امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام
اور
آپؑ کی مظلومیت
سید محمدحسنین باقری جوراسی
۲۸؍صفروہ مصیبت کی تاریخ ہے جس دن ہم دومعصوموںسے محروم ہوئے ایک طرف رحمت اللعالمین حضرت محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی رحلت اوردوسری طرف آپ ؐکے نواسے،علی ؑو فاطمہ ؑکے نور نظر ،شیعوں کے دوسرے امام ،حضرت امام حسن مجتبیٰؑ نے بھی اسی دن معاویہ کے ذریعہ دیے گئے زہرسے شہادت پائی،لہذااسی مناسبت سے ہم ذیل میںامام مجتبیؑ کی شخصیت کے بارے میںحضرت آیۃاﷲسبحانی کے تحریرکردہ مقالہ سے بعض مطالب کا ترجمہ پیش کررہے ہیں:
امام حسن علیہ السلام نے ۱۵؍رمضان المبارک ۳ھ جمعہ ۲؍مارچ ۶۲۵ء کواپنے وجود پر نور سے اس دنیا کو منور فرمایا۔آپکے القاب :مجتبیٰ وزکی وغیرہ اورکنیت ابومحمدتھی ۔امام حسن ؑ کی ذات گرامی فضائل و کمالات کا نمونۂ کامل تھی ۔یہاں ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں آپؑ کی شخصیت پر بطور اختصار روشنی ڈالتے ہیں۔اورآخرمیںآپؑ کی مظلومیتوںمیںسے ایک مظلومیت کوبیان کریںگے یعنی معاویہ کے ذریعے دلوائے گئے زہرسے شہادت کاانکارجومسلمات تاریخ میںسے ہے اوراسکاہدف سوائے اسکے کچھ نہیںکہ امامؑ کی شخصیت کومجروح کرتے ہوئے آپؑ کی اہمیت کوکم کیاجائے اورخطاکاروقاتل ،معاویہ کے دامن سے اس دھبہ کومٹایاجائے۔
امام حسنؑ قرآن کی نگاہ میں:
الف:۔امام حسنؑ پیغمبرؐ کے فرزند ہیں :۔نصارائے نجران کے ساتھ مباہلہ کے سلسلے میں پیغمبرؐ کو حکم ہوا کہ ان کو مباہلہ کی دعوت دیں قرآن آپؐ کو حکم دیتا ہے کہ ان سے کہیں:
’’تعالوا ندع ابنائنا و ابنائکم ونسائنا و نسائکم و انفسنا و انفسکم ثم نبتھل۔۔۔(سورۂ آل عمران /۶۱)
(آؤ ہم اپنے بیٹوں کوبلائیں تم اپنے بیٹوںکو اور ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اور تم اپنی عورتوںکو اور ہم اپنی جانوں کوبلائیں اور تم اپنی جانوں کو) ۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ؐنے اپنے دونوں جگر کے ٹکڑوں یعنی امام حسنؑ اور امام حسینؑ اور اپنی بیٹی جناب فاطمہ زہرائؑ اور اپنے چچا زاد بھائی حضرت علیؑ کے ساتھ مباہلہ کے میدان میں قدم رکھا۔اس سے پتا چلتا ہے کہ امام حسن مجتبیٰؑ ’’ابنائنا‘‘کا مصداق ہیں یعنی پیغمبرؐ کے فرزند ہیں ۔
ب:۔امام حسن ؑ کی محبت اجر رسالت ہے :۔قرآن پیغمبرؐ کو حکم دیتا ہے کہ لوگوں سے کہیں:
’’قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربیٰ‘‘(سورہ ٔشوریٰ /۲۳)
(اے رسول تم کہہ دو کہ میں اس تبلیغ رسالت کا اپنے قرابت داروں (اہلبیتؑ) کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نہیںمانگتا۔) ’’القربیٰ‘‘ (قربتدار)سے مراد پیغمبرؐ کے قرابتدار ہیں :گویا: القربیٰ میں’’ال‘‘ مضاف الیہ کے بدلے میں ہے یعنی تقدیرآیت اس طرح ہے: ’’الا المودۃ فی القربای ‘‘
اگر کوئی یہ کہے کہ یہاں مراد ہے: ’’اجررسالت یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں سے محبت کرو نہ کہ پیغمبرؐ کے رشتہ داروں سے‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ: کلمۂ ’’القربیٰ‘‘قرآن میں ۱۶ ؍مرتبہ استعمال ہوا ہے اور اس میں کبھی اس سے مراد انسانوں کے رشتہ دار ہیں اور کبھی پیغمبرؐ کے ۔اب ان دونوں معنیٰ کو معین کرنا فعل سے یا ان قرائن سے تعلق رکھتا ہے جو مقصود و مراد کو معین کرتے ہیں مثال کے طور پر یہاں پر کہا ہے :
’’و اذا حضر القسمۃاولواالقربیٰ والیتٰمیٰ وا لمساکین فارزقوھم ‘‘(سورہ نساء /۸)
(اور جب ترکہ کی تقسیم کے وقت وہ قرابتدار جن کا کوئی حصہ نہیں اور یتیم بچے اور محتاج لوگ آجائیں تو ان کو بھی اس میں سے دے دو ۔)
یہاں قربیٰ سے مراد میت کے رشتہ دار ہیں،اب جو بھی ہوں؛ چونکہ موضوع سخن میت کے اموال کی تقسیم ہے۔ لیکن جہاں پر پیغمبرؐ سے خطاب ہے وہاں فطری طور پر آپ ؐکے رشتہ دار مراد ہیں اور اس آیت میں ارشاد ہے’’قل لا اسئلکم علیہ اجرا ۔۔۔‘‘اور دوسری آیت میں ارشاد ہے ’’وآت ذا القربیٰ حقہ۔۔۔‘‘( سورۂ بنی اسرائیل؍ ۲۶)اور قرابتداروں کو ان کا حق دے دو ۔اب چونکہ دونوں آیتوں میں پیغمبر ؐسے خطاب ہے لہذا یقینی طور پر آپؐ کے قرابتدار ہی مراد ہیں۔اور امام حسن، ؑ پیغبرؐ کے قرابتدار ہیں لہذا ٓپؑ کی محبت اجر رسالت ہے۔
