جمعہ، 16 اگست، 2013

حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا کے القاب اور ان کے اسباب

سید محمد حسنین باقری
حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا کے القاب اور ان کے اسباب
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا وہ ذات گرامی ہیں جو اگر ایک طرف اولین و آخرین کی عورتوں کی سردار ہیں() تو دوسری طرف ائمہ معصومین ؑ پر اللہ کی حجت ہیں()۔ایسی بابرکت ذات گرامی کی معرفت یقینا طاقت بشری سے باہر ہے۔شہزادیٔ دوعالم ؑ کے مقام و مرتبہ اور فضیلت کا ایک پہلو آپؑ کے اسماء و القاب بھی ہیں جن کو سامنے رکھ کر اگر ایک طرف ہم اس ذات گرامی کی عظمت کا احساس کر سکتے ہیں تو دوسری طرف یہ اسماء و القاب ہمارے لیے نمونۂ عمل ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سے پیغامات بھی رکھتے ہیں، ہماری اصل گفتگو گرچہ صرف القاب سے ہے لیکن ابتدا میں اسماء کی طرف بھی ایک اشارہ کیا جارہا ہے۔قابل ذکر ہے کہ شہزادیٔ دوعالمؑ کے القاب بہت زیادہ بیان ہوئے ہیں نیز ان کے اسباب کے سلسلے میں بھی بہت کچھ روایات و اقوال علماء میں بیان کیا گیا ہے لیکن طوالت سے بچنے کے لیے صرف اشارہ پر اکتفا کی جارہی ہے۔یہ بات بھی بیان کر دی جائے کہ اس عنوان  پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ،جس میں ایک کتاب میرے سامنے ہے جو خاص اسی موضوع پر لکھی گئی جسے حجۃ الاسلام علی رضا سبحانی نے ’پژوھشی در نام ھا و القاب ہای حضرت زھرا سلام اللہ علیھا‘ کے نا م سے تحریر فرمایا ہے جس کا اردو ترجمہ بھی حجۃ الاسلا م مولانا سلیم علوی صاحب کے قلم سے منظر عام پر آچکا ہے۔اور اس مضمون میں زیادہ اسی کتاب سے استفادہ کیا گیا ہے۔
حضرت زہراسلام اللہ علیھا کے اسمائے گرامی:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے جدہ ماجدہ کے ناموں کے سلسلے میںفرماتے ہیں:
’’ لفاطمۃ تسعۃ اسمائٍ عند اللہ عزوجل : فاطمۃ، والصدیقۃ والمبارکۃ  والطاہرۃ والزکیۃ والرضیۃ والمرضیۃ والمحدثۃ والزہرائ‘‘ (بحار الانوار ، جلد ۴۳ ، صفحہ ۱۰، از املی شیخ صدوق و علل والشرائع)
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے خداوند عالم کے نزدیک ۹ نام ہیں: فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، راضیہ، مرضیہ، محدثہ، زہرا۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے القاب اور ان کے اسباب
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے القابات کے سلسلے میں قابل غور ہے کہ علماء و تذکرہ نگاروں نے عظمت و جلالت اور مقام و مرتبہ کی حامل ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ القابات بیان کیے ہیں ،تمام القاب کو بیان کرنے کے لیے مکمل کتاب کی ضرورت ہے ،اختصار کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ذیل میں کچھ القابات اور ان کے اسباب کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:
(۱) انسیہ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا عورتوں کے ساتھ ساتھ بعض جہات سے مردوں کے لیے بھی نمونۂ عمل ہیں،یعنی آپ کی ذات نوع انسانی کے لیے نمونہ عمل ہے اور آپ کی ذات مبارک میں تمام انسانی کمالات و نیک صفات پائی جاتی تھیں۔ اسی وجہ سے آپ کا ایک لقب انسیہ ہے۔
حضرت پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں:
’’ ففاطمۃ حوراء ’’انسیۃ‘‘فاذا اشتقت الی الجنۃ شممت رائحۃ فاطمۃ ‘‘
فاطمہ سلام اللہ علیہا انسانی شکل میں ایک حور ہیں، میں جب بھی جنت کا مشتاق ہوتا ہوں تو فاطمہ کو سونگھ لیتا ہوں۔ ( بحار الانوار ، ج ۴۳، صفحہ ۵، از علل الشرائع)
پیغمبرؐ اکرم نے اسماء بنت عمیس سے فرمایا:
جب فاطمہ زہرا ؑ دوسری تمام عورتوں سے ممتاز تھیں جن میں ایک سبب یہ بھی تھا کہ  ’’ ان فاطمۃ خلقت حوریۃ فی صورۃٍ انسیۃ‘‘ فاطمہ زہرا ؑ  انسانی شکل میں حور تھیں۔ (بحار الانوار ، ج ۴۳، ص ۷، از کشف الغمہ)
(۲)بتول
حضرت زہرا ؑ کا ایک مشہور لقب بتول ہے ۔اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: پیغمبر اکرمؐ سے سوال کیا گیا کہ بتول کسے کہتے ہیں ؟
پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا:
 ’’البتول التی لم ترحمرۃ قط ، ای لم تحص فان الحیض مکروہ فی بنات الانبیائ‘‘
 بتول اس عورت کو کہتے ہیں جو مہینہ میں خون نہ دیکھے اور اسے کبھی حیض نہ آئے کیونکہ پیغمبرؐ کی بیٹیوں کو خون حیض آنا اچھا نہیں ہے۔ (بحار الانوار ، ج ۴۳، ص۱۵، از علل الشرائع و معانی الاخبار)
دوسری روایت میںپیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں:
’’سمیت فاطمۃ بتولاً لانھا تبتلت و تقطعت عما ھو معتاد العورات فی کل شھرٍ، ولا نھا ترجع کل لیلۃ بکراً و سمیت مریم بتولاً لانھا ولدت عیسیٰ بکراً‘‘
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو بتول کہا گیا کیونکہ آپ ماہانہ عادت سے پاک تھیں اور آپ ہر شب باکرہ رہتی تھیں، حضرت مریمؑ کو (بھی) بتول کہتے ہیں کیونکہ آپ کے یہاں باکرہ ہونے کی حالت میں جناب عیسیٰؑ کی ولادت ہوئی۔ ( فاطمہ الزہراؑ بہجۃ قلب مصطفیٰ ، ج ۱، ص ۱۵۸، از احقاق الحق، ج۱۰، ص ۲۵، نقل از علامہ کشفی حنفی مناقب مرتضویہ ، ص ۱۱۹)
(۳) تقیہ
حضرت فاطمہ زہراؑ تقویٰ و پرہیزگاری کے آخری درجہ پر فائز تھیں ،پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین ؑ کی طرح تقویٰ و پرہیزگاری میں آپ کی کوئی نظیر نہیں ہے۔اسی وجہ سے آپ کا ایک لقب تقیہ ہے۔
جیسا کہ زیارت کے جملات ہیں:
 ’’ السلام علی البتولۃ الطاہرۃ والصدیقۃ المعصومۃ البرۃ ’’ التقیۃ‘‘ سلیلۃ المصطفیٰ و علیلۃ المرتضیٰ و ام الائمۃ النجبائ۔۔۔۔۔۔‘‘
سلام ہو آپ پر اے ہر برائی سے پاک و پاکیزہ، سلام ہو آپ پر اے سچ بولنے والی گناہوں سے پاک اور متقی و پرہیزگار ، دختر پیغمبر اکرمؐ شریک حیات علی مرتضیٰ علیہ السلام اور باکرامت و عظیم الشان پیشواؤں کی ماں ۔ ( بحار الانوار ، ج۱۰۰ ، ص ۱۹۷، از مصباح الزائر)
 ’’السلام علیک ایتھا ’’ التقیۃ‘‘ النقیۃ‘‘
سلام ہو آپ پراے پاک دامن اور پرہیزگار خاتون ۔( بحار الانوار ج، ۱۰۰، ص ۱۹۹ ، از الاقبال ص ۱۰۰)
(۴)حبیبہ
حبیبہ یعنی دوست، آپ کا لقب حبیبہ اس لیے تھا کہ آپ پیغمبر خداؐ کی چہیتی تھیں،پیغمبر اکرمؐ کو حبیب اللہ کہتے ہیں کیونکہ خدا وند عالم اپنے پیغمبر ؐ کو دوست رکھتا تھا،’’ حبیبۃ حبیب اللہ‘‘یعنی پیغمبر اکرمؐ جنہیں خدا دوست رکھتا ہے وہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو دوست رکھتے تھے۔
امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: جس دن حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی وفات ہونے والی تھی اس دن انہوں نے ایک گوشہ کی طرف دیکھ کر کہا : آپ پر درود و سلام ہو، اس کے بعد مجھ سے کہا ، اے چچا زاد بھائی! جبرئیل درود و سلام پڑھتے ہوئے مجھ پر نازل ہوئے اور کہا:
’’ السلام یقرا علیک السلام یا حبیبۃ حبیب اللہ و ثمرۃ فوادہٖ‘‘
خدا آپ پر درود و سلام بھیجتا ہے اے پیغمبرؐ کی چہیتی بیٹی ، اور اے رسول خداؐ کے دل کی ٹھنڈک ، آج آپ کی روح عرش اعلیٰ کی طرف پرواز کرجائے گی، اس کے بعد مجھ سے دور ہوگئے۔ ( بحار الانوار ،ج۴۳،ص۲۰۷، از دلائل ، طبری)
 حضرت علی علیہ السلام اپنا تعارف کراتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’۔۔۔۔۔۔۔ انا زوج البتول سیدۃ النساء العالمین فاطمۃ التقیۃ الزکیۃ البرۃ المھدیۃ ’’حبیبۃ‘‘ حبیب اللہ و خیر بناتہ و سلالتہ و ریحانۃ رسول اللہ ۔۔۔۔‘‘
میں بتول کا شوہر ہوں جو عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں ، وہی فاطمہ سلام اللہ علیہا جو پاک دامن، نیکوکار، خدا کی طرف سے ہدایت شدہ ، جن سے حبیب خدا محبت کرتے ہیں اور جو پیغمبرؐ کی بہترین بیٹی اور ریحانہ پیغمبرؐ ہیں۔ (بحار الانوار ج۳۵، ص ۴۵ اسی طرح، ج ۳۳، ص ۲۸۳، از بشارۃ المصطفیٰ)
(۵) حرہ
حرہ یعنی آزاد عورت، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ایسی عظیم المرتبت خاتون ہیں جنہوں نے آزادی کے معنی بیان کئے اور اس راہ میںاپنی جان قربان کردی اور دنیا و ما فیھا سے آزاد ہوکر اپنے خالق سے لو لگانے کے حقیقی مفہوم کو اپنی عملی زندگی میں پیش کیا۔
جناب سلمان فارسیؒ بیان کرتے ہیں : جب پیغمبرؐ اکرمؐ کی وفات ہوئی تو وہ دونوں(خلیفہ اول و دوم ) حضرت علی علیہ السلام کے دروازہ پر آئے ، حضرت علی علیہ السلام نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے پاس آکر کہا:
’’ایتھا ’’الحرۃ ‘‘ فلانٌ و فلانٌ بالباب، یرید انِ ان یسلما علیک فما ترین؟‘‘
اے آزاد خاتون! وہ دونوں دروازہ پر ہیں، وہ آپ کو سلام عرض کرنا چاہتے ہیں، آپ کیا کہتی ہیں؟
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے (دونوں سے ناراض ہونے اور اپنی ناراضگی کے صریحی اظہار کرنے کے با وجود )فرمایا :
’’ البیت بیتک والحرۃ زوجتک افعل ماتشائ‘‘
 یہ آپ کا گھر ہے اور یہ آزاد خاتون آپ کی ہی زوجہ ہے آپ جو چاہے کیجئے۔ (بحار الانوار ، ج ۴۳، ص ۱۹۷، از کتاب سلیم بن قیس)
(۶) حوراء
حورا یعنی خوبصورت عورت، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی خلقت جنت سے ہوئی، اس وجہ سے آپ حور صفت تھیں۔ نیز آپ کا ایک لقب حوراء ہے یعنی وہ خاتون جو حوروں کی طرح خوبصورت ہو۔
پیغمبر اسلامؐ فرماتے ہیں:
’’ ففاطمۃ ’’حورائ‘‘ انسیۃ فاذا اشتقت الی الجنۃ شممت رائحۃ فاطمۃؑ‘‘
 میں جب بھی جنت کا مشتاق ہوتا ہوں تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو سونگھ لیتا ہوں۔ حضرت فاطمہ زہراؑ سے جنت کی خوشبو آتی ہے درحقیقت وہ انسانی شکل میں ایک حور ہیں۔ (بحار الانوار ، ج ۴۳، ص ۵، از علل الشرائع)
پیغمبر اکرمؐ فرماتے  ہیں:
’’ابنتی فاطمۃ ’’حورائ‘‘ آدمیۃ‘‘
 میری بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا انسانی شکل میں ایک حور ہے۔ (۲ فاطمۃ الزہراء بہجت قلب مصطفیٰ ، ج۱، ص ۱۸۲، از ذصوائق محرقہ ص ۵۶، اسعاف الراغبین ، ص ۱۷۲، نقل از نسائی)
(۷)حوریہ
 حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی خلقت جنت کے میووں سے ہوئی، اس وجہ سے آپ میں حوروں کے صفات بھی موجود ہیں اس لئے آپ کو حوریہ کہتے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا حور صفت ہیں ان کے جسم مبارک سے جنت کی خوشبو آتی تھی۔ اور حوروںکی طرح ہمیشہ باکرہ تھیں اور آپ کو خون حیض یا نفاس نہیں آتا تھا۔
جناب سلمان فارسیؑ بیان کرتے ہیں:
 میں پیغمبر اکرمؐ کے مبارک ہاتھوں پر پانی ڈال رہا تھا کہ حضرت فاطمہ زہراؑ گریہ کرتی ہوئی آئیں، حضرت پیغمبر اکرمؐ نے حضرت فاطمہ زہراؑ کے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا:
 ’’ مایبکیک؟ لا ابکی اللہ عینیک یا حوریۃ‘‘
 کیوں رورہی ہو؟ اے حوریہ! خداوند عالم تمہیں نہ رلائے۔
حضر ت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے کہا: میں قریش کی چند عورتوں کے قریب سے گزری تو وہ میرے اور حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نا زیبا باتیں کرنے لگیں ، پیغمبرؐ اکرم نے کہا: تم نے کیا سنا؟ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے کہا: کہہ رہی تھیں : محمد کو کیا ہوگیا ہے کہ اپنی بیٹی کا عقد قریش کے ایک فقیر آدمی سے کردیا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا:
بیٹی! خدا کی قسم میں نے علی علیہ السلام کو تمہارا شوہر قرار نہیں دیا بلکہ خدا نے تمہارا عقد حضرت علیؑ سے کیا ہے۔ (بحار الانوار ، ج۴۳، ص ۱۴۹و۷، از فضائل شہر رمضان)
(۸)راکعہ
جو خاتون بارگاہ خدا میں رکوع کرتی ہے اسے راکعہ کہتے ہیں۔حضرت زہرا علیھا السلام کا لقب راکعہ اس لیے قرار پایا کہ آپ بارگاہ الٰہی میں کثرت سے رکوع کرتی تھیں۔
حضرت امام حسن علیہ السلام نے فرمایا:
’’ رایت امی فاطمۃ قامت فی محرابھا لیلۃ جمعتھا فلم تزل’’راکعۃ‘‘ ساجدۃ حتیٰ اتضح عمود الصبح‘‘
ایک بار شب جمعہ میں نے مادر گرامی کو نماز میں مشغول دیکھا، آپ پئے در پئے رکوع و سجدہ بجالا رہی تھی، یہاں تک کہ صبح ہوگئی، آپ مسلسل مومن مرد و عورت کے نام لے رہی تھی اور ان کے لئے دعا کررہی تھیں لیکن آپ نے اپنے لئے بالکل دعا نہیں کی، میں نے مادر گرامی سے پوچھا، آپ اپنے لئے دعا کیوں نہیں کرتیں؟ فرمایا: یا بنیّ الجار ثم الدار‘‘ میرے بیٹے !پہلے پڑوسی کیلئے دعا کرنی چاہئے اس کے بعد اپنے لئے۔ (بحار الانوار ، ج ۴۳ ، ص ۸۱ ، از علل الشرائع)
(۹)رشیدہ
رشیدہ اس عورت کو کہتے ہیں جس کی خداوند عالم کی طرف سے ہدایت کی گئی ہو اور وہ راہ حق و صداقت میں ثابت قدم رہے اور دوسروں کی ہدایت کرے۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: حضرت پیغمبر اکرمؐ نے اپنی وفات سے کچھ دن پہلے مجھے بلا کر فرمایا:
اے علیؑ ! اور اے فاطمہؑ! یہ میرا حنوط ہے، اسے جبرئیل میرے لئے جنت سے لائے ہیں، جبرئیل تم پر درود و سلام بھیج رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہ حنوط اپنے لئے اور تمہارے لئے لے لوں اور اسے تقسیم کروں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے کہا: ایک تہائی آپ کے لئے اور باقی حنوط کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام جو کہیں، حضرت پیغمبر اسلامؐ نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو گریہ کرتے ہوئے سینے سے لگا کر فرمایا:
’’ موفقۃ ’’رشیدۃ‘‘ محدیۃ ملھمۃ‘‘
(تم وہ) کامیاب، رشیدہ ہو، جس کی خدا کی طرف سے ہدایت کی گئی ہے اور اس پر الہام ہوتا ہے، اس کے بعد فرمایا : اے علیؑ تم باقی حنوط کے بارے میں بیان کرو۔ حضرت علی علیہ السلام نے کہا: بچے ہوئے میں سے نصف حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کیلئے اور باقی نصف کے بارے میں آپ خود بیان فرمائیں۔ حضرت پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: باقی ماندہ حنوط تمہارے لئے ہے اس کی حفاظت کرنا ۔(بحار الانوار ، ج ۲۲، صفحہ ۴۹۲، اسی طرحج ۸۱ ص ۳۲۴، مصباح الانوار)
(۱۰) رضیہ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی رضا و خوشنودی مثال کے قابل ہے ، اس لئے آپ کی اس نیک صفت کے لئے چند لقب بیان ہوئے ہیں۔: ’’راضیہ‘‘ و’’ مرضیہ‘‘ و ’’رضیہ‘‘۔
 حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
حضرت پیغمبر اکرمؐ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر آئے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سخت اور موٹے کپڑے پہنے ہوئے ایک ہاتھ سے چکی چلارہی تھیں اور دوسرے ہاتھ سے فرزند کو لئے ہوئے دودھ پلارہی تھیں، یہ دیکھ کر حضورؐ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، فرمایا:
 ’’یا بنتاہ! تعجلی مرارۃ الدنیا بحلاوۃ الآخرۃ فقد انزل اللہ علی ’’ ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ‘‘
اے بیٹی! دنیا کی سختیوں کو آخرت کی شیرینی کے مقابلہ میں برداشت کرو ، کیوں کہ خداوند عالم نے مجھ پر آیت نازل کی ہے کہ : خداوند عالم تمہیں اتنا عطا کرے گا کہ تم راضی و خوش ہوجاؤ۔(مجمع البیان ج۱۰۔ ۶۴۴)
آپ کے زیارت نامہ میں پڑھتے ہیں:
 ’’السلام علیک ایتھا الرضیۃ المرضیۃ‘‘ سلام ہو آپ پر اے وہ خاتون جو تقدیر الٰہی پر راضی رہیں اور خداوند عالم بھی آپ سے راضی ہے۔ (بحار الانوار ، ج ۱۰۰، ص ۱۹۹، ، از اقبال ، ص ۱۰۰)
 (۱۱) ریحانہ
 ریحانہ لغت میں خوشبودار گھاس کو کہتے ہیں، البتہ شئے لطیف عورتوں کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرمؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہا فرمایا :
فاطمہ میری ریحانہ ہے، میں جب بھی جنت کا مشتاق ہوتا ہوں تو انہیں سونگھ لیتا ہوں، پس حضرت فاطمہ زہراؑ ایک خوشبو دار پھول تھیں جس سے ہمیشہ جنت کی خوشبو آتی تھی۔
 حضرت علی علیہ السلان نے بعض اوقات اپنا تعارف کراتے وقت بجائے اس کے کہ کہیں:
میں علی بن طالب ہوں، خود کو حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کے ذریعہ پہنچوایا، چنانچہ آپ نے فرمایا:
 ’’انا زوج البتول سیدۃ نساء العالمین‘‘ فاطمۃ التقیۃ  الزکیۃ البرۃ المھدیۃ حبیبۃ حبیب اللہ و خیر بناتہ و سلالتہٖ و ’’ریحانۃ‘‘ رسول اللہ ؐ‘‘
میں بتول کا شوہر ہوں جو عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں ۔ وہ پاک دامن ، نیکو کار خاتون ہیں، جن کی خدا کی طرف سے ہدایت کی گئی ہے۔ اور جو حبیب خدا کی چہیتی ہیں، جو حضور کی بہترین بیٹی اور ریحانہ پیغمبرؐ ہیں۔ (بحار الانوار ، ج ۳۵، ص ۴۵و ج ۳۳، ص ۲۸۳ ، از بشارۃ المصطفیٰ)
 حضرت علی علیہ السلام نے ابو بکر سے احتجاج کرتے ہوئے کہا :
میں وہ ہوں جسے پیغمبر ؐ نے منتخب فرمایا اور اپنی بیٹی کا مجھ سے عقد کیا اور فرمایا:
اے ابوبکر تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں یہ میرے لئے ہے یا تمہارے لئے ہے؟
ابو بکر نے جواب دیا: آپ کیلئے ہے۔ ( فاطمہ بہجت قلب مصطفی ، ج۱، ص ، ۱۱۹، از الاحتجاج ، ۱ص۱۷۱)
 اہل بیت کرامؑ بھی اپنا تعارف کراتے وقت اکثر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نام کو وسیلہ بناتے تھے۔
(۱۲) زُہرہ
زہرہ،ایک ستارہ ہے جو سورج سے دس کروڑ آٹھ لاکھ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے، اس کی روشنی بہت شدید ہے، یہ بعض اوقات صبح اور بعض اوقات شب میں ظاہر ہوتا ہے، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا نور بھی چونکہ اہل بیتؑ میں اسی طرح ہے لہٰذا آپ زہرۂ اہل بیتؑ پیغمبرؐ  کے لقب سے مشہو رہیں۔
جابر بیان کرتے ہیں: ایک دن ہم نے نماز صبح پیغمبر اکرمؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پڑھی ، اس کے بعد آپ نے خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے ہماری طرف رخ کرکے فرمایا:
 اے لوگو! جو شخص سورج سے محروم ہوجائے اسے چاہئے کہ چاند سے متمسک ہو اور جو چاند سے محروم ہوجائے اسے چاہئے کہ دوستاروں کی پناہ میں آجائے، جابر کہتے ہیں : میں اور ابو ایوب انصاری اور انس بن مالک کھڑے ہوئے اور ہم نے عرض کیا: اے رسول اللہ  ؐ سورج کون ہے؟ رسول اللہؐ نے فرمایا: سورج میں ہوں۔ اس کے بعد ہمارے لئے مثال بیان کی اور فرمایا: خداوند عالم نے ہمیں پیدا کیا اور ستاروں کی جگہ قرار دیا ، جب کوئی ستارہ غائب ہوجاتا ہے تو دوسرا روشن ہوجاتا ہے۔ میں سورج ہوں، جب بھی غائب ہو جاؤں تم چاند سے توسل کرنا ، ہم نے پوچھا: چاند کون ہے؟ فرمایا: میرے بھائی جانشین ، میرے دین کے حاکم، میرے فرزندوں کے والد اور میرے اہل بیتؑ کے نزدیک میرے خلیفہ ۔
ہم نے پوچھا :د و قطبی ستاروں ( فرقدین) سے مراد کون ہیں؟
 فرمایا: حسنؑ اور حسینؑ۔ اس کے بعد فرمایا: انہیں پہنچان لو۔ ’’ وفاطمۃ و ھی ’’الزھرۃ‘‘ عترتی و اھل بیتی ھم مع القرآن لا یفترقان حتیٰ یردا علی الحوض‘‘
اور فاطمہ سلام اللہ علیہا میرے اہل بیتؑ کا ’’زہرہ‘‘ ہیں ‘‘ یہ سب قرآن کے ساتھ ہیں اور ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملیں گے۔ (بحار الانوار ، ج ۲۴، ص ۷۵، از امالی شیخ طوسی)
(۱۳)ساجدہ
 جوخاتون بارگاہ خدا میں سجدہ ریز رہے اسے ساجدہ کہتے ہیں، حضرت فاطمہ زہر سلام اللہ علیہا بہت زیادہ عبادت کیا کرتی تھیں اور آپ نے کافی سجدے کئے یہاں تک کہ آپ نے ولادت کے چند لمحہ بعد بھی سجدہ کیا اور خدا کا شکر ادا کیا۔
حضرت خدیجہؑ بیان کرتی ہیں: فاطمہ زہراؑ جب میرے شکم میں تھیں تو مجھ سے محو سخن ہوتی تھیں۔ ’’ ولما ولدت فوقعت حین وقعت علی الارض’’ ساجدۃ‘‘ رافعۃ اصبعھا‘‘جب آپ کی ولادت ہوئی تو آپ زمین پر سجدہ کیا اور انگلیوں کو آسمان کی طرف بلند کیا۔ (فاطمہ بہجت قلب مصطفیٰ ، ج، ۱۸۳، از سیرۃ نبلا ، ذخائر العقبیٰ ، ص ۴۵ نزہۃ المجالس ، ج ۲، ص ۲۲۷)
(۱۴)سعیدہ
سعیدہ، خوش بخت اور سعادت مند خاتون کو کہتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام نے عائشہ کے گھر آکر کہا : اے فضہ ! پانی لاؤ میں وضو کروں گا۔ کسی نے آپ کا جواب نہیں دیا۔ آپ نے تین مرتبہ کہا مگر کسی نے جواب نہیں دیا ۔ ’’ فولی عن الباب یرید منزل الموفقۃ ’ السعیدۃ‘‘ الحوراء الانسیۃ فاطمہ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
حضرت علی علیہ السلام نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر کا قصد کیا، اچانک کسی نے آواز دی : اے ابو الحسن ! پانی آپ کے پہلو میں رکھا ہے اس سے وضو کرلیجئے۔ آپ جب متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ دائیں طرف ایک برتن میں پانی ہے، آپ نے وضو کیا اور برتن کو اسی جگہ رکھ دیا۔
پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علی علیہ السلام کے چہرے کی طرف دیکھ کر کہا : اے علیؑ ! کیسا پانی ہے کہ آپ کا چہرہ مروارید کی طرح چمک رہا ہے۔ ؟
 حضرت علی علیہ السلام نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ میں عائشہ کے گھر گیا اور فضہ کو تین بار آواز دی کہ پانی لائے تاکہ میں وضو کروں، مگر کسی نے جواب نہیں دیا۔ میں نے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر جانے کا ارادہ کیا کہ ایک ہاتف غیبی کی آواز آئی۔ اے علیؑ ! آپ کے پہلو میں پانی ہے وضو کرلیجئے جب نگاہ کی تو دیکھا کہ ایک برتن میں پانی رکھا ہے۔
پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: اے علیؑ! جانتے ہو وہ کس کی آواز تھی اور یہ پانی کہاں سے آیا تھا؟
 حضرت علی علیہ السلام نے کہا: خدا اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔
 پیغمبرؐ اکرمؐ نے فرمایا: وہ منادی میرے دوست جبرئیل تھے اور وہ برتن جنت کے پانی سے بھرا ہوا تھا۔ اس میں ایک تہائی پانی مشرق سے اور ایک تہائی پانی مغرب سے اور ایک تہائی پانی جنت کا تھا۔۔۔۔حضرت علی علیہ السلام نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرکے دعا کی۔
’’ اللھم بارک لنا فی فضتنا‘‘
خدایا: ہم اہل بیتؑ کی فضہ پر اپنی رحمت ، برکت نازل فرما۔( الثاقب فی المناقب ، ص ۲۸۰، و۳۸۱، ابی محمد بن علی طوسی ، ابن ابی حمزہ کے نام سے معروف)
(۱۵)سیدہ
سیدہ، یعنی جو خاتون قوم کی سردار ہو، لیکن اصطلاح میں بنی ہاشم کی خواتین کو سیدہ کہتے ہیں۔
راوی نے حضرت امام صادق علیہالسلام سے عرض کیا کہ پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا ہے : فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں تو کیا وہ عالمین کی عورتوں کی سردار اپنے زمانہ میں ہیں؟
 امام علیہ السلام نے فرمایا:
 ’’ذاک لمریم کانت سیدۃ نساء عالمھا وفاطمۃ ، سیدۃ نساء العالمین من الاولین والآخرین‘‘
 وہ جناب مریمؑ ہیں جو اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں ، لیکن حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا شروع سے آخر تک کے عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں۔ (بحار الانوار ، ج ۴۳، ص ۲۶، از معانی الاخبار)
ام المومنین عائشہ بیان کرتی ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے مجھ سے کہا:
پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا:
 ’’اما ترضین ان تاتی یوم القیامۃ ’’سیدۃ‘‘ نساء المومنین او سیدۃ نساء ھٰذہٖ الامۃ‘‘
کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ قیامت میں مومنہ عورتوں یا اس امت کی عورتوں کی سردار قرار پاؤ۔(بحار الانوار ، ج ۴۳، ص ۲۳، از امالی شیخ طوسی)
یہ دو روایتیں گواہ ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا دنیا اور آخرت کی تمام عورتوں کی سردار ہیںجس کی وجہ سے آپ کا لقب ’سیدہ ‘ قرار پایا۔
(۱۶)شہیدہ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے القاب میں سے ایک لقب شہید ہ ہے، آپ راہ ولایت کی پہلی شہیدہ ہیں۔
جس دن حضرت پیغمبر اسلامؐ کی وفات ہوئی تو ابھی آپ کو دفن نہیں کیا گیا تھا کہ لوگوں نے عہدو پیمان کو توڑ دیا اور دین سے پلٹ گئے۔ حضرت زہرا ؑ نے امیر المومنینؑ کے حق کا دفاع کرتے ہوئے آواز احتجاج بلند کی جسے طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کیگئی۔شہزادیٔ کونینؑ نے رحلت پیغمبر ؐ کے بعد شدید مصائب کا مقابلہ کیا ۔جلتا ہوا دروازہ آپ پر گرایا گیا، زخمی ہوئیں، پہلو شکستہ ہوا، حضرت محسن ؑ شکم مبارک میں شہید ہوگئے و۔۔۔ نتیجہ میں آپ نے وفات پیغمبرؐ کے ۷۵ یا ۹۵ دن کے بعد شہادت پائی۔اور اسی راہ خدا میں شہید ہونے کی وجہ سے آپ کا لقب شہیدہ قرار پایا۔(بحار الانوار ، ج۳، ص ۱۹۷، از کتاب سلیم بن قیس ہلالی)
 حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:
 ان فاطمۃ صدیقۃ شہیدۃ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سچ بولنے والی اور راہ خدا میں شہیدہ ہیں۔ ( اصول کافی ، ج۱، ص ۴۵۸)
(۱۷)صابرہ
یعنی وہ خاتون جو سختیوں کو تحمل کرے اور رضائے الٰہی کیلئے صبر شکیبائی کے ساتھ مشکلوں کا سامنا کرے، (صابرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا سیاسی لقب ہے)۔
ایک دن حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے سادات کے کسی ایک شخص سے کہا:
جب بھی اپنی دادی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر مطہر پر جانا تو اس زیارت کو پڑھنا :
 ’’۔۔۔۔۔۔۔۔ یا ممتحنۃ امتحنک اللہ الذی خلقک قبل عن ان یخلقک فوجدک لما امتحنک ’’صابرۃ‘‘
اے وہ خاتون کہ جس کا خدا نے پیدائش سے پہلے ( عالم ارواح میں) امتحان لیا اور اس میں صبر و شکیبائی پر ثابت قدم پایا۔ (بحار الانوار ، ج۱۰۰، ص ۱۹۴، از کتاب تہذیب)
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے زیارت نامہ میں پڑھتے ہیں:
 ’’السلام علیک یا ایتھا المظلومۃ ’’ الصابرۃ‘‘ لعن اللہ من منعک حقک و دفعک عن ارثک ‘‘
سلام ہو آپ پر اے مظلومہ کہ آپ نے ظلم و ستم کے مقابلہ میں صبر و تحمل کیا، خداوند عالم ان لوگوں پر لعنت کرے ، جنہوں نے حق کو ضائع کیا اور آپ کو پیغمبر اکرمؐ کی میراث سے محروم کیا۔ ( بحار الانوار ، ج۱۰۰، ص ۱۹۸، از مصباح الزائر)
(۱۹) صدوقہ
 حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا گفتار اور کردار میں اس درجہ سچی اور نیک تھیں کہ یہ صفت تین القاب میں آپ کے لئے قرار پائی ، صادقہ صدوقہ صدیقہ،
گزشتہ روایت میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر اسلام ؐ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:
 ’’ یا علی انی قد اوصیت فاطمۃ ابنتی باشیاء و امرتھا ان تلقیھا الیک فانفذھا ، فھی ’’صادقۃ‘‘ الصدوقۃ ثم ضمھا الیہ و قبل رائسھا و قال: فداک ابوک یا فاطمۃ‘‘
اے علیؑ میں نے فاطمہ کو کچھ مسائل کی تعلیم دی ہے اور ان سے کہہ دیا ہے کہ آپ سے بتادیں ، فاطمہؑ جو کہیں اسے انجام دینا کیوں کہ بہت سچ بولتی ہیں۔ (بحار الانوار ، ج ۱۰۱۔ ص ۲۶۳،۱)
(۲۰) طیبہ
پاک و پاکیزہ اور برائیوں سے دور خاتون کو طیبہ کہتے ہیں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے یہاں دو طرح کی پاکیزگی پائی جاتی تھی۔اول ظاہری پاکیزگی ، یعنی کبھی بھی خون حیض اور نفاس نہیں آیا دوسری باطنی پاکیزگی ، یعنی حضرت فاطمہ زہراؑ کسی بھی گناہ میں مبتلا نہیں ہوئیں اور کبھی بھی آپ نے گناہ کے لئے نہیں سوچا، اس پاکیزگی کی بنا پر آپ کے بہت سے القاب ہیں مثلاً طاہرہ، مطہرہ ، طیبہ ، بتول۔۔۔۔۔۔۔
حضرت زہراؑ کی زیارت کے یہ جملے ہیں:
 اللھم صل علیٰ فاطمۃ ’’طیبۃ‘‘ الطاھرۃ المطھرۃ التی انتجبتھا و طھرتھا و فضلتھا علی نساء العالمین ۔۔۔۔
خدایا! فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پر جو ہر برائی اور پلیدگی سے پاک ہیں درود و سلام بھیج فاطمہ سلام اللہ علیہا کو تونے منتخب فرمایا اور ہر برائی سے محفوظ رکھا اور انہیں عالمین کی عورتوں پر فضیلت و برتری بخشی۔
(۲۱)عارفہ
جو خاتون معارفت الٰہی کا علم رکھتی ہو اسے عارفہ کہتے ہیں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا تعارف یہ کہہ کر کرایا کہ آپ حق پیغمبرؐ کو جانتی تھیں، یعنی پیغمبر اسلامؐ کی صحیح معرفت رکھتی تھیں۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے زیارت نامہ میں پڑھتے ہیں کہ آپ عارفہ اور حق پیغمبر ؐ کی معرفت رکھتی تھیں۔
’’ السلام علیک و علیٰ ولدک و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘
’’ اے فاطمہ زہرا‘‘ آپ پر ااور آپ کے فرزندوں پر خدا کا درود و سلام میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے سرپرستی کی ذمہ داری کو بخوبی انجام دیا اور حق امانت ادا کردیا اور رضا و خوشنودی خدا کیلئے کوشش کی، حفاظت پیغمبرؐ میں بہت زیادہ تلاش و کوشش کی، اس مدت میں آنحضرت ؐ کے حق کو بخوبی جان لیا اور آنحضرتؐ ؐ کی صداقت اور نبوت پر ایمان و اعتقاد رکھا ۔ (بحار الانوار ، ج ۱۰۰۔ ص ۲۱۸، از مصباح الزائر ، ص ۲۸، المراکز الکبیر ، ص۲۳)
(۲۲)عالیہ
جس کا مقام و مرتبہ بلند ہو اسے عالیہ کہا جاتا ہے۔ چونکہ شہزادیٔ دوعالم ؑ فضائل و کمالات کے انتہائی اعلیٰ درجہ پر فائز تھیںاس وجہ سے آپ کو عالیہ کہا گیا ہے۔
جیسا کہ آپؑ سے منسوب زیارت کے جملے ہیں:
اللھم صل علی السیدۃ المفقودۃ الکریمۃ المحمودۃ الشہیدۃ ’’ العالیۃ‘‘ الرشیدۃ۔۔۔‘‘
خدایا! اس خاتون پر جو عورتوں کی سردار ہیں اور جن کی ’’قبر پوشیدہ‘‘ ہے جو باکرامت ، قابل ستائش اور راہ حق میں شہید ہیں ان پر درود و سلام بھیج۔ (۱)
(۲۳) عدیلہ
 حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پاکی و طہارت کے آخری درجہ میں تھیں ، قرآن مجید میں حضرت مریمؑ کی پاکیزگی و طہارت بیان کی گئی ہے چنانچہ کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پاک دامنی میں جناب مریمؑ کی عدیل و ہم پلہ تھیں۔
(۲۴) عذرا
 روایات میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو ’حوریہ انسیہ‘ کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور قرآن مجید کی روشنی میں حور العین اسے کہتے ہیں جو ہمیشہ باکرہ رہے، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔
’’ انا انشائنا ھن انشاء فجعلنا ھن ابکاراً ‘‘ (سورہ واقعہ ؍۳۶)
ہم نے حوروں کو پیدا کی اور انہیں باکرہ قرار دیا ، پس چونکہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہمیشہ باکرہ تھیں اس بنا پر آپ کو عذرا کہتے ہیں ، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جن خوایتن کا یہ نام ہے وہ پاک دامنی و عفت کو محفوظ رکھیں اور گناہوں سے آلودہ نہ ہوں۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: پیغمبر اکرمؐ نے بارگاہ خدا میں دعا کی :
’’اتقرب الیک بخیرۃ الاخیار و ام الانوار و الانسیۃ الحوراء البتول العذرا ‘‘ فاطمۃ الزہرا‘‘
 خدایا! میں تیرا تقرب حاصل کرنے کیلئے بہترین منتخب برگزیدہ شدہ خاتون پاکیزہ انوار ( ائمہ اطہارؑ) کی مادر گرامی ، حور صفت کو جو ہمیشہ پاک و کنواری رہیں یعنی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو وسیلہ قرار دیتا ہوں۔ (بحار الانوار ، ج ۹۵ ، ص ۳۷۵و ۳۸۴ از منہج الدعوات ، ص ۱۱۳و ۱۱۵)
(۲۵) عزیزہ
 اس عظیم المرتبت خاتون کو جو اپنی عزت نفس کو محفوظ رکھے اور نامحرموں میں کم اہمیت نہ ہو ’’ عزیزہ‘‘ کہتے ہیں۔
جناب سلمان نے حضرت پیغمبرؐ سے عرض کی۔ : مولانا آپ کو خدا کا واسطہ آپ مجھے قیامت میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے مقام و منزلت سے آگاہ فرمائیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری طرف مسکراتے ہوئے کہا: خدا کیق سم جس کے دس قدرت میں میری جان ہے ، قیامت کے دن حضرت فاطمہ زہرا ؑ ایک اونٹ پر سوار ہوکر اہل محشر کے بیچ سے گزریں گی، ’’ علیھا ھودج من نورٍ فیہ جاریۃ انسیۃ حوریۃ عزیزۃ‘‘
اس اونٹ پر نورانی ہودج ہوگا۔ ہودج کے اندر انسانی شکل میں حور صفت اور عظیم المرتبت خاتون ہوں گی، جبرئیل دائیں طرف اور میکائیل بائیں طرف ہوں گے، حضرت علی علیہ السلام آگے اور حضرت امام حسن علیہ السلام و امام حسینؑ ان کے پیچھے ہوں گے۔  جب وہ اہل محشر کے بیچ سے گزریں گی تو خدا کی طرف سے ندا آئے گی۔ اے لوگو! اپنی آنکھیں بند کرلو اور اپنے سرون کو جھکا لو، یہ فاطمہ سلام اللہ علیہا تمہارے پیغمبر ؐ کی بیٹی علی علیہ السلام کی زوجہ اور حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام کی مادر گرامی ہیں۔ پس حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پل صراط سے گزریں گی، اس وقت آپ جنت اور جو خدا وند عالم نے آپ کیلئے آمادہ کیا ہے اسے دیکھیں گی، اور کہیں گی، خدائے مہربان کے نام سے شروع کرتی ہوں حمد و ثنا ہے اس خدا کے لئے جس نے ہمار ے غم و اندوہ کو دور کیا، ہمارا خدا بخشنے والا اور شکر کرنے والوں کا قدر داں ہے، وہ خدا ک؎جس نے اپنے فضل سے ہمیں ایسا مقام عطا کیا جس تک کوئی گرد نہیںپہنچ سکتی۔ خداون د عالم ان پر وحی فرمائے گا۔ اے فاطمہؑ! اگر کوئی حاجت ہے تو بیان کرو۔‘‘
فاطمہ سلام اللہ علیہا عرض کریںگی، خدایا ! میں تیرا تقرب چاہتی ہوں ،خدایا ! میری طرف سے عرض یہ ہے کہ میرے محبوں اور میرے اہل بیتؑ کے محبو ں پر عذات مت کر۔
خداوند عالم وحی فرمائے گا۔! اے فاطمہؑ اپنی عزت و جلال کی قسم ، مجھے اپنی خدائی کی قسم، میں نے زمین و آسمان کو پیدا کرنے سے دو سال پہلے خود سے عہد کیا تھا کہ تمہارے اور تمہارے فرزندوں کے شیعوں پر عذاب نہیں کروں گا۔ (بحار الانوار ، ج ۲۷، ۱۳۹، از کنز جامع الفوائد و تاویل الآیاب الظاہرات)
(۲۶) علیمہ
جو خاتون بہت زیادہ علم و دانش رکھتی ہو اسے علیمہ کہتے ہیں ، حضرت صدیقہ کبریٰ سلام اللہ علیہا سارے علوم سے آگاہ تھیں، ائمہ اطہار آئندہ پیش آنے والے واقعات سے آگاہی کے لئے ’’صحیفہ  فاطمہ ‘‘ میں رجوع کرتے تھے۔
حضرت  فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے زیارت نامہ میں پڑھتے ہیں:
 السلام علیک ایتھا المحدثۃ ’’ العلمۃ‘‘
 سلام ہو آپ پر اے حدیث بیان کرنے والی اور با علم فہم خاتون ( بحار الانوار ، ج ۱۰۰ ، ص ۱۹۹،)
(۲۷)فاضلہ
 جو خاتون فضائل و کمالات کی حامل ہو اسے فاضلہ کہتے ہیں، تمام فضائل و کمالات حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات گرامی میں جمع تھے۔چنانچہ شاعر بیان کرتا ہے:
اترید ان تحصی فضائل فاطم
نفد الحساب و فضلھا لم ینفد
 کیا تم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل کا اندازہ کرنا چاہتے ہو اور انہیں ایک جگہ جمع کرنا چاہتے ہو؟ یا رکھو تم کبھی ان کا حساب نہیں لگا سکتے کیوں کہ اعداد و تو ختم ہو سکتے ہیں مگر ان کے فضائل ختم نہیں ہوں گے۔
آپ کے زیارت نامہ میں پڑھتے ہیں:
 السلام علیک ایتھا الفاضلۃ الزکیۃ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘‘
(۲۸) فریدہ
 جو چیز در ااور گوہر کی طرح ہوتی ہے اسے فریدہ کہتے ہیں ، حضرت فاطمہ زہرا دنیاوی عورتوں میں بے نظیر گوہر کی طرح تھیں اور رہیں گی، اس بنا پر آپ کا ایک لقب فریدہ ہے، نیز جو خاتون تنہا و اکیلی بے ناصر و مددگار اور گوہر کی طرح دوسروں کے ہاتھ سے دور ہو اسے فریدہ کہتے ہیں، جیسے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پیغمبر ؐ کی وفات کے بعد بے ناصر و مددگار ہوگئیں اور آپ نے اس تنہائی کا شکوہ کیا۔
(۲۹) کریمہ
 جوخاتون جو دوسخا اور کرم کرنے والی ہو اسے کریمہ کہتے ہیں۔، حضرت فاطمہ زہرا ؑ کی پوری زندگی انہی دو چیزوں یعنی جو دو سخا اور کرم میں گزرگئی، کوئی ایسا نہیں ہے جو آپ کی بخشش اور جودو سخا سے بے خبر ہو قرآن مجید کی بہت سی آیتیں ہیں جو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے کرم کو بیان کرتی ہیں، جن میں سے ہم بعض کو بطور نمونہ ذکر کررہے ہیں چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔ :
 لن تنالوا البر حتیٰ تنفقوا ما تحبون (سورہ آل عمران ، آیت ۹۲)
’’ یوثرون علی انفسھم و لوکان بھم خصاصۃ ‘‘ (سورہ حشر آیت ۹،)
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کریمہ اہل بیت ؑ ہیں۔ دین کے پیشواؤں کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تھی تو آپ حضرات فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے توسل کرتے تھے۔
حجرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے زیارت نامہ میں پڑھتے ہیں:
’’اللھم صلی علی السیدۃ المفقودۃ ’’ الکریمۃ‘‘ المحمودۃ الشہیدۃ العالیۃ الرشیدۃ ۔۔۔۔۔ ‘‘
خدایا! عورتوں کی سردار جن کی قبر پوشیدہ ہے اور وہ عظیم المرتبت و بہترین خاتون ہیں، ایسی خاتون کہ جو راہ حق میں شہید ہوئیں اور بلند ہمت اور رشیدہ ہیں ان پر درود و سلام بھیج۔
( بحار الانوار ، ج ۱۰۲، ص ۲۲۰، از عتیق غروی،)
(۳۰) کوثر
کوثر کثرت میں مبالغہ کے لئے استعمال ہوتا ہے، علامہ زمخشری بیان کرتے ہیں :
 کوثر اس چیز کو کہتے ہیں جس کی کثرت کا اندازہ نہ ہو۔ چنانچہ ایک بادیہ نشین عورت سے جس کا فرزند سفر پر گیا تھا کہا گیا : بم اب ابنک ؟ قالت : اب بکوثر ‘‘ تمہارا فرزند کیا لے کر آیا ہے؟
اس نے کہا : بے حساب فائدہ کے ساتھ پلٹا ہے۔
راغب اصفہانی بیان کرتے ہیں:
 کوثر یعنی کسی چیز کی انتہا ہوجانا۔
 علامہ طبرسی بیان کرتے ہیں:
 کوثر اس چیز کو کہتے ہیں کہ جس کی شان کثرت ( وزیادتی) ہو اور کوثر خیر کثیر ہے۔ (۲)
کوثر ایک صفت ہے جسے کثرت سے لیا گیا ہے اور اس کے معنیٰ بہت زیادہ خیر و برکت کے ہیں نیز سخاوت مند افراد کو بھی کہتے ہیں۔
’’انا اعطیناک الکوثر‘‘ ہم نے آپ کو کوثر  ( یعنی کثیر خیر و برکت) عطا کیا ’’فصل لربک وانحر ‘‘ پس اپنے پروردگار کیلئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے، ’’ ان شانئک ھوالابتر‘‘ بے شک آپ کا دشمن ابتر و بے نسل ہے۔
اس  سورہ مبارکہ کے شان نزول میں ہے کہ ’’ عاص بن وائل ‘‘ جو مشرکوں کا سرغنہ تھا اس نے پیغمبر اسلامؐ کو مسجد سے نکلتے ہوئے دیکھا اور کافی دیر آنحضرت ؐ سے بات چیت کی ، قریش کے بعض سرغنہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور اس کا منظر کا دور سے مشاہدہ کررہے تھے۔ جب عاص بن وائل مسجد میں داخل ہوا تو انہوں نے اس سے کہا : کس سے بات کررہے تھے؟ اس نے کہا : اس ابتر آدمی سے۔
پیغمبر اسلام ؐ کے فرزند عبد اللہ کا انتقال ہوچکا تھا اور عرب جس کے فرزند نہیں ہوتا تھا اسے ابتر و بے نسل کہتے تھے ، اسی بنا پر فرزند پیغمبر کے انتقال کے بعد قریش نے پیغمبر کو ابتر کہنا شروع کردیا۔ اسی مناسبت سے سورہ کوثر نازل ہوا جس میں پیغمبر کو کثیر نعمتوں اور کوثر کی بشارت دی گئی اور ان کے دمشنون کو ابتر کہا گیا۔
پیغمبر اسلامؐ کے حضرت خدیجہ کبریٰؑ سے دو فرزند تھے۔ ایک قاسم اور دوسرے طاہر ( کہ جسے عبد اللہ کہتے ہیں) دونوں کا انتقال مکہ میں ہوا۔ ان کے بعد پیغمبر اسلامؐ کے کوئی فرزند نہیںہوا، لہٰذا قریش آپ کو طعنہ دینے لگے اور آپ کے لئے لفظ ’’ابتر‘‘ کا انتخاب کیا۔ اگرچہ پیغمبر  اکرمؐ کے ۸ھ؁ مدینہ میں ماریہ قبطیہ سے ایک فرزند ہوا جس کا نام ابراہیم تھا مگر اس کا بھی دوسا ل سے پہلے ہی انتقال ہوگیا جس کے انتقال سے پیغمبر اسلام ؐ کو بہت صدمہ پہنچا۔
قریش اپنی عادت کے مطابق فرزند کیلئے بہت زیادہ اہمیت کے قائل تھے اور بیٹے کو باپ کے منصوبوں کا جاری و باقی رکھنے والا سمجھتے تھے ، اس بنا پر وہ سوچ رہے تھے کہ وفات پیغمبر ؐ کے بعد آپ کا مقصد فرزند نہ ہونے کی وجہ سے ختم ہوجائے گا اور اس سے وہ بہت خوش تھے۔
سورہ کوثر نازل ہوا اور خداوند عالم نے انہیں دندان شکن جواب دیا اور خبردی کہ دشمن ابتر رہیں گے اور اسلام و قرآن کا منصوبہ و مقصد منقطع نہیںہوگا۔ اس سورہ میں جو بشارت دی گئی ہے اس میں ایک طرف دشمنان اسلام پر سخت ضرب ہے اور دوسری طرف پیغمبرؐ کو تسلی دی گئی ہے۔( تفسیر نمونہ ، ج ۲۷، ص ۳۶۸، ۳۶۹،)
کوثر کے ’’خیر، کثر، و فراواں، بہت زیادہ مصادیق ہیں۔ (تفسیر فخر رازی)
 بہت سے شیعہ علماء حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے وجود مقدس کو کوثر کا بالکل روشن مصداق جانتے ہیں، کیونکہ آیہ کریمہ کے شان نزول میں بیان ہوا ہے کہ قریش ہمیشہ پیغمبرؐ پر طعنہ زنی کرتے تھے کہ ان کی نسل منقطع ہوجائے گی ، قرآن ان کی بات کی نفی کرتے ہوئے بیان کرتا ہے : ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا، اس تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خیر کثیر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہی ہیں۔ کیونکہ پیغمبر اسلام ؐ کی نسل انہی کے ذریعہ چلی ہے۔ آپ کے تمام مقاصد و اسلام کی حفاظت اور انسانوں کی ہدایت و تبلیغ کی اور یہ بات صرف اماموں ہی تک محدود نہ رہی بلکہ آپ کی نسل میں بہت سے علماء و فضلاء مصنفین و مولفین ، فقہا ، محدثین اور مفسرین گزرے ہیں جو بلند مرتبہ تھے اور انہوں نے ایثار و فدا کاری کے ساتھ مقاصد اسلام کی حفاظت کی۔
فخر رازی’’ کوثر‘‘ کی مختلف تفسیروں کے ضمن میں بیان کرتے ہیں : تیسرا قول یہ ہے کہ یہ سورہ ان لوگوں کی رز میں نازل ہوا جو پیغمبر اسلام ؐ کو اولاد نہ ہونے کی وجہ سے مقطوع النسل سمجھ رہے تھے لہٰذا اس سورۂ مبارکہ کے معنی یہ ہیں کہ : خداوند عالم انہیں ایک ایسی نسل عطا فرمائے گا جو طولانی زمانے تک باقی رہے گی۔ اہل بیتؑ کے بہت سے افراد شہید کردیئے گئے لیکن پھر بھی پوری دنیا میں آباد ہیں، حالانکہ بنی امیہ، جو اسلام کے دشمن تھے ان کی نسل میں کوئی قابل ذکر آدمی نہیں ہے اور آپ دیکھیں کہ ان میں کس درجہ بلند پایہ کے علماء ہیں۔ مثلاً ’’باقر‘‘ ’’ صادق‘‘ و ’’ رضا‘‘ اور نفس زکیہ ( نفس زکیہ حضرت امام حسن مجتبیٰ کے فرزند محمد بن ربد اللہ کا لقب ہے جس کی منصور دوانیقی کے ہاتھوں شہادت ہوئی)۔۔۔( ۲)
( تفسیر نمونہ ، ج ۲۷، ص ۲۷۵، ۲۷۶، نقل از تفسیر فخر رازی ، ج ۲۲، ص ۱۲۴۔)
علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں بیان کرتے ہیں:
کوثر جو پیغمبر اسلامؐ کو عطا کیا گیا اس سے مراد کثرت نسل اور ذریت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہے، پس کوثر سے مراد یا صرف ذریت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہے ، یا بہت زیادہ خیر مراد ہے کہ جس کے ضمن میں کثیر نسل پیغمبرؐ بھی ہے۔ کیونکہ اگر کثیر نسل پیغمبرؐ موجود نہ ہو تو آخری آیت ، ’’ ان شانئک ھو الابتر‘‘ آپ کا دشمن بے نسل و ابتر  رہے گا۔ بے معنیٰ ہوجائے گی۔ پس ضروری ہے کہ پہلی آیتیں نسل پیغمبرؐ سے متعلق ہوں تاکہ دشمن پیغمبرؐ کے ابتر ہونے کے معنیٰ کئے جاسکیں اور آیت بے معنیٰ نہ ہو۔ ( المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ۲۰، ص ۳۷۰،)
(۳۱)کوکب
کوکب یعنی روشن ستارہ ، روایت میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا روشن ستارہ سے تعارف کرایا گیا ہے جو عالمین کی عورتوں میں ستارہ کے مثل چمکتی ہیں۔
 حضرت امام صادق علیہ السلام اس آیت ’’ اللہ نور السمٰوٰت والارض مثل نورہ کمشکوٰۃ ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’فاطمۃ ’’کوکب‘‘ دُرِّیٌّ بین نساء ِ اھل الدنیا‘‘
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا دنیا وی عورتوں میں روشن ستارہ ہیں۔ ( اصول کافی ، ج، ۱ ص ،۱۹۵)
(۳۲)مبشّرہ
جو عورت خوشخبری دے اسے مبشرہ کہتے ہیں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اولیائے الٰہی کو خوشخبری دینے والی تھیں۔
 حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زیارت میں ’’مبشرۃ الاولیاء ‘‘ پڑھتے ہیں یعنی جو خاتون اپنے محبوں اور اولیا ء کو دنیا اور آخرت میں جہنم سے نجات کی بشارت دے۔ بعض علماء بیان کرتے ہیں کہ خداوند عالم اپنے اولیاء کو اس طرح کی خاتون کے وجود کی بشارت دیتا ہے۔ (بحار الانوار ، ج ۱۰۰ م ص ۹۹، از الاقبال ، ص ۱۰۰)
(۳۳) محمودہ
لائق تعریف خاتون کو محمودہ کہتے ہیں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا محمودہ ہیں جس طرح ان کے بابا محمود اور محمد ہیں۔
زیارت نامہ میں پڑھتے ہیں:
’’ اللھم صل علیٰ سیدۃ المفقودۃ الکریمۃ ‘‘
’’ المحمودۃ ‘‘ الشہیدۃ العالیۃ الرشیدۃ۔۔۔‘‘
 خدایا!عالمین کی عورتوں کی سردار جن کی قبر لوگوں سے پوشیدہ ہے، جو باکرامت، راہ حق میںشہید، تعریف کی جانے والی، بلند ہمت اور رشیدہ ہیں ان پر درود و سلام بھیج ۔ (بحار الانوار ،ج ۱۰۲، ص۲۲۰، از عتیق غروی)
(۳۴) مطہرہ
 مطہرہ بھی طاہرہ اور طیبہ کی طرح ہے جس کے معنیٰ پاکیزگی اور طہارت کے ہیں۔ بیان کیا گیا ہے۔ کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ظاہری اور باطنی طور پر پاک تھیں۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے غسل و کفن کے بارے میں فرماتے ہیں:
 ’’ واللہ لقد اخذت فی امرھا غسلتھا فی قمیصھا و لم اکشفہ عنھا فواللہ لقد کانت میمونۃ طاہرۃ مطھرۃ ‘‘
میں خدا کو گواہ قرار دے کر کہتا ہوں کہ میں نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو ان کے کپڑوں میں اسی حالت میں غسل دیا، آپ کا بدن پاک و صاف تھا، غسل کے بعد جو حنوط پیغمبرؐ سے بچا تھا وہ لگایا اور کفن میں رکھ دیا۔ جب میں کفن کے بند باندھنا چاہتا تھا تو میں نے آواز دی : ام کلثوم ! فضہ ! حسن و حسین !’’ تزودوا من امکم فھٰذا الفراق اللقاء فی الجنۃ ‘‘
آؤ اور اپنی مادر گرامی کے پاک و پاکیزہ وجود سے توشہ لے لو۔ اب تمہاری مادر گرامی کی جدائی کا وقت آ پہنچا اور اس کے بعد جنت میں دیدار ہوگا۔ (۱)
(۳۵) معصومہ
 جو خاتون گناہوں سے پاک ہو اسے معصومہ کہتے ہیں ، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا مقام عصمت پر فائز تھیں، آپ گناہوں ، خطاؤں اور غلطیوں حتیٰ سہو و نسیان سے بھی محفوظ تھیں۔
آپ کے زیارت نامہ میں پڑھتے ہیں:
 ’’ اللھم صل علیٰ سیدۃ المفقودۃ الکریمۃ المحمودۃ الشہیدۃ العالیۃ الرشیدۃ ، ام الائمۃ و سیدۃ النساء الامۃ بنت نبیک ، صاحبۃ ولیک سیدۃ النساء و وارثۃ سید الانبیاء و قرینۃ الاوصیاء ’’ المعصومۃ‘‘ من کل سوء صلاۃ طیبۃً مبارکۃً ۔۔۔۔۔۔‘‘
خدایا! عالمین کی عورتوں کی سردار جن کی قبر پوشیدہ ہے جو باکرامت ، لائق تعریف راہ حق میں شہید، بلند ہمت ، رشیدہ، دین کے پیشواؤں کی مادر گرامی ، امت کی عورتوں کی سردار، تیرے نبی کی بیٹی، تیرے ولی کی زوجہ، عورتوں کی سردار، وارث پیغمبرؐ ، حضرت امیر المومنین ؑ کی ہم پلہ و ہر برائی سے دور ہیں ان پر پاک اور مبارک درود و سلام بھیج ۔ (بحار الانوار ،ج ۱۰۲، ص،۲۲۰، از عتیق غروی)
(۳۶) ملہمہ
 جس خاتون پر خدا کی طرف سے الہام ہوتا ہے اسے ملہمہ کہتے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہر ا سلام اللہ علیہا پر بار ہا خدا کی طرف سے الہام ہوا، الہام عالم معنیٰ میں ارتباط اور درحقیقت وحی کی ہی ایک شاخ ہے۔
 حضرت امام کاظم علیہ السلام اپنے آباد و اجداد کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:  پیغمبر اسلامؐ نے روتے ہوئے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو سینے سے لگا کر کہا: ’’ موفقۃ رشیدۃ مھدیۃ ملھمۃ‘‘ آپ کا کامیاب اور رشیدہ خاتون ہیں جن پر خدا کی طرف سے الہام ہوا اور آپ اس کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں۔ (بحار الانوار ، ج ۲۲، ص ۴۹۲، اسی طرح ، ج ۸۱، ص۳۲۴)
(۳۷)ممتحنہ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا ایک لقب ممتحنہ ہے ، ممتحنہ اس خاتون کو کہتے ہیں جس کا امتحان لیا گیا ہو اور وہ اس میں کامیاب رہے ، ایک طائرانہ نظر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی امتحانی زندگی پر کرتے ہیں:
آپ کے زیارت نامہ میں پڑھتے ہیں:
 ’’یاممتحنۃ ‘‘ امتحنک اللہ الذی خلقک قبل ان یخلقک فوجدک لما امتحنک صابرۃ ‘‘
 اے وہ خاتون کہ جس کا خداوند عالم نے پیدا کرنے سے پہلے امتحان لیا اور امتحان میں ثابت قدم اور شکیبا پایا۔ (بحار الانوار ، ج ۱۰۰، ۱۹۴، التہذیب ، ج ۶،ص۹)
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے سر سے بچپنے ہی میں ماں کا سایہ اٹھ گیا ، آپ نے بابا کو خاک آلود سر اور زخمی پاؤں کے ساتھ گھر واپس آتے دیکھ کر صبر و تحمل کیا اور اس بنا پر آپ کے بابا نے آپ کو ’’ ام ابیھا ‘‘ کہا ، شب زفاف میں بے ماں کے شوہر کے گھر گئیں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے فرزند کی ولادت کے موقع پر شہادت کا منظر غصب ہونا، طمانچے کھانا، بازؤں پر تازیانہ کا ورم برداشت کرنا، مولا کورسی میں بندھا دیکھنا اور دیگر بہت سی مصیبتوں کا سامنا کرنا سختی اور امتحان کا نمونہ ہیں جنہیں آپ نے برداشت کیا پس ان تمام مصائب و آلام کو برداشت کرنے کے بعد حق ہے کہ ائمہ اطہار علیہم السلام آپ کو ممتحنہ کہہ کر خطاب کریں۔
’’ السلام علیک ایھتا الممتحنہ ‘‘ سلام ہو آپ پر اے وہ خاتون جس نے خدا کی بارگاہ میں امتحان دیا اور اس میں کامیابی حاصل کی۔ (بحارالانوار ،ج ۱۰۰، ص ۱۹۸، از مصباح الزائر ، ص ۲۵)
(۳۸) منصورہ
قیامت کے دن حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے محبوں کی مدد فرمائیں گی اور اگر آپ نے ہم ضرورت مند اور محتاجوں کا ہاتھ نہیں پکڑا تو ہم کس طرح آتش جہنم سے نجات پائیںگے۔ ؟
یعنی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہمیشہ اپنے محبوں اور پیروی کرنے والوں کی مدد فرمائیں گی۔
لوگوں نے ر سول اللہؐ سے پوچھا کہ آپ فرمارہے ہیں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ایک فرشتہ ہیں اور انسان بھی ہیں؟ آخر یہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا: جبرئیل علیہ السلام نے جنت سے ایک سیب لاکر مجھے ہدیہ دیا اور کہا : اے محمدؐ اس سیب کو تناول فرمالیجئے ، میں نے : اے میرے دوست، یہ سیب کس کی طرف سے ہدیہ ہے؟ اس نے کہا: حکم دیا گیا ہے کہ اسے کھالیجئے، پس میں نے اسے کاٹا تو اس سے ایک نور چمکا ، میں اس نور کو دیکھ کر حیران ہوگیا۔ جبرئیل نے کہا : کھالیجئے ’’ فان ذالک نور المنصورۃ فاطمۃ‘‘ یہ فاطمہ سلام اللہ علیہا منصورہ کا نور ہے، میں نے پوچھا : منصورہ کون ہے؟جبرئیل نے کہا: آپ کی بیٹی ہے کہ جن کا نام آسمانوں میں منصورہ اور زمین پر فاطمہ سلام اللہ علیہا ہے۔ انہیں آسمان میںمنصورہ اور زمین پر فاطمہ سلام اللہ علیہا کیوں کہتے ہیں؟ کہا: زمین پر فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں۔ کیونکہ ان کے شیعہ آتش جہنم سے نجات یافتہ ہیں اور ان کے دشمن ان کی محبت سے دور ہوگئے۔ اسی طرح اس آیہ کریمہ کی روشنی میں: ویومئذ یفرح المومنون بنصر اللہ‘‘ (سورہ روم آیت ۴و۵)آسمان میں انہیں منصورہ کہتے ہیں۔ (بحار الانوار ، ج ۴۳، ص ۱۸، از تفسیر فرات بن ابراہیم)
(۳۹) موفقہ
کسی نیک کام کو بجالانے کیلئے اس کے ذرائع فراہم ہوجانے کو توفیق کہتے ہیں۔ حضرت امام جواد علیہ السلام کی ایک روایت کے مطابق خدائی توفیق مومن کی ایک صفت ہے۔ (بحار الانوار ، ج ۷۸، ص ۳۷۸)
خدائی توفیق کا مطلب یہ ہے کہ خداوند عالم کسی نیک کام کو بجالانے کیلئے اس کے تمام لازم ذرائع فراہم کردے گا کہ بندہ کم وقت میں زیادہ خدمت انجام دے سکے اور زیادہ سے زیادہ اس کو اجر و ثواب حاصل ہو۔
یہ بات اہل علم و دانش کے درمیان اس طرح بیان ہوئی۔ ’’ التوفیق توجیہ اسباب الخیر نحو المطلوب‘‘ کسی ایک کام کو انجام دینے کیلئے ضروری اسباب کا فراہم ہونا تاکہ ہدف و مقصد تک پہنچا جاسکے۔ جس خاتون پر خدا نے عنایت فرمائی ہو اور اس کے واسطے کار خیر انجام دینے کے لئے اسباب فراہمکر دئے ہوں تو اسے موفقہ کہتے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی پوری زندگی میں توفیق الٰہی شامل ہے ، اس طرح کہ آپ پورے عالم میں نمونہ قرا ر پائیں۔،
حضرت پیغمبرؐ نے ایک روایت میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے فرمایا: موفقۃ رشیدۃ مھدیۃ ملھمۃ‘‘ آپ ایسی خاتون ہیں جنہیں توفیق الٰہی شامل ہے اور آپ رشیدہ ہیں کہ خدا کی طرف سے آپ کی ہدایت کی گئی ہے اور آپ پر الہام ہوتا ہے ۔(بحار الانوار ، ج۲۲، ص ۴۹۲، اسی طرح، ج۸۱، ص ۳۲۴)
 نیز اسی سلسلہ کی ایک روایت لقب’’ سعیدہ‘‘ میں گزرچکی ہے۔ ( الثاقب فی المناقب ، ص ۲۸۱، و۲۸۰، ابی محمد بن علی طوسی)
(۴۰)مہدیہ
 جس خاتون کی خدا کی طرف سے ہدایت کی گئی ہو اسے مہدیہ کہتے ہیں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا مہدیہ تھیں، یعنی خدا کی طرف سے آپ کی ہدایت کی گئی تھی اور خداوند عالم جس کی ہدایت فرماتا ہے وہ کبھی بھی گمراہ نہیں ہوسکتا۔
پیغمبر اسلام ؐ نے ایک روایت مین جو لقب رشیدہ میں گزر چکی ہے ۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے فرمایا: موفقۃ ،رشیدۃ مھدیۃ ، ملھمۃ ‘‘ آپ توفیق یافتہ اور رشیدہ ہیں جن کی خدا کی طرف سے ہدایت کی گئی ہے اور ااپ پر الہام ہوتا ہے۔ (بحار الانوار ، ج ۲۲، ص ۴۹۲، اسی طرح ، ج ۸۱، ص ۳۲۴)
(۴۱) مومنہ
 جو خاتون خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتی ہو اسے مومنہ کہتے ہیں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جس طرح خدا اور روز قیامت پر ایمان و اعتقاد رکھتی تھیں اسی طرح صداقت پیغمبر ؐ ؐ پر بھی ایمان رکھتی تھیں۔ سچ بولنا ، پیغمبرؐ کی ایک خاص پہچان ہے البتہ بعض فرقہ سچائی کو مقام پیغمبری کے لئے سزا وار نہیں جانتے۔ زیارت میں بعض جگہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا اس حیثیت سے تعارف کرایا گیاہے کہ آپ صداقت پیغمبر اسلامؐ پر ایمان و اعتقاد رکھتی تھیں۔
آپ کے زیارت نامہ میں اس طرح پڑھتے ہیں:
 ’’ السلام علیک و علی ولدک ورحمۃ اللہ و برکاتہ، اشھد انک الکفالۃ و ادیت الامانۃ و اجتھدت فی مرضاۃ اللہ و بالغت فی حفظ رسول اللہ عارفۃ بحقہ ’’مومنۃ‘‘ بصدقہ معترفۃ بنبوتہ‘‘ ( بحار الانوار ، ج ۱۰۰، ص ۲۱۸، از مصباح الزائر ، ص ۲۸ والمزار الکبیر، ص ۲۳)
(۴۲) ناعمہ
ناعمہ کے چند معنیٰ بیان کیے گئے ہیں: خوش و خرم اور بہرہ مند خاتون ، وہ خاتون جس کی زندگی خوشی کے ساتھ گزرے ، وہ خوشی جو رخسار پر نمایاں ہو۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا قیامت کے دن خوشحال چہرے کے ساتھ اپنے محبوں کے ہمراہ جنت کی طرف جائیں گی۔
’’ یا فاطمۃ ! والذی بعثنی بالحق لقد حرمت الجنۃ علی الخلائق حتیٰ ادخلھا وانک لاول خلق اللہ یدخلھا بعدی کاسیۃ حالیہ ’’ناعمۃ‘‘ یا فاطمۃ ھنیئا لک‘‘
اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، جنت میرے داخل ہونے سے پہلے دوسروں پر حرام ہے اور میرے بعد آپ وہ پہلی فرد ہیں جو جلالت و وقار اور زیوروں سے مزین خوش حالی کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گی۔ اے فاطمہ! آپ کو جنت مبارک ہو۔ (بحار الانوار ، ج ۲۲، ص ۴۹۰)
(۴۳) نقیہ
پاک دامن اور باعفت خاتون کو جو گناہوں سے دور ہو ’’نقیہ‘‘ کہتے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پاک دامن خاتون ہیں، آپ کے پردہ کی حد یہ تھی کہ نابینا سے پردہ کرتی تھیں ، اسی بنا پر آپ کی زیارت میںپڑھتے ہیں:
 السلام علیک ایتھا التقیۃ النقیۃ‘‘
 درود و سلام ہو آپ پر اے پاک دامن اور متقی وپرہیزگار خاتون۔ (بحار الانوار ، ج ۱۰۰، ص ۱۹۹، از الاقبال ، ص ۱۰۰)
(۴۴) والہہ
جو خاتون شدت رنج و غم یا خوشی سے حیران ہوجائے اسے والہہ کہتے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا ؑ وفات پیغمبرؐ کے بعد ہمیشہ سوگ مناتی رہیں ہیں یہاں تک کہ آپ شہید ہوگئیں۔
روایت میں بیان ہوا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فریاد کی:
’’ یا ابتاہ ! بقیت’’ والھۃ‘‘ وحیدۃ وحیرانۃ فریدۃ ۔۔۔۔۔‘‘
بابا جان ! میں تنہا ہوں اور غم بہت زیادہ ہیں، میں حیران و پریشان ہوں میری آواز بند اور کمرشکستہ ہوگئی، میری زندگی تباہ و برباد اور دن تاریک ہوگئے۔ (بحار الانوار ، ج ۴۳، ص ۱۷۴و ۱۷۶)
(۴۵) وحیدہ
وحیدہ کے معنی لغت میں یکتائی کے ہیں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا وفات پیغمبرؐ کے بعد تنہا اور بے ناصر و مددگار رہ گئی تھیںاس وجہ سے آپ کا لقب وحیدہ قرار پایا۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے بابا کے فراق میں گریہ و بکا کرتی تھیں اور کہتی تھیں:
بابا جان! میں تنہا ہوں اور غم بہت زیادہ ہیں، میں حیران و پریشان ہوں میری آواز بندہوگئی اور کمربستہ گئی، میری زندگی تباہ و برباد اور دن تاریک ہوگئے۔ ( بحار الانوار ، ج ۴۳، ص۱۷۴،و۱۷۶)
(۴۶تا ۸۰)بعض اہل علم کے نزدیک کچھ القاب
شہزادی کونین علیھا السلام کے بہت سے القاب احادیث و روایات کو سامنے رکھ کر علماء نے بھی بیان کیا جن کی تعداد بہت زیادہ ان میں سے بعض القاب یہ ہیں:یہاں پر صرف القاب کو بیان کیا جا رہا ہے،طوالت سے بچنے کے لئے اسباب کو کسی اور موقع موکول کیا جاتا ہے:
امینہ
 جلیلہ
 جمیلہ
 حانیہ
 حصانہ
 حکیمہ
 حنانہ
 درہ
 راوفہ
 رحیمہ
 زاہدہ
 سلیلہ
 سماویہ
 شریفہ
 شفیقہ
 صفیہ
 صوامہ
 عابدہ
 عالمہ
 عطوفہ
 عفیفہ
 عقیلہ
 فہیمہ
 قانتہ
 قانعہ
 قوامہ
 مجتہدہ
 ممتجبہ
 محترمہ
 محتشمہ
 مریم کبریٰ
 معظمہ
 مکرمہ
 منیرہ
 نوریہ۔
۸۱ تا ۱۴۲حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے القاب ابن شہر آشوب کے نزدیک
ابن شہر آشوب شیعوں کے ایک عظیم عالم گزرے ہیں، جنہوں نے اپنی عمر معارف اسلامی میں گزاردی ، چنانچہ آپ نے حضرت فاطمہ زہراؑ کی صفات بیان کی ہیں۔ جن میں سے ہم بعض کو یہاں بیان کررہے ہیں:
 ’’ قلنا الصدیقۃ بالاقوال
 والمبارکۃ بالاحوال
 والطاھرۃ بالافعال
 والزکیۃ بالعدالۃ
 الرضیۃ بالمقلۃ
 المرضیۃ بالدلالۃ
 والمحدثہ باشفقۃ
 والحرۃ بالنفقۃ
 والسیدۃ باصدقۃ
 و الحصان بالمکان
والبتول فی الزمان
والزھرا بالاحسان
مریم الکبریٰ فی الستر
 و فاطم باسر
 و فاطمۃ بالبر
 والنوریۃ بالشہادۃ
 والسماویۃ بالعبادۃ
 والحانیۃ ، باالزھادۃ
 والعذراء بالولادۃ
 الزاھدۃ الصفیۃ
 العابدۃ الرضیۃ
 المرضیۃ الراضیۃ
 المجتھدۃ الشریفۃ
 القانتۃ العفیفۃ
 سیدۃ النسوان
 والحبیبۃ حبیب الرحمن
 والمحتجبۃ عن خزان الجنان
 ابنۃ خیر المرسلین
 و قرۃ عین سیدہ الخلایق اجمعین
 وواسطۃ العقدین سیدات النساء العالمین
 و المتظلمۃ بین دی العرش یوم الدین
 ثمرۃ النبوۃ، و ام الائمۃ
 والزھرۃ فوائد شفیع الامۃ
 الزھراء المحترمۃ
 والغراء المحتشمۃ
 المکرمۃ تحت القبۃ الخضراء
و الانسیۃ الحوراء
 و البتول العذراء
ست النساء ( ای سیدتھن)
 وارثۃ سید الانبیاء
 و قرینۃ سید الاوصیاء
 الصدیقۃ الکبریٰ
راحۃ روح۱ المصطفی
 خاملۃ البلویٰ من غیر فزعٍ ولا شکوی
وصاحبۃ شجرۃ طوبیٰ
 و من انزل فی شانھا و شان زوجھا و اولادھا سورۃ ھل اتیٰ
 ابنۃ النبی
 و صاحبۃ الوصی
 ام السبطین
 وجدۃ الائمۃ
و سیدۃ نساء الدنیا و لآخرۃ
زوجۃ المرتضیٰ
 ووالدۃ المجتبی
 و ابنۃ المصطفی
 السیدۃ المفقودۃ
 الکریمۃ المظلومۃ من کل شر
 المعلومۃ بکل خیر
المنعونۃ فی الانجیل
الموصولۃ بالبر و التبجیل
 درۃ صاحب الوحی والتنزیل
 جدھا الخلیل
 و مادحھا الجلیل
 و خاطبھا المرتضیٰ بامر المولیٰ جبرئیل (فاطمہ زہرا بہجت قلب مصطفیٰ ، ج ۱، ص ۲۳، از المناقب ، ج ۳، ص ۳۵۷، و ۳۵۸)
۱۴۳تا ۱۷۹حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے القاب علامہ حلیؒ  کے نزدیک
 سلسلۃ النبوۃ
و رضیعۃ در الکرم الابوۃ
 و درۃ صدف الفخار،
 و غرۃ شمس النھار،
 و ذبالۃ مشکوٰۃ الانوار،
 و صفوۃ الشرف والجود ،
وواسطۃ قلادۃ الوجود،
نقطۃ دائرۃ المفاخر،
قمر ھالۃ المآثر،
 الزھرۃ الزھرا،
والغرۃ الغراء العالیۃ المحل ،
 الحالۃ فی رتبۃ العلاء السامیۃ ،
 المکانۃ المکینۃ فی عالم السماء المضیئۃ النور،
المنیرۃ الضیاء المستغینیۃ باسمھا عن حدھا ووسمھا،
قرۃ عین ابیھا،
 قرار قلب امھا،
 الحالیۃ بجواہر علاھا،
العاطلۃ من زخرف دنیاھا،
امۃ اللہ و سید النساء جمال الآباء
 و شرف الابناء یفخر آدم بمکانھا،
 و یبوح نوح بشدۃ شانھا ،
و یسمو ابراہیم بکونھا من نسلہ ،
 و ینجح اسماعیل علی اخوتہ ،
 اذ ھی فی مفخرا لا مغلب ،
 ولا یباریھا فی مجد الا مونب ،
 ولا یجحدحقھا الا مافون
ولا یصرف عنہ وجہ اخلاصہ الا مغبون۔ (کشف الغمہ ، ج۱، ص ۴۴۸)
آخر میں خدا وند عالم سے دعا ہے کہ ہمیں شہزادیٔ کونین کی معرفت اور ان کی سچی محبت ہمارے دلوں میں عطا فرمائے۔اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی اولادوں کے نام معصومینؑ کے ناموں پر رکھے تاکہ ان اسماء کی برکت سے ہم اہل بیت ؑ جیسے بن سکیں۔

3 تبصرے: