قیام حسینی میں بعض خواص کا کردار
سید محمد حسنین باقری
واقعہ کربلا کے سلسلے میں آغاز قیام سے اس وقت موجود افراد نے مختلف تجاویز پیش کیں سرکار سید الشہداؑ حضرت امام حسینؑ نے جب سے اپنے سفر کا اعلان کیا بہت سے افراد نے اپنے اپنے اعتبار سے امامؑ کو مشورے دئے اس میں خاندان کے افراد بھی تھے اور باہر کے بھی۔ بہت سے افراد نے اس تحریک کی مخالفت کی، امام حسینؑ کو روکنا چاہا اپنے اعتبار سے آئندہ آنے والے خطرات کی طرف متوجہ کیا ان افراد میں عوام و خواص ، موافق و مخالف سب تھے۔ اپنوں نے ہمدردی اور محبت میں امامؑ کو روکنا چاہا اور مخالفین نے یزید کی خوشنودی کیلئے اور اس کے خلاف کسی طرح کا قیام پیش نہ آئے اس لئے مخالفت کی۔ یہ تمام افراد امامؑ کی تحریک اور قیام کی حقیقت و واقعیت سے نا آشنائی اور عدم علم کی بنیاد پر اس کی مخالفت کررہے تھے ۔ اگر اس سلسلے میں امام خیر خواہ افراد کی بات مان لیتے تب بھی مخالفین کا منشا پورا ہوجاتا ۔ تاریخ میں اس طرح کے بہت سے افراد کا ذکر ملتا ہے ذیل میں کچھ مشہور اور خاص افراد کا ذکر کیا جارہا ہے۔ جنہوں نے مختلف طریقوں سے امامؑ کو قیام سے منصرف ہوجانے کی رائے دی ۔ سب کو امامؑ نے جواب دیا اور بعض کو اپنے قیام کے مقصد سے بھی آگاہ کیا۔
(۱) جناب ام سلمہ
ام المومنین ام سلمہ کو جب امام حسینؑ کے سفر کی اطلاع ملی تو خدمت امامؑ میں پہنچ کر عرض کی: عراق کی جانب سفر کرکے مجھے رنجیدہ نہ کرو اس لئے کہ میں نے تمہارے نانا رسول خداؐ سے سنا ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’میرا بیٹا حسینؑ سر زمین عراق پر کربلا میں قتل کیا جائے گا‘‘۔
امام حسینؑ نے جواب دیا: اے نانی جان! میں بھی جانتا ہوں کہ دشمنان اسلام کی دشمنی اور کینہ کے نتیجے میں راہ خدا میں شہید کیا جاؤں گا اور یہ تو خدا چاہتا ہے کہ میرے اہل بیتؑ اسیر ہوں اور میرے بچے شہادت کو گلے لگائیں۔(۱)
(۲)محمد بن حنفیہ
امیر المومنینؑ کے بیٹے اور امام حسینؑ کے بھائی جناب محمد بن حنفیہ امام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: اے بھائی آپؑ میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ عزیز ہیں۔ اور میں جو کچھ خیر و صلاح پاتا ہوں ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ سے بیان کروں وہ یہ کہ آپ شہر مکہ تشریف لیجائیں اگر اس شہر میں امن و سکون نہ ہو تو صحراء و بیابان کے راستے ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کریں یہاں تک کہ لوگوں کے حالات اور آئندہ سے مطمئن ہوجائیں۔ امام حسینؑ نے جواب دیا:
’’یا اخی لولم یکن فی الدنیا ملجاء ولا ماوی لما بایعتُ یزید بن معاویۃ‘‘
اے برادر! اگر پوری دنیا میں بھی میرے لئے کوئی پناہ باقی نہ بچے تب بھی یزید کی بیعت نہیںکروں گا۔
محمد بن حنفیہ مکہ میں بھی امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : اے برادر! آپ تو اپنے بابا حضرت علیؑ اور بھائی امام حسنؑ کے سلسلے میں کوفہ والوں کی بے وفائی دیکھ چکے ہیں۔ مجھے خوف ہے کہیں یہ لوگ آپ سے بھی بے وفائی نہ کریں۔ لہٰذا بہتر ہے کہ آپ عراق کی جانب سفر نہ کریں اور اس شہر مکہ میں قیام کریں اس لئے کہ آپ اس شہر اور حرم خدا میں دوسروں سے زیادہ قابل احترام ہیں۔