ج:۔ امام حسنؑ کی عصمت و طہارت:۔قرآن کر یم ،اہلبیت ؑ کی عصمت وطہارت کی تصریح کر رہا ہے ،بیان ہو رہا ہے :ـ
’’انما یرید اللہ لیذھب عنکم الر جس اھل البیت ؑو یطہرکم تطھیرا ‘‘(سورۂ احزاب ـ: ۳۳)
(ا ے پیغمبرؐ کے اہلبیتؑ ،خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو ہر طرح کی برائی سے دور رکھے اور جو پاک وپاکیز ہ رکھنے کاحق ہے ویسا پاک وپاکیزہ رکھے۔) یہا ں اہلبیتؑ سے مراد یہی پنجتن پاکؑ ہیں جن کو پیغمبرؐ نے کساء کے نیچے قرار دے کر فرمایا :
’’ اللھمّ انّ لکلّ نبی اھلبیت وھٰؤلاء اھل بیتی ‘‘ (پروردگارا ہر پیغمبرؐ کے اہل بیتؑ ہیں اور یہ میرے اھلبیتؑ ہیں)
اس بیت سے مراد اینٹے و سمینٹ کا گھر نہیںہے بلکہ وحی و رسالت کا گھر مرادہے اور اہل سے مراد وہ لوگ ہیںجو اس گھر کے ساتھ معنوی تعلق رکھتے ہیں۔ اور یہاں پیغمبر کی بیویاں مراد نہیں ہیںاس لئے کہ جہاں پر قرآن مجید پیغمبر ؐکی بیویوں کے سلسلے میں گفتگو کرتا ہے وہاں لفظ ’’بیت‘‘کو جمع کی صورت میں استعمال کر تا ہے اور ارشاد ہوتا ہے :’’و قرن فی بیوتکن۔۔۔‘‘(سورۂ احزاب /۳۳)اے نبی کی بی بیوں اپنے گھروں میں بیٹھی رہو۔’’واذکرن ما یتلیٰ فی بیوتکن۔۔۔‘‘(احزاب/ ۳۴ )جبکہ زیر بحث آیت میں بیت ، مفرد کی صورت میں استعمال ہوا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ گھران گھر وں کے علا و ہ ہے اور اس گھر کے رہنے والے ان گھر وں کے رہنے والوں کے علاوہ ہیں ـ۔
د:۔ سورہ ٔدہراورامام حسنؑ:۔مفسرین کی تصدیق کے مطا بق سورہ دہر (جسے سورہ انسان یا سورہ ھل أتیٰ بھی کہا جاتا ہے )کی بعض آیتیں پیغمبرؐاسلام کی بیٹی اور ان کے شوہر اور دو جگر کے ٹکڑوں حسنؑ وحسینؑ کے بارے میںنازل ہوئی ہیںخداوندعالم ان کی کی ہوئی نذر کو انجام دینے کی وجہ سے اس طرح توصیف فرمارہاہے :
’’یوفون بالنذر و یخافون یوما کان شرہ مستطیرا و یطعمون الطعام علیٰ حبہ مسکینا و یتیما واسیرا‘‘ (سورۂ دہر / ۷۔۸)
( وہ لوگ جو نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے جس کی سختی ہر طرف پھیلی ہوگی ڈرتے ہیں اور اس کی محبت میں محتاج اور یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔)
امام حسن ؑاحادیث کی روشنی میں: ۱:۔ابن مسعود اور ابو ہریرہ کا بیان ہے :ہم نے رسول ؐخدا کو دیکھا کہ حسن ؑو حسین ؑکو اپنے دونوں کاندھوںپر سوار کئے کبھی حسنؑ اور کبھی حسینؑ کو چومتے ہیں ۔ ایک شخص نے پوچھا:کیا آپ ان دونوں سے محبت کرتے ہیں!فرمایا:’’من احب الحسنؑ والحسینؑ فقد احبنی ومن ابغضھما فقد ابغضنی‘‘ (مسند احمد حنبل ج۲،ص۵۳۱و۵۳۲؛مستدرک حاکم نیشاپوری،ج۳،ص۱۷۱)
(جس نے حسنؑ و حسین ؑسے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی۔)
۲:۔ابو سعید خدری اور ابن عباس و حذیفہ نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر ؐنے فرمایا:’’الحسن ؑو الحسینؑ سیدا شباب اہل الجنۃ‘‘(مسند احمد حنبل ،ج۳، ص:۶۲و ۶۳تھذیب الکمال ج۶ ،ص۲۲۹) (حسنؑ و حسینؑ جوانان جنت کے سردار ہیں۔)
۳:۔عبد اللہ شبراوی اپنی کتاب الاتحاف بحب الاشراف میں امیر المومنینؑ سے ایک مفصل حدیث نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر ؐنے امام حسنؑ ؑو امام حسینؑ کو خطاب کرکے فرمایا:’’انتما الامامان و لأ مّکماالشفاعۃ‘‘ ( الاتحاف بحب الاشراف ص۱۲۹)
(تم دونوں امت کے پیشوا اور امام ہو اور تمہاری ماں حق شفاعت رکھتی ہیں۔)
۴:۔ابن شہر آشوب پیغمبرؐاکرم سے نقل کرتے ہیںکہ آپ نے فرمایا:’’الحسن ؑو الحسینؑ امامان،قاما او قعدا‘‘ ( مناقب ابن شہر آشوب،ج۳ ،ص۳۶۸) (حسنؑ و حسینؑ امت کے دو امام اور پیشوا ہیں چاہے قیام کریں یا خانہ نشین ہوں۔)
امام حسن علیہ السلام کی مظلومیت
اب یہاںپرامام حسنؑ کی ایک مظلومیت بیان کی جاتی ہے،اگرچہ تمام ائمہ ہمیشہ مظلوم رہے چاہے انکی حیات کازمانہ ہویاشہادت کے بعدکا،ہردورمیں ان پرہرطرح کے ظلم ڈھائے گئے۔ہمیشہ ائمہؑ کی شخصیت کومجروح کرنے کی ناکام کوششیںہوتی رہیں،ہرطریقے سے انکونقصان پہونچانے یاان پرالزام لگانے کے حربے استعمال ہوتے رہے۔امام حسنؑ کی دوسری مظلومیتوںکے ساتھ ایک مظلومیت یہ بھی رہی کہ معاویہ کے ذریعے دلوائے گئے زہرسے آپؑ کی شہادت کوطبیعی موت کے طورپرپیش کیاگیاتاکہ معاویہ کے جرم پرپردہ ڈالاجاسکے جبکہ یہ واقعہ تاریخ کے مسلمات میںسے ہے کہ آپؑ کی شہادت اس زہرکے ذریعہ ہوئی جسے معاویہ نے جعدہ بنت اشعث کے ذریعے دلوایا۔اورحقیقت پرپردہ ڈالنے کی کوشش اورمجرم کی تطہیرآٹھویںصدی ہجری سے شروع ہوئی۔ہم یہاںپربعض ایسے متعصب اورمسموم مصنفین کی طرف اشارہ کررہے ہیںجنھوںنے یہ کام انجام دیا۔
۱۔ابن خلدون(متوفی۸۰۸ھ)وہ پہلاشخص ہے جس کومشرق اسلامی اورتاریخی مآخذسے دوری اورسرزمین مصرومغرب پرفاطمی حکومتوںسے دشمنی کی بناء پرمعاویہ کی تطہیرکی فکرہوئی ۔وہ کہتاہے:ومایُنقل من أنّ معاویۃدسّ إلیہ السّمَّ من زوجتہ جَعدۃبنت الاشعث،فھومن أحادیث الشیعۃ،و حاشالمعاویۃمن ذلک (ابن خلدون،کتاب العبر،ج۲،ص۱۸۷)(اوریہ جوکہاجاتاہے کہ معاویہ نے امام حسنؑ کوانکی زوجہ جعدہ بنت اشعث کے ذریعے زہردلوایاتویہ صرف شیعوںکاکہناہے اورمعاویہ کادامن اس نسبت سے پاک ہے۔ )
۲۔ابن خلدون کے بعددوسروںنے اس بات کوصحیح جانااور مسیحیوںکے ذریعے لکھی گئی اسلامی انسائیکلوپیڈیامیںاس طرح بیان ہواہے:’’وتوفی الحسن فيالمدینۃبذات الرئۃوربماکان وفاتہ عام ۴۹بالغًامن العمرالخامسۃوالأربعین‘‘(دائرۃالمعارف الإسلامیۃ،ج۷،ص۴۰۲) (حسن بن علیؑ کی وفات ذات الریہ کی بیماری کی وجہ سے مدینے میںہوئی،اوریہ واقعہ۴۹ھ میں۴۵سال کی عمرمیںپیش آیا)
دائرۃالمعارف کے مصنف کے پاس اسکے اس نظریے کی کوئی دلیل نہیںہے اسکے علاوہ شہادت کے وقت آپؑ کی عمرمبارک۴۷یا۴۸سال تھی اسلئے کہ ۲ یا ۳ ہجری میںآپؑ کی ولادت ہوئی ہے۔
بہرصورت ایک مغربی عیسائی مصنف لامنس سے اس سے زیادہ کی توقع نہیںکی جاسکتی۔یہ غلطی اسلامی مصنفین کی ہے جنھوںنے میدان کوچھوڑتے ہوئے اسلام کے بارے میںانسائیکلوپیڈیاکالکھنامغربیوںکے حوالے کردیا۔اگرچہ سناجاتاہے کہ علامہ مغنیہ مرحوم نے اس دائرۃالمعارف پرنقدلکھاہے اورچاہاہے کہ دوسرے ایڈیشن میںموردنظرنکات کی اصلاح کی جائے۔
۳۔مصرکے مشہورمورخ ڈاکٹرحسن ابراہیم حسن نے اپنی کتاب تاریخ الاسلام السیاسی میںاس نظریے کی پیروی کرتے ہوئے لکھاہے:’’حسن بن علیؑ عراق سے مدینے واپسی کے چالیس دن بعداپنی طبعی موت مرے‘‘۔(تاریخ الإسلام السیاسی،ج۱،ص۳۹۸)
صرف یہی تین افرادنہیںجنھوںنے یہ نظریہ پیش کیاہوبلکہ اسکے علاوہ بھی بہت سے افرادہیںجنھوںنے اسی طرح حقیقت پرپردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے مثلاًمحمداسعدنے اپنی کتاب میںاس نظریے کواختیار کرتے ہوئے لکھاہے:’’حسن بن علیؑ صلح کے بعدمدینے واپس آگئے،اس سفرکودومہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ حضرت اس دنیاسے رخصت ہوئے‘‘(تاریخ الأمۃالعربیۃ،ص۹۔۱۶)
محمداسعدکی معلومات کااندازہ امام حسنؑ کی تاریخ شہادت کی تعیین سے لگایاجاسکتاہے۔یہ لوگ اھل بیتؑ کی زندگی کے بارے میںواضح اورآسان واقعات سے بھی آگاہ نہیںہیںاوربغیرکسی دلیل کوپیش کئے ہوئے تاریخی حقائق میںتردیدکااظہارکرتے ہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاویہ کے ذریعے امام حسنؑ کوزہردیاجاناتاریخ کے مسلمات میںسے ہے اوراس بات کوصرف شیعہ علماء ہی نہیںبلکہ اہل سنت کے بہت سے بزرگ علماء ومورخین نے نقل کیاہے جن بزرگ اسلامی مورخین نے اس حقیقت کوبیان کیاہے ان میںسے بعض کی طرف اشارہ کیاجارہاہے تفصیل کے لئے علامہ امینی کی کتاب الغدیر کی گیارھویںجلدکی طرف مراجعہ کیاجائے:
۱۔محمدبن سعداپنی کتاب طبقات میںکہتے ہیں:’’سمّہ معاویۃمرارًا۔۔۔‘‘(تتمیم طبقات ابن سعد،ج۱،ص۳۵۲،حدیث۳۱۵)(معاویہ نے متعددمرتبہ امام حسنؑ کوزہردیا تھا)
۲۔ابن کثیرنے۴۹ھ کے واقعات کے ذیل واقدی سے نقل کرتے ہوئے لکھاہے:’’انّہ سقی سمًّاثمّ أُفلت ثمّ سُقيفأفلت،ثمّ کانت الآخر ۃتوفی فیھا‘‘(تاریخ ابن کثیر،ج۸،ص۴۳۴،۴۹ھکے واقعات کے ذیل میں)(آپؑ تین مرتبہ مسموم ہوئے اورآخری مرتبہ زہرآپؑ کی وفات کاسبب بنا)
۳۔مسعودی نے مروج الذھب میںلکھاہے:جب حسن بن علیؑ مسموم ہوئے آپ کے بھائی حسین بن علی ملاقات کے لئے تشریف لائے۔آپ نے بھائی سے فرمایا:لقدسُقیتُ السمَّ عدّۃمرارًافماسُقیتُ مثل ھذہ‘‘میںمتعددمرتبہ مسموم ہواہوںلیکن زہرکبھی اتناسخت نہیںتھا(مروج الذھب،ج۲،ص۵۰)
۴۔ابوالفرج اصفہانی کاکہناہے:’’امام مجتبیؑ اورمعاویہ کے درمیان صلح نامے کے مواردمیںسے ایک موردیہ تھاکہ معاویہ اپنے بعدکسی کوخلیفہ معین نہیںکرے گالیکن چونکہ وہ چاہتاتھاکہ اس کابیٹایزیداسکاجانشین بنے اوروہ خودلوگوںسے بیعت لے اس لئے اشعث کی بیٹی کے پاس پیغام بھیجاکہ میںاپنے بیٹے یزیدکی شادی تجھ سے کردوںگابشرطیکہ حسن ؑبن علیؑ کوزہردیدے۔اورمعاویہ نے اس کام کے لئے ایک لاکھ درہم اشعث کی بیٹی کودیے۔بنت اشعث نے معاویہ کی چال میںآکرحضرت ؑکوزہردیالیکن اس نے اپنے وعدہ پرعمل نہیںکیا‘‘۔(مقاتل الطالبین،ص۸۰)
۵۔ابوالحسن مدائنی کاکہناہے کہ’’ آنحضرت ؑنے۴۹ھمیں۴۷سال کی عمرمیںوفات پائی اورچالیس دن تک بستربیماری پررہے اسلئے کہ معاویہ نے پوشیدہ طورپرجعدہ بنت اشعث کے ذریعہ زہردیاتھا۔اوراس کام کی تشویق کے لئے اس سے وعدہ کیاکہ اپنے بیٹے یزیدکی شادی اس سے کرے گالیکن بعدمیںاپنے وعدے پرعمل نہیںکیاجب جعدہ نے معاویہ کوپیغام بھیجااوراس سے وعدے پرعمل کرنے کامطالبہ کیاتومعاویہ نے جواب میںکہا:جوکام تونے حسنؑ بن علیؑ کے ساتھ کیامجھے خوف ہے کہ کہیںوہی کام تومیرے بیٹے کے ساتھ نہ کرے‘‘۔(شرح نھج البلاغہ،ابن ابی الحدید،ج۱۶،ص۱۱)
۶۔ابن عبدالبرنے لکھاہے کہ قتادہ اورابوبکربن حفص کہتے ہیں:’’حسن بن علیؑ کوززہردیاگیا۔اوریہ کام آپ کی زوجہ بنت اشعث نے کیااوربعض لوگ کہتے ہیںکہ یہ کام معاویہ کی چال سے انجام پایا۔چونکہ اس کام پراس عورت کی تشویق کی اورایک رقم اسکو دی‘‘(الاستیعاب،ج۱،ص۳۸۹،نمبر۵۵۵)
۷۔سبط ابن جوزی کہتے ہیں:’’علمائے سیرہ کے مطابق آپ کی زوجہ جعدہ بنت اشعث نے آپ کوزہردیا،یزیدبن معاویہ نے اس سے کہلوایا کہ اگرانکوزہردیدوتومیںتجھ سے شادی کرلوںگا۔لیکن شعبی کاکہناہے کہ:دراصل یہ معاویہ کی چال تھی اسی نے جعدہ کویہ پیغام بھیجااوررقم اسکے حوالے کی ۔اسی وجہ سے امام مجتبیؑ نے اس منصوبے سے مطلع ہونے اورمسموم ہونے کے بعداپنی بیوی سے فرمایا:کہ ہرگزمعاویہ اپنے وعدے پرعمل نہیںکریگا‘‘(تذکرۃالخواص،ص۲۱۱)
۸۔ابن عساکرنے اپنی تاریخ میںلکھاہے:’’حسن بن علیؑ متعددمرتبہ مسموم ہوئے،آخری مرتبہ زہرنے اپنااثردکھایا۔کہاجاتاہے کہ معاویہ نے چال بازی سے آپؑ کے بعض نوکروں کو فریب دیا کہ آپکو زہر دیں ۔محمد بن مرزبان کا کہنا ہے کہ جعدہ بنت اشعث نے اس کام کوانجام دیا‘‘۔(تاریخ مدینۃدمشق،ص۲۱۱)
۹۔مزّی نے ام بکر بنت المسورسے نقل کیا ہے کہ’’ حسن بن علی ؑمتعدد مرتبہ مسموم ہو ئے اور آخری مرتبہ میں وفات پائی۔لوگوں نے عبداﷲبن الحسن کو کہتے سنا کہ معاویہ نے آپ کے خدمت گزاروں کو چالبازی سے فریب دیکر مسموم کیا ۔آپ نے زہر کی حالت میں چالیس دن کاٹے اور وفات پائی‘‘۔(تھذیب الکمال،ج۶،ص۲۵۲،ح۱۲۴۸)
۱۰۔زمخشری نے لکھا ہے:’’معاویہ نے جعدہ کو ایک لاکھ درہم دیاکہ حسن بن علی ؑکو زہر دے‘‘۔(ربیع الابرار،ج۴،ص۲۰۸)
۱۱۔ابن عبدربہ کا کہنا ہے کہ :’’جب حسن بن علی ؑکی وفات کی خبر معاویہ تک پہونچی تو اس نے سجدہ کیاپھر ابن عباس کے پاس ایک آدمی بھیجا کہ انکو تعزیت پیش کرے جبکہ وہ خودمسرور تھا‘‘۔(العقدالفرید،ج۴،ص۱۵۶)
جن علما ئے اہل سنت نے معاویہ کی مکاّری وچالبازی کے ذریعے حضرت ؑکو زہر دیے جانے کی تصریح کی ہے انکی تعدادمندرجہ بالاافراد سے کہیں زیادہ ہے اس سلسلے میںمزیدمعلومات کے لئے مندرجہ ذیل کتابوںکی طرف رجوع کیاجاسکتاہے:(انساب الاشراف،بلاذری،ص۵۹؛الفصول المھمۃ،ابن صباغ مالکی،ص۱۴۶؛مستدرک،حاکم نیشاپوری،ج۳،ص۱۷۶؛تاریخ الخلفائ،سیوطی،ص۹۴)
اوراگراس گروہ کے ساتھ شیعہ مورخین کابھی اضافہ کریںتوروئے زمین پربدترین شخص کے ہاتھوںآنحضرتؑ کی مسمومیت تواترکی حدتک پہونچ جائے گی۔
اور
آپؑ کی مظلومیت
سید محمدحسنین باقری جوراسی
۲۸؍صفروہ مصیبت کی تاریخ ہے جس دن ہم دومعصوموںسے محروم ہوئے ایک طرف رحمت اللعالمین حضرت محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی رحلت اوردوسری طرف آپ ؐکے نواسے،علی ؑو فاطمہ ؑکے نور نظر ،شیعوں کے دوسرے امام ،حضرت امام حسن مجتبیٰؑ نے بھی اسی دن معاویہ کے ذریعہ دیے گئے زہرسے شہادت پائی،لہذااسی مناسبت سے ہم ذیل میںامام مجتبیؑ کی شخصیت کے بارے میںحضرت آیۃاﷲسبحانی کے تحریرکردہ مقالہ سے بعض مطالب کا ترجمہ پیش کررہے ہیں:
امام حسن علیہ السلام نے ۱۵؍رمضان المبارک ۳ھ جمعہ ۲؍مارچ ۶۲۵ء کواپنے وجود پر نور سے اس دنیا کو منور فرمایا۔آپکے القاب :مجتبیٰ وزکی وغیرہ اورکنیت ابومحمدتھی ۔امام حسن ؑ کی ذات گرامی فضائل و کمالات کا نمونۂ کامل تھی ۔یہاں ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں آپؑ کی شخصیت پر بطور اختصار روشنی ڈالتے ہیں۔اورآخرمیںآپؑ کی مظلومیتوںمیںسے ایک مظلومیت کوبیان کریںگے یعنی معاویہ کے ذریعے دلوائے گئے زہرسے شہادت کاانکارجومسلمات تاریخ میںسے ہے اوراسکاہدف سوائے اسکے کچھ نہیںکہ امامؑ کی شخصیت کومجروح کرتے ہوئے آپؑ کی اہمیت کوکم کیاجائے اورخطاکاروقاتل ،معاویہ کے دامن سے اس دھبہ کومٹایاجائے۔
امام حسنؑ قرآن کی نگاہ میں:
الف:۔امام حسنؑ پیغمبرؐ کے فرزند ہیں :۔نصارائے نجران کے ساتھ مباہلہ کے سلسلے میں پیغمبرؐ کو حکم ہوا کہ ان کو مباہلہ کی دعوت دیں قرآن آپؐ کو حکم دیتا ہے کہ ان سے کہیں:
’’تعالوا ندع ابنائنا و ابنائکم ونسائنا و نسائکم و انفسنا و انفسکم ثم نبتھل۔۔۔(سورۂ آل عمران /۶۱)
(آؤ ہم اپنے بیٹوں کوبلائیں تم اپنے بیٹوںکو اور ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اور تم اپنی عورتوںکو اور ہم اپنی جانوں کوبلائیں اور تم اپنی جانوں کو) ۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ؐنے اپنے دونوں جگر کے ٹکڑوں یعنی امام حسنؑ اور امام حسینؑ اور اپنی بیٹی جناب فاطمہ زہرائؑ اور اپنے چچا زاد بھائی حضرت علیؑ کے ساتھ مباہلہ کے میدان میں قدم رکھا۔اس سے پتا چلتا ہے کہ امام حسن مجتبیٰؑ ’’ابنائنا‘‘کا مصداق ہیں یعنی پیغمبرؐ کے فرزند ہیں ۔
ب:۔امام حسن ؑ کی محبت اجر رسالت ہے :۔قرآن پیغمبرؐ کو حکم دیتا ہے کہ لوگوں سے کہیں:
’’قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربیٰ‘‘(سورہ ٔشوریٰ /۲۳)
(اے رسول تم کہہ دو کہ میں اس تبلیغ رسالت کا اپنے قرابت داروں (اہلبیتؑ) کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نہیںمانگتا۔) ’’القربیٰ‘‘ (قربتدار)سے مراد پیغمبرؐ کے قرابتدار ہیں :گویا: القربیٰ میں’’ال‘‘ مضاف الیہ کے بدلے میں ہے یعنی تقدیرآیت اس طرح ہے: ’’الا المودۃ فی القربای ‘‘
اگر کوئی یہ کہے کہ یہاں مراد ہے: ’’اجررسالت یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں سے محبت کرو نہ کہ پیغمبرؐ کے رشتہ داروں سے‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ: کلمۂ ’’القربیٰ‘‘قرآن میں ۱۶ ؍مرتبہ استعمال ہوا ہے اور اس میں کبھی اس سے مراد انسانوں کے رشتہ دار ہیں اور کبھی پیغمبرؐ کے ۔اب ان دونوں معنیٰ کو معین کرنا فعل سے یا ان قرائن سے تعلق رکھتا ہے جو مقصود و مراد کو معین کرتے ہیں مثال کے طور پر یہاں پر کہا ہے :
’’و اذا حضر القسمۃاولواالقربیٰ والیتٰمیٰ وا لمساکین فارزقوھم ‘‘(سورہ نساء /۸)
(اور جب ترکہ کی تقسیم کے وقت وہ قرابتدار جن کا کوئی حصہ نہیں اور یتیم بچے اور محتاج لوگ آجائیں تو ان کو بھی اس میں سے دے دو ۔)
یہاں قربیٰ سے مراد میت کے رشتہ دار ہیں،اب جو بھی ہوں؛ چونکہ موضوع سخن میت کے اموال کی تقسیم ہے۔ لیکن جہاں پر پیغمبرؐ سے خطاب ہے وہاں فطری طور پر آپ ؐکے رشتہ دار مراد ہیں اور اس آیت میں ارشاد ہے’’قل لا اسئلکم علیہ اجرا ۔۔۔‘‘اور دوسری آیت میں ارشاد ہے ’’وآت ذا القربیٰ حقہ۔۔۔‘‘( سورۂ بنی اسرائیل؍ ۲۶)اور قرابتداروں کو ان کا حق دے دو ۔اب چونکہ دونوں آیتوں میں پیغمبر ؐسے خطاب ہے لہذا یقینی طور پر آپؐ کے قرابتدار ہی مراد ہیں۔اور امام حسن، ؑ پیغبرؐ کے قرابتدار ہیں لہذا ٓپؑ کی محبت اجر رسالت ہے۔
ج:۔ امام حسنؑ کی عصمت و طہارت:۔قرآن کر یم ،اہلبیت ؑ کی عصمت وطہارت کی تصریح کر رہا ہے ،بیان ہو رہا ہے :ـ
’’انما یرید اللہ لیذھب عنکم الر جس اھل البیت ؑو یطہرکم تطھیرا ‘‘(سورۂ احزاب ـ: ۳۳)
(ا ے پیغمبرؐ کے اہلبیتؑ ،خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو ہر طرح کی برائی سے دور رکھے اور جو پاک وپاکیز ہ رکھنے کاحق ہے ویسا پاک وپاکیزہ رکھے۔) یہا ں اہلبیتؑ سے مراد یہی پنجتن پاکؑ ہیں جن کو پیغمبرؐ نے کساء کے نیچے قرار دے کر فرمایا :
’’ اللھمّ انّ لکلّ نبی اھلبیت وھٰؤلاء اھل بیتی ‘‘ (پروردگارا ہر پیغمبرؐ کے اہل بیتؑ ہیں اور یہ میرے اھلبیتؑ ہیں)
اس بیت سے مراد اینٹے و سمینٹ کا گھر نہیںہے بلکہ وحی و رسالت کا گھر مرادہے اور اہل سے مراد وہ لوگ ہیںجو اس گھر کے ساتھ معنوی تعلق رکھتے ہیں۔ اور یہاں پیغمبر کی بیویاں مراد نہیں ہیںاس لئے کہ جہاں پر قرآن مجید پیغمبر ؐکی بیویوں کے سلسلے میں گفتگو کرتا ہے وہاں لفظ ’’بیت‘‘کو جمع کی صورت میں استعمال کر تا ہے اور ارشاد ہوتا ہے :’’و قرن فی بیوتکن۔۔۔‘‘(سورۂ احزاب /۳۳)اے نبی کی بی بیوں اپنے گھروں میں بیٹھی رہو۔’’واذکرن ما یتلیٰ فی بیوتکن۔۔۔‘‘(احزاب/ ۳۴ )جبکہ زیر بحث آیت میں بیت ، مفرد کی صورت میں استعمال ہوا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ گھران گھر وں کے علا و ہ ہے اور اس گھر کے رہنے والے ان گھر وں کے رہنے والوں کے علاوہ ہیں ـ۔
د:۔ سورہ ٔدہراورامام حسنؑ:۔مفسرین کی تصدیق کے مطا بق سورہ دہر (جسے سورہ انسان یا سورہ ھل أتیٰ بھی کہا جاتا ہے )کی بعض آیتیں پیغمبرؐاسلام کی بیٹی اور ان کے شوہر اور دو جگر کے ٹکڑوں حسنؑ وحسینؑ کے بارے میںنازل ہوئی ہیںخداوندعالم ان کی کی ہوئی نذر کو انجام دینے کی وجہ سے اس طرح توصیف فرمارہاہے :
’’یوفون بالنذر و یخافون یوما کان شرہ مستطیرا و یطعمون الطعام علیٰ حبہ مسکینا و یتیما واسیرا‘‘ (سورۂ دہر / ۷۔۸)
( وہ لوگ جو نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے جس کی سختی ہر طرف پھیلی ہوگی ڈرتے ہیں اور اس کی محبت میں محتاج اور یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔)
امام حسن ؑاحادیث کی روشنی میں: ۱:۔ابن مسعود اور ابو ہریرہ کا بیان ہے :ہم نے رسول ؐخدا کو دیکھا کہ حسن ؑو حسین ؑکو اپنے دونوں کاندھوںپر سوار کئے کبھی حسنؑ اور کبھی حسینؑ کو چومتے ہیں ۔ ایک شخص نے پوچھا:کیا آپ ان دونوں سے محبت کرتے ہیں!فرمایا:’’من احب الحسنؑ والحسینؑ فقد احبنی ومن ابغضھما فقد ابغضنی‘‘ (مسند احمد حنبل ج۲،ص۵۳۱و۵۳۲؛مستدرک حاکم نیشاپوری،ج۳،ص۱۷۱)
(جس نے حسنؑ و حسین ؑسے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی۔)
۲:۔ابو سعید خدری اور ابن عباس و حذیفہ نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر ؐنے فرمایا:’’الحسن ؑو الحسینؑ سیدا شباب اہل الجنۃ‘‘(مسند احمد حنبل ،ج۳، ص:۶۲و ۶۳تھذیب الکمال ج۶ ،ص۲۲۹) (حسنؑ و حسینؑ جوانان جنت کے سردار ہیں۔)
۳:۔عبد اللہ شبراوی اپنی کتاب الاتحاف بحب الاشراف میں امیر المومنینؑ سے ایک مفصل حدیث نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر ؐنے امام حسنؑ ؑو امام حسینؑ کو خطاب کرکے فرمایا:’’انتما الامامان و لأ مّکماالشفاعۃ‘‘ ( الاتحاف بحب الاشراف ص۱۲۹)
(تم دونوں امت کے پیشوا اور امام ہو اور تمہاری ماں حق شفاعت رکھتی ہیں۔)
۴:۔ابن شہر آشوب پیغمبرؐاکرم سے نقل کرتے ہیںکہ آپ نے فرمایا:’’الحسن ؑو الحسینؑ امامان،قاما او قعدا‘‘ ( مناقب ابن شہر آشوب،ج۳ ،ص۳۶۸) (حسنؑ و حسینؑ امت کے دو امام اور پیشوا ہیں چاہے قیام کریں یا خانہ نشین ہوں۔)
امام حسن علیہ السلام کی مظلومیت
اب یہاںپرامام حسنؑ کی ایک مظلومیت بیان کی جاتی ہے،اگرچہ تمام ائمہ ہمیشہ مظلوم رہے چاہے انکی حیات کازمانہ ہویاشہادت کے بعدکا،ہردورمیں ان پرہرطرح کے ظلم ڈھائے گئے۔ہمیشہ ائمہؑ کی شخصیت کومجروح کرنے کی ناکام کوششیںہوتی رہیں،ہرطریقے سے انکونقصان پہونچانے یاان پرالزام لگانے کے حربے استعمال ہوتے رہے۔امام حسنؑ کی دوسری مظلومیتوںکے ساتھ ایک مظلومیت یہ بھی رہی کہ معاویہ کے ذریعے دلوائے گئے زہرسے آپؑ کی شہادت کوطبیعی موت کے طورپرپیش کیاگیاتاکہ معاویہ کے جرم پرپردہ ڈالاجاسکے جبکہ یہ واقعہ تاریخ کے مسلمات میںسے ہے کہ آپؑ کی شہادت اس زہرکے ذریعہ ہوئی جسے معاویہ نے جعدہ بنت اشعث کے ذریعے دلوایا۔اورحقیقت پرپردہ ڈالنے کی کوشش اورمجرم کی تطہیرآٹھویںصدی ہجری سے شروع ہوئی۔ہم یہاںپربعض ایسے متعصب اورمسموم مصنفین کی طرف اشارہ کررہے ہیںجنھوںنے یہ کام انجام دیا۔
۱۔ابن خلدون(متوفی۸۰۸ھ)وہ پہلاشخص ہے جس کومشرق اسلامی اورتاریخی مآخذسے دوری اورسرزمین مصرومغرب پرفاطمی حکومتوںسے دشمنی کی بناء پرمعاویہ کی تطہیرکی فکرہوئی ۔وہ کہتاہے:ومایُنقل من أنّ معاویۃدسّ إلیہ السّمَّ من زوجتہ جَعدۃبنت الاشعث،فھومن أحادیث الشیعۃ،و حاشالمعاویۃمن ذلک (ابن خلدون،کتاب العبر،ج۲،ص۱۸۷)(اوریہ جوکہاجاتاہے کہ معاویہ نے امام حسنؑ کوانکی زوجہ جعدہ بنت اشعث کے ذریعے زہردلوایاتویہ صرف شیعوںکاکہناہے اورمعاویہ کادامن اس نسبت سے پاک ہے۔ )
۲۔ابن خلدون کے بعددوسروںنے اس بات کوصحیح جانااور مسیحیوںکے ذریعے لکھی گئی اسلامی انسائیکلوپیڈیامیںاس طرح بیان ہواہے:’’وتوفی الحسن فيالمدینۃبذات الرئۃوربماکان وفاتہ عام ۴۹بالغًامن العمرالخامسۃوالأربعین‘‘(دائرۃالمعارف الإسلامیۃ،ج۷،ص۴۰۲) (حسن بن علیؑ کی وفات ذات الریہ کی بیماری کی وجہ سے مدینے میںہوئی،اوریہ واقعہ۴۹ھ میں۴۵سال کی عمرمیںپیش آیا)
دائرۃالمعارف کے مصنف کے پاس اسکے اس نظریے کی کوئی دلیل نہیںہے اسکے علاوہ شہادت کے وقت آپؑ کی عمرمبارک۴۷یا۴۸سال تھی اسلئے کہ ۲ یا ۳ ہجری میںآپؑ کی ولادت ہوئی ہے۔
بہرصورت ایک مغربی عیسائی مصنف لامنس سے اس سے زیادہ کی توقع نہیںکی جاسکتی۔یہ غلطی اسلامی مصنفین کی ہے جنھوںنے میدان کوچھوڑتے ہوئے اسلام کے بارے میںانسائیکلوپیڈیاکالکھنامغربیوںکے حوالے کردیا۔اگرچہ سناجاتاہے کہ علامہ مغنیہ مرحوم نے اس دائرۃالمعارف پرنقدلکھاہے اورچاہاہے کہ دوسرے ایڈیشن میںموردنظرنکات کی اصلاح کی جائے۔
۳۔مصرکے مشہورمورخ ڈاکٹرحسن ابراہیم حسن نے اپنی کتاب تاریخ الاسلام السیاسی میںاس نظریے کی پیروی کرتے ہوئے لکھاہے:’’حسن بن علیؑ عراق سے مدینے واپسی کے چالیس دن بعداپنی طبعی موت مرے‘‘۔(تاریخ الإسلام السیاسی،ج۱،ص۳۹۸)
صرف یہی تین افرادنہیںجنھوںنے یہ نظریہ پیش کیاہوبلکہ اسکے علاوہ بھی بہت سے افرادہیںجنھوںنے اسی طرح حقیقت پرپردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے مثلاًمحمداسعدنے اپنی کتاب میںاس نظریے کواختیار کرتے ہوئے لکھاہے:’’حسن بن علیؑ صلح کے بعدمدینے واپس آگئے،اس سفرکودومہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ حضرت اس دنیاسے رخصت ہوئے‘‘(تاریخ الأمۃالعربیۃ،ص۹۔۱۶)
محمداسعدکی معلومات کااندازہ امام حسنؑ کی تاریخ شہادت کی تعیین سے لگایاجاسکتاہے۔یہ لوگ اھل بیتؑ کی زندگی کے بارے میںواضح اورآسان واقعات سے بھی آگاہ نہیںہیںاوربغیرکسی دلیل کوپیش کئے ہوئے تاریخی حقائق میںتردیدکااظہارکرتے ہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاویہ کے ذریعے امام حسنؑ کوزہردیاجاناتاریخ کے مسلمات میںسے ہے اوراس بات کوصرف شیعہ علماء ہی نہیںبلکہ اہل سنت کے بہت سے بزرگ علماء ومورخین نے نقل کیاہے جن بزرگ اسلامی مورخین نے اس حقیقت کوبیان کیاہے ان میںسے بعض کی طرف اشارہ کیاجارہاہے تفصیل کے لئے علامہ امینی کی کتاب الغدیر کی گیارھویںجلدکی طرف مراجعہ کیاجائے:
۱۔محمدبن سعداپنی کتاب طبقات میںکہتے ہیں:’’سمّہ معاویۃمرارًا۔۔۔‘‘(تتمیم طبقات ابن سعد،ج۱،ص۳۵۲،حدیث۳۱۵)(معاویہ نے متعددمرتبہ امام حسنؑ کوزہردیا تھا)
۲۔ابن کثیرنے۴۹ھ کے واقعات کے ذیل واقدی سے نقل کرتے ہوئے لکھاہے:’’انّہ سقی سمًّاثمّ أُفلت ثمّ سُقيفأفلت،ثمّ کانت الآخر ۃتوفی فیھا‘‘(تاریخ ابن کثیر،ج۸،ص۴۳۴،۴۹ھکے واقعات کے ذیل میں)(آپؑ تین مرتبہ مسموم ہوئے اورآخری مرتبہ زہرآپؑ کی وفات کاسبب بنا)
۳۔مسعودی نے مروج الذھب میںلکھاہے:جب حسن بن علیؑ مسموم ہوئے آپ کے بھائی حسین بن علی ملاقات کے لئے تشریف لائے۔آپ نے بھائی سے فرمایا:لقدسُقیتُ السمَّ عدّۃمرارًافماسُقیتُ مثل ھذہ‘‘میںمتعددمرتبہ مسموم ہواہوںلیکن زہرکبھی اتناسخت نہیںتھا(مروج الذھب،ج۲،ص۵۰)
۴۔ابوالفرج اصفہانی کاکہناہے:’’امام مجتبیؑ اورمعاویہ کے درمیان صلح نامے کے مواردمیںسے ایک موردیہ تھاکہ معاویہ اپنے بعدکسی کوخلیفہ معین نہیںکرے گالیکن چونکہ وہ چاہتاتھاکہ اس کابیٹایزیداسکاجانشین بنے اوروہ خودلوگوںسے بیعت لے اس لئے اشعث کی بیٹی کے پاس پیغام بھیجاکہ میںاپنے بیٹے یزیدکی شادی تجھ سے کردوںگابشرطیکہ حسن ؑبن علیؑ کوزہردیدے۔اورمعاویہ نے اس کام کے لئے ایک لاکھ درہم اشعث کی بیٹی کودیے۔بنت اشعث نے معاویہ کی چال میںآکرحضرت ؑکوزہردیالیکن اس نے اپنے وعدہ پرعمل نہیںکیا‘‘۔(مقاتل الطالبین،ص۸۰)
۵۔ابوالحسن مدائنی کاکہناہے کہ’’ آنحضرت ؑنے۴۹ھمیں۴۷سال کی عمرمیںوفات پائی اورچالیس دن تک بستربیماری پررہے اسلئے کہ معاویہ نے پوشیدہ طورپرجعدہ بنت اشعث کے ذریعہ زہردیاتھا۔اوراس کام کی تشویق کے لئے اس سے وعدہ کیاکہ اپنے بیٹے یزیدکی شادی اس سے کرے گالیکن بعدمیںاپنے وعدے پرعمل نہیںکیاجب جعدہ نے معاویہ کوپیغام بھیجااوراس سے وعدے پرعمل کرنے کامطالبہ کیاتومعاویہ نے جواب میںکہا:جوکام تونے حسنؑ بن علیؑ کے ساتھ کیامجھے خوف ہے کہ کہیںوہی کام تومیرے بیٹے کے ساتھ نہ کرے‘‘۔(شرح نھج البلاغہ،ابن ابی الحدید،ج۱۶،ص۱۱)
۶۔ابن عبدالبرنے لکھاہے کہ قتادہ اورابوبکربن حفص کہتے ہیں:’’حسن بن علیؑ کوززہردیاگیا۔اوریہ کام آپ کی زوجہ بنت اشعث نے کیااوربعض لوگ کہتے ہیںکہ یہ کام معاویہ کی چال سے انجام پایا۔چونکہ اس کام پراس عورت کی تشویق کی اورایک رقم اسکو دی‘‘(الاستیعاب،ج۱،ص۳۸۹،نمبر۵۵۵)
۷۔سبط ابن جوزی کہتے ہیں:’’علمائے سیرہ کے مطابق آپ کی زوجہ جعدہ بنت اشعث نے آپ کوزہردیا،یزیدبن معاویہ نے اس سے کہلوایا کہ اگرانکوزہردیدوتومیںتجھ سے شادی کرلوںگا۔لیکن شعبی کاکہناہے کہ:دراصل یہ معاویہ کی چال تھی اسی نے جعدہ کویہ پیغام بھیجااوررقم اسکے حوالے کی ۔اسی وجہ سے امام مجتبیؑ نے اس منصوبے سے مطلع ہونے اورمسموم ہونے کے بعداپنی بیوی سے فرمایا:کہ ہرگزمعاویہ اپنے وعدے پرعمل نہیںکریگا‘‘(تذکرۃالخواص،ص۲۱۱)
۸۔ابن عساکرنے اپنی تاریخ میںلکھاہے:’’حسن بن علیؑ متعددمرتبہ مسموم ہوئے،آخری مرتبہ زہرنے اپنااثردکھایا۔کہاجاتاہے کہ معاویہ نے چال بازی سے آپؑ کے بعض نوکروں کو فریب دیا کہ آپکو زہر دیں ۔محمد بن مرزبان کا کہنا ہے کہ جعدہ بنت اشعث نے اس کام کوانجام دیا‘‘۔(تاریخ مدینۃدمشق،ص۲۱۱)
۹۔مزّی نے ام بکر بنت المسورسے نقل کیا ہے کہ’’ حسن بن علی ؑمتعدد مرتبہ مسموم ہو ئے اور آخری مرتبہ میں وفات پائی۔لوگوں نے عبداﷲبن الحسن کو کہتے سنا کہ معاویہ نے آپ کے خدمت گزاروں کو چالبازی سے فریب دیکر مسموم کیا ۔آپ نے زہر کی حالت میں چالیس دن کاٹے اور وفات پائی‘‘۔(تھذیب الکمال،ج۶،ص۲۵۲،ح۱۲۴۸)
۱۰۔زمخشری نے لکھا ہے:’’معاویہ نے جعدہ کو ایک لاکھ درہم دیاکہ حسن بن علی ؑکو زہر دے‘‘۔(ربیع الابرار،ج۴،ص۲۰۸)
۱۱۔ابن عبدربہ کا کہنا ہے کہ :’’جب حسن بن علی ؑکی وفات کی خبر معاویہ تک پہونچی تو اس نے سجدہ کیاپھر ابن عباس کے پاس ایک آدمی بھیجا کہ انکو تعزیت پیش کرے جبکہ وہ خودمسرور تھا‘‘۔(العقدالفرید،ج۴،ص۱۵۶)
جن علما ئے اہل سنت نے معاویہ کی مکاّری وچالبازی کے ذریعے حضرت ؑکو زہر دیے جانے کی تصریح کی ہے انکی تعدادمندرجہ بالاافراد سے کہیں زیادہ ہے اس سلسلے میںمزیدمعلومات کے لئے مندرجہ ذیل کتابوںکی طرف رجوع کیاجاسکتاہے:(انساب الاشراف،بلاذری،ص۵۹؛الفصول المھمۃ،ابن صباغ مالکی،ص۱۴۶؛مستدرک،حاکم نیشاپوری،ج۳،ص۱۷۶؛تاریخ الخلفائ،سیوطی،ص۹۴)
اوراگراس گروہ کے ساتھ شیعہ مورخین کابھی اضافہ کریںتوروئے زمین پربدترین شخص کے ہاتھوںآنحضرتؑ کی مسمومیت تواترکی حدتک پہونچ جائے گی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں