عبقات الانوار
اور علامہ میر حامد حسینؒ
پر ایک نظر
تحریر: حجۃالاسلام سید محمد رضا حسینی
ترجمہ و تلخیص و اضافات:سید محمد حسنین باقری
علامہ میرحامد حسینؒ کی لاجواب کتاب ’’عبقات الانوار‘‘، عبد العزیز دہلوی کی کتاب ’’تحفہ اثنا عشریہ‘‘ کا علمی ، مستند اور منطقی جواب ہے۔ متعصب سنی عالم مولوی عبد العزیز (۱۱۵۹ھ ۔ ۱۲۳۹ھ )کا لقلب سراج الہند تھا۔انہوں نے دشمنان اسلام کے منشأ کو پورا کرنے اور مسلمانوں کی صفوں کے درمیان شگاف ڈالنے کے لئے تیرہویں صدی ہجری کے آغاز میں کتاب تحفہ اثناعشریہ لکھی جو ۱۲۰۴ھ (۹۰۔۱۷۸۹ئ) میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں شیعوں کے عقائد و نظریات پر تہمت لگانے اور جھوٹ و افترا باندھنے میںپورا زور لگادیا ۔ انہوں نے کتاب کا پہلا ایڈیشن فرضی نام غلام حلیم کے نام سے شائع کیا لیکن دوسرے ایڈیشن میں اصلی نام عبد العزیز دہلوی ظاہر کردیا۔(۱)
صاحب عبقات الانوار لکھتے ہیں:
اس کتاب میں شیعوں کے عقائد و نظریات کا عمومی طور پر اور اثناعشری فرقہ کا خصوصی طور پر ، اصول و فروع ، اخلاق و آداب اور ان کے تمام عقائد اور اعمال کا مذاق اڑایا اور اعتراض کیا ہے ، جس میں غیر مہذب الفاظ، مناظرہ کے قانون قاعدہ سے خارج کلمات کا سہارا لیا گیا ہے۔۔پوری کتاب میں صرف تہمت اور بے جا الزامات ہیں۔(۲)
استاد محمد رضا حکیمی عالم اسلام میں اس کتا ب کے منفی اثرات کے سلسلے میںلکھتے ہیں:
یہ کتاب وجود میں آتے ہی عالم اسلام کے درمیان اختلاف کا باعث بنی۔ مسلمانوں کے درمیان آپس میں کینہ و نفرت اور دشمنی کا سبب قرار پائی اس کتاب نے مسجد و محراب کی معنویت ، رمضان و عاشورہ کی عظمت کو متاثر کیا۔ یہود و نصاری اور دشمنان اسلام کے دلوں کو لرزا نے والی اذان کی آوازوں اور اتحاد اسلامی کو نقصان پہنچایا۔ اس سب کے بعد بہت سے فرصت طلب اور کینہ توز افراد نے اس کتاب کو وسیع پیمانے پر منتشر کیا۔(۳)
اس کتاب میں مولوی عبد العزیزدہلوی نے کوئی نئی بات نہیں کہی ہے بلکہ اپنے سابقین مثلا ابن تیمیہ ، روز بہان، جوزی(۴)اور کابلی جیسے متعصب علمائے اہل سنت کی باتوںکو دہرایا ہے۔
قابل توجہ ہے کہ یہ کتاب کوئی نیا کام نہیںہے اور مصنف نے شیعوں پر کوئی نیا اعتراض و اشکال بھی نہیں کیا بلکہ در حقیقت یہ کتاب کئی سال پہلے لکھی گئی کتاب کا ترجمہ اور سرقہ ہے۔ اس لئے کہ صاحب نجوم السماء (جلد۱، صفحہ ۳۵۲)اور صاحب عبقات الانوار (جلد حدیث غدیر) کے مطابق اس کتاب کی اصل و بنیاد خواجہ نصراللہ کابلی کی کتاب ’’صواقع موبقہ‘‘ ہے جسے عبد العزیز نے عربی سے فارسی میں ترجمہ کرکے (۵)اپنے نام سے چھپوا دیا ہے۔ مولوی عبد العزیز دہلوی نے کتاب تحفہ اثنا عشر یہ کو ناروا الزام و تہمت، جسارت و اہانت پر ختم کیا ہے۔
خدا گواہ ہے کہ جب انسان کتاب تحفہ اثنا عشریہ کو دیکھتا ہے تو اس نتیجہ پر پہنچنے میں اسے کوئی دیر نہیں لگتی کہ یہ کتاب میر حامد حسین کی انتہائی معلوماتی بحر بے کراں کتاب کے مقابلے کوئی اہمیت و وقعت نہیں رکھتی نیز اس کے مولف علمی حوالے سے کتنے کمزور ہے۔(۶)
مغرض اور کج فکر افراد نے تحفہ اثنا عشریہ کی بہت زیادہ ترویج کی اور سقیفائی چہرہ پیش کرنے کی پوری کوشش کی۔۱۲۲۷ ھ کو غلام محمد بن محی الدین اسلمی (مولوی اسلم مدراسی)(متوفیٰ ۱۲۷۲)کے ہاتھوںیہ کتاب عربی میں ترجمہ ہوئی (۷) اور نواب علی محمد جان کے بیٹے نے اس ترجمہ کو عرب بھیجا(۸ ) اس کے بعد متعدد مرتبہ خلاصہ اور ترجمہ کی صورت میں شائع ہوچکی ہے۔ایک اختصار مصر میں چھپا۔ سر سید احمد خان علیگڑھ نے تحفہ کے دسویں اور بارہویں باب کا اردو ترجمہ ’’تحفۂ حسن‘‘ کے نام سے کیا جسے ۱۲۶۰ھ میں شائع کیا۔(۹)
یہ کتاب شیعوں کے خلاف اہل سنت کے درمیان بدگمانی پیدا کرنے، مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے اور ان کے اجتماعی و سیاسی اعتبار سے روابط پر بہت زیادہ اثر انداز ہوئی۔
کتاب تحفہ اثنا عشریہ کو بارہ ابواب میں مرتب کیا گیا جو مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) شیعہ مذہب کی ابتدا اور اس کے فرقے۔ (۲)شیعوں کے مکائد ۔ (۳) شیعہ علماء اور ان کی کتابیں۔ (۴)شیعہ روایات اور ان کے راوی۔ (۵)الہیات۔ (۶)نبوت۔ (۷)امامت۔ (۸)معاد۔ (۹)فقہی مسائل ۔ (۱۰)خلفائے ،ثلاثہ ام المومنین اور دیگر اصحاب کے مطاعن۔ (۱۱)شیعوں کے خصوصیات ، جو تین فصلوںپر مشتمل ہے: اوھام ، تعصبات ، ہفوات ۔ (۱۲)تولاو تبرا ،دس مقدمات پر مشتمل۔(۱۰)
تحفہ اثنا عشریہ کے جوابات:
امامت و رہبری، اسلام کا سیاسی فلسفہ بلکہ ترقی یافتہ سیاسی فلسفہ ہے۔ شیعہ علما و دانشور حضرات نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ اس فلسفہ یعنی اصل امامت کی حفاظت و پاسداری اور اس کو مضبوط کریں۔ ایسی اصل کہ بشریت کی سعادت و عظمت اس کی مرہون منت ہے۔ اسی وجہ سے جب عبد العزیز دہلوی کے ذریعہ انتہائی بے بنیاد اور نامناسب کتاب تحفہ اثنا عشریہ سامنے آئی جس میں امیر المومنین ؑکی امامت اور خلافت سے متعلق متواتر احادیث کا انکار کیا تو شیعہ علما نے اپنے وظیفہ کو انجام دینے اور امامت و رہبری کی حفاظت کے لئے اقدامات کئے اسی وجہ سے متعدد شیعہ علما نے تحفہ اثنا عشریہ کے جواب میںکتابیں لکھیں جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:
۱۔سیف اللہ المسلول علی مخربی دین الرسول ، میرزا محمد اخباری نیشاپوری عبد النبیؒ، (مقتول۱۲۳۲ ھ)پوری تحفہ کا مکمل جواب ۔(البتہ کشف الحجب والاستار کے بیان کے مطابق پہلے اور دوسرے باب کا جواب ہے)(۱۱)۔
۲۔الصوارم الالہیہ(فارسی)،علامہ سید دلدار علی غفرانمآب ابن سید محمد معین نقوی لکھنویؒ(م ۱۳۵۵ھ)،باب پنجم کی رد میں۔مطبوعہ کلکتہ
۳۔حسام الاسلام و سہام الملام(فارسی)، علامہ سید دلدار علی غفرانمآبؒ، تحفہ کے باب ششم کے جواب میں۔ مطبوعہ کلکتہ
۴۔ احیا السنۃ و امام البدعۃ (فارسی)، تحفہ کے باب ہشتم کے جواب میں۔ مطبوعہ لکھنؤ و لدھیانہ
۵۔ رسالہ غیبت، سید دلدار علی غفرانمآبؒ، باب ھفتم کے جواب میں۔ مطبوعہ کلکتہ(۱۲)
۶۔ ذو لفقار(فارسی)، غفرانمآبؒ،باب دوازدہم کی رد میں۔مطبوعہ لدھیانہ
۷۔النزھۃ الاثنی عشریہ ،شہید رابع حکیم میرزا محمد کامل بن احمد خان طبیب کشمیری دہلوی(م ۱۲۳۵ھ)(اکبر شاہ ثانی کے ایک رشتہ دار نے زہر دے کر شہید کیا)، تحفہ کی اشاعت کے دو سال کے اندر ہی اس کا مکمل جواب۔تحفہ کے تمام بارہ ابواب کے جواب میں بارہ جلدیں(ہر باب کے جواب میں ایک جلد،پہلی ، تیسری ، چوتھی ، پانچویں، اور نویں جلدیں لکھنؤ اور لدھیانہ میں شائع ہوئیں باقی جلدوں کا پتہ نہیں چلا ۔ علامہ سعید اختر صاحب کے مطابق اس کی تیسری جلد کا قلمی نسخہ انڈیا آفس لائبریری کے دہلی پرشین کلکشن میں ہے اب انڈیا آفس برٹش لائبریری میں ضم ہوگئی ہے۔اور نویں جلد کا خطی نسخہ رضا لائبریری رام پور میں موجود ہے)(۱۳)
۸۔سیف ناصری، مفتی سید محمد قلی نیشاپوریؒ (میر حامد حسین کے والد)، باب اول کی رد میں۔ اس کے دو قلمی نسخوں کا تذکرہ علامہ سعید اختر نے کیا ہے جس میں سے ایک ان کے ذاتی کتب خانہ ’ریاض معارف‘ میں ہے۔(۱۴)
۹۔تقلیب المکائد ،مفتی سید محمد قلیؒ،باب دوئم کی رد میں۔(مطبوعہ دہلی)
۱۰۔برھان السعادات، مفتی سید محمد قلیؒ ، تحفہ کے باب ہفتم کی رد میں ۔مخطوطہ رضا لائبریری
۱۱۔تشیید المطاعن، مفتی سید محمد قلیؒ،باب دہم کی رد میں ۔ (دو جلدوں میں، پہلی جلد ۱۹۱۰ صفحات اور دوسری جلد۴۴۲ صفحات پر مشتمل)مطبوعہ لدھیانہ ، کچھ عرصہ پہلے قم میں شائع ہوئی ہے۔
۱۲۔مصارع الافہام لقلع الاوھام، مفتی سید محمد قلیؒ،باب یازدہم کے جواب میں ۔
۱۳۔الوجیزۃ فی الاصول (فارسی)،سبحان علی خان ہندی(م ۱۲۶۰ھ)،(مصنف نے اصول سے متعلق بحث کو پیش کیا پھر امیر المؤمنینؑ کی امامت پر دلالت کرنے والی احادیث کو بیان کیا اس کے بعدصاحب تحفہ کے اعتراضات کو نقل کر کے ان کا جواب دیا ہے)۔
۱۴۔ امامۃ(عربی)، سلطان العلماء سید محمد ابن سید دلدار علی غفرانمآبؒ(م ۱۲۸۴ھ)، باب ھفتم کی رد میں۔
۱۵۔ بوارق موبقہ (فارسی)،سلطان العلماء سید محمد ؒ،باب ہفتم کی رد میں۔
۱۶۔ طرد المعاندین ، سلطان العلماء سید محمدؒ۔تحفہ کے باب ھفتم کے جواب میں(۱۵)
۱۷۔ بارقہ ضیغمیہ در موضوع متعہ،سلطان العلماء سید محمد ؒ،باب دھم کی رد میں۔(۱۶)
۱۸۔ طعن الرماح، سلطان العلماء سید محمدؒ، باب دھم کی رد۔ مطبوعہ لکھنؤ(۱۷)
۱۹۔ جواہر عبقریۃ در رد تحفہ اثنا عشریہ باب ہفتم، مفتی سید محمد عباس شوشتری (م ۱۳۰۶ھ)۔مطبوعہ لکھنؤ
۲۰۔ہدیۃ العزیز (فارسی)،خیر الدین محمد الہ آبادی (صاحب عبقات کے والد کے ہمعصر)،باب چہارم کی رد ۔
۲۱۔ برھان الصادقین، علامہ سید جعفر المعروف ابو علی خان موسوی، باب ھفتم کی رد میں۔
۲۲۔ بہجۃ البرھان، سید جعفرابو علی ، باب نہم کی رد میں۔ مخطوطہ ناصریہ لائبریری
۲۳۔ تکسیر الضمین (فارسی)،سید جعفرابو علی،باب دہم کی رد میں۔
۲۴۔ تصحیف المنحۃ الالھیۃ عن النفثۃ الشیطانیہ ، شیخ محمد بن حسین خالصی کاظمیؒ(م ۱۳۴۳ھ)۔
۲۵۔المنحۃ الالٰھیۃ، میرزا فتح اللہؒ المعروف شریعت (شیخ الشریعۃ)
۲۶۔ تحفۃ السنۃ (اردو)،مرزا محمد ہادی رسواؒ(م ۱۲۵۰ھ)،۱۵ جلدوںمیں۔( واعظین کے کتب خانہ میں موجود ہے)۔(۱۸)
۲۷۔ جوہر قرآن(اردو)، علامہ علی حیدر نقویؒ ،(میاں بیوی کے درمیان مناظرہ کی صورت میں لکھی گئی اس کتاب میں صاحب تحفہ کے بہت سے اعتراضات نقل کر کے اس کے جوابات دئیے ہیں)۔
۲۸۔عبقات الانوار ، علامہ میر حامد حسینؒ ۔
میر حامد حسینؒ کی شخصیت اور کتاب عبقات :
علامہ سید میر حامد حسین موسوی ہندی نیشا پوری ، تیرہویں صدی کے ایک عظیم متکلم اور جید عالم تھے۔ شاہ سلطان حسین صفوی کے زمانے میں نیشا پور کے سید محمد نامی ایک عالم دین ہندوستان آئے اور دہلی میں قیام پذیر ہوئے ان کے بیٹے حکومتی عہدوں پر فائز ہوئے اور آہستہ آہستہ اہمیت کے حامل ہوگئے۔ سید محمد کے اخلاف میںبرہان الملک اودھ میں اہم عہدے پر فائز ہوئے۔ نیشا پور ی بادشاہوںکے زمانے میں نیشا پور، مشہد مقدس، اور خراسان کے شہروںسے بہت سے افراد ہندوستان آئے ، نقوی سادات جو نیشا پوری تھے، شیعہ حکومت اودھ کے بادشاہوں کے زمانے میں ہندوستان آئے ۔ صاحب عبقات الانوار میر حامد حسین نیشا پوری مرحوم اس خاندان کی حمایت کے زیر نظر فعالیت کررہے تھے۔(۱۹)
وہ ۵؍ محرم ۱۲۴۶ھ کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ نام سید مہدی اور کینت ابوظفر تھی۔ سید حامد حسین کے نام سے مشہور ہوئے۔ میر حامد حسین نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی ۔ ۱۵ ہی سال کے سن میں اپنے والد کے سایے سے محروم ہوگئے۔ اس کے بعد مفتی سید محمد عباس کی خدمت میں ادبیات اور نہج البلاغہ، مولانا سید برکت علی صاحب سے مقامات حریری اور سید مرتضی ابن سلطان العلما اور سید محمد بن دلدار علی صاحب سے حکمت و فلسفہ کی تعلیم حاصل کی۔
مرحوم میر حامد حسین محنتی اور سخت کوش عالم تھے۔ وہ علمائے گزشتہ کے آراء و نظریات اور اخبار و روایات پر اچھی نظر رکھتے تھے۔ اور اس سلسلے میںان کو شہرت بھی حاصل تھی۔ انہوںنے عقلی و نقلی علوم حاصل کرنے کے بعد اپنی پوری عمر دینی عقائد کے اسرار و رموز میں بحث و جستجو اور حقیقت سے آشنائی اور اس کے احیا میں گزاری اور اس سلسلے میںبیش قیمت آثار چھوڑے جنہیں صاحب اعیان الشیعہ نے ج۱۸ صفحہ ۳۷۳ پر ذکر کیا ہے۔
میر حامد حسین ۱۸؍ صفر ۱۳۰۶ھ کو اس دنیاسے رخصت ہوئے اور امام باڑہ غفرانمآب میں دفن ہوئے۔ ان کے انتقال نے دنیائے اسلام و تشیع بالخصوص ہندوستان کے لوگوںکو غمزدہ کیا۔ ادبا و شعرا نے ان کی رحلت پر تعزیتی نظمیں اور مراثی کہے۔
میر حامد حسین کے والدمفتی سید محمد قلی موسویؒ (م۱۲۶۰ھ)کے تین بیٹے تھے: سید سراج حسین(م۱۲۸۲ ھ)، سید اعجاز حسین (م۱۲۸۶ ھ)اور سید حامد حسین(م۱۳۰۶ھ) اور سید حامد حسین کے دو بیٹے تھے سید ناصر حسین (م۱۳۶۱ ھ)اور سید ذاکر حسین۔
علامہ سید محمد قلی موسوی کے تمام بیٹے علم دین سے مالا مال اور صاحبان عزت و فضیلت تھے اور سب نے علمی آثار چھوڑے اس علمی خانوادے نے علم و تقوی کا چراغ روشن رکھا اور دین و شریعت کی حفاظت و پاسداری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
علامہ امینیؒ نے میر حامد حسینؒ کے بارے میںلکھا ہے:
یہ سید پاک و بزرگوار اپنے مقدس آبا و اجداد کی طرح دشمنان حق و حقیقت کے سروںپر خدا کی برہنہ شمشیر ہیں۔ نیز خداوندعالم کی نشانیوں میں سے ایک آیت و نشانی ہیں خدا نے ان کے ذریعہ حجت کو تمام کیا حق کے راستے کو آشکار کیا۔(۲۰)
عبقا ت الانوار
جب بھی علمائے شیعہ کی طرف سے تحفہ اثنا عشریہ کے جواب میںکوئی کتاب لکھی جاتی تو مولوی عبد العزیز کے ہمفکر علما اور ان کے شاگرد اس کا جواب دینے کی کوشش کرتے لیکن میر حامد حسین کی عبقات الانوار ہر اعتبار سے اتنی مضبوط و مستحکم اور مستدل تھی کہ کسی میںجواب کی ہمت نہ ہوئی۔ اب تک میں نے نہیںسنا کہ کوئی کتاب عبقات الانوار کے جواب میں لکھی گئی ہو۔(۲۱)
اس سلسلے میں اس خاندان کے چشم و چراغ روح الملت بیان کرتے ہیں:
جب عبقات الانوار منظر عام پر آئی تو بھوپال کے نواب نے چونکہ وہ بھی پڑھے لکھے آدمی تھے اور اپنے مسلک و عقیدے کے اعتبار سے بہت ہی مذہبی تھے۔ انہوں نے اس کتاب کو پڑھا اور ہندوستان کے پچہتر چنندہ برگزیدہ اور اپنے دور کے نامی گرامی علماء کو جمع کیااور ان کو بھوپال میں اپنے محل اپنا مہمان بنایا اور یہ بات کہی کہ اس کتاب کا جواب آپ لوگوں کو لکھنا ہے ان علماء نے اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا۔ ان میں مفسرین بھی تھے، علم حدیث کے ماہرین بھی تھے، علم رجال کے ماہرین بھی تھے، روایات کے ماہرین بھی تھے، تاریخ کے ماہرین بھی تھے، ادیب بھی تھے ،فلسفی بھی تھے۔ سب جمع ہوئے اور تقریباً بارہ دن کے بعد انھوں نے نواب بھوپال سے ملاقات کی خواہش کی اور نواب بھوپال کے دربار خاص میں ان کو پیش کیا گیا تو انہوں نے نواب صاحب سے یہ کہا کہ ہم نے اس کتاب عبقات الانوار کا مطالعہ کرلیا ہے اور ہمارے سامنے اس کے جواب کا صرف ایک راستہ ہے وہ یہ کہ آپ اپنی دولت اپنا اثر ور سوخ استعمال کیجئے اور دنیا بھر میں جہاں جہاں اہل سنت کی کتابیںہیں سب کتابوں کو جمع کرکے سمندر میں ڈال دیجئے دریا برد کردیجئے اس کے بعد ہم یہ لکھ دیں گے کہ عبقات الانوار میں جو کچھ لکھا ہے وہ سب جھوٹ اور غلط ہے کیوں کہ پوری کتاب ہمارے ہی مسلک کی کتابوں اور ہمارے ہی علماء کے حوالوں سے لکھی گئی ہے!!۔(۲۲)
میر حامد حسین بات کو محکم و مستدل لکھنے کے ساتھ مکمل طور پر اسلامی آداب کا بھی پاس لحاظ رکھتے تھے۔ انہوں نے دلیل و برہان و منطق، حلم و بردباری اور انصاف کے ساتھ تحفہ اثنا عشریہ کا جواب دیا۔اور نام انتخاب کیا ’’عبقات الانوار‘‘۔’’عبقات‘‘، خوشبو کو کہتے ہیں اور ’’نَور‘‘کلی کو۔یعنی کلیوں کی خوشبو،غنچوں کی مہک۔
صاحب تحفہ کا کہنا تھا کہ ائمہ کی امامت کے اوپر شیعوں کی دلیل چھ آیتوں اور بارہ حدیثوں میں منحصر ہے۔
میر حامد حسین کہتے ہیں :اس سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ امیرالمؤمنین ؑ کی خلافت اور ولایت مطلقہ پر دلالت کرنے والی پیغمبر اکرمؐ کی حدیثوں کو دہلوی نے بارہ حدیثوں میں منحصر کیا ہے جبکہ یہ بات صاف حقیقت کا انکار ہے، میں نہیں جانتا یہ حصر عقلی ہے یا استقرائی!؟
نہ یہ حصر عقلی ہوسکتی ہے (حصر عقلی یہ کہ عقل کہے کہ پیغمبرؐ نے اس موضوع پر صرف بارہ حدیثیں بیان فرمائی ہیں)اس لیے کہ اس طرح کے مسائل میں عقل کا کوئی دخل نہیں ہے کہ وہ آکر تعداد کو معین و منحصر کرے،اور نہ حصر استقرائی ہوسکتی ہے اس لئے کہ حقیقت ان کے گمان اور نظریے کے برخلاف ہے اس لئے کہ اس موضوع پر بے شمار حدیثیں کثرت سے بیان ہوئی ہیںجو ہر انصاف پسند اور عالم و آشنا شخص سے پوشیدہ نہیں ہیں(۲۳)۔
میر حامد حسین نے عبد العزیز کی پیش کردہ آیات و احادیث جس کی سند و دلالت کو صاحب اثنا عشریہ نے ضعیف جانا تھا، کو سامنے رکھ کر جواب دیا اسی وجہ سے اپنی کتاب عبقات الانوار کو دو حصوں (منہج) میںپیش کیا ہے:
پہلا حصہ: انہوںنے پہلے حصہ میںقرآن کی چند آیتوں کی تحقیق و جستجو اور امامت پر ان کی دلالت کو پیش کیا اور سنی تفسیروں سے یہ ثابت کیا کہ قرآن کریم کی یہ آیتیں حضرت علیؑ کی ولایت و امامت پر دلالت کررہی ہیں ۔
یہ حصہ کئی جلدوں پر مشتمل ہے، مع الاسف یہ حصہ اب تک شائع نہیں ہوا ہے لیکن لکھنؤ میں مؤلف کتاب کے کتبخانہ(ناصریہ لائبریری ) اور مولوی سید رجب علی خان سبحان الزمان کے کتب خانہ واقع جکراواں(؟) میں موجود ہے۔(۲۴)
علامہ سید علی حسینی میلانی نے ’’نفہات الازہار‘‘ کے نام سے عبقات الانوار کے خلاصہ کی بیسویں جلد میں علامہ میر حامد حسین کے طریقہ اور روش پر قرآن کریم کی چھ آیتوں کی دلالت کو ثابت کیا ہے جو بہت ہی مبارک کام ہے۔
پہلے حصہ کی آیتیں اس طرح ہیں : (۱)انما ولیکم اللہ و رسولہ و الذین آمنوا الذین یقیموں الصلوۃ و یؤتون الزکوۃوھم راکعون(۲۵)۔ (۲) انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا(۲۶)۔ (۳) قل لا اسئلکم علیہ اجرا الاالمودۃ فی القربیٰ(۲۷)۔ (۴)فمن حاجک فیہ من بعد ما جائک من العلم فقل تعالوا ندع ابناء نا و ابناء کم و نساء نا و نساء کم و انفسنا و انفسکم ثم نبتھل فنجعل لعنۃ اللہ علی الکاذبین(۲۸)۔ (۵) انما انت منذر و لکل قوم ھاد(۲۹)۔ (۶)والسابقون السابقون اولئک المقربون(۳۰)۔
دوسرا حصہ : علامہ میر حامد حسین نے دوسرے حصہ کو ائمہؑ کی امامت کے سلسلے میں بارہ حدیثوں کی تحقیق و جستجو اور اہل سنت کی جانب سے کئے گئے اعتراضات جنہیں عبد العزیز دہلوی نے تحفہ اثناعشریہ میں پیش کیا ہے۔ اور ان کے جوابات سے مخصوص کیا (یہ حصہ تیس جلدوں پر مشتمل ہے)جس کی کچھ جلدیں شائع ہوئیں اور کچھ کو ان کے بیٹوں اور پوتوں نے مکمل کرکے شائع کروایا اور بعض جلدوںکے سلسلے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔
علامہ میر حامد حسین کے ذریعہ جو جلدیں لکھی گئیں وہ اس طرح ہیں:
۱۔حدیث غدیر (یا معشر المسلمین! الست اولی بکم من انفسکم ؟ قالو: بلی، قال : من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ )کی سند و دلالت کے اعتبار سے تحقیق و جستجو۔
۲۔حدیث تشبیہ (من اراد ان ینظر الی آدم فی علمہ و الی نوح فی تقواہ و الی ابراھیم فی حلمہ و الی موسی فی بطشہ و الی عیسی فی عبادتہ فلینظر الی علی بن ابی طالب)کی تحقیق و جستجو سند و دلالت کے اعتبار سے۔
۳۔حدیث منزلت (اما ترضیٰ ان تکون منی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ الا انہ لا نبیّ بعدی)کی تحقیق و جستجو سند و دلالت کے اعتبار سے۔
۴۔حدیث نور (کنت انا و علی بن ابی طالب نورا بین یدی اللہ عز وجلّ قبل ان یخلق آدم باربعۃ آلاف عام، فلمّا خلق آدم قسم ذلک النور جزئین، فجزء انا و جزء علیّ)کی تحقیق و جستجو سند و دلالت کے اعتبار سے۔
۵۔حدیث ولایت(علی منی و انا من علی و ھو ولیکم من بعدی)کی تحقیق و جستجو سند و دلالت کے اعتبار سے۔
پھر اجل نے موقع نہیں دیا کہ بقیہ حدیثوں کو پورا کرتے لیکن ان کے بعد ان کے لائق و فائق بیٹے ناصر الملت علامہ سید نا صر حسین جو اپنے والد کی طرح آسمان فضیلت کے درخشاں ستارے تھے۔ انہوں نے اپنے والد کے ہی اسلوب و طریقہ پر چار حدیثوں کا اضافہ کیا جو اس طرح ہیں:
۶۔ حدیث طیر(اللھم ائتنی باحبّ خلقک الیک و الیّ یاکل معی،فجاء علیّ) کی سند و دلایت کے اعتبار سے تحقیق و جستجو۔
۷۔حدیث باب(انا مدینۃ العلم و علی بابھا) کی سند و دلایت کے اعتبار سے تحقیق و جستجو۔
۸۔حدیث ثقلین(انی تارک فیکم الثقلین ما ان تمسکتم بھما لن تضلوا بعدی احدھما اعظم من الآخر، کتاب اللہ و عترتی) کی سند و دلایت کے اعتبار سے تحقیق و جستجو۔
۹۔حدیث سفینہ(الا انّ مثل اھل بیتی فیکم مثل سفینۃ نوح من رکبھا نجا و من تخلف عنھا ھلک) کی سند و دلایت کے اعتبار سے تحقیق و جستجو۔
یہ جلدیںبھی شائع ہوئیں۔ ناصر الملت کے بعد ان کے بیٹے سعید الملت علامہ سید محمد سعید جو اپنے زمانے کے زبردست عالم تھے انہوں نے دو حدیثوں کا اضافہ کیا۔
۱۱۔حدیث مناصبہ ( من ناصب علیا الخلافۃ فھو کافر)(عربی زبان میں)کی سند و دلایت کے اعتبار سے تحقیق و جستجو۔
۱۲۔حدیث خیبر ( لاعطینّ الرایۃ غدا رجلا یحب اللہ و رسولہ و یحبہ اللہ و رسولہ یفتح اللہ علی یدیہ)(عربی زبان میں)کی سند و دلایت کے اعتبار سے تحقیق و جستجو۔
متاسفانہ اب تک یہ دو حدیثیں شائع نہیںہوئی ہیں۔ ان دونوں شخصیتوں نے چھ حدیثوں کو بھی سید میر حامد حسین مرحوم کے نام سے قرار دیا تاکہ ان عظیم مجاہد کی تعظیم و توقیر میں اضافہ ہو۔ اور میر سید ناصر حسین اور ان کے بیٹے نے وہی راستہ طے کیا جسے عبقات کے بانی نے کھولا تھا۔
اب تک عبقات الانوار کی ۱۶ جلدیں شائع ہوئی ہیں جو نو حدیثوں کے سلسلے میں ہیں دو حدیثوں: حدیث مناصبہ اور حدیث خیبر(پہلا حصہ)لکھی گئیں لیکن اب تک شائع نہیں ہوئی ہیں(۳۱)۔ اور مع الاسف ان بارہ حدیثوں میں سے دو حدیثیں حدیث حق(رحم اللہ علیا اللھم ادر الحق معہ حیث دار) اور حدیث خیبر (دوسرا حصہ)لکھی نہیںگئی ہیں۔(۳۲)
علمائے دین اور اسلامی مفکرین نے عبقات الانوار کو علامہ میر حامد حسین کا کارنامہ قرار دیا ہے جن میں سے بعض کے آراء و نظریا ت یہ ہیں:
علامہ امینیؒ:ان کی کتاب عبقات کی خوشبو دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلی ۔ اس کتاب کی شہرت نے پوری دنیا کا احاطہ کرلیا۔ جس نے بھی اس کتاب کو دیکھا روشن اور روشن گر معجزہ پایا جس میں کسی بھی طرح کے غلط اور باطل کار گزر نہیںہے۔ میں نے اس کتاب میں جمع کئے گئے مطالب اور وسیع علم سے بہت زیادہ استفادہ کیا لہذا مرحوم اور ان کے والد علام کی خدمت میں بہت زیادہ تشکر و سپاس پیش کرتا ہوںاور خداوند عالم سے ان کے لئے عظیم اور بہت زیادہ اجر کا طلب گار ہوں۔(۳۳)
امام خمینیؒ:جو بھی حدیث غدیر کے سلسلے میںجاننا چاہتا ہے وہ سید بزرگوار میر حامد حسین ہندی کی کتاب عبقات الانوار کو پڑھے ۔ انہوں نے چار ضخیم جلدیں حدیث غدیر کے سلسلے میںتحریر کی ہیں۔ اور ایسی کتاب آج تک لکھی نہیںگئی ۔ امامت کے سلسلے میںعبقات الانوار جیسا کہ سنا گیا ہے۔ تیس جلدوں پر مشتمل ہے۔ میںنے سات آٹھ جلدیں دیکھی ہیں اور ایران میں شاید غالبا۱۵ جلدیں دستیاب ہیں۔ اہل سنت اس کتاب کی جمع آوری اور اس کو ضائع کرنے کی فکر میں ہیں اور ہماری شیعہ قوم سورہی ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس وقت بیدار ہوں جب اس طرح کا قیمتی خزانہ اور بیش قیمت گوہر ہمارے ہاتھوں سے نکل چکا ہو۔
تقریبا دو سال پہلے (۱۳۶۳ھ میں)شیعہ قوم کے سامنے اس کتاب کی دوبارہ اشاعت کیلئے تجویز رکھی گئی لیکن اس پر توجہ نہیںہوئی اگر چہ اس وقت جلد غدیر تحت طبع ہے۔ (جو بعد میں دس جلدوںمیں شائع ہوئی)لیکن علمائے شیعہ پر خصوصی طور سے اور دوسرے تمام افراد پر لازم ہے کہ اس عظیم کتاب کو جو ہمارے مذب کی سب سے بڑی حجت ہے ضائع ہونے سے بچائیں اور اس کی نشر و اشاعت کریں۔(۳۴)
محمد رضا حکیمی:بیشک کتاب عبقات عظیم ہے، بیکراںسمندر ہے۔ تاریخ بشریت میں اس کی نظیر نہیں۔ علماء و مفکرین نے اب تک اس کے سلسلے میں جو کچھ کہا یا آئندہ کہیں گے سب کتاب کا حق ہے۔(۳۵)
عبقات الانوار کی تالیف کا مقصد
علامہ میر حامد حسین نے عبقات الانوار کو مذہب شیعہ اور اسلام کے سیاسی فلسفہ کے دفاع میں لکھا ان کا مقصد حق کی رہنمائی ، بیدار سازی اور حق شناسی تھی۔ جس کتاب سے اس علاقہ میں تشیع کو فروغ ملا اور بہت سے افراد مذب شیعہ کے پیرو بن گئے، دنیائے اسلام میںاس کی برکتیں نازل ہوئیں۔
علامہ میر حامد حسین نے اس کتا ب میں اس بات کی پوری کوشش کی کہ عبقات الانوار فلسفہ امامت کو روشن وآشکار کرے اور اسلام حقیقی کو پہچنوائے ۔ ایسا اسلام جو عزت و معرفت اور شریعت کی ترقی و سعادت چاہتا ہے۔ جس کے رہبر و رہنما معصوم امام و نبی ہیں انسان اپنے مقام و مرتبہ کو مد نظر رکھتے ہوئے معصوم رہبروں کی پیرو ی کرے تاکہ انسانی عزت و وقار اور شان و منزلت کو معصوم اماموں کی رہبری کے زیر سایہ محفوظ رکھ سکے۔
تحقیق کا انداز و طریقہ
میر حامد حسین مرحوم کا اس کتاب میں طریقہ یہ ہے کہ ابتدا صاحب تحفہ اثناعشریہ کے قول کو ان کی دلیلوںکے ساتھ بیان کرتے ہیں پھر اس کا جواب دیتے ہیں۔ اور اس جواب دینے میں پہلے مورد بحث حدیثوں کی سند کی تحقیق کرتے، اس کے بعد اہل سنت کی معتبر کتابوں اور ان کے اقوال و نظریات کی روشنی میں ان کی احادیث کے متواتر اور قطعی الصدور ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔ پھر ان احادیث کے راویوں کو دوسری صدی سے تیرہویں صدی تک صدی اور تاریخ وفات کی بنیا د پر بیان کرتے ہیں۔
پھر حدیث کو بیان کرتے ہوئے راوی کا تعارف پیش کرتے، چاہے وہ صحابی ہو یا تابعی چاہے عالم ہو یا مولف پھر اس کے بارے میں علم رجال کے ماہرین کے اقوال و نظریات کو بیان کرتے اور حتی کہ بعض کتابوں مثلا مسند احمد ، الامامۃ و السیاسۃابن قتیبہ کا بھی تعارف پیش کرتے ۔ پھر شیعہ نظریہ کے مطابق حدیث کی دلالت کو پیش کرتے آخر میں تمام شبہات و اعتراضاات کے ایک ایک کرے مستدل جواب دیتے ۔
علامہ میر حامد حسین کوئی مطلب یا حدیث نقل کرنے کے بعد اس کا دقیق حوالہ ، حتی باب، فصل اور صفحہ نمبر و غیرہ بھی بیان کرتے ۔ میر حامد حسین کی اپنی کتاب میںیہ روش تھی اور اسی روش کو ان کے بیٹے اور پوتے نے عبقات الانوار کی تکمیل میں اختیار کیا۔ عبد العزیز کا ماننا تھا کہ حضرت علی کی امامت کے ثبوت میں صرف بارہ حدیثیں ہی پائی جاتی ہیں جن کو علمائے شیعہ پیش کرتے ہیں۔
عبد العزیز دہلوی باب ہفتم میںجو خلافت و امامت سے متعلق جلد ہے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ شیعہ علما کے پاس حضرت علی ؑکی بلافصل خلافت پر صرف بارہ یا تیرہ حدیثیں ہیںجسے وہ پیش کرتے ہیں۔ جن کو ایک ایک کرکے بیان کیا پھرلکھتے ہیں:
ایک یا دو حدیث کو چھوڑ کر بقیہ تمام حدیثیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں اور قابل اعتبار نہیں ہیں اور شیعوں کے مدعی پر دلالت کرنے سے قاصر ہیں۔(۳۶)
اسی طرح بعض قرآنی آیات جسے شیعہ اپنے مطلب کو ثابت کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں نقل کرتے ہوئے مطلب پر دلالت کرنے سے ناکافی گردانا ہے۔
گرچہ حضرت علی ؑکی امامت کے اثبات پر حدیثیں بہت زیادہ ہیں لیکن چونکہ صاحب تحفہ نے حدیثوں کو بیان کرتے ہوئے اعتراض کیا لہذا علامہ میر حامد حسین نے بھی عبقات الانوار میں بارہ حدیثوں کی بحث و تحقیق کی اور اسی کو ثابت کیا اگر چہ ان میں سے ہر روایت تنہا ہی حضرت علی ؑکی امامت کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔
میر حامد حسین کی تحقیق کی روش در حقیقت مختلف علوم مثلا علم تفسیر، کلام ، حدیث درایہ ، رجال ، تاریخ ادبیات سے بحث ہے اسی وجہ سے عبقات الانوار کی بحثیں مکمل اور جامع ہیں اور ہر مفسر ، متکلم ، مورخ ادیب و عالم کے لئے قابل استفادہ ہیں۔
شیخ آقا بزرگ تہرانی نے علامہ میر حامد حسین کے سلسلے میں ایک قابل توجہ اخلاقی پہلو پیش کیا ہے: قابل تعجب بات تو یہ ہے کہ میر حامد حسین نے ایسی عمدہ اور عظیم کتابیں لکھیں جبکہ وہ صرف اسلامی کاغذوں اور روشنائی کا استعمال کرتے تھے۔ (یعنی وہی کاغذ اور روشنائی استعمال کرتے تھے جو اسلامی سر زمینوں پر مسلمانوں کے ہاتھوں سے بنائی جاتی تھیں)۔ اور یہ بات ان کے بہت زیادہ تقوی و پرہیزگاری کی وجہ سے تھی اور غیر مسلموں کے ہاتھوں بنائی چیزوں کا استعمال نہ کرنے میںوہ مشہور تھے۔(۳۷)
کتاب کی زبان
چونکہ تحفہ اثنا عشریہ فارسی زبان میںلکھی گئی تھی اس وجہ سے میر حامد حسین صاحب نے بھی اس کے جواب میں فارسی زبان ہی میںعبقات الانوار لکھی۔ اس کتاب کی فارسی دلنشیں، دلچسپ اور جالب نظرہے۔
میر حامد حسین کے تحقیقی منابع
علامہ میر حامد حسین نے اس کتاب میں اپنے والد مرحوم سید محمد قلی موسوی کے کتاب خانہ سے استفادہ کیا اور کچھ ان کتابوں کو سامنے رکھا جنہیں مختلف سفر کے دوران خریدا تھا۔ نیز وہ کتابیں بھی مورد استفادہ قرار پائیں جنہیں ان کے مطالبہ پر دوسرے شہروں سے بھیجا گیا تھا۔ اسی طرح کچھ اور کتب خانوں سے بھی بہرہ مند ہوئے جن میں سے مدینہ منورہ میںحرم نبوی کا کتب خانہ ، مکہ مکرمہ کا کتب خانہ اور عراق کے مشہور کتب خانے ہیں۔ انہوں نے ان کتابوں کو مہیاکرنے میں بہت زیادہ زحمتیں برداشت کیں تاکہ ائمہ معصومین ؑکی امامت و لایت کو اہل سنت کی معتبر کتابوں سے ثابت کریں۔ (۳۸)
علامہ میر حامد حسین نے مختلف موضوعات پر اہل سنت کی جن کتابوں سے استفادہ کیا ان میں سے بعض یہ ہیں:
حدیث : صحاح ستہ اور ان کی شرحیں، سنن سے متعلق کتابیں، کنز العمال ، الموطا اور اس کی شرحیں مشکات اور ا سکی شرحیں۔
تفسیر قرآن: تفسیر ابن کثیر، جلالین، کشاف زمخشری، در المنثور سیوطی، طبری، روح المعانی ، ۔
سیرت : سیرت ابن ہشام ، سیر النبویہ حلان ، سبل الھدی و الرشاد فی خیر العباد۔
فقہ: المبسوط شمس الدین سرخسی، نیل الاوطار شوکانی، احکام الاحکام فی شرح عمدۃ الاحکام حلبی، بدایع الصنائع کا شانی۔
اصول فقہ : المختصر لابی الحاجب اور اس کی شرحیں۔ الاصول سرخی، المنار اور اس کی شرحیں، مسلم الثبوت اور اس کی شرحیں، ۔ نہایۃ العقول فخر رازی۔
رجال الحدیث: تہذیب الکمال امزی، تہذیب التھذیب ذہبی، الکمال فی اسماء الرجال، الثقات ابن حیان۔
کلام: شرح المقاصد تفتازانی، شرح المواقف جرجانی ، شرح التجرید قوشجی۔
تاریخ: تاریخ طبری ، تاریخ ابن اثیر، تاریخ ابن خلدون، تاریخ یعقوبی ، مروج الذہب مسعودی۔
عبقات الانوار سے متعلق کتابیں
(۱)۔تتمیم عبقات، ناصر الملت سید ناصر حسین ابن میر حامد حسین
(۲)۔ تذییل عبقات، سید ذاکر حسین ابن میر حامد حسین
(۳)۔ تعریب،جلد اول حدیث مدینۃ العلم، سید محسن نواب
(۴)۔ تلخیص ،جلد دوم، پنجم، ششم اور جلد اول کا کچھ حصہ بنام الثمرات، سید محسن نواب
(۵)۔ تکمیل، جلد ہفتم عبقات الانوار، سعید الملت مولانا سید محمد سعید ابن سید ناصر حسین
(۶)۔ فیض القدیر فی ما یتعلق بحدیث الغدیر(حدیث غدیر سے متعلق عبقات کا خلاصہ، محدث شیخ عباس قمیؒ۔
عبقات الانوار کی حدیث غدیر سے متعلق جلدیں بہت مفصل اور طولانی ہیں جس کی وجہ سے بہت کم مورد استفادہ قرار پاتی ہیں اسی وجہ سے مرحوم شیخ عباس قمی نے بہت اچھے انداز میں اس کا خلاصہ کیا اور فیض القدیر فیما یتعلق بحدیث الغدیر نام رکھا۔ انہوں نے اس تلخیص میں مکمل طور پر علامہ میر حامد حسین کی روش کو مد نظر رکھا اور اس کی رعایت کی محدث قمی اس سلسلہ میں اپنے زندگی نامہ میں لکھتے ہیں:
کتاب فیض القدیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سید محدث، عالم متکلم، محقق و مدقق، مؤیّد و مسدّد، محی السنۃ و سیف الامۃ ، فخر الشیعۃ و حامی الشریعت، سیدناا لاجل مولانا حامد حسین ہندی کی کتاب عبقات الانوار کی حدیث غدیر سے متعلق دو جلدوں کا خلاصہ ہے۔ (۳۹)
محدث قمی نے یہ کتاب ۱۳۲۱ھ میں نجف اشرف میں لکھی جو خطی نسخہ کی صورت میں ان کے بیٹے کے پاس تھی ۱۳۶۴ھ شمسی میں آیت اللہ استادی کی کوششوں سے حجۃ الاسلام رضا مختاری اور حجۃ الاسلام سید علی میر شریفی کے ذریعہ تحقیق و تصحیح ہوئی۔ ۱۴۰۶ھ میں پہلی مرتبہ ’مؤسسہ در راہ حق‘قم سے شائع ہوئی۔ دوبارہ مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم سے ۴۶۲ صفحات میں چھپی۔ محدث قمیؒ نے اس کتاب کے خلاصہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا: پہلے حصہ میں حدیث غدیر کا متواتر ہونا ، فخر رازی اور ان کے مقلدین کے اعتراضات کے جواب اور علمائے اہل سنت میں اس کے نقل کرنے والوں اور بیان کرنے والوں کو پیش کیا انہوں نے اس فصل کو تین ابواب میں اس طرح مرتب کیا۔
(۷)خلاصۂ عبقات الانوار
یہ کتاب عربی زبان میں ہے جسے علامہ سید علی حسینی میلانی نے ۱۳۸۵ھ میں کربلا میں شروع کیا۔
علامہ علی حسینی میلانی نے ۱۴۱۴ھ میں خلاصہ عبقات الانوار کی باز بینی اور تجدید چاپ کا کام نفحات الازہار کے نام سے بیس جلدوں میں خوبصورت انداز میں ہر جلد کے آخر میں مکمل فہرست کے ساتھ انجام دیا۔ جلدوں کی تفصیل اس طرح ہے:
(۱) پہلی دوسری تیسری جلد:حدیث ثقلین۔ (۲) چوتھی جلد: حدیث سفینہ۔ (۳) پانچویں جلد : حدیث نور۔ (۴)چھٹی ساتویں آٹھویں اور نویں جلد:حدیث غدیر۔ (۵)دسویں گیارہویں بارہویں جلد: حدیث مدینۃ العلم۔ (۶) تیرہویں چودھویںجلد: حدیث طیر۔ (۷)پندرھویں سولھویں جلد: حدیث ولایت۔ (۸)سترھویں اٹھارویں جلد:حدیث منزلت۔ (۹)انیسویں جلد:حدیث تشبیہ۔
یہ انیس جلدیں پہلے حصہ(منہج) سے متعلق ہیں۔
علامہ سید علی حسینی میلانی کا کارنامہ
چونکہ عبقات کا پہلا حصہ آیات سے مخصوص تھا جو دسترس میں نہیں ہے اس لئے علامہ میلانی نے قابل تعریف کارنامہ انجام دیتے ہوئے پہلے حصہ کو تالیف کیا اور ’’نفحات الازھار‘‘ کی بیسویں جلد کو اس حصہ سے مخصوص کیا۔ انھوں نے اس حصہ کو علامہ میر حامد حسین کی ہی نہج پر لکھا ہے۔
انھوں نے عبد العزیز دہلوی کی پیش کردہ آیتوں کو بیان کرتے ہوئے ائمہ ؑکی امامت پر ان کی دلالت کو ثابت کیا۔
یہ کتاب ۱۴۲۰ھ میں قم میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی۔
۸۔ عبقات الانوار در اثبات امامت ائمہ اطہارؑ
یہ مجموعہ چھ جلدوں پر مشتمل ہے جو اصفہان کے چند علماء کا کارنامہ ہے اور موسسہ نشر نفائس مخطوطات اصفہان کے توسط سے ۱۳۸۲ھ میں شائع ہوا۔
خطوط
اسلامی ممالک میں عبقات الانوار کے منظر عام پر آتے ہی علمائے دین نے میر حامد حسین کے اس عظیم کارنامہ کو خوب سراہا اور ان کے نام خطوط کے ذریعہ اس کام کی ستائش کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔
ان میں سے بعض خطوط ’’سواطع الانوارفی تقریظات عبقات الانوار‘‘ کے نام سے سید مظفر حسین صاحب کے ذریعہ ۵۶ صفحات میں لکھنؤ میں ۱۳۰۴ھ میں شائع ہوئے۔ دوبارہ ۱۳۲۳ھ میں مولانا مظفر حسین صاحب کے ذریعہ اضافہ کے ساتھ ۱۲۴ صفحات میں شائع ہوئے۔
ایران میں استاد حاج سید مصطفیٰ مھدوی اصفہانی کی کوششوں سے عبقات الانوار کا کچھ حصہ شائع ہوا جو اس طرح ہے:حدیث طیر(ایک جلد میں)۔ حدیث مدینۃ العلم(دو جلدوں میں)۔ حدیث ولایت(ایک جلد)۔ حدیث تشبیہ(ایک جلد)۔ حدیث نور(ایک جلد میں)۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ’’عبقات الانوار‘‘ کو فارسی سے اردو میں منتقل کرنے کا بیڑا حجۃ الاسلام مولانا سید شجاعت حسین صاحب گوپالپوری نے اٹھایا ہے۔نور الانوار کے نام سے ابتک حدیث نور (ایک جلد) اور حدیث ثقلین(دو جلد) شائع ہوچکی ہیں۔امید ہے عنقریب تمام جلدیں منظر عام پر آجائیں گی۔
حواشی:
(۱)خلاصہ عبقات الانوار،علامہ سید علی میلانی،ج۱ ،ص۱۵۸۔ (۲)عبقات الانوار،طبع اصفہان،ص۱۱۹۸۔
(۳)میر حامد حسینؒ، محمد رضا حکیمی،ص۱۸۸۔ (۴)خلاصہ عبقات،ص۱۱۱۔
(۵)عبقات الانوار،حدیث ثقلین، طبع اصفہان،ج۶،ص۱۱۹۸؛جوہر قرآن، علامہ علی حیدر نقویؒ؛نور الانوار(حدیث نور)۔
(۸)نور الانوار(حدیث نور)،ترجمہ مولانا شجاعت حسین رضوی،ص۱۶۔ (۹)نور الانوار،ص۱۶۔
(۱۰)عبقات الانوار،ص۱۲۰۰۔ (۱۱)نور الانوار،ص۱۷۔
(۱۲)نور الانوار،ص۱۸۔ (۱۳)نور الانوار،ص۱۸۔
(۱۴)نور الانوار،ص۱۸۔ (۱۵)نور الانوار،ص۱۹۔
(۱۶)نور الانوار،ص۱۹۔ (۱۷)نور الانوار،ص۱۹۔
(۱۸)نور الانوار،ص۱۹۔ (۱۹)میر حامد حسینؒ،ص۱۰۵ بنقل از خدمات متقابل اسلام و ایران۔
(۲۰)الغدیر،ج۱،ص۱۵۶و ۱۵۷۔ (۲۱)خلاصہ عبقات،ج۱،ص۱۲۸۔
(۲۲)ماہنامہ اصلاح ’’غیبت حضرت حجتؑ و خدمات مرجعیت نمبر‘‘۔ (۲۳)خلاصہ عبقات،ج۶،ص۵۱۔
(۲۴)الذریعہ،شیخ آقا بزرگ اصفہانی،ج۱۵،ص۲۱۴۔ (۲۵)سورہ مائدہ،آیت۵۵۔ (۲۶)سورہ احزاب،آیت۳۳۔
(۲۷)سورہ شوری،آیت۲۳۔ (۲۸)سورہ آل عمران،آیت۵۹۔
(۲۹)سورہ فاطر،آیت۲۴۔ (۳۰)سورہ واقعہ۔آیت۱۰۔
(۳۱)عبقات الانوار،غلام رضا مولانا بروجردی در مقدمہ،ج۱۔ (۳۲)خلاصہ عبقات،ج۱،ص۱۲۴۔
(۳۳)الغدیر،ج۱،ص۱۵۶؛ میر حامد حسین،ص۱۲۳۔ (۳۴)کشف الاسرار،امام خمینیؒ،ص۱۴۱۔
(۳۵)میر حامد حسینؒ،ص۱۲۸۔ (۳۶)عبقات الانوار،حدیث ثقلین،طبع اصفہان،ج۶،ص۱۲۰۸۔
(۳۷)میر حامد حسینؒ۔ (۳۸)خلاصہ عبقات،ج۱،ص۱۰۸۔
(۳۹)فوائد الرضویہ،ص۲۲۲۔