امامؑ نے جواب دیا: خوف یہ ہے کہ یزید مجھے مکرو حیلہ کے ذریعہ حرم خدا میں قتل کروادے جس کی وجہ سے حرم الٰہی کی حرمت پائمال ہوجائے۔ محمد بن حنفیہ نے تجویز پیش کی کہ پس اس صورت میں بہتر ہے کہ آپ عراق کے بجائے یمن یا کسی دوسرے محفوظ علاقہ کی طرف چلے جائیں۔ امامؑ نے فرمایا: تمہاری تجویز پر غور کروں گا۔‘‘
امام حسینؑ نے اسی رات سحر کے وقت عراق کی جانب کوچ کیا جب محمد بن حنفیہ کو امامؑ کے آغاز سفر کی اطلاع ملی فوراً خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا : آپ نے تو فرمایا تھا کہ میری تجویز پر غور کروں گا؟ امامؑ نے جواب دیا: بلی ولکن بعد ما فارقتک اتانی رسول اللہ ۔ وقال: یا حسین اخرج فان اللہ تعالیٰ شائَ ان یراک قتیلا۔۔۔۔۔۔۔۔ و قد شاء ان یراھن سبایا ۔ ہاں صحیح ہے لیکن تمہارے جانے کے بعد میں نے رسول اللہؐ کو خواب میں دیکھا آپؐ نے فرمایا: اے حسینؑ سفر اختیار کرو، اس لئے کہ وہ چاہتا ہے تم کو مقتول دیکھے اور تمہارے اہل بیتؑ اسیر ہوں ۔(۲)
(۳) عبد اللہ بن جعفر
امام حسینؑ کو عراق کے سفر سے منصرف ہونے کی رائے دینے والوں میں عبد اللہ بن جعفر بھی تھے۔ یہ حضرت زینبؐ کے شوہر اور امامؑ کے چچا زاد بھائی تھے۔ انہوں نے امام حسینؑ کے کوچ کرنے کے بعد اپنے دو بیٹوں عون و محمد کو امامؑ کی خدمت میں بھیجا اور ان کے ذریعہ روانہ کر دہ خط میں یہ تجویز رکھی: جو سفر آپ نے اختیار کیا ہے اس کو ترک کرکے مکہ واپس آجائیے اس لئے کہ مجھے خوف ہے آپ اس سفر میں قتل کردیئے جائیں ۔ آپ کے بچے قیدی بنالیئے جائیں اور آپ کے قتل کی وجہ سے نور اسلام خاموش ہوجائے۔
عبد اللہ بن جعفر نے خط بھیجنے کے بعد عمر بن سعید سے ملاقات کی جو یزید کی طرف سے ولید کی جگہ پر مدینہ کا والی مقرر ہوا تھا اور حاجیوں کے سرپرست کی حیثیت سے اور در حقیقت امام ؑ کو قتل کرنے کیلئے مکہ میں موجود تھا۔ عبد اللہ نے اس سے امام حسینؑ کیلئے امان نامہ لیا اور یحییٰ بن سعید کے ذریعہ مکہ سے باہر امامؑ تک پہنچایا۔ حضرتؑ نے دونوں خطوط کے جواب میں فرمایا:
انی رایتُ رؤیا فیھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وأُمرتُ فیھا بامرٍ انا ماضٍ لہ علی کان اولی۔۔۔۔۔۔۔ ما حدّثتُ احداً بھا وما انا مُحدّثٌ بھا حتی القی ربّی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فخیر الامانِ امانُ اللہ و لن یومنَ اللہَ یومَ القیامۃ من لم یخفہ فی الدنیا
میں نے رسول خداؐ کو خواب میں دیکھا ہے ۔ آپؐ نے مجھے ایک اہم کام سپر د فرمایا ہے جسے انجام دینا ضروری ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے اس خواب کے بارے میں کسی سے نہیں بتایا ہے اور جب تک زندہ ہوں کسی سے نہیں کہوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوربہترین امان خدا کی امان ہے اور اگر کوئی دنیا میں خوف خدا نہ رکھے تو آخرت میں امان میں نہیں ہوگا۔ (۳)
(۴) عبد اللہ بن عباس
امام حسینؑ کو سفر سے منصرف ہونے کی رائے دینے والوں میں سے ایک آپ کے چچازاد بھائی عبد اللہ بن عباس تھے۔ عبد اللہ بن عباس مکہ میں امام ؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہتے ہیں۔ اے چچا کے بیٹے ! اس بات سے خوف زدہ ہوں کہ جو سفر آپ نے اختیار کیا ہے اس میں قتل نہ کردئے جائیں اور آپ کے دشمنوں کے ہاتھوں آپ کے بچے اسیر کرلیئے جائیں اس لئے کہ عراق کے لوگ عہد شکن ہیں۔ ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ مکہ ہی میں قیام کیجئے اور اگر مکہ سے نکلنا ضروری سمجھتے ہیں تو یمن کی جانب چلے جائیں۔ امام ؑ نے جواب دیا:
’’یا بن العمّ انی واللہ لَاَعْلم انّک ناصحٌ مشفق و قد ازمعتُ علی المسیر۔۔۔۔۔ واللہ لا یدعونی حتیٰ یستخرجوا ھٰذہ العلقۃ من جوفی فاذا فعلوا سلّط اللہ علیہم من یُذلّھم حتی یکونوا اَذلّ من فرام المرأۃ‘‘
اے ابن عم میں جانتاہوں کہ آپ بھلائی و مہربانی اور محبت میں یہ رائے دے رہے ہیں لیکن میں نے عراق کی طرف سفر کا فیصلہ کرلیا ہے خدا کی قسم جب تک یہ لوگ میرا خون نہ بہالیں مجھ سے دست بردار ہونے والے نہیں ہیں اور جب اس جرم کے مرتکب ہوں گے تو خدا وند عالم ان پر ایسے شخص کو مسلط کرے گا جو انہیں بری طرح ذلیل و رسوا کرے گا ۔ (۴)
(۵) عبد اللہ بن زبیر
جن لوگوں نے امامؑ حسینؑ کو عراق کے سفر سے باز رہنے کی تجویز پیش کی ان میںسے عبد اللہ بن زبیر بھی تھے ۔ جو خود بھی حکومت یزید کے مخالفین میں شمار ہوتے اور مدینہ سے مکہ فرار کیا تھا۔ امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہتے ہیں: اگر میں بھی عراق میں آپ کے چاہنے والوں کی طرح افراد رکھتا تو ہر جگہ پر عراق کو ترجیح دیتا۔ لیکن پھر بھی اگر آپ مکہ میں قیام پذیر رہیں اور مسلمانوں کی امامت کو سنبھالیں تو میں بھی آپ کی بیعت کرلوں گا۔ امام حسینؑ نے ابن زبیر کو جواب دیا:
ان ابی حدثنی انّ بمکّۃ کبشاً بہ تُستحلّ حرمتُھا فما احبُّ ان اکونَ ذالک الکبش ولئن اقتل خارجاً منھا بشبرٍ احبّ الیّ من ان اقتل فیھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا بنَ الزبیر لئن ادفن بشاطی ئِ الفرات احب الیّ من ان ادفن بفناء الکعبۃ‘‘۔
میرے بابا نے مجھے خبر دی ہے کہ مکہ میں ایک بکری کی وجہ سے اس شہر کی بے احترامی ہوگی۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ بکری میں قرار پاؤں۔ مکہ سے ایک بالشت باہر قتل ہونا میرے لئے مکہ کے اندر قتل یونے سے بہتر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے زبیر کے بیٹے! فرات کے کنارے دفن ہونا میرے لئے بہتر ہے کعبہ میں دفن ہونے سے۔ (۵)
(۶) عبد اللہ بن عمر
عمرہ کی غرض سے مکہ میں تھے امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا میرے رائے ہے کہ آپ بھی تمام لوگوں کی طرح بیعت اور صلح کا راستہ اختیار کیجئے اور مسلمانوں کے خون بہنے سے بچئے۔ امام حسینؑ نے اس کے جواب میں پیغمبروں پر بنی اسرائیل کے مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :
’’ اتق اللہ یا ابا عبد الرحمن ولا تدعنّ نصرتی‘‘
ابو عبد الرحمن خدا سے ڈرو اور ہماری مدد و نصرت سے منھ نہ موڑو۔(۶)
(۷) فرزدق
جن لوگوںنے امام ؑ کو عراق کے سفر سے منصرف ہوجانے کی تجویز پیش کی ان میں عرب کے مشہور شاعر فرزدق بھی ہیں۔ فرزدق اپنی ماں کے ساتھ عازم مکہ تھے۔ مکہ کے نزدیک امامؑ کے قافلے سے روبرو ہوئے امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر مکہ سے نکلنے کی وجہ پوچھی۔ حضرتؑ نے جواب دیا۔’’ لولم اعجل لا خذت‘‘ اگر میں مکہ سے خارج ہونے میں جلدی نہ کرتا مجھے گرفتار کرلیتے۔ پھر امامؑ نے عراق کے لوگوں کے بارے میں دریافت کیا۔ فرزدق نے امامؑ کے جواب میں کہا :’’قلوب الناس معک و سیوفھم علیک‘‘ لوگوں نے دل آپؑ کے ساتھ ہیں لیکن ان کی تلواریں آپؑ کے خلاف ہیں۔ مقدرات کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے جس طرح چاہتا ہے انجام دیتا ہے۔
امام حسینؑ نے بھی جواب میں فرمایا:
صدقتَ للّہ الامرُ و کلَّ یوم ھو فی شأنٍ ان نزل القضاء بما نحب و نرضی فنَحمد اللہ علی نعمائہ و ھو المستعان علی اداء الشکر و ان حال القضائُ دون الرجاء فلم یتعد من کان الحق نیتہ والتقویٰ سریرتہ ۔ (۷)
فرزدق ! تم نے سچ کہا ، مقدرات خدا کے ہاتھ میں ہیں ہر دن اس کی شان جدا گانہ ہے۔ اگر فیصلے مرضی اور پسند کے مطابق ہوں تو خدائی نعمتوں پر شکر گزار ہوں وہی شکر ادا کرنے میں بھی مدد کرنے والا ہے ۔ اور اگر حوادث و واقعات مرضی کے مطابق نہ ہوں پھر بھی جس کی نیت حق ہے اورتقویٰ جس کی دل پر حکومت کرے وہ حق کے راستے سے خارج نہیں ہوا ہے۔ (۸)
(۸) مروان بن حکم
۶۰ھ میں جب معاویہ دنیا سے رخصت ہوا۔ یزید تخت خلافت پر بیٹھا تو فوراً خطوط کے ذریعہ مختلف علاقوں میں والیوں اور حاکموں کو ان کے مقام پر باقی رکھتے ہوئے حکم دیا کہ لوگوں سے بیعت لیں۔ اور ایک خط والی مدینہ ولید کو لکھا اور اس کو حکم دیا کہ تین مشہور شخصیتوں یعنی حسین ابن علیؑ، عبد اللہ بن زبیر، اور عبد اللہ ابن عمر سے بیعت لینے میں جلد کرے۔ خط ملتے ہی ولید نے مروان بن حکم (معاویہ کے زمانے کا والی مدینہ) سے مشورہ کیا اور ان تینوں افراد کو گفتگو کے لئے دعوت دی۔
جب امامؑ حاضر ہوئے تو ولید نے معاویہ کی خبر دے کر یزید کی بیعت کا مطالبہ کیا۔ امامؑ اس وقت بیعت کے راضی نہ ہوئے اور فرمایا:
تنہائی میں بیعت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ولید نے امامؑ کی بات مان لی اور اس شب بیعت لینے کے لئے کوئی اصرار نہیں کیا۔ لیکن مروان نے اشارہ سے ولید سے کہا کہ اگر اس شب حسینؑ سے بیعت نہ لی تو پھر کبھی بھی بیعت نہیں لے سکتا یا یہ کہ بہت زیادہ خون خرابہ ہو لہٰذا بہتر یہی ہے ان سے اسی وقت بیعت لے لے یا یزید کے حکم کے مطابق سر تن سے جدا کرکے۔ امام حسینؑ نے مروان کو مخاطب قرار دیتے ہوئے سخت لہجے میں جواب دیا: یابن الزرقاء انت تقتلنی ام ھو کذبت و اثمت ‘‘ اے زرقا کے بیٹے! تو مجھے قتل کرے گا یا ولید؟ تو جھوٹا اور گنہ گار ہے۔ مروان جو خاندان نبوت و رسالت سے دیرینہ دشمنی رکھتا ہے اور معاویہ کا سابق والیٔ مدینہ تھا ۔ امام حسینؑ سے کہتا ہے:اے ابو عبد اللہ میں آپ کا خیر خواہ ہوں۔ میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ یزید کی بیعت کرلیجئے ۔ یہ کام آپ کے دین و دنیا کے لئے مفید ہے۔
امام حسینؑ نے اس کو جواب دیا: وعلی الاسلام السلام اذ قد بلیت الامۃ براع مثل یزید
ایسے اسلام پر سلام اس لئے کہ لوگ یزید جیسے انسان کی حکمرانی میں گرفتار ہوگئے ہیں۔ (۹)
ان کے علاوہ بھی بعض دوسرے افراد نے اس تحریک کی مخالفت کی ، امام کے سامنے اپنے دلائل پیش کئے لیکن امامؑ نے مشیت الہی کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اس تحریک کو زندۂ جاوید بنادیا اور حفاظت اسلام پر مہر ثبت کردی۔
۱۔ سخنان حسین بن علی از مدینہ تا کربلا ،صفحہ ۹۲۔ ۲۔سخنان حسین ۔۔۔،ا صفحہ ۳۲۔ ۳۔ سخنان ۔۔۔،۔ صفحہ ۷۹۔۷۴۔ ۴۔سخنان ۔۔۔،۔صفحہ ۷۱؛ کامل ابن اثیر ۴/۳۷۔
۵۔ سخنان۔۔۔۔،ص ۷۹۔۷۴۔ ۶۔سخنان۔۔۔۔،ص۴۴ ۷۔کامل ابن اثیر جلد ۴، صفحہ ۴۰۔ ۸۔سخنان ۔۔،۔ صفحہ ۱۰۰ ۔۹۷۔ ۹۔سخنان ۔۔۔،صفحہ ۱۸؛ کامل ابن اثیر ۴ ۔ ۱۴،(بنقل از ’رہ توشہ راہیان نورج۱،ص۸۱)۔
