حضرت جعفر طیار علیہ السلام
سید محمد حسنین باقری Mob.+91-9598956660
دشمنان اسلام نے اسلام کو ختم کرنے اور اس کے آثار کو مٹانے کے لئے ہر طرح کی کوششیں روا رکھیں جس کا سلسلہ وصال پیغمبرؐ کے بعد سے شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔ آج بنام وہابیت اسلام کو نابود کرنے ، اس کو بدنام کرنے اور دنیا سے اسلامی آثار کو ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں جس کی تازہ کڑی شام میں صحابیٔ پیغمبرؐ اور صحابیٔ امیرالمومنینؑ جناب حُجر بن عَدی کی قبر کی توہین پھر لاش کی بے حرمتی اور اس کے دوروز بعد ہی اردن میں پیغمبر اکرمؐ کے جلیل القدر صحابی اور آپؐ کے چچا زاد بھائی جناب جعفر طیارؑ کے روضے میں آگ لگایا جانا ہے۔ یقینایہ عمل کھلی ہوئی دہشت گردی اور اسلام دشمنی کا بارز نمونہ ہے۔ ہر مسلمان کا فریضہ ہے کہ اس طرح کے ہر عمل کی شدید مذمت کرے اور اسلام کے خلاف چلی جانے والی سازشوں کو پہچانے اور اسلام دشمن عناصر بالخصوص داخلی دشمن وہابیت کو بے نقاب کرے اس لئے کہ وہابیت کا اصل ہدف اسلام اور رسول اسلامؐ ہیں۔ وہ در حقیقت نبیؐ کے دشمن ہیںاسی لئے وہ سب سے پہلے روضۂ رسولؐ کو مسمار کرنا چاہتے ہیںاور پیغمبرؐ کے ان مقدس اصحاب کے روضوں کی بے حرمتی روضۂ رسولؐ کی طرف ایک قدم ہے، اگر آج مسلمان متوجہ نہ ہوئے تو کل یہ وہابی رسولؐ کے روضہ کو بھی مسمار کردیں گے۔ لہذا ہر عاشق رسولؐ کی ذمہ داری ہے کہ دشمنان رسولؐ کو پہچانے اور ان کے خلاف صف آرا ہو۔ لہذا ہم بھی اس عمل کی اور اس طرح کے ہر عمل کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
ذیل میں حضرت جعفر طیارؑ کی شخصیت کا ایک اجمالی خاکہ قارئین کی نذر ہے۔
نام و لقب:حضرت جعفر ابن ابی طالب علیہ السلام ’’جعفر طیار‘‘ کے نام سے مشہور ہیںآپ کو ’’ذوالجناحین‘‘(دو بازؤں والے) بھی کہا جاتا ہے۔ آپ طالب و عقیل کے بعد حضرت ابوطالب علیہ السلام و جناب فاطمہ بنت اسد کے تیسرے بیٹے اور امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے بڑے بھائی تھے۔جناب جعفر تقریبا بیس عام الفیل (۵۷۰ء) میں مکہ میں پیدا ہوئے(المنھاج، علی بہادلی،ص۲۳۵)۔
فضائل و خصوصیات: آپ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور آپؐ سے صورت و سیرت میں بہت زیادہ مشابہ تھے، پیغمبر اکرم ؐ ان سے بہت زیادہ محبت کرتے اور فرمایا کرتے تھے کہ’’تم صورت و سیرت میں مجھ سے مشابہ ہو‘‘۔ جناب جعفر پیغمبر ؐ کے صحابی اور آغاز اسلام کی نمایاں شخصیات میں تھے اور دوسرے یا تیسرے مسلمان بیان کئے گئے ہیں۔آغازاسلام میں آپ کی تشویق کرنے والے جناب ابوطالبؑ تھے اسی لئے جب جناب ابوطالبؑ نے پیغمبر اکرمؐ اور حضرت علیؑ کو نماز پڑھتے دیکھا تو جناب جعفر سے فرمایا کہ ان دونوں کے ساتھ شریک ہوکر نماز پڑھیں(اعلام الوریٰ، طبرسیؒ، ج۱،ص۱۰۳؛ تاریخ مدینہ دمشق، ابن عساکر،ج۷۲،ص۱۲۵؛ اسد الغابہ فی معرفۃالصحابہ، ابن اثیر، ج۱،ص۳۴۱؛ الدرجات الرفیعہ فی طبقات الشیعہ، علی خان ابن احمد مدنی،ص۶۹) جناب جعفر کی خصوصیات میں سے یہ خصوصیت بھی تھی کہ بعثت سے پہلے زمان جاہلیت میں آپ اس دور کی رسوم و عادات سے دور تھے ،شیخ صدوقؒ اور ابن عساکر وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ آپ اس زمانے میں رائج چار کاموں سے اجتناب کرتے تھے: شراب، جھوٹ، زنا اور بتوں کی پرستش۔( تاریخ مدینۃ دمشق، ابن عساکر، ج۷۲، ص۱۲۶)
جناب جعفر زبردست خطیب ، شجاع و بہادر اور سخاوتمند( حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیائ،احمد بن عبد اللہ ابو نعیم، ج۱، ص۱۱۴)بردبار اور متواضع( التبیین فی انساب القرشیین،ابن قدامہ، ص۱۱۵)عقل و درایت میں کامل، باہوش ،ذہین، بااثر اور قوی ارادہ کے مالک تھے۔ دینی مسائل سے آشنا اور اصول و فنون جنگ میں ماہر تھے( مجلۃ المجمع العلمی العربی،محمود شیت خطاب، ص۱۵۴) جناب جعفر کی عظمت و بزرگی کی دلیل وہ نماز ہے جسے فتح خیبر کے بعد پیغمبرؐ نے بعنوان ہدیہ انھیں تعلیم دیا اور ’’نماز جعفر طیار‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ائمہ معصومینؑ اس نماز کو پڑھتے اور اس کی تاکید کی ہے۔ اس نماز کے بہت سے فائدے بیان ہوئے اور اسے کبریت احمر کہا گیا ہے۔
حبشہ کی جانب ہجرت:بعثت کے پانچویں سال جب کفار مکہ کی جانب سے مسلمانوں پر سختیاں اور مظالم اپنی انتہا کو تھے تو اس وقت مسلمانوں کے ایک گروہ نے پیغمبرؐ کی اجازت سے حبشہ کی جانب ہجرت کی توجناب جعفر مہاجرین کے قائد تھے۔آپ کے ساتھ آپ کی زوجہ جناب اسماء بنت عُمیس بھی تھیں۔ بادشاہ حبشہ نجاشی کے دربار میں آپ کی تقریر ادب کا شہ پارہ اور اسلام کا خلاصہ تصور کی جاتی ہے۔ جب مسلمانوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کی اس کے کچھ ہی عرصہ بعد مشرکین مکہ نے اپنے نمائندے حبشہ بھیجے تاکہ وہ ان مسلمانوں کو گرفتار کر کے واپس لے آئیں۔ مشرکین کے نمائندوں میں عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ شامل تھے جو بعد میں مسلمان ہو گئے تھے۔ انہوں نے نجاشی سے مطالبہ کیا کہ مسلمانوں نے اپنا سابقہ دین چھوڑ دیا ہے اور وہ مجرم ہیں اس لئے انہیں کفار مکہ کے حوالے کر دیا جائے۔حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کو بلا کر کچھ سوالات کئے جن کے جواب حضرت جعفر طیار علیہ السلام نے دیے۔
نجاشی نے جب حضرت جعفر طیار ؑسے ان کے نئے دین کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا:
ہم جہالت کی زندگی گذارتے تھے تو یہ دین آیا جس میں حکم ہے کہ ہم سچ بولیں ، اپنے وعدوں کو پورا کریں، اپنے قرابتداروں سے اچھا سلوک کریں، تمام ممنوعہ برے کام ترک کر دیں، قتل و غارت سے اجتناب کریں، سرکشی چھوڑ دیں، جھوٹی گواہی نہ دیں، یتیموں کا حق غصب نہ کریں اور پاکدامن عورتوں پر تہمت نہ لگائیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، نماز قائم کریں، زکوۃ دیں، رمضان میں روزے رکھیں۔ ہم نے ان کی اطاعت کی اور اس بات کو مانا جو وہ اللہ کی طرف سے لائے۔ ہم ویسا کرتے ہیں جیسا وہ کہتے ہیں اور اس چیز سے دور رہتے ہیں جس سے وہ منع فرماتے ہیں۔
اس کے علاوہ نجاشی نے فرمائش کی کہ قرآن سے کچھ سنائیں تو نجاشی کے سامنے آپ نے سورہ مریم کی تلاوت کی جس میں حضرت عیسیؑ اور حضرت مریمؑ کا ذکر آیا ہے۔ اس کا نجاشی پر بہت اثر ہوا اور اس نے مسلمانوں کو کفار مکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا، کفار کے دیے ہوئے تحائف واپس کر دیے اور مسلمانوں کو حبشہ میں رہنے کی اجازت دے دی۔جناب جعفرؑ نے یہاں تقریبا دس سال گذارے۔ سنہ ۷ ہجری میں جنگ خیبر کے بعد ان کی عرب واپسی ہوئی۔جناب جعفر کا کردار و عمل اور آپ کی صلاحیتوں نے نجاشی کو بہت ہی زیادہ متاثر کیاجس کے نتیجے میں قربت پیدا ہوئی اور جیسا کہ بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ بادشاہ حبشہ نے متاثر ہوکر جناب جعفر کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا(ابن سعد،ج۱،ص۱۹۸؛ امتاع،مقریزی،ج۱،ص۳۰۵)
حضرت جعفر طیار کی واپسی :حضرت جعفر طیارؑ سنہ۷ہجری میں فتح خیبر کے موقع پر واپس آئے۔ ان کی واپسی پر رسول اکرمؐ نے فرمایا تھا کہ میں حیران ہوں کہ دوخوشیوں میں سے کس کو ترجیح دوں ،آیا فتح خیبر کی خوشی کو اہم سمجھوں یا جعفر طیار وغیرہ کی واپسی کو اہمیت دوں۔اور آپؐ نے مسجد کے پہلو میں ان کے لئے ایک گھر مقرر فرمایا۔
جنگِ موتہ اور شہادت :جنگ موتہ اس مشہور جنگ کو کہتے ہیں جس میں اسلام کے تین سپہ سالار پے در پے شہید ہوئے، جن میں نمایاں درجہ حضرت جعفر طیار کو حاصل تھا’موتہ‘ یہ شام کے علاقے بلقا کا ایک قریہ ہے۔ اس جنگ کا واقعہ یہ ہے کہ حضور اکرم ؐ نے اسلامی دعوت نامہ دیگر سلاطین اور رؤسا کی طرح شام کے حاکم عیسائی شرجیل بن عمر غسانی کے پاس بھی بھیجا۔ اُس نے آپؐ کے قاصد حارث ابن عمیر کو بمقام موتہ قتل کردیا۔ چونکہ اس نے اسلامی توہین کے ساتھ ساتھ دنیا کے بین الاقوامی قانون کے خلاف کیا تھا لہذا آنحضرتؐنے جمادی الاولیٰ ۸ ہجری میں تین ہزار کی فوج مقابلے کے لئے روانہ فرمائی جس کے امیر حضرت جعفر طیار تھے۔ حضور کا حکم تھا کہ حضرت جعفر طیارؑ کے بعد حضرت زید بن حارثہؓ مسلمانوں کے امیر ہوں گے اس کے بعد عبد اللہ ابن رُواحہ(اور یہی ترتیب صحیح ہے اس لئے کہ بعض مورخین نے دشمنی علی ؑ میں جعفر بن ابی طالبؑ کی عظمت کو کم کرنے کے لئے لکھا ہے کہ زید بن حارثہ امیر لشکر بنائے گئے اس کے بعد جعفرپھر ابن رواحہ جبکہ پیغمبرؐ نے جعفر کو امیر لشکر بنایا اور پہلے وہی شہید ہوئے،دیکھئے الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ، علامہ جعفر مرتضیٰ عاملی،ج۱۹،ص۳۱۹۔ نیز دیکھئے:اعلام الوریٰ، طبرسی،ج۱،ص۲۱۲؛ ابن شہر آشوب،ج۱،ص۲۰۵؛ بحار،ج۲۱،ص۵۹، ابن سعد،ج۲،ص۹۹)۔ مقابلے میں ایک لاکھ سے زائد کا لشکر تھا لیکن مسلمانوں نے دشمن کی کثرت کی کوئی پرواہ نہیں کی اور خدا پر توکل کرکے پائے ثبات میدان شجاعت میں گاڑ دئے اور کفار سے مقابلہ شروع کردیا۔ حضرت جعفر طیارؑنے علم سنبھال لیا۔ دشمنوں نے ان کو گھیرے میں لے لیا اور مل کر ان پر حملہ کر دیا، ان کے گھوڑے کو پے کردیا ،مسلمانوں کا یہ پہلا گھوڑا تھا جو پے کیا گیا۔ حضرت جعفر طیارؑ نے بڑی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیادہ ہوکر مقابلہ شروع کردیا لیکن دشمنوں نے ایک ضرب انکے داہنے ہاتھ پر ایسی لگائی کہ جسم سے جدا ہوگیا۔ جعفرؑ نے علم بائیں ہاتھ میں لے لیا لیکن دشمنوں نے بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیاجب بھی وہ علم دانتوں سے سنبھالے ہوئے تھے کہ ایک شخص رومی نے ایسا زخم کاری لگایا کہ جس کے بعد کھڑے ہونے کی طاقت نہ رہی اور آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔اس کے بعد حضرت زید بن حارثہؓ نے علم سنبھالا انکی شہادت کے بعدعبد اللہ ابن رواحہ علمدار لشکر ہوئے لیکن آخر میں انھوں نے بھی جام شہادت نوش کیا اس کے بعد ایک بہادر نے علم سنبھالا اور کامیابی کے بعد مدینہ واپسی ہوئی۔
حدیث صحیحہ میں وارد ہوا ہے کہ خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کو اہل موتہ کے حالات پر اطلاع دی اور زمین کو بلند کردیا یہاں تک کہ حضرتؐ نے جنگ کا حال مشاہدہ فرمایااور اپنے اصحاب کو خبر دی کہ جعفر بن ابیطالبؑ نے علم برداری کی اور شہید ہوئے پھر زید بن حارث علم بردار ہوئے اور شربت شہادت نوش فرمایا پھر ابن رواحہ نے علم اٹھایا اور جام شہادت پیا۔
حضرتؐ یہ باتیں فرماتے تھے اور آنکھوں سے اشک جاری تھے پھر فرمایا کہ جعفر بہشت میں آئے اور خداوند عالم نے ان کو یاقوت سرخ کے دو پر ہاتھوں کے عوض عطا فرمائے کہ وہ جہاں چاہتے پرواز کرتے ہیں۔ جناب امیرالمومنینؑ سے منقول ہے کہ رسالتمآبؐ نے فرمایاکہ میں نے جعفر کو بہشت میں دیکھا کہ مثل فرشتے کے پرواز کررہے ہیں اور اسی سبب سے انھیں ’طیار‘ کہتے ہیں۔
بعض قصوں میں مذکور ہے کہ حضرت جعفرؓ کے اس جنگ میں پچاس زخم لگے تھے یہاں تک کہ وہ میدان میں گرپڑے ، ان میں اٹھنے کی طاقت نہ تھی لیکن ان کی ہیبت اور رعب کے سبب سے کسی میں اتنی تاب نہ تھی کہ ان کا سر مبارک جسم سے جدا کرسکے آخرکار سب نے حملہ کیا اور ان کو نیزوں پر اٹھا لیا۔ اس وقت سرکار دوعالمؐ مسجد مدینہ میں منبر پر تشریف رکھتے تھے خدا وند عالم نے پردے اٹھادئے اور حضرتؐ نے اس معرکہ کا مشاہدہ کیا جب لوگوں نے حضرت جعفرؑ کو نیزوں پر اٹھا لیا تو حضرتؐ نے اپنا سر آسمان کی جانب بلند کیا اور عرض کی کہ بارالٰہ! میرے ابن عم کو رسوا نہ کر۔ خدا وند عالم نے اسی وقت ان کو دو پر عطا فرمائے اور جناب جعفر کفار کے نیزوں ہی سے روضۂ رضوان کی طرف پرواز کر گئے اسی وجہ سے ان کو ذوالجناحین اور طیار کہتے ہیں‘‘(مجالس المومنین،ص۲۳۵)
آپ کے شہید ہوتے ہی پیغمبر اسلامؐ اور فاطمہ زہراؑ اسماء بنت عمیس کے پاس ادائے تعزیت کے لئے گئے آپؐ نے حکم دیا کہ جعفر کے گھر کھانا بھیجو۔
شہادت کے وقت آپ کی عمر ۴۱ سال تھی۔آپ کا روضہ اردن کے شہر عمان سے 140 کلومیٹر کے فاصلے پر صوبہ کرک میں ’المزار‘ نامی جگہ پر واقع ہے۔
اولاد:حضرت جعفر طیارؑکے آٹھ بیٹے عبداللہ(حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی شوہر)، عون(حضرت ام کلثوم بنت علی کے شوہربعض مورخین نے محمد ابن جعفرطیار کو جناب ام کلثوم کا شوہر لکھا ہے اور بعض کے مطابق پہلے جناب عون سے شادی ہوئی اور انکے انتقال کے بعد محمد سے شادی ہوئی )، محمد اکبر، محمد اصغر، حمید، حسین، عبداللہ اکبر و عبداللہ اصغر بیان کئے گئے ہیں جنکی ماں اسماء بنت عمیس تھیں( عمدۃ الطالب فی انساب آل ابی طالب،ص۳۷؛المنھاج،علی بہادلی،ص۲۳۵؛ چودہ ستارے،ص۴۳؛علوی،۵۰۵؛ابن عنبہ،۳۵)گرچہ عامہ نے صرف تین اولادوںعبداللہ،محمد اور عون کا تذکرہ کیا ہے(ابن ماجہ۲؍۱۱۶۰)
(منابع:مجالس المومنین، شہید ثالث قاضی نوراللہ شوستریؒ؛ چودہ ستارے، علامہ سید نجم الحسن کرارویؒ؛ wikifegh.ir ؛ abna.ir ؛ afkarnews.ir)
بھت ہی اعلی مقالہ ہے
جواب دیںحذف کریں