جمعرات، 22 اگست، 2013

عبقات الانوار

عبقات الانوار 
اور علامہ میر حامد حسینؒ
 پر ایک نظر
تحریر: حجۃالاسلام سید محمد رضا حسینی
ترجمہ و تلخیص و اضافات:سید محمد حسنین باقری
علامہ میرحامد حسینؒ کی لاجواب کتاب ’’عبقات الانوار‘‘، عبد العزیز دہلوی کی کتاب ’’تحفہ اثنا عشریہ‘‘ کا علمی ، مستند اور منطقی جواب ہے۔ متعصب سنی عالم مولوی عبد العزیز (۱۱۵۹ھ؁ ۔ ۱۲۳۹ھ؁ )کا لقلب سراج الہند تھا۔انہوں نے دشمنان اسلام کے منشأ کو پورا کرنے اور مسلمانوں کی صفوں کے درمیان شگاف ڈالنے کے لئے تیرہویں صدی ہجری کے آغاز میں کتاب تحفہ اثناعشریہ لکھی جو ۱۲۰۴ھ (۹۰۔۱۷۸۹ئ) میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں شیعوں کے عقائد و نظریات پر تہمت لگانے اور جھوٹ و افترا باندھنے میںپورا زور لگادیا ۔ انہوں نے کتاب کا پہلا ایڈیشن فرضی نام غلام حلیم کے نام سے شائع کیا لیکن دوسرے ایڈیشن میں اصلی نام عبد العزیز دہلوی ظاہر کردیا۔(۱)
صاحب عبقات الانوار لکھتے ہیں:
 اس کتاب میں شیعوں کے عقائد و نظریات کا عمومی طور پر اور اثناعشری فرقہ کا خصوصی طور پر ، اصول و فروع ، اخلاق و آداب اور ان کے تمام عقائد اور اعمال کا مذاق اڑایا اور اعتراض کیا ہے ، جس میں غیر مہذب الفاظ، مناظرہ کے قانون قاعدہ سے خارج کلمات کا سہارا لیا گیا ہے۔۔پوری کتاب میں صرف تہمت اور بے جا الزامات ہیں۔(۲)
استاد محمد رضا حکیمی عالم اسلام میں اس کتا ب کے منفی اثرات کے سلسلے میںلکھتے ہیں:
یہ کتاب وجود میں آتے ہی عالم اسلام کے درمیان اختلاف کا باعث بنی۔ مسلمانوں کے درمیان آپس میں کینہ و نفرت اور دشمنی کا سبب قرار پائی اس کتاب نے مسجد و محراب کی معنویت ، رمضان و عاشورہ کی عظمت کو متاثر کیا۔ یہود و نصاری اور دشمنان اسلام کے دلوں کو لرزا نے والی اذان کی آوازوں اور اتحاد اسلامی کو نقصان پہنچایا۔ اس سب کے بعد بہت سے فرصت طلب اور کینہ توز افراد نے اس کتاب کو وسیع پیمانے پر منتشر کیا۔(۳)
اس کتاب میں مولوی عبد العزیزدہلوی نے کوئی نئی بات نہیں کہی ہے بلکہ اپنے سابقین مثلا ابن تیمیہ ، روز بہان، جوزی(۴)اور کابلی جیسے متعصب علمائے اہل سنت کی باتوںکو دہرایا ہے۔ 
 قابل توجہ ہے کہ یہ کتاب کوئی نیا کام نہیںہے اور مصنف نے شیعوں پر کوئی نیا اعتراض و اشکال بھی نہیں کیا بلکہ در حقیقت یہ کتاب کئی سال پہلے لکھی گئی کتاب کا ترجمہ اور سرقہ ہے۔ اس لئے کہ صاحب نجوم السماء (جلد۱، صفحہ ۳۵۲)اور صاحب عبقات الانوار (جلد حدیث غدیر) کے مطابق اس کتاب کی اصل و بنیاد خواجہ نصراللہ کابلی کی کتاب ’’صواقع موبقہ‘‘ ہے جسے عبد العزیز نے عربی سے فارسی میں ترجمہ کرکے (۵)اپنے نام سے چھپوا دیا ہے۔ مولوی عبد العزیز دہلوی نے کتاب تحفہ اثنا عشر یہ کو ناروا الزام و تہمت، جسارت و اہانت پر ختم کیا ہے۔ 
خدا گواہ ہے کہ جب انسان کتاب تحفہ اثنا عشریہ کو دیکھتا ہے تو اس نتیجہ پر پہنچنے میں اسے کوئی دیر نہیں لگتی کہ یہ کتاب میر حامد حسین کی انتہائی معلوماتی بحر بے کراں کتاب کے مقابلے کوئی اہمیت و وقعت نہیں رکھتی نیز اس کے مولف علمی حوالے سے کتنے کمزور ہے۔(۶)
مغرض اور کج فکر افراد نے تحفہ اثنا عشریہ کی بہت زیادہ ترویج کی اور سقیفائی چہرہ پیش کرنے کی پوری کوشش کی۔۱۲۲۷ ھ کو غلام محمد بن محی الدین اسلمی (مولوی اسلم مدراسی)(متوفیٰ ۱۲۷۲)کے ہاتھوںیہ کتاب عربی میں ترجمہ ہوئی (۷) اور نواب علی محمد جان کے بیٹے نے اس ترجمہ کو عرب بھیجا(۸ ) اس کے بعد متعدد مرتبہ خلاصہ اور ترجمہ کی صورت میں شائع ہوچکی ہے۔ایک اختصار مصر میں چھپا۔ سر سید احمد خان علیگڑھ نے تحفہ کے دسویں اور بارہویں باب کا اردو ترجمہ ’’تحفۂ حسن‘‘ کے نام سے کیا جسے ۱۲۶۰ھ میں شائع کیا۔(۹) 
 یہ کتاب شیعوں کے خلاف اہل سنت کے درمیان بدگمانی پیدا کرنے، مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے اور ان کے اجتماعی و سیاسی اعتبار سے روابط پر بہت زیادہ اثر انداز ہوئی۔ 
 کتاب تحفہ اثنا عشریہ کو بارہ ابواب میں مرتب کیا گیا جو مندرجہ ذیل ہیں: 
(۱) شیعہ مذہب کی ابتدا اور اس کے فرقے۔ (۲)شیعوں کے مکائد ۔ (۳) شیعہ علماء اور ان کی کتابیں۔ (۴)شیعہ روایات اور ان کے راوی۔ (۵)الہیات۔ (۶)نبوت۔ (۷)امامت۔  (۸)معاد۔ (۹)فقہی مسائل ۔ (۱۰)خلفائے ،ثلاثہ ام المومنین اور دیگر اصحاب کے مطاعن۔  (۱۱)شیعوں کے خصوصیات ، جو تین فصلوںپر مشتمل ہے: اوھام ، تعصبات ، ہفوات ۔ (۱۲)تولاو تبرا ،دس مقدمات پر مشتمل۔(۱۰)
تحفہ اثنا عشریہ کے جوابات:
امامت و رہبری، اسلام کا سیاسی فلسفہ بلکہ ترقی یافتہ سیاسی فلسفہ ہے۔ شیعہ علما و دانشور حضرات نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ اس فلسفہ یعنی اصل امامت کی حفاظت و پاسداری اور اس کو مضبوط کریں۔ ایسی اصل کہ بشریت کی سعادت و عظمت اس کی مرہون منت ہے۔ اسی وجہ سے جب عبد العزیز دہلوی کے ذریعہ انتہائی بے بنیاد اور نامناسب کتاب تحفہ اثنا عشریہ سامنے آئی جس میں امیر المومنین ؑکی امامت اور خلافت سے متعلق متواتر احادیث کا انکار کیا تو شیعہ علما نے اپنے وظیفہ کو انجام دینے اور امامت و رہبری کی حفاظت کے لئے اقدامات کئے اسی وجہ سے متعدد شیعہ علما نے تحفہ اثنا عشریہ کے جواب میںکتابیں لکھیں جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے: 
۱۔سیف اللہ المسلول علی مخربی دین الرسول ، میرزا محمد اخباری نیشاپوری عبد النبیؒ، (مقتول۱۲۳۲ ھ)پوری تحفہ کا مکمل جواب ۔(البتہ کشف الحجب والاستار کے بیان کے مطابق پہلے اور دوسرے باب کا جواب ہے)(۱۱)۔
۲۔الصوارم الالہیہ(فارسی)،علامہ سید دلدار علی غفرانمآب ابن سید محمد معین نقوی لکھنویؒ(م ۱۳۵۵ھ)،باب پنجم کی رد میں۔مطبوعہ کلکتہ
۳۔حسام الاسلام و سہام الملام(فارسی)، علامہ سید دلدار علی غفرانمآبؒ، تحفہ کے باب ششم کے جواب میں۔ مطبوعہ کلکتہ
۴۔ احیا السنۃ و امام البدعۃ (فارسی)، تحفہ کے باب ہشتم کے جواب میں۔ مطبوعہ لکھنؤ و لدھیانہ
۵۔  رسالہ غیبت، سید دلدار علی غفرانمآبؒ، باب ھفتم کے جواب میں۔ مطبوعہ کلکتہ(۱۲)
۶۔ ذو لفقار(فارسی)، غفرانمآبؒ،باب دوازدہم کی رد میں۔مطبوعہ لدھیانہ
۷۔النزھۃ الاثنی عشریہ ،شہید رابع حکیم میرزا محمد کامل بن احمد خان طبیب کشمیری دہلوی(م ۱۲۳۵ھ)(اکبر شاہ ثانی کے ایک رشتہ دار نے زہر دے کر شہید کیا)، تحفہ کی اشاعت کے دو سال کے اندر ہی اس کا مکمل جواب۔تحفہ کے تمام بارہ ابواب کے جواب میں بارہ جلدیں(ہر باب کے جواب میں ایک جلد،پہلی ، تیسری ، چوتھی ، پانچویں، اور نویں جلدیں لکھنؤ اور لدھیانہ میں شائع ہوئیں باقی جلدوں کا پتہ نہیں چلا ۔ علامہ سعید اختر صاحب کے مطابق اس کی تیسری جلد کا قلمی نسخہ انڈیا آفس لائبریری کے دہلی پرشین کلکشن میں ہے اب انڈیا آفس برٹش لائبریری میں ضم ہوگئی ہے۔اور نویں جلد کا خطی نسخہ رضا لائبریری رام پور میں موجود ہے)(۱۳)
۸۔سیف ناصری، مفتی سید محمد قلی نیشاپوریؒ (میر حامد حسین کے والد)، باب اول کی رد میں۔ اس کے دو قلمی نسخوں کا تذکرہ علامہ سعید اختر نے کیا ہے جس میں سے ایک ان کے ذاتی کتب خانہ ’ریاض معارف‘ میں ہے۔(۱۴)
۹۔تقلیب المکائد ،مفتی سید محمد قلیؒ،باب دوئم کی رد میں۔(مطبوعہ دہلی)
۱۰۔برھان السعادات، مفتی سید محمد قلیؒ ، تحفہ کے باب ہفتم کی رد میں ۔مخطوطہ رضا لائبریری
۱۱۔تشیید المطاعن، مفتی سید محمد قلیؒ،باب دہم کی رد میں ۔ (دو جلدوں میں، پہلی جلد ۱۹۱۰ صفحات اور دوسری جلد۴۴۲ صفحات پر مشتمل)مطبوعہ لدھیانہ ، کچھ عرصہ پہلے قم میں شائع ہوئی ہے۔
۱۲۔مصارع الافہام لقلع الاوھام، مفتی سید محمد قلیؒ،باب یازدہم کے جواب میں ۔
۱۳۔الوجیزۃ فی الاصول (فارسی)،سبحان علی خان ہندی(م ۱۲۶۰ھ)،(مصنف نے اصول سے متعلق بحث کو پیش کیا پھر امیر المؤمنینؑ کی امامت پر دلالت کرنے والی احادیث کو بیان کیا اس کے بعدصاحب تحفہ کے اعتراضات کو نقل کر کے ان کا جواب دیا ہے)۔
۱۴۔ امامۃ(عربی)، سلطان العلماء سید محمد ابن سید دلدار علی غفرانمآبؒ(م ۱۲۸۴ھ)، باب ھفتم کی رد میں۔
۱۵۔ بوارق موبقہ (فارسی)،سلطان العلماء سید محمد ؒ،باب ہفتم کی رد میں۔
۱۶۔ طرد المعاندین ، سلطان العلماء سید محمدؒ۔تحفہ کے باب ھفتم کے جواب میں(۱۵)
۱۷۔ بارقہ ضیغمیہ در موضوع متعہ،سلطان العلماء سید محمد ؒ،باب دھم کی رد میں۔(۱۶)
۱۸۔ طعن الرماح، سلطان العلماء سید محمدؒ، باب دھم کی رد۔ مطبوعہ لکھنؤ(۱۷)
۱۹۔ جواہر عبقریۃ در رد تحفہ اثنا عشریہ باب ہفتم، مفتی سید محمد عباس شوشتری (م ۱۳۰۶ھ)۔مطبوعہ لکھنؤ
۲۰۔ہدیۃ العزیز (فارسی)،خیر الدین محمد الہ آبادی (صاحب عبقات کے والد کے ہمعصر)،باب چہارم کی رد ۔ 
۲۱۔ برھان الصادقین، علامہ سید جعفر المعروف ابو علی خان موسوی، باب ھفتم کی رد میں۔
۲۲۔ بہجۃ البرھان، سید جعفرابو علی ، باب نہم کی رد میں۔ مخطوطہ ناصریہ لائبریری
۲۳۔ تکسیر الضمین (فارسی)،سید جعفرابو علی،باب دہم کی رد میں۔ 
۲۴۔ تصحیف المنحۃ الالھیۃ عن النفثۃ الشیطانیہ ، شیخ محمد بن حسین خالصی کاظمیؒ(م ۱۳۴۳ھ)۔
۲۵۔المنحۃ الالٰھیۃ، میرزا فتح اللہؒ المعروف شریعت (شیخ الشریعۃ)
۲۶۔ تحفۃ السنۃ (اردو)،مرزا محمد ہادی رسواؒ(م ۱۲۵۰ھ)،۱۵ جلدوںمیں۔( واعظین کے کتب خانہ میں موجود ہے)۔(۱۸)
۲۷۔ جوہر قرآن(اردو)، علامہ علی حیدر نقویؒ ،(میاں بیوی کے درمیان مناظرہ کی صورت میں لکھی گئی اس کتاب میں صاحب تحفہ کے بہت سے اعتراضات نقل کر کے اس کے  جوابات دئیے ہیں)۔
۲۸۔عبقات الانوار ، علامہ میر حامد حسینؒ ۔ 
میر حامد حسینؒ  کی شخصیت اور کتاب عبقات :
علامہ سید میر حامد حسین موسوی ہندی نیشا پوری ، تیرہویں صدی کے ایک عظیم متکلم اور جید عالم تھے۔ شاہ سلطان حسین صفوی کے زمانے میں نیشا پور کے سید محمد نامی ایک عالم دین ہندوستان آئے اور دہلی میں قیام پذیر ہوئے ان کے بیٹے حکومتی عہدوں پر فائز ہوئے اور آہستہ آہستہ اہمیت کے حامل ہوگئے۔ سید محمد کے اخلاف میںبرہان الملک اودھ میں اہم عہدے پر فائز ہوئے۔ نیشا پور ی بادشاہوںکے زمانے میں نیشا پور، مشہد مقدس، اور خراسان کے شہروںسے بہت سے افراد ہندوستان آئے ، نقوی سادات جو نیشا پوری تھے، شیعہ حکومت اودھ کے بادشاہوں کے زمانے میں ہندوستان آئے ۔ صاحب عبقات الانوار میر حامد حسین نیشا پوری مرحوم اس خاندان کی حمایت کے زیر نظر فعالیت کررہے تھے۔(۱۹)
وہ ۵؍ محرم ۱۲۴۶ھ کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ نام سید مہدی اور کینت ابوظفر تھی۔ سید حامد حسین کے نام سے مشہور ہوئے۔ میر حامد حسین نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی ۔ ۱۵ ہی سال کے سن میں اپنے والد کے سایے سے محروم ہوگئے۔ اس کے بعد مفتی سید محمد عباس کی خدمت میں ادبیات اور نہج البلاغہ، مولانا سید برکت علی صاحب سے مقامات حریری اور سید مرتضی ابن سلطان العلما اور سید محمد بن دلدار علی صاحب سے حکمت و فلسفہ کی تعلیم حاصل کی۔ 
 مرحوم میر حامد حسین محنتی اور سخت کوش عالم تھے۔ وہ علمائے گزشتہ کے آراء و نظریات اور اخبار و روایات پر اچھی نظر رکھتے تھے۔ اور اس سلسلے میںان کو شہرت بھی حاصل تھی۔ انہوںنے عقلی و نقلی علوم حاصل کرنے کے بعد اپنی پوری عمر دینی عقائد کے اسرار و رموز میں بحث و جستجو اور حقیقت سے آشنائی اور اس کے احیا میں گزاری اور اس سلسلے میںبیش قیمت آثار چھوڑے جنہیں صاحب اعیان الشیعہ نے ج۱۸ صفحہ ۳۷۳ پر ذکر کیا ہے۔ 
 میر حامد حسین ۱۸؍ صفر ۱۳۰۶ھ کو اس دنیاسے رخصت ہوئے اور امام باڑہ غفرانمآب  میں دفن ہوئے۔ ان کے انتقال نے دنیائے اسلام و تشیع بالخصوص ہندوستان کے لوگوںکو غمزدہ کیا۔ ادبا و شعرا نے ان کی رحلت پر تعزیتی نظمیں اور مراثی کہے۔ 
میر حامد حسین کے والدمفتی سید محمد قلی موسویؒ (م۱۲۶۰ھ)کے تین بیٹے تھے: سید سراج حسین(م۱۲۸۲ ھ)، سید اعجاز حسین (م۱۲۸۶ ھ)اور سید حامد حسین(م۱۳۰۶ھ) اور سید حامد حسین کے دو بیٹے تھے سید ناصر حسین (م۱۳۶۱ ھ)اور سید ذاکر حسین۔ 
علامہ سید محمد قلی موسوی کے تمام بیٹے علم دین سے مالا مال اور صاحبان عزت و فضیلت تھے اور سب نے علمی آثار چھوڑے اس علمی خانوادے نے علم و تقوی کا چراغ روشن رکھا اور دین و شریعت کی حفاظت و پاسداری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 
 علامہ امینیؒ نے میر حامد حسینؒ کے بارے میںلکھا ہے:
 یہ سید پاک و بزرگوار اپنے مقدس آبا  و اجداد کی طرح دشمنان حق و حقیقت کے سروںپر خدا کی برہنہ شمشیر ہیں۔ نیز خداوندعالم کی نشانیوں میں سے ایک آیت و نشانی ہیں خدا نے ان کے ذریعہ حجت کو تمام کیا حق کے راستے کو آشکار کیا۔(۲۰)
عبقا ت الانوار
جب بھی علمائے شیعہ کی طرف سے تحفہ اثنا عشریہ کے جواب میںکوئی کتاب لکھی جاتی تو مولوی عبد العزیز کے ہمفکر علما اور ان کے شاگرد اس کا جواب دینے کی کوشش کرتے لیکن میر حامد حسین کی عبقات الانوار ہر اعتبار سے اتنی مضبوط و مستحکم اور مستدل تھی کہ کسی میںجواب کی ہمت نہ ہوئی۔ اب تک میں نے نہیںسنا کہ کوئی کتاب عبقات الانوار کے جواب میں لکھی گئی ہو۔(۲۱)
اس سلسلے میں اس خاندان کے چشم و چراغ روح الملت بیان کرتے ہیں:
جب عبقات الانوار منظر عام پر آئی تو بھوپال کے نواب نے چونکہ وہ بھی پڑھے لکھے آدمی تھے اور اپنے مسلک و عقیدے کے اعتبار سے بہت ہی مذہبی تھے۔ انہوں نے اس کتاب کو پڑھا اور ہندوستان کے پچہتر چنندہ برگزیدہ اور اپنے دور کے نامی گرامی علماء کو جمع کیااور ان کو بھوپال میں اپنے محل اپنا مہمان بنایا اور یہ بات کہی کہ اس کتاب کا جواب آپ لوگوں کو لکھنا ہے ان علماء نے اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا۔ ان میں مفسرین بھی تھے، علم حدیث کے ماہرین بھی تھے، علم رجال کے ماہرین بھی تھے، روایات کے ماہرین بھی تھے، تاریخ کے ماہرین بھی تھے، ادیب بھی تھے ،فلسفی بھی تھے۔ سب جمع ہوئے اور تقریباً بارہ دن کے بعد انھوں نے نواب بھوپال سے ملاقات کی خواہش کی اور نواب بھوپال کے دربار خاص میں ان کو پیش کیا گیا تو انہوں نے نواب صاحب سے یہ کہا کہ ہم نے اس کتاب عبقات الانوار کا مطالعہ کرلیا ہے اور ہمارے سامنے اس کے جواب کا صرف ایک راستہ ہے وہ یہ کہ آپ اپنی دولت اپنا اثر ور سوخ استعمال کیجئے اور دنیا بھر میں جہاں جہاں اہل سنت کی کتابیںہیں سب کتابوں کو جمع کرکے سمندر میں ڈال دیجئے دریا برد کردیجئے اس کے بعد ہم یہ لکھ دیں گے کہ عبقات الانوار میں جو کچھ لکھا ہے وہ سب جھوٹ اور غلط ہے کیوں کہ پوری کتاب ہمارے ہی مسلک کی کتابوں اور ہمارے ہی علماء کے حوالوں سے لکھی گئی ہے!!۔(۲۲) 
میر حامد حسین بات کو محکم و مستدل لکھنے کے ساتھ مکمل طور پر اسلامی آداب کا بھی پاس لحاظ رکھتے تھے۔ انہوں نے دلیل و برہان و منطق، حلم و بردباری اور انصاف کے ساتھ تحفہ اثنا عشریہ کا جواب دیا۔اور نام انتخاب کیا ’’عبقات الانوار‘‘۔’’عبقات‘‘، خوشبو کو کہتے ہیں اور ’’نَور‘‘کلی کو۔یعنی کلیوں کی خوشبو،غنچوں کی مہک۔ 
 صاحب تحفہ کا کہنا تھا کہ ائمہ کی امامت کے اوپر شیعوں کی دلیل چھ آیتوں اور بارہ حدیثوں میں منحصر ہے۔
 میر حامد حسین کہتے ہیں :اس سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ امیرالمؤمنین ؑ کی خلافت اور ولایت مطلقہ پر دلالت کرنے والی پیغمبر اکرمؐ کی حدیثوں کو دہلوی نے بارہ حدیثوں میں منحصر کیا ہے جبکہ یہ بات صاف حقیقت کا انکار ہے، میں نہیں جانتا یہ حصر عقلی ہے یا استقرائی!؟
نہ یہ حصر عقلی ہوسکتی ہے (حصر عقلی یہ کہ عقل کہے کہ پیغمبرؐ نے اس موضوع پر صرف بارہ حدیثیں بیان فرمائی ہیں)اس لیے کہ اس طرح کے مسائل میں عقل کا کوئی دخل نہیں ہے کہ وہ آکر تعداد کو معین و منحصر کرے،اور نہ حصر استقرائی ہوسکتی ہے اس لئے کہ حقیقت ان کے گمان اور نظریے کے برخلاف ہے اس لئے کہ اس موضوع پر بے شمار حدیثیں کثرت سے بیان ہوئی ہیںجو ہر انصاف پسند اور عالم و آشنا شخص سے پوشیدہ نہیں ہیں(۲۳)۔
میر حامد حسین نے عبد العزیز کی پیش کردہ آیات و احادیث جس کی سند و دلالت کو صاحب اثنا عشریہ نے ضعیف جانا تھا، کو سامنے رکھ کر جواب دیا اسی وجہ سے اپنی کتاب عبقات الانوار کو دو حصوں (منہج) میںپیش کیا ہے: 
پہلا حصہ: انہوںنے پہلے حصہ میںقرآن کی چند آیتوں کی تحقیق و جستجو اور امامت پر ان کی دلالت کو پیش کیا اور سنی تفسیروں سے یہ ثابت کیا کہ قرآن کریم کی یہ آیتیں حضرت علیؑ کی ولایت و امامت پر دلالت کررہی ہیں ۔
یہ حصہ کئی جلدوں پر مشتمل ہے، مع الاسف یہ حصہ اب تک شائع نہیں ہوا ہے لیکن لکھنؤ میں مؤلف کتاب کے کتبخانہ(ناصریہ لائبریری ) اور مولوی سید رجب علی خان سبحان الزمان کے کتب خانہ واقع جکراواں(؟) میں موجود ہے۔(۲۴)
علامہ سید علی حسینی میلانی نے ’’نفہات الازہار‘‘ کے نام سے عبقات الانوار کے خلاصہ کی بیسویں جلد میں علامہ میر حامد حسین کے طریقہ اور روش پر قرآن کریم کی چھ آیتوں کی دلالت کو ثابت کیا ہے جو بہت ہی مبارک کام ہے۔ 
 پہلے حصہ کی آیتیں اس طرح ہیں : (۱)انما ولیکم اللہ و رسولہ و الذین آمنوا الذین یقیموں الصلوۃ و یؤتون الزکوۃوھم راکعون(۲۵)۔ (۲) انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا(۲۶)۔ (۳) قل لا اسئلکم علیہ اجرا الاالمودۃ فی القربیٰ(۲۷)۔ (۴)فمن حاجک فیہ من بعد ما جائک من العلم فقل تعالوا ندع ابناء نا و ابناء کم و نساء نا و نساء کم و انفسنا و انفسکم ثم نبتھل فنجعل لعنۃ اللہ علی الکاذبین(۲۸)۔ (۵) انما انت منذر و لکل قوم ھاد(۲۹)۔ (۶)والسابقون السابقون اولئک المقربون(۳۰)۔
دوسرا حصہ : علامہ میر حامد حسین نے دوسرے حصہ کو ائمہؑ کی امامت کے سلسلے میں  بارہ حدیثوں کی تحقیق و جستجو اور اہل سنت کی جانب سے کئے گئے اعتراضات جنہیں عبد العزیز دہلوی نے تحفہ اثناعشریہ میں پیش کیا ہے۔ اور ان کے جوابات سے مخصوص کیا (یہ حصہ تیس جلدوں پر مشتمل ہے)جس کی کچھ جلدیں شائع ہوئیں اور کچھ کو ان کے بیٹوں اور پوتوں نے مکمل کرکے شائع کروایا اور بعض جلدوںکے سلسلے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ 
علامہ میر حامد حسین کے ذریعہ جو جلدیں لکھی گئیں وہ اس طرح ہیں:
۱۔حدیث غدیر (یا معشر المسلمین! الست اولی بکم من انفسکم ؟ قالو: بلی، قال : من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ  )کی سند و دلالت کے اعتبار سے تحقیق و جستجو۔ 
۲۔حدیث تشبیہ (من اراد ان ینظر الی آدم فی علمہ و الی نوح فی تقواہ و الی ابراھیم فی حلمہ و الی موسی فی بطشہ و الی عیسی فی عبادتہ فلینظر الی علی بن ابی طالب)کی تحقیق و جستجو سند و دلالت کے اعتبار سے۔
۳۔حدیث منزلت (اما ترضیٰ ان تکون منی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ الا انہ لا نبیّ بعدی)کی تحقیق و جستجو سند و دلالت کے اعتبار سے۔
۴۔حدیث نور (کنت انا و علی بن ابی طالب نورا بین یدی اللہ عز وجلّ قبل ان یخلق آدم باربعۃ آلاف عام، فلمّا خلق آدم قسم ذلک النور جزئین، فجزء انا و جزء علیّ)کی تحقیق و جستجو سند و دلالت کے اعتبار سے۔
۵۔حدیث ولایت(علی منی و انا من علی و ھو ولیکم من بعدی)کی تحقیق و جستجو سند و دلالت کے اعتبار سے۔
پھر اجل نے موقع نہیں دیا کہ بقیہ حدیثوں کو پورا کرتے لیکن ان کے بعد ان کے لائق و فائق بیٹے ناصر الملت علامہ سید نا صر حسین جو اپنے والد کی طرح آسمان فضیلت کے درخشاں ستارے تھے۔ انہوں نے اپنے والد کے ہی اسلوب و طریقہ پر چار حدیثوں کا اضافہ کیا جو اس طرح ہیں:
۶۔ حدیث طیر(اللھم ائتنی باحبّ خلقک الیک و الیّ یاکل معی،فجاء علیّ) کی سند و دلایت کے اعتبار سے تحقیق و جستجو۔
۷۔حدیث باب(انا مدینۃ العلم و علی بابھا) کی سند و دلایت کے اعتبار سے تحقیق و جستجو۔
۸۔حدیث ثقلین(انی تارک فیکم الثقلین ما ان تمسکتم بھما لن تضلوا بعدی احدھما اعظم من الآخر، کتاب اللہ و عترتی) کی سند و دلایت کے اعتبار سے تحقیق و جستجو۔
۹۔حدیث سفینہ(الا انّ مثل اھل بیتی فیکم مثل سفینۃ نوح من رکبھا نجا و من تخلف عنھا ھلک) کی سند و دلایت کے اعتبار سے تحقیق و جستجو۔
یہ جلدیںبھی شائع ہوئیں۔ ناصر الملت کے بعد ان کے بیٹے سعید الملت علامہ سید محمد سعید جو اپنے زمانے کے زبردست عالم تھے انہوں نے دو حدیثوں کا اضافہ کیا۔ 
۱۱۔حدیث مناصبہ ( من ناصب علیا الخلافۃ فھو کافر)(عربی زبان میں)کی سند و دلایت کے اعتبار سے تحقیق و جستجو۔
۱۲۔حدیث خیبر ( لاعطینّ الرایۃ غدا رجلا یحب اللہ و رسولہ و یحبہ اللہ و رسولہ یفتح اللہ علی یدیہ)(عربی زبان میں)کی سند و دلایت کے اعتبار سے تحقیق و جستجو۔
متاسفانہ اب تک یہ دو حدیثیں شائع نہیںہوئی ہیں۔ ان دونوں شخصیتوں نے چھ حدیثوں کو بھی سید میر حامد حسین مرحوم کے نام سے قرار دیا تاکہ ان عظیم مجاہد کی تعظیم و توقیر میں اضافہ ہو۔ اور میر سید ناصر حسین اور ان کے بیٹے نے وہی راستہ طے کیا جسے عبقات کے بانی نے کھولا تھا۔ 
 اب تک عبقات الانوار کی ۱۶ جلدیں شائع ہوئی ہیں جو نو حدیثوں کے سلسلے میں ہیں دو حدیثوں: حدیث مناصبہ اور حدیث خیبر(پہلا حصہ)لکھی گئیں لیکن اب تک شائع نہیں ہوئی ہیں(۳۱)۔ اور مع الاسف ان بارہ حدیثوں میں سے دو حدیثیں حدیث حق(رحم اللہ علیا اللھم ادر الحق معہ حیث دار) اور حدیث خیبر (دوسرا حصہ)لکھی نہیںگئی ہیں۔(۳۲)
علمائے دین اور اسلامی مفکرین نے عبقات الانوار کو علامہ میر حامد حسین کا کارنامہ قرار دیا ہے جن میں سے بعض کے آراء و نظریا ت یہ ہیں:
 علامہ امینیؒ:ان کی کتاب عبقات کی خوشبو دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلی ۔ اس کتاب کی شہرت نے پوری دنیا کا احاطہ کرلیا۔ جس نے بھی اس کتاب کو دیکھا روشن اور روشن گر معجزہ پایا جس میں کسی بھی طرح کے غلط اور باطل کار گزر نہیںہے۔ میں نے اس کتاب میں جمع کئے گئے مطالب اور وسیع علم سے بہت زیادہ استفادہ کیا لہذا مرحوم اور ان کے والد علام کی خدمت میں بہت زیادہ تشکر و سپاس پیش کرتا ہوںاور خداوند عالم سے ان کے لئے عظیم اور بہت زیادہ اجر کا طلب گار ہوں۔(۳۳) 
امام خمینیؒ:جو بھی حدیث غدیر کے سلسلے میںجاننا چاہتا ہے وہ سید بزرگوار میر حامد حسین ہندی کی کتاب عبقات الانوار کو پڑھے ۔ انہوں نے چار ضخیم جلدیں حدیث غدیر کے سلسلے میںتحریر کی ہیں۔ اور ایسی کتاب آج تک لکھی نہیںگئی ۔ امامت کے سلسلے میںعبقات الانوار جیسا کہ سنا گیا ہے۔ تیس جلدوں پر مشتمل ہے۔ میںنے سات آٹھ جلدیں دیکھی ہیں اور ایران میں شاید غالبا۱۵ جلدیں دستیاب ہیں۔ اہل سنت اس کتاب کی جمع آوری اور اس کو ضائع کرنے کی فکر میں ہیں اور ہماری شیعہ قوم سورہی ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس وقت بیدار ہوں جب اس طرح کا قیمتی خزانہ اور بیش قیمت گوہر ہمارے ہاتھوں سے نکل چکا ہو۔ 
تقریبا دو سال پہلے (۱۳۶۳ھ میں)شیعہ قوم کے سامنے اس کتاب کی دوبارہ اشاعت کیلئے تجویز رکھی گئی لیکن اس پر توجہ نہیںہوئی اگر چہ اس وقت جلد غدیر تحت طبع ہے۔ (جو بعد میں دس جلدوںمیں شائع ہوئی)لیکن علمائے شیعہ پر خصوصی طور سے اور دوسرے تمام افراد پر لازم ہے کہ اس عظیم کتاب کو جو ہمارے مذب کی سب سے بڑی حجت ہے ضائع ہونے سے بچائیں اور اس کی نشر و اشاعت کریں۔(۳۴)
 محمد رضا حکیمی:بیشک کتاب عبقات عظیم ہے، بیکراںسمندر ہے۔ تاریخ بشریت میں اس کی نظیر نہیں۔ علماء و مفکرین نے اب تک اس کے سلسلے میں جو کچھ کہا یا آئندہ کہیں گے سب کتاب کا حق ہے۔(۳۵) 
عبقات الانوار کی تالیف کا مقصد
علامہ میر حامد حسین نے عبقات الانوار کو مذہب شیعہ اور اسلام کے سیاسی فلسفہ کے دفاع میں لکھا ان کا مقصد حق کی رہنمائی ، بیدار سازی اور حق شناسی تھی۔ جس کتاب سے اس علاقہ میں تشیع کو فروغ ملا اور بہت سے افراد مذب شیعہ کے پیرو بن گئے، دنیائے اسلام میںاس کی برکتیں نازل ہوئیں۔ 
علامہ میر حامد حسین نے اس کتا ب میں اس بات کی پوری کوشش کی کہ عبقات الانوار فلسفہ امامت کو روشن وآشکار کرے اور اسلام حقیقی کو پہچنوائے ۔ ایسا اسلام جو عزت و معرفت اور شریعت کی ترقی و سعادت چاہتا ہے۔ جس کے رہبر و رہنما معصوم امام و نبی ہیں انسان اپنے مقام و مرتبہ کو مد نظر رکھتے ہوئے معصوم رہبروں کی پیرو ی کرے تاکہ انسانی عزت و وقار اور شان و منزلت کو معصوم اماموں کی رہبری کے زیر سایہ محفوظ رکھ سکے۔ 
تحقیق کا انداز و طریقہ
میر حامد حسین مرحوم کا اس کتاب میں طریقہ یہ ہے کہ ابتدا صاحب تحفہ اثناعشریہ کے قول کو ان کی دلیلوںکے ساتھ بیان کرتے ہیں پھر اس کا جواب دیتے ہیں۔ اور اس جواب دینے میں پہلے مورد بحث حدیثوں کی سند کی تحقیق کرتے، اس کے بعد اہل سنت کی معتبر کتابوں اور ان کے اقوال و نظریات کی روشنی میں ان کی احادیث کے متواتر اور قطعی الصدور ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔ پھر ان احادیث کے راویوں کو دوسری صدی سے تیرہویں صدی تک صدی اور تاریخ وفات کی بنیا د پر بیان کرتے ہیں۔ 
پھر حدیث کو بیان کرتے ہوئے راوی کا تعارف پیش کرتے، چاہے وہ صحابی ہو یا تابعی چاہے عالم ہو یا مولف پھر اس کے بارے میں علم رجال کے ماہرین کے اقوال و نظریات کو بیان کرتے اور حتی کہ بعض کتابوں مثلا مسند احمد ، الامامۃ و السیاسۃابن قتیبہ کا بھی تعارف پیش کرتے ۔ پھر شیعہ نظریہ کے مطابق حدیث کی دلالت کو پیش کرتے آخر میں تمام شبہات و اعتراضاات کے ایک ایک کرے مستدل جواب دیتے ۔ 
علامہ میر حامد حسین کوئی مطلب یا حدیث نقل کرنے کے بعد اس کا دقیق حوالہ ، حتی باب، فصل اور صفحہ نمبر و غیرہ بھی بیان کرتے ۔ میر حامد حسین کی اپنی کتاب میںیہ روش تھی اور اسی روش کو ان کے بیٹے اور پوتے نے عبقات الانوار کی تکمیل میں اختیار کیا۔ عبد العزیز کا ماننا تھا کہ حضرت علی کی امامت کے ثبوت میں صرف بارہ حدیثیں ہی پائی جاتی ہیں جن کو علمائے شیعہ پیش کرتے ہیں۔ 
 عبد العزیز دہلوی باب ہفتم میںجو خلافت و امامت سے متعلق جلد ہے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ شیعہ علما کے پاس حضرت علی ؑکی بلافصل خلافت پر صرف بارہ یا تیرہ حدیثیں ہیںجسے وہ پیش کرتے ہیں۔ جن کو ایک ایک کرکے بیان کیا پھرلکھتے ہیں:
ایک یا دو حدیث کو چھوڑ کر بقیہ تمام حدیثیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں اور قابل اعتبار نہیں ہیں اور شیعوں کے مدعی پر دلالت کرنے سے قاصر ہیں۔(۳۶)
اسی طرح بعض قرآنی آیات جسے شیعہ اپنے مطلب کو ثابت کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں نقل کرتے ہوئے مطلب پر دلالت کرنے سے ناکافی گردانا ہے۔ 
 گرچہ حضرت علی ؑکی امامت کے اثبات پر حدیثیں بہت زیادہ ہیں لیکن چونکہ صاحب تحفہ نے  حدیثوں کو بیان کرتے ہوئے اعتراض کیا لہذا علامہ میر حامد حسین نے بھی عبقات الانوار میں بارہ حدیثوں کی بحث و تحقیق کی اور اسی کو ثابت کیا اگر چہ ان میں سے ہر روایت تنہا ہی حضرت علی ؑکی امامت کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ 
 میر حامد حسین کی تحقیق کی روش در حقیقت مختلف علوم مثلا علم تفسیر، کلام ، حدیث درایہ ، رجال ، تاریخ ادبیات سے بحث ہے اسی وجہ سے عبقات الانوار کی بحثیں مکمل اور جامع ہیں اور ہر مفسر ، متکلم ، مورخ ادیب و عالم کے لئے قابل استفادہ ہیں۔ 
 شیخ آقا بزرگ تہرانی نے علامہ میر حامد حسین کے سلسلے میں ایک قابل توجہ اخلاقی پہلو پیش کیا ہے: قابل تعجب بات تو یہ ہے کہ میر حامد حسین نے ایسی عمدہ اور عظیم کتابیں لکھیں جبکہ وہ صرف اسلامی کاغذوں اور روشنائی کا استعمال کرتے تھے۔ (یعنی وہی کاغذ اور روشنائی استعمال کرتے تھے جو اسلامی سر زمینوں پر مسلمانوں کے ہاتھوں سے بنائی جاتی تھیں)۔ اور یہ بات ان کے بہت زیادہ تقوی و پرہیزگاری کی وجہ سے تھی اور غیر مسلموں کے ہاتھوں بنائی چیزوں کا استعمال نہ کرنے میںوہ مشہور تھے۔(۳۷)
کتاب کی زبان
چونکہ تحفہ اثنا عشریہ فارسی زبان میںلکھی گئی تھی اس وجہ سے میر حامد حسین صاحب نے بھی اس کے جواب میں فارسی زبان ہی میںعبقات الانوار لکھی۔ اس کتاب کی فارسی دلنشیں، دلچسپ اور جالب نظرہے۔ 
میر حامد حسین کے تحقیقی منابع
علامہ میر حامد حسین نے اس کتاب میں اپنے والد مرحوم سید محمد قلی موسوی کے کتاب خانہ سے استفادہ کیا اور کچھ ان کتابوں کو سامنے رکھا جنہیں مختلف سفر کے دوران خریدا تھا۔ نیز وہ کتابیں بھی مورد استفادہ قرار پائیں جنہیں ان کے مطالبہ پر دوسرے شہروں سے بھیجا گیا تھا۔ اسی طرح کچھ اور کتب خانوں سے بھی بہرہ مند ہوئے جن میں سے مدینہ منورہ میںحرم نبوی کا کتب خانہ ، مکہ مکرمہ کا کتب خانہ اور عراق کے مشہور کتب خانے ہیں۔ انہوں نے ان کتابوں کو مہیاکرنے میں بہت زیادہ زحمتیں برداشت کیں تاکہ ائمہ معصومین ؑکی امامت و لایت کو اہل سنت کی معتبر کتابوں سے ثابت کریں۔ (۳۸)
علامہ میر حامد حسین نے مختلف موضوعات پر اہل سنت کی جن کتابوں سے استفادہ کیا ان میں سے بعض یہ ہیں: 
 حدیث : صحاح ستہ اور ان کی شرحیں، سنن سے متعلق کتابیں، کنز العمال ، الموطا اور اس کی شرحیں مشکات اور ا سکی شرحیں۔ 
 تفسیر قرآن: تفسیر ابن کثیر، جلالین، کشاف زمخشری، در المنثور سیوطی، طبری، روح المعانی ، ۔
 سیرت : سیرت ابن ہشام ، سیر النبویہ حلان ، سبل الھدی و الرشاد فی خیر العباد۔ 
 فقہ: المبسوط شمس الدین سرخسی، نیل الاوطار شوکانی، احکام الاحکام فی شرح عمدۃ الاحکام حلبی، بدایع الصنائع کا شانی۔ 
 اصول فقہ : المختصر لابی الحاجب اور اس کی شرحیں۔ الاصول سرخی، المنار اور اس کی شرحیں، مسلم الثبوت اور اس کی شرحیں، ۔ نہایۃ العقول فخر رازی۔ 
رجال الحدیث: تہذیب الکمال امزی، تہذیب التھذیب ذہبی، الکمال فی اسماء الرجال، الثقات ابن حیان۔
کلام: شرح المقاصد تفتازانی، شرح المواقف جرجانی ، شرح التجرید قوشجی۔ 
تاریخ: تاریخ طبری ، تاریخ ابن اثیر، تاریخ ابن خلدون، تاریخ یعقوبی ، مروج الذہب مسعودی۔
عبقات الانوار سے متعلق کتابیں
(۱)۔تتمیم عبقات، ناصر الملت سید ناصر حسین ابن میر حامد حسین
(۲)۔ تذییل عبقات، سید ذاکر حسین ابن میر حامد حسین
(۳)۔ تعریب،جلد اول حدیث مدینۃ العلم، سید محسن نواب
(۴)۔ تلخیص ،جلد دوم، پنجم، ششم اور جلد اول کا کچھ حصہ بنام الثمرات، سید محسن نواب
(۵)۔ تکمیل، جلد ہفتم عبقات الانوار، سعید الملت مولانا سید محمد سعید ابن سید ناصر حسین
(۶)۔ فیض القدیر فی ما یتعلق بحدیث الغدیر(حدیث غدیر سے متعلق عبقات کا خلاصہ، محدث شیخ عباس قمیؒ۔
عبقات الانوار کی حدیث غدیر سے متعلق جلدیں بہت مفصل اور طولانی ہیں جس کی وجہ سے بہت کم مورد استفادہ قرار پاتی ہیں اسی وجہ سے مرحوم شیخ عباس قمی نے بہت اچھے انداز میں اس کا خلاصہ کیا اور فیض القدیر فیما یتعلق بحدیث الغدیر نام رکھا۔ انہوں نے اس تلخیص میں مکمل طور پر علامہ میر حامد حسین کی روش کو مد نظر رکھا اور اس کی رعایت کی محدث قمی اس سلسلہ میں اپنے زندگی نامہ میں لکھتے ہیں:
 کتاب فیض القدیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سید محدث، عالم متکلم، محقق و مدقق، مؤیّد و مسدّد، محی السنۃ و سیف الامۃ ، فخر الشیعۃ و حامی الشریعت، سیدناا لاجل مولانا حامد حسین ہندی کی کتاب عبقات الانوار کی حدیث غدیر سے متعلق دو جلدوں کا خلاصہ ہے۔ (۳۹)
محدث قمی نے یہ کتاب ۱۳۲۱ھ؁ میں نجف اشرف میں لکھی جو خطی نسخہ کی صورت میں ان کے بیٹے کے پاس تھی ۱۳۶۴ھ؁ شمسی میں آیت اللہ استادی کی کوششوں سے حجۃ الاسلام رضا مختاری اور حجۃ الاسلام سید علی میر شریفی کے ذریعہ تحقیق و تصحیح ہوئی۔ ۱۴۰۶ھ؁ میں پہلی مرتبہ ’مؤسسہ در راہ حق‘قم سے شائع ہوئی۔ دوبارہ مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم سے ۴۶۲ صفحات میں چھپی۔ محدث قمیؒ نے اس کتاب کے خلاصہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا: پہلے حصہ میں حدیث غدیر کا متواتر ہونا ، فخر رازی اور ان کے مقلدین کے اعتراضات کے جواب اور علمائے اہل سنت میں اس کے نقل کرنے والوں اور بیان کرنے والوں کو پیش کیا انہوں نے اس فصل کو تین ابواب میں اس طرح مرتب کیا۔
(۷)خلاصۂ عبقات الانوار
یہ کتاب عربی زبان میں ہے جسے علامہ سید علی حسینی میلانی نے ۱۳۸۵ھ؁ میں کربلا میں شروع کیا۔ 
 علامہ علی حسینی میلانی نے ۱۴۱۴ھ؁ میں خلاصہ عبقات الانوار کی باز بینی اور تجدید چاپ کا کام نفحات الازہار کے نام سے بیس جلدوں میں خوبصورت انداز میں ہر جلد کے آخر میں مکمل فہرست کے ساتھ انجام دیا۔ جلدوں کی تفصیل اس طرح ہے:
(۱) پہلی دوسری تیسری جلد:حدیث ثقلین۔ (۲) چوتھی جلد: حدیث سفینہ۔ (۳) پانچویں جلد : حدیث نور۔ (۴)چھٹی ساتویں آٹھویں اور نویں جلد:حدیث غدیر۔ (۵)دسویں گیارہویں بارہویں جلد: حدیث مدینۃ العلم۔ (۶) تیرہویں چودھویںجلد: حدیث طیر۔ (۷)پندرھویں سولھویں جلد: حدیث ولایت۔ (۸)سترھویں اٹھارویں جلد:حدیث منزلت۔ (۹)انیسویں جلد:حدیث تشبیہ۔ 
یہ انیس جلدیں پہلے حصہ(منہج) سے متعلق ہیں۔
علامہ سید علی حسینی میلانی کا کارنامہ
چونکہ عبقات کا پہلا حصہ آیات سے مخصوص تھا جو دسترس میں نہیں ہے اس لئے علامہ میلانی نے قابل تعریف کارنامہ انجام دیتے ہوئے پہلے حصہ کو تالیف کیا اور ’’نفحات الازھار‘‘ کی بیسویں جلد کو اس حصہ سے مخصوص کیا۔ انھوں نے اس حصہ کو علامہ میر حامد حسین کی ہی نہج پر لکھا ہے۔
انھوں نے عبد العزیز دہلوی کی پیش کردہ آیتوں کو بیان کرتے ہوئے ائمہ ؑکی امامت پر ان کی دلالت کو ثابت کیا۔ 
یہ کتاب ۱۴۲۰ھ میں قم میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی۔
۸۔ عبقات الانوار در اثبات امامت ائمہ اطہارؑ
یہ مجموعہ چھ جلدوں پر مشتمل ہے جو اصفہان کے چند علماء کا کارنامہ ہے اور موسسہ نشر نفائس مخطوطات اصفہان کے توسط سے ۱۳۸۲ھ میں شائع ہوا۔
خطوط
اسلامی ممالک میں عبقات الانوار کے منظر عام پر آتے ہی علمائے دین نے میر حامد حسین کے اس عظیم کارنامہ کو خوب سراہا اور ان کے نام خطوط کے ذریعہ اس کام کی ستائش کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔
ان میں سے بعض خطوط ’’سواطع الانوارفی تقریظات عبقات الانوار‘‘ کے نام سے سید مظفر حسین صاحب کے ذریعہ ۵۶ صفحات میں لکھنؤ میں ۱۳۰۴ھ میں شائع ہوئے۔ دوبارہ ۱۳۲۳ھ میں مولانا مظفر حسین صاحب کے ذریعہ اضافہ کے ساتھ ۱۲۴ صفحات میں شائع ہوئے۔
ایران میں استاد حاج سید مصطفیٰ مھدوی اصفہانی کی کوششوں سے عبقات الانوار کا کچھ حصہ شائع ہوا جو اس طرح ہے:حدیث طیر(ایک جلد میں)۔ حدیث مدینۃ العلم(دو جلدوں میں)۔ حدیث ولایت(ایک جلد)۔ حدیث تشبیہ(ایک جلد)۔ حدیث نور(ایک جلد میں)۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ’’عبقات الانوار‘‘ کو فارسی سے اردو میں منتقل کرنے کا بیڑا حجۃ الاسلام مولانا سید شجاعت حسین صاحب گوپالپوری نے اٹھایا ہے۔نور الانوار کے نام سے ابتک حدیث نور (ایک جلد) اور حدیث ثقلین(دو جلد) شائع ہوچکی ہیں۔امید ہے عنقریب تمام جلدیں منظر عام پر آجائیں گی۔
حواشی:
(۱)خلاصہ عبقات الانوار،علامہ سید علی میلانی،ج۱ ،ص۱۵۸۔ (۲)عبقات الانوار،طبع اصفہان،ص۱۱۹۸۔
(۳)میر حامد حسینؒ، محمد رضا حکیمی،ص۱۸۸۔ (۴)خلاصہ عبقات،ص۱۱۱۔
(۵)عبقات الانوار،حدیث ثقلین، طبع اصفہان،ج۶،ص۱۱۹۸؛جوہر قرآن، علامہ علی حیدر نقویؒ؛نور الانوار(حدیث نور)۔
(۸)نور الانوار(حدیث نور)،ترجمہ مولانا شجاعت حسین رضوی،ص۱۶۔ (۹)نور الانوار،ص۱۶۔
(۱۰)عبقات الانوار،ص۱۲۰۰۔ (۱۱)نور الانوار،ص۱۷۔
(۱۲)نور الانوار،ص۱۸۔ (۱۳)نور الانوار،ص۱۸۔
(۱۴)نور الانوار،ص۱۸۔ (۱۵)نور الانوار،ص۱۹۔
(۱۶)نور الانوار،ص۱۹۔ (۱۷)نور الانوار،ص۱۹۔
(۱۸)نور الانوار،ص۱۹۔ (۱۹)میر حامد حسینؒ،ص۱۰۵ بنقل از خدمات متقابل اسلام و ایران۔
(۲۰)الغدیر،ج۱،ص۱۵۶و ۱۵۷۔ (۲۱)خلاصہ عبقات،ج۱،ص۱۲۸۔
(۲۲)ماہنامہ اصلاح ’’غیبت حضرت حجتؑ و خدمات مرجعیت نمبر‘‘۔ (۲۳)خلاصہ عبقات،ج۶،ص۵۱۔
(۲۴)الذریعہ،شیخ آقا بزرگ اصفہانی،ج۱۵،ص۲۱۴۔ (۲۵)سورہ مائدہ،آیت۵۵۔ (۲۶)سورہ احزاب،آیت۳۳۔
(۲۷)سورہ شوری،آیت۲۳۔ (۲۸)سورہ آل عمران،آیت۵۹۔
(۲۹)سورہ فاطر،آیت۲۴۔ (۳۰)سورہ واقعہ۔آیت۱۰۔
(۳۱)عبقات الانوار،غلام رضا مولانا بروجردی در مقدمہ،ج۱۔ (۳۲)خلاصہ عبقات،ج۱،ص۱۲۴۔
(۳۳)الغدیر،ج۱،ص۱۵۶؛ میر حامد حسین،ص۱۲۳۔ (۳۴)کشف الاسرار،امام خمینیؒ،ص۱۴۱۔
(۳۵)میر حامد حسینؒ،ص۱۲۸۔ (۳۶)عبقات الانوار،حدیث ثقلین،طبع اصفہان،ج۶،ص۱۲۰۸۔
(۳۷)میر حامد حسینؒ۔ (۳۸)خلاصہ عبقات،ج۱،ص۱۰۸۔
(۳۹)فوائد الرضویہ،ص۲۲۲۔

جمعہ، 16 اگست، 2013

حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا کے القاب اور ان کے اسباب

سید محمد حسنین باقری
حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا کے القاب اور ان کے اسباب
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا وہ ذات گرامی ہیں جو اگر ایک طرف اولین و آخرین کی عورتوں کی سردار ہیں() تو دوسری طرف ائمہ معصومین ؑ پر اللہ کی حجت ہیں()۔ایسی بابرکت ذات گرامی کی معرفت یقینا طاقت بشری سے باہر ہے۔شہزادیٔ دوعالم ؑ کے مقام و مرتبہ اور فضیلت کا ایک پہلو آپؑ کے اسماء و القاب بھی ہیں جن کو سامنے رکھ کر اگر ایک طرف ہم اس ذات گرامی کی عظمت کا احساس کر سکتے ہیں تو دوسری طرف یہ اسماء و القاب ہمارے لیے نمونۂ عمل ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سے پیغامات بھی رکھتے ہیں، ہماری اصل گفتگو گرچہ صرف القاب سے ہے لیکن ابتدا میں اسماء کی طرف بھی ایک اشارہ کیا جارہا ہے۔قابل ذکر ہے کہ شہزادیٔ دوعالمؑ کے القاب بہت زیادہ بیان ہوئے ہیں نیز ان کے اسباب کے سلسلے میں بھی بہت کچھ روایات و اقوال علماء میں بیان کیا گیا ہے لیکن طوالت سے بچنے کے لیے صرف اشارہ پر اکتفا کی جارہی ہے۔یہ بات بھی بیان کر دی جائے کہ اس عنوان  پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ،جس میں ایک کتاب میرے سامنے ہے جو خاص اسی موضوع پر لکھی گئی جسے حجۃ الاسلام علی رضا سبحانی نے ’پژوھشی در نام ھا و القاب ہای حضرت زھرا سلام اللہ علیھا‘ کے نا م سے تحریر فرمایا ہے جس کا اردو ترجمہ بھی حجۃ الاسلا م مولانا سلیم علوی صاحب کے قلم سے منظر عام پر آچکا ہے۔اور اس مضمون میں زیادہ اسی کتاب سے استفادہ کیا گیا ہے۔
حضرت زہراسلام اللہ علیھا کے اسمائے گرامی:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے جدہ ماجدہ کے ناموں کے سلسلے میںفرماتے ہیں:
’’ لفاطمۃ تسعۃ اسمائٍ عند اللہ عزوجل : فاطمۃ، والصدیقۃ والمبارکۃ  والطاہرۃ والزکیۃ والرضیۃ والمرضیۃ والمحدثۃ والزہرائ‘‘ (بحار الانوار ، جلد ۴۳ ، صفحہ ۱۰، از املی شیخ صدوق و علل والشرائع)
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے خداوند عالم کے نزدیک ۹ نام ہیں: فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، راضیہ، مرضیہ، محدثہ، زہرا۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے القاب اور ان کے اسباب
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے القابات کے سلسلے میں قابل غور ہے کہ علماء و تذکرہ نگاروں نے عظمت و جلالت اور مقام و مرتبہ کی حامل ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ القابات بیان کیے ہیں ،تمام القاب کو بیان کرنے کے لیے مکمل کتاب کی ضرورت ہے ،اختصار کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ذیل میں کچھ القابات اور ان کے اسباب کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:
(۱) انسیہ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا عورتوں کے ساتھ ساتھ بعض جہات سے مردوں کے لیے بھی نمونۂ عمل ہیں،یعنی آپ کی ذات نوع انسانی کے لیے نمونہ عمل ہے اور آپ کی ذات مبارک میں تمام انسانی کمالات و نیک صفات پائی جاتی تھیں۔ اسی وجہ سے آپ کا ایک لقب انسیہ ہے۔
حضرت پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں:
’’ ففاطمۃ حوراء ’’انسیۃ‘‘فاذا اشتقت الی الجنۃ شممت رائحۃ فاطمۃ ‘‘
فاطمہ سلام اللہ علیہا انسانی شکل میں ایک حور ہیں، میں جب بھی جنت کا مشتاق ہوتا ہوں تو فاطمہ کو سونگھ لیتا ہوں۔ ( بحار الانوار ، ج ۴۳، صفحہ ۵، از علل الشرائع)
پیغمبرؐ اکرم نے اسماء بنت عمیس سے فرمایا:
جب فاطمہ زہرا ؑ دوسری تمام عورتوں سے ممتاز تھیں جن میں ایک سبب یہ بھی تھا کہ  ’’ ان فاطمۃ خلقت حوریۃ فی صورۃٍ انسیۃ‘‘ فاطمہ زہرا ؑ  انسانی شکل میں حور تھیں۔ (بحار الانوار ، ج ۴۳، ص ۷، از کشف الغمہ)
(۲)بتول
حضرت زہرا ؑ کا ایک مشہور لقب بتول ہے ۔اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: پیغمبر اکرمؐ سے سوال کیا گیا کہ بتول کسے کہتے ہیں ؟
پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا:
 ’’البتول التی لم ترحمرۃ قط ، ای لم تحص فان الحیض مکروہ فی بنات الانبیائ‘‘
 بتول اس عورت کو کہتے ہیں جو مہینہ میں خون نہ دیکھے اور اسے کبھی حیض نہ آئے کیونکہ پیغمبرؐ کی بیٹیوں کو خون حیض آنا اچھا نہیں ہے۔ (بحار الانوار ، ج ۴۳، ص۱۵، از علل الشرائع و معانی الاخبار)
دوسری روایت میںپیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں:
’’سمیت فاطمۃ بتولاً لانھا تبتلت و تقطعت عما ھو معتاد العورات فی کل شھرٍ، ولا نھا ترجع کل لیلۃ بکراً و سمیت مریم بتولاً لانھا ولدت عیسیٰ بکراً‘‘
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو بتول کہا گیا کیونکہ آپ ماہانہ عادت سے پاک تھیں اور آپ ہر شب باکرہ رہتی تھیں، حضرت مریمؑ کو (بھی) بتول کہتے ہیں کیونکہ آپ کے یہاں باکرہ ہونے کی حالت میں جناب عیسیٰؑ کی ولادت ہوئی۔ ( فاطمہ الزہراؑ بہجۃ قلب مصطفیٰ ، ج ۱، ص ۱۵۸، از احقاق الحق، ج۱۰، ص ۲۵، نقل از علامہ کشفی حنفی مناقب مرتضویہ ، ص ۱۱۹)
(۳) تقیہ
حضرت فاطمہ زہراؑ تقویٰ و پرہیزگاری کے آخری درجہ پر فائز تھیں ،پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین ؑ کی طرح تقویٰ و پرہیزگاری میں آپ کی کوئی نظیر نہیں ہے۔اسی وجہ سے آپ کا ایک لقب تقیہ ہے۔
جیسا کہ زیارت کے جملات ہیں:
 ’’ السلام علی البتولۃ الطاہرۃ والصدیقۃ المعصومۃ البرۃ ’’ التقیۃ‘‘ سلیلۃ المصطفیٰ و علیلۃ المرتضیٰ و ام الائمۃ النجبائ۔۔۔۔۔۔‘‘
سلام ہو آپ پر اے ہر برائی سے پاک و پاکیزہ، سلام ہو آپ پر اے سچ بولنے والی گناہوں سے پاک اور متقی و پرہیزگار ، دختر پیغمبر اکرمؐ شریک حیات علی مرتضیٰ علیہ السلام اور باکرامت و عظیم الشان پیشواؤں کی ماں ۔ ( بحار الانوار ، ج۱۰۰ ، ص ۱۹۷، از مصباح الزائر)
 ’’السلام علیک ایتھا ’’ التقیۃ‘‘ النقیۃ‘‘
سلام ہو آپ پراے پاک دامن اور پرہیزگار خاتون ۔( بحار الانوار ج، ۱۰۰، ص ۱۹۹ ، از الاقبال ص ۱۰۰)
(۴)حبیبہ
حبیبہ یعنی دوست، آپ کا لقب حبیبہ اس لیے تھا کہ آپ پیغمبر خداؐ کی چہیتی تھیں،پیغمبر اکرمؐ کو حبیب اللہ کہتے ہیں کیونکہ خدا وند عالم اپنے پیغمبر ؐ کو دوست رکھتا تھا،’’ حبیبۃ حبیب اللہ‘‘یعنی پیغمبر اکرمؐ جنہیں خدا دوست رکھتا ہے وہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو دوست رکھتے تھے۔
امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: جس دن حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی وفات ہونے والی تھی اس دن انہوں نے ایک گوشہ کی طرف دیکھ کر کہا : آپ پر درود و سلام ہو، اس کے بعد مجھ سے کہا ، اے چچا زاد بھائی! جبرئیل درود و سلام پڑھتے ہوئے مجھ پر نازل ہوئے اور کہا:
’’ السلام یقرا علیک السلام یا حبیبۃ حبیب اللہ و ثمرۃ فوادہٖ‘‘
خدا آپ پر درود و سلام بھیجتا ہے اے پیغمبرؐ کی چہیتی بیٹی ، اور اے رسول خداؐ کے دل کی ٹھنڈک ، آج آپ کی روح عرش اعلیٰ کی طرف پرواز کرجائے گی، اس کے بعد مجھ سے دور ہوگئے۔ ( بحار الانوار ،ج۴۳،ص۲۰۷، از دلائل ، طبری)
 حضرت علی علیہ السلام اپنا تعارف کراتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’۔۔۔۔۔۔۔ انا زوج البتول سیدۃ النساء العالمین فاطمۃ التقیۃ الزکیۃ البرۃ المھدیۃ ’’حبیبۃ‘‘ حبیب اللہ و خیر بناتہ و سلالتہ و ریحانۃ رسول اللہ ۔۔۔۔‘‘
میں بتول کا شوہر ہوں جو عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں ، وہی فاطمہ سلام اللہ علیہا جو پاک دامن، نیکوکار، خدا کی طرف سے ہدایت شدہ ، جن سے حبیب خدا محبت کرتے ہیں اور جو پیغمبرؐ کی بہترین بیٹی اور ریحانہ پیغمبرؐ ہیں۔ (بحار الانوار ج۳۵، ص ۴۵ اسی طرح، ج ۳۳، ص ۲۸۳، از بشارۃ المصطفیٰ)
(۵) حرہ
حرہ یعنی آزاد عورت، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ایسی عظیم المرتبت خاتون ہیں جنہوں نے آزادی کے معنی بیان کئے اور اس راہ میںاپنی جان قربان کردی اور دنیا و ما فیھا سے آزاد ہوکر اپنے خالق سے لو لگانے کے حقیقی مفہوم کو اپنی عملی زندگی میں پیش کیا۔
جناب سلمان فارسیؒ بیان کرتے ہیں : جب پیغمبرؐ اکرمؐ کی وفات ہوئی تو وہ دونوں(خلیفہ اول و دوم ) حضرت علی علیہ السلام کے دروازہ پر آئے ، حضرت علی علیہ السلام نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے پاس آکر کہا:
’’ایتھا ’’الحرۃ ‘‘ فلانٌ و فلانٌ بالباب، یرید انِ ان یسلما علیک فما ترین؟‘‘
اے آزاد خاتون! وہ دونوں دروازہ پر ہیں، وہ آپ کو سلام عرض کرنا چاہتے ہیں، آپ کیا کہتی ہیں؟
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے (دونوں سے ناراض ہونے اور اپنی ناراضگی کے صریحی اظہار کرنے کے با وجود )فرمایا :
’’ البیت بیتک والحرۃ زوجتک افعل ماتشائ‘‘
 یہ آپ کا گھر ہے اور یہ آزاد خاتون آپ کی ہی زوجہ ہے آپ جو چاہے کیجئے۔ (بحار الانوار ، ج ۴۳، ص ۱۹۷، از کتاب سلیم بن قیس)
(۶) حوراء
حورا یعنی خوبصورت عورت، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی خلقت جنت سے ہوئی، اس وجہ سے آپ حور صفت تھیں۔ نیز آپ کا ایک لقب حوراء ہے یعنی وہ خاتون جو حوروں کی طرح خوبصورت ہو۔
پیغمبر اسلامؐ فرماتے ہیں:
’’ ففاطمۃ ’’حورائ‘‘ انسیۃ فاذا اشتقت الی الجنۃ شممت رائحۃ فاطمۃؑ‘‘
 میں جب بھی جنت کا مشتاق ہوتا ہوں تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو سونگھ لیتا ہوں۔ حضرت فاطمہ زہراؑ سے جنت کی خوشبو آتی ہے درحقیقت وہ انسانی شکل میں ایک حور ہیں۔ (بحار الانوار ، ج ۴۳، ص ۵، از علل الشرائع)
پیغمبر اکرمؐ فرماتے  ہیں:
’’ابنتی فاطمۃ ’’حورائ‘‘ آدمیۃ‘‘
 میری بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا انسانی شکل میں ایک حور ہے۔ (۲ فاطمۃ الزہراء بہجت قلب مصطفیٰ ، ج۱، ص ۱۸۲، از ذصوائق محرقہ ص ۵۶، اسعاف الراغبین ، ص ۱۷۲، نقل از نسائی)
(۷)حوریہ
 حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی خلقت جنت کے میووں سے ہوئی، اس وجہ سے آپ میں حوروں کے صفات بھی موجود ہیں اس لئے آپ کو حوریہ کہتے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا حور صفت ہیں ان کے جسم مبارک سے جنت کی خوشبو آتی تھی۔ اور حوروںکی طرح ہمیشہ باکرہ تھیں اور آپ کو خون حیض یا نفاس نہیں آتا تھا۔
جناب سلمان فارسیؑ بیان کرتے ہیں:
 میں پیغمبر اکرمؐ کے مبارک ہاتھوں پر پانی ڈال رہا تھا کہ حضرت فاطمہ زہراؑ گریہ کرتی ہوئی آئیں، حضرت پیغمبر اکرمؐ نے حضرت فاطمہ زہراؑ کے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا:
 ’’ مایبکیک؟ لا ابکی اللہ عینیک یا حوریۃ‘‘
 کیوں رورہی ہو؟ اے حوریہ! خداوند عالم تمہیں نہ رلائے۔
حضر ت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے کہا: میں قریش کی چند عورتوں کے قریب سے گزری تو وہ میرے اور حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نا زیبا باتیں کرنے لگیں ، پیغمبرؐ اکرم نے کہا: تم نے کیا سنا؟ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے کہا: کہہ رہی تھیں : محمد کو کیا ہوگیا ہے کہ اپنی بیٹی کا عقد قریش کے ایک فقیر آدمی سے کردیا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا:
بیٹی! خدا کی قسم میں نے علی علیہ السلام کو تمہارا شوہر قرار نہیں دیا بلکہ خدا نے تمہارا عقد حضرت علیؑ سے کیا ہے۔ (بحار الانوار ، ج۴۳، ص ۱۴۹و۷، از فضائل شہر رمضان)
(۸)راکعہ
جو خاتون بارگاہ خدا میں رکوع کرتی ہے اسے راکعہ کہتے ہیں۔حضرت زہرا علیھا السلام کا لقب راکعہ اس لیے قرار پایا کہ آپ بارگاہ الٰہی میں کثرت سے رکوع کرتی تھیں۔
حضرت امام حسن علیہ السلام نے فرمایا:
’’ رایت امی فاطمۃ قامت فی محرابھا لیلۃ جمعتھا فلم تزل’’راکعۃ‘‘ ساجدۃ حتیٰ اتضح عمود الصبح‘‘
ایک بار شب جمعہ میں نے مادر گرامی کو نماز میں مشغول دیکھا، آپ پئے در پئے رکوع و سجدہ بجالا رہی تھی، یہاں تک کہ صبح ہوگئی، آپ مسلسل مومن مرد و عورت کے نام لے رہی تھی اور ان کے لئے دعا کررہی تھیں لیکن آپ نے اپنے لئے بالکل دعا نہیں کی، میں نے مادر گرامی سے پوچھا، آپ اپنے لئے دعا کیوں نہیں کرتیں؟ فرمایا: یا بنیّ الجار ثم الدار‘‘ میرے بیٹے !پہلے پڑوسی کیلئے دعا کرنی چاہئے اس کے بعد اپنے لئے۔ (بحار الانوار ، ج ۴۳ ، ص ۸۱ ، از علل الشرائع)
(۹)رشیدہ
رشیدہ اس عورت کو کہتے ہیں جس کی خداوند عالم کی طرف سے ہدایت کی گئی ہو اور وہ راہ حق و صداقت میں ثابت قدم رہے اور دوسروں کی ہدایت کرے۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: حضرت پیغمبر اکرمؐ نے اپنی وفات سے کچھ دن پہلے مجھے بلا کر فرمایا:
اے علیؑ ! اور اے فاطمہؑ! یہ میرا حنوط ہے، اسے جبرئیل میرے لئے جنت سے لائے ہیں، جبرئیل تم پر درود و سلام بھیج رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہ حنوط اپنے لئے اور تمہارے لئے لے لوں اور اسے تقسیم کروں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے کہا: ایک تہائی آپ کے لئے اور باقی حنوط کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام جو کہیں، حضرت پیغمبر اسلامؐ نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو گریہ کرتے ہوئے سینے سے لگا کر فرمایا:
’’ موفقۃ ’’رشیدۃ‘‘ محدیۃ ملھمۃ‘‘
(تم وہ) کامیاب، رشیدہ ہو، جس کی خدا کی طرف سے ہدایت کی گئی ہے اور اس پر الہام ہوتا ہے، اس کے بعد فرمایا : اے علیؑ تم باقی حنوط کے بارے میں بیان کرو۔ حضرت علی علیہ السلام نے کہا: بچے ہوئے میں سے نصف حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کیلئے اور باقی نصف کے بارے میں آپ خود بیان فرمائیں۔ حضرت پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: باقی ماندہ حنوط تمہارے لئے ہے اس کی حفاظت کرنا ۔(بحار الانوار ، ج ۲۲، صفحہ ۴۹۲، اسی طرحج ۸۱ ص ۳۲۴، مصباح الانوار)
(۱۰) رضیہ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی رضا و خوشنودی مثال کے قابل ہے ، اس لئے آپ کی اس نیک صفت کے لئے چند لقب بیان ہوئے ہیں۔: ’’راضیہ‘‘ و’’ مرضیہ‘‘ و ’’رضیہ‘‘۔
 حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
حضرت پیغمبر اکرمؐ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر آئے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سخت اور موٹے کپڑے پہنے ہوئے ایک ہاتھ سے چکی چلارہی تھیں اور دوسرے ہاتھ سے فرزند کو لئے ہوئے دودھ پلارہی تھیں، یہ دیکھ کر حضورؐ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، فرمایا:
 ’’یا بنتاہ! تعجلی مرارۃ الدنیا بحلاوۃ الآخرۃ فقد انزل اللہ علی ’’ ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ‘‘
اے بیٹی! دنیا کی سختیوں کو آخرت کی شیرینی کے مقابلہ میں برداشت کرو ، کیوں کہ خداوند عالم نے مجھ پر آیت نازل کی ہے کہ : خداوند عالم تمہیں اتنا عطا کرے گا کہ تم راضی و خوش ہوجاؤ۔(مجمع البیان ج۱۰۔ ۶۴۴)
آپ کے زیارت نامہ میں پڑھتے ہیں:
 ’’السلام علیک ایتھا الرضیۃ المرضیۃ‘‘ سلام ہو آپ پر اے وہ خاتون جو تقدیر الٰہی پر راضی رہیں اور خداوند عالم بھی آپ سے راضی ہے۔ (بحار الانوار ، ج ۱۰۰، ص ۱۹۹، ، از اقبال ، ص ۱۰۰)
 (۱۱) ریحانہ
 ریحانہ لغت میں خوشبودار گھاس کو کہتے ہیں، البتہ شئے لطیف عورتوں کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرمؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہا فرمایا :
فاطمہ میری ریحانہ ہے، میں جب بھی جنت کا مشتاق ہوتا ہوں تو انہیں سونگھ لیتا ہوں، پس حضرت فاطمہ زہراؑ ایک خوشبو دار پھول تھیں جس سے ہمیشہ جنت کی خوشبو آتی تھی۔
 حضرت علی علیہ السلان نے بعض اوقات اپنا تعارف کراتے وقت بجائے اس کے کہ کہیں:
میں علی بن طالب ہوں، خود کو حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کے ذریعہ پہنچوایا، چنانچہ آپ نے فرمایا:
 ’’انا زوج البتول سیدۃ نساء العالمین‘‘ فاطمۃ التقیۃ  الزکیۃ البرۃ المھدیۃ حبیبۃ حبیب اللہ و خیر بناتہ و سلالتہٖ و ’’ریحانۃ‘‘ رسول اللہ ؐ‘‘
میں بتول کا شوہر ہوں جو عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں ۔ وہ پاک دامن ، نیکو کار خاتون ہیں، جن کی خدا کی طرف سے ہدایت کی گئی ہے۔ اور جو حبیب خدا کی چہیتی ہیں، جو حضور کی بہترین بیٹی اور ریحانہ پیغمبرؐ ہیں۔ (بحار الانوار ، ج ۳۵، ص ۴۵و ج ۳۳، ص ۲۸۳ ، از بشارۃ المصطفیٰ)
 حضرت علی علیہ السلام نے ابو بکر سے احتجاج کرتے ہوئے کہا :
میں وہ ہوں جسے پیغمبر ؐ نے منتخب فرمایا اور اپنی بیٹی کا مجھ سے عقد کیا اور فرمایا:
اے ابوبکر تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں یہ میرے لئے ہے یا تمہارے لئے ہے؟
ابو بکر نے جواب دیا: آپ کیلئے ہے۔ ( فاطمہ بہجت قلب مصطفی ، ج۱، ص ، ۱۱۹، از الاحتجاج ، ۱ص۱۷۱)
 اہل بیت کرامؑ بھی اپنا تعارف کراتے وقت اکثر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نام کو وسیلہ بناتے تھے۔
(۱۲) زُہرہ
زہرہ،ایک ستارہ ہے جو سورج سے دس کروڑ آٹھ لاکھ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے، اس کی روشنی بہت شدید ہے، یہ بعض اوقات صبح اور بعض اوقات شب میں ظاہر ہوتا ہے، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا نور بھی چونکہ اہل بیتؑ میں اسی طرح ہے لہٰذا آپ زہرۂ اہل بیتؑ پیغمبرؐ  کے لقب سے مشہو رہیں۔
جابر بیان کرتے ہیں: ایک دن ہم نے نماز صبح پیغمبر اکرمؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پڑھی ، اس کے بعد آپ نے خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے ہماری طرف رخ کرکے فرمایا:
 اے لوگو! جو شخص سورج سے محروم ہوجائے اسے چاہئے کہ چاند سے متمسک ہو اور جو چاند سے محروم ہوجائے اسے چاہئے کہ دوستاروں کی پناہ میں آجائے، جابر کہتے ہیں : میں اور ابو ایوب انصاری اور انس بن مالک کھڑے ہوئے اور ہم نے عرض کیا: اے رسول اللہ  ؐ سورج کون ہے؟ رسول اللہؐ نے فرمایا: سورج میں ہوں۔ اس کے بعد ہمارے لئے مثال بیان کی اور فرمایا: خداوند عالم نے ہمیں پیدا کیا اور ستاروں کی جگہ قرار دیا ، جب کوئی ستارہ غائب ہوجاتا ہے تو دوسرا روشن ہوجاتا ہے۔ میں سورج ہوں، جب بھی غائب ہو جاؤں تم چاند سے توسل کرنا ، ہم نے پوچھا: چاند کون ہے؟ فرمایا: میرے بھائی جانشین ، میرے دین کے حاکم، میرے فرزندوں کے والد اور میرے اہل بیتؑ کے نزدیک میرے خلیفہ ۔
ہم نے پوچھا :د و قطبی ستاروں ( فرقدین) سے مراد کون ہیں؟
 فرمایا: حسنؑ اور حسینؑ۔ اس کے بعد فرمایا: انہیں پہنچان لو۔ ’’ وفاطمۃ و ھی ’’الزھرۃ‘‘ عترتی و اھل بیتی ھم مع القرآن لا یفترقان حتیٰ یردا علی الحوض‘‘
اور فاطمہ سلام اللہ علیہا میرے اہل بیتؑ کا ’’زہرہ‘‘ ہیں ‘‘ یہ سب قرآن کے ساتھ ہیں اور ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملیں گے۔ (بحار الانوار ، ج ۲۴، ص ۷۵، از امالی شیخ طوسی)
(۱۳)ساجدہ
 جوخاتون بارگاہ خدا میں سجدہ ریز رہے اسے ساجدہ کہتے ہیں، حضرت فاطمہ زہر سلام اللہ علیہا بہت زیادہ عبادت کیا کرتی تھیں اور آپ نے کافی سجدے کئے یہاں تک کہ آپ نے ولادت کے چند لمحہ بعد بھی سجدہ کیا اور خدا کا شکر ادا کیا۔
حضرت خدیجہؑ بیان کرتی ہیں: فاطمہ زہراؑ جب میرے شکم میں تھیں تو مجھ سے محو سخن ہوتی تھیں۔ ’’ ولما ولدت فوقعت حین وقعت علی الارض’’ ساجدۃ‘‘ رافعۃ اصبعھا‘‘جب آپ کی ولادت ہوئی تو آپ زمین پر سجدہ کیا اور انگلیوں کو آسمان کی طرف بلند کیا۔ (فاطمہ بہجت قلب مصطفیٰ ، ج، ۱۸۳، از سیرۃ نبلا ، ذخائر العقبیٰ ، ص ۴۵ نزہۃ المجالس ، ج ۲، ص ۲۲۷)
(۱۴)سعیدہ
سعیدہ، خوش بخت اور سعادت مند خاتون کو کہتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام نے عائشہ کے گھر آکر کہا : اے فضہ ! پانی لاؤ میں وضو کروں گا۔ کسی نے آپ کا جواب نہیں دیا۔ آپ نے تین مرتبہ کہا مگر کسی نے جواب نہیں دیا ۔ ’’ فولی عن الباب یرید منزل الموفقۃ ’ السعیدۃ‘‘ الحوراء الانسیۃ فاطمہ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
حضرت علی علیہ السلام نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر کا قصد کیا، اچانک کسی نے آواز دی : اے ابو الحسن ! پانی آپ کے پہلو میں رکھا ہے اس سے وضو کرلیجئے۔ آپ جب متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ دائیں طرف ایک برتن میں پانی ہے، آپ نے وضو کیا اور برتن کو اسی جگہ رکھ دیا۔
پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علی علیہ السلام کے چہرے کی طرف دیکھ کر کہا : اے علیؑ ! کیسا پانی ہے کہ آپ کا چہرہ مروارید کی طرح چمک رہا ہے۔ ؟
 حضرت علی علیہ السلام نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ میں عائشہ کے گھر گیا اور فضہ کو تین بار آواز دی کہ پانی لائے تاکہ میں وضو کروں، مگر کسی نے جواب نہیں دیا۔ میں نے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر جانے کا ارادہ کیا کہ ایک ہاتف غیبی کی آواز آئی۔ اے علیؑ ! آپ کے پہلو میں پانی ہے وضو کرلیجئے جب نگاہ کی تو دیکھا کہ ایک برتن میں پانی رکھا ہے۔
پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: اے علیؑ! جانتے ہو وہ کس کی آواز تھی اور یہ پانی کہاں سے آیا تھا؟
 حضرت علی علیہ السلام نے کہا: خدا اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔
 پیغمبرؐ اکرمؐ نے فرمایا: وہ منادی میرے دوست جبرئیل تھے اور وہ برتن جنت کے پانی سے بھرا ہوا تھا۔ اس میں ایک تہائی پانی مشرق سے اور ایک تہائی پانی مغرب سے اور ایک تہائی پانی جنت کا تھا۔۔۔۔حضرت علی علیہ السلام نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرکے دعا کی۔
’’ اللھم بارک لنا فی فضتنا‘‘
خدایا: ہم اہل بیتؑ کی فضہ پر اپنی رحمت ، برکت نازل فرما۔( الثاقب فی المناقب ، ص ۲۸۰، و۳۸۱، ابی محمد بن علی طوسی ، ابن ابی حمزہ کے نام سے معروف)
(۱۵)سیدہ
سیدہ، یعنی جو خاتون قوم کی سردار ہو، لیکن اصطلاح میں بنی ہاشم کی خواتین کو سیدہ کہتے ہیں۔
راوی نے حضرت امام صادق علیہالسلام سے عرض کیا کہ پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا ہے : فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں تو کیا وہ عالمین کی عورتوں کی سردار اپنے زمانہ میں ہیں؟
 امام علیہ السلام نے فرمایا:
 ’’ذاک لمریم کانت سیدۃ نساء عالمھا وفاطمۃ ، سیدۃ نساء العالمین من الاولین والآخرین‘‘
 وہ جناب مریمؑ ہیں جو اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں ، لیکن حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا شروع سے آخر تک کے عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں۔ (بحار الانوار ، ج ۴۳، ص ۲۶، از معانی الاخبار)
ام المومنین عائشہ بیان کرتی ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے مجھ سے کہا:
پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا:
 ’’اما ترضین ان تاتی یوم القیامۃ ’’سیدۃ‘‘ نساء المومنین او سیدۃ نساء ھٰذہٖ الامۃ‘‘
کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ قیامت میں مومنہ عورتوں یا اس امت کی عورتوں کی سردار قرار پاؤ۔(بحار الانوار ، ج ۴۳، ص ۲۳، از امالی شیخ طوسی)
یہ دو روایتیں گواہ ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا دنیا اور آخرت کی تمام عورتوں کی سردار ہیںجس کی وجہ سے آپ کا لقب ’سیدہ ‘ قرار پایا۔
(۱۶)شہیدہ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے القاب میں سے ایک لقب شہید ہ ہے، آپ راہ ولایت کی پہلی شہیدہ ہیں۔
جس دن حضرت پیغمبر اسلامؐ کی وفات ہوئی تو ابھی آپ کو دفن نہیں کیا گیا تھا کہ لوگوں نے عہدو پیمان کو توڑ دیا اور دین سے پلٹ گئے۔ حضرت زہرا ؑ نے امیر المومنینؑ کے حق کا دفاع کرتے ہوئے آواز احتجاج بلند کی جسے طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کیگئی۔شہزادیٔ کونینؑ نے رحلت پیغمبر ؐ کے بعد شدید مصائب کا مقابلہ کیا ۔جلتا ہوا دروازہ آپ پر گرایا گیا، زخمی ہوئیں، پہلو شکستہ ہوا، حضرت محسن ؑ شکم مبارک میں شہید ہوگئے و۔۔۔ نتیجہ میں آپ نے وفات پیغمبرؐ کے ۷۵ یا ۹۵ دن کے بعد شہادت پائی۔اور اسی راہ خدا میں شہید ہونے کی وجہ سے آپ کا لقب شہیدہ قرار پایا۔(بحار الانوار ، ج۳، ص ۱۹۷، از کتاب سلیم بن قیس ہلالی)
 حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:
 ان فاطمۃ صدیقۃ شہیدۃ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سچ بولنے والی اور راہ خدا میں شہیدہ ہیں۔ ( اصول کافی ، ج۱، ص ۴۵۸)
(۱۷)صابرہ
یعنی وہ خاتون جو سختیوں کو تحمل کرے اور رضائے الٰہی کیلئے صبر شکیبائی کے ساتھ مشکلوں کا سامنا کرے، (صابرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا سیاسی لقب ہے)۔
ایک دن حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے سادات کے کسی ایک شخص سے کہا:
جب بھی اپنی دادی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر مطہر پر جانا تو اس زیارت کو پڑھنا :
 ’’۔۔۔۔۔۔۔۔ یا ممتحنۃ امتحنک اللہ الذی خلقک قبل عن ان یخلقک فوجدک لما امتحنک ’’صابرۃ‘‘
اے وہ خاتون کہ جس کا خدا نے پیدائش سے پہلے ( عالم ارواح میں) امتحان لیا اور اس میں صبر و شکیبائی پر ثابت قدم پایا۔ (بحار الانوار ، ج۱۰۰، ص ۱۹۴، از کتاب تہذیب)
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے زیارت نامہ میں پڑھتے ہیں:
 ’’السلام علیک یا ایتھا المظلومۃ ’’ الصابرۃ‘‘ لعن اللہ من منعک حقک و دفعک عن ارثک ‘‘
سلام ہو آپ پر اے مظلومہ کہ آپ نے ظلم و ستم کے مقابلہ میں صبر و تحمل کیا، خداوند عالم ان لوگوں پر لعنت کرے ، جنہوں نے حق کو ضائع کیا اور آپ کو پیغمبر اکرمؐ کی میراث سے محروم کیا۔ ( بحار الانوار ، ج۱۰۰، ص ۱۹۸، از مصباح الزائر)
(۱۹) صدوقہ
 حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا گفتار اور کردار میں اس درجہ سچی اور نیک تھیں کہ یہ صفت تین القاب میں آپ کے لئے قرار پائی ، صادقہ صدوقہ صدیقہ،
گزشتہ روایت میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر اسلام ؐ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:
 ’’ یا علی انی قد اوصیت فاطمۃ ابنتی باشیاء و امرتھا ان تلقیھا الیک فانفذھا ، فھی ’’صادقۃ‘‘ الصدوقۃ ثم ضمھا الیہ و قبل رائسھا و قال: فداک ابوک یا فاطمۃ‘‘
اے علیؑ میں نے فاطمہ کو کچھ مسائل کی تعلیم دی ہے اور ان سے کہہ دیا ہے کہ آپ سے بتادیں ، فاطمہؑ جو کہیں اسے انجام دینا کیوں کہ بہت سچ بولتی ہیں۔ (بحار الانوار ، ج ۱۰۱۔ ص ۲۶۳،۱)
(۲۰) طیبہ
پاک و پاکیزہ اور برائیوں سے دور خاتون کو طیبہ کہتے ہیں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے یہاں دو طرح کی پاکیزگی پائی جاتی تھی۔اول ظاہری پاکیزگی ، یعنی کبھی بھی خون حیض اور نفاس نہیں آیا دوسری باطنی پاکیزگی ، یعنی حضرت فاطمہ زہراؑ کسی بھی گناہ میں مبتلا نہیں ہوئیں اور کبھی بھی آپ نے گناہ کے لئے نہیں سوچا، اس پاکیزگی کی بنا پر آپ کے بہت سے القاب ہیں مثلاً طاہرہ، مطہرہ ، طیبہ ، بتول۔۔۔۔۔۔۔
حضرت زہراؑ کی زیارت کے یہ جملے ہیں:
 اللھم صل علیٰ فاطمۃ ’’طیبۃ‘‘ الطاھرۃ المطھرۃ التی انتجبتھا و طھرتھا و فضلتھا علی نساء العالمین ۔۔۔۔
خدایا! فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پر جو ہر برائی اور پلیدگی سے پاک ہیں درود و سلام بھیج فاطمہ سلام اللہ علیہا کو تونے منتخب فرمایا اور ہر برائی سے محفوظ رکھا اور انہیں عالمین کی عورتوں پر فضیلت و برتری بخشی۔
(۲۱)عارفہ
جو خاتون معارفت الٰہی کا علم رکھتی ہو اسے عارفہ کہتے ہیں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا تعارف یہ کہہ کر کرایا کہ آپ حق پیغمبرؐ کو جانتی تھیں، یعنی پیغمبر اسلامؐ کی صحیح معرفت رکھتی تھیں۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے زیارت نامہ میں پڑھتے ہیں کہ آپ عارفہ اور حق پیغمبر ؐ کی معرفت رکھتی تھیں۔
’’ السلام علیک و علیٰ ولدک و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘
’’ اے فاطمہ زہرا‘‘ آپ پر ااور آپ کے فرزندوں پر خدا کا درود و سلام میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے سرپرستی کی ذمہ داری کو بخوبی انجام دیا اور حق امانت ادا کردیا اور رضا و خوشنودی خدا کیلئے کوشش کی، حفاظت پیغمبرؐ میں بہت زیادہ تلاش و کوشش کی، اس مدت میں آنحضرت ؐ کے حق کو بخوبی جان لیا اور آنحضرتؐ ؐ کی صداقت اور نبوت پر ایمان و اعتقاد رکھا ۔ (بحار الانوار ، ج ۱۰۰۔ ص ۲۱۸، از مصباح الزائر ، ص ۲۸، المراکز الکبیر ، ص۲۳)
(۲۲)عالیہ
جس کا مقام و مرتبہ بلند ہو اسے عالیہ کہا جاتا ہے۔ چونکہ شہزادیٔ دوعالم ؑ فضائل و کمالات کے انتہائی اعلیٰ درجہ پر فائز تھیںاس وجہ سے آپ کو عالیہ کہا گیا ہے۔
جیسا کہ آپؑ سے منسوب زیارت کے جملے ہیں:
اللھم صل علی السیدۃ المفقودۃ الکریمۃ المحمودۃ الشہیدۃ ’’ العالیۃ‘‘ الرشیدۃ۔۔۔‘‘
خدایا! اس خاتون پر جو عورتوں کی سردار ہیں اور جن کی ’’قبر پوشیدہ‘‘ ہے جو باکرامت ، قابل ستائش اور راہ حق میں شہید ہیں ان پر درود و سلام بھیج۔ (۱)
(۲۳) عدیلہ
 حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پاکی و طہارت کے آخری درجہ میں تھیں ، قرآن مجید میں حضرت مریمؑ کی پاکیزگی و طہارت بیان کی گئی ہے چنانچہ کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پاک دامنی میں جناب مریمؑ کی عدیل و ہم پلہ تھیں۔
(۲۴) عذرا
 روایات میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو ’حوریہ انسیہ‘ کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور قرآن مجید کی روشنی میں حور العین اسے کہتے ہیں جو ہمیشہ باکرہ رہے، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔
’’ انا انشائنا ھن انشاء فجعلنا ھن ابکاراً ‘‘ (سورہ واقعہ ؍۳۶)
ہم نے حوروں کو پیدا کی اور انہیں باکرہ قرار دیا ، پس چونکہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہمیشہ باکرہ تھیں اس بنا پر آپ کو عذرا کہتے ہیں ، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جن خوایتن کا یہ نام ہے وہ پاک دامنی و عفت کو محفوظ رکھیں اور گناہوں سے آلودہ نہ ہوں۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: پیغمبر اکرمؐ نے بارگاہ خدا میں دعا کی :
’’اتقرب الیک بخیرۃ الاخیار و ام الانوار و الانسیۃ الحوراء البتول العذرا ‘‘ فاطمۃ الزہرا‘‘
 خدایا! میں تیرا تقرب حاصل کرنے کیلئے بہترین منتخب برگزیدہ شدہ خاتون پاکیزہ انوار ( ائمہ اطہارؑ) کی مادر گرامی ، حور صفت کو جو ہمیشہ پاک و کنواری رہیں یعنی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو وسیلہ قرار دیتا ہوں۔ (بحار الانوار ، ج ۹۵ ، ص ۳۷۵و ۳۸۴ از منہج الدعوات ، ص ۱۱۳و ۱۱۵)
(۲۵) عزیزہ
 اس عظیم المرتبت خاتون کو جو اپنی عزت نفس کو محفوظ رکھے اور نامحرموں میں کم اہمیت نہ ہو ’’ عزیزہ‘‘ کہتے ہیں۔
جناب سلمان نے حضرت پیغمبرؐ سے عرض کی۔ : مولانا آپ کو خدا کا واسطہ آپ مجھے قیامت میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے مقام و منزلت سے آگاہ فرمائیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری طرف مسکراتے ہوئے کہا: خدا کیق سم جس کے دس قدرت میں میری جان ہے ، قیامت کے دن حضرت فاطمہ زہرا ؑ ایک اونٹ پر سوار ہوکر اہل محشر کے بیچ سے گزریں گی، ’’ علیھا ھودج من نورٍ فیہ جاریۃ انسیۃ حوریۃ عزیزۃ‘‘
اس اونٹ پر نورانی ہودج ہوگا۔ ہودج کے اندر انسانی شکل میں حور صفت اور عظیم المرتبت خاتون ہوں گی، جبرئیل دائیں طرف اور میکائیل بائیں طرف ہوں گے، حضرت علی علیہ السلام آگے اور حضرت امام حسن علیہ السلام و امام حسینؑ ان کے پیچھے ہوں گے۔  جب وہ اہل محشر کے بیچ سے گزریں گی تو خدا کی طرف سے ندا آئے گی۔ اے لوگو! اپنی آنکھیں بند کرلو اور اپنے سرون کو جھکا لو، یہ فاطمہ سلام اللہ علیہا تمہارے پیغمبر ؐ کی بیٹی علی علیہ السلام کی زوجہ اور حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام کی مادر گرامی ہیں۔ پس حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پل صراط سے گزریں گی، اس وقت آپ جنت اور جو خدا وند عالم نے آپ کیلئے آمادہ کیا ہے اسے دیکھیں گی، اور کہیں گی، خدائے مہربان کے نام سے شروع کرتی ہوں حمد و ثنا ہے اس خدا کے لئے جس نے ہمار ے غم و اندوہ کو دور کیا، ہمارا خدا بخشنے والا اور شکر کرنے والوں کا قدر داں ہے، وہ خدا ک؎جس نے اپنے فضل سے ہمیں ایسا مقام عطا کیا جس تک کوئی گرد نہیںپہنچ سکتی۔ خداون د عالم ان پر وحی فرمائے گا۔ اے فاطمہؑ! اگر کوئی حاجت ہے تو بیان کرو۔‘‘
فاطمہ سلام اللہ علیہا عرض کریںگی، خدایا ! میں تیرا تقرب چاہتی ہوں ،خدایا ! میری طرف سے عرض یہ ہے کہ میرے محبوں اور میرے اہل بیتؑ کے محبو ں پر عذات مت کر۔
خداوند عالم وحی فرمائے گا۔! اے فاطمہؑ اپنی عزت و جلال کی قسم ، مجھے اپنی خدائی کی قسم، میں نے زمین و آسمان کو پیدا کرنے سے دو سال پہلے خود سے عہد کیا تھا کہ تمہارے اور تمہارے فرزندوں کے شیعوں پر عذاب نہیں کروں گا۔ (بحار الانوار ، ج ۲۷، ۱۳۹، از کنز جامع الفوائد و تاویل الآیاب الظاہرات)
(۲۶) علیمہ
جو خاتون بہت زیادہ علم و دانش رکھتی ہو اسے علیمہ کہتے ہیں ، حضرت صدیقہ کبریٰ سلام اللہ علیہا سارے علوم سے آگاہ تھیں، ائمہ اطہار آئندہ پیش آنے والے واقعات سے آگاہی کے لئے ’’صحیفہ  فاطمہ ‘‘ میں رجوع کرتے تھے۔
حضرت  فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے زیارت نامہ میں پڑھتے ہیں:
 السلام علیک ایتھا المحدثۃ ’’ العلمۃ‘‘
 سلام ہو آپ پر اے حدیث بیان کرنے والی اور با علم فہم خاتون ( بحار الانوار ، ج ۱۰۰ ، ص ۱۹۹،)
(۲۷)فاضلہ
 جو خاتون فضائل و کمالات کی حامل ہو اسے فاضلہ کہتے ہیں، تمام فضائل و کمالات حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات گرامی میں جمع تھے۔چنانچہ شاعر بیان کرتا ہے:
اترید ان تحصی فضائل فاطم
نفد الحساب و فضلھا لم ینفد
 کیا تم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل کا اندازہ کرنا چاہتے ہو اور انہیں ایک جگہ جمع کرنا چاہتے ہو؟ یا رکھو تم کبھی ان کا حساب نہیں لگا سکتے کیوں کہ اعداد و تو ختم ہو سکتے ہیں مگر ان کے فضائل ختم نہیں ہوں گے۔
آپ کے زیارت نامہ میں پڑھتے ہیں:
 السلام علیک ایتھا الفاضلۃ الزکیۃ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘‘
(۲۸) فریدہ
 جو چیز در ااور گوہر کی طرح ہوتی ہے اسے فریدہ کہتے ہیں ، حضرت فاطمہ زہرا دنیاوی عورتوں میں بے نظیر گوہر کی طرح تھیں اور رہیں گی، اس بنا پر آپ کا ایک لقب فریدہ ہے، نیز جو خاتون تنہا و اکیلی بے ناصر و مددگار اور گوہر کی طرح دوسروں کے ہاتھ سے دور ہو اسے فریدہ کہتے ہیں، جیسے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پیغمبر ؐ کی وفات کے بعد بے ناصر و مددگار ہوگئیں اور آپ نے اس تنہائی کا شکوہ کیا۔
(۲۹) کریمہ
 جوخاتون جو دوسخا اور کرم کرنے والی ہو اسے کریمہ کہتے ہیں۔، حضرت فاطمہ زہرا ؑ کی پوری زندگی انہی دو چیزوں یعنی جو دو سخا اور کرم میں گزرگئی، کوئی ایسا نہیں ہے جو آپ کی بخشش اور جودو سخا سے بے خبر ہو قرآن مجید کی بہت سی آیتیں ہیں جو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے کرم کو بیان کرتی ہیں، جن میں سے ہم بعض کو بطور نمونہ ذکر کررہے ہیں چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔ :
 لن تنالوا البر حتیٰ تنفقوا ما تحبون (سورہ آل عمران ، آیت ۹۲)
’’ یوثرون علی انفسھم و لوکان بھم خصاصۃ ‘‘ (سورہ حشر آیت ۹،)
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کریمہ اہل بیت ؑ ہیں۔ دین کے پیشواؤں کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تھی تو آپ حضرات فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے توسل کرتے تھے۔
حجرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے زیارت نامہ میں پڑھتے ہیں:
’’اللھم صلی علی السیدۃ المفقودۃ ’’ الکریمۃ‘‘ المحمودۃ الشہیدۃ العالیۃ الرشیدۃ ۔۔۔۔۔ ‘‘
خدایا! عورتوں کی سردار جن کی قبر پوشیدہ ہے اور وہ عظیم المرتبت و بہترین خاتون ہیں، ایسی خاتون کہ جو راہ حق میں شہید ہوئیں اور بلند ہمت اور رشیدہ ہیں ان پر درود و سلام بھیج۔
( بحار الانوار ، ج ۱۰۲، ص ۲۲۰، از عتیق غروی،)
(۳۰) کوثر
کوثر کثرت میں مبالغہ کے لئے استعمال ہوتا ہے، علامہ زمخشری بیان کرتے ہیں :
 کوثر اس چیز کو کہتے ہیں جس کی کثرت کا اندازہ نہ ہو۔ چنانچہ ایک بادیہ نشین عورت سے جس کا فرزند سفر پر گیا تھا کہا گیا : بم اب ابنک ؟ قالت : اب بکوثر ‘‘ تمہارا فرزند کیا لے کر آیا ہے؟
اس نے کہا : بے حساب فائدہ کے ساتھ پلٹا ہے۔
راغب اصفہانی بیان کرتے ہیں:
 کوثر یعنی کسی چیز کی انتہا ہوجانا۔
 علامہ طبرسی بیان کرتے ہیں:
 کوثر اس چیز کو کہتے ہیں کہ جس کی شان کثرت ( وزیادتی) ہو اور کوثر خیر کثیر ہے۔ (۲)
کوثر ایک صفت ہے جسے کثرت سے لیا گیا ہے اور اس کے معنیٰ بہت زیادہ خیر و برکت کے ہیں نیز سخاوت مند افراد کو بھی کہتے ہیں۔
’’انا اعطیناک الکوثر‘‘ ہم نے آپ کو کوثر  ( یعنی کثیر خیر و برکت) عطا کیا ’’فصل لربک وانحر ‘‘ پس اپنے پروردگار کیلئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے، ’’ ان شانئک ھوالابتر‘‘ بے شک آپ کا دشمن ابتر و بے نسل ہے۔
اس  سورہ مبارکہ کے شان نزول میں ہے کہ ’’ عاص بن وائل ‘‘ جو مشرکوں کا سرغنہ تھا اس نے پیغمبر اسلامؐ کو مسجد سے نکلتے ہوئے دیکھا اور کافی دیر آنحضرت ؐ سے بات چیت کی ، قریش کے بعض سرغنہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور اس کا منظر کا دور سے مشاہدہ کررہے تھے۔ جب عاص بن وائل مسجد میں داخل ہوا تو انہوں نے اس سے کہا : کس سے بات کررہے تھے؟ اس نے کہا : اس ابتر آدمی سے۔
پیغمبر اسلام ؐ کے فرزند عبد اللہ کا انتقال ہوچکا تھا اور عرب جس کے فرزند نہیں ہوتا تھا اسے ابتر و بے نسل کہتے تھے ، اسی بنا پر فرزند پیغمبر کے انتقال کے بعد قریش نے پیغمبر کو ابتر کہنا شروع کردیا۔ اسی مناسبت سے سورہ کوثر نازل ہوا جس میں پیغمبر کو کثیر نعمتوں اور کوثر کی بشارت دی گئی اور ان کے دمشنون کو ابتر کہا گیا۔
پیغمبر اسلامؐ کے حضرت خدیجہ کبریٰؑ سے دو فرزند تھے۔ ایک قاسم اور دوسرے طاہر ( کہ جسے عبد اللہ کہتے ہیں) دونوں کا انتقال مکہ میں ہوا۔ ان کے بعد پیغمبر اسلامؐ کے کوئی فرزند نہیںہوا، لہٰذا قریش آپ کو طعنہ دینے لگے اور آپ کے لئے لفظ ’’ابتر‘‘ کا انتخاب کیا۔ اگرچہ پیغمبر  اکرمؐ کے ۸ھ؁ مدینہ میں ماریہ قبطیہ سے ایک فرزند ہوا جس کا نام ابراہیم تھا مگر اس کا بھی دوسا ل سے پہلے ہی انتقال ہوگیا جس کے انتقال سے پیغمبر اسلام ؐ کو بہت صدمہ پہنچا۔
قریش اپنی عادت کے مطابق فرزند کیلئے بہت زیادہ اہمیت کے قائل تھے اور بیٹے کو باپ کے منصوبوں کا جاری و باقی رکھنے والا سمجھتے تھے ، اس بنا پر وہ سوچ رہے تھے کہ وفات پیغمبر ؐ کے بعد آپ کا مقصد فرزند نہ ہونے کی وجہ سے ختم ہوجائے گا اور اس سے وہ بہت خوش تھے۔
سورہ کوثر نازل ہوا اور خداوند عالم نے انہیں دندان شکن جواب دیا اور خبردی کہ دشمن ابتر رہیں گے اور اسلام و قرآن کا منصوبہ و مقصد منقطع نہیںہوگا۔ اس سورہ میں جو بشارت دی گئی ہے اس میں ایک طرف دشمنان اسلام پر سخت ضرب ہے اور دوسری طرف پیغمبرؐ کو تسلی دی گئی ہے۔( تفسیر نمونہ ، ج ۲۷، ص ۳۶۸، ۳۶۹،)
کوثر کے ’’خیر، کثر، و فراواں، بہت زیادہ مصادیق ہیں۔ (تفسیر فخر رازی)
 بہت سے شیعہ علماء حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے وجود مقدس کو کوثر کا بالکل روشن مصداق جانتے ہیں، کیونکہ آیہ کریمہ کے شان نزول میں بیان ہوا ہے کہ قریش ہمیشہ پیغمبرؐ پر طعنہ زنی کرتے تھے کہ ان کی نسل منقطع ہوجائے گی ، قرآن ان کی بات کی نفی کرتے ہوئے بیان کرتا ہے : ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا، اس تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خیر کثیر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہی ہیں۔ کیونکہ پیغمبر اسلام ؐ کی نسل انہی کے ذریعہ چلی ہے۔ آپ کے تمام مقاصد و اسلام کی حفاظت اور انسانوں کی ہدایت و تبلیغ کی اور یہ بات صرف اماموں ہی تک محدود نہ رہی بلکہ آپ کی نسل میں بہت سے علماء و فضلاء مصنفین و مولفین ، فقہا ، محدثین اور مفسرین گزرے ہیں جو بلند مرتبہ تھے اور انہوں نے ایثار و فدا کاری کے ساتھ مقاصد اسلام کی حفاظت کی۔
فخر رازی’’ کوثر‘‘ کی مختلف تفسیروں کے ضمن میں بیان کرتے ہیں : تیسرا قول یہ ہے کہ یہ سورہ ان لوگوں کی رز میں نازل ہوا جو پیغمبر اسلام ؐ کو اولاد نہ ہونے کی وجہ سے مقطوع النسل سمجھ رہے تھے لہٰذا اس سورۂ مبارکہ کے معنی یہ ہیں کہ : خداوند عالم انہیں ایک ایسی نسل عطا فرمائے گا جو طولانی زمانے تک باقی رہے گی۔ اہل بیتؑ کے بہت سے افراد شہید کردیئے گئے لیکن پھر بھی پوری دنیا میں آباد ہیں، حالانکہ بنی امیہ، جو اسلام کے دشمن تھے ان کی نسل میں کوئی قابل ذکر آدمی نہیں ہے اور آپ دیکھیں کہ ان میں کس درجہ بلند پایہ کے علماء ہیں۔ مثلاً ’’باقر‘‘ ’’ صادق‘‘ و ’’ رضا‘‘ اور نفس زکیہ ( نفس زکیہ حضرت امام حسن مجتبیٰ کے فرزند محمد بن ربد اللہ کا لقب ہے جس کی منصور دوانیقی کے ہاتھوں شہادت ہوئی)۔۔۔( ۲)
( تفسیر نمونہ ، ج ۲۷، ص ۲۷۵، ۲۷۶، نقل از تفسیر فخر رازی ، ج ۲۲، ص ۱۲۴۔)
علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں بیان کرتے ہیں:
کوثر جو پیغمبر اسلامؐ کو عطا کیا گیا اس سے مراد کثرت نسل اور ذریت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہے، پس کوثر سے مراد یا صرف ذریت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہے ، یا بہت زیادہ خیر مراد ہے کہ جس کے ضمن میں کثیر نسل پیغمبرؐ بھی ہے۔ کیونکہ اگر کثیر نسل پیغمبرؐ موجود نہ ہو تو آخری آیت ، ’’ ان شانئک ھو الابتر‘‘ آپ کا دشمن بے نسل و ابتر  رہے گا۔ بے معنیٰ ہوجائے گی۔ پس ضروری ہے کہ پہلی آیتیں نسل پیغمبرؐ سے متعلق ہوں تاکہ دشمن پیغمبرؐ کے ابتر ہونے کے معنیٰ کئے جاسکیں اور آیت بے معنیٰ نہ ہو۔ ( المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ۲۰، ص ۳۷۰،)
(۳۱)کوکب
کوکب یعنی روشن ستارہ ، روایت میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا روشن ستارہ سے تعارف کرایا گیا ہے جو عالمین کی عورتوں میں ستارہ کے مثل چمکتی ہیں۔
 حضرت امام صادق علیہ السلام اس آیت ’’ اللہ نور السمٰوٰت والارض مثل نورہ کمشکوٰۃ ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’فاطمۃ ’’کوکب‘‘ دُرِّیٌّ بین نساء ِ اھل الدنیا‘‘
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا دنیا وی عورتوں میں روشن ستارہ ہیں۔ ( اصول کافی ، ج، ۱ ص ،۱۹۵)
(۳۲)مبشّرہ
جو عورت خوشخبری دے اسے مبشرہ کہتے ہیں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اولیائے الٰہی کو خوشخبری دینے والی تھیں۔
 حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زیارت میں ’’مبشرۃ الاولیاء ‘‘ پڑھتے ہیں یعنی جو خاتون اپنے محبوں اور اولیا ء کو دنیا اور آخرت میں جہنم سے نجات کی بشارت دے۔ بعض علماء بیان کرتے ہیں کہ خداوند عالم اپنے اولیاء کو اس طرح کی خاتون کے وجود کی بشارت دیتا ہے۔ (بحار الانوار ، ج ۱۰۰ م ص ۹۹، از الاقبال ، ص ۱۰۰)
(۳۳) محمودہ
لائق تعریف خاتون کو محمودہ کہتے ہیں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا محمودہ ہیں جس طرح ان کے بابا محمود اور محمد ہیں۔
زیارت نامہ میں پڑھتے ہیں:
’’ اللھم صل علیٰ سیدۃ المفقودۃ الکریمۃ ‘‘
’’ المحمودۃ ‘‘ الشہیدۃ العالیۃ الرشیدۃ۔۔۔‘‘
 خدایا!عالمین کی عورتوں کی سردار جن کی قبر لوگوں سے پوشیدہ ہے، جو باکرامت، راہ حق میںشہید، تعریف کی جانے والی، بلند ہمت اور رشیدہ ہیں ان پر درود و سلام بھیج ۔ (بحار الانوار ،ج ۱۰۲، ص۲۲۰، از عتیق غروی)
(۳۴) مطہرہ
 مطہرہ بھی طاہرہ اور طیبہ کی طرح ہے جس کے معنیٰ پاکیزگی اور طہارت کے ہیں۔ بیان کیا گیا ہے۔ کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ظاہری اور باطنی طور پر پاک تھیں۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے غسل و کفن کے بارے میں فرماتے ہیں:
 ’’ واللہ لقد اخذت فی امرھا غسلتھا فی قمیصھا و لم اکشفہ عنھا فواللہ لقد کانت میمونۃ طاہرۃ مطھرۃ ‘‘
میں خدا کو گواہ قرار دے کر کہتا ہوں کہ میں نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو ان کے کپڑوں میں اسی حالت میں غسل دیا، آپ کا بدن پاک و صاف تھا، غسل کے بعد جو حنوط پیغمبرؐ سے بچا تھا وہ لگایا اور کفن میں رکھ دیا۔ جب میں کفن کے بند باندھنا چاہتا تھا تو میں نے آواز دی : ام کلثوم ! فضہ ! حسن و حسین !’’ تزودوا من امکم فھٰذا الفراق اللقاء فی الجنۃ ‘‘
آؤ اور اپنی مادر گرامی کے پاک و پاکیزہ وجود سے توشہ لے لو۔ اب تمہاری مادر گرامی کی جدائی کا وقت آ پہنچا اور اس کے بعد جنت میں دیدار ہوگا۔ (۱)
(۳۵) معصومہ
 جو خاتون گناہوں سے پاک ہو اسے معصومہ کہتے ہیں ، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا مقام عصمت پر فائز تھیں، آپ گناہوں ، خطاؤں اور غلطیوں حتیٰ سہو و نسیان سے بھی محفوظ تھیں۔
آپ کے زیارت نامہ میں پڑھتے ہیں:
 ’’ اللھم صل علیٰ سیدۃ المفقودۃ الکریمۃ المحمودۃ الشہیدۃ العالیۃ الرشیدۃ ، ام الائمۃ و سیدۃ النساء الامۃ بنت نبیک ، صاحبۃ ولیک سیدۃ النساء و وارثۃ سید الانبیاء و قرینۃ الاوصیاء ’’ المعصومۃ‘‘ من کل سوء صلاۃ طیبۃً مبارکۃً ۔۔۔۔۔۔‘‘
خدایا! عالمین کی عورتوں کی سردار جن کی قبر پوشیدہ ہے جو باکرامت ، لائق تعریف راہ حق میں شہید، بلند ہمت ، رشیدہ، دین کے پیشواؤں کی مادر گرامی ، امت کی عورتوں کی سردار، تیرے نبی کی بیٹی، تیرے ولی کی زوجہ، عورتوں کی سردار، وارث پیغمبرؐ ، حضرت امیر المومنین ؑ کی ہم پلہ و ہر برائی سے دور ہیں ان پر پاک اور مبارک درود و سلام بھیج ۔ (بحار الانوار ،ج ۱۰۲، ص،۲۲۰، از عتیق غروی)
(۳۶) ملہمہ
 جس خاتون پر خدا کی طرف سے الہام ہوتا ہے اسے ملہمہ کہتے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہر ا سلام اللہ علیہا پر بار ہا خدا کی طرف سے الہام ہوا، الہام عالم معنیٰ میں ارتباط اور درحقیقت وحی کی ہی ایک شاخ ہے۔
 حضرت امام کاظم علیہ السلام اپنے آباد و اجداد کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:  پیغمبر اسلامؐ نے روتے ہوئے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو سینے سے لگا کر کہا: ’’ موفقۃ رشیدۃ مھدیۃ ملھمۃ‘‘ آپ کا کامیاب اور رشیدہ خاتون ہیں جن پر خدا کی طرف سے الہام ہوا اور آپ اس کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں۔ (بحار الانوار ، ج ۲۲، ص ۴۹۲، اسی طرح ، ج ۸۱، ص۳۲۴)
(۳۷)ممتحنہ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا ایک لقب ممتحنہ ہے ، ممتحنہ اس خاتون کو کہتے ہیں جس کا امتحان لیا گیا ہو اور وہ اس میں کامیاب رہے ، ایک طائرانہ نظر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی امتحانی زندگی پر کرتے ہیں:
آپ کے زیارت نامہ میں پڑھتے ہیں:
 ’’یاممتحنۃ ‘‘ امتحنک اللہ الذی خلقک قبل ان یخلقک فوجدک لما امتحنک صابرۃ ‘‘
 اے وہ خاتون کہ جس کا خداوند عالم نے پیدا کرنے سے پہلے امتحان لیا اور امتحان میں ثابت قدم اور شکیبا پایا۔ (بحار الانوار ، ج ۱۰۰، ۱۹۴، التہذیب ، ج ۶،ص۹)
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے سر سے بچپنے ہی میں ماں کا سایہ اٹھ گیا ، آپ نے بابا کو خاک آلود سر اور زخمی پاؤں کے ساتھ گھر واپس آتے دیکھ کر صبر و تحمل کیا اور اس بنا پر آپ کے بابا نے آپ کو ’’ ام ابیھا ‘‘ کہا ، شب زفاف میں بے ماں کے شوہر کے گھر گئیں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے فرزند کی ولادت کے موقع پر شہادت کا منظر غصب ہونا، طمانچے کھانا، بازؤں پر تازیانہ کا ورم برداشت کرنا، مولا کورسی میں بندھا دیکھنا اور دیگر بہت سی مصیبتوں کا سامنا کرنا سختی اور امتحان کا نمونہ ہیں جنہیں آپ نے برداشت کیا پس ان تمام مصائب و آلام کو برداشت کرنے کے بعد حق ہے کہ ائمہ اطہار علیہم السلام آپ کو ممتحنہ کہہ کر خطاب کریں۔
’’ السلام علیک ایھتا الممتحنہ ‘‘ سلام ہو آپ پر اے وہ خاتون جس نے خدا کی بارگاہ میں امتحان دیا اور اس میں کامیابی حاصل کی۔ (بحارالانوار ،ج ۱۰۰، ص ۱۹۸، از مصباح الزائر ، ص ۲۵)
(۳۸) منصورہ
قیامت کے دن حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے محبوں کی مدد فرمائیں گی اور اگر آپ نے ہم ضرورت مند اور محتاجوں کا ہاتھ نہیں پکڑا تو ہم کس طرح آتش جہنم سے نجات پائیںگے۔ ؟
یعنی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہمیشہ اپنے محبوں اور پیروی کرنے والوں کی مدد فرمائیں گی۔
لوگوں نے ر سول اللہؐ سے پوچھا کہ آپ فرمارہے ہیں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ایک فرشتہ ہیں اور انسان بھی ہیں؟ آخر یہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا: جبرئیل علیہ السلام نے جنت سے ایک سیب لاکر مجھے ہدیہ دیا اور کہا : اے محمدؐ اس سیب کو تناول فرمالیجئے ، میں نے : اے میرے دوست، یہ سیب کس کی طرف سے ہدیہ ہے؟ اس نے کہا: حکم دیا گیا ہے کہ اسے کھالیجئے، پس میں نے اسے کاٹا تو اس سے ایک نور چمکا ، میں اس نور کو دیکھ کر حیران ہوگیا۔ جبرئیل نے کہا : کھالیجئے ’’ فان ذالک نور المنصورۃ فاطمۃ‘‘ یہ فاطمہ سلام اللہ علیہا منصورہ کا نور ہے، میں نے پوچھا : منصورہ کون ہے؟جبرئیل نے کہا: آپ کی بیٹی ہے کہ جن کا نام آسمانوں میں منصورہ اور زمین پر فاطمہ سلام اللہ علیہا ہے۔ انہیں آسمان میںمنصورہ اور زمین پر فاطمہ سلام اللہ علیہا کیوں کہتے ہیں؟ کہا: زمین پر فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں۔ کیونکہ ان کے شیعہ آتش جہنم سے نجات یافتہ ہیں اور ان کے دشمن ان کی محبت سے دور ہوگئے۔ اسی طرح اس آیہ کریمہ کی روشنی میں: ویومئذ یفرح المومنون بنصر اللہ‘‘ (سورہ روم آیت ۴و۵)آسمان میں انہیں منصورہ کہتے ہیں۔ (بحار الانوار ، ج ۴۳، ص ۱۸، از تفسیر فرات بن ابراہیم)
(۳۹) موفقہ
کسی نیک کام کو بجالانے کیلئے اس کے ذرائع فراہم ہوجانے کو توفیق کہتے ہیں۔ حضرت امام جواد علیہ السلام کی ایک روایت کے مطابق خدائی توفیق مومن کی ایک صفت ہے۔ (بحار الانوار ، ج ۷۸، ص ۳۷۸)
خدائی توفیق کا مطلب یہ ہے کہ خداوند عالم کسی نیک کام کو بجالانے کیلئے اس کے تمام لازم ذرائع فراہم کردے گا کہ بندہ کم وقت میں زیادہ خدمت انجام دے سکے اور زیادہ سے زیادہ اس کو اجر و ثواب حاصل ہو۔
یہ بات اہل علم و دانش کے درمیان اس طرح بیان ہوئی۔ ’’ التوفیق توجیہ اسباب الخیر نحو المطلوب‘‘ کسی ایک کام کو انجام دینے کیلئے ضروری اسباب کا فراہم ہونا تاکہ ہدف و مقصد تک پہنچا جاسکے۔ جس خاتون پر خدا نے عنایت فرمائی ہو اور اس کے واسطے کار خیر انجام دینے کے لئے اسباب فراہمکر دئے ہوں تو اسے موفقہ کہتے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی پوری زندگی میں توفیق الٰہی شامل ہے ، اس طرح کہ آپ پورے عالم میں نمونہ قرا ر پائیں۔،
حضرت پیغمبرؐ نے ایک روایت میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے فرمایا: موفقۃ رشیدۃ مھدیۃ ملھمۃ‘‘ آپ ایسی خاتون ہیں جنہیں توفیق الٰہی شامل ہے اور آپ رشیدہ ہیں کہ خدا کی طرف سے آپ کی ہدایت کی گئی ہے اور آپ پر الہام ہوتا ہے ۔(بحار الانوار ، ج۲۲، ص ۴۹۲، اسی طرح، ج۸۱، ص ۳۲۴)
 نیز اسی سلسلہ کی ایک روایت لقب’’ سعیدہ‘‘ میں گزرچکی ہے۔ ( الثاقب فی المناقب ، ص ۲۸۱، و۲۸۰، ابی محمد بن علی طوسی)
(۴۰)مہدیہ
 جس خاتون کی خدا کی طرف سے ہدایت کی گئی ہو اسے مہدیہ کہتے ہیں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا مہدیہ تھیں، یعنی خدا کی طرف سے آپ کی ہدایت کی گئی تھی اور خداوند عالم جس کی ہدایت فرماتا ہے وہ کبھی بھی گمراہ نہیں ہوسکتا۔
پیغمبر اسلام ؐ نے ایک روایت مین جو لقب رشیدہ میں گزر چکی ہے ۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے فرمایا: موفقۃ ،رشیدۃ مھدیۃ ، ملھمۃ ‘‘ آپ توفیق یافتہ اور رشیدہ ہیں جن کی خدا کی طرف سے ہدایت کی گئی ہے اور ااپ پر الہام ہوتا ہے۔ (بحار الانوار ، ج ۲۲، ص ۴۹۲، اسی طرح ، ج ۸۱، ص ۳۲۴)
(۴۱) مومنہ
 جو خاتون خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتی ہو اسے مومنہ کہتے ہیں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جس طرح خدا اور روز قیامت پر ایمان و اعتقاد رکھتی تھیں اسی طرح صداقت پیغمبر ؐ ؐ پر بھی ایمان رکھتی تھیں۔ سچ بولنا ، پیغمبرؐ کی ایک خاص پہچان ہے البتہ بعض فرقہ سچائی کو مقام پیغمبری کے لئے سزا وار نہیں جانتے۔ زیارت میں بعض جگہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا اس حیثیت سے تعارف کرایا گیاہے کہ آپ صداقت پیغمبر اسلامؐ پر ایمان و اعتقاد رکھتی تھیں۔
آپ کے زیارت نامہ میں اس طرح پڑھتے ہیں:
 ’’ السلام علیک و علی ولدک ورحمۃ اللہ و برکاتہ، اشھد انک الکفالۃ و ادیت الامانۃ و اجتھدت فی مرضاۃ اللہ و بالغت فی حفظ رسول اللہ عارفۃ بحقہ ’’مومنۃ‘‘ بصدقہ معترفۃ بنبوتہ‘‘ ( بحار الانوار ، ج ۱۰۰، ص ۲۱۸، از مصباح الزائر ، ص ۲۸ والمزار الکبیر، ص ۲۳)
(۴۲) ناعمہ
ناعمہ کے چند معنیٰ بیان کیے گئے ہیں: خوش و خرم اور بہرہ مند خاتون ، وہ خاتون جس کی زندگی خوشی کے ساتھ گزرے ، وہ خوشی جو رخسار پر نمایاں ہو۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا قیامت کے دن خوشحال چہرے کے ساتھ اپنے محبوں کے ہمراہ جنت کی طرف جائیں گی۔
’’ یا فاطمۃ ! والذی بعثنی بالحق لقد حرمت الجنۃ علی الخلائق حتیٰ ادخلھا وانک لاول خلق اللہ یدخلھا بعدی کاسیۃ حالیہ ’’ناعمۃ‘‘ یا فاطمۃ ھنیئا لک‘‘
اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، جنت میرے داخل ہونے سے پہلے دوسروں پر حرام ہے اور میرے بعد آپ وہ پہلی فرد ہیں جو جلالت و وقار اور زیوروں سے مزین خوش حالی کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گی۔ اے فاطمہ! آپ کو جنت مبارک ہو۔ (بحار الانوار ، ج ۲۲، ص ۴۹۰)
(۴۳) نقیہ
پاک دامن اور باعفت خاتون کو جو گناہوں سے دور ہو ’’نقیہ‘‘ کہتے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پاک دامن خاتون ہیں، آپ کے پردہ کی حد یہ تھی کہ نابینا سے پردہ کرتی تھیں ، اسی بنا پر آپ کی زیارت میںپڑھتے ہیں:
 السلام علیک ایتھا التقیۃ النقیۃ‘‘
 درود و سلام ہو آپ پر اے پاک دامن اور متقی وپرہیزگار خاتون۔ (بحار الانوار ، ج ۱۰۰، ص ۱۹۹، از الاقبال ، ص ۱۰۰)
(۴۴) والہہ
جو خاتون شدت رنج و غم یا خوشی سے حیران ہوجائے اسے والہہ کہتے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا ؑ وفات پیغمبرؐ کے بعد ہمیشہ سوگ مناتی رہیں ہیں یہاں تک کہ آپ شہید ہوگئیں۔
روایت میں بیان ہوا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فریاد کی:
’’ یا ابتاہ ! بقیت’’ والھۃ‘‘ وحیدۃ وحیرانۃ فریدۃ ۔۔۔۔۔‘‘
بابا جان ! میں تنہا ہوں اور غم بہت زیادہ ہیں، میں حیران و پریشان ہوں میری آواز بند اور کمرشکستہ ہوگئی، میری زندگی تباہ و برباد اور دن تاریک ہوگئے۔ (بحار الانوار ، ج ۴۳، ص ۱۷۴و ۱۷۶)
(۴۵) وحیدہ
وحیدہ کے معنی لغت میں یکتائی کے ہیں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا وفات پیغمبرؐ کے بعد تنہا اور بے ناصر و مددگار رہ گئی تھیںاس وجہ سے آپ کا لقب وحیدہ قرار پایا۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے بابا کے فراق میں گریہ و بکا کرتی تھیں اور کہتی تھیں:
بابا جان! میں تنہا ہوں اور غم بہت زیادہ ہیں، میں حیران و پریشان ہوں میری آواز بندہوگئی اور کمربستہ گئی، میری زندگی تباہ و برباد اور دن تاریک ہوگئے۔ ( بحار الانوار ، ج ۴۳، ص۱۷۴،و۱۷۶)
(۴۶تا ۸۰)بعض اہل علم کے نزدیک کچھ القاب
شہزادی کونین علیھا السلام کے بہت سے القاب احادیث و روایات کو سامنے رکھ کر علماء نے بھی بیان کیا جن کی تعداد بہت زیادہ ان میں سے بعض القاب یہ ہیں:یہاں پر صرف القاب کو بیان کیا جا رہا ہے،طوالت سے بچنے کے لئے اسباب کو کسی اور موقع موکول کیا جاتا ہے:
امینہ
 جلیلہ
 جمیلہ
 حانیہ
 حصانہ
 حکیمہ
 حنانہ
 درہ
 راوفہ
 رحیمہ
 زاہدہ
 سلیلہ
 سماویہ
 شریفہ
 شفیقہ
 صفیہ
 صوامہ
 عابدہ
 عالمہ
 عطوفہ
 عفیفہ
 عقیلہ
 فہیمہ
 قانتہ
 قانعہ
 قوامہ
 مجتہدہ
 ممتجبہ
 محترمہ
 محتشمہ
 مریم کبریٰ
 معظمہ
 مکرمہ
 منیرہ
 نوریہ۔
۸۱ تا ۱۴۲حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے القاب ابن شہر آشوب کے نزدیک
ابن شہر آشوب شیعوں کے ایک عظیم عالم گزرے ہیں، جنہوں نے اپنی عمر معارف اسلامی میں گزاردی ، چنانچہ آپ نے حضرت فاطمہ زہراؑ کی صفات بیان کی ہیں۔ جن میں سے ہم بعض کو یہاں بیان کررہے ہیں:
 ’’ قلنا الصدیقۃ بالاقوال
 والمبارکۃ بالاحوال
 والطاھرۃ بالافعال
 والزکیۃ بالعدالۃ
 الرضیۃ بالمقلۃ
 المرضیۃ بالدلالۃ
 والمحدثہ باشفقۃ
 والحرۃ بالنفقۃ
 والسیدۃ باصدقۃ
 و الحصان بالمکان
والبتول فی الزمان
والزھرا بالاحسان
مریم الکبریٰ فی الستر
 و فاطم باسر
 و فاطمۃ بالبر
 والنوریۃ بالشہادۃ
 والسماویۃ بالعبادۃ
 والحانیۃ ، باالزھادۃ
 والعذراء بالولادۃ
 الزاھدۃ الصفیۃ
 العابدۃ الرضیۃ
 المرضیۃ الراضیۃ
 المجتھدۃ الشریفۃ
 القانتۃ العفیفۃ
 سیدۃ النسوان
 والحبیبۃ حبیب الرحمن
 والمحتجبۃ عن خزان الجنان
 ابنۃ خیر المرسلین
 و قرۃ عین سیدہ الخلایق اجمعین
 وواسطۃ العقدین سیدات النساء العالمین
 و المتظلمۃ بین دی العرش یوم الدین
 ثمرۃ النبوۃ، و ام الائمۃ
 والزھرۃ فوائد شفیع الامۃ
 الزھراء المحترمۃ
 والغراء المحتشمۃ
 المکرمۃ تحت القبۃ الخضراء
و الانسیۃ الحوراء
 و البتول العذراء
ست النساء ( ای سیدتھن)
 وارثۃ سید الانبیاء
 و قرینۃ سید الاوصیاء
 الصدیقۃ الکبریٰ
راحۃ روح۱ المصطفی
 خاملۃ البلویٰ من غیر فزعٍ ولا شکوی
وصاحبۃ شجرۃ طوبیٰ
 و من انزل فی شانھا و شان زوجھا و اولادھا سورۃ ھل اتیٰ
 ابنۃ النبی
 و صاحبۃ الوصی
 ام السبطین
 وجدۃ الائمۃ
و سیدۃ نساء الدنیا و لآخرۃ
زوجۃ المرتضیٰ
 ووالدۃ المجتبی
 و ابنۃ المصطفی
 السیدۃ المفقودۃ
 الکریمۃ المظلومۃ من کل شر
 المعلومۃ بکل خیر
المنعونۃ فی الانجیل
الموصولۃ بالبر و التبجیل
 درۃ صاحب الوحی والتنزیل
 جدھا الخلیل
 و مادحھا الجلیل
 و خاطبھا المرتضیٰ بامر المولیٰ جبرئیل (فاطمہ زہرا بہجت قلب مصطفیٰ ، ج ۱، ص ۲۳، از المناقب ، ج ۳، ص ۳۵۷، و ۳۵۸)
۱۴۳تا ۱۷۹حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے القاب علامہ حلیؒ  کے نزدیک
 سلسلۃ النبوۃ
و رضیعۃ در الکرم الابوۃ
 و درۃ صدف الفخار،
 و غرۃ شمس النھار،
 و ذبالۃ مشکوٰۃ الانوار،
 و صفوۃ الشرف والجود ،
وواسطۃ قلادۃ الوجود،
نقطۃ دائرۃ المفاخر،
قمر ھالۃ المآثر،
 الزھرۃ الزھرا،
والغرۃ الغراء العالیۃ المحل ،
 الحالۃ فی رتبۃ العلاء السامیۃ ،
 المکانۃ المکینۃ فی عالم السماء المضیئۃ النور،
المنیرۃ الضیاء المستغینیۃ باسمھا عن حدھا ووسمھا،
قرۃ عین ابیھا،
 قرار قلب امھا،
 الحالیۃ بجواہر علاھا،
العاطلۃ من زخرف دنیاھا،
امۃ اللہ و سید النساء جمال الآباء
 و شرف الابناء یفخر آدم بمکانھا،
 و یبوح نوح بشدۃ شانھا ،
و یسمو ابراہیم بکونھا من نسلہ ،
 و ینجح اسماعیل علی اخوتہ ،
 اذ ھی فی مفخرا لا مغلب ،
 ولا یباریھا فی مجد الا مونب ،
 ولا یجحدحقھا الا مافون
ولا یصرف عنہ وجہ اخلاصہ الا مغبون۔ (کشف الغمہ ، ج۱، ص ۴۴۸)
آخر میں خدا وند عالم سے دعا ہے کہ ہمیں شہزادیٔ کونین کی معرفت اور ان کی سچی محبت ہمارے دلوں میں عطا فرمائے۔اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی اولادوں کے نام معصومینؑ کے ناموں پر رکھے تاکہ ان اسماء کی برکت سے ہم اہل بیت ؑ جیسے بن سکیں۔

قیام حسینی میں بعض خواص کا کردار

قیام حسینی میں بعض خواص کا کردار
سید محمد حسنین باقری

واقعہ کربلا کے سلسلے میں آغاز قیام سے اس وقت موجود افراد نے مختلف تجاویز پیش کیں سرکار سید الشہداؑ حضرت امام حسینؑ نے جب سے اپنے سفر کا اعلان کیا بہت سے افراد نے اپنے اپنے اعتبار سے امامؑ کو مشورے دئے اس میں خاندان کے افراد بھی تھے اور باہر کے بھی۔ بہت سے افراد نے اس تحریک کی مخالفت کی، امام حسینؑ کو روکنا چاہا اپنے اعتبار سے آئندہ آنے والے خطرات کی طرف متوجہ کیا ان افراد میں عوام و خواص ، موافق و مخالف سب تھے۔ اپنوں نے ہمدردی اور محبت میں امامؑ کو روکنا چاہا اور مخالفین نے یزید کی خوشنودی کیلئے اور اس کے خلاف کسی طرح کا قیام پیش نہ آئے اس لئے مخالفت کی۔ یہ تمام افراد امامؑ کی تحریک اور قیام کی حقیقت و واقعیت سے نا آشنائی اور عدم علم کی بنیاد پر اس کی مخالفت کررہے تھے ۔ اگر اس سلسلے میں امام خیر خواہ افراد کی بات مان لیتے تب بھی مخالفین کا منشا پورا ہوجاتا ۔ تاریخ میں اس طرح کے بہت سے افراد کا ذکر ملتا ہے ذیل میں کچھ مشہور اور خاص افراد کا ذکر کیا جارہا ہے۔ جنہوں نے مختلف طریقوں سے امامؑ کو قیام سے منصرف ہوجانے کی رائے دی ۔ سب کو امامؑ نے جواب دیا اور بعض کو اپنے قیام کے مقصد سے بھی آگاہ کیا۔
(۱) جناب ام سلمہ
 ام المومنین ام سلمہ کو جب امام حسینؑ کے سفر کی اطلاع ملی تو خدمت امامؑ میں پہنچ کر عرض کی: عراق کی جانب سفر کرکے مجھے رنجیدہ نہ کرو اس لئے کہ میں نے تمہارے نانا رسول خداؐ سے سنا ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’میرا بیٹا حسینؑ سر زمین عراق پر کربلا میں قتل کیا جائے گا‘‘۔
امام حسینؑ نے جواب دیا: اے نانی جان! میں بھی جانتا ہوں کہ دشمنان اسلام کی دشمنی اور کینہ کے نتیجے میں راہ خدا میں شہید کیا جاؤں گا اور یہ تو خدا چاہتا ہے کہ میرے اہل بیتؑ اسیر ہوں اور میرے بچے شہادت کو گلے لگائیں۔(۱)
(۲)محمد بن حنفیہ
امیر المومنینؑ کے بیٹے اور امام حسینؑ کے بھائی جناب محمد بن حنفیہ امام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: اے بھائی آپؑ میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ عزیز ہیں۔ اور میں جو کچھ خیر و صلاح پاتا ہوں ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ سے بیان کروں وہ یہ کہ آپ شہر مکہ تشریف لیجائیں اگر اس شہر میں امن و سکون نہ ہو تو صحراء و بیابان کے راستے ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کریں یہاں تک کہ لوگوں کے حالات اور آئندہ سے مطمئن ہوجائیں۔ امام حسینؑ نے جواب دیا:
’’یا اخی لولم یکن فی الدنیا ملجاء ولا ماوی لما بایعتُ یزید بن معاویۃ‘‘
اے برادر! اگر پوری دنیا میں بھی میرے لئے کوئی پناہ باقی نہ بچے تب بھی یزید کی بیعت نہیںکروں گا۔
محمد بن حنفیہ مکہ میں بھی امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : اے برادر! آپ تو اپنے بابا حضرت علیؑ اور بھائی امام حسنؑ کے سلسلے میں کوفہ والوں کی بے وفائی دیکھ چکے ہیں۔ مجھے خوف ہے کہیں یہ لوگ آپ سے بھی بے وفائی نہ کریں۔ لہٰذا بہتر ہے کہ آپ عراق کی جانب سفر نہ کریں اور اس شہر مکہ میں قیام کریں اس لئے کہ آپ اس شہر اور حرم خدا میں دوسروں سے زیادہ قابل احترام ہیں۔
امامؑ نے جواب دیا: خوف یہ ہے کہ یزید مجھے مکرو حیلہ کے ذریعہ حرم خدا میں قتل کروادے جس کی وجہ سے حرم الٰہی کی حرمت پائمال ہوجائے۔ محمد بن حنفیہ نے تجویز پیش کی کہ پس اس صورت میں بہتر ہے کہ آپ عراق کے بجائے یمن یا کسی دوسرے محفوظ علاقہ کی طرف چلے جائیں۔ امامؑ نے فرمایا: تمہاری تجویز پر غور کروں گا۔‘‘
 امام حسینؑ نے اسی رات سحر کے وقت عراق کی جانب کوچ کیا جب محمد بن حنفیہ کو امامؑ کے آغاز سفر کی اطلاع ملی فوراً خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا : آپ نے تو فرمایا تھا کہ میری تجویز پر غور کروں گا؟ امامؑ نے جواب دیا: بلی ولکن بعد ما فارقتک اتانی رسول اللہ ۔ وقال: یا حسین اخرج فان اللہ تعالیٰ شائَ ان یراک قتیلا۔۔۔۔۔۔۔۔ و قد شاء ان یراھن سبایا ۔ ہاں صحیح ہے لیکن تمہارے جانے کے بعد میں نے رسول اللہؐ کو خواب میں دیکھا آپؐ نے فرمایا: اے حسینؑ سفر اختیار کرو، اس لئے کہ وہ چاہتا ہے تم کو مقتول دیکھے اور تمہارے اہل بیتؑ اسیر ہوں ۔(۲)
(۳) عبد اللہ بن جعفر
امام حسینؑ کو عراق کے سفر سے منصرف ہونے کی رائے دینے والوں میں عبد اللہ بن جعفر بھی تھے۔ یہ حضرت زینبؐ کے شوہر اور امامؑ کے چچا زاد بھائی تھے۔ انہوں نے امام حسینؑ کے کوچ کرنے کے بعد اپنے دو بیٹوں عون و محمد کو امامؑ کی خدمت میں بھیجا اور ان کے ذریعہ روانہ کر دہ خط میں یہ تجویز رکھی: جو سفر آپ نے اختیار کیا ہے اس کو ترک کرکے مکہ واپس آجائیے اس لئے کہ مجھے خوف ہے آپ اس سفر میں قتل کردیئے جائیں ۔ آپ کے بچے قیدی بنالیئے جائیں اور آپ کے قتل کی وجہ سے نور اسلام خاموش ہوجائے۔
 عبد اللہ بن جعفر نے خط بھیجنے کے بعد عمر بن سعید سے ملاقات کی جو یزید کی طرف سے ولید کی جگہ پر مدینہ کا والی مقرر ہوا تھا اور حاجیوں کے سرپرست کی حیثیت سے اور در حقیقت امام ؑ کو قتل کرنے کیلئے مکہ میں موجود تھا۔ عبد اللہ نے اس سے امام حسینؑ کیلئے امان نامہ لیا اور یحییٰ بن سعید کے ذریعہ مکہ سے باہر امامؑ تک پہنچایا۔ حضرتؑ نے دونوں خطوط کے جواب میں فرمایا:
انی رایتُ رؤیا فیھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وأُمرتُ فیھا بامرٍ انا ماضٍ لہ علی کان اولی۔۔۔۔۔۔۔ ما حدّثتُ احداً بھا وما انا مُحدّثٌ بھا حتی القی ربّی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فخیر الامانِ امانُ اللہ و لن یومنَ اللہَ یومَ القیامۃ من لم یخفہ فی الدنیا
میں نے رسول خداؐ کو خواب میں دیکھا ہے ۔ آپؐ نے مجھے ایک اہم کام سپر د فرمایا ہے جسے انجام دینا ضروری ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے اس خواب کے بارے میں کسی سے نہیں بتایا ہے اور جب تک زندہ ہوں کسی سے نہیں کہوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوربہترین امان خدا کی امان ہے اور اگر کوئی دنیا میں خوف خدا نہ رکھے تو آخرت میں امان میں نہیں ہوگا۔ (۳)
(۴) عبد اللہ بن عباس
امام حسینؑ کو سفر سے منصرف ہونے کی رائے دینے والوں میں سے ایک آپ کے چچازاد بھائی عبد اللہ بن عباس تھے۔ عبد اللہ بن عباس مکہ میں امام ؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہتے ہیں۔ اے چچا کے بیٹے ! اس بات سے خوف زدہ ہوں کہ جو سفر آپ نے اختیار کیا ہے اس میں قتل نہ کردئے جائیں اور آپ کے دشمنوں کے ہاتھوں آپ کے بچے اسیر کرلیئے جائیں اس لئے کہ عراق کے لوگ عہد شکن ہیں۔ ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ مکہ ہی میں قیام کیجئے اور اگر مکہ سے نکلنا ضروری سمجھتے ہیں تو یمن کی جانب چلے جائیں۔ امام ؑ نے جواب دیا:
’’یا بن العمّ انی واللہ لَاَعْلم انّک ناصحٌ مشفق و قد ازمعتُ علی المسیر۔۔۔۔۔ واللہ لا یدعونی حتیٰ یستخرجوا ھٰذہ العلقۃ من جوفی فاذا فعلوا سلّط اللہ علیہم من یُذلّھم حتی یکونوا اَذلّ من فرام المرأۃ‘‘
اے ابن عم میں جانتاہوں کہ آپ بھلائی و مہربانی اور محبت میں یہ رائے دے رہے ہیں لیکن میں نے عراق کی طرف سفر کا فیصلہ کرلیا ہے خدا کی قسم جب تک یہ لوگ میرا خون نہ بہالیں مجھ سے دست بردار ہونے والے نہیں ہیں اور جب اس جرم کے مرتکب ہوں گے تو خدا وند عالم ان پر ایسے شخص کو مسلط کرے گا جو انہیں بری طرح ذلیل و رسوا کرے گا ۔ (۴)
(۵) عبد اللہ بن زبیر
جن لوگوں نے امامؑ حسینؑ کو عراق کے سفر سے باز رہنے کی تجویز پیش کی ان میںسے عبد اللہ بن زبیر بھی تھے ۔ جو خود بھی حکومت یزید کے مخالفین میں شمار ہوتے اور مدینہ سے مکہ فرار کیا تھا۔ امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہتے ہیں: اگر میں بھی عراق میں آپ کے چاہنے والوں کی طرح افراد رکھتا تو ہر جگہ پر عراق کو ترجیح دیتا۔ لیکن پھر بھی اگر آپ مکہ میں قیام پذیر رہیں اور مسلمانوں کی امامت کو سنبھالیں تو میں بھی آپ کی بیعت کرلوں گا۔ امام حسینؑ نے ابن زبیر کو جواب دیا:
ان ابی حدثنی انّ بمکّۃ کبشاً بہ تُستحلّ حرمتُھا فما احبُّ ان اکونَ ذالک الکبش ولئن اقتل خارجاً منھا بشبرٍ احبّ الیّ من ان اقتل فیھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا بنَ الزبیر لئن ادفن بشاطی ئِ الفرات احب الیّ من ان ادفن بفناء الکعبۃ‘‘۔
میرے بابا نے مجھے خبر دی ہے کہ مکہ میں ایک بکری کی وجہ سے اس شہر کی بے احترامی ہوگی۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ بکری میں قرار پاؤں۔ مکہ سے ایک بالشت باہر قتل ہونا میرے لئے مکہ کے اندر قتل یونے سے بہتر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے زبیر کے بیٹے! فرات کے کنارے دفن ہونا میرے لئے بہتر ہے کعبہ میں دفن ہونے سے۔ (۵)
(۶) عبد اللہ بن عمر
عمرہ کی غرض سے مکہ میں تھے امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا میرے رائے ہے کہ آپ بھی تمام لوگوں کی طرح بیعت اور صلح کا راستہ اختیار کیجئے اور مسلمانوں کے خون بہنے سے بچئے۔ امام حسینؑ نے اس کے جواب میں پیغمبروں پر بنی اسرائیل کے مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :
’’ اتق اللہ یا ابا عبد الرحمن ولا تدعنّ نصرتی‘‘
ابو عبد الرحمن خدا سے ڈرو اور ہماری مدد و نصرت سے منھ نہ موڑو۔(۶)
(۷) فرزدق
جن لوگوںنے امام ؑ کو عراق کے سفر سے منصرف ہوجانے کی تجویز پیش کی ان میں عرب کے مشہور شاعر فرزدق بھی ہیں۔ فرزدق اپنی ماں کے ساتھ عازم مکہ تھے۔ مکہ کے نزدیک امامؑ کے قافلے سے روبرو ہوئے امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر مکہ سے نکلنے کی وجہ پوچھی۔ حضرتؑ نے جواب دیا۔’’ لولم اعجل لا خذت‘‘ اگر میں مکہ سے خارج ہونے میں جلدی نہ کرتا مجھے گرفتار کرلیتے۔ پھر امامؑ نے عراق کے لوگوں کے بارے میں دریافت کیا۔ فرزدق نے امامؑ کے جواب میں کہا :’’قلوب الناس معک و سیوفھم علیک‘‘ لوگوں نے دل آپؑ کے ساتھ ہیں لیکن ان کی تلواریں آپؑ کے خلاف ہیں۔ مقدرات کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے جس طرح چاہتا ہے انجام دیتا ہے۔
امام حسینؑ نے بھی جواب میں فرمایا:
صدقتَ للّہ الامرُ و کلَّ یوم ھو فی شأنٍ ان نزل القضاء بما نحب و نرضی فنَحمد اللہ علی نعمائہ و ھو المستعان علی اداء الشکر و ان حال القضائُ دون الرجاء فلم یتعد من کان الحق نیتہ والتقویٰ سریرتہ ۔ (۷)
فرزدق ! تم نے سچ کہا ، مقدرات خدا کے ہاتھ میں ہیں ہر دن اس کی شان جدا گانہ ہے۔ اگر فیصلے مرضی اور پسند کے مطابق ہوں تو خدائی نعمتوں پر شکر گزار ہوں وہی شکر ادا کرنے میں بھی مدد کرنے والا ہے ۔ اور اگر حوادث و واقعات مرضی کے مطابق نہ ہوں پھر بھی جس کی نیت حق ہے اورتقویٰ جس کی دل پر حکومت کرے وہ حق کے راستے سے خارج نہیں ہوا ہے۔ (۸)
(۸) مروان بن حکم
۶۰ھ؁ میں جب معاویہ دنیا سے رخصت ہوا۔ یزید تخت خلافت پر بیٹھا تو فوراً خطوط کے ذریعہ مختلف علاقوں میں والیوں اور حاکموں کو ان کے مقام پر باقی رکھتے ہوئے حکم دیا کہ لوگوں سے بیعت لیں۔ اور ایک خط والی مدینہ ولید کو لکھا اور اس کو حکم دیا کہ تین مشہور شخصیتوں یعنی حسین ابن علیؑ، عبد اللہ بن زبیر، اور عبد اللہ ابن عمر سے بیعت لینے میں جلد کرے۔ خط ملتے ہی ولید نے مروان بن حکم (معاویہ کے زمانے کا والی مدینہ) سے مشورہ کیا اور ان تینوں افراد کو گفتگو کے لئے دعوت دی۔
 جب امامؑ حاضر ہوئے تو ولید نے معاویہ کی خبر دے کر یزید کی بیعت کا مطالبہ کیا۔ امامؑ اس وقت بیعت کے راضی نہ ہوئے اور فرمایا:
تنہائی میں بیعت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ولید نے امامؑ کی بات مان لی اور اس شب بیعت لینے کے لئے کوئی اصرار نہیں کیا۔ لیکن مروان نے اشارہ سے ولید سے کہا کہ اگر اس شب حسینؑ سے بیعت نہ لی تو پھر کبھی بھی بیعت نہیں لے سکتا یا یہ کہ بہت زیادہ خون خرابہ ہو لہٰذا بہتر یہی ہے ان سے اسی وقت بیعت لے لے یا یزید کے حکم کے مطابق سر تن سے جدا کرکے۔ امام حسینؑ نے مروان کو مخاطب قرار دیتے ہوئے سخت لہجے میں جواب دیا: یابن الزرقاء انت تقتلنی ام ھو کذبت و اثمت ‘‘ اے زرقا کے بیٹے! تو مجھے قتل کرے گا یا ولید؟ تو جھوٹا اور گنہ گار ہے۔ مروان جو خاندان نبوت و رسالت سے دیرینہ دشمنی رکھتا ہے اور معاویہ کا سابق والیٔ مدینہ تھا ۔ امام حسینؑ سے کہتا ہے:اے ابو عبد اللہ میں آپ کا خیر خواہ ہوں۔ میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ یزید کی بیعت کرلیجئے ۔ یہ کام آپ کے دین و دنیا کے لئے مفید ہے۔
 امام حسینؑ نے اس کو جواب دیا: وعلی الاسلام السلام اذ قد بلیت الامۃ براع مثل یزید
ایسے اسلام پر سلام اس لئے کہ لوگ یزید جیسے انسان کی حکمرانی میں گرفتار ہوگئے ہیں۔ (۹)
ان کے علاوہ بھی بعض دوسرے افراد نے اس تحریک کی مخالفت کی ، امام کے سامنے اپنے دلائل پیش کئے لیکن امامؑ نے مشیت الہی کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اس تحریک کو زندۂ جاوید بنادیا اور حفاظت اسلام پر مہر ثبت کردی۔

۱۔ سخنان حسین بن علی از مدینہ تا کربلا ،صفحہ ۹۲۔ ۲۔سخنان حسین ۔۔۔،ا صفحہ ۳۲۔ ۳۔ سخنان ۔۔۔،۔ صفحہ ۷۹۔۷۴۔ ۴۔سخنان ۔۔۔،۔صفحہ ۷۱؛ کامل ابن اثیر ۴/۳۷۔
۵۔ سخنان۔۔۔۔،ص ۷۹۔۷۴۔ ۶۔سخنان۔۔۔۔،ص۴۴ ۷۔کامل ابن اثیر جلد ۴، صفحہ ۴۰۔ ۸۔سخنان ۔۔،۔ صفحہ ۱۰۰ ۔۹۷۔ ۹۔سخنان ۔۔۔،صفحہ ۱۸؛ کامل ابن اثیر ۴ ۔ ۱۴،(بنقل از ’رہ توشہ راہیان نورج۱،ص۸۱)۔


imam e hasan a. امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام

 امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام
 اور
                       آپؑ کی مظلومیت
                                                              سید محمدحسنین باقری جوراسی
             ۲۸؍صفروہ مصیبت کی تاریخ ہے جس دن ہم دومعصوموںسے محروم ہوئے ایک طرف رحمت اللعالمین حضرت محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی رحلت اوردوسری طرف آپ ؐکے نواسے،علی ؑو فاطمہ ؑکے نور نظر ،شیعوں کے دوسرے امام ،حضرت امام حسن مجتبیٰؑ نے بھی اسی دن معاویہ کے ذریعہ دیے گئے زہرسے شہادت پائی،لہذااسی مناسبت سے ہم ذیل میںامام مجتبیؑ کی شخصیت کے بارے میںحضرت آیۃاﷲسبحانی کے تحریرکردہ مقالہ سے بعض مطالب کا ترجمہ پیش کررہے ہیں:
        امام حسن علیہ السلام نے ۱۵؍رمضان المبارک ۳ھ؁ جمعہ  ۲؍مارچ ۶۲۵؁ء کواپنے وجود پر نور سے اس دنیا کو منور فرمایا۔آپکے القاب :مجتبیٰ وزکی وغیرہ اورکنیت ابومحمدتھی ۔امام حسن ؑ کی ذات گرامی فضائل و کمالات کا نمونۂ کامل تھی ۔یہاں ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں آپؑ کی شخصیت پر بطور اختصار روشنی ڈالتے ہیں۔اورآخرمیںآپؑ کی مظلومیتوںمیںسے ایک مظلومیت کوبیان کریںگے یعنی معاویہ کے ذریعے دلوائے گئے زہرسے شہادت کاانکارجومسلمات تاریخ میںسے ہے اوراسکاہدف سوائے اسکے کچھ نہیںکہ امامؑ کی شخصیت کومجروح کرتے ہوئے آپؑ کی اہمیت کوکم کیاجائے اورخطاکاروقاتل ،معاویہ کے دامن سے اس دھبہ کومٹایاجائے۔
امام حسنؑ قرآن کی نگاہ میں:
    الف:۔امام حسنؑ پیغمبرؐ کے فرزند ہیں :۔نصارائے نجران کے ساتھ مباہلہ کے سلسلے میں پیغمبرؐ کو حکم ہوا کہ ان کو مباہلہ کی دعوت دیں قرآن آپؐ کو حکم دیتا ہے کہ ان سے کہیں:
’’تعالوا ندع ابنائنا و ابنائکم ونسائنا و نسائکم و انفسنا و انفسکم ثم نبتھل۔۔۔(سورۂ آل عمران /۶۱)
(آؤ ہم اپنے بیٹوں کوبلائیں تم اپنے بیٹوںکو اور ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اور تم اپنی عورتوںکو اور ہم اپنی جانوں کوبلائیں اور تم اپنی جانوں کو) ۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ؐنے اپنے دونوں جگر کے ٹکڑوں یعنی امام حسنؑ اور امام حسینؑ اور اپنی بیٹی جناب فاطمہ زہرائؑ اور اپنے چچا زاد بھائی حضرت علیؑ کے ساتھ مباہلہ کے میدان میں قدم رکھا۔اس سے پتا چلتا ہے کہ امام حسن مجتبیٰؑ ’’ابنائنا‘‘کا مصداق ہیں یعنی پیغمبرؐ کے فرزند ہیں ۔
    ب:۔امام حسن ؑ کی محبت اجر رسالت ہے :۔قرآن پیغمبرؐ کو حکم دیتا ہے کہ لوگوں سے کہیں:
’’قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربیٰ‘‘(سورہ ٔشوریٰ /۲۳)
(اے رسول تم کہہ دو کہ میں اس تبلیغ رسالت کا اپنے قرابت داروں (اہلبیتؑ) کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نہیںمانگتا۔)                                       ’’القربیٰ‘‘ (قربتدار)سے مراد پیغمبرؐ کے قرابتدار ہیں :گویا: القربیٰ میں’’ال‘‘ مضاف الیہ کے بدلے میں ہے یعنی تقدیرآیت اس طرح ہے:           ’’الا المودۃ فی القربای ‘‘
اگر کوئی یہ کہے کہ یہاں مراد ہے: ’’اجررسالت یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں سے محبت کرو نہ کہ پیغمبرؐ کے رشتہ داروں سے‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ: کلمۂ ’’القربیٰ‘‘قرآن میں ۱۶ ؍مرتبہ استعمال ہوا ہے اور اس میں کبھی اس سے مراد انسانوں کے رشتہ دار ہیں اور کبھی پیغمبرؐ کے ۔اب ان دونوں معنیٰ کو معین کرنا فعل سے یا ان قرائن سے تعلق رکھتا ہے جو مقصود و مراد کو معین کرتے ہیں مثال کے طور پر یہاں پر کہا ہے :
’’و اذا حضر القسمۃاولواالقربیٰ والیتٰمیٰ وا لمساکین فارزقوھم ‘‘(سورہ نساء /۸)
(اور جب ترکہ کی تقسیم کے وقت وہ قرابتدار جن کا کوئی حصہ نہیں اور یتیم بچے اور محتاج لوگ آجائیں تو ان کو بھی اس میں سے دے دو ۔)
یہاں قربیٰ سے مراد میت کے رشتہ دار ہیں،اب جو بھی ہوں؛ چونکہ موضوع سخن میت کے اموال کی تقسیم ہے۔ لیکن جہاں پر پیغمبرؐ سے خطاب ہے وہاں فطری طور پر آپ ؐکے رشتہ دار مراد ہیں اور اس آیت میں ارشاد ہے’’قل لا اسئلکم علیہ اجرا  ۔۔۔‘‘اور دوسری آیت میں ارشاد ہے ’’وآت ذا القربیٰ حقہ۔۔۔‘‘( سورۂ بنی اسرائیل؍ ۲۶)اور قرابتداروں کو ان کا حق دے دو ۔اب چونکہ دونوں آیتوں میں پیغمبر ؐسے خطاب ہے لہذا یقینی طور پر آپؐ کے قرابتدار ہی مراد ہیں۔اور امام حسن، ؑ پیغبرؐ کے قرابتدار ہیں لہذا ٓپؑ کی محبت اجر رسالت ہے۔
    ج:۔ امام حسنؑ کی عصمت و طہارت:۔قرآن کر یم ،اہلبیت ؑ کی عصمت وطہارت کی تصریح کر رہا ہے ،بیان ہو رہا ہے :ـ
’’انما یرید اللہ لیذھب عنکم الر جس اھل البیت ؑو یطہرکم تطھیرا ‘‘(سورۂ احزاب ـ: ۳۳)
(ا ے پیغمبرؐ کے اہلبیتؑ ،خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو ہر طرح کی برائی سے دور رکھے اور جو پاک وپاکیز ہ  رکھنے کاحق ہے ویسا پاک وپاکیزہ رکھے۔)                                                                                     یہا ں اہلبیتؑ سے مراد یہی پنجتن پاکؑ ہیں جن کو پیغمبرؐ نے کساء کے نیچے قرار دے کر فرمایا :
             ’’ اللھمّ انّ لکلّ نبی اھلبیت وھٰؤلاء اھل بیتی ‘‘  (پروردگارا ہر پیغمبرؐ کے اہل بیتؑ ہیں اور یہ میرے اھلبیتؑ ہیں)
اس بیت سے مراد اینٹے و سمینٹ کا گھر نہیںہے بلکہ وحی و رسالت کا گھر مرادہے اور اہل سے مراد وہ لوگ ہیںجو اس گھر کے ساتھ معنوی تعلق رکھتے ہیں۔ اور یہاں پیغمبر کی بیویاں مراد نہیں ہیںاس لئے کہ جہاں پر قرآن مجید پیغمبر ؐکی بیویوں کے سلسلے میں گفتگو کرتا ہے وہاں لفظ ’’بیت‘‘کو جمع کی صورت میں استعمال کر تا ہے اور ارشاد ہوتا ہے :’’و قرن فی بیوتکن۔۔۔‘‘(سورۂ احزاب /۳۳)اے نبی کی بی بیوں اپنے گھروں میں بیٹھی رہو۔’’واذکرن ما یتلیٰ فی بیوتکن۔۔۔‘‘(احزاب/ ۳۴ )جبکہ زیر بحث آیت میں بیت ، مفرد کی صورت میں استعمال ہوا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ گھران گھر وں کے علا و ہ ہے اور اس گھر کے رہنے والے ان گھر وں کے رہنے والوں کے علاوہ ہیں ـ۔
     د:۔ سورہ ٔدہراورامام حسنؑ:۔مفسرین کی تصدیق کے مطا بق سورہ دہر (جسے سورہ انسان یا سورہ ھل أتیٰ بھی کہا جاتا ہے )کی بعض آیتیں پیغمبرؐاسلام کی بیٹی اور ان کے شوہر اور دو جگر کے ٹکڑوں حسنؑ وحسینؑ کے بارے میںنازل ہوئی ہیںخداوندعالم ان کی کی ہوئی نذر کو انجام دینے کی وجہ سے اس طرح  توصیف فرمارہاہے  :
’’یوفون بالنذر و یخافون یوما کان شرہ مستطیرا و یطعمون الطعام علیٰ حبہ مسکینا و یتیما واسیرا‘‘ (سورۂ دہر / ۷۔۸)
( وہ لوگ جو نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے جس کی سختی ہر طرف پھیلی ہوگی ڈرتے ہیں اور اس کی محبت میں محتاج اور یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔)
امام حسن ؑاحادیث کی روشنی میں:                                                                                                                   ۱:۔ابن مسعود اور ابو ہریرہ کا بیان ہے :ہم نے رسول ؐخدا کو دیکھا کہ حسن ؑو حسین ؑکو اپنے دونوں کاندھوںپر سوار کئے کبھی حسنؑ اور کبھی حسینؑ کو چومتے ہیں ۔ ایک شخص نے پوچھا:کیا آپ ان دونوں سے محبت کرتے ہیں!فرمایا:’’من احب الحسنؑ والحسینؑ   فقد احبنی ومن ابغضھما فقد ابغضنی‘‘                                                                                          (مسند احمد حنبل ج۲،ص۵۳۱و۵۳۲؛مستدرک حاکم نیشاپوری،ج۳،ص۱۷۱)
(جس نے حسنؑ و حسین ؑسے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی۔)
         ۲:۔ابو سعید خدری اور ابن عباس و حذیفہ نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر ؐنے فرمایا:’’الحسن ؑو الحسینؑ سیدا شباب اہل الجنۃ‘‘(مسند احمد حنبل ،ج۳، ص:۶۲و ۶۳تھذیب الکمال ج۶ ،ص۲۲۹)    (حسنؑ و حسینؑ جوانان جنت کے سردار ہیں۔)
۳:۔عبد اللہ شبراوی اپنی کتاب الاتحاف بحب الاشراف  میں امیر المومنینؑ سے ایک مفصل حدیث نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر ؐنے امام حسنؑ ؑو امام حسینؑ کو خطاب کرکے فرمایا:’’انتما الامامان و لأ مّکماالشفاعۃ‘‘     (  الاتحاف بحب الاشراف ص۱۲۹)
(تم دونوں امت کے پیشوا اور امام ہو اور تمہاری ماں حق شفاعت رکھتی ہیں۔)
۴:۔ابن شہر آشوب پیغمبرؐاکرم سے نقل کرتے ہیںکہ آپ نے فرمایا:’’الحسن ؑو الحسینؑ امامان،قاما او قعدا‘‘                                                                                                                                                                                                            (  مناقب ابن شہر آشوب،ج۳ ،ص۳۶۸)                               (حسنؑ و حسینؑ امت کے دو امام اور پیشوا ہیں چاہے قیام کریں یا خانہ نشین ہوں۔)
 امام حسن علیہ السلام کی مظلومیت
      اب یہاںپرامام حسنؑ کی ایک مظلومیت بیان کی جاتی ہے،اگرچہ تمام ائمہ ہمیشہ مظلوم رہے چاہے انکی حیات کازمانہ ہویاشہادت کے بعدکا،ہردورمیں ان پرہرطرح کے ظلم ڈھائے گئے۔ہمیشہ ائمہؑ کی شخصیت کومجروح کرنے کی ناکام کوششیںہوتی رہیں،ہرطریقے سے انکونقصان پہونچانے یاان پرالزام لگانے کے حربے استعمال ہوتے رہے۔امام حسنؑ کی دوسری مظلومیتوںکے ساتھ ایک مظلومیت یہ بھی رہی کہ معاویہ کے ذریعے دلوائے گئے زہرسے آپؑ کی شہادت کوطبیعی موت کے طورپرپیش کیاگیاتاکہ معاویہ کے جرم پرپردہ ڈالاجاسکے جبکہ یہ واقعہ تاریخ کے مسلمات میںسے ہے کہ آپؑ کی شہادت اس زہرکے ذریعہ ہوئی جسے معاویہ نے جعدہ بنت اشعث کے ذریعے دلوایا۔اورحقیقت پرپردہ ڈالنے کی کوشش اورمجرم کی تطہیرآٹھویںصدی ہجری سے شروع ہوئی۔ہم یہاںپربعض ایسے متعصب اورمسموم مصنفین کی طرف اشارہ کررہے ہیںجنھوںنے یہ کام انجام دیا۔
    ۱۔ابن خلدون(متوفی۸۰۸ھ؁)وہ پہلاشخص ہے جس کومشرق اسلامی اورتاریخی مآخذسے دوری اورسرزمین مصرومغرب پرفاطمی حکومتوںسے دشمنی کی بناء پرمعاویہ کی تطہیرکی فکرہوئی ۔وہ کہتاہے:ومایُنقل من أنّ معاویۃدسّ إلیہ السّمَّ من زوجتہ جَعدۃبنت الاشعث،فھومن أحادیث الشیعۃ،و حاشالمعاویۃمن ذلک (ابن خلدون،کتاب العبر،ج۲،ص۱۸۷)(اوریہ جوکہاجاتاہے کہ معاویہ نے امام حسنؑ کوانکی زوجہ جعدہ بنت اشعث کے ذریعے زہردلوایاتویہ صرف شیعوںکاکہناہے اورمعاویہ کادامن اس نسبت سے پاک ہے۔      )                                                                                            
  ۲۔ابن خلدون کے بعددوسروںنے اس بات کوصحیح جانااور مسیحیوںکے ذریعے لکھی گئی اسلامی انسائیکلوپیڈیامیںاس طرح بیان ہواہے:’’وتوفی الحسن فيالمدینۃبذات الرئۃوربماکان وفاتہ عام ۴۹بالغًامن العمرالخامسۃوالأربعین‘‘(دائرۃالمعارف الإسلامیۃ،ج۷،ص۴۰۲)  (حسن بن علیؑ کی وفات ذات الریہ کی بیماری کی وجہ سے مدینے میںہوئی،اوریہ واقعہ۴۹ھ ؁میں۴۵سال کی عمرمیںپیش آیا)
   دائرۃالمعارف کے مصنف کے پاس اسکے اس نظریے کی کوئی دلیل نہیںہے اسکے علاوہ شہادت کے وقت آپؑ کی عمرمبارک۴۷یا۴۸سال تھی اسلئے کہ  ۲ ؁یا  ۳  ؁ہجری میںآپؑ کی ولادت ہوئی ہے۔
بہرصورت ایک مغربی عیسائی مصنف لامنس سے اس سے زیادہ کی توقع نہیںکی جاسکتی۔یہ غلطی اسلامی مصنفین کی ہے جنھوںنے میدان کوچھوڑتے ہوئے اسلام کے بارے میںانسائیکلوپیڈیاکالکھنامغربیوںکے حوالے کردیا۔اگرچہ سناجاتاہے کہ علامہ مغنیہ مرحوم نے اس دائرۃالمعارف پرنقدلکھاہے اورچاہاہے کہ دوسرے ایڈیشن میںموردنظرنکات کی اصلاح کی جائے۔
   ۳۔مصرکے مشہورمورخ ڈاکٹرحسن ابراہیم حسن نے اپنی کتاب تاریخ الاسلام السیاسی میںاس نظریے کی پیروی کرتے ہوئے لکھاہے:’’حسن بن علیؑ عراق سے مدینے واپسی کے چالیس دن بعداپنی طبعی موت مرے‘‘۔(تاریخ الإسلام السیاسی،ج۱،ص۳۹۸)
    صرف یہی تین افرادنہیںجنھوںنے یہ نظریہ پیش کیاہوبلکہ اسکے علاوہ بھی بہت سے افرادہیںجنھوںنے اسی طرح حقیقت پرپردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے مثلاًمحمداسعدنے اپنی کتاب میںاس نظریے کواختیار کرتے ہوئے لکھاہے:’’حسن بن علیؑ صلح کے بعدمدینے واپس آگئے،اس سفرکودومہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ حضرت اس دنیاسے رخصت ہوئے‘‘(تاریخ الأمۃالعربیۃ،ص۹۔۱۶)
     محمداسعدکی معلومات کااندازہ امام حسنؑ کی تاریخ شہادت کی تعیین سے لگایاجاسکتاہے۔یہ لوگ اھل بیتؑ کی زندگی کے بارے میںواضح اورآسان واقعات سے بھی آگاہ نہیںہیںاوربغیرکسی دلیل کوپیش کئے ہوئے تاریخی حقائق میںتردیدکااظہارکرتے ہیں۔
   لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاویہ کے ذریعے امام حسنؑ کوزہردیاجاناتاریخ کے مسلمات میںسے ہے اوراس بات کوصرف شیعہ علماء ہی نہیںبلکہ اہل سنت کے بہت سے بزرگ علماء ومورخین نے نقل کیاہے جن بزرگ اسلامی مورخین نے اس حقیقت کوبیان کیاہے ان میںسے بعض کی طرف اشارہ کیاجارہاہے تفصیل کے لئے علامہ امینی کی کتاب الغدیر کی گیارھویںجلدکی طرف مراجعہ کیاجائے:
   ۱۔محمدبن سعداپنی کتاب طبقات میںکہتے ہیں:’’سمّہ معاویۃمرارًا۔۔۔‘‘(تتمیم طبقات ابن سعد،ج۱،ص۳۵۲،حدیث۳۱۵)(معاویہ نے متعددمرتبہ امام حسنؑ کوزہردیا تھا)
   ۲۔ابن کثیرنے۴۹ھ؁ کے واقعات کے ذیل واقدی سے نقل کرتے ہوئے لکھاہے:’’انّہ سقی سمًّاثمّ أُفلت ثمّ سُقيفأفلت،ثمّ کانت الآخر ۃتوفی فیھا‘‘(تاریخ ابن کثیر،ج۸،ص۴۳۴،۴۹ھ؁کے واقعات کے ذیل میں)(آپؑ تین مرتبہ مسموم ہوئے اورآخری مرتبہ زہرآپؑ کی وفات کاسبب بنا)
   ۳۔مسعودی نے مروج الذھب میںلکھاہے:جب حسن بن علیؑ مسموم ہوئے آپ کے بھائی حسین بن علی ملاقات کے لئے تشریف لائے۔آپ نے بھائی سے فرمایا:لقدسُقیتُ السمَّ عدّۃمرارًافماسُقیتُ مثل ھذہ‘‘میںمتعددمرتبہ مسموم ہواہوںلیکن زہرکبھی اتناسخت نہیںتھا(مروج الذھب،ج۲،ص۵۰)
  ۴۔ابوالفرج اصفہانی کاکہناہے:’’امام مجتبیؑ اورمعاویہ کے درمیان صلح نامے کے مواردمیںسے ایک موردیہ تھاکہ معاویہ اپنے بعدکسی کوخلیفہ معین نہیںکرے گالیکن چونکہ وہ چاہتاتھاکہ اس کابیٹایزیداسکاجانشین بنے اوروہ خودلوگوںسے بیعت لے اس لئے اشعث کی بیٹی کے پاس پیغام بھیجاکہ میںاپنے بیٹے یزیدکی شادی تجھ سے کردوںگابشرطیکہ حسن ؑبن علیؑ کوزہردیدے۔اورمعاویہ نے اس کام کے لئے ایک لاکھ درہم اشعث کی بیٹی کودیے۔بنت اشعث نے معاویہ کی چال میںآکرحضرت ؑکوزہردیالیکن اس نے اپنے وعدہ پرعمل نہیںکیا‘‘۔(مقاتل الطالبین،ص۸۰)
   ۵۔ابوالحسن مدائنی کاکہناہے کہ’’ آنحضرت ؑنے۴۹ھ؁میں۴۷سال کی عمرمیںوفات پائی اورچالیس دن تک بستربیماری پررہے اسلئے کہ معاویہ نے پوشیدہ طورپرجعدہ بنت اشعث کے ذریعہ زہردیاتھا۔اوراس کام کی تشویق کے لئے اس سے وعدہ کیاکہ اپنے بیٹے یزیدکی شادی اس سے کرے گالیکن بعدمیںاپنے وعدے پرعمل نہیںکیاجب جعدہ نے معاویہ کوپیغام بھیجااوراس سے وعدے پرعمل کرنے کامطالبہ کیاتومعاویہ نے جواب میںکہا:جوکام تونے حسنؑ بن علیؑ کے ساتھ کیامجھے خوف ہے کہ کہیںوہی کام تومیرے بیٹے کے ساتھ نہ کرے‘‘۔(شرح نھج البلاغہ،ابن ابی الحدید،ج۱۶،ص۱۱)
   ۶۔ابن عبدالبرنے لکھاہے کہ قتادہ اورابوبکربن حفص کہتے ہیں:’’حسن بن علیؑ کوززہردیاگیا۔اوریہ کام آپ کی زوجہ بنت اشعث نے کیااوربعض لوگ کہتے ہیںکہ یہ کام معاویہ کی چال سے انجام پایا۔چونکہ اس کام پراس عورت کی تشویق کی اورایک رقم اسکو دی‘‘(الاستیعاب،ج۱،ص۳۸۹،نمبر۵۵۵)
    ۷۔سبط ابن جوزی کہتے ہیں:’’علمائے سیرہ کے مطابق آپ کی زوجہ جعدہ بنت اشعث نے آپ کوزہردیا،یزیدبن معاویہ نے اس سے کہلوایا کہ اگرانکوزہردیدوتومیںتجھ سے شادی کرلوںگا۔لیکن شعبی کاکہناہے کہ:دراصل یہ معاویہ کی چال تھی اسی نے جعدہ کویہ پیغام بھیجااوررقم اسکے حوالے کی ۔اسی وجہ سے امام مجتبیؑ نے اس منصوبے سے مطلع ہونے اورمسموم ہونے کے بعداپنی بیوی سے فرمایا:کہ ہرگزمعاویہ اپنے وعدے پرعمل نہیںکریگا‘‘(تذکرۃالخواص،ص۲۱۱)
    ۸۔ابن عساکرنے اپنی تاریخ میںلکھاہے:’’حسن بن علیؑ متعددمرتبہ مسموم ہوئے،آخری مرتبہ زہرنے اپنااثردکھایا۔کہاجاتاہے کہ معاویہ نے چال بازی سے آپؑ کے بعض نوکروں کو فریب دیا کہ آپکو زہر دیں ۔محمد بن مرزبان کا کہنا ہے کہ جعدہ بنت اشعث نے اس کام کوانجام دیا‘‘۔(تاریخ مدینۃدمشق،ص۲۱۱)
    ۹۔مزّی نے ام بکر بنت المسورسے نقل کیا ہے کہ’’ حسن بن علی ؑمتعدد مرتبہ مسموم ہو ئے اور آخری مرتبہ میں وفات پائی۔لوگوں نے عبداﷲبن الحسن کو کہتے سنا کہ معاویہ نے آپ کے خدمت گزاروں کو چالبازی سے فریب دیکر مسموم کیا ۔آپ نے زہر کی حالت میں چالیس دن کاٹے اور وفات پائی‘‘۔(تھذیب الکمال،ج۶،ص۲۵۲،ح۱۲۴۸)
   ۱۰۔زمخشری نے لکھا ہے:’’معاویہ نے جعدہ کو ایک لاکھ درہم دیاکہ حسن بن علی ؑکو زہر دے‘‘۔(ربیع الابرار،ج۴،ص۲۰۸)
   ۱۱۔ابن عبدربہ کا کہنا ہے کہ :’’جب حسن بن علی ؑکی وفات کی خبر معاویہ تک پہونچی تو اس نے سجدہ کیاپھر ابن عباس کے پاس ایک آدمی بھیجا کہ انکو تعزیت پیش کرے جبکہ وہ خودمسرور تھا‘‘۔(العقدالفرید،ج۴،ص۱۵۶)
        جن علما ئے اہل سنت نے معاویہ کی مکاّری وچالبازی کے ذریعے حضرت ؑکو زہر دیے جانے کی تصریح کی ہے انکی تعدادمندرجہ بالاافراد سے کہیں زیادہ ہے اس سلسلے میںمزیدمعلومات کے لئے مندرجہ ذیل کتابوںکی طرف رجوع کیاجاسکتاہے:(انساب الاشراف،بلاذری،ص۵۹؛الفصول المھمۃ،ابن صباغ مالکی،ص۱۴۶؛مستدرک،حاکم نیشاپوری،ج۳،ص۱۷۶؛تاریخ الخلفائ،سیوطی،ص۹۴)

اوراگراس گروہ کے ساتھ شیعہ مورخین کابھی اضافہ کریںتوروئے زمین پربدترین شخص کے ہاتھوںآنحضرتؑ کی مسمومیت تواترکی حدتک پہونچ جائے گی۔