سید محمد حسنین باقری
واقعہ کربلا کے سلسلے میں آغاز قیام سے اس وقت موجود افراد نے مختلف تجاویز پیش کیں سرکار سید الشہداؑ حضرت امام حسینؑ نے جب سے اپنے سفر کا اعلان کیا بہت سے افراد نے اپنے اپنے اعتبار سے امامؑ کو مشورے دئے اس میں خاندان کے افراد بھی تھے اور باہر کے بھی۔ بہت سے افراد نے اس تحریک کی مخالفت کی، امام حسینؑ کو روکنا چاہا اپنے اعتبار سے آئندہ آنے والے خطرات کی طرف متوجہ کیا ان افراد میں عوام و خواص ، موافق و مخالف سب تھے۔ اپنوں نے ہمدردی اور محبت میں امامؑ کو روکنا چاہا اور مخالفین نے یزید کی خوشنودی کیلئے اور اس کے خلاف کسی طرح کا قیام پیش نہ آئے اس لئے مخالفت کی۔ یہ تمام افراد امامؑ کی تحریک اور قیام کی حقیقت و واقعیت سے نا آشنائی اور عدم علم کی بنیاد پر اس کی مخالفت کررہے تھے ۔ اگر اس سلسلے میں امام خیر خواہ افراد کی بات مان لیتے تب بھی مخالفین کا منشا پورا ہوجاتا ۔ تاریخ میں اس طرح کے بہت سے افراد کا ذکر ملتا ہے ذیل میں کچھ مشہور اور خاص افراد کا ذکر کیا جارہا ہے۔ جنہوں نے مختلف طریقوں سے امامؑ کو قیام سے منصرف ہوجانے کی رائے دی ۔ سب کو امامؑ نے جواب دیا اور بعض کو اپنے قیام کے مقصد سے بھی آگاہ کیا۔
(۱) جناب ام سلمہ
ام المومنین ام سلمہ کو جب امام حسینؑ کے سفر کی اطلاع ملی تو خدمت امامؑ میں پہنچ کر عرض کی: عراق کی جانب سفر کرکے مجھے رنجیدہ نہ کرو اس لئے کہ میں نے تمہارے نانا رسول خداؐ سے سنا ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’میرا بیٹا حسینؑ سر زمین عراق پر کربلا میں قتل کیا جائے گا‘‘۔
امام حسینؑ نے جواب دیا: اے نانی جان! میں بھی جانتا ہوں کہ دشمنان اسلام کی دشمنی اور کینہ کے نتیجے میں راہ خدا میں شہید کیا جاؤں گا اور یہ تو خدا چاہتا ہے کہ میرے اہل بیتؑ اسیر ہوں اور میرے بچے شہادت کو گلے لگائیں۔(۱)
(۲)محمد بن حنفیہ
امیر المومنینؑ کے بیٹے اور امام حسینؑ کے بھائی جناب محمد بن حنفیہ امام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: اے بھائی آپؑ میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ عزیز ہیں۔ اور میں جو کچھ خیر و صلاح پاتا ہوں ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ سے بیان کروں وہ یہ کہ آپ شہر مکہ تشریف لیجائیں اگر اس شہر میں امن و سکون نہ ہو تو صحراء و بیابان کے راستے ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کریں یہاں تک کہ لوگوں کے حالات اور آئندہ سے مطمئن ہوجائیں۔ امام حسینؑ نے جواب دیا:
’’یا اخی لولم یکن فی الدنیا ملجاء ولا ماوی لما بایعتُ یزید بن معاویۃ‘‘
اے برادر! اگر پوری دنیا میں بھی میرے لئے کوئی پناہ باقی نہ بچے تب بھی یزید کی بیعت نہیںکروں گا۔
محمد بن حنفیہ مکہ میں بھی امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : اے برادر! آپ تو اپنے بابا حضرت علیؑ اور بھائی امام حسنؑ کے سلسلے میں کوفہ والوں کی بے وفائی دیکھ چکے ہیں۔ مجھے خوف ہے کہیں یہ لوگ آپ سے بھی بے وفائی نہ کریں۔ لہٰذا بہتر ہے کہ آپ عراق کی جانب سفر نہ کریں اور اس شہر مکہ میں قیام کریں اس لئے کہ آپ اس شہر اور حرم خدا میں دوسروں سے زیادہ قابل احترام ہیں۔
امامؑ نے جواب دیا: خوف یہ ہے کہ یزید مجھے مکرو حیلہ کے ذریعہ حرم خدا میں قتل کروادے جس کی وجہ سے حرم الٰہی کی حرمت پائمال ہوجائے۔ محمد بن حنفیہ نے تجویز پیش کی کہ پس اس صورت میں بہتر ہے کہ آپ عراق کے بجائے یمن یا کسی دوسرے محفوظ علاقہ کی طرف چلے جائیں۔ امامؑ نے فرمایا: تمہاری تجویز پر غور کروں گا۔‘‘
امام حسینؑ نے اسی رات سحر کے وقت عراق کی جانب کوچ کیا جب محمد بن حنفیہ کو امامؑ کے آغاز سفر کی اطلاع ملی فوراً خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا : آپ نے تو فرمایا تھا کہ میری تجویز پر غور کروں گا؟ امامؑ نے جواب دیا: بلی ولکن بعد ما فارقتک اتانی رسول اللہ ۔ وقال: یا حسین اخرج فان اللہ تعالیٰ شائَ ان یراک قتیلا۔۔۔۔۔۔۔۔ و قد شاء ان یراھن سبایا ۔ ہاں صحیح ہے لیکن تمہارے جانے کے بعد میں نے رسول اللہؐ کو خواب میں دیکھا آپؐ نے فرمایا: اے حسینؑ سفر اختیار کرو، اس لئے کہ وہ چاہتا ہے تم کو مقتول دیکھے اور تمہارے اہل بیتؑ اسیر ہوں ۔(۲)
(۳) عبد اللہ بن جعفر
امام حسینؑ کو عراق کے سفر سے منصرف ہونے کی رائے دینے والوں میں عبد اللہ بن جعفر بھی تھے۔ یہ حضرت زینبؐ کے شوہر اور امامؑ کے چچا زاد بھائی تھے۔ انہوں نے امام حسینؑ کے کوچ کرنے کے بعد اپنے دو بیٹوں عون و محمد کو امامؑ کی خدمت میں بھیجا اور ان کے ذریعہ روانہ کر دہ خط میں یہ تجویز رکھی: جو سفر آپ نے اختیار کیا ہے اس کو ترک کرکے مکہ واپس آجائیے اس لئے کہ مجھے خوف ہے آپ اس سفر میں قتل کردیئے جائیں ۔ آپ کے بچے قیدی بنالیئے جائیں اور آپ کے قتل کی وجہ سے نور اسلام خاموش ہوجائے۔
عبد اللہ بن جعفر نے خط بھیجنے کے بعد عمر بن سعید سے ملاقات کی جو یزید کی طرف سے ولید کی جگہ پر مدینہ کا والی مقرر ہوا تھا اور حاجیوں کے سرپرست کی حیثیت سے اور در حقیقت امام ؑ کو قتل کرنے کیلئے مکہ میں موجود تھا۔ عبد اللہ نے اس سے امام حسینؑ کیلئے امان نامہ لیا اور یحییٰ بن سعید کے ذریعہ مکہ سے باہر امامؑ تک پہنچایا۔ حضرتؑ نے دونوں خطوط کے جواب میں فرمایا:
انی رایتُ رؤیا فیھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وأُمرتُ فیھا بامرٍ انا ماضٍ لہ علی کان اولی۔۔۔۔۔۔۔ ما حدّثتُ احداً بھا وما انا مُحدّثٌ بھا حتی القی ربّی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فخیر الامانِ امانُ اللہ و لن یومنَ اللہَ یومَ القیامۃ من لم یخفہ فی الدنیا
میں نے رسول خداؐ کو خواب میں دیکھا ہے ۔ آپؐ نے مجھے ایک اہم کام سپر د فرمایا ہے جسے انجام دینا ضروری ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے اس خواب کے بارے میں کسی سے نہیں بتایا ہے اور جب تک زندہ ہوں کسی سے نہیں کہوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوربہترین امان خدا کی امان ہے اور اگر کوئی دنیا میں خوف خدا نہ رکھے تو آخرت میں امان میں نہیں ہوگا۔ (۳)
(۴) عبد اللہ بن عباس
امام حسینؑ کو سفر سے منصرف ہونے کی رائے دینے والوں میں سے ایک آپ کے چچازاد بھائی عبد اللہ بن عباس تھے۔ عبد اللہ بن عباس مکہ میں امام ؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہتے ہیں۔ اے چچا کے بیٹے ! اس بات سے خوف زدہ ہوں کہ جو سفر آپ نے اختیار کیا ہے اس میں قتل نہ کردئے جائیں اور آپ کے دشمنوں کے ہاتھوں آپ کے بچے اسیر کرلیئے جائیں اس لئے کہ عراق کے لوگ عہد شکن ہیں۔ ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ مکہ ہی میں قیام کیجئے اور اگر مکہ سے نکلنا ضروری سمجھتے ہیں تو یمن کی جانب چلے جائیں۔ امام ؑ نے جواب دیا:
’’یا بن العمّ انی واللہ لَاَعْلم انّک ناصحٌ مشفق و قد ازمعتُ علی المسیر۔۔۔۔۔ واللہ لا یدعونی حتیٰ یستخرجوا ھٰذہ العلقۃ من جوفی فاذا فعلوا سلّط اللہ علیہم من یُذلّھم حتی یکونوا اَذلّ من فرام المرأۃ‘‘
اے ابن عم میں جانتاہوں کہ آپ بھلائی و مہربانی اور محبت میں یہ رائے دے رہے ہیں لیکن میں نے عراق کی طرف سفر کا فیصلہ کرلیا ہے خدا کی قسم جب تک یہ لوگ میرا خون نہ بہالیں مجھ سے دست بردار ہونے والے نہیں ہیں اور جب اس جرم کے مرتکب ہوں گے تو خدا وند عالم ان پر ایسے شخص کو مسلط کرے گا جو انہیں بری طرح ذلیل و رسوا کرے گا ۔ (۴)
(۵) عبد اللہ بن زبیر
جن لوگوں نے امامؑ حسینؑ کو عراق کے سفر سے باز رہنے کی تجویز پیش کی ان میںسے عبد اللہ بن زبیر بھی تھے ۔ جو خود بھی حکومت یزید کے مخالفین میں شمار ہوتے اور مدینہ سے مکہ فرار کیا تھا۔ امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہتے ہیں: اگر میں بھی عراق میں آپ کے چاہنے والوں کی طرح افراد رکھتا تو ہر جگہ پر عراق کو ترجیح دیتا۔ لیکن پھر بھی اگر آپ مکہ میں قیام پذیر رہیں اور مسلمانوں کی امامت کو سنبھالیں تو میں بھی آپ کی بیعت کرلوں گا۔ امام حسینؑ نے ابن زبیر کو جواب دیا:
ان ابی حدثنی انّ بمکّۃ کبشاً بہ تُستحلّ حرمتُھا فما احبُّ ان اکونَ ذالک الکبش ولئن اقتل خارجاً منھا بشبرٍ احبّ الیّ من ان اقتل فیھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا بنَ الزبیر لئن ادفن بشاطی ئِ الفرات احب الیّ من ان ادفن بفناء الکعبۃ‘‘۔
میرے بابا نے مجھے خبر دی ہے کہ مکہ میں ایک بکری کی وجہ سے اس شہر کی بے احترامی ہوگی۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ بکری میں قرار پاؤں۔ مکہ سے ایک بالشت باہر قتل ہونا میرے لئے مکہ کے اندر قتل یونے سے بہتر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے زبیر کے بیٹے! فرات کے کنارے دفن ہونا میرے لئے بہتر ہے کعبہ میں دفن ہونے سے۔ (۵)
(۶) عبد اللہ بن عمر
عمرہ کی غرض سے مکہ میں تھے امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا میرے رائے ہے کہ آپ بھی تمام لوگوں کی طرح بیعت اور صلح کا راستہ اختیار کیجئے اور مسلمانوں کے خون بہنے سے بچئے۔ امام حسینؑ نے اس کے جواب میں پیغمبروں پر بنی اسرائیل کے مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :
’’ اتق اللہ یا ابا عبد الرحمن ولا تدعنّ نصرتی‘‘
ابو عبد الرحمن خدا سے ڈرو اور ہماری مدد و نصرت سے منھ نہ موڑو۔(۶)
(۷) فرزدق
جن لوگوںنے امام ؑ کو عراق کے سفر سے منصرف ہوجانے کی تجویز پیش کی ان میں عرب کے مشہور شاعر فرزدق بھی ہیں۔ فرزدق اپنی ماں کے ساتھ عازم مکہ تھے۔ مکہ کے نزدیک امامؑ کے قافلے سے روبرو ہوئے امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر مکہ سے نکلنے کی وجہ پوچھی۔ حضرتؑ نے جواب دیا۔’’ لولم اعجل لا خذت‘‘ اگر میں مکہ سے خارج ہونے میں جلدی نہ کرتا مجھے گرفتار کرلیتے۔ پھر امامؑ نے عراق کے لوگوں کے بارے میں دریافت کیا۔ فرزدق نے امامؑ کے جواب میں کہا :’’قلوب الناس معک و سیوفھم علیک‘‘ لوگوں نے دل آپؑ کے ساتھ ہیں لیکن ان کی تلواریں آپؑ کے خلاف ہیں۔ مقدرات کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے جس طرح چاہتا ہے انجام دیتا ہے۔
امام حسینؑ نے بھی جواب میں فرمایا:
صدقتَ للّہ الامرُ و کلَّ یوم ھو فی شأنٍ ان نزل القضاء بما نحب و نرضی فنَحمد اللہ علی نعمائہ و ھو المستعان علی اداء الشکر و ان حال القضائُ دون الرجاء فلم یتعد من کان الحق نیتہ والتقویٰ سریرتہ ۔ (۷)
فرزدق ! تم نے سچ کہا ، مقدرات خدا کے ہاتھ میں ہیں ہر دن اس کی شان جدا گانہ ہے۔ اگر فیصلے مرضی اور پسند کے مطابق ہوں تو خدائی نعمتوں پر شکر گزار ہوں وہی شکر ادا کرنے میں بھی مدد کرنے والا ہے ۔ اور اگر حوادث و واقعات مرضی کے مطابق نہ ہوں پھر بھی جس کی نیت حق ہے اورتقویٰ جس کی دل پر حکومت کرے وہ حق کے راستے سے خارج نہیں ہوا ہے۔ (۸)
(۸) مروان بن حکم
۶۰ھ میں جب معاویہ دنیا سے رخصت ہوا۔ یزید تخت خلافت پر بیٹھا تو فوراً خطوط کے ذریعہ مختلف علاقوں میں والیوں اور حاکموں کو ان کے مقام پر باقی رکھتے ہوئے حکم دیا کہ لوگوں سے بیعت لیں۔ اور ایک خط والی مدینہ ولید کو لکھا اور اس کو حکم دیا کہ تین مشہور شخصیتوں یعنی حسین ابن علیؑ، عبد اللہ بن زبیر، اور عبد اللہ ابن عمر سے بیعت لینے میں جلد کرے۔ خط ملتے ہی ولید نے مروان بن حکم (معاویہ کے زمانے کا والی مدینہ) سے مشورہ کیا اور ان تینوں افراد کو گفتگو کے لئے دعوت دی۔
جب امامؑ حاضر ہوئے تو ولید نے معاویہ کی خبر دے کر یزید کی بیعت کا مطالبہ کیا۔ امامؑ اس وقت بیعت کے راضی نہ ہوئے اور فرمایا:
تنہائی میں بیعت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ولید نے امامؑ کی بات مان لی اور اس شب بیعت لینے کے لئے کوئی اصرار نہیں کیا۔ لیکن مروان نے اشارہ سے ولید سے کہا کہ اگر اس شب حسینؑ سے بیعت نہ لی تو پھر کبھی بھی بیعت نہیں لے سکتا یا یہ کہ بہت زیادہ خون خرابہ ہو لہٰذا بہتر یہی ہے ان سے اسی وقت بیعت لے لے یا یزید کے حکم کے مطابق سر تن سے جدا کرکے۔ امام حسینؑ نے مروان کو مخاطب قرار دیتے ہوئے سخت لہجے میں جواب دیا: یابن الزرقاء انت تقتلنی ام ھو کذبت و اثمت ‘‘ اے زرقا کے بیٹے! تو مجھے قتل کرے گا یا ولید؟ تو جھوٹا اور گنہ گار ہے۔ مروان جو خاندان نبوت و رسالت سے دیرینہ دشمنی رکھتا ہے اور معاویہ کا سابق والیٔ مدینہ تھا ۔ امام حسینؑ سے کہتا ہے:اے ابو عبد اللہ میں آپ کا خیر خواہ ہوں۔ میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ یزید کی بیعت کرلیجئے ۔ یہ کام آپ کے دین و دنیا کے لئے مفید ہے۔
امام حسینؑ نے اس کو جواب دیا: وعلی الاسلام السلام اذ قد بلیت الامۃ براع مثل یزید
ایسے اسلام پر سلام اس لئے کہ لوگ یزید جیسے انسان کی حکمرانی میں گرفتار ہوگئے ہیں۔ (۹)
ان کے علاوہ بھی بعض دوسرے افراد نے اس تحریک کی مخالفت کی ، امام کے سامنے اپنے دلائل پیش کئے لیکن امامؑ نے مشیت الہی کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اس تحریک کو زندۂ جاوید بنادیا اور حفاظت اسلام پر مہر ثبت کردی۔
۱۔ سخنان حسین بن علی از مدینہ تا کربلا ،صفحہ ۹۲۔ ۲۔سخنان حسین ۔۔۔،ا صفحہ ۳۲۔ ۳۔ سخنان ۔۔۔،۔ صفحہ ۷۹۔۷۴۔ ۴۔سخنان ۔۔۔،۔صفحہ ۷۱؛ کامل ابن اثیر ۴/۳۷۔
۵۔ سخنان۔۔۔۔،ص ۷۹۔۷۴۔ ۶۔سخنان۔۔۔۔،ص۴۴ ۷۔کامل ابن اثیر جلد ۴، صفحہ ۴۰۔ ۸۔سخنان ۔۔،۔ صفحہ ۱۰۰ ۔۹۷۔ ۹۔سخنان ۔۔۔،صفحہ ۱۸؛ کامل ابن اثیر ۴ ۔ ۱۴،(بنقل از ’رہ توشہ راہیان نورج۱،ص۸۱)۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں