جمعہ، 29 جون، 2018

سلامٌ علیکم

باسمہ تعالیٰ
سلامٌ علیکم
اسلامی تہذیب و ثقافت اور کلچر دنیا کیہر تہذیب سے برتر ہے۔ اسلامی تعلیمات میں ہر پہلو، ہر قدم، ہر جگہ، ہر مرحلہ، ہر کام، ہر چیز میں راہنمائی موجود ہے۔ زندگی سے متعلق ہر چیز کے لئے احکامات بیان ہوئے ہیں کوئی بھی شعبۂ حیات راہنمائی و احکامات سے خالی نہیں ہے۔ انھیں احکامات و تعلیمات میں ’’سلام‘‘ بھی ہے۔ سلام کا مطلب ہے ایک دوسرے کی سلامتی چاہنا اور خدا سے سلامتی کی دعا کرنا۔ تم صحیح و سالم رہو، خدا تم کو سلامت رکھے، تمہارے لئے سلامتی ہو۔ یہ ہے ’’سلامٌ علیکم‘‘ کا مطلب۔ کسی بھی دین و مذہب اور کلچر و ثقافت میں سلام کی اتنی تاکید نہیں ہے جتنی اسلام میں ہے۔ جہاں ایک طرف قرآن کہہ رہا ہے:’’وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا۔۔۔‘‘ (سورہ نساء آیت۸۶) یعنی ’’اور جب تم لوگوں کو کوئی تحفہ(سلام) پیش کیا جائے تو اس سے بہتر یا کم سے کم ویسا ہی واپس کرو‘‘۔یا جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ابدؤا بالسلام قبل الكلام فمن بدأ بالكلام قبل السلام فلا تجيبوہ‘‘ ۔ گفتگو سے پہلے سلام کرو اور اگر کوئی سلام سے پہلے گفتگو کرے تو اس کا جواب نہ دو۔یعنی جبتک آپس میں سلام و آداب سلام انجام نہ پا جائیں گفتگو شروع نہ کرو۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اسلام میں سلام کا انداز و طریقہ ’’سلام علیکم‘‘ ہے۔ اسی جملہ کی تاکید ہے، اس کی جگہ پر دوسرے الفاظ سلام کا اسلامی طریقہ نہیں ہیں۔ جب معصومینؑ نے سلام علیکم کے لئے فرمایا ہےتو ہم اسی لفظ کے ذریعہ اس عمل کو انجام دیں۔ اور سلام علیکم کا جواب بھی علیکم السلام ہی ہے کوئی اور لفظ نہیں۔ اگر کسی نے ہم سے ’’سلام علیکم‘‘ کہا ہے تو صرف سر ہلا دینے یا ہاتھ اٹھادینے سے جواب نہیں ہوجاتا بلکہ اپنی زبان سے ’’علیکم السلام‘‘ کہنا پڑے گا۔ سلام کے لئے بہتر تو یہی ہے کہ چھوٹے بڑوں کو سلام کریں لیکن لازم و ضروری نہیں کہ بلکہ بڑے بھی اگر چھوٹوں کو سلام کریں تو ان کی تربیت کے لئے یہ بہتر ہے۔ اسی طرح اگر شوہر بیوی کو سلام تو کائی حرج نہیں ہے۔ 

سوال: مسجد میں وارد ہوتے وقت سلام کرنے کا کیا حکم ہے؟ اس لیٔے کہ سلام کرنا، نمازیوں کی توجہ ہٹ جانے کا سبب بنتا ہے؟
جواب: بہتر ہے کہ سلام نہ کیا جائے۔
۲سوال: آیا نماز کی حالت میں سلام کا جواب دینا واجب ہے؟
جواب: ہاں جواب واجب ہے لیکن واجب ہیکہ جس طرح سلام کیا ہے اسی طرح جواب دے پس لفظ سلام کے جواب میں سلام کہے اور علیکم کو نیت میں رکھے یا پھر سلام علیکم کہے اور سلام علکیم کے جواب میں احتیاط واجب کی بنا پر سلام علیکم کہے علیکم سلام نہ کہے۔
۳سوال: کافر اگر سلام کرے تو جواب دینے کا کیا حکم ہے؟
جواب: اگر لفظ سلام کے علاوہ کویٔی اور لفظ بولے تو اسی طرح جواب دے سکتے ہیں، لیکن اگر لفظ سلام کا استعال کرے تو جواب میں فقط (علیک) کہیں۔

عزاداری اور گریہ و بکا دین و شریعت اور سیرت پیغمبرؐ کے آئینہ میں

عزاداری اور گریہ و بکا 
دین و شریعت اور سیرت پیغمبرؐ کے آئینہ میں 
سید محمد حسنین باقری
نواسۂ رسول ؐ، فرزند بتولؑ،سید الشہداء حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کی عزاداری شعائر الہی کی تعظیم کا نمونۂ کامل اور پیرویٔ قرآن ہے اس لئے کہ ارشاد الہی ہے :’’وَمَنْ یُعَظِّمْ شَعَائِرَ اﷲِ فَإِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوب‘‘(۱)یہ ایسا عمل جسے ہر دور میں انجام دیا جاتارہا ہے اور قیامت تک انجام دیا جاتا رہے گا اس لئے کہ عزاداریٔ سید الشہدائؑ ،ظلم کے خلاف آواز، ظالم سے نفرت اور مظلوم سے حمایت کا اعلان ہے :یہ عزاداری سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور سیرت اصحاب و تابعین ہے ؛یہ عزاداری حق کی جیت اور باطل کی شکست کا اعلان ہے ،یہ عزاداری کمزوروں اور مستضعفین کو قوت عطا کرنے والی ہے۔
مسلمان اسی لئے عزائے حسین ؑ برپا کرتا ہے کہ اسے معلوم ہے کہ آج اسلام کا نام باقی ہے اسی شہادت حسین ؑ کی وجہ سے اگر قربانیٔ حسینؑ نہ ہوتی تو نہ اسلام ہوتا نہ مسلمان ،اگر اسلام ہوتا بھی تو اسلام یزیدی ہوتا اسلام محمدی ہرگز نہ ہوتا ۔پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نواسے نے اپنے نانا کے دین کو بچانے ہی کے لئے قربان گاہ میں قدم رکھا اور آواز دی:میرا یہ قیام دین محمدی کی حفاظت کے لئے ہے میرے قیام کا مقصد:  ’’وَ أَنِّی لَمْ أخْرُجْ أَشِرًا وَ لا بَطِرًا وَ لا مُفْسِدًا وَ لا ظَالِمًا وَ اِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِصلاحِ فِی أُمَۃِ جَدِّیْ صلیّ اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم   أُرِیْدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَنْہٰی عَنِ الْمُنْلکَرِ وَ أَسِیْرُ بِسِیْرِۃِ جَدِّی وَ أَبِی عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبؑ(۲)۔(میں ظلم و فساد برپا کرنے کے لئے نہیں نکلا ہوں میرے قیام کا مقصد نانا کے دین کی حفاظت اور اس کی اصلاح ہے میں احکام الہی کا نفاذ چاہتا ہوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے نکلا ہوں میں چاہتا ہوں کہ اپنے نانااور والد گرامی کی سیرت کو زندہ کروں اور اس پر عمل پیرا ہوں)۔
جب امام حسین ؑنے اس عظیم مقصد کے لئے راہ خدا میں اپنا سب کچھ لٹا دیا تو آج ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اس یاد کو زندہ رکھتے ہوئے حسینی مشن کو آگے بڑھاتے رہیں اور عزائے حسین علیہ السلام کے ذریعہ اسلام کی کامیابی اور باطل کی شکست کا اعلان کرتے رہیں ۔عزاداری کی مخالفت کا راز بھی یہی ہے کہ باطل نہیں چاہتا دشمنان اسلام کے چہرے بے نقاب ہوں اور اسلامی مشن کو دوام ملے ۔دشمن عزا کو معلوم ہے کہ جب تک یہ عزاداری باقی ہے اسلام حقیقی باقی رہے گا ۔جب تک حسین ؑ کا نام زندہ ہے اس وقت تک پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نام بھی زندہ رہے گا ۔جب تک کربلا کا تذکرہ ہوتا رہے گا اس وقت تک اسلام کا تذکرہ بھی ہوتا رہے گا۔لہذا آئیے اسلام کی بقا کے لیے عزاداری کی حفاظت کریں ،نام محمدی کی حفاظت کے لیے حسین مظلومؑ کی یاد کو زندہ رکھیں،اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لیے عزائے حسین ؑ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
عزائے حسینؑ کو ختم کرنے کی کوششیں ہوئی ہیں اور ہمیشہ ہوتی رہیں گی ،اس کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال ہوئے  ہیں اور ہوتے رہیں گے! یہ الگ بات ہے کہ حق وہی ہے کہ تمام کوششوں کے باوجود بھی جس کی لَو مدھم نہ پڑے،تمام مخالفتوں کے باوجود بھی جس میں کسی طرح کی کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا رہے ،جیسا کہ ہوبھی رہا ہے۔
جیسا کہ عرض کیا کہ ہر دور میں اعتراضات ہوتے رہے ہیں اور ہمیشہ انکا جواب دیا گیا ہے ۔آج کوئی ایسا اعتراض نہیں ہے جو نیا ہو یا جسکا جواب نہ دیا گیا ہو لیکن تعجب یہی ہے کہ دشمنان اسلام اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے وہی اعتراضات دہراتے رہتے ہیں ۔ لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بسا اوقات جواب نہ دینے سے معترض اپنے زعم ناقص میں یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ میں نے کوئی بہت بڑی بات کہہ دی ۔بطور مثال ایک نام نہاد دشمن اہلبیت نے ہمیشہ کی طرح اپنے دل کا عناد ظاہر کرنے کے لیے عزاداریٔ سیدالشہداء علیہ السلام کو کم کرنے اور راہ خدا میں آپؑ کی قربانی کی اہمیت گھٹانے کی غرض سے مسلمانوں کو منحرف کرنے کی کوشش کی ۔
اس سلسلے میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ محراب میں اپنی سزا کو پہنچنے والا(بالفرض اگر محراب میں مارا گیا ہو!)، میدان میں پشت فرس پر اللہ کی راہ میں دین کی حفاظت کی خاطرشہید ہونے والے سے کبھی بھی افضل تو کیا اس کے ہم پلہ نہیں ہو سکتاورنہ اگر جگہ ہی معیار ہو تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو بستر ہی پر اس دنیا سے تشریف لے گئے لہذا وہ تو بدرجۂ اولیٰ محراب میں مارے جانے والے سے معاذ اللہ مفضول قرار پائیںگے!؟
اسلام میں یہ ہرگز نہیں دیکھا جائے گا کہ فلاں کس طرح مرا ہے بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون ہے؟ خدا کے نزدیک اس کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ پھر یہ دیکھنا ہے کہ آیا وہ اللہ کی راہ میں شہید ہوا ہے یا اپنی سزا کو پہنچا ہے؟! 
امام حسینؑ کی ذات والاصفات وہ ہے جس کے سلسلے میں ہر انصاف پسند یہ مانتا ہے کہ آپ ؑ اللہ کی راہ میں اور اپنے نانا کے دین کی حفاظت کے لئے شہید ہوئے ،آپ کی شہادت پر انبیاء و اصیاء اور ملائکہ کے علاوہ زمین و آسمان نے بھی گریہ کیا ،آپؑ کی مظلومیت پر اشرف المخلوقات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی روئے  لہذا امام حسین علیہ السلام کی قربانی کا کسی شہید سے بھی مقایسہ نہیں کیا جا سکتا ۔اگر کوئی سید الشہداء ہے تو صرف اور صرف ابو عبد اللہ الحسین ؑ ہیں۔
امام حسین ؑ پر گریہ:-جیسا کہ عرض کیا گیا کہ حضرت اباعبداللہ علیہ السلام کی عزاداری اور آپؑ پر گریہ و بکاء ہمیشہ دشمنوں کے لیے ناگوار رہا اور انھوں نے ہمیشہ اس پر اعتراض اور اس کی مخالفت کی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو امام حسین- کی عزاداری اور آپؑ کے مصائب پر گریہ و زاری ایک طرف تو فطری تقاضوں میں سے ہے جس سے نہ اسلام نے روکا ہے اور نہ کسی مذہب نے ،دوسری طرف یہ عمل پیغمبر   صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت اور صحابہ کی روش ہے ۔حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے شہادت حسینؑ سے قبل ہی صرف خبر سن کر گریہ کیا اور آنسو بہائے ہیں۔ہم ذیل میں قرآن و حدیث اور سنت پیغمبر  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روشنی میں اہل سنت کی معتبر کتابوں سے اس پر نظر ڈالتے ہیں:
الف:گریہ قرآن کی نظر میں:قرآن کریم میںجناب یعقوبؑ کے سلسلے میں ذکر ہوتا ہے:’’ وَتَوَلَّی عَنْہُمْ وَقَالَ یَاأَسَفَی عَلَی یُوسُفَ وَابْیَضَّتْ عَیْنَاہُ مِنَ الْحُزْنِ فَہُوَ کَظِیمٌ ۔ قَالُوا تَاﷲِ تَفْتَأُ تَذْکُرُ یُوسُفَ حَتَّی تَکُونَ حَرَضًا أَوْ تَکُونَ مِنْ الْہَالِکِین‘‘(۳)
(اور یعقوبؑ نے ان لوگوں کی طرف سے منھ پھیر لیا اور روکر کہنے لگے :ہائے افسوس یوسفؑ پر اور اس قدر روئے کہ ان کی آنکھیں صدمہ سے سفید ہوگئیں ۔وہ تو بڑے رنج کے ضابط تھے ۔یہ دیکھ کر ان کے بیٹے کہنے لگے کہ آپ تو ہمیشہ یوسف ؑکو یاد ہی کرتے رہیے گا یہاں تک کہ بیمار ہو جائیے گا یا جان ہی دے دیجیے گا ۔)
طبری نے اس آیت کی تفسیر میں یوں نقل کیا ہے کہ حضرت یعقوب ؑسے جناب یوسف ؑکے فراق کا عرصہ ۸۰؍سال تھا ، اس مدت میں مسلسل جناب یعقوب ؑروتے رہے یہاں تک کہ آپؑ کی آنکھیں سفید ہوگئیں جبکہ جناب یعقوب ؑیہ بھی جانتے تھے کہ جناب یوسفؑ زندہ ہیں۔(۴)
طبری ہی نے جناب آدمؑ کے سلسلے میں لکھا ہے کہ : جب آدم ؑکے بیٹے کو اس کے بھائی نے قتل کردیا تو جناب آدمؑ نے اس پر گریہ کیا ۔(۵)
ب:گریہ سیرت رسول  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلممیںحضور اکرمؐ کی زندگی میں متعدد مواقع ایسے آئے کہ آپؐ نے گریہ فرمایا یہاں تک کہ بعض مواقع پر دوسروں سے بھی رونے کے لئے کہا۔ذیل میں اہل سنت کی کتابوں سے بعض موارد پیش کیے جارہے ہیں : 
رسولؐ شہدائے احد اور جناب حمزہؑ کی شہادت پر روئے اور دوسروں سے بھی رونے کے لئے کہا ۔(۶)اور پیغمبر  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا ؐ کے لئے نقل ہوا ہے کہ ہر جمعہ کو اپنے چچا حمزہؑ کی قبر کی زیارت کرتیں اور کنار قبر نماز پڑھتیں و گریہ کرتی تھیں(۷)
 اپنے داداجناب عبد المطلبؑ کی وفات پر گریہ کیا۔(۸)
جنگ موتہ کے شہیدوں پر روئے(۹)۔
جناب جعفر بن ابی طالبؑ کی شہادت پر گریہ کیااور دوسروں سے گریہ کے لئے کہا(۱۰)
اپنی ماں کی قبر پر گریہ کیا ۔(۱۱)
فاطمہؑ بنت اسدؑ کے دنیا سے گزرجانے پر روئے ۔(۱۲)
عبد اللہ بن مظعون کی میت پر گریہ کیا ۔(۱۳)
زید بن حارثہ کی شہادت پر گریہ کیا(۱۴)
اپنے بیٹے ابراہیم کی وفات پر روئے(۱۵)
اپنے ایک نواسے کی جدائی پر روئے(۱۶)
اپنے بعض اصحاب مثلا عبد الرحمن ابن عوف ،سعد ابن ابی وقاص اور عبد اللہ ابن مسعود کے ساتھ سعد ابن عبادہ کی عیادت کے لئے گئے وہاں آپؐ نے اور آپ کے اصحاب نے گریہ کیا(۱۷)۔
پیغمبرؐ کی وفات پر اصحاب کا گریہ:پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ کے غم میں زمین و آسمان بھی مغموم ہوئے ،ملائکہ نے غم منایا ،ایسے وقت میں آپؐ کے اصحاب کا آپ پر گریہ کرنا اور غم منانا ایک فطری امر ہے ۔ذیل میں بعض مثالیں پیش ہیں:
قیس نے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جدائی پر مرثیہ پڑھا(۱۸)
اصحاب کے گروہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر آنسو بہائے(۱۹)
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیٹی حضرت زہرا  ؐ نے اپنے بابا کی جدائی پر گریہ کیا(۲۰)
عمر و ابوبکر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر گریہ کیا(۲۱)
اہل سنت کے بزرگوں کے مرنے پر عزاداری و سوگواری:
احمد ابن حنبل کے مرنے پر مسلمانوں نے ان کے سوگ میں گریہ و زاری کی(۲۲)
عالم اہل سنت ’’جوینی‘‘ کی وفات پر بازاروں میں تعطیل ہوئی ،مرثیے کہے گئے۔انکے چار سو شاگرد تھے جنھوں نے ایک سال تک عزاداری منائی،سروں سے عمامے اتار دیے،نوحہ و گریہ کرتے ہوئے جلوس کی شکل میں سڑکوں پر نکلے(۲۳)۔
ابن جوزی کی موت پر عزاداری منائی گئی اور مجلس و ماتم ہوا(۲۴)۔
ابن تیمیہ کے مرنے پر لوگوں نے گریہ و زاری کیا اور آنسو بہائے(۲۵)۔
امام حسین ؑپر آنحضرت ؐ کا گریہ:۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جب جبرئیل امین نے شہادت امام حسین ؑکی خبر سنائی تو آپ ؐنے گریہ کیا۔اس سلسلے میں متعدد روایتیں متعدد راویوں سے وارد ہوئی ہیں ۔ جن بزرگوں سے روایت نقل ہوئی ہے ان میں مندرجہ ذیل اصحاب و ازواج ہیں:ام الفضل بنت حارث(۲۶)،ام المومنین زینب بنت جحش(۲۷)،ام المومنین عائشہ(۲۸)، ام المومنین جناب ام سلمہ(۲۹)،انس ابن مالک(۳۰)
امام حسین ؑپر اصحاب پیغمبر ؐ کا گریہ :روایت میں ہے کہ امام حسین ؑکی شہادت کی خبر سن کر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمے ساتھ آپؐ کے اصحاب نے بھی گریہ کیا (۳۱)
جنگ صفین کے موقع پر کربلا سے گزرتے ہوئے امیر المومنین حضرت علی  ؑاور ابن عباس نے امام حسینؑ پر آنسو بہائے(۳۲)
اس کے علاوہ دیگر جن اصحاب اور بزرگان نے امام حسینؑ پر آنسو بہائے ان میں سے بعض یہ ہیں:انس ابن مالک(۳۳)؛زید ابن ارقم(۳۴)؛ جناب ام سلمہ(۳۵)؛حسن ابن ابوالحسن بصری(۳۶)؛ربیع ابن خُثیم تابعی(۳۷)وغیرہ۔۔۔۔۔
مذکورہ تمام مثالوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی عزیز کے مرجانے پر آہ و بکاء اور گریہ و زاری تقاضائے فطرت ہے جو اسلام کے منافی نہیں ہے اور دنیا سے جانے والے پر آنسو بہانا خلاف اسلام نہیں اور بالخصوص امام حسین ؑ کی عزاداری اور آپ پر آنسوبہانا مطابق اسلام اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت ہے ۔گریہ و بکاء اور عزاداری کی مخالفت سنت رسولؐ کی مخالفت ہے۔ ٭٭٭
(۱)۔سورہ حج: ۳۲
(۲)۔بحارالانوار،ج۴۴،ص۳۲۹،باب۳۷ باب ما جری علیہ بعد بیعۃالناس؛المناقب،ج۴،ص۸۹،فصل فی مقتلہ -۔۔۔
(۳)۔سورۂ یوسف۸۴ و ۸۵
(۴)۔تاریخ طبری ، ج۱، ص۳۷؛
(۵)۔تفسیر طبری ، ج۱۳، ص۳۲۔
(۶)۔السیرۃ الحلبیۃ ، ج۲، ص۲۶۰(حالات جنگ احد،شہادت جناب حمزہ)؛الاستیعاب،ج۱،ص۲۷۵؛مسند،بھامشۃمنتخب کنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال،امام احمد حنبل،ج۲،ص۴۰؛ المستدرک علی الصحیحین،حاکم نیشاپوری،کتاب الجنائز،ج۱،ص۳۸۱؛مغازی،واقدی،ج۱،ص۳۱۵۔۳۱۷؛استیعاب،ابن البرواسد الغابہ،ابن اثیر؛طبقات ابن سعد،ج۳ص۱۱ ،طبع دار صادر بیروت؛امتاع الاسماع،ج۱،ص۱۶۳؛تاریخ طبری،ج۲،ص۵۳۲ طبع مصر؛(حالات جناب حمزہ)تاریخ طبری،ج۲،ص۲۷۔
(۷)۔سنن بیہقی،ج۴،ص۷۸۸؛مستدرک الصحیحین حاکم نیشاپوری،ج۱،ص۳۷۷۔
(۸)۔تذکرۃ الخواص ، ص۷۔
(۹)۔صحیح بخاری،ج۲،ص۲۰۴،کتاب فضائل الصحابہ،باب مناقب خالد؛البدایہ والنہایہ ،ابن کثیر،ج۴،ص۲۵۵؛سنن الکبری،بیہقی،ج۴،ص۷۰؛انساب الاشراف،ج۲،ص۴۳؛شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،ج۱۵،ص۷۳۔
(۱۰۔کامل ابن اثیر ، ج۲، ص۹۰؛اسد الغابہ،ج۲،ص۲۸۹؛الاستیعاب،ج۱،ص۲۲۱؛الاصابہ(زندگانی جعفر ابن ابی طالبؑ)۔
۱۱۔صحیح مسلم ، ج۲، ص ۶۷۱، کتاب الجنائز ، باب ۳۶، ح۱۰۸؛مسند احمد حنبل،ج۲،ص۴۴۱؛سنن نسائی،ج۴،ص۹۰،کتاب الجنائز؛سنن ابن ماجہ،ج۱،ص۵۰۱،حدیث۱۵۷۲۔ (۱۲)۔ذخائر العقبی، ص ۵۶۔
(۱۳)۔جامع الاصول،محمد ابن اثیر جزری،ج۱۱،ص۹۵،نمبر۸۵۶۶فی الجنائز باب تقبیل ا  لمیت وقال الترمذی :حدیث حسن صحیح و فی الباب عن ابن عباس و جابر و عائشہ:’’انّ ابا بکر قبّل النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم و ھو میّت‘‘۔
(۱۵)۔صحیح بخاری،ج۱،ص۱۵۸؛صحیح مسلم ،ج۴،ص۱۸۰۸،کتاب الصبیان؛سنن ابن داؤد،ج۳،ص۱۹۳،باب البکاء علی ا  لمیت؛سنن ابن ماجہ،ج۱،ص۵۰۷ وص۴۷۳،کتاب الجنائز؛سنن ترمذی،ج۴،ص۲۲۶،کتاب الجنائز،باب الرخصۃ فی البکاء علی ا  لمیت،۔
(۱۶)۔صحیح بخاری،کتاب الجنائز،باب قول النبی  ﷺ ’’یعذب ا  لمیت ببعض بکاء اہلہ‘‘؛کتاب المرضی ،باب:عبادۃ الصبیان،ج۴،ص۳ و۱۹۱؛کتاب التوحید،باب انّ رحمۃ اللہ قریب من المحسنین؛صحیح مسلم،کتاب الجنائز،باب البکاء علی ا  لمیت،ج۲،ص۶۳۶،حدیث۱۱؛سنن ابی داؤد،کتاب الجنائز،باب البکاء علی ا  لمیت ،ج۳،ص۱۹۳،حدیث ۳۱۲۵؛سنن نسائی،ج۴،ص۲۲،کتاب الجنائز،باب الامر بالاحتساب والصبر؛مسند احمد حنبل،ج۵،ص۲۰۴و۲۰۶ و۲۰۷۔
(۱۷)۔صحیح مسلم،ج۲،ص۶۳۶،کتاب الجنائز،باب ۶۔
(۱۸)۔الاصابۃ فی تمییز الصحابہ،ابن حجر عسقلانی،ج۳،ص۲۵۳،نمبر ۷۲۶۳،حرف قاف(البتہ بہت سے اصحاب نے پیغمبر  ﷺ کی وفات پر مرثیہ پڑھا ۔مزید اطلاع کے لئے ’’الاصابۃ‘‘دیکھیے
(۱۹)۔اسد الغابہ،ج۵،ص۱۰۲؛جامع الاصول ،ابن اثیر جزری،نمبر۸۵۳۴سنن نسائی،ج۴،ص۱۳ فی الجنائز،باب فی بکاء علی ا  لمیت۔
(۲۰)۔مختصر حیاۃ الصحابہ،دہلوی،ص۲۸۵؛ارشاد الساری فی شرح بخاری،ج۲،ص۴۰۶؛مستدرک علی الصحیحین،حاکم نیشاپوری،ص۳۷۷،کتاب الجنائز۔
(۲۱)۔دلائل النبوۃ،ابوبکر بیہقی،ج۷،ص۲۶۶،باب ماجاء فی عظم المصیبۃ بوفاۃ رسول اللہ  ﷺ؛صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابہ،فضائل ام ایمن ،حدیث ۱۰۳؛حلیۃالاولیاء،ابونعیم اصفہانی،ج۲،ص۶۷،نمبر۱۴۷؛سنن ابن ماجہ،کتاب الجنائز،حدیث۱۶۳۵،ج۱،ص۵۳۴۔ 
(۲۲)۔تاریخ بغداد،خطیب بغدادی،ج۴،ص۴۲۳۔
(۲۳)۔سیر اعلام النبلاء،ذہبی،ج۱۸،ص۴۶۸۔
(۲۴)۔سیر اعلام النبلاء،ج۱۸،ص۳۷۹۔
(۲۵)۔تاریخ ابن کثیر،ج۱۴،ص۱۲۸۔
(۲۶)۔مستدرک صحیحین ،ج۳،ص۱۷۶ اور اس کا خلاصہ صفحہ ۱۷۹ پر؛تاریخ ابن عساکر،حدیث۶۳۱ اسی سے ملتی جلتی حدیث نمبر ۶۳۰؛مجمع الزوائد،ج۹،ص۱۷۹؛مقتل خوارزمی،ج۱،ص۱۵۹ و ۱۶۲،تاریخ ابن اثیر،ج۶،ص۲۳۰(جلد ۸ صفحہ ۱۹۹ پر بھی اشارہ کیا ہے)؛امالی شجری،ص۱۸۸؛فصول المہمہ، ابن صباغ مالکی،ص۱۴۵؛روض النضیر،ج۱،ص۸۹؛صواعق محرقہ،ص۱۵۵ (بعض میں صفحہ۱۹۰)؛کنز العمال،ج۶،ص۲۲۳(طبع قدیم)،الخصائص الکبری،ج۲،ص۱۲۵۔
(۲۷)۔تاریخ ابن عساکر،حالات امام حسین -،حدیث۶۲۹؛مجمع الزوائد،ج۹،ص۱۸۸؛کنزالعمال،ج۱۳،ص۱۱۲؛تاریخ ابن کثیر،ج۸،ص۱۹۹۔
طبقات ابن سعد،حدیث۲۶۹؛تاریخ ابن عساکر،حالات امام حسین -،حدیث۶۲۷؛مقتل خوارزمی،ج۱،ص۱۵۹؛مجمع الزوائد،ج۹،ص۱۸۷ و۱۸۸؛کنز العمال ،ج۱۳،ص۱۰۸طبع جدید اور ج۶،ص۲۲۳ طبع قدیم ؛الصواعق المحرقہ،ابن حجر،ص۱۵۵؛خصائص السیوطی،ج۲،ص۱۲۵ و۱۲۶؛جوھرۃ الکلام للقرۃ الغولی،ص۱۱۷۔
(۲۸)۔مستدرک صحیحین ،ج۴،ص۳۹۸؛المعجم الکبیر ،طبیرانی،حدیث۵۵؛تاریخ ابن عساکر،حدیث۶۱۹؛طبقات ابن سعد،تحقیق و نشر عبدالعزیز طباطبائی،ص۴۲ ۔۴۴،حدیث۶۲۸؛تاریخ الاسلام ،ذہبی،ج۳،ص۱۱ ؛سیر اعلام النبلاء،ج۳،ص۱۹۴و۱۹۵؛مقتل خوارزمی،ج۱،ص۱۵۸و۱۵۹؛ذخائر العقبی،محب الطبریی،ص۱۴۸و۱۴۹؛تاریخ ابن کثیر،ج۶،ص۲۳۰؛کنز العمال،متقی،ج۱۶،ص۲۶۶۔
(۲۹)۔مسند احمد حنبل،ج۳،ص۲۴۲ و۲۶۵،تاریخ ابن عساکر ،حالات امام حسین -،ح۶۱۵ و ۶۱۷؛معجم الکبیر ،طبرانی،حالات امام حسین -،ح۴۷؛مقتل خوارزمی،ج۱،ص۱۶۰۔۱۶۲؛تاریخ الاسلام،ذہبی،ج۳،ص۱۰ ؛سیر اعلام النبلاء،ج۳،ص۱۹۴؛ذخائر العقبی،ص۱۴۶و۱۴۷؛مجمع الزوائد،ج۹،ص۱۸۷(اور صفحہ ۱۹۰ پر دوسری سند کے ساتھ)؛تاریخ ابن کثیر،باب الاخبار بمقتل الحسین ؑ،ج۶،ص۲۲۹اورج۸،ص۱۹۹؛کنزالعمال،ج۱۶،ص۲۶۶؛الصواع قالمحرقہ،ابن حجر،ص۱۱۵؛الدلائل ابی نعیم،ج۳،ص۲۰۲،الروض النضیر،ج۱،ص۱۹۲؛المواھب اللدنیہ، قسطلانی،ج۲،ص۱۹۵؛ خصائص سیوطی،ج۲،ص۲۵؛ موارد الضمآن بزوائد صحیح ابن حبان،ابوبکر ھیتمی،ص۵۵۴۔ٰ
(۳۰)۔تاریخ ابن کثیر ، ج۱۱، ص ۲۹و ۳۰، تذکرۃ الحفاظ ، ج۲، ص ۱۶۴، کامل ابن اثیر ، ج۵۰، ص ۳۶۴، مستدرک حاکم ، ج۳، ص ۱۷۱، مسند احمد ، ج۳، ص ۳۴۲۔
امام حسین ؑ پر پیغمبر  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے گریہ کے سلسلے میںان منابع کو بھی دیکھا جاسکتا ہے:مستدرک حاکم ، ج۱، ص ۳۶۱؛تاریخ الخمیس،ج۲،ص۷۴؛طبقات الکبری،ج۳،ص۴۷؛صحیح بخاری،ج۱،ص۱۴۸؛صحیح مسلم،ج۴،ص۱۸۰۸،کتاب الصبیان؛سنن ابی داؤد،ج۳،ص۱۹۳،باب البکاء علی ا  لمیت؛سنن ابن ماجہ،ج۱،ص۴۷۳،کتاٰب الجنائز وص۵۰۷؛صحیح بخاری،ج۱،ص۱۵۸؛سنن ترمذی،ج۴،ص۲۲۶،کتاب الجنائز،باب الرخصۃفی البکاء علی ا  لمیت(علمائے اہل سنت کے نزدیک یہ حدیث ’’حسن‘‘ہے)۔
(۳۱)۔مقتل ،ابن جوزی،ج۱،ص۱۶۴۔
(۳۲)۔مقتل خوارزمی،ص۱۶۲،باب ثامن؛تذکرۃ الخواص،ابن جوزی،ص۲۲۵؛کتاب صفین،نصر ابن مزاحم،ص۵۸۔
(۳۳)۔ینابیع المؤدۃ،قندوزی حنفی،ص۳۸۹ بنقل از ترمذی۔
(۳۴)۔اسد الغابہ،ج۲،ص۲۱؛سیر اعلام النبلاء،ج۳،ص۳۱۵؛کامل ابن اثیر،ج۳،ص۴۳۴۔
(۳۵)۔صواعق محرقہ،ص۱۹۶۔
(۳۶)۔تذکرۃ الخواص،ص۲۶۵؛انساب الاشراف،ج۳،ص۲۲۷؛المعجم الکبیر،ج۳،ص۱۲۷۔
(۳۷)۔تذکرۃ الخواص،ص۲۶۸۔٭٭٭

حضرت ابو الفضل العباسؑ

حضرت ابو الفضل العباسؑ
مولانا سید محمد حسنین باقری جوراسی 
مدرسۂ حجتیہ قم ایران 
حضرت عباس ابن علی ابن ابی طالبؑ ، کنیت ابو الفضل(۱) ، امام حسنؑ و امام حسین ؑکے بھائی ۴/ شعبان {یا۱۱یا ۱۷/ شعبان }  ۲۶ھ؁ کو مدینۂ منورہ میں پیدا ہوئے۔اور   ۶۱ ھ ؁ کو عاشورہ کے دن جام شہادت نوش فرمایا شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک ۳۴ سال بیان کی گئی ہے اس مدت میں سے ۱۴سال اپنے پدر بزرگوار حضرت علی ؑ کے ساتھ اور ۹ /سال اپنے بھائی امام حسن ؑکے ساتھ اور ۱۱/ سال امام حسینؑ کے ساتھ گذارے۔(۲) آپ کی مادر گرامی فاطمہ بنت حزام(۳) جو بنی کلاب کی نسل سے تھیں اور کنیت ام البنین تھی آپ کو امیر المومنین ؑنے حضرت زہراؐ کی شہادت کے بعد جناب عقیل کے مشورہ سے اپنی ہمسری کے لئے منتخب کیا اس لئے کہ حضرت علی ؑ نے جناب عقیل سے خواہش ظاہر کی کہ آپ کے لئے شجاع خاندان کی عورت تلاش کریں تاکہ ایک بہادر اور شجاع بیٹا پیدا ہو لہذا جناب عقیل نے جناب ام البنین سے شادی کرنے کا مشورہ دیا ۔
اس شادی کے نتیجہ میں  چاربیٹے عباسؑ ،عبد اللہ، جعفر ،عثمان پیدا ہوئے ۔(۴)
 امام زین العابدین  ؑ اپنے چچا عباس ؑکی اس طرح توصیف فرماتے ہیں :
’’رحم اللہ عمی العباس فلقدآثر و ابلی و فدا اخاہ بنفسہ حتیٰ قطعت یداہ فابدلہ اللہ عز و جل منھما جناحین یطیربھما مع الملائکۃ فی الجنۃ کما جعل لجعفر بن ابی طالب و ان للعباس عند اللہ تعالیٰ منزلۃ یغبطہ بھا جمیعا الشہداء یوم القیامۃ‘‘(۵)
خدا وند عالم میرے چچا عباس پر رحمت نازل کرے جنھوں نے ایثار کیا اور خود کو مشقت میں ڈالا اور اپنے بھائی پر اپنی جان نثار کردی ۔ یہاں تک کہ ان کے بازو قلم ہوگئے جس کے بدلے میں خدا نے ان کو جناب جعفر بن ابی طالب کی طرح دو پر عطا کئے جس کے ذریعہ وہ جنت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتے ہیں اور جناب عباس خدا کے نزدیک وہ مقام ومنزلت رکھتے ہیں کہ جس پر قیامت کے دن شہداء غبطہ کرینگے ۔
۱۔آپ کی دوسری کنیتیں :ابو القربہ (مقاتل الطالبین ص ۸۴)ابو القاسم (العباس ،مقرم ص ۸۰ بنقل از زیارت الاربعین جابر)
آپ کے القاب : قمر بنی ہاشم (مقاتل الطالبین ص۸۵ )سقا (  مقاتل الطالبین ص۸۴ ) علمدار(مقاتل الطالبین ص۸۵) العبد الصالح (کامل الزیارات  ص ۴۴۱)المواسی الصابر(المزار شیخ مفید ص ۱۲۴)المحتسب(بطل العلقمی ج:۲، ص ۷۰ ) 
۲۔اعیان الشیعہ ج  ۷، ص ۴۲۹
۳۔ الاصابۃ :۔۔
۴۔الخصال ج ۱۷  ،  ص ۳۵ 
امام صادق ؑ جناب عباسؑ کی توصیف میں فرماتے ہیں :
’’کان عمنا العباس نافذالبصیرۃ ،صلب الایمان،جاھد مع ابی عبد اللہ ؑو ابلیٰ بلاء  حسنا و مضی شہیدا (۱)‘‘۔
ہمارے چچا عباس ؑبابصیرت تھے ۔اور قوی ایمان رکھتے تھے امام حسین ؑ کے ساتھ جہاد کیا اور امتحان سے کامیاب باہر آئے اور شہید ہوئے۔
جناب عباس ؑ کے بچپن کے سلسلے میں نقل ہوا ہے ایک دن اپنے پدر بزرگوار امیر المومنین ؑ کے زانو پر بیٹھے ہوئے تھے حضرت ؑنے فرمایا: کہو ایک ۔ جناب عباسؑ نے کہا ایک ۔ آپؑ نے فرمایا : کہو’’ دو‘‘ ۔ عرض کیا: جس زبان سے ایک کہا مجھے شرم آتی ہے کہ اسی سے دو کہوں (۲)آپ کی نوجوانی کے سلسلہ میں کہا گیا ہے کہ جنگ صفین میںموجود تھے ۔(۳) بعض د وسرے مورخین نے ابوالشعشا اور اسکے سات بیٹوں کے قتل کی نسبت آپ کی طرف دی ہے  (۴) خوار زمی نے دوسری جگہ لکھا ہے کہ جنگ صفین میں جب’’ کریب‘‘ امام  علی ؑ کے ساتھ جنگ کے لئے آیا تو حضرتؑ اپنے بیٹے عباسؑ جومثل ایک کامل مردکے تھے کا لباس پہن کرانکے ساتھ جنگ کے لئے باہر آئے (۵)
حضرت عباسؑ کے دو بیٹے تھے فضل اور عبید اللہ ،جو لبابہ بنت عبید اللہ بن عباس بن عبد المطلب سے تھے ۔اور آپ کی نسل عبید اللہ کے ذریعہ آگے بڑھی۔ (۶)
واقعۂ کربلا میں حضرت عباسؑ کی پہلی ماموریت  ۹/محرم کو عصر کے وقت انجام پائی جس میں آپ اپنے بھائی کے حکم سے دشمنوں کے پاس گئے اور ان سے  ایک رات کی مہلت مانگی تاکہ خدا کے ساتھ راز و نیاز کریں  (۷) اس وقت عبد اللہ بن ابی محل (۸) کا غلام کزمان جناب عباسؑ اور ان کے بھائیوں کیلئے امان نامہ لایا جس کو شمر اور عبد اللہ بن ابی محل نے ابن زیاد سے لیا تھا ۔جب ام البنین کے بیٹو ں کی نظر امان نامہ پر پڑی تو کہا: اس سے کہو کہ ہمیں تمہارے امان نامہ کی ضروت نہیں ہے ۔
امان خدا سمیہ کے بیٹے کی امان سے بہتر ہے (۱۰)
۱۔عمدۃ الطالب ، ص ۳۵۶
۲۔ مصابیح القلوب ،ص۳۶۷، مقتل الحسین ؑ ، خوار زمی ، ج ۱، ص۱۷۹، انوار الھدیٰ لیکن مرحوم نقدی نے اس واقعہ کی نسبت حضرت زینب ؐکی طرف بھی دی ہے
۳۔ (زینب الکبریٰ ص۳۵ ) 
۴۔ اعیان الشیعہ ج۷، ص ۴۲۹
۵۔ کبریت احمر، ص ۳۸۵ 
۶۔ مناقب ،خوارزمی، ص ۲۲۷
۷۔ المجدی ،ص ۲۳۱
۸۔کامل بن اثیر، ج ۴، ص ۵۶
۹۔ عبد اللہ بن ابی محل ، حضرت کی ماں جناب ام البنین کا بھتیجہ تھا لہذا جناب عباس ؑ کا ماموںزاد بھائی ہوا ۔
۱۰۔  تاریخ طبری ، ج۵، ص۴۱۵
ایک روایت کے مطابق شمر (جو خود بھی قبیلہ بنی کلاب سے تھا ) پشت خیمہ پر آیا اور آواز دی کہ کہاں ہیں میرے بھانجے ؟
علی ؑ کے بیٹوں نے اس کو جواب نہیں دیا امامؑ نے فرمایا: اس کو جواب دو گرچہ فاسق ہے۔(۱)
عباسؑ و جعفر و عثمان باہر نکلے اور پوچھا تجھ کو کیا ہوگیا ہے ؟ اور کیا چاہتا ہے ؟ اس نے کہا : اے میرے بھانجو!میری طرف آجاؤ تاکہ امان میں رہو اور اپنے کو حسین ؑ کے ساتھ قتل نہ کراؤ(۲)
انھوں نے اس پر لعنت بھیجتے ہوئے فرمایا: خدا تجھ پر اورتیرے امان نامہ پر لعنت کرے ! چونکہ تو(رشتہ میں) ہمارا ماموں ہے اس لئے ہمیں امان دے رہا ہے اور رسول خدا ؐکے فرزند کے لئے امان نہیں ہے ؟
آیا ہم سے چاہتا ہے کہ ملعون اور ملعون زادوں کی اطاعت کریں ؟ شمر یہ جواب سن کر پیچ و تاپ کھاتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔(۳)
  شب عاشور امام حسین ؑ نے اپنے ساتھیوں کو بلا کر ایک خطبہ ارشاد فرمایا:اور ان سے اپنی بیعت کو اٹھاتے ہوئے فرمایا:’’تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ اس لئے کہ ان ظالموں کو صرف مجھ سے سروکار ہے اس موقع پر حضرت عباس ؑ پہلے شخص تھے جنھوں نے وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:کیوں ایسا کریں ؟ کیا اس لئے کہ آپ کے بعد زندہ رہیں ؟خدا کبھی وہ دن نہ لائے (۴)
عاشورا کے دن میمنہ و میسرہ کے سردار معین ہوئے۔ فوج کا علم حضرت عباس ؑکو دیا گیا ۔ ایک کے بعد ایک ساتھی نے میدان کارخ کیا ۔ اس درمیان ایسا بھی ہوتا کہ بعض اصحاب لشکر کے درمیان گھر جاتے تو حضرت عباس ؑان کو نجات دیتے ۔ مثلا عمر بن خالد صیداوی، جابر بن حارث سلمانی و سعد غلام عمر بن خالد صیداوی ،مجمع بن عبد اللہ عائذی جو آغاز جنگ میں  دشمنوں کے محاصرہ میں آگئے تھے ۔ حضرت عباس ؑ نے حملہ کرکے ان کو نجات دی (۵)
۱۔ابصار العین ،ص ۵۸
۲۔ الملھوف ،ص ۱۴۹
۳۔ تاریخ طبری ،ج۵ ص۴۱۶۔ ایک نقل کے مطابق جب حضرت ابو الفضل ؑ نے شمر کو جواب دیا اس وقت حضرت زہیر قین آپ کے پاس آئے اور کہا:آپ کے والد امیر المومنین ؑ نے جناب عقیل سے ایک بہادر خاندان کی عورت کی خواہش ظاہر کی تھی تاکہ اس سے ایک بہادر اور شجاع بیٹا پیدا ہو جو کربلا میں حسین ؑکی مدد کرے لہذا آپ کے والد نے آپ کو اسی دن کے لئے ذخیرہ کیا تھا ۔ایسا نہ ہو کہ آپ اپنی بہنوں اور امام حسین ؑکی مدد سے منھ موڑلیں! جناب عباس یہ سن کر غضبناک ہوئے اور قسم کھائی اور کہا وہ کام کروں گا کہ ہرگز نہ دیکھا ہوگا (کبریت احمر، ص ۳۸۶)
۴۔ تاریخ طبری ، ج۵، ص ۴۱۹
 ۵۔ تاریخ طبری، ج۵، ص ۴۶۴
جب امامؑ کے تمام اصحاب اور بعض بنی ہاشم شہید ہو چکے تو حضرت عباس ؑ نے اپنے بھائیوں عثمان ،عبد اللہ اور جعفر سے فرمایا:کہ آگے بڑھو اور اپنے آقا اور مولا کی مدد کرو یہاں تک کہ ان کے سامنے جام شہادت پیو ۔ وہ سب میدان جنگ میں گئے اور شہید ہوئے (۱) اس کے بعد حضرت عباس ؑعازم میدان جنگ ہوئے ۔
خوارزمی اور ابن اعثم کوفی نے حضرت ؑکی شہادت کے سلسلے میں لکھا ہے کہ حضرت عباس ؑ میدان جنگ میں آئے اس وقت آپ کی زبان پر مندرجہ ذیل رجز جاری تھا۔
اقسمت باللہ الاعزالاعظم
 و بالحجون صادقا و زمزم 
و بالحطیم والفنا المحرم 
لیخضین الیوم جسمی بدمی
دون الحسین ذی الفخار الاقدم
امام اہل الفضل و لتکرم 
ترجمہ: میں قسم کھاتا ہوں خدائے بزرگ و بر تر کی اور حجون و زمزم و حطیم کی اور اس آستانہ کی جو محترم ہے کہ اپنے جسم کو اپنے خون سے رنگین کروں ۔ان حسینؑ کے دفاع میں جو ہمیشہ صاحب فخر اور اہل فضل و کرم ہیں ۔
۱۔ اخبار الطوال، ص ۲۵۷ اپنے بھائیوں کو میدان جنگ میں بھیجتے ہوئے حضرت عباس ؑ کی گفتگو میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ جناب عباسؑ نے اپنے بھائیوں عثمان ،عبداللہ اور جعفر سے کہا میدان جنگ میں جاؤ تاکہ میں تم سے میراث لوں(تاریخ طبری ،ج۵،ص۴۴۸)لیکن علماء شیعہ ،حضرت عباسؑ کی طرف اس نسبت کو جھوٹ اور تہمت مانتے ہیں جس کو دشمنوں نے آپؑ کی شخصیت کو مجروح کرنے کیلئے گڑھا ہے۔اس لئے کہ یہ کام انتہائی پست ہے جس کو دنیا پرست بھی انجام نہیں دیتے چہ رسد بہ حضرت ابو الفضلؑ علاوہ براین کہ ان کی ماں جناب ام البنین کے ہوتے ہوئے آپ کو بھائیوں کی میراث نہیں مل سکتی اس لئے کہ جب ماںموجود ہو تو بھائی کو میراث نہیں ملتی(العباس،مقرم ،ص ۱۱۳)
اسی وجہ سے بعض نے کہا ہے کہ کتابوں میں عربی متن أرثیکم (میںتمہارے غم میں بیٹھوں )أرثیکم ( میں تم سے میراث لوں)سے مشتبہ ہوا ہے یعنی در اصل أثیکم تھا جس کو لوگوں نے غلطی سے أرثکم پڑھا ہے (العباس ، مقرم ،ص ۱۱۴ بنقل از شیخ آقا بزرگ تہرانی صاحب الذریعہ) دوسرے بعض لوگوں نے کہا ہے أرثکم کے بجائے ’’أرزء بکم‘‘یا ’’ارزئکم‘‘(یعنی میں تمہاری مصیبت میں گرفتار ہوں) تھا ( العباس ، مقرم  بنقل از النقد النزیہ، ج ۱، ص ۹۹)
  حضرت عباس ؑ متعدد دشمنوں کو فی النار کرنے کے بعد شہید ہوئے امام حسین ؑآپ کے سر ہانے آئے اور کہا :
 ’’الآن انکسرظہری وقلت حیلتی ‘‘اب میری کمر ٹوٹ گئی اور راہ چارہ مسدود ہوگئی۔ (۱)
ابن شہر آشوب آپ کی شہادت کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ :سقا ،قمر بنی ہاشم، علمدار حضرت عباس ؑ  جو اپنے بقیہ بھائیوں سے بڑے تھے پانی لینے کے لئے باہر آئے ، دشمنوںنے ان پر حملہ کیا آپ نے بھی دشمنوں پر حملہ کیا ۔ اور یہ رجز پڑھا:
لا ارھب الموت اذا الموت رقا
حتیٰ اواری فی المصالیت لقا
 نفسی لنفس المصطفیٰ الطھر وقا
انی انا العباس أعدو بالسقا 
 ولا أخاف الشر یوم الملتقیٰ
’’میں موت سے نہیں ڈر تا ہوں اس لئے کہ موت کمال کا ذریعہ ہے یہاں تک کہ میرا جسم دوسرے بہادروں کے جسم کی طرح خاک میں پوشیدہ ہوجائے میری جان قربان ہو مصطفیٰؐ کی پاک جان پر میں عباس ؑہوں میرا لقب سقا ہے اور دشمن سے مقابلہ کے دن ہرگز خوف و ہراس نہیں رکھتا ‘‘یہ کہہ کر آپ نے حملہ کیا اور دشمنوں کو تتر بتر کردیا زید بن ورقہ جھنی نے درخت کی آڑ میں چھپ کر حکیم بن طفیل سنبسی کی مدد ے داہنے ہاتھ پر وار کیا جب عباسؑ نے شمشیر کو بائیں ہاتھ میں لے کر یہ رجز پڑھا :
واللہ ان قطعتم یمینی
 انی احامی ابدا عن دینی
عن امام صادق الیقین 
 نجل النبی الطاہر الامین 
قسم بخدا اگر میرا داہنا ہاتھ قلم کردو پھر بھی میں ہمیشہ اپنے دین اور صادق الیقین امام اور پاک و امین نبیؐ کے فرزند کی حمایت کروں گا۔
یہ کہہ کر آپ ؑنے سخت جنگ کی یہاں تک کہ آپ پر ضعف طاری ہوا اس موقع پر حکیم بن طفیل طائی نے درخت کے آڑسے آپ کے بائیں ہاتھ پر وار کیا  حضرت عباس ؑ نے اس طرح رجزپڑھا :
یا نفس لا تخشیٰ من الکفار
 و ابشری برحمۃ الجبار
مع النبی السید المختار
قد قطعوا ببغیھم یساری
فاصلھم یا رب حر النار
اے نفس کافروں سے مت ڈر خدائے جبار کی رحمت اور سید مختار نبی اکرم کی ہمنشینی کی بشارت ہو ان ملعونوں نے ظلم و ستم کے ذریعہ میرے بائیں ہاتھ کو بھی قلم کردیاخدایا! ان کو دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال ۔
۱۔مقتل الحسین خوارزمی، ج ۲، ص ۳۴  ؛ انوار الھدیٰ؛ المفتوح، ج ۵، ص ۲۰۷
پھر اس ظالم نے لوہے کا گرز آپ کے سر پر مارا اور آپ کو شہید کیا۔(۱)
اس  مقام پر علامہ مجلسی  مرحوم صاحب مناقب کے کلام کو ذکر کرنے کے بعد بعض مرسل منابع کو نقل کرتے ہوئے حضرت کی شہادت کی کیفیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’جب حضرت عباس ؑ نے اپنے بھائی کی تنہائی کو دیکھا تو آپؑ کے پاس تشریف لائے اور میدان میں جانے کی اجازت چاہی امامؑ نے فرمایا:تم میرے لشکر کے علمدار ہو اگر تم چلے گئے تو لشکر منتشر ہوجائے گا آپ نے عرض کیا :اب میرا سینہ تنگ ہوگیا ہے اور اب زندگی سے سیر ہوچکا ہوں چاہتا ہوں ان منافقوں سے اپنا انتقام لوں امامؑ نے فرمایا: (اگر جانا ہی چاہتے ہو تو ) ان بچوں کیلئے سبیل آب کردو  حضرت عباس ؑ دشمنوں کے مد مقابل آئے اور ان کو نصیحتیں کیں لیکن کسی نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوا واپس آکر امام کو اطلاع دی اس وقت سنا کہ بچے العطش العطش  ہائے پیاس ہائے پیاس کی صدائیں بلند کر رہے ہیں آپ نے مشک لی اور رہوار پر سوار ہوکر فرات کا رخ کیا ۔چار ہزار پہریداروںنے آپ کو گھیر لیا اور تیروں کی بارش کی آپ نے دشمنوں کو منتشر کیا اور ایک روایت کے مطابق اسی افراد کو قتل کیا فرات میں داخل ہوئے اور چلو میںپانی اٹھایا امام اور آپ کے ساتھیوں و بچوں کی پیاس یاد آگئی پانی کو فرات میں پھیکا مشک کو بھر کر ابنے داہنے کندھے پررکھااور خیمہ کی جانب روانہ ہوئے دشمنوں نے راستہ روکا اور ہر طرف سے محاصرہ کرلیا حضرت عباس ؑ نے ان کے ساتھ جنگ کی اچانک نوفل ارزقی نے آپ کے داہنے ہاتھ پر وار کیاآپ نے مشک کو بائیں کندھے پر رکھا نوفل نے ایک وار بائیں بازو پر کیا بازو جدا ہو گیا اس وقت حضرت عباس ؑ نے تسمے کو دانتوں سے دبایا اس درمیان ایک تیر آیا اور مشک میں پیوست ہوگیا۔اور سارا پانی بہہ گیا ایک دوسرا تیر سینۂ مبارک پر لگا گھوڑے سے زمین پر تشریف لائے اور امام حسین ؑ کو آواز دی اے آقا میری مدد کیجئے ۔جب امام آپ کے سرہانے پہونچے دیکھا اپنے خون میں نہائے ہوئے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ جب  حضرت عباس ؑ شہید ہوئے اس وقت امام حسین ؑ نے فرمایا:
 الآن انکسر ظہری و قلت حیلتی (۲)
اب میری کمر ٹوٹ گئی اور راہ چارہ مسدود ہوگئی 
زیارت ناحیہ میں امام زمانہ نے آپ کو اس طرح یاد فرمایا :
السلا م علی ابی الفضل العباس ؑ بن امیر المومنینؑ المواسی أخاہ بنفسہ ،الآخذ لغدہ من امسہ ،الفادی لہ الواقی الساعی الیہ بمائہ ، المقطوعۃیداہ ،لعن اللہ قاتلیہ یزیدبن الرّقاد الجھنی،۔۔۔۔۔۔وحیکم بن الطفیل الطائی ،  (۳)
۱۔مناقب آل ابی طالب ج ۴ ص :۱۱۴
۲۔بحار الانوار، ج ۴۵، ص ۴۱  ؛روضۃ الشہداء، ص ۴۱۵ 
۳۔ اقبال ،ج۳ص۷۴
سلام ہو امیرالمومنین ؑ کے بیٹے ابوالفضل العباس علیہ السلام پر جنہوں نے اپنے بھائی پر اپنی جان نثار کردی اپنے کو فداکیا اورخود کو سپر قراردیا پانی پہنچانے میں پوری کوشش کی لیکن دونوں ہاتھ قلم ہوگئے خدا لعنت کر ے ان کے قاتلین یزید بن رقادجہنی اور حکیم ابن طفیل پر ، حضرت عباس علیہ السلام کا روضہ بقیہ دوسرے شہیدوں سے الگ نہر علقمہ کے کنارے ہے  ۔

حضرت عباس علیہ السلام کا علم

باسمہ تعالیٰ

حضرت عباس علیہ السلام کا علم

سید محمد حسنین باقری

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ عالم علم لدنی اور علم الٰہی کا مظہر صرف اور صرف رسولﷺ و آل رسولؑ ہیں۔ تاریخ بشریت میں اگر کسی نے سلونی کا دعویٰ کیا اور اس دعوے کی لاج رکھی تو صرف یہی افراد تھے۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ اس گھر کے پروردہ اور ان آغوشوں کے پلے ہوئے اگر علم و معرفت کی معراج حاصل کرلیں تو جائے تعجب نہیں۔ اگر کسی آغوش میں پل کر اور حصار عصت میں رہ کر کوئی خاتون عالمۂ غیر معلمہ ہو تو اسی گھرانے میں انہیں آغوشوں کے پروردہ جسے ہم تمنائے علیؑ کہتے ہیں اگر وہ علم و فقاہت کی معراج پرپہنچ جائے تو تعجب کا مقام نہیں بلکہ بر عکس اگر اس مقام تک نہ پہنچے تو تعجب ہونا چاہئے۔ حضرت عباسؑ نے جس آغوش میں آنکھ کھولی ، جن گودیوں میںپروان چڑھے وہ ایک طرف حضرت علیؑ جیسا باپ تو دوسری طرف امام حسنؑ و امام حسینؑ جیسے بھائی تھے پھر تیسری طرف عالمۂ غیر معلمہ جناب زینبؑ جیسی بہن تھیں، اس کے علاوہ ام البنین جیسی ماں جن کا عالمہ اور شاعرہ ہونا کتابوں میں مذکور ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ حضرت عباسؑ خود عالم ربانی اور علم لدنی کے حامل تھے۔ اس لئے کہ ’’حضرت عباسؑمیں ایک طرف تو فطری ذہانت و ذکاوت تھی تو دوسری طرح امیر المومنینؑ نے آپ کی استعداد کو اس قدر جلا بخشی کہ جناب عباس ؑ عصمت کبریٰ حضرت فاطمہ زہرا ؐ کی آرزوؤں کا مرکز بن گئے۔ حضرت علیؑنے اپنے بعض اصحاب کی بھی اس طرح پرورش فرمائی تھی کہ ان کے ظرف میں ہستی کے اسرار اور موت و قیامت کے حالات قبل از وقت معلوم کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی تھی مثلاً حبیب ، میثم ، رشید وکمیل؛ کیا ایسی صورت میں ممکن ہے کہ اپنے لخت جگر کو ایسے علوم و اسرار سے باخبر نہ کیا ہو جب کہ حضرت عباسؑمیں اور وں کی بنسبت زیادہ صلاحیت و استعداد تھی۔
کردار علیؑشاہد ہے حضرتؑ نے ہر شخص کو اس کی صلاحیت و استعداد کے بقدر اپنے علم سے بہرہ مند فرمایا۔’’ لہٰذا جب علیؑجیسا فیض رساں علم لٹا رہا ہو اور عباسؑجیسی جامع صفات و صاحب استعداد ذات علم لے رہی ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عباسؑکائنات میں بعد از معصومؑایمان و ایقان میں سب سے اعلیٰ و ارفع مرتبہ پر فائز ہیں۔
 حضرت عباسؑنے امیر المومنینؑ کے بعد معلمان الٰہی حضرات حسنینؑسے کسب فیض کیا اور ایک لحظہ کےلئے تاریخ نہیں کہتی کہ حضرت عباسؑفرزند ان زہراؑکی عصمتی و علمی بزم سے دور رہے ہوں، ان دو اماموں کے بحر بیکراں میں غواصی فرمائی اور خوب دل کھول کر معارف الٰہیہ کے درِ بے بہا حاصل کئے مزید اس ماحول کو عالمہ غیر معلمہ زینب کبریؑ نے بام عروج تک پہنچادیا تھا۔
ماحول کی پاکیزگی اور ذاتی فضائل و مناقب ، اخلاص ، طاعت و عبادت کی پابندگی جیسے افعال نے ابو الفضل العباس علیہ السلام میں علم و معرفت کے دریچے وَا کردیئے تھے۔
پیغمبر اکرمﷺ سے مروی ہے:اگر کوئی شخص چالیس روز تک خدا کےلئے کام انجام دیتا رہے تو اس کے قلب و زبان سے حکمت کے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں۔ (۱)
 اس حدیث کی روشنی میںاس شخص کےلئے کیا کہا جاسکتا ہے جس نے اپنی پوری عمر خدا کی خوشنودی و رضا کے لئے بسر کی ہو جو ہر برائی سے مبرا اور ہر نیک صفت سے آراستہ رہا ہو۔ اس طرح کے لوگوں پر خدا کے نور کی چھوٹ پڑتی رہتی ہے اور ان کا علم فقط اکتسابی نہیںہوتا بلکہ وہبی ہوا کرتا ہے۔
حضرت عباسؑ کے سلسلے میں یہ روایت بھی نقل ہوئی ہے جس سے آپ کے علم وہبی کی گواہی ملتی ہے :’’ اِنّہ زُقّ العلم زَقّاً ‘‘جناب عباسؑ کو اس طرح علم سکھایا گیا جس طرح پرندہ اپنے بچے کو دانا بھراتا ہے۔ (۲)
اس تشبیہ میں کچھ باتوں کی طرف اشارہ ہے : ایک تو یہ کہ طائر اپنے بچے کو اتنا دانا بھراتا ہے کہ وہ سیر ہوجائے مزید طلب نہ رہے۔ لہٰذا جناب عباسؑ کو اتنا علم دیا گیا کہ اب انہیں کہیں اور سے علم لینے کی ضرورت نہ رہی۔ دوسری بات یہ کہ طائر اپنے بچے کو اس کی ابتدائی عمر میں رزق فراہم کرتا ہے اسی طرح جناب عباسؑ کو بچپنے ہی میں رزق علم اپنے بزرگوں سے مل چکا تھا۔ اور پھر تیسری بات یہ کہ طائر پرندہ کو وہی بھراتا ہے جو لیکر آتا ہے۔ جناب عباسؑ کو امیر المومنینؑ اور حضرات حسنین ؑ نے وہ علم سکھایا جو خدا کے یہاں سے لیکر آئے تھے۔ چوتھا اشارہ یہ کہ بچے میں دانا ہضم کرنے کی صلاحیت تو ہوتی ہے لیکن دانا فراہم کرنے کی توانائی نہیںہوتی اس تعبیر سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ حضرت عباسؑمیں بچپنے ہی سے علم حاصل کرنے کی صلاحیت و قابلیت موجود تھی۔
 صاحب کنزالمصائب کے  بیان کے مطابق : ’’ان العباسؑ اخذ علما جماً فی اوائل عمرہ عن ابیہ و امہ و اخواتہ‘‘  یعنی حضرت عباسؑ نے صغر سنی میں ہی اپنے والد والدہ اور بھائی بہنوں سے بہت زیادہ علم حاصل کرلیا تھا ۔(۳)
اسی طرح علامہ محمد باقر بیر جندی نے تحریر فرمایا ہے کہ : جناب عباس ؑ خاندان عصمت و طہارت کے عظیم المرتبت علماء و فقہا و افاضل میں اکابر میں تھے بلکہ غیر متعلم تھے۔یعنی آپ وہ عالم تھے جن کو غیر از معصوم کسی نے تعلیم نہیں دیا تھا ۔ (۴)
حضرت علیؑ اور امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی تربیت اور ان حضرات کی آغوش علم و عمل و ایمان نے جناب عباسؑ کو علم کے ساتھ ساتھ ایسی معرفت بھی عطا کی کہ آپ کو توحید کا بلند ترین منارہ قرار دیا ۔ عصمتی تربیت گاہ کی وجہ سے حضرت عباسؑ اسرار لاہوت سے باخبر تھے اور انوار ملکوت کا مظہر بنے ہوئے تھے۔
آپ کی کمسنی کا واقعہ ہے کہ ایک دن امیر المومنین ؑ کے زانوپر بیٹھے تھے تو دوسری طرف جناب زینبؑ تشریف فرما تھیں۔ امیر المومنینؑ  نے جناب عباسؑ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا : بیٹا کہو ایک (واحد) جناب عباسؑ نے ـجواب میں کہا: ایک (واحد) امام ؑ نے پھر فرمایا: کہو دو (اثنان) جناب عباسؑ نے جواب دیا : کہ بابا جان جس زبان سے میں نے ایک کہا ہے اس سے دو کہتے ہوئے شرم آرہی ہے۔( یعنی جس زبان سے خدا کی وحدانیت کا اقرار کرلیا اس سے دو کا لفظ استعمال نہیں کرسکتا۔) ۔۔۔ (۵)
حضرت عباسؑ کے اس جواب سے ظاہر ہے کہ ان کے اندر بچپنے ہی سے نور الٰہی ضو فگن تھا ورنہ اس سن و سال کے بچے اس سے کم سطح کی باتوں کو بھی محسوس نہیں کرپاتے لہٰذا ماننا پڑے گا کہ حضرت عباسؑ پر امیر المومنینؑ حضرات حسنین ؑ کے نورانی وعصمتی کردار کے اثرات تھے تو دوسری طرف خدا نے اپنے خاص عطیہ سے بھی نوازا تھا۔
 جناب عباسؑ کے علم و معرفت کی گواہ یہ حدیث بھی ہے جس میں امام جعفر صادق ؑ اپنے چچا کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں : کان عمنا العباسؑ نافذ البصیرۃ ،صلب الایمان ، جاہد مع ابی عبد اللہ و ابلا بلاءً حسناً و مضیٰ شہیداً یعنی ہمارے چچا عباس ؑ کمال بصیرت اور مستحکم ایمان والے تھے۔ آپ نے امام حسینؑ کے ساتھ جہاد کیا اور بلا و مصیبت میں گرفتار ہوکر جام شہادت نوش فرمایا۔ (۶)
ابتک کی گفتگو کو سامنے رکھتے ہوئے آسانی سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ جناب عباس علم معصومؑ کا مظہر تھے۔ آپ کو معصومینؑ کی جانب سے علم عطا ہوا تھا، آ پ علم وہبی کے حامل اور عالم ربانی و عالم علم لدنی تھے اور آپ کی عظمت و کردار اور مقام و مرتبہ نتیجہ تھا صحیح علم اور مکمل معرفت کا ۔ غازی ابوالفضل العباسؑ کا علوم اہل بیتؑ سے آراستہ ہونا اور علمی کمال حاصل کرنا ایک ایسی فضیلت ہے جو عام طور پر بیان نہیں ہوپاتی۔ یقینایہ ایک ایسی صفت تھی جو اہل بیتؑ کے بعد جناب عباس کو عطا ہوئی لہذا اگر ہم غازی عباسؑ کے نام لیوا ہیں ، ان سے عقیدت و محبت رکھتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم بھی علمی میدانوں میں کمال حاصل کریں کم از کم یہ سوچ کرعلم حاصل کریں کہ یہ اہل بیتؑ کی میراث اور غازی عباسؑ کی سیرت ہے۔ یقیناً علم کے ساتھ جو معرفت حاصل ہوتی ہے وہ بغیر علم کے کبھی حاصل نہیں ہوسکتی اگر ابو الفضل العباس نے وہ عظیم کارنامہ انجام دیا جس کی نظیر دنیا پیش نہیں کرسکتی ، امام معصوم کی اطاعت میں اس طرح سر تسلیم خم کیا کہ اطاعت اولی الامر کی تفسیر بن گئےتو وہ نتیجہ تھا علم و معرفت کا۔ لہذا ہم بھی اگر جناب عباس کو اپنا مقتدا مانتے ہیں ، ان کی سیرت پر چلنے کے دعوے دار ہیں، دنیامیں غازی عباس کی طرح عزت کی زندگی جینا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی علم کو اہمیت دیکر اسے حاصل کرنا ہوگا اور علمی میدانوں میں ترقی کرکے اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کو دوبارہ واپس لینا ہوگا۔ آج اگر ہم نے علمی میدانوں میں ترقی کی، خوب علم حاصل کیا، علمی کارنامے انجام دیے تو گویا ہل بیتؑ کی میراث کی حفاظت کی اور اپنی ملکیت کو اپنے پاس رکھا جس سے یقیناً اہل بیتؑ اور غازی عباس کی خوشنودی کا سامان فراہم کیا۔
لہذا آئیے آج ہی عہد کریں کہ اہل بیتؑ کی میراث کی اور ان کی ملکیت یعنی علم جس کے وارث صرف اور صرف ہم ہیں اسے جس طرح حاصل کرنا چاہیے حاصل کریں گے اور اس کی حفاظت کا فریضہ انجام دیں گے۔
۱۔بحار الانوار،ج۷۰،ص۲۴۲؛کنزالعمال،۳،ص۵۲۷۱۔۲۔حقائق العباسیہ محمد ابراہم کلباسی صفحہ ۲۹۷ ، چہرہ درخشاں جلد ایک صفحہ ۸، فرسان الہیجا جلد ۱ صفحہ ۱۹۲۔۳۔معالی السبطین جلد۱ صفحہ ۴۳۱۔۴۔کبریت احمر جلد۳ صفحہ ۳۵ بنقل از صحیفہ وفا،ص۱۶۲۔۵۔ مستدرک الوسائل نوری جلد۱۵ صفحہ ۲۱۵، حدیث ۱۸۰۴۰ابواب احکام اولاد باب ۷۹ بنقل از کبریت احمر صفحہ ۷۳۳۔۶۔ عمدۃ الطالب صفحہ ۲۳۹ از کبریت احمر صفحہ ۷۳۵۔���

جمعرات، 28 جون، 2018

قرآن اور امام حسین

اگر قرآن سيد الکلام ہے (1) تو امام حسين سيد الشہداء ہيں (2) ہم قرآن کے سلسلے ميں پڑھتے ہيں، ''ميزان القسط'' (3) تو امام حسين فرماتے ہيں،''امرت بالقسط'' (4) اگر قرآن پروردگار عالم کا موعظہ ہے،''موعظة من ربکم''(5) تو امام حسين نے روز عاشورا فرمايا ''لا تعجلوا حتيٰ اعظکم بالحق'' (6) (جلدي نہ کرو تاکہ تم کو حق کي نصيحت و موعظہ کروں) اگر قرآن لوگوں کو رشد کي طرف ہدايت کرتا ہے، ''يھدي الي الرشد'' (7) تو امام حسين نے بھي فرمايا،''ادعوکم الي سبيل الرشاد'' (8) (ميں تم کو راہ راست کي طرف ہدايت کرتاہوں) اگر قرآن عظيم ہے، ''والقرآن العظيم'' (9) تو امام حسين بھي عظيم سابقہ رکھتے ہيں،''عظيم السوابق''(1٠ )-
اگر قرآن حق و يقين ہے،''وانہ لحق اليقين''(11) تو امام حسين کي زيارت ميں بھي ہم پڑھتے ہيں کہ :صدق و خلوص کے ساتھ آپ نے اتني عبادت کي کہ يقين کے درجہ تک پہنچ گئے''حتيٰ اتاک اليقين''(12) اگر قرآن مقام شفاعت رکھتا ہے ،''نعم الشفيع القرآن''(13) تو امام حسين بھي مقام شفاعت رکھتے ہيں''وارزقني شفاعة الحسين''(14) اگر صحيفہ سجاديہ کي بياليسويں دعا ميں ہم پڑھتے ہيں کہ قرآن نجات کا پرچم ہے ،''علم نجاة''تو امام حسين کي زيارت ميں بھي ہم پڑھتے ہيں کہ آپ بھي ہدايت کا پرچم ہيں،''انہ راےة الھديٰ''(15) اگر قرآن شفا بخش ہے،''وننزل من القرآن ما ھو شفائ'' (16) تو امام حسين کي خاک بھي شفا ہے ،''طين قبر الحسين شفائ'' (17)-
اگر قرآن منار حکمت ہے (18) تو امام حسين بھي حکمت الٰہي کا دروازہ ہيں ،''السلام عليک يا باب حکمة رب العالمين''(19) اگر قرآن امر بالمعروف کرتا ہے ،''فالقرآن آمروا زاجراً''(٢٠ ) تو امام حسين نے بھي فرمايا،''ميرا کربلا جانے کا مقصد امر بالمعروف ونھي عن المنکر ہے-اريد ان آمر بالمعروف و انھيٰ عن المنکر''(21) اگر قرآن نور ہے،''نوراً مبيناً''تو امام حسين بھي نور ہيں ،''کنت نوراً في اصلاب الشامخة''(22) اگر قرآن ہر زمانے اور تمام افرادکے لئے ہے،''لم يجعل القرآن لزمان دون زمان ولا للناس دون ناس''(23) تو اما م حسين کہ سلسلہ ميں بھي پڑھتے ہيں کہ کربلا کے آثار کبھي مخفي نہيں ہوں گے،''لا يدرس آثارہ ولا يمحيٰ اسمہ''(24)-
اگر قرآن مبارک کتاب ہے،''کتاب انزلناہ اليک مبارک'' (25) تو امام حسين کي شہادت بھي اسلام کے لئے برکت و رشد کا سبب ہے،''اللہم فبارک لي في قتلہ'' (26) اگر قرآن ميں کسي طرح کا انحراف و کجي نہيں ہے،''غير ذي عوج''(27) تو امام حسين کے سلسلے ميں بھي ہم پڑھتے ہيں کہ آپ ايک لمحہ کے لئے بھي باطل کي طرف مائل نہيں ہوئے،''لم تمل من حق الي الباطل'' (28) اگر قرآن ،کريم ہے ،''انہ لقرآن کريم'' (29) تو امام حسين بھي اخلاق کريم کے مالک ہيں،''وکريم الاخلاق'' (٣٠ ) اگر قرآن ،عزيز ہے، ''انہ لکتاب عزيز'' (31) تو امام حسين نے بھي فرمايا: کبھي بھي ذلت کو برداشت نہيں کرسکتا،''ھيھات من الذلة'' (32)-
اگر قرآن مضبوط رسي ہے،''ان ھٰذا القرآن والعروة الوثقيٰ'' (33) تو امام حسين بھي کشتي نجات اور مضبوط رسي ہيں،''ان الحسين سفينة النجاة والعروة الوثقيٰ''(34) اگر قرآن بين اور روشن دليل ہے ،''جائکم بينة من ربکم''(35) تو امام حسين بھي اس طرح ہيں،''اشھد انک عليٰ بينة من ربکم''(36) اگر قرآن آرام سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے ،''ورتل القرآن ترتيلا'' (37) تو امام حسين کي قبر کي زيارت کو بھي آہستہ قدموں سے انجام دينا چاہئے،''وامش يمشي العبيد الذليل''(38) اگر قرآن کي تلاوت حزن کے ساتھ ہونا چاہيئے ،''فاقروا بالحزن'' (39) تو امام حسين کي زيارت کو بھي حزن کے ساتھ ہونا چاہيئے ،''وزرہ وانت کشيب شعث''(٤٠ )-
ہاں! کيوں نہ ہو حسين قرآن ناطق اور کلام الٰہي کا نمونہ ہيں-
حوالہ جات:
(1)مجمع البيان،ج2،ص361- (2)کامل الزيارات-
(3)جامع الاحاديث الشيعہ،ج12،ص481-
(4)سورہ يونس/57-
(5)لواعج الاشجان،ص26-
(6) سورہ جن/2-
(7)لواعج الاشجان،ص128-
(8)سورہ حجر/87-
(9)بحار،ج98،ص239-
(1٠ )سورہ الحاقہ/51-
(11)کامل الزيارات،ص2٠ 2-
(12)نھج الفصاحة،جملہ،ص662-
(13)زيارات عاشورا-
(14)کامل الزيارات،ص٧٠ -
(15)سورہ اسرائ/82-
(16)من لا يحضر ہ الفقيہ،ج2،ص446-
(17)الحياة،ج2،ص188-
(18)مفاتيح الجنان-
(19)نھج البلاغہ،ح182-
(٢٠ ) مقتل خوارزمي،ج1،ص188-
(21)سورہ نسائ/174-
(22)کامل الزيارات،ص2٠٠ -
(23)سفينة البحار،ج2،ص113-
(24)مقتل مقرم-
(25)سورہ ص/29-
(26)مقتل خوارزمي يہ پيغمبر کا جملہ ہے-
(27)سورہ زمر/28-
(28)فروع کافي،ج4،ص561-
(29)سورہ واقعہ /77-
(3٠ )نفس المہموم،ص7-
(31)فصلت/41-
(32)لہوف،ص54-
(33)بحار،ج2،ص31-
(34)پرتوي از عظمت امام حسين ،ص6-
(35)سورہ انعام/157-
( 36)فروع کافي،ج2،ص565-
(37)سورہ مزمل/4-
(38)کامل الزيارات-
(39)وسائل،ج2،ص857-
(4٠ )کامل الزيارات-

تحرير: استادقراءتي
مترجم : مولانا سيد حسنين باقري

پیر، 4 جون، 2018

عالم با عمل


عالم با عمل
آیةاللہ العظمی محمد تقی بہجت قدس سرہ ١٣٣٤ھ کے اواخر میں ایران کے صوبۂ گیلان میں واقع شہر فومن میں ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے.١٦ سال کی عمر ہی میں سایۂ مادری سے محروم ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی ۔١٣٤٨ھ میں عراق کا سفر کیا .٤سال کربلائے معلی میں سیدالشہداـکے جوار میں رہ کر کسب علم کیا پھر باب مدینة العلم کی چوکھٹ پر تعلیم و تربیت کے لیے نجف اشرف کا رخ کیا اور وہاں پر وقت کے بزرگ مراجع سے کسب فیض کر کے ١٣٦٣ھ میں ایران واپس آئے۔
آپ دور حاضر کے برجستہ مراجع تقلید میں شمار کیے جاتے اور اخلاق و عرفان کے عظیم معلم ہونے کے ساتھ ساتھ بے پناہ معنوی فیوض و برکات کا سرچشمہ اور سیرت اہل بیت کا ایک نمونہ تھے ۔
 آپ نے اپنی ٩٦ سالہ بابرکت عمر میں دنیا کے سامنے زہد و تقویٰ ،علم و عمل اور خوف و خشیت الٰہی کا وہ نمونہ پیش کیا کہ خاص و عام کی توجہ کا مرکز اور ہر دلعزیز شخصیت رہے۔ آپ نے کثرت سے شاگردوں کی تربیت کی اور تقوی و خوف الٰہی کا وہ نمونہ پیش کیا کہ مرجع خاص و عام قرار پائے جس کی دلیل آپ کی تشیع جنازہ ہے جو قم کی تاریخ میں بے نظیر ہے ۔
اس مرد مومن اور عالم باعمل نے یکشنبہ ،٢٣جمادی الاول ١٤٣٠ھ کو حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے ولیعصر ہاسپٹل قم میں انتقال کیا.سہ شنبہ ٢٥جمادی الاول کو لاکھوں کے مجمع میں تشیع جنازہ ہوئی ،آیةاللہ جوادی آملی نے نماز جنازہ پڑھائی ،حرم معصومۂ قم میں دفن کیے گئے۔
قارئین کے استفادہ کے لیے اس فقیہ اہل بیت کی زندگی کے چند پہلو اور کچھ فرمودات پیش ہیں تاکہ اس مرد مومن کی زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے ہم بھی اس طرح زندگی گزارنے کی کوشش کریں دعا کے ساتھ کہ ہمیں بھی علم و عرفان اور تقوائے الٰہی کی دولت عطا ہو اور ہم بھی عالم باعمل بنیں۔
اول وقت نماز کی اہمیت:آیةاللہ بہجت نے آقائے قاضی مرحوم کی زبانی نقل کیا کہ وہ فرمایا کرتے تھے:''اگر کوئی شخص اول وقت نماز کا پابند ہو اور مقامات عالیہ تک نہ پہنچے تو مجھے لعنت کرے''اول وقت میں ایک خاص راز ہے ''حافظوا علی الصلوات''یعنی نماز کی بجاآوری میں کوشا رہیے،اس جملہ میں خود ایک نکتہ ہے جو ''اقیموا الصلوة''نماز پڑھیے ،کے علاوہ ہے۔اور اگر نمازی خیال رکھتا ہو اور پابند ہوکہ نماز کو اول وقت پڑھے تو یہ خود بہت زیادہ آثار رکھتا ہے اگرچہ حضور قلب بھی نہ رکھتا ہو۔
تفکر ایک سال کی عبادت سے بہتر!:آیةاللہ بہجت نے فرمایا:نجف کے ایک بزگ عالم نے سحر کے وقت نماز شب کے لیے اپنے بیٹے کو پکارا اور کہا:اٹھو اور چند رکعت نماز شب پڑھ لو.لڑکے نے جواب دیا:اچھا،وہ عالم نماز میں مشغول ہوگئے کچھ دیر کے بعد پھر دیکھا تو دیکھا کہ بیٹا نہیں اٹھا ہے.دوبارہ پکارا کہ اٹھو اور چند رکعت نماز پڑھ لو،لڑکے نے پھر جوابدیا کہ:اچھا.وہ عالم دوبارہ نماز میں مشغول ہوگئے لیکن دیلھا کہ بیٹا بستر سے نہیں اٹھ رہا ہے.تیسری مرتبہ پھر پکارا ،تو بیٹے نے جواب دیا کہ :بابا جان میں تفکر کررہا ہوں ، جس کے بارے میں امام صادق  ـ نے فرمایا ہے کہ:تفکر ساعة خیر من عبادة سنة'' 
وہ عالم سخت ناراض ہوئے اور کہا...(آقای بہجت نے وہ کلمات زبان پر جاری نہیں کیے لیکن ان کے شاگرد کے بقول کہ ہم لوگ سمجھ گئے کہ اس عالم نے کہا :)اے بدبخت!وہ تفکر ایک سال یا ساٹھ سال سے بہتر ہے جو انسان کو نماز شب پڑھنے کے لیے وادار کرے ،نہ یہ کہ نماز شب کے وقت انسان بستر پر پڑا رہے اور تفکر کرے اور اس بہانے نماز نہ پڑھے!؟۔
عمل صالح کی اہمیت:ایک دن آقا نے عمل صالح کی جزا کے سلسلے میں فرمایا:ایک دن نجف میں ایک عالم نے راستہ میں ایک فقیر کو ایک درہم صدقہ دیا.رات میں خواب میں دیکھا کہ ان کو آراستہ باغ میں ایک عالیشان محل میں دعوت دی گئی ہے۔انھوں نے پوچھا کہ یہ باغ اور محل کس کا ہے؟ جواب ملا کہ تمہارا ہے.انتہائی تعجب سے پوچھا کہ میں تو ایسا  کوئی عمل انجام نہیں دیا کہ اس عظیم نعمت کا مستحق قرار پاؤں. کہا گیا:تعجب ہورہا ہے؟ کہا:ہاں!جواب ملا کہ تعجب نہ کرو، یہ تمہارے اس ایک درہم کی جزا ہے جسے تم نے خلوص نیت کے ساتھ فقیر کو دیا تھا!۔
فرمودات
 محبت اہل بیت  سے ہر گز دست بردار نہ ہوں اس لئے کہ اسی محبت میں تمام چیزیں ہیں ،اگر ہمارے پاس کوئی چیز ہے تو اسی محبت کی وجہ سے ہے۔
خدہی ا جانتا ہے کہ اہل بیت رسالت  کی رحمت کتنی وسیع ہے!ان کی رحمت ،خداوند عالم کی رحمت واسعہ کے تابع ہے۔
ائمہ اطہار خوف جہنم بھی رکھتے تھے اور شوق جنت بھی لیکن عبادت کو خوف و شوق میں نہیں انجام دیتے تھے۔
اگر امام کی معرفت آگے بڑھے گی تو خدا کی معرفت میں بھی اضافہ ہوگا اس لئے کہ امام  ـ سے بڑھ کر کون سی آیت ہے.امام ایسا آئینہ ہے جو پوری دنیا کی حقیقت کو دکھاتا ہے۔
ائمہ  ہم سے غافل نہیں ہیں گرچہ ہم ان سے غافل ہوجائیں۔
جو مصیبت بھی ہم پر آتی ہے وہ اہل بیت  اور ان سے مروی احادیث سے دوری کی وجہ سے ہوتی ہے۔
نجات اس شخص کے لئے ہے جو اہل بیت  کو ہر جگہ اپنا مخاطب اور حاضر و ناظر سمجھے۔
ائمہ  کے نقش قدم پر چلیے نہ کہ دوسروں کے ،ہمیشہ علمائے دین سے رابطہ رکھیے ۔  
جوانوں کو چاہیے کہ اپنے عقائد و اعمال کو مستحکم کریں اس لئے کہ ایسی صورت میں دنیا کی کوئی بھی بری ثقافت (یا کوئی بھی نقصان پہنچانے والی چیز )اثر نہیں کرے گی اور ان کو چاہیے کہ خدا پر توکل کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کریں اور عمل کریں۔
یہ بات واضح ہے کہ اگر انسان عقیدہ و عمل دونوں اعتبار سے گناہ اور معصیت کو ترک کرے یعنی تمام گناہوں کو چھوڑنے کا دل سے قصد کرے اور ا س پر عقیدہ بھی رکھے اور عملی طور سے تمام گناہوں کو ترک بھی کرے اور کسی گناہ کا مرتکب نہ ہو تو وہ دوسروں سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔دوسرے اس کے محتاج ہوتے ہیں لیکن وہ کسی کا محتاج نہیںہوتا۔اور اسکے ساتھ ہی ساتھ گناہوںسے بچنا ،حسنات ونیکیوں کے وجود میں آنے کاسبب بنتا ہے اور برائیاںوسیئات اس سے دور ہوتی ہیںیعنی اس کو توفیق حاصل ہوتی ہے کہ اچھائیوں کو انجام دے اور برائیوں سے بچے(وَماخلقتُ الجنّ والانس الالیعبدون)ہم نے جن وانس کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔بندگی و عبادت یہ ہے کہ عقیدہ عمل کے اعتبارسے بھی گناہوںکوترک کرے۔
   بعض افرادیہ خیال کرتے ہیںکہ ہم ترک معصیت کی منزل سے گزرچکے ہیںہم سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا جبکہ اس بات سے غافل ہیںکہ گناہ صرف چندکبائرسے مخصوص نہیںہے یعنی ایسانہیںہے کہ صرف گناہانِ کبیرہ ہی گناہ ومعصیت ہوںاوران سے بچنے سے ترک معصیت انجام پارہاہے؛.ایسانہیںبلکہ گناہان صغیرہ پراصراربھی گناہ کبیرہ ہے.کوئی چھوٹایامعمولی گناہ ہے اگرہم اس کومستقل انجام دیںاوراس کی تکرارکریںتووہ بھی گناہ کبیرہ ہوجائے گا مثلااپنے نوکرکوڈرانے کے لئے اس کی طرف غضبناک نگاہوںسے دیکھنا بھی اذیت اورحرام ہے اسی طرح گنہ گارکی طرف مسکراکردیکھنابھی اس کی تشویق اورمعصیت میں مدد ہے لہذا اس طرح کے بظاہرچھوٹے اورمعمولی کام بھی معصیت اورگناہ ہیں۔
   علماء وصلحاء سے دوری بھی انسان کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے.جب انسان ایسے افرادسے دوررہتاہے توبسااوقات اس کاایمان ودین بھی بہت جلداس سے رخصت ہوجاتاہے۔
   خداکرے ہم صرف زبانی دعوے کرنے والے نہ ہوں،ہمارے پاس فقط لقلقۂ زبانی نہ ہوبلکہ عملی میدان میںہم آگے ہوں،جوکچھ کہیںاس پرعمل پیرا بھی ہوںاورعمل بھی بغیرعلم کے نہ کریںبلکہ علم کے ساتھ کریںاورعلم کے ساتھ ثابت قدم رہیں،جتنی باتیںجانتے ہیںاس پرعمل کریں اورجس کے بارے میںنہیںجانتے اسمیںسکوت اختیار کریںاوراحتیاط سے کام لیںتاکہ یقین حاصل کرلیںکہ قطعًا یہ راستہ پشیمانی والانہیںہے.دوسروںکے اعمال پرنظرنہ رہے بلکہ شریعت کودیکھیںکہ وہ ہم سے کیاچاہتی ہے،کن چیزوںکاہمیں حکم دے رہی ہے اورکن چیزوںسے ہمیں روک رہی ہے؛اسی کے مطابق عمل کریں۔
احکام الہی کی انجام دہی ،خاصکرنمازمیںخضوع وخشوع پیداکرنے کے لئے نمازکے شروع میںامام زمانہ سے واقعی توسل کریںتاکہ عمل کو مکمل طورپرانجام دے سکیں۔
غصے کے علاج کے لئے پورے اعتقادکے ساتھ زیادہ سے زیادہ صلوةپڑھیں(اللھم صلِّ علی محمدوآل محمد)
اہلبیتـ؛خصوصًاامام زمانہ کی محبت اپنے دل میں پیداکرنے کے لئے اللہ کی معرفت حاصل کریںپھراس کی اطاعت کریںاوراس کی محبت اپنے دل میںپیداکریں،اس لئے کہ خداسے محبت کرنامحمدوآل محمدۖ کی محبت کاسبب بنتا ہے۔
حقیرکی نظرمیںسب سے بہترذکر،ذکرعملی ہے؛عقیدہ وعمل میںمعصیت کوترک کرنا۔
قرب الہی حاصل کرنے کے لئے اپنااستاداپنے علم کوبنایئے؛جتنی باتیںجانتے ہیںسب پرعمل کیجئے،اپنی معلومات کوپیروںتلے نہ روندیے۔
اگرانسان اپنی تمام عبادات،خاصکرنمازجوسرفہرست ہے، اسکی اصلاح کرلے تووہ کامیاب ہوگا۔  
زیارت کی توفیق کا پیسہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ہم شیعہ حضرات ہر روز امیر المومنین ـ،ائمہ معصومین  اور رسول اکرم  ۖکے سامنے زانوئے ادب کیوں نہیں تہہ کرتے اور ان کی حدیثوںمیں پوشیدہ بے شمار آداب و معارف اور حکمت پر کیوں نہیں توجہ دیتے۔
توسلات بہت ہی مفید ہے ،ان امام زادوں کے زیارت کے لئے زیادہ جائیے ،جس طرح ہر پھل ایک خاص وٹامن رکھتا ہے اسی طرح ان میں سے ہر شخصیت ایک خاص اثر اور خصوصیت رکھتی ہے۔
شب عید غدیر اور اسی طرح کی دوسری راتوں میں ان راتوں اور ان دنوں کی فضیلت ،ان سے متعلق شخصیات کی عظمت و فضیلت،ان کے دشمنوں کے مطاعن،اور ولایت کے سلسلے میں وارد روایات کو دلیل و برہان کے ساتھ ذکر کرنا چاہیے تاکہ سامعین کے مذہبی عقائد کی تقویت کا سبب بنیں .نہ کہ اس طرح کی مجالس ہنسی مذاق اور لہو ولعب میں گزار دی جائیں۔
شیعوں کا ایک امتیاز امام زادوں کی قبریں اور مزارات ہیں لہذا ان کی زیارت سے ہرگز غافل نہ ہوں اور اپنے کو اپنے ہی ہاتھوں محروم نہ کریں۔
سید محمد حسنین باقری


عمر کا خط معاویہ کے نام


عمر کا خط معاویہ کے نام

علامہ مجلسی علیہ الرحمہ بحار الانوار میں فرماتے ہیںکہ دلائل الامامت کی دوسری جلد سے اس خبر کو نقل کیا گیا ہے :
ابو الحسن محمد بن ہارون بن موسیٰ التلعبکری نے بیان کیا کہ مجھ سے میرے والد ماجد ہارون بن موسیٰ التلعبکری نے بیان کیا، ان سے ابو علی محمد بن ہمام نے بیان کیا۔ انہوںنے کہا کہ ہم سے جعفر بن محمد بن مالک الفزاری کوفی نےبیان کیا، ان سے عبد الرحمان بن سنان الصیرفی نے بیان کیا ، ان سے جعفر بن علی الجواد نےبیان کیا، ان سے حسن بن مسکان نےبیان کیا، ان سے مفضل بن عمر الجعفی نےبیان کیا۔ اور ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ جب حضرت امام حسین کو شہید کردیا گیا تو مدینہ رسولؐ میں حضرت امام حسینؑ کی شہادت اور اہل بیتؑ کی اسیری کی خبر پہنچی اور یہ کہ اہل بیتؑ سے اٹھارہ تن اور ۵۳؍اصحاب حسینی نے جامِ شہادت نوش کیا اور یہ کہ چھ مہینے کا شیر خوار مجاہد علی اصغرؑ پانی کے سوال پر اپنے باپ کے ہاتھوں پر جام شہادت سے سیراب ہوئے اور رسول خداؐ کی نواسیوں کو قیدی بنایا گیا اور آل محمدؐ کے قیدیوں کو دربار یزیدی میں دست بستہ پیش کیا گیا۔ 
اس خبر کو سن کر ازواجِ نبیؐ نے حضرت اُمِّ سلمیٰ کے گھر میں مجلسِ ماتم بپا کی اور مہاجرین اور انصار نے بھی اپنے گھروں میں مجالس و ماتم و سوگواری برپا کیں۔ 
امام حسینؑ کی شہادت اور حضرت زینبؑ و اُمِّ کلثومؑ کی اسیری کی خبر سن کر عبد اللہ بن عمر خطاب چیخ مارتے ہوئے گریباں چاک کئے روتے اور سینہ کوبی کرتے ہوئے اپنے گھر سے باہر نکلے اور انصار اور مہاجرین اور بنی ہاشم سے کہا اولاد رسولؐ خدا کا خون بہادیا گیا اور ان کے اہل حرم کو قیدی اور اسیر بنایا گیا اور تم لوگ زندہ ہو اور کھانے پینے میں مشغول ہو؟
اب میں یزید کے پاس جاؤں گا اور مدینے سے یہ کہہ کر چل دیئے اور کہا کہ میں جب تک مدینے میں داخل نہیں ہوں گا کہ جب تک مدینے والے یزید کے خلاف نفرت کا اظہار نہیں کرتے وہ خود یزید اور یزیدیوں پر لعنت بھیجا کرتے ۔ مدینۂ رسولؐ میں یزید حاکم نے اپنے امیر کو لکھا کہ خلیفہ عمر کا فرزند عبد اللہ تیرے خلاف لوگوں کو بھڑکارہا ہے۔ وہ کہتا ہےکہ یزید نے فرزندِ رسولؐ کو قتل کردیا اور رسولؐ کے اہل بیتؑ کو قیدی بنایا ہے اور جو شخص عبد اللہ بن عمر خطاب کی تائید نہیںکرے گا وہ دین اسلام سے خارج ہے۔ 
عبد اللہ بن عمر یہ کہتے ہوئے دمشق ، یزید کے پاس پہنچ گئے اور فریاد کرتے ہوئے کہا: اے امیر یہ تم نے کیا کیا؟ تم نے اولادِ رسولؐ کا خون بہایا اور آل رسولؐ کو قیدی بنایا۔ ایسا سلوک تو ترک و دیلم اور رومی قیدیوں کے ساتھ بھی روا نہیں ہے۔ 
اس مسندِ خلافت کو چھوڑ کر اب مسلمان کے سامنے حاضر ہوجاؤ اور دیکھو کہ وہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ 
یزید نے عبد اللہ بن عمر خطاب کو خوش آمدید کہا اور اپنے سینے سے لگالیا اور کہا اے عبد اللہ خاموش ہوجاؤ اور جو کچھ تم کہہ رہے ہو اس کے اطراف و جوانب پر غور کرو۔ 
اور یہ بتاؤ کہ تمہارا اپنے باپ عمر خطاب کے بارےمیں کیا نظریہ ہے؟
 وہ خلیفۂ رسولؐ خدا ، ہادی اور مہدی تھے اور رسولؐ خدا کے ناصر اور حامی تھے اور تمہاری بہن حفصہ حضرت رسولؐ خدا کی زوجہ تھیں یا یہ کہتے ہو کہ وہ اللہ کے مطیع فرمان نہیں تھے اور اللہ کی عبادت سے گریزاں تھے؟ عبد اللہ بن عمر خطاب نے کہا:
 میرے ابا میاں ویسے ہی تھے کہ جیسا تم نے ان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہا ہے ۔
اب تم ان کے بارےمیں کیا کہنا چاہتے ہو؟
 یزید نے کہا : اب یہ بتاؤ کہ تمہارے ابا میاں نے میرے ابا جی کے گلے میں خلافتی پٹّہ ڈالا تھا یا میرے ابّا نے تمہارے ابّا میاں کے گلے میں خلافت کا قلادہ ڈالا تھا؟ اور شام کا حاکم مطلق قرار دیا تھا۔ عبد اللہ بن عمر نے اقرار کیا کہ میرے ابّا نے تمہارے ابّا کو شام کی حکومت دے کر ان کی گردن میں قلادہ ڈال دیا تھا۔ 
 یزید نے کہا : اے عبد اللہ اپنے باپ کے اس کام سے تم راضی اور خوش ہو کہ انہوں نے میرے ابا کو شام کی حوکمت بخشی۔ عبد اللہ بن عمر خطاب نےکہا: ہاں یہاں تک تو میں راضی ہوں۔ یزید نے کہا : تم اپنے باپ سے راضی ہو؟ عبد اللہ نے گرد ن ہلا کر یزید کے قول کی تائید کی اور کہا میں اپنے باپ سے خو ش اور راضی ہوں۔ یزید نے عبد اللہ بن عمر کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ مارا اور کہا آؤ عمر خطاب کے فرزند میرے ساتھ چلو میں تمہیں ایک چیز دکھاؤں گا۔ عبد اللہ بن عمر یزید کے ساتھ چل دیئے۔ 
یزید انہیں اپنے خزانے میں لایا اور ایک صندوق طلب کیا اور اس صندوق کےا ندر سے ایک چھوٹی سی صندوقچی نکالی اور اس میں سے ایک طومار نکالا کہ جو سیاہ ریشمی کپڑے پر لکھا تھا یزید نے طومار عبد اللہ بن عمر کو دیا اور اور دریافت  کیا ’’ تم اس تحریر کو پہچانتے ہو؟ یہ خط تمہارے ابا میاں کا ہے یا کسی اور نے لکھ دیا ہے ‘‘۔؟
عبد اللہ بن عمر نے کہا یہ تحریر میرے ابا میاں کی ہے۔ ابن عمر خطاب نے وہ طومار یزید سے لے لیا اور اس کو بوسہ دیا یزید نے کہا: عبد اللہ اس کو پڑھو اور انہوں نے اس کو پڑھنا شروع کردیا۔ 
 ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم : وہ ذات کہ جس نے تلوار کی دھار پر ہم سے اپنا اقرار لیا۔ ہم نے اقرار تو کرلیا لیکن دل میں نفرت بھری تھی۔ ہماری سانسیں بھی گھٹ گئی تھیں، ہماری نیت اور ضمیر میں شک و تردید کی گرہیں پڑھیں تھیں، ہم نے مجبور ہوکر اپنے دین کو چھوڑا اپنے بتوں اور خداؤں کو چھوڑا اور جس کا انکار تھا اس کو قبول کرنا پڑا۔ ہم نے تلوار سے بچنے کی خاطر اطاعت کو قبول کرلیا۔ پھر قبول کرنے میں دینوی فائدے بھی تھے نعمتوں کی فراوانی تھی۔ مجھ کو اپنے آبائی دین سے بے حد محبت تھی۔ میرےد ل میں اس دین کی محبت و الفت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ 
میں اپنے ہُبل ولات و عزّیٰ اور اصنام اور بتوں کی قسم کھا کر اعلان کرتا ہوں کہ عمر نے جس روز سے اپنے معبودوں کی عبادت شروع کی تھی آج تک انہیں دل سے نہیں نکالا ہے اور خانہ کعبہ کا ان خداؤں کے سوائے کوئی پروردگار نہیں ہے۔ 
 میں نے کبھی دل سے محمدؐ کے قول کی تصدیق نہیں کی، اسلام کے قبول کرنے میں میری اپنی سیاست اور تدبیر تھی اور حیلہ گری کا کرشمہ تھا۔ مگر وہ بہت بڑے جادو کو لے کر آئے تھے اور وہ اپنی جادوگری میں بنی اسرائیل و موسیٰ و ہارون و داؤد و سلیمان و عیسیٰ سے بھی بڑھ چڑھ کر تھے ‘‘ ( یہ خط لندن سے شائع ہونے والے عربی جریدے میں کسی نئے متجد د نام سے بھی شائع ہوا ہے )





اس جادو کے سامنے ہم نے ہتھیار ڈال دیئے اور حقیقت یہ ہے کہ ’’ وہ سید السحرۃ‘‘ جادو گروں کےسردار تھے ‘‘ ({ FR 12 })
پس اے ابو سفیان کے جنے اپنی قوم کی سنت کو مضبوطی سے پکڑے رہنا اور اپنی ملت کی پیروی کرتے رہنا اور جس دین پر تمہارے اسلاف کار بند تھے اسی پر قائم رہنا اور اس دین میں یہ ہمارا دین نہیں ہے اس میں کہتے ہیں کہ ان کا اللہ ہے۔ پروردگار ہے۔ انہوں نے اپنا قبلہ بھی بنا لیا ہے اور انہوں نے نماز اور حج کو اسلام کا رکن قرار دیا ہے۔ محمدؐ کی مدد کرنے والے یہی سلمان فارسی تھے۔ وہ لوگ مدعی ہیں کہ سب سے پہلا گھر وہی ہے کہ جو مکے میں ہے اور لوگوں کو ہدایت کرتا ہے اور اس میں اللہ کی نشانیاں ہیں۔ 
 وہ اپنی نماز پتھروں کے لئے پڑھتے ہیں اور ہمارے بتوں پرستش سے ہم کو منع کرتے ہیں۔ اگر ان کا جادو نہ ہوتا تو ہم ہرگز اپنے اصنام و بتوں کو فراموش نہ کرتے اور لات اور عزیٰ کی شان بر قرار رہتی ہے۔ اب چاہے وہ کتناہی جادو کریں مگر ہم لات و عزیٰ کو ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ 
وہ اپنی نماز پتھروں کےلئے پڑھتے ہیں اور ہمارے بتوں کی پرستش سے ہم کو منع کرتے ہیں اگر ان کا جادو نہ ہوتا تو ہم ہرگز اپنے اصنام و بتوں کو فراموش نہ کرتے اور لات و عزیٰ کی شان بر قرار ہتی ۔ اب چاہے وہ کتنا ہی جادو کریں مگر ہم لات و عزیٰ کو ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ 
اے معاویہ اب اچھی طرح آنکھیں کھول کر دیکھ  اور جو کچھ میں کہتا ہوں اس کو غور سے سن اور اپنے دل و دماغ سے اس موضوع پر غور و فکر کر اور ہمیشہ ’’ لات و عزیٰ‘‘ کا شکر گزار رہنا اور اے معاویہ اپنی آزادی میں اور خلافت میں عبد العزیٰ کے احسان کو فراموش مت کرنا۔ میں تجھ کو امت محمدؐ کا حاکم مقرر کررہا ہوں۔ تئجھ کو پورا اختیار ہے ان کے مال و دولت میں، ان کے جان و خون ، شریعت  و حلال و حرام میں، ان کے فرائض اور حقوق میں تو ہر سفید و سیاہ کا مالک مختار ہے۔ اس بات کا اچھی طرح خیال رکھنا کہ ظاہری طور پر تجھ کو انہیں کی طرح دین دار بن کر رہنا ہوگا اور پنہانی طور پر تجھ کو اپنے دین کو تقویت پہنچانی ہے۔ اس روش پر اگر تو کاربند رہے گا تو مسلمان تیری مدد کریں گے تو اپنے امور میں صاحب اختیار ہے، تیرا کوئی محاسبہ نہیں کرے گا ۔ ( مسلمانوں نے اگر معاویہ کی غیر اسلامی رفتار کی عمر سے شکایت کی تو جواب دیا کہ بھئی وہ قیصر اسلام ہے اور آزاد ہے )۔
میں نے بنی ہاشم کے درخشاں چہرے پر پردے چڑھادیئے ہیں۔ میں نے کوشش کی تھی کہ انہیں قتل کر ڈالوں اور اپنے بت پرستی کے دین کو بچالوں مگر حیدرؑ نے میری تدبیر اور حلیہ گری کو کامیابی سے ہمکنار نہ ہونےدیا۔ محمدؐ نے انہیں اپنا داماد قرار دیا اور فاطمہؑ زہرا کی ان کے ساتھ شادی ہوگئی۔ 
اور مسلمان انہیں سیدہ نساء کہتے ہیں۔ 
اب وہ بنی ہاشم کا چاند خاک کے دامن میں سورہا ہے اور میں نے علیؑ و فاطمہؑ و حسنؑ و حسینؑ و زینبؑ اور ام کلثوم اور فضہ پر زندگی تنگ کردی ہے۔ 
میرے ساتھ خالد بن ولید و قنفذ ( ابوبکر کا غلام ) اور ہمارے وفادار لوگ تھے۔ میں نے ان کے دروازے کو زبردست دھکا دیا تو کنیز فضہ نے ہمارے آنے کی وجہ دریافت کی۔ میں نے کہا کہ علیؑ سے کہنا کہ اب اپنے دل میں خلافت کی خواہش مت کریں۔ یہ خلافت ان کےلئے نہیں ہے۔ امرِ خلافت کومسلمانوں نے طے کرلیا ہے اور انہوں نے جس کو خلیفہ بنایا وہی صاحب امر ہوگیا ہے۔ انہوں نے اپنے اجماع کے ذریعے اپنا خلیفہ منتخب کرلیا ہے۔ 
 پروردگار لات و عزیٰ کی قسم اگر ابو بکر کے اوپر امر خلافت کو چھوڑ دیا جاتا تو پھر خلافت اور حکومت مل چکی ہوتی وہ بس میری کوشش اور چالاکی تھی کہ جو فرزند ابو کبشہ خلیفہ بن جانےمیں کامیاب ہوگیا ورنہ ابو بکر سے خلافت کا دور کا بھی تعلق نہ رہتا۔ میں نے اس کی طرح رخ بدلا اور آنکھیں کھولیں اور نزار و قحطان کی داڑھیوں سے کہا۔ تم کیا کہتے ہو۔ خلافت بس قریش ہی کا حق ہے اور جو لوگ اللہ کی اطاعت کرتے ہیں انہیں چاہئے کہ قریش کی اطاعت کریں اور یہ میں نے صرف اس لئے کیا کہ قریش کو علی بن ابی طالبؑ کی تلوار سے اسلامی لڑائیوں میں محمدؐ کی زندگی میں جو جانی نقصانات اٹھانا پڑے ہیں ان کی تلافی ہوجائے اور میں جانتا تھا کہ علیؑ اس وقت نہیں آئیں گے۔ وہ محمدؐ کے دفن کرنے میں مشغول ہیں اور دفن سے فرصت پائیں گے تو پھر انہیں رسولؐ خدا کے قرض کے اسّی(۸۰) ہزار درہم ادا کرنا ہوں گے پھر محمدؐ کے کئے گئے وعدوں کو پورا کریں گے۔ قرآن کی گرد آوری اور جمع کرلینے سے پہلے وہ اپنے گھر سے باہر قدم نہیں نکالیں گے۔ انصاراور مہاجرین تُو تُو میں میں کرنے میں لگے تھے میں نے ان سے کہا : کیا تم نہیں جانتے کہ حضرت رسول خداؐ نے فرمادیا ہے :
 ’’ امامت بس قریش ہی میں رہے گی‘‘
 تو انہوں نے جواب دیا کہ پھر حضرت علیؑ بن ابی طالبؑ امام ہیں اور رسول خداؐ نے اپنی امت سے ان کے واسطے بیعت بھی لے لی ہے اور ہم کو حکم دیا کہ انہیں امیر المومنینؑ کہہ کر سلام کریں اور چار مقامات پر حضرت علیؑ کی بیعت لی گئی ہے ۔ اب قریش یہ کہیں کہ انہیں یہ بات یاد نہیں رہی تو ہم گواہی دیتے ہیںکہ ہم کو یہ واقعات اچھی طرح یاد ہیں اور یہ بیعت و امامت و خلافت اور وصیت برحق ہے اور امر خدا ہے اور اس میں ادعا اور خواہش اور آرزو کا دخل نہیں ہے۔ 
 ہم نے انصار کو جھٹلا دیا۔ اور میں نےچالیس گواہ کھڑے کردیئے۔ انہوں نے محمدؐ کے برخلاف گواہی دی کہ امامت مسلمانوں کو اختیار ہے تو پھر انصار نے کہا : ہمارا حق قریش سے زیادہ ہے ‘‘ کیوں کہ ہم نے اسلام کو پناہ دی اور مدد کی ہے اور دوسرے لوگ ہجرت کرکے ہماری طرف آئے ہیں جب تم لوگ مستحق امامت اور خلافت کو محروم قرار دیتے ہو تو پھر اس امر کے تم لوگ خود حق دار نہیں ہوگے بلکہ ہم خلافت اور امامت کے مستحق ہیں اور لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ ایک امیر ہماری طرف سے اور ایک امیر تمہاری طرف سے ہو۔ میں نے ان سے کہا : دیکھو ابھی چالیس آدمیوں نے گواہی دی ہےکہ حضرت رسول خداؐ نے فرمایاُ: کہ امامت بس قریش کا ہی حق ہے۔ کچھ لوگوں نے اس بات کو قبول کرلیا اور کچھ نے انکار کیا اور جھگڑے کی صورت پیش آگئی۔ ({ FR 23 })
میں نے ان سے کہا : دیکھو ہم میں جو شخص بھی عمر کے لحاظ سے بڑا ہوا اور مہربان بھی بڑھ کر ہو بس اسی کی بیعت کرلو اور اپنی خلافت اس کے حوالے کردو۔ 
لوگوں نے سوال کیا: کہ تم کس کے بارےمیں یہ کہہ رہے ہو؟ میں نے کہا : اب وبکر اور میں نے دیکھا رسول خداؐ نے نماز میں اس کو آغے بـڑھا دیا تھا ( عمر نے قرآن کے خلاف بیان دیا ہے۔ سورۂ حجرات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ رسول خداؐ اور ید اللہؐ کے آگے نہ بڑھ جانا یہ عام حکم ہے۔ حضرت رسول خداؐ اور ید اللہ جہاں بھی ہوں کوئی مسلمان آنحضرتؐ کے آگے نہ آجھائے اور اگر کوئی بھولے سے اس گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا ایمان اور اسلام حبط ہوجائیں گے اور وہ کھرا کافر رہےگ ا) اور جنگ بدر میں میں بھی وہ حضور سرور عالمؑ کے پہلو میں بیٹھا تھا اور رسول خداؐ کو اپنا مشورہ دے رہا تھا اور غار میں بھی ساتھ تھا اور اس کی بیٹی عائشہ کو اپنی زوجہ بھی قرار دیا اور اس کو ام المومنینؑ کا خطاب دیا۔ 
ابو بکر کو خلیفہ بنا لیا اور بنی ہاشم کو ناراض کردیا۔ زبیر ان کا دست راست بنا ہوا تھا اور اس کی تلوار کا شرہ تھا اور یہ لوگ علیؑ کے بغیر بیعت کرنے والے نہیں تھے۔ زبیر اپنی تلوار سونت کر آگیا ۔ میں نے زبیر سے کہا تونے بنی ہاشم کی پشت پناہی کی قسم کھائی ہے اور تو ان کا حامی ہے۔ تیری والدہ صفیہ عبد المطلب ؑ کی بیٹی ہیں اس لئے تو ان کی حمایت کا دم بھرتا ہے۔ زبیر نے کہا: خدا کی قسم میرے واسطے یہ ایک فخر و مباہات اور شرف ہے۔ اور اے حنتمہ کے فرزند اور ضحاک کے بیٹے اور خاموش ہوجا تیرے ماں باپ کےلئے تو شرف کی کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے اس سے وہی بات کہی کہ سقیفہ میں جس پر چالیس آدمی گواہی دے چکے تھے اس نے ہمارے بات کو مسترد کردیا اور شیر کی طرح ہم پر جھپٹا ۔ ہمارے ساتھ سینکڑوں جواں مرد تھے مگر ہم زبیر کے ہاتھ سے تلوار نہ چھین سکے۔ ایک مرتبہ وہ غصے کی وجہ سے ٹھوکر کھا کر زمین پر گرگیا اور ہم اس پر گدھوں کی طرح ٹوٹ پڑے اور اس کے ہاتھ سے تلوار چھین لی اور ہم نے کسی کو اس کی مدد اور حمایت میں نہیں دیکھا۔ 
ہم اس کو گرفتار کرکے ابو بکر کے سامنےلے گئے ابوبکر نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ پھیر دیا اور ہم نے اعلان کردیا کہ زبیر نے ابو بکر کی بیعت کرلی ہے۔ اب ہم نے کہا کہ جو شخص ہماری بیعت کرے گا ۔ وہ زندہ رہے گا۔ اور جس نے ہماری بیعت سے انکار کیا وہ قتل کردیا جائے گا۔ پھر لوگ از خود بڑھ بڑھ کر ابوبکر کی بیعت کرتے ۔ بنی ہاشم کی نخوت نے انہیں بیعت کرنے سے باز رکھا۔ 
میں نے ابوبکر کا ہاتھ پکڑا اور اس کو منبر رسولؐ پر چڑھا دیا۔ اس کا ذہنی توازن بگڑ گیا اور منبر پر جاکر الٹی سیدھی باتیں کرنے لگا اور مجھ سے کہا اے ابو حفصہ مجھ کو ڈر ہے کہ علیؑ کہیں آجائیں اور مجھ کو منبر سے اتاردیں۔ 
میں نے کہا : علیؑ کی طرف سے بے فکر ہو جا اور اس بارے میں ابو عبیدہ بن جراح نے میری مدد کی اور میں ابو بکر کی ہمت بڑھاتا رہا ۔ وہ منبر پر کھڑا ہوا تو لگ رہا تھا کہ مدہوش ہے اور اس کو دین و دنیا کی کچھ خبر نہیں ہے۔ میں نے کہا : ابو بکر خطبہ پڑھ ، وہ ہکلا کر بولا زبان میں لکنت تھی اور آنکھیں بند تھیں۔ میں نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور کہا کچھ تو بول تو میری تمام محنت کو اکارت کررہا ہے۔ وہ پھر بھی کچھ نہیں بولا۔ اب میں نے چاہا کہ دھکا دے کر اس کو منبر سے گرادوں اور خود اس کی جگہ کھڑا ہوجاؤں۔ پھر میں نے سوچا کہ ابھی تو لوگوں کو اس کی شان میں جھوٹی حدیثیں گڑھ گڑھ کر سنائی ہیں۔ وہ سب مجھ کو جھٹلانے لگیں گے اور عین اسی وقت اکثر لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ تو تو بڑی ڈینگیں مار رہا تھا اور اس کے فضائل بیان کررہا تھا۔ جب کہ ہم نے حضرت رسولؐ خدا کی زبانی اس کی شان اور فضل میں ایک لفظ بھی نہیں سنا ہے۔ ان لوگوں سےمیں نے کہا : میں نے جو کچھ بھی ابوبکر کے بارےمیں کہا ہے وہ حضرت رسولؐ خدا کی زبان سنا تھا اور میں نے ابو بکر سے کہا مٹھو میاں بولو کچھ تو بولو! ورنہ نیچے آجاؤ اور میں نے یہ طے کرلیا تھا کہ کچھ بھی ہو میں فوراً منبر پر پہنچ جاؤں گا۔ اب ابوبکر اپنی مری اور دبی آواز میں بولا:
تم نے ایسے شخص کو اپنا ولی بنایا ہے کہ جو تم سے بہتر نہیں ہے جبکہ علیؑ تمہارے درمیان موجود ہیں۔({ FR 29 })
ابوبکر نے آگے کہا : واعلموا ان لی شیطاناً یعرینی وما ارابہ سوای ۔ فاء ذاذللت فقو مونی ۔ لا اقع فی شعورکم و ابشارکم واستغفر اللہ لی ولکم۔
میں اعلان کرتا ہوں کہ مجھ پر ہمیشہ شیطان سوار رہتا ہے اور وہ مجھ کو بری طرح پچھاڑ دیا کرتا ہے۔ اس کا چاہا کچھ اور ہوتا ہے اور میری خواہش کچھ اور ہوتی ہے۔ اگر میں ٹھوکریں کھاؤں تو تم لوگ مجھ کو سیدھا کردینا اور میری غلطی کا تمہارے شعور اور ذہن میں فتور نہ ہو اور تمہارے جسم پر بھی اس کا اثر نہ ہو۔ میں اپنے واسطے اور تمہارے تئیں بھی اللہ سے مغفرت چاہتا ہوں‘‘۔
 ابوبکر یہ کہہ کر منبر سے نیچے آگئے۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور تمام لوگ یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ وہ ایک جگہ بیٹھ گئے اور میں نے لوگوں کو بیعت کرنےکےلئے ان کی طرف اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے دیکھا۔ 
اور جو بیعت سے انکار کرتا میں اس کو ڈرا دھمکا کر بیعت کرنے پر مجبور کرتا۔ لوگ کہتے کہ تم تو حضرت علی ابن ابی طالب کی بیعت کرچکے ہو تو میں انہیں جواب دیتا ہم نے اپنی بیعت کو واپس لے لیا ہے اور اب مسلمانوں کی اکثریت کی اطاعت ہے اور بہت ہی کم لوگ ہیں کہ جو اس اکثریت کے فیصلہ کی مخالفت میں آواز اٹھا رہےہیں۔ علیؑ بھی یہی چاہتے ہیں کہ تم ابو بکر کی بیعت کرکے اکثریت کی بات کو قبول کرو اسی لئے تو وہ اپنے گھر میں گوشہ نشین ہیں۔ اب لوگوں نے اپنی کراہت کے ساتھ ابو بکر کی بیعت کرنا شروع کردیا۔ 
جب ابو بکر کی بیعت ہوگئی تو ہم کو خبر ہوئی کہ علیؑ حضرت فاطمہؑ کو سوار کرکے حسنؑ اور حسینؑ کو ساتھ لے کر مدینہ رسولؐ میں مقیم انصار اور مہاجرین کے گھر جاتے ہیں اور وہ انہیں یاد دلاتے ہیں کہ مسلمانوں نے حضرت رسول خداؐ کے حکم سے چار جگہ پرچار مرتبہ ان کی بیعت کی ہے۔ وہ مسلمانوں کو ہماری حکومت اور خلافت سے متنفر کرتے اور حکومت کے خلاف انہیں ورغلاتے۔ لوگ رات میں ان سے وعدہ کرلیا کرتے کہ ہم ضرور آپ کی مدد اور نصرت کریں گے اور دن میں گھر سے باہر نہ نکلتے اور گھر ہی میں بیٹھ رہتے ۔ 
اب میں ایک روز اپنے لوگوں کو ساتھ لے  کر ان کے گھر کے دروازہ پر پہنچ گیا اور ان کی کنیز فضہ سے کہا کہ علیؑ سے کہو کہ بیعت کرنے کےلئے گھر سے باہر آئیں: ابو بکر کی تمام مسلمانوں نے بیعت کرلی ہے۔ فضہ جواب لائیں کہ حضرت امیر المومنینؑ مشغول ہیں۔ میں نے کہا فضۃ اس بات کو چھوڑ دو اور علیؑ سے کہو کہ اگر تم خود سے باہر نہیں آئے تو پھر ہم تمہیں زبردستی باہر لے آئیں گے۔ 
حضرت فاطمہ ؑ یہ سن کر دروازے پر آئیں اور انہوں نے فرمایا:
 ’’ ایا الضالون المکذبون ماذا تقولون‘‘۔
 اے گمراہو اور خدا اور رسول خداؐ کو جھٹلانے والو! کیا کہتے ہو۔ اور کیا چاہتے ہو؟
 میں نے کہا : اے فاطمہؑ! تو فاطمہؑ نے فرمایا۔ اے عمر! تو کیا چاہتا ہے؟ میں نے کہا : یہ آپ کے ابن عم کو کیا ہوا کہ وہ تمہارے ذریعے جواب دیتے ہیںا ور خود باہر نہیں آتے تو انہوں نے مجھ کو جواب دیا۔ اے شقی ازلی تیرے طغیانی اور سرکشی نے مجھ کو مجبور کیا ہے کہ میں تجھ سے ہم کلام ہوں اور کہا کہ یا حجت اور دلیل لے کر آ اور یہ سمجھ لے کر ہر گمراہ سرکش ہوتا ہے ۔ میں نے کہا : اے فاطمہؑ یہ باطل اور پرانے زمانے سے چلی آرہی عورتوں کی باتوں کو چھوڑ دو اور علیؑ سے کہو کہ باہر نکل آئیں۔ 
اب ان کا کوئی احترام باقی نہیںرہا ہے اور ان کا کوئی چاہنے والا بھی نہیں ملے گا۔ فاطمہؑ نے کہا کیا گروہ شیطان کے بل بوتے پر اے عمر تو ہم کو ڈرا دھمکارہا ہے؟ اور شیطانی گروہ ضعیف اور ناتواں ہے۔ میں نے کہا فاطمہؑ اگر علیؑ باہر نہیں آئے تو آگ اور لکڑیاں لے کر آؤں گا اور تمہیں جلا کر مار ڈالوںگا اور میں نے قنفذ کے ہاتھ سے تازیانہ لے لیا اور فاطمہ زہراؑ کو زدو کوب کیا اور خالد بن ولید سے کہا کہ اپنے لوگوں کو ساتھ لے جا اورلکڑیاں لے کر آؤ اور اس گھر کو آگ لگا دو۔ 
فاطمہؑ نے کہا : اے دشمنِ خدا و رسول خداؐ اور امیر المومنینؑ کے دشمن تجھ کی پھٹکار اور نفرین ہو تو اہل بیتؑ رسولؐ کو ستارہا ہے اور اللہ ہماری محبت کو اجرت رسالت قرار دیتا ہے۔ فاطمہؑ دروازہ کھولنے سے منع کررہی تھیں۔ میں نے ان کے ہاتھ پر زور سے تازیانہ ماردیا اور انہوں نے مجھ کو برا بھلا کہا۔ میں نے ان کے پہلو پر خوب تازیانے برسائے اور وہ گریہ و بکا آہ و فریاد کرتی رہیں۔ 
 میں نے کہا: وہ بھی تو یاد کرو کہ علیؑ کے ہاتھوں قریش کے صنادید کا قتل ہوا ہے اور علیؑ نے ہمارے آباؤ اجداد کو موت کے منہ میں بھیجا ہےا ور تیرے باپ کے جادو کے سامنے ہمیں سر جھکانا پڑ گیا تھا۔ میں نے دروازے کو لاتیں مار مار کر گرادیا اور لکڑیاں جلا کر اس کو آگ لگادی اور فاطمہ کو کیواڑ سے کچل دیا۔ اب فاطمہؑ نے فریاد کی۔ اور مجھ کو لگا کہ مدینہ ان کی مدد کےلئے امنڈ پڑے گا وہ فریاد کررہی تھیں۔ 
’’ اے بابا جان اے رسول خدا آپ کی بیٹی اور حبیبہ کے ساتھ عمر نے یہ سلوک کیا ہے آہ اے فضہ ! آکر مجھ کو سنبھالوں ۔ اس ظالم اور ستم گر نے میرے بچے کو شہید کردیا ہے۔ میں نے انہیں دیوار سے ٹکرا دیا اور ان کے کان سے گوشوارہ ٹوٹ کر زمین پر گر گیا۔ 
علیؑ بڑی تیزی کے ساتھ گھر سے باہر نکلے اور میں نے خالد اور قنفذ سے کہا کہ ہم بڑی مشکل میں پھنس گئے۔ اب دیکھو علیؑ گھر سے باہر نکل آئے ہیں اور یہ ہم سب کو ختم کرڈالیں گے۔ علیؑ نے فاطمہؑ سے کہا اے رحمت اللعالمین کی وارث اپنے بابا جان کی امت کے حق میں بددعا مت کرنا۔ تمہارے لبوں کے اشارے سے قیامت آجائے گی اور ان ستم گاروں کے ساتھ کچھ بے گناہ لوگ بھی مارے جائیں گے اور روئے زمین پر کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ اللہ کی بارگاہ میں آپ کے بابا جان کا ایک مقام ہے۔ آپ کا ایک مرتبہ ہے۔ حضرت نوحؑ نے بد دعا کرکے اہل زمین کو ہلاک کرادیا تھاآپ کے بابا جانؐ اور آپ حضرت نوحؑ سے افضل ہیں۔ قوم ہود بھی نہیں بچی۔ عاد کے لوگ بھی فنا کی آغوش میں چلے گئے اور اگر آپ کے لبوں کو اشارہ ہوا تو امت محمدؐ بھی باقی نہیں رہے گی ۔ حضرت صالحؑ کے ناقے کو شہید کرنےوالے بارہ ہزار قوم ہود کے لوگ مارے گئے تھے۔ حضرت علیؑ انہیں اندر گھر میں لے گئے اور ان کا بچہ قتل ہوگیا۔ حضرت محمدؐ نےا س بچے کا نام محسنؑ رکھا تھا۔ 
ہمارے بہت سے حامی وہاں جمع ہوگئےاور علیؑ کا کوئی حامی نظر نہیں آرہا تھا اور مجھ کو اپنی اکثریت سے تقویت ہورہی تھی۔ ہم نے علیؑ کو گھیر لیا اور ہم اپنے زور سے ان کو گھر سے باہر نکال لائے اور میں نے ان کے سامنے اپنی بیعت کو پیش کیا اور میں اپنی آگاہی اور یقین کے ساتھ یہ بھی بتائے دیتا ہوں اس بات میں کسی رطح کا شک و شبہہ نہیں ہے۔ اگر میں اور روئے زمین پر آباد تمام افراد بشر علیؑ کے خلاف جہاد کرتے تب بھی ہم لوگ علیؑ پر تسلط نہیں پاسکتے تھے۔ میں جانتاہوں کہ علیؑ اپنے کئے گئے عہد کے پابند ہیں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا ہے کہ وہ اپنی حفاظت اور اپنی جان و مال کے لئے تلوار نہیں اٹھائیں گے اور میں ان کے اللہ سے کئے ہوئے عہد کا پورا فائدہ اٹھا رہا تھا۔ ہم علیؑ کو ان کی مرضی کے بر خلاف سقیفہ بنی ساعدہ لے گئے۔ میں اور ابوبکر علیؑ کا مذاق اڑانے کےلئے کھڑے ہوگئے اس وقت علیؑ نے فرمایا: عمر کیا تو یہ چاہتا ہے کہ میں تیری ان برائیوں کو آشکار کردوں کہ جنہیں تو چھپائے ہے۔ 
 میں نے جواب دیا نہیں اے امیر المومنینؑ ۔ میں نے کہا : اے ابو الحسنؑ آپ ابوبکر کی بیعت کرچکے ہو۔ بس اپنی بیعت کا اعلان کردو۔ علیؑ نے اپنا ہاتھ نہیں بڑھایا اور اب میں علیؑ سے بیعت کا مطالبہ نہیںکرسکتا تھا کیونکہ مجھ کو ڈر تھا کہ کہیںعلیؑ یری اس برائی کو آشکار نہ کردیں کہ جس کو وہ پوشیدہ رکھے ہیںا ور ابو بکر بھی یہی چاہتے تھے کہ علیؑ کو اس حال میں نہ دیکھیں۔ 
 علیؑ سقیفہ سے واپس پلٹ رہے تھے اور واپسی پر حضرت رسول خداؐ کے روضۂ اقدس پر آئے اور وہاں بیٹھ گئے۔ 
 ابو بکر نے مجھ سے کہا : وائے ہو تجھ پر اے عمر تونے حضرت فاطمہؑ زہرا پر کیا کیا ستم ڈھائے ہیں۔ خدا قسم یہ خسران اور خسارے کا سبب ہوگا۔ میں نے کہا : ہمارے واسطے یہ بات بڑی ہے کہ جو بھی ہو وہ بیعت کرے اور جس بات کو مسلمان پسند نہ کریں میں اس پر اعتبار نہیںکرتا اور مسلمان اس بات کو پسند نہیں کریں گے کہ علیؑ پر مزید سختیاں کی جائیں۔ 
 ابو بکر نے کہا : پھر یہ تونے کیا کیا؟
میں نے کہا : لگتا ہے کہ وہ تمہارے بیعت کا اظہار کرنے جارہے ہیںا ور حضرت محمدؐ کی قبر پر وہ اعلان کریں گے ۔ وہ قبر رسولؐ پر قبلہ رو بیٹھے تھے اور قبر کی متی پر ہاتھ ٹیکے ہوئے تھے اور ان کے اطراف میں سلمان اور ابوذر و مقداد و عمار حذیفہ بن الیمان حلقہ باندھے ہوئے ہیں ہم ان کے رو بر کھڑے ہوگئے۔ میں نے ابوبکر سے کہا کہ جس طرح علیؑ قبر رسولؐ پر ہاتھ ٹیکے بیٹھےہیں تم بھی اسی طرح بیٹھ جاؤ۔ ابوبکر نے ایسا ہی کیا اور میں نے ابو بکر کا ہاتھ پکڑ کر حضرت علیؑ کے ہاتھ پر رکھ دیا اور اعلان کردیا کہ بیعت ہوگئی۔ حضرت علیؑ نے اپنا دست ید اللٰہی بند کرلیا۔ اس کے بعد میں اور ابو بکر کھڑے ہوگئے اور میں نے کہا ۔ خدا علیؑ کو جزائے خیر دے۔ دیکھو قبر رسولؐ پر پہنچتے ہی تمہارے بیعت سے انکار نہیں کیا۔ اسی وقت ابوذر نے زور سے کہا: 
خدا کی قسم حضرت علیؑ کبھی آزاد کردہ آدمی کی بیعت نہیںکریں گے۔ 
 ہم جس آدمی اور جماعت سے ملاقات کرتے ہیں انہیں بتادیتے کہ علیؑ نے بیعت کرلی ہے اور ابوذر فوراً ہم کو جھوٹا قرار دیتے۔ خدا کی قسم علیؑ نے نہ ابو بکر کی بیعت کی اور نہ ہی میری بیعت کی اور میرے بعد جو بھی خلیفہ ہوگا علیؑ اس کی بھی بیعت نہیں کریں گے اور ان کے بارہ اصحاب نے بھی ہماری بیعت نہیں کی۔ 
اور علیؑ نے جو کچھ تیرے آباؤ اجداد اور خاندان والوں کے حق میں کیا ہے معاویہ تو اچھی طرح جانتا ہے۔ معاویہ تو خود جانتا ہے کہ تیرے والد ابو سفیان اور تیرے بھائی حنظلہ و عتبہ نے محمدؐ کے جھٹلانے میں کیا کچھ نہیں کیا۔ ان کا مکر، مکے میں بھی چھا گیا اور مکے پر ان کا تسلط ہوگیا اور جب وہ مکے سے مدینہ آرہے تھے تو حرا پہاڑ کی چوٹی سے میں نے ان کے قتل کرنے کی تدبیر کی۔ ہم نے گروہ کو جمع کیا اور سب نے ان کے خلاف جنگ کی۔ 
 اور تمہارے باپ ابو سفیان کو اونٹ پر سوار کیا اور کفار قریش کے احزاب و گروہوں کی وہ قیامت کرتے رہے اور محمدؐ کا یہ قول:
 لعن اللہ الراکب والقائد والسایق 
خدا کی لعنت ہو اس راکب و قائد اور سائق پر
اور اے معاویہ وہ راکب تیرا باپ ابوسفیان اور قائد تیرا بھائی عتبہ اور سائق تو خود ہے۔ 
 تیری ماں ہندہ نے کبھی آرام نہیں پایا اور اس نے اپنے غلام وحشی کو اپنا سب کچھ دے دیا اور اس نے حمزہؑ کے ساتھ کیا کیا۔ حمزہ ؑ کو روئے زمین پر اللہ کا شیر کہا جاتا تھا۔ وحشی نے ایک نیزے سے ان کا کام تمام کردیا اور ان کا جگر اور دل ان کے پیکر سے نکا ل کر تیری ماں ہندہ کو پیش کیا۔ ہندہ نے اس جگر کو چبایا مگر اس کو وہ نگل نہیں سکی کیوں کہ محمدؐ نے اپنے جادو سے اس کا منہ باندھ دیا تھا۔ محمدؐ اور ان کے ساتھیوں نے تیری ماں کو ’’ ہندی جگر خوارہ‘‘ کہنا شروع کردیا۔ 
نحن بنات طارق نمشی علی النمارق
کلدرنی المخالق والمسک فی المفارق
ان یقبلوا نعانق او یدبرو انفارق
فراق غیر وامق
ابو سفیان کے لشکر میں عورتوں کا زرد لباس تھا ان کے چہرے سینے اور سر برہنہ تھے اور وہ اپنے سپاہیوں کو محمدؐ کے خلاف مبارزے اور پیکار کےلئے اکسا رہی تھیں اور قتل ہوکر مرجانے پر انہیں رغبت دلارہی تھیں۔ اس بات کو ہرگز مت بھولنا کہ تم اپنی مرضی اور خوشی سے مسلمان نہیں ہوئے ہو۔ فتح مکہ کے روز بادل نا خواستہ تم لوگ مسلمان ہوئے۔ تمہیں زندہ چھوڑ دیا گیا اور تاریخ میںتمہارا نام طلقا ہوگیا۔ 
تیرے باپ نے اپنے دل میں یہ آرزو کی تھی اور خود بخود اس نے کہا : خداکی قسم اے ابو کبشہ کے فرزند میں ایک روز تمہارے خلاف سواروں اور پیادوں کے ساتھ جنگ کروں گا اور اپنے سب دشمنوں کا نابود کردوں گا اور محمدؐ نے اپنے لوگوں کے سامنے اس بات کا اعلان کردیا کہ وہ ابو سفیان کے دل کی بات سے آگاہ ہیں اور انہوں نے تیرے باپ سے کہا : اے ابو سفیان اللہ تیرے شر سے بچانے کےلئے کافی ہے۔ وہ اس روز لوگوں کو یہ دکھا رہے تھے کہ ان سے اور علیؑ سے اور ان کے اہل بیتؑ سے کوئی اونچا اور سر بلند نہیں ہے اور وہ سب سے افضل ہیں۔ 
 ان کا جادوباطل ہوگیا۔ ان کی کوشش کو میں نے بے کار بنا دیا ور ابوبکر کو سب سے بلند کر دکھایا اور ابو بکر کے بعد اسی بلندی پر میں نے اپنے قدم رکھ دیئے۔ اور اب میری آرزو ، تمنا اور خواہش ہے کہ گروہ بنی امیہ کا تمام عالم اسلام پر قبضہ اور تسلط رہے۔ اسی لئے میں نے تجھ کو شام کا والی قرار دیا اور تیری گردن میں اسلامی ملک کا قلادہ ڈٓل دیا ہے اور اس کو تیرے واسطے قرار دیا اور تمہارے بارے میں ، میں نے اس شعر کی بھی پرواہ نہیں کی کہ جس کو محمدؐ نے کہا تھا کہ ان پر یہ وحی نازل ہوئی ہے:
 والشجرۃ الملعونۃ فی القرآن ( اسراء ص ۶)
 قرآن مجید بنی امیہ کو شجرۂ ملعونہ اعلان کرتا ہے ۔ سب مسلمان اس بات کو مانتے ہیں کہ ’’ قرآن میں شجرۂ ملعونہ بنی امیہ‘‘ ہیں۔ اب اس بات سے محمدؐ سے تمہاری دشمنی آشکار ہے۔ تم ہر حال میں شجرۂ ملعونہ رہو گے۔ بنی ہاشم اور بنی عبد الشمس میں دشمنی پرانی ہے اور اب یہ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ 
 میری نصیحت ، وصیت ، حمایت اور پیار و محبت بس تیرے واسطے ہے۔ اے معاویہ اب تو اپنے دل کو تنگ مت کر اور تو اپنی رطف سے زیادہ حلم اور بردباری کی نمائش کرتا رہ۔ میری وصیت پر عمل کرنے میں جلد بازی مت کرنا اور حلم سے کام لینا میں تجھ کو زیادہ سے زیاہد طاقت ور بنادوں گا اور شریعت محمدؐ کا تجھ کو حاکم اور والی بنا کر چھوڑ دوں گا۔ امت محمدؐ تیری خلافت کو دل و جال سے قبول کرے گی۔ اگر تو مسلمانوں کو ڈرادھمکا کر اپنا بنانے کی کوشش کرے گا تو خود ہلاک ہوجائے گا اگر تو اپنی سر بلندی چاہتا ہے تو مسلمانوں کا احترام کرتے رہنا اور اپنی ذات کو تواضع اور انکساری صورت میں ہی ظاہر کرنا۔ 
اور جب تو مسجد محمدؐ میں جائے تو اپنی طرف سے بے حد احترام کرنا اور شریعت محمدؐ پر ظاہر میں پوری طرح عمل کرنا اور تو اپنی رعیت میں اپنی سخاوت اور حلم کی داستانوں کو رواج دینا اس طرح ہر مسلمان کےلئے تیری بخشش عام رہے ۔ حدود کے قائم کرنے میں کسی طر۵ح کی کوتاہی مت کرنا۔ ہاں اپنے مخالفوں کو کمزور بنا دینے میں کسی طرح کا تساہل سستی مت کرنا۔ لوگوں کے سامنے محمدؐ اور ان کی شریعت اور قرآن کی پوری طرح تصدیق کرنا اور فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی مت کرنا۔ سنت محمدیؐ میں تبدیلی مت کرنا۔ اگر تونے سنت محمدیؐ میں تبدیلی کی تو امت ہمارے خالف ہوجائے گی۔ انہیں ان کے ہی ہاتھوں سے قتل کرنا۔ ان سے ان کی پناہ گاہوں کو سلب کردینا، انہیں کی تلوار اور انہیں کا سر ہو۔ اپنی طرف سے ہمیشہ ان پر مہربانی اور کرم کرنا۔ ان کے حق میں کنجوسی مت کرنا۔ انہٰں ان کی قوم کے چودھری کے ذریعے قتل کرنا، ان کے قتل میں تیرا ہاتھ نمایاں نہ ہو۔ تیرا چہرہ ہمیشہ شاد اور بشاش رہے۔ اپنے دربار میں لوگوں کا کھلے دل سے استقبال کرنا، کبھی اپنے غیظ و غضب کو ظاہر مرت ہونے دینا۔ اگر وہ کوئی غلطی کریں تو انہیں معاف کرنا۔ اس طرح وہ تجھ پر واری اور صدقے ہونے لگیں گے اور تیری اطاعت کا دم بھریں گے۔ 
 علیؑ اور ان کے فرزندوں حسنؑ اور حسینؑ کی مخالفت سے کبھی مطمئن ہوکر مت بیٹھ جانا ۔ اگر امت کی تجھ کو حمایت حاصل ہوجائے تو پھر جو تو چاہتا ہے اس کو کر گزرنا اور کبھی چھوٹی باتوں کو اہمیت مت دینا اور بڑے امور سے غافل مت رہنا۔ ہمیشہ میری وصیت کو یاد رکھنا اور میرے عہد و میثاق کو فراموش مت کرنا۔ ان امور کو ہمیشہ پنہاں رکھنا۔ میرے اوامر اور فرامین پر عمل کرتے رہنا اور جن باتوں سے میں نے منع کیا ہے تو بھولے سے بھی ان کے قریب مت پھٹکنا۔ میری اطاعت کے لئے کھڑے ہوجانا اور میری مخالفت سے پرہیز کرنا اور اپنے اسلاف کے راستے ہی پر چلتے رہنا۔ اپنے خونوں کو طلب کرنا اور ان کی روش اور نشانات کو ڈھونڈھ نکال یہ تیرا ہی کام ہے اور میرا فرمان ہے۔ میں نے اپنا باطن اور ظاہر تیرے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے اور یاد رکھنا میرے اس خط کو ہمیشہ راز میں رکھنا اور میرے مرنے کے بعد اپنے کفن میں ساتھ لے جانے کی وصیت کردینا‘‘۔
 میں نے اپنی اولاد کو وصیت کردی ہے کہ وہ ہر حال میں تیرے ساتھ ہی رہیں اور اہل بیتؑ کی دشمنی میں وہ صبح اور شام بسر کریں۔ 
عبد اللہ بن عمر خطاب نئے اپنے باپ کا عہد نامہ پڑھنے کے بعد یزید لعین کے سر نجش کو بسہ دیا اور کہا : الحمد اے امیر الفاسقین ( لعین) تونے ہمارے مذہب کے خارجی اور خارجی کے بیٹے کو قتل کردیا۔ 
خدا کی قسم میرے ابا نے جو کچھ تمہارے ابا میاں کو بتایا ہے وہ مجھ کو نہیں بتایا تھا کاش وہ مجھ کو ان باتوں سے آگاہ  کردیتے۔ انہوں نے مجھ سے یہ تو کہا تھا کہ میں ہر حال میں تیرے باپ معاویہ کے ساتھ رہوں اور میں ہمیشہ اس کے ساتھ رہا ہوں اب میں عہد کرتا ہوں کہ میں اولاد محمدؐ سے میں جس کو بھی دیکھوں گا ہمیشہ ان سے اپنی دشمنی کا اظہار کروں گا اور کبھی کسی سے خوش نہیں ہوں گا۔ یزید پلید نےعبد اللہ بن عمر خطاب کو اپنے انعامات اور اکرامات سے نواز کر مدینے واپس بھیج دیا۔ لوگوں نے عبد اللہ بن عمر سے پوچھا کہ امیر الفاسقین نے تمہیں کیا بتایا؟ تو انہوں نے کہا : ایک حق با بتائی ہے اور اب میری میری آرزو ہے اے کاش میں خود بھی اس معرکے میں ان کے شانہ بہ شانہ ہوتا اور جس نے بھی عبد اللہ بن عمر خطاب سے اس بارے میں کوئی سوال کیا تو وہ یہی جواب دیتے اے کاش میں خود اس معرکے میں میں یزید پلید کے ساتھ ہوتا۔ یزید نے اسی طرح کا ایک عہد نامہ عثمان بن عفان کا بھی عبد اللہ بن عمر کو دکھایا۔ یہ عہد نامہ عمر خطاب کے عہد نامے سے بھی بڑھ کر توہین آمیز تھا۔ ( بحار ، جلد ۸، ص۲۲۹۔۲۳۳۔ طبع کمپانی)
کتابی حوالے
از فعلت فلاتلم صفحہ ۲۵۵، یوم الغدیر و از حوالہ علامہ مجلسی جنوہں نے تاریخ الجامع بلاذری ۱۰۰ھ سے لکھا ہے اور اسی واقعے کو صاحب سللہ تالیفات صابریہ کی دوسری کتاب ’’ثبوت خلافت‘‘ جلد دوئم کے صفحہ ۱۰۲ پر بھی لکھا ہے جو ۱۳۴۴ھ؁ میں ڈاکٹر نور نے شائع کیا اور صاحب انوار انعمانیہ نے بھی اس خفیہ عہد نامہ کو بلاذری کی تاریخ سے نقل کیا ہے اور تنزیہ الانساب حصہ ثانیہ صفحہ ۷۱، ۷۲ پر بھی خط موجود ہے۔