا ہے اور قرآن کی تعریف و توصیف فرمائی ہے جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حضرتؑ کتنا زیادہ قرآن سے عمیق اور گہرا رابطہ رکھتے ہیں۔ مثلاً:
الف: صحیفہ سجادیہ میں:
امامؑ کی خوبصورت تعبیر دعائے ختم قرآن یعنی صحیفہ سجادیہ کی دعا نمبر ۴۲ میں بیان ہوئی ہے۔ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دعا قرآن شناسی کا ایک ذریعہ اور امام علیہ السلام اس زمانے میں جب کہ حاکم وقت کی جانب سے ظلم و زیادتی اور لوگوں کی توجہ دنیا کی طرف اور مادیات کی طرف تھی ایسے وقت میں امامن نے لوگوں کی قرآن کریم میں پوشیدہ عظمت کی جانب توجہ دلائی ۔ اس دعا کا ایک حصہ یہ ہے:
’’و فرقانات فرقت بہ بین حلالک و حرامک‘‘ (۱۳)
امامؑ اپنے کلام میں بیان فرماتے ہیں کہ قرآن کریم حرام و حلال کومعین و واضح کرنا اور حلال و حرام کے درمیان فاصل ہے۔
ب) دیگر بیانات میں
امام زین العابدین علیہ السلام نے صحیفہ سجادیہ کے علاوہ اپنے دوسرے کلمات و بیانات میں قرآن کریم کی عظمت و جلالت کو بیان فرمایا ہے۔ مثلاً:
’’علی بن الحسین ؑ یقول: آیات القرآن خزائن فکلما فتحت خزانہ ینبغی لک أن تنظر ما فیھا‘‘ (۱۴)
قال علی بن الحسین ؑ : لو متّ من بین المشرق و المغرب لما استوحشت بعد أن یکون القرآن معی‘‘ (۱۵)
امام علیہ السلام کے بہت سے ارشادات و بیانات قرآن سے متعلق ہیں۔ آپ نے مختلف مواقع پر قرآن کی عظمت و اہمیت کو بیان فرمایا ہے۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ جو قرآن کی اہمیت کو اس انداز سے بیان کر رہا ہو خود اس کے کلام کا محور اور گفتگو کا مبنی قرآن ہی ہونا چاہئے۔
نتیجہ:امام زین العابدین علیہ السلام حدیث ثقلین کے مطابق قرآن کے ہمراہ ہیں۔ مندرجہ بالا گفتگو سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ امام کے کلمات فصاحت و بلاغت کے انتہائی درجہ پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ قرآنی رنگ لئے ہوئے اور قرآن سے ہماہنگ ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام سجاد علیہ السلام کے ارشادات و بیانات مکمل طور پر قرآنی اور قرآنی تعلیم پر مشتمل ہیں۔
۱۔ تحف العقول، صفحہ۲۵۵؛امالی ، شیخ صدوقؒ، ص۲۲۱ ۲۔ صحیفہ سجادیہ، دعا نمبر ۵۲، بند۶
۳۔صحیفہ سجادیہ، دعا نمبر۴۲ ۴۔ سابق
۵۔ صحیفہ سجادیہ، پہلی دعا  ۶۔ اصول کافی،ج۱،ص۹۱
۷۔ مسند امام سجادؑ، ج۱، ص۴۳۴۔۳۷۶ ۸۔ صحیفہ سجادیہ، دعا نمبر ۲۹
۹۔ مصباح کفعمی،ص۲۳۱ ۱۰۔ بحارالانوار، ج۱۶، ص۲۱۴
۱۱۔ صحیفہ سجادیہ، پہلی دعا ۱۲۔ امالی، شیخ طوسیؒ ،ج۱، ص۱۳۹
۱۳۔ صحیفہ سجادیہ، دعا نمبر ۴۲ ۱۴۔ اصول کافی،ج۲،ص۶۰۹
۱۵۔ اصول کافی،ج۲، ص۶۰۲  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں