جمعرات، 2 جون، 2011

ہم اورقرآن فریاداورا لتماس


باسمہ تعالیٰ
ہم اورقرآن فریاداورا لتماس 
                                       تحریر                                                                                      ترجمہ
                       حجةالاسلام والمسلمین جناب محسن قرائتی صاحب                                         سیدمحمدحسنین باقری 
قرآن کریم اسلام کی بنیادی دستاویزاورپیغمبراکرم صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کاابدی معجزہ ہے،یہ ایسی کتاب ہے کہ:''لایتیہ الباطل من بین یدیہ ولامن خلفہ '' فصلت ٤٢ (جس کے قریب سامنے یاپیچھے کسی طرف سے باطل آبھی نہیںسکتا)اورہرطرح کی تحریف سے محفوظ ہے : ''نّانحن نزّلناالذّکرو انّا لہ لحافظون''حجر٩(ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں )یہ کتاب نور، عبرت ،روشن دلیل ،متوجہ کرنے والی ،بیان ،رشد، برہان ، ذکر،فرقان اور مبارک ہے ۔
انتہائی افسوس کی بات ہے کہ بہت سے افراد یا تو قرآن پڑھ ہی نہیں سکتے یاغلط پڑھتے ہیں ،جو پڑھتے بھی ہیں وہ اس کے معنی نہیں جانتے ہیں جو معنی جانتے ہیں وہ اس میں تدبرّ نہیں کرتے ،جو تدبرّ کرتے ہیں وہ بہت کم عبرت لیتے ہیں نتیجہ یہ ہے کہ اس سے لگاؤ صرف دکھاوے، قسم کھانے،جہیز میں دینے، تجوید،ترتیل،حفظ اور مقابلے کی حد تک رہ گیاہے،اورقرآن میںغوروفکرکرناجومذکورہ تمام کاموں کا اصلی ہدف ہے وہ کہیں نظرنہیںآتا۔
     خداوندعالم ہم سے کیاچاہتاہے اورقرآن کے مقابلے میںہماراکیاوظیفہ ہے؟!
    ہم کوچاہیے کہ اس آسمانی کتاب کواپنے عقیدے،غوروفکر،ارادہ اورعمل کامحورقراردیںورنہ اس سے ہٹ کرقرآن ہم کوکچھ نہیں سمجھتا : ''یا اھل الکتاب لستم علیٰ شیٔ حتّٰی یقیمواالتورٰةو الانجیل و ماانزل الیکم'' مائدہ٦٨ (]اے رسول[کہہ دیجئے کہ اے اھل کتاب تمھاراکوئی مذھب نہیںہے جب تک توریت و انجیل اورجوکچھ پروردگارکی طرف سے نازل ہواہے اسے قائم نہ کرو)ہم کوچاہئے قرآن کو اہمیت دیںاوراس پرسختی سے عمل پیراہوںاوریہ بات ذہن نشین رکھیںکہ جوشخص اسمیںغوروفکرنہیںکرتاقرآن  اسکواچھی نظرسے نہیں دیکھتا: ''أفلا یتدبرون القرآن أم علیٰ قلوبٍ أقفالُھا''محمد٢٤(توکیا یہ لوگ قرآن میں ذرابھی غوروفکر نہیں