جمعہ، 16 اگست، 2013

janab e asma جناب اسماء بنت عمیس

نمونۂ عمل خاتون 
جناب اسماء بنت عمیس
سید محمد حسنین باقری
 ’’جناب اسماء بنت عمیس‘‘اسلام کی وہ مایہ ناز خاتون ہیں جنھوں نے ابتدائے اسلام ہی میں حلقۂ اسلام میں داخل ہوکر اسلام کے لئے خدمات انجام دیں اور خدمت، فداکاری، ایثار و قربانی کی ایک مثال قائم کی ۔جناب اسماء نے ایک طرف شوہر کی خدمت اور بچوں کی تربیت کا نمونہ پیش کیا تو دوسری طرف اہل بیت علیہم السلام کی محبت و معرفت اور ہر حال میں ان کے ساتھ وفاداری و خدمت گزاری کی مثال قائم کی۔
 ’’آپ رسول اکرمؐ کے اصحاب میں علم دوست اور بامعرفت خاتون تھیں جنھوں نے روایات بیان کرکے اپنی صلاحیت و قابلیت کو ظاہر کیا۔حضرت اسماء کا شمار جلیل القدر صحابیات میں ہوتا ہے۔ وہ نہایت سلیم الفطرت اور زیرک خاتون تھیںدعوت حق کی ابتدا میں جب کفار مکہ کے قہر و غضب کی بجلیاں تڑپ تڑپ کر مسلمانوں کے خرمن عافیت پر برس رہی تھیں ، انھوں نے لوائے حق کے تھامنے میں مطلق تأمل نہیں کیا اور بلا کشان اسلام کی اس مقدس صف میں شامل ہوگئیں جس کو ربّ ذوالجلال نے کھلے لفظوں میں اپنی خوشنودی کی بشارت دی ہے۔ یہ ان کے اوصاف و محاسن ہی تھے کہ رحمۃ للعالمینؐ کے شفیق و مربی چچا، رئیس بنو ہاشم، محسن اسلام حضرت ابوطالب علیہ السلام نے انہیں اپنی بہو بنایا۔ وہ رسول اکرم ؐ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر بن ابی طالبؑ کی اہلیہ ہونے کی حیثیت سے اور ام المومنین حضرت میمونہ کی اخیافی بہن ہونے کی نسبت سے آپؐ سے قریبی رشتہ بھی رکھتی تھیں۔
آنحضرتؐ ان پر بڑی شفقت فرماتے تھے اور ان کو بھی حضورؐ سے بے پناہ محبت و عقیدت تھی۔ انھوں نے محض اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی کی خاطر چودہ برس تک حبش میں غریب الوطنی کی زندگی گزاری۔
مسند احمد حنبل میں روایت ہے کہ حضرت اسمائؓ نے حضورؐ سے براہ راست فیض حاصل کیا۔ ایک دفعہ آنحضرتؐ نے انہیں ایک دعا تعلیم فرمائی اور فرمایا کہ مصیبت اور تکلیف کے وقت اس کو پڑھا کرو۔ 
سرکار دوعالمؐ ،جناب اسماء کے بچوں سے بڑی محبت کرتے تھے، امام حاکم نے مستدرک میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ان کے کمسن فرزند حضرت عبداللہ بن جعفرؓ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ،حضورؐ ادھر سے گزرے تو ان کو اٹھا کر اپنے ساتھ سواری پر بٹھا لیا‘‘۔
جناب اسماء ہمیشہ خانہ حضرت زہراؑ میں مقیم اور محرم اسرار رہیں اور ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ  ؑ کی وصیت کے مطابق ماں کا حق ادا کرتی رہیں۔ اور خاتون جنت کی ہمنشینی کی بدولت وہ لیاقت پیدا کرنے کی کوشش کی کہ حسنین علیہما السلام کی کفالت کرسکیں۔
حضرت زہراؑ کی زندگی کے آخری لمحات میں آپ کی بہترین معاون و مددگار ثابت ہوئیں جیسا کہ شہزادیؑ کی وصیت تھی کہ ’اے اسماء جب میں دنیا سے چلی جاؤں تو تم علیؑ کے ہمراہ مجھے غسل دینا‘۔ اسماء نے رات میں حضرت علیؑ کے ہمراہ حضرت فاطمہؑ کے جسم نازنین کو غسل و کفن دیا(۱) 
نام:
آپ کا نام اسماء تھا اگر اس نام کے سلسلے میں غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ’’اسماء ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کی ’اصل‘ کے سلسلے میں اختلاف ہے سیبویہ اور بعض افراد کا کہنا ہے کہ ’اسمائ‘ مشتق ہے ’وُسَمائ‘ سے جس کے معنی ’خوبصورتی‘ کے ہیں اور بعض دوسرے افراد مثلاً مبرد وغیرہ کا ماننا ہے کہ ’اسمائ‘ جمع ہے ’اسم‘ کی اس کی تصغیر ’سمیہ ‘ہے (۲)۔البتہ بعض افراد نے لفظ ’اسمائ‘ کو عورت و مرد کے درمیان مشترک نام جانا ہے(مثلاً اسماء بن حکم اور اسماء بنت عمیس) اور کہا ہے کہ اسماء اگر عورت کا نام ہو تو ’وُسَمائ‘ سے مشتق ہے اور اگر مرد کا نام ہو تو ’اسم‘ کی جمع ہے ( ۳)۔
ماں باپ:
جناب اسماء کے باپ عمیس کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے ہاں یہ اختلاف ضرور ہے کہ عمیس کے باپ مَعَد ہیں یا نعمان اور بعض نے معبد بن تمیم بھی لکھا ہے۔سلسلہ نسب اس طرح بیان کیا گیا ہے:اسماء بنت عمیس معد بن حارث بن تیم بن کعب بن مالک بن قحافہ بن عامر بن معاویہ بن مالک بن بشیر بن وہب اللہ بن شہران بن عفرس بن حلف بن اقبل(خثعم)۔ 
جناب اسماء کی ماں کا نام ’’خَولہ‘‘ یا ’’ہند‘‘ بنت عوف بن زہیر بیان کیا گیا ہے۔ اور ابن سعد کے مطابق خولہ اور ہند ایک ہی ہیں (۴) ماں باپ دونوں کی طرف سے اسماء کا سلسلہ یمنی قبائل سے ملتا ہے۔ لیکن بعض لوگوں نے خَثْعم کو عدنانیان ہی سے ملحق ایک قبیلہ جاناہے(۵)۔
ان کی ماں کو یمن میں واقع جُرَش کے علاقے سے منسوب ہونے کی وجہ سے یا جُرش بن اسلم کی نسل میں ہونے کی وجہ سے ’جُرَشی‘ کہاجاتا تھا(۶) اور وہ اپنے دامادوں کی وجہ سے دنیا کی بہترین و برترین عورت سمجھی جاتی تھیں (اکرم الناس احماء یا اصھارا) رسول خدؐ ، امیر المومنینؑ ، جعفر بن ابو طالبؑ ، حمزہؑ سید الشہداء ، عباس بن عبد المطلب اور کچھ دوسرے افراد اسماء کی ماں ہند کے داماد تھے۔ بعض مورخین کے مطابق خالد بن ولید کے باپ ولید بن مغیرہ مخزومی بھی ہند کے داماد تھے اس اعتبار سے اسماء بنت عمیس، خالد بن مغیرہ کی خالہ قرار پائیں ( ۷)۔
قبول اسلام:
جناب اسماء کے سلسلے میں قبل اسلام کوئی تذکرہ نہیں ملتا،ہاں یہ ضرور مسلّم ہے کہ ابتدائی مسلمانوں میں شمار ہوتی ہیں اس لئے کہ  مسلمانوں کے ’’دار ارقم‘‘ میں آنے سے پہلے ایمان لائیں (۸)اور رسول خداؐ کے ہاتھوں پر بیعت کی۔ پیغمبرؐ نے جناب اسماء کو جنتی عورت کہا ہے(۹) اور ان کے صادق الایمان ہونے کی گواہی دی اور ان کو ان کی بہنوں کو مومن بہنیں کہہ کر بیان کیا (۱۰)امام جعفر صادقؑ نے جناب اسماء کو سات بہشتی عورتوں میں شمار کیا  اور ان کے لئے دعا فرمائی(۱۱)۔یہ دعا اس بات کی دلیل ہے کہ جناب اسماء آخری وقت تک اپنے ایمان پر باقی رہیں اور کبھی بھی فکری یا سیاسی اعتبار سے لغزش و انحراف کا شکار نہ ہوئیں۔ ’’آپ آنحضرتؐ سے براہ راست تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ آپؐ نے مصیبت و تکلیف میں پڑھنے کے لئے ان کو ایک دعا بتائی تھی۔ حضرت اسماء کو خواب کی تعبیر کا علم بھی تھا چنانچہ حضرت عمر اکثر ان سے خوابوں کی تعبیر پوچھتے تھے(۱۲)
 اور زیادہ احتمال یہ ہے کہ بعثت کے ابتدائی سالوں میں جناب اسماء کی شادی جناب جعفر طیار ؑسے ہوئی یہ دونوں بہت زیادہ سختیوں اور وطن سے دوری کے باوجود خوش نصیب وخوش بخت زن و شوہر شمار کئے گئے ہیں (۱۳)
 حبشہ کی جانب ہجرت:
جناب اسماء نے بعثت کے پانچویں سال جب کفار مکہ کی جانب سے مسلمانوں پر سختیاں اور مظالم اپنی انتہا کو تھے، اپنے شوہر جناب جعفر ابن ابی طالبؑ کے ساتھ پیغمبرؐ کے حکم سے حبشہ کی طرف ہجرت کی اس ہجرت میں جناب جعفر مہاجرین کے قائد و سردار تھے اور یہ کارواں کمسن بچوں کے علاوہ ۸۳ افراد پر مشتمل تھا۔ وہیں تینوں بیٹے عبد اللہ، عون اور محمد پیدا ہوئے (۱۴)۔(بعد میںعبد اللہ کی شادی حضرت زینبؑ سے ہوئی اور عون کی شادی حضرت امّ کلثوم بنت علیؑ سے ، بعض مؤرخین نے محمد ابن جعفر طیار کو جناب امّ کلثومؑ کا شوہر لکھا ہے اور بعض کے مطابق پہلے جناب عون سے شادی ہوئی اور ان کے انتقال کے بعد محمد سے شادی ہوئی۔اور جناب اسماء و جناب جعفر طیار کو یہ شرف بھی حاصل تھا کہ حضرت فاطمہ زہراؑ کی دونوں بیٹیاں یعنی جناب زینبؑ بنت علیؑ و جناب امّ کلثوم بنت علیؑ آپ کی بہو بنیں۔ یہاں یہ واضح کردینا بھی ضروری ہے کہ جناب امّ کلثوم بنت علیؑ کے شوہر جناب جعفر طیار و جناب اسماء کے بیٹے ہی تھے اس لئے کہ ایسی باعظمت و بافضیلت خاتون کا شوہر کوئی ایسا ویسا یا معمولی انسان نہیں بن سکتا!اگر اس سلسلے میں کوئی روایت پائی بھی جاتی ہو تو وہ بنی امیہ کے کارخانہ میں دشمنی علیؑ میں گڑھی ہوئی روایت ہوگی!!۔)
البتہ بعض علماء نے جناب اسماء سے جناب جعفر کے آٹھ بیٹوں کا تذکرہ کیا ہے:عبداللہ، عون، محمد اکبر، محمد اصغر، حمید، حسین، عبداللہ اکبر اور عبد اللہ اصغر(۱۵) اگرچہ عامہ نے صرف تین اولادوں عبداللہ، محمد اور عون کا تذکرہ کیا ہے۔ (۱۶)
عبد اللہ ان کے سب سے پہلے بیٹے اور حبشہ میں دنیا میں آنے والے سب سے پہلے مسلمان تھے۔ نجاشی کا بیٹا بھی اسی زمانے میں پیدا ہوا جناب جعفر سے دوستی کی وجہ سے نجاشی نے ایک وقت میں پیدا ہونے کی وجہ سے اپنے بیٹے کا نام بھی عبد اللہ رکھا۔ جناب اسماء نے اپنے بیٹے کے علاوہ نجاشی کے بیٹے کو بھی دودھ پلایا جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نجاشی کے نزدیک جناب اسماء کی عظمت کیا تھی اور جناب اسماء نے اس ذریعہ سے بادشاہ حبشہ اور مسلمانوں کے درمیان مضبوط رابطہ قائم کرنے میں انتہائی تلاش و کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ نجاشی کے بیٹے اور عبد اللہ بن جعفر کے آپس میں رضاعی بھائی ہونے کی وجہ سے آپس میں روابط مستحکم ہوئے اور نجاشی مسلمانوں کا بہت خیال رکھتا اور ان کا ساتھ دیتا تھا(۱۷)
جناب اسماء نے نجاشی کے بیٹے کے علاوہ محمد بن حاطب جُمَحی کو دودھ پلایا ۔ مسلمانوں کے حبشہ کی جانب ہجرت کے کچھ عرصہ بعد محمد بن حاطب پیدا ہوئے۔ جلد ہی باپ کا انتقال ہوگیا۔ اور یہ اسلام میں سب سے پہلے مولود تھے جن کا نام محمد قرار پایا۔ اسماء نے تمام ہجرت کرنے والوں کا ہر طرح خیال رکھا جس کا ایک نمونہ محمد کو دودھ پلانا بھی تھا اس کے مقابل میںمحمد کی ماں ام جمیل نے اسماء کے بیٹے عبد اللہ کی بھی دودھ پلایا (۱۸)
نام کی مشابہت اور تاریخی اشتباہات:
جناب اسماء ساتویں ہجری تک حبشہ میں تھیں اس وجہ سے حضرت زہراؑ کی شادی اور امام حسنؑ و امام حسینؑ کی ولادت کے موقع پر مدینہ میں موجود نہیں تھیں۔ جبکہ ان مواقع پر شیعہ و سنی منابع میں ان سے روایتیں نقل ہوئی ہیں جو صحیح نہیں ہے۔ اس لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس موقع پر کون تھا، جس کا نام اسماء کے ساتھ مشتبہ ہوا ہے؟ اس سلسلے میں اختلاف ہے۔ اربلی نے جناب حمزہ کی بیوی اسماء کی بہن سلمیٰ کا نام لکھا ہے اور اس اشتباہ کی وجہ اسماء کی شہرت یا راویوں کا اشتباہ بیان کیا ہے (۱۹) بعض دوسرے مواقع پر بھی ان دونوں بہنوں کا نام آپس میں مشتبہ ہوا ہے مثلا بعض لوگوں نے غلطی سے اسماء بنت عمیس کو حمزہ بن عبدالمطلب کی زوجہ اور امامہ بنت حمزہ کی ماں بیان کیا ہے (۲۰)
بعض کا کہنا ہے اسماء بنت یزید بن سکن انصاری ان مراسم میں شریک تھیں لیکن نام کی مشابہت بنت عمیس کی شہرت اور حضرت فاطمہؑ کے ساتھ رابطہ و دوستی کے احتمال کی وجہ سے راویوں کو بعد میں آنے والے زمانے میں اشتباہ ہوا ہے۔ اور جیسا کہ اسماء بنت یزید بن سکن کی کنیت ام سلمہ تھی۔ اس وجہ سے ام المومنین حضرت ام سلمہ کے سلسلے میں بھی لوگوں کو اشتباہ ہوا اور لوگوں نے لکھ دیا کہ وہ ان مراسم میں موجود تھیں (۲۱)
ام المومنین حضرت خدیجہ کے انتقال کے وقت (۲۲)ان کے سرہانے اسماء کے موجود ہونے اور جناب عائشہ کی شادی (ہجرت کے کچھ عرصہ کے بعد) (۲۳)میں اسماء کے شریک ہونے میں بھی مندرجہ بالا مشکل پیش آئی ہے (۲۴)اور ظاہر اً اسماء بنت سکن کا نام اسماء بنت عمیس کے ساتھ خروج دجال والی روایت میں بھی مشتبہ ہوگیاہے۔ ایک روایت میں پیغمبرؐ نے اسماء بنت عمیس کو اور متعدد روایتوں میںاسماء بنت سکن کو پوری زمین پر کسی کے حاکم ہونے کے اطلاع دی جو اپنے والوں کو اطعام اور مخالفین کو محروم کرے گا۔ اسماء یہ خبر سن کر پریشان ہوئیں تو پیغمبرؐ نے ان کی تشویش کو دور کرنے کیلئے فرمایا: خداوند عالم مومنین کو محفوظ رکھے گا (۲۵)
اسی طرح اسماء بنت عمیس کا نام اسماء بنت ابو بکر کے ساتھ مالک بن انس کی روایت (۲۶) میں بھی مشتبہ ہوگیا ہے۔ روایت کو محمد بن اسحاق نے فاطمہ بنت منذر بن زبیر سے اور انہوں نے اسماء بنت عمیس سے نقل کیا ہے۔ جبکہ فاطمہ بنت منذر ، اسماء بنت ابو بکر (زبیر کی زوجہ) کی روایوں میں سے ہیں۔ ممکن ہے فاطمہ بنت منذر کی زبیر کی بیوی کے ساتھ خاندانی نسبت کی وجہ سے یہ اشتباہ ہوا ہو۔ اس طرح کی غلط فہمیوں میں سے ’’ امرأۃ من خثعم ‘‘ (خثعم کی ایک خاتون) کی اسماء بنت عمیس خثعمی کے ساتھ تطبیق ہے۔ دوسروں کے برخلاف ابن نجیم (۲۷) نے حج نیابتی والی روایت کو بیان کرتے ہوئے تصریح کی ہے کہ اس روایت میں خثعمی خاتون سے مراد اسماء بنت عمیس ہیں، جنہوں نے اس روایت میں اپنے ضعیف باپ کے لئے رسولؐ سے حج کی نیابت کا حکم معلوم کیا ہے۔ جبکہ کسی بھی روایت میں رسولؐ کے زمانے میں اسماء کے باپ کے مسلمان ہونے ، صحابی ہونے یا حتی زندہ ہونے کے بارے میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔
مدینہ کی جانب ہجرت:
جناب اسماء ساتویں ہجری میں فتح خیبر کے وقت جناب جعفر اور حبشہ میں دوسرے مہاجرین کے ساتھ چودہ سال کے بعد مدینہ واپس آئیں۔ پیغمبرؐ نے ابو رافع کو ان کے استقبال کیلئے بھیجا اور حضرت علیؑ نے ابو رافع کے ہاتھوں کچھ کھانے پینے کی چیزیں اور روغن جناب اسماء کے پاس بھیجا تاکہ جعفر کے بیٹوں کو کھلائیں اور روغن کے ذریعہ ان کے بدن سے دریا کی بوکو دور کریں (۲۸)۔ان لوگوں کی واپسی پر پیغمبرؐ نے جناب جعفرؑ کو گلے لگا کر فرمایا تھا:’’ما ادری بایھما اسرّ بفتح خیبر ام بقدوم جعفر‘‘ میں نہیں کہہ سکتا کہ کس بات پر زیادہ خوشی کا اظہار کروںیا جعفر کی حبشہ واپسی پر یا فتح خیبر پر!۔ اس موقع پر آپؐ نے ’’نماز جعفر طیار‘‘ تعلیم فرمائی تھی اور جناب اسماء و جناب جعفر کے لئے مسجد کے پہلو میں گھر مقرر فرمایا تھا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حبشہ میں جناب اسماء اور انکے شوہر جناب جعفر کی خدمات اور نجاشی کے دربار میں جناب جعفر کے خطبے کے نتیجے میں نجاشی اور دیگر افراد مسلمان ہوئے جیسا کہ نجاشی کے سلسلے میں ابن الوردی نے یہ جملہ لکھا ہے: ’’واسلم علی ید جعفر بن ابی طالب فی الھجرۃ الیہ ‘‘ وہ حضرت جعفر کے ہاتھ پر اسلام لایاجب وہ ہجرت کرکے اس کی طرف گئے۔اور مدینہ واپسی میں آپ کے ساتھ منجملہ بحیرہ راہب کے ۶۲ اہل حبشہ اور ۸۰ اہل شام بھی تھے(۲۹)
مدینہ واپسی پر وہ ازواج پیغمبرؐ کی خدمت میں پہنچیں اور گزشتہ کے حالات و واقعات ان سے بیان کئے وہ معلوم کرنا چاہتی تھیں کہ کوئی آیت مستقل طور پر عورتوں کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے یا نہیں؟ جب یہ معلوم ہوا کہ کسی آیت میں مستقل طور پر عورتوں کو مخاطب قرار نہیں دیا گیا تو رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا عورتوں مردوں کے برابر کیوں نہیں ذکر کی جاتیں؟ وہ ہمیشہ گھاٹے میں رہتی ہیں؟ اسی گفتگو کے بعد یہ آیت ناز ل ہوئی: ان المسلمین والمسلمات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(۳۰)جس میں عورتوں کو مردوں کے ساتھ مخاطب قرار دیا گیا۔ 
ایک دن جناب اسماء زوجہ رسولؐ حضرت حفصہ کے گھر میں تھیں کہ عمر بن خطاب گھر میں آئے اور جناب اسماء کو دیکھتے ہی ان لوگوں کے حبشہ میں طولانی مدت تک رکنے پر اعتراض کیا۔اور ظاہر کیا کہ گویا جناب اسماء وغیرہ سخیتوں اور مشکلات سے بچنے کیلئے وہاں اتنے دن رکیں لہٰذا ان لوگوں کو ابتدائی مہاجرین سے خارج قرار دیتے ہوئے حبشیوں میں قرار دیا اور جناب اسماء کو ’’حبشیہ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے کہا: ہم نے ہجرت کرنے میں تم پر سبقت حاصل کی لہٰذا ہم رسول خداؐ کے سلسلے میں تم سے زیادہ سزاوار ہیں اور ہم کو تم فضیلت حاصل ہے۔
 جناب اسماء یہ سن کر رنجیدہ ہوئیں اور فرمایا:
جس وقت ہم خوف و ہراس ، دوری اور غربت کو خدا و رسولؐ کی خوشنودی کے لئے برداشت کررہے تھے اس وقت تم رسولؐ کے پاس تھے رسولؐ  تمہارے بھوکوں کو سیر کرتے اور تمہارے جاہلوں کو تعلیم دیتے تھے۔ 
جناب اسماء نے قسم کھائی کہ رسولؐ کی خدمت میں ان کی شکایت کریں گی۔جناب اسماء کے کلام ’’انّ رجالا یفخرون علینا‘‘ اور ’’انّ لہ و لاصحابہ‘‘ جیسی تعبیرات سے پتہ چلتا ہے مکہ کے بعض دوسرے مہاجرین بھی اس اعتراض میں حضرت عمر کے ساتھ شریک تھے۔ پیغمبر اسلامؐ نے عمر کی اس بات کو غلط قرار دیتے ہوئے فرمایا: عمر، تمہارے مقابلے میں مجھ سے زیادہ سزاوار نہیں ہے تم لوگوں کے لئے دوہجرتیں (ایک مکہ سے حبشہ کی طرف اور دوسری حبشہ سے مدینہ کی طرف) ہیں جبکہ عمر اور ان کے ساتھیوں کے لئے صرف ایک ہجرت ہے(۳۱) اس لئے تم کو زیادہ فضیلت حاصل ہے۔ حضرت اسماء اور دوسرے مہاجرین کو اس سے اس درجہ مسرت ہوئی کہ دنیا کی تمام فضیلتیں ہیچ معلوم ہوتی تھیں، مہاجرین حبشہ جوق در جوق حضرت اسماء کے پاس آتے اور یہ واقعہ دریافت کرتے تھے۔ (۳۲)
جناب اسماء اور جناب جعفر نے ساتویں سال میں اور واقعہ عمر ۃ القضا کے بعد عمارہ کو اپنی سرپرستی میں لیا۔ وہ اسماء کی بہن سلمیٰ اوران کے شوہر حمزہ کی بیٹی تھی جو جنگ احد میں باپ کے شہید ہونے کے بعد تنہاو بے سرپرست ہوگئی تھی۔ حضرت علیؑ نے اس سلسلے میں رسول خداؐ سے گفتگو کی کہ عمارہ کو مدینہ لے آئیں حضرت علیؑ زید بن حارثہ اور جناب جعفر یہ تینوں سر پرستی کیلئے تیار تھے لیکن رسول اکرمؐ نے اس وجہ سے کہ جناب اسماء عمارہ کی خالہ ہیں عمارہ کو جناب جعفر کے حوالہ کردیا(۳۳)
جناب جعفر کے غم میں:
۸ھ؁ میں جنگ موتہ پیش آئی ، سرزمین موتہ شام کے علاقے بلقا کا ایک قریہ ہے جو جارڈن کے پائے تخت عمان کے جنوب میں ۱۲۰ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، اس جنگ میں پیغمبر اکرمؐ نے جناب اسماء کے شوہرجناب جعفر کو سردار لشکر بناکر بھیجاجو اس جنگ میں سب سے پہلے شہید ہوئے جس کے بعد دو اور سپہ سالار جناب زید بن حارثہ اور عبداللہ ابن رواحہ نے جام شہادت نوش کیا۔روایتوں میں ہے کہ جب جناب جعفر کی شہادت ہوئی تو پیغمبر اسلامؐ نے اس شہادت پر خود بھی گریہ فرمایا(۳۴) اور جناب اسماء کے گھر تشریف لائے ، ان کے بچوں کے سا تھ مہربانی و نوازش سے پیش آئے جس سے جناب اسماء سمجھ گئیں کہ بچے یتیم ہوگئے۔ اس بات پر رسول اکرمؐ نے جناب اسماء کی ذکاوت و عقلمندی کی داد دی اور ان کو جناب جعفر کی شہادت کی اطلاع دی۔ جناب اسماء اپنے شوہر کے مرنے پر گریہ کررہی تھیں جناب فاطمہ زہراؑ نے بھی جعفر پر گریہ فرمایا اور’’وا عمّاہ‘‘ کہہ کر اظہار غم کیا۔ پیغمبر اکرمؐ نے بھی ارشاد فرمایا: ’’رونے والیوں کو جعفر جیسی ذات پر رونا چاہئے‘‘۔ 
آپؑ نے جناب اسماء کو صبر کی تلقین فرمائی اور ان کی تسلی خاطر کے لئے ارشاد فرمایا: جبریل امین نے جنت میں جعفر کے دو پر یا قوت کے لگائے ہیں۔حضرت زہراؑ فرمان نبیؐ کے مطابق تین دن جناب جعفر کے گھر رکیں ان کے گھرانے کے لئے غذا فراہم کی اس وجہ سے مسلمانوں کے درمیان یہ سنت بن گئی کہ جہاں موت ہوگئی ہو اس گھر میں تین دن غذا بھیجیں(۳۵)  اس سلسلے میں دوسری روایت میں حضرت اسماء فرماتی ہیں کہ میں حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی دیکھا کہ آپؐ آبدیدہ تھے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ ! آپ غمگین کیوں ہیں؟کیا جعفر کے متعلق کوئی اطلاع آئی ہے؟ حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ ہاں وہ شہید ہوگئے ہیں۔ میں بچوں کو نہلا دھلاکر ہمراہ لے گئی تھی، حضورؐ نے بچوں کو اپنے پاس بلایا اور میں چیخ اٹھی، آپؐاندر تشریف لے گئے اور فرمایا:جعفر کے بچوں کے لئے کھانا پکاؤ کیونکہ وہ رنج و غم میں مصروف ہیں۔ (۳۶)
جناب اسماء نے اپنے شوہر کی جدائی پر فرمایا کہ ان کے فضائل و کمالات کو میں ہرگز نہ بھلا سکوں گی(۳۷) اور  یہ مرثیہ پڑھا :
قد کنت لی جبلا ألوذ بظلہ فترکتنی امشی باجرد ضاحی۔۔۔۔
پیغمبرؐ نے  جناب سماء کو یہ دعا تعلیم فرمائی کہ ہر طرح کے رنج و غم سے نجات پانے اور بیماری و مشکلات وغیرہ سے محفوظ رہنے کیلئے پڑھی جائے: 
’’اللّٰہُ رَبّی لا اُشرِکُ بہ شیئا‘‘ جناب اسماء نے یہ دعا اپنے بیٹے عبد اللہ کو تعلیم دی اور فرمایا کہ میں نے اپنے دونوں کانوں سے رسولؐ سے یہ دعا سنی ہے۔ 
دوسری شادی:
جناب جعفر کی شہادت کے چھ مہینہ کے بعد شوال ۸ھ؁ میں جنگ حنین کے موقع پر جناب اسماء کی حضرت ابوبکر سے شادی ہوئی اور ابن ابی ہلال کے مطابق رسول ؐ نے یہ شادی کی(۳۸)۔ اوریہ شادی بعض لوگوں کے لئے فتویٰ کی دلیل بن گئی کہ مسلمان دار الحرب میں حتی مسلمان عورت سے بھی شادی نہیںکرسکتا، جب تک کہ مسلمانوں کے لشکر میں نہ ہو(۳۹)
اس قول اور فتوے کے مطابق جناب اسماء فتح مکہ اور جنگ حنین کے موقع پر موجود تھیں۔  ابن کثیر کے مطابق حضرت ابو بکر نے شادی کی خوشی اور ولیمہ میں لوگوں کو دعوت دی (۴۰)ان کا ایک گھر بقیع میں حضرت عثمان کے گھر کے سامنے تھا اور دوسرا گھر مسجد مدینہ کے پاس تھا (۴۱)جس میں جناب اسماء تھیں(۴۲) اور بعد میں یہ گھر آل معمر کے اختیار میں آگیا (۴۳)
جناب اسماء نے ۱۰ھ؁ ہجری میں حجۃ الوداع میں شرکت کی اور ماہ ذی قعدہ شروع ہونے سے چار دن قبل ذی الحلیفہ یا بیداء کے مقام پر محمد بن ابی بکر کی ولادت ہوئی۔ اسماء نے حکم پیغمبرؐ کے مطابق غسل کیا اور وہیں سے احرام باندھا(۴۴)نفاس کی حالت میں عورت کے احرام اور اس کی عبادت کے سلسلے میں یہ روایت دلیل ہے (۴۵)
جناب اسماء نے آیۂ اکمال ’’الیوم اکملت لکم دینکم‘‘ (۴۶) کے غدیر غم میں نازل ہونے کے بارے میں بھی خبر دی اور فرمایا: ہم لوگ راستے میں تھے کہ جبریل امین رسول اکرمؐ پر نازل ہوئے آپؐ کی سواری وحی کے اثر سے بیٹھ گئی میں نے حضرتؐ پر کپڑا ڈال دیا (۴۷)
اسماعیل کثیر النواء کی روایت کے مطابق ابو بکر جنگ میں شرکت کے لئے مدینہ کے باہر گئے۔ اسماء نے ان کو خواب میںدیکھا کہ خضاب کئے ہوئے سفید لباس پہنے ہیں۔ حضرت عائشہ نے اس خواب کی تعبیر میں خضاب کو خون سے اور سفید لباس کو کفن سے تعبیر کیا اور کہا: میرا باپ اس جنگ میںمارا جائے گا۔ رسول خداؐ نے عائشہ کی تاویل کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے فرمایا: ابو بکر سے اسماء کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہوگا جس کا نام محمد ہوگا وہ کفار و منافقین کا دشمن ہوگا ( ۴۸)
محمد ابن ابی بکرنے نجابت و شرافت اپنی ماں جناب اسماء سے میراث میں پائی تھی یہی وجہ ہے کہ بعد میں حق کو پہچاننے اور حق کا ساتھ دینے میں انھوں نے کوئی تامل نہیں کیا اور حضرت ابوبکر سے بیزاری و امیرالمومنین حضرت علیؑ کی بیعت کرنے میں پیش پیش رہے (۴۹) ۔وہ جمل و صفین میں بھی حضرت علیؑ کے ہمرکاب تھے اور آپ کے دستور کے مطابق حاکم مصر قرار پائے۔ محمد بن ابی بکر نے حضرت عثمان کے گھر کے محاصرہ میں بھی شرکت کی بعد میں معاویہ نے ۳۸ھ؁ میں محمد کو مصر میں شہید کرایا اور انکی لاش گدھے کی کھال میں جلائی گئی حضرت اسماء کو اس واقعہ سے سخت تکلیف ہوئی (۵۰)
خلافت ابوبکر کے زمانے میں جناب اسمائ:
وفات پیغمبر ؐ کے وقت لوگ دو گروہ میں تقسیم ہوگئے بعض لوگ آنحضرتؐ کی رحلت کی تائید کررہے تھے لیکن بعض انکاری تھے ۔ عمر بن خطاب جیسے افراد کا اصرار تھا کہ پیغمبر ؐ نے رحلت نہیں فرمائی ہے بلکہ آپ آسمان پر چلے گئے ہیں۔ یہ اعلان بھی کیا کہ جو ان کی بات نہ مانے اس کی زبان و ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ اس درمیان میں جناب اسماء نے پیغمبرؐ کے شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا: رسول ؐ نے رحلت فرمائی ہے اور مہر نبوت آپؐ کے کاندھوں سے ہٹا لیا گیا ہے( ۵۱)
حضرت ابوبکر کی خلافت کے زمانے میں جناب اسماء نے ابو بکر و عمر کے درمیان اس گفتگو کو سنا کہ وہ دونوں حضرت علیؑ کے قتل کی پلاننگ کررہے تھے اور اس کام کے لئے خالد بن ولید کو معین کیا۔ یہ سنتے ہی جناب اسماء نے اپنی کنیز کو بھیجا کہ کسی طرح امام علیؑ کو اس سازش سے آگاہ کردے۔ جب کنیز نے اسماء کی بات پہنچائی تو امامؑ نے فرمایا: پس ناکثین و مارقین و قاسطین سے جنگ کون کرے گا! ؟ (۵۲)
مخالفین کو قتل کرنے کیلئے اصحاب سقیفہ کے توافق نامہ کا متن کسی قدیمی کتاب میں نہ مل سکا البتہ دیلمی نے اس کو سند کے حذف کے ساتھ اسماء سے بیان کیا ہے (۵۳)
اسی طرح جناب اسماء نے حضرت فاطمہ زہراؑ کے حق میں فدک کی گواہی دی اور جعلی حدیث ’’ نحن معاشرالانبیاء لا نورث  ماترکناہ صدقۃ‘‘ کی تکذیب کی۔ لیکن حضرات ابوبکر و عمر نے ان کی گواہی کو نہیں مانا اور کہا:
وہ ایک طرف تو جعفر بن ابی طالبؑ کی بیوی ہیں اور دوسری طرف فاطمہؑ کی خادمہ ہیں اس لئے ان کی گواہی جانبدارانہ اور بنی ہاشم کے فائدے میں ہے(۵۴)
حضرت فاطمہ زہرا ؑ کے آخری لمحات کی گواہ جناب اسماء تھیں انھوں نے امام حسنؑ و امام حسینؑ کو ان کی مادر گرامی کی شہادت کی خبر دی(۵۵)اور حضرت فاطمہ ؑ کی وصیت کے مطابق ان کے غسل میں امیرالمومنینؑ کی مدد کی۔ اسی طرح انھوں نے دوسری بھی بعض خواتین مثلا ام عطیّہ، صفیہ بنت عبدالمطلبؑ کو غسل دیاہے(۵۶)
ابن فتوان کی طرح بعض لوگوں نے شبہہ ایجاد کرتے ہوئے حضرت زہراؑ کے غسل کے میں جناب اسماء کے تعاون کو نہیں مانا ہے، لیکن ابن حجر (۵۷) ابن حزم (۵۸) اور جوزقانی(۵۹)نے ان شبہات کو رد کیا ہے۔
جناب اسماء نے ہی تابوت کے اندر عورتوں کے جنازے کو اٹھانے کا طریقہ حبشہ سے مدینہ منتقل کیا۔ ابن عباس کی روایت کے مطابق سب سے پہلا جنازہ جو تابوت کے ساتھ اٹھایا گیا، فاطمہ زہراؑ کا جنازہ تھا( ۶۰)
یعقوبی نے لکھا ہے:اسماء ، فاطمہ زہراؑ کی خادمہ اور ان کی تیمار دار تھیں۔ حضرت فاطمہ نے اسماء سے کہا: کیا میں تخت کے اوپر اس طرح اٹھائی جاؤں گی کہ سب دیکھیں؟! اسماء نے کہا: اے بنت رسولؐ! میں نے حبشہ میں ایک چیز دیکھی ہے وہ میں آپ کے لئے بناؤں گی۔ اسماء نے تازہ خرمے کی لکڑی اور پٹروں کی مدد سے تابوت بنایا۔ شہزادیؑ یہ دیکھ کر مسکرائیں، اس دن کے علاوہ حضرت فاطمہؑ کے لبوں پر مسکراہٹ دیکھی نہ گئی( ۶۱)
دولابی کی روایت میں یہ جملہ بھی ہے کہ حضرت فاطمہؑ نے اسماء سے فرمایاکہ وہ آپؑ کو غسل دیں اور کسی کو اندر داخل نہ ہونے دیں۔حضرت فاطمہؑ کی رحلت کے بعد حضرت عائشہ گھر میں داخل ہونا چاہتی تھیں لیکن جناب اسماء نے داخل نہ ہونے دیا ، عائشہ نے اپنے باپ سے شکایت کی اور کہا: اسماء نے فاطمہ کے لئے دلہن کے ہودج کی طرح تابوت بنایا ہے اور مجھے گھر میں داخل نہیں ہونے دیا۔ ابوبکر نے اسماء سے جواب طلب کیا تو انھوں نے فرمایا: یہ کام میں نے شہزادیؑ کے حکم کے مطابق انجام دیا ہے اور میں انھیں کے حکم کے مطابق تابوت بنانے میں مشغول ہوں۔ حضرت علیؑ اور اسماء نے ابوبکر کے چلے جانے کے بعد جناب فاطمہؑ کو غسل دیا(۶۲)
جناب اسماء خاندان عصمت و طہارت کے ساتھ محبت و خدمت گزاری میں مصروف رہیں جبکہ وہ ابوبکر کے گھر میں بیوی کی ذمہ داریوں کو بھی پورا کررہی تھیں۔ ایک دن ابوبکر بیمار تھے تو قیس بن ابی حازم اپنے باپ کے ساتھ انکی عیادت کے لئے گئے تو وہاں جناب اسماء کو سفید چہرے کی عورت اور ہاتھوں میں خالکوبی دیکھی(۶۳)
حضرت علی علیہ السلام سے شادی:
۱۳ھ؁ میں حضرت ابوبکر اس دنیا سے رخصت ہوئے، جناب اسماء نے ابوبکر کے مرنے کے بعد حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ شادی کی جس کے نتیجے میں یحیی اور عون پیدا ہوئے(۶۴)
ابن عبد البر نے اس بات میں سخت تردد کا اظہار کیا ہے کہ عون حضرت علیؑ کے بیٹے اسماء سے ہوں۔اور کہا ہے کہ ابن کلبی کے علاوہ کسی نے یہ بات نہیں کہی ہے(۶۵)۔
جب ۳۸ھ؁ میں اسماء نے اپنے بیٹے محمد بن ابی بکر کی شہادت کی خبر سنی تو گھر میں اپنے مصلے پر پہنچیں اور شدت غم کے نتیجے میں سینے سے خون جاری ہوگیا(۶۶)اور ابھی اپنے بیٹے کا غم ہلکا نہ ہوا تھا کہ امیر المومنینؑ کی شہادت کی خبر سنی۔
وفات و آخری آرامگاہ:
جناب اسماء ان ناگوار واقعات کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوئیں ان کو یہ شرف حاصل تھا کہ وہ دو شہیدوں حضرت علیؑ و جناب جعفرؓکی زوجہ اور تین شہیدوں کی ماں تھیں۔ تاریخ وفات اور محل دفن میں اختلاف ہے۔ ذہبی(۶۷)کی طرح اکثر افراد نے حضرت علیؑ کی شہادت کے بعد اسی سال یعنی ۴۰ھ؁میں وفات لکھی ہے جبکہ بعض نے ۳۸ھ؁ لکھا ہے۔ اس وقت اسماء کے نام سے ایک قبر دمشق میں قبرستان باب الصغیر میں موجود ہے اسی طرح عراق میں ہاشمیہ کے علاقہ میں ایک مقبرہ ان کے نام سے منسوب ہے اسی سے نزدیک ان کے بیٹے یحیی جو نسل امام علیؑ سے ہیں، ان کی قبر بھی ہے۔ 
یہ تھا ایک عظیم المرتبت خاتون ، کنیز شہزادیٔ کونینؑ کا ایک مختصر تعارف ،خدا سے دعا ہے ہم سب کو صحیح اور سچی معرفت اہل بیتؑ عطا کرنے کے ساتھ ہر حال میں اہل بیتؑ سے وابستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا ربّ العالمین
۱۔بحار، ج۴۳، ص۲۱۱۔
۲۔تاج العروس، زبیدی جلد ۱۷، صفحہ ۷۲۷؎ اور دیکھئے جلد ۱۹ صفحہ ۵۴۰۔
۳۔(تاج العروس، زبیدی جلد ۱۷، صفحہ ۷۶۷؎ اور دیکھئے جلد ۱۹ صفحہ ۵۴۰)
۴۔الطبقات الکبریٰ ، ابن سعد جلد ۸ ، ۲۱۹)
۵۔دیکھئے : التنبیہ والاشراف ، مسعودی ، صفحہ ۲۸۸، معجم قبائل العرب القدیمہ والحدیثیہ ، عمر کحالہ ، جلد ۱ صفحہ۲۳۱)
۶۔ معجم ما استعجم ، عبد اللہ بکری جلد ۲ صفہ ۳۷۶
۷۔مقاتل الطالبین ، ابو الفرج اصفہانی ، ص ۱۱و۱۲۔ الاستیعاب ، ابن عبد البر جلد ۴، صفحہ ۱۹۱۵
۸۔سیرت ابن ہشام،ج۱ ، ص۱۳۶، الاصابۃ، ج۸، ص۹ بحوالہ ابن سعد۔
۹۔طرائف ، ابن طاؤس صفحہ ۲۴۹
۱۰۔طبقات الکبریٰ جلد ۸ ، صفحہ ۲۰۹
۱۱۔خصال ، شیخ صدوق صفحہ ۳۶۳
۱۲۔اصابہ،ج۸،ص۹۔
۱۳۔الفاصل، مبرّد صفحہ ۱۱۷
۱۴۔طبقات الکبریٰ جلد ۸، صفحہ ۲۱۹
۱۵۔عمدۃالطالب فی انساب ابی طالبؑ، ص۳۷؛ المنہاج، علی بہادلی، ص۲۳۵؛ چودہ ستارے،ص۴۳۔
۱۶۔ابن ماجہ،ج۲،ص۱۱۶۰۔
۱۷۔السیرۃ الحلبیہ جلد ۲ صفحہ ۲۷۶
۱۸۔دیکھئے الاستیعاب ۳/۸۸۰و ۱۳۶۹۔ الاصابہ فی تمییز الصحابہ ، ابن حجر جلد ۶ صفحہ ۸
۱۹۔کشف الغمہ ، اربلی ، جلد ۱ صفحہ ۳۷۶، ۔
۲۰۔الاستیعاب، ج۴، ص۱۷۸۵۔
۲۱۔مزید مطالعہ کے لئے دیکھئے الصحیح میں سیرۃ النبی الاعظمؐ ، مرتضیٰ عاملی جلد ۵، صفحہ ۲۶۳ 
۲۲۔سنہ ۱۰ بعثت، کشف الغمہ، ج۱، ص۲۷۱
۲۳۔مسند احمد حنبل ، جلد ۶ صفحہ ۴۳۸، المعجم الکبیر ، طبرانی ، جلد ۲۴، صفحہ ۱۵۶
۲۴۔سیر اعلام النبلا ذہبی ، جلد ۲ صفحہ ۱۷۳
۲۵۔المعجم الکبیر جلد ۲۴ صفحہ ۱۵۷، ۱۶۱۔ نیز دیکھئے مجمع الزوائد و منبع الفوائد ہیثمی جلد ۷ ، صفحہ ۳۴۶، معجم احادیث الامام مہدی ،کورانی جلد ۲ صفحہ ۸۳
۲۶۔مدونۃ الکبریٰ ، مالک بن انس،جلد ۱ صفحہ ۲۴۸
۲۷۔البحرالرئق ، ابن نجیم ، جلد ۳ صفحہ ۱۱
۲۸۔النہایہ ، ابن اثیر جلد ۳ صفحہ ۵۲۔
۲۹۔حیات القلوب،ج۲۔
۳۰۔احزاب ۔۔۔۔۔۳۵
۳۱۔طبقات الکبریٰ جلد ۸ صفحہ ۲۱۹و ۲۲۰۔
۳۲۔صحیح بخاری، ج۲، ص۶۰۷۔۶۰۸۔
۳۳۔طبقات الکبریٰ، جلد۸، ص۱۲۸۔۲۲۳۔
۳۴۔کامل ابن اثیر ، ج۲، ص۹۰؛اسد الغابہ،ج۲،ص۲۸۹؛الاستیعاب،ج۱،ص۲۲۱؛الاصابہ(زندگانی جعفر ابن ابی طالبؑ)
۳۵۔المحاسن ، برقی ، جلد ۲، صفحہ ۴۱۹، ۴۲۰۔ طبقات الکبریٰ جلد ۸ صفحہ ۲۲۰۔ نیز دیکھئے الکافی کلینی  جلد ۳ صفحہ ۲۱۷۔ من لا یحضرہ الفقیہ صدق جلد ۱، صفحہ ۱۸۲و ۱۸۳۔
۳۶۔مسند،ج ۶، ص۳۷۰۔
۳۷۔رجال مامقانی، ج۳، ص۶۹
۳۸۔الاصابۃ،ج۸،ص۹۔
۳۹۔المغنی ، ابن قدامہ جلد ۱۰ صفحہ ۵۱۱۔
۴۰۔البدایہ والنھایہ ، ابن کثیر جلد ۴ صفحہ ۲۸۸۔۔۲۸۹۔
۴۱۔تاریخ المدینۃ المنورہ، ابن شیبہ جلد ۱ صحہ ۲۴۲۔
۴۲۔تاریخ یعقوبی ابن واضح یعقوبی جلد ۲ صفحہ ۲۷)۔
۴۳۔طبقات الکبریٰ جلد ۳ صفحہ ۳۰۔
۴۴۔طبقات الکبریٰ جلد ۸ صفحہ ۲۲۰۔۲۲۱؛ صحیح مسلم، ج۱، ص ۳۸۵۔۳۹۴۔
۴۵۔ دیکھئے من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۲ صفحہ ۳۸، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم جلد ۱ صفحہ ۱۷۲۔ الام ، شافعی ۲/۱۹۸۔
۴۶۔سورہ مائدہ ۳۔
۴۷۔جامع البیان طبری جلد ۶ صفحۃ ۱۰۶۔
۴۸۔الغارات ثقفی کوفی، جلد ۱ صفحہ ۲۸۸۔
۴۹۔ الاختصاص ، شیخ مفید صفحہ ۷۰
۵۰۔الغارات جلد ۲ صفحہ ۷۵۷۔ ۷۵۸۔
۵۱۔طبقات الکبریٰ جلد ۲ صفحہ ۲۰۴و۲۰۸
۵۲۔ المستراللہ۔ طبری ، صفحہ ۴۵۱۔
۵۳۔ارشاد القلوب ، دیلمی صفحہ ۳۳۴۔
۵۴۔ بحارالانوار، ج۲۹،ص۱۹۷۔
۵۵۔ کشف الغمہ،ج۲،ص۱۲۲۔
۵۶۔طبقات الکبریٰ، ج۸،ص۳۱و ۲۲۰۔
۵۷۔التلخیص، ابن حجر، ج۵،ص ۲۷۴؛ نیز دیکھیے الاصابۃ،ج۸، ص۲۶۶۔
۵۸۔المحلیٰ ابن حزم، ج۵، ص۱۷۵؛نیز دیکھئیالذریعۃالطاہرۃالنبویۃ، دولابی، ص۱۱۳؛دعائم الاسلام، قاضی نعمان، ج۱، ص۲۲۸۔
۵۹۔الاباطیل و المناکر، جوزقانی،ص۲۱۱۔
۶۰۔طبقات الکبریٰ، ج۸ ، ص۲۳ و ۲۲۰۔
۶۱۔تاریخ یعقوبی، ج۲ ،ص۱۱۵۔
۶۲۔الذریعہ الطاہرۃ النبویۃ، ص۱۱۲۔
۶۳۔ المعجم الکبیر، ج۲۴،ص ۱۳۱۔
۶۴۔طبقات الکبریٰ، ج۸،ص ۲۲۲؛ ریاض النضرۃ،ج۲،ص۶۴۹؛ مسند،ج۶،ص۳۶۔
۶۵۔ الاستیعاب، ج۴، ص۱۷۸۵۔
۶۶۔الغارات،ج۱،ص۲۸۷۔الاصابہ، ج۴، ص۲۳۱۔
۶۷۔سیر اعلام النبلائ، ج۲،ص۲۸۷، خلاصہ تہذیب، ص۴۸۸۔
(زنان اسوہ،اسماء بنت عمیس،دکتر حسین حسینیان مقدم؛ماہنامہ اصلاح لکھنؤ؛ مثالی خاتون، علی شیرازی؛ بعض ویب سائڈس)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں