ہفتہ، 4 جون، 2011

حضور اکرم ۖ اور شیعہ و سنی


حضور اکرم ۖ اور شیعہ و سنی
ختمی مرتبت ۖ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوناامت مسلمہ کی بنیادی اور اہم ترین ضرورت ہے اور مختلف اسلامی مکاتب فکر کے پیروکاروں کا اتحاد عالم اسلام کی مشکلات کا حل اور ترقی و پیشرفت کا ضامن ہے۔ جہل و غفلت اور تباہی و انحطاط کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں بشریت کے اخلاقی فضائل اور انسانی کمالات، پیغمبر اکرمۖ کے مقدس اور نورانی وجود کے ظہور کا نتیجہ ہیں۔ 
امت مسلمہ کے لئے حضرت ختمی مرتبتۖ کی ضوفشاں ہدایت پر غور و فکر کرنا اور اس سے سبق حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے اور عالم اسلام کی بڑی آبادی، نہایت اہم جغرافیائی محل وقوع اور بے پناہ افرادی قوت اور قیمتی ذخائر رکھنے کے ساتھ یہ بنیادی سوال اٹھایاجاسکتا ہے کہ اتنا عظیم مجموعہ اپنی ان خصوصیات کے باوجود کیوں سرگرداں اور پس و پیش کی کیفیت کا شکار ہے، غربت، تفریق، پسماندگی اور دوسری بہت سی ثقافتی کمزوریوں سے دوچار ہے اور دنیا کی تسلط پسند طاقتوں کے سامنے اپنے حقوق کا دفاع کرنے پر قادر نہیں ؟ 
مسلمانوں کے حقوق کے دفاع میں عالم اسلام کی عاجزی اور ناتوانی کو ایک مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ فلسطین کی تاریخی اور مقدس سرزمین پر غاصبانہ قبضہ اور مظلوم فلسطینی قوم پر جرائم پیشہ صیہونیوں کے لا محدود اور بلا وقفہ جاری مظالم وہ گہرا زخم ہے جو امت مسلمہ کے عظیم پیکر کو مضطرب کئے ہوئے ہے لیکن عالم اسلامی مجموعی طور پر کچھ ایسا طرز عمل اختیار کئے ہوئے کہ گویا مسئلہ فلسطین کا اس سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ 
 اسرائیل کی غیر قانونی صیہونی حکومت ایک خطرناک کینسر ہے  اور اس مہلک سرطان اور اس کے حامیوں سے خود کو محفوظ رکھنے کا واحد راستہ اسلام کی سمت واپسی اور نبی اکر م  ۖ کی تعلیمات کو محور زیست قرار دینا ہے۔ 
مسلمانوں کے حقوق کے دفاع کے سلسلے میں عالم اسلام کی ناتوانی اور کمزوری کے علل و اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ امت مسلمہ کے اندر اختلاف و تفرقہ ڈالنے کی امریکا، برطانیہ اور دیگر اسلام دشمن طاقتوں کی مربوط کوششوں اور سازشوں کو دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ یہ تسلط پسند سامراجی طاقتیں بخوبی جانتی ہیں کہ اختلاف اور تفرقے کے ذریعے امت مسلمہ کو حیاتی اہمیت کے حامل مسئلہ فلسطین سے لا تعلق رکھا جا سکتا ہے، اسی لئے وہ ہر ممکنہ حربہ استعمال کرکے فرقہ وارانہ، مذہبی اور جغرافیائی اختلافات کو شیعہ اور سنی فرقوں نیز دیگر اسلامی مکاتب فکر کے دلوں میں شعلہ ور کر رہی ہیں۔ 
اتحاد و ہمدلی عظیم امت مسلمہ کی سب سے اہم ضرورت ہے اور اسلامی ممالک کی حکومتیں، روشن فکر دانشور، علما اور سیاسی و سماجی کارکنوں کو اتحاد قائم کرنے کے فریضے پر عمل کرنا چاہیے کہ اگر اسلامی بیداری میں اور بھی گہرائی اور گیرائی پیدا ہو جائے اور مسلمانوں کے قلوب ایک دوسرے کے اور بھی نزدیک آ جائیں تو اجتماعی تعاون و ترقی کی راہ کھل جائے گی اور مسئلہ فلسطین سمیت عالم اسلام کے بیشتر مسائل کا حل نکل آئے گا۔جارحیت کا نشانہ بننے والی اسلامی سرزمینوں کا دفاع تمام اسلامی مکاتب فکر کا متفق علیہ مسئلہ ہے اور اس اتفاق نظر کے باوجود بد قسمتی سے عالم اسلام شیعہ سنی اور دوسرے فرقوں کے اختلافات کو ہوا دینے والی امریکا اور برطانیہ کی سازشوں سے متاثر نظر آتا ہے۔ 
 اتحاد بین المسلمین اور مسئلہ فلسطین کا دفاع اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی اہداف اور ترجیحات میں ہے اور ان دونوں نکات کے سلسلے میں بانیٔ انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے بیانوں اور تاکید کو دیکھا جاسکتا ہے اور اسلامی نظام اور ملک کے تمام حکام اور ایرانی عوام ان اصولی مسائل کو شرعی واجب کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور اس سلسلے میں سب کا نظریہ ایک رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ 
امت مسلمہ کی روز افزوں بیداری اور فلسطین کی حمایت میں اٹھنے والی قوموں کی آواز عالم اسلام کی رائے عامہ کی سطح پر اسلامی جمہوریہ ایران کے بر حق نظریے کا دلنشیں انعکاس ہے اور اسلامی حکومتوں کو بھی چاہئے کہ رسول اسلامۖ کی تأسی کرتے ہوئے مسلمانوں کے اتحاد اور ان کے حقوق کے دفاع بالخصوص غاصب اسرائیل کی صورت میں موجود سرطان کے مقابلے کی کوشش کریں تاکہ اللہ تعالی کی نصرت و اعانت سے مسلم امت کی دنیوی و اخروی سعادت و پیشرفت کی راہ ہموار ہو سکے۔ 
پیغمبر اسلامۖ  کے ساتھ امت اسلامی کے بے پناہ عشق اور والہانہ محبت کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ امت مسلمہ کو نبی اکرمۖ کے محور پر متحد ہونے اور دشمنان اسلام کی تفرقہ انگیزاور اختلافات پھیلانے والی سازشوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
 علم و حکمت ، تزکیہ و اخلاق اور عدالت و انصاف بعثت پیغمبر اکرمۖکے تین اہم پیغام تھے اور انسانی معاشرے کی مشکلات اور مصائب کو دیکھتے ہوئے اسوقت تمام انسانوں کو انبیا الہی کی تعلیمات کی سخت ضرورت ہے اور اسلام وقرآن میں یہ تمام تعلیمات موجود ہیں۔
معنوی علوم میں انسانی معاشرے کی پسماندگی اور اخلاق و معنویت سے دوری دنیا کی تمام مشکلات اور جنگ و خونریزی کا سرچشمہ ہے اور مروت ، انصاف ، محبت اور اخلاقی پاکیزگی کی طرف اسلام کی دعوت کی تمام قومیں خصوصا تمام ممالک کے اعلی حکام اور ممتاز افراد سخت محتاج ہیں ۔
قیام عدالت انسان کی ابدی ضرورت اور انبیا الہی کی بعثت کا دوسرا مقصدہے اور بعثت پیغمبر اکرمۖ کے تین اہم پیغامات ، یعنی علم ، اخلاق اور عدالت ملت ایران کے بنیادی اصولوں اور اساسی اقدار میں شمار ہوتے ہیں اور ہم سب کوان اصولوں کے تحقق کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔اسلامی اصولوں سے پیچھے ہٹنا ، طرح طرح کی مصلحتوں کے جال میں پھنسنا اور دنیا میں رائج مادی مکاتب فکر کی چاردیواری میں گرفتار ہونا ، بے شک ناکامی اور شکست سے دوچار ہونے کا سبب ہے اور آئندہ بھی ہوگا ۔
 انسانی معاشرہ دو بڑی مصیبتوں میں مبتلا ہے اول : وہ غلط راستہ جو اقوام عالم کو نیک بختی اور سعادت کے راستے کے عنوان سے دکھایا جاتاہے دوم : عالمی امور پر بد ترین افراد کا حاکم ہونا ۔
انسانی معاشرے کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ آج بد ترین افراد دنیا کی اصلاح کا پرچم بلند کئے ہوئے ہیں ۔امریکہ کی شیطانی اور مستکبر طاقت تمام انسانی معاشروں پر اپنی بے لگام حکومت مسلط کرنے کی کوشش میں مصروف ہے اور اسلام پر دہشت گردی اور بنیاد پرستی کا الزام لگارہی ہے جبکہ مسلمانوں پر ظلم و ستم اور دہشت گردی ، جنگ و خونریزی کا اصلی سبب ، خود امریکی حکومت ہے۔ 
 مسلمانوں میں بیداری، اسلامی شناخت کی طرف بازگشت، اور اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے اندر جرات و ہمت مسلم اقوام کے رنج وغم کا علاج ہے اور امت مسلمہ قرآنی برکات اور اسلام کے نورانی احکام سے بہرہ مندہیں اور امت مسلمہ، پیغمبر خاتمۖ کے دین سے تمسک کے سایہ میں انسانی حیات کو لاحق تباہ کن خطرات کا مقابلہ کرسکتی ہے ۔
 رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی، دین وسیاست کو ایک سمجھنا اورعدل و انصاف و تزکیہ و تعلیم کے لئے اسلامی حکومت قائم کرنا آج کی اسلامی دنیا کے تمام مسائل کا حل ہے ۔
 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یکسان طور پر سیاست ،تربیت اور انسانوں کی تعلیم پر توجہ فرمایا کرتے تھے اور یہ اسلام میں دین و سیاست کے ایک ہونے کی دلیل ہے ، رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں سیاست و تدبیر اور مدن کی ذمہ داری غیر مسلم کو نہیں سونپی جاسکتی اور نہ محض اخلاق و روحانیت پراکتفا کیاجاسکتا ہے ۔
بعض لوگ قرآن کی عبارت پر ایمان لے آتے ہیں لیکن اس کی سیاست پر ایمان نہیں لاتے اور کچھ لوگ اسلام کا سیاست میں خلاصہ کرتے ہیں اور اخلاق وروحانیت سے غافل رہتے ہیں لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ میں "دین و حکومت "اور "اخلاق وحکومت "کا سرچشمہ قرآن و وحی ہے ، اس نکتے کا ادراک اور اس پرعمل کرنا آج امت اسلامی کی ضرورت اور مسلمان قوموں کے تمام مسائل کا حل ہے ۔
آج امت اسلامی کو حقیقی معنی میں اسلامی حکومت تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ مسلمان اخلاقی و معنوی کمالات حاصل کرکے علمی و سائنسی،سیاسی ،اقتصادی ،اور ثقافتی میدانوں میں ہمہ گیر ترقی کی راہیں فراہم کرسکیں اور اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے دشمنوں کے مد مقابل اپنے مفادات کادفاع کرسکیں ۔
موجودہ دور میں عالم اسلام میں امریکہ اور سامراج کا ایک بنیادی ہدف، تفرقہ و اختلافات کی آگ بھڑکانہ ہے اور اس کا بہترین طریقہ اہل تشیع اور اہل تسنن کے درمیان اختلاف ڈالنا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں سامراج کے پروردہ عناصر آج عراق کے مسائل کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں؟! کس طرح زہرافشانی کر رہے ہیں اور دشمنی کے بیج بو رہے ہیں؟! مغرب کی تسلط پسند اور جاہ طلب طاقتیں برسہا برس سے اس کام میں مصروف ہیں۔ بہت ہوشیاری سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ہر وقت اور ہر موقع پر چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ شیعہ سنی جنگ امریکہ کا مرغوب ترین مشغلہ ہے۔ 
مسلم اقوام اپنی آنکھیں کھلی رکھیں، دشمن کی سازشوں اور چالبازیوں کو معمولی نہ سمجھیں۔ اپنی بیداری و ہوشیاری کی حفاظت کریں۔ یہ وقت مسلم اقوام کے اتحاد اور یکجہتی کا متقاضی ہے۔ میں تمام مسلمانوں اور تمام مسلم اقوام کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ شیعہ، سنی اختلاف پر قابو پائیں۔ مجھے وہ ہاتھ نظر آ رہے ہیں جو مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان شیعہ سنی جنگ شروع کروانے میں لگے ہیں۔ قتل عام کے جو واقعات ہو رہے ہیں، مساجد، امام بارگاہوں، نماز جماعت اور نماز جمعہ میں جو دھماکے ہو رہے ہیں ان میں صیہونزم اور عالمی استکبار کا پورا پورا ہاتھ ہے۔ یہ کام مسلمان انجام نہیں دے رہے ہیں۔ عراق، ایران، پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے ملنے والی اطلاعات، دنیائے اسلام میں رونما ہونے والے بھیانک واقعات میں صیہونیوں اور اسلام دشمن طاقتوں کا براہ راست یا بالواسطہ ہاتھ ہونے کی غمازی کرتی ہیں۔ 
ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ شیعہ، سنی فرقے میں شامل ہو جائیں اور سنی شیعہ بن جائیں، یہ مراد نہیں ہے کہ ایک مذہب دوسرے میں ضم ہو جائے۔ ہمارا یہ کہنا نہیں ہے کہ شیعہ اور سنی حتی المقدور اپنے عقائد کے علمی استحکام کی کوشش نہ کریں۔ علمی کام تو مستحسن ہے اس میں کوئی مضایقہ نہیں ہے۔ بعض افراد اتحاد بین المسلمین کا ہدف حاصل کرنے کے لئے مذاہب کی نفی کی بات کرتے ہیں۔ مذاہب کی نفی سے مشکل حل ہونے والی نہیں ہے۔ مشکلات کا حل مذاہب کو صحیح انداز سے ثابت کرکے ممکن ہوگا۔ جو بھی فرقے ہیں وہ اپنے اپنے دائرہ کار میں معمول کے امور انجام دیں لیکن ایک دوسرے سے اپنے تعلقات بہتر کرنے پرخاص توجہ دیں۔ علمی کتابیں لکھیں لیکن یہ کام علمی فضا میں انجام پائے، اس کے باہر نہیں۔ اگر کوئی اپنی بات منطقی انداز میں ثابت کر دیتا ہے تو ہم اسے ایسا کرنے سے نہ روکیں لیکن اگر کوئی شخص اپنے بیان، کردار یا کسی اور طریقے سے اختلاف پیدا کرنا چاہتا ہے تو ہمارے خیال میں یہ تو دشمن کی خدمت ہے۔ اہل سنت کوبھی محتاط رہنا چاہئے اور شیعوں کو بھی۔ ہر شخص اپنے عقیدے اور اقدار کا احترام کرتا ہے اور یہ اس کا حق بھی ہے لیکن یہ عمل کسی دوسرے فرقے کی اقدار کی توہین کا باعث نہ بننے پائے جس کے عقائد ہم سے الگ ہیں۔ ہم ایک اسلام، ایک کعبے، ایک پیغمبر، ایک نماز، ایک حج، ایک جہاد اور ایک ہی شریعت کو ماننے اور اس پر عمل کرنے والے ہیں۔ مماثلتوں کے مقابلے میں اختلافی باتیں کئی گنا کم ہیں۔ اسلام دشمن طاقتیں،پورے عالم اسلام میں شیعہ سنی اختلاف کے شعلے دیکھنا پسند کرتی ہیں۔ 
امیر المومنین علی علیہ السلام کو شیعہ اور سنی اسی طرح دیگر فرقوں کے درمیان اختلاف کا باعث نہ بنائیے۔ امیر المومنین علیہ السلام تو نقطہ اتحاد ہیں، نہ کہ نقطہ اختلاف۔ دنیا کے گوشے گوشے میں آباد ہمارے بھائی بہن اس بات پر یقین رکھیں کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نقطہ اتحاد ہیں۔ پورا عالم اسلام امیر المومنین علی علیہ السلام کے سامنے عقیدت سے ہاتھ جوڑے کھڑا ہے۔ پوری تاریخ اسلام میں، وہ چاہے اموی دور ہو یا عباسی دور، کچھ گروہ امیر المومنین علی علیہ السلام سے دشمنی رکھتے تھے، لیکن مجموعی طور پر عالم اسلام جس میں شیعہ سنی دونوں شامل ہیں، امیر المومنین علی علیہ السلام کا عقیدتمند رہا ہے۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شان میں اہل سنت کے ائمہ فقہ نے طبع آزمائی کی ہے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام کی شان میں کہے گئے معروف اشعار امام شافعی سے منسوب ہیں۔ انہوں نے حضرت علی علیہ السلام ہی نہیں تمام یا پھر اکثر ائمہ اہلبیت سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ ہم شیعوں کے نزدیک ان بزرگوار شخصیتوں کا مقام بالکل عیاں ہے۔ 
بد قسمتی سے عالم اسلام میں ایسے بھی عناصر ہیں جو امریکہ اور سامراجی طاقتوں کی قربت حاصل کرنے کے لئے ہر جائز ناجائز کام کرنے کو تیار ہیں اور شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دے رے ہیں۔ میں آج واضح طو پر کچھ ہاتھ دیکھ رہا ہوں جو عمدا اور پوری منصوبہ بندی کیساتھ شیعہ، سنی اختلافات کی آگ بھڑکا رہے ہیں، فرقوں کو ایک دوسرے سے جدا کر رہے ہیں، سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کی دشمنی پر اکسا رہے ہیں تاکہ حالات کا فائدہ اٹھا کر اپنا الو سیدھا کر سکیں اور مسلم ممالک میں ان کے ناجائز مفادات کو تحفظ حاصل ہو۔ ہمیں بہت زیادہ محتاط اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ 
جو لوگ شیعوں کو اہل سنت اور اہل سنت کو شیعہ کے خلاف مشتعل کر رہے ہیں وہ نہ تو شیعوں کے ہمدرد ہیں اور نہ ہی اہل سنت سے انہیں کوئی دلچسپی ہے۔ وہ سرے سے اسلام ہی کے دشمن ہیں۔ 
"رحما ء بینھم" یعنی مسلمان بھائی آپس میں ایک دوسرے کے ہمدرد بنیں۔ دشمن دونوں طرف سے حملے کر رہا ہے۔ ایک طرف تو غلو اور دشمنی اہلبیت کی ترویج کر رہا اور شیعوں کو اہل سنت کی نگاہ میں سب سے بڑا دشمن بنا کر پیش کر رہا ہے اور بد قسمتی سے مذاہبی انتہا پسندی کے شکار بعض افراد اس کا یقین بھی کربیٹھے ہیں، دوسری طرف شیعوں کو اہل سنت کے عقائد کی بے حرمتی اور ان کے جذبات کو مجروح کرنے پر اکساتا ہے۔ دشمن کی سازش یہ ہے کہ یہ دونوں فرقے ہمیشہ لڑتے مرتے رہیں۔ دشمن ایسے زاوئے سے اقدام کرتا ہے کہ ممکن ہے آپ متوجہ نہ ہوسکیں اور اس کی جانب سے غافل رہ جائیں۔ لہذا ہوشیار رہئے اور دشمن کو ہر روپ میں پہچاننے کی کوشش کیجئے " ولتعرفنھم فی لحن القول " اس کی باتوں سے بھی اسے پہچانا جا سکتا ہے۔ 
جن علاقوں میں مختلف مذاہب اور فرقوں کے افراد آباد ہیں اور اختلافات پیدا ہونے کا امکان ہے وہاں مذہبی اور نسلی ٹکراؤ سے خاص طور پر پرہیز کرتے ہیں۔ دشمن کو یہی نہیں پسند ہے۔ شیعہ، سنی جنگ دشمن کے لئے بہت قیمتی اور اہم ہے۔ امت مسلمہ اختلافات کی شکار رہے تو اس سے معنویت و روحانیت، شادابی و تازگی، قدرت و طاقت، اور قومی شکوہ و عظمت سب کچھ مٹ جائے گا جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے " وتذھب ریحکم"
اس سلسلے میں جو عوامل اتحاد کا مرکز قرار پا سکتے ہیں ان میں ایک نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات والا صفات ہے۔ مسلم دانشوروں کو چاہئے کہ اسلام کے سلسلے میں وسیع النظری کا ثبوت دیتے ہوئے اس عظیم شخصیت، اس کی تعلیمات اور اس کی محبت و عقیدت کے سلسلے میں محنت کریں۔ 
اتحاد بین المسلمین کے مسئلے کو شیعہ ہوں یا سنی اسی طرح ان سے نکلنے والے دیگر فرقے، بہت سنجیدگی سے لیں۔ تمام مسلمان اتحاد پر خاص توجہ دیں۔ اتحاد بین المسلمین کا مطلب پوری طرح واضح ہے۔ یہ مسلمانوں کے لئے موت و حیات کا مسئلہ ہے۔ یہ کوئی نعرہ نہیں، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ مسلم معاشروں کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھنے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہئے۔ البتہ اتحاد ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، اتحاد قائم کرنا ایک دشوار کام ہے لیکن مسلم اقوام کا اتحاد ان کے مکاتب فکر میں تنوع کے ساتھ ممکن ہے، ان کا طرز زندگی الگ الگ ہے ان کے آداب و رسومات مختلف ہیں، ان کی فقہ الگ الگ ہے لیکن ان میں اتحاد ہو سکتا ہے۔ مسلم اقوام کے درمیان اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ عالم اسلام سے متعلق مسائل کے سلسلے میں ایک دوسرے سے ہم آہنگی بنائے رکھیں، ایک ہی سمت میں بڑھیں، ایک دوسرے کی مدد کریں اور قوموں کے اندرونی وسائل کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ کریں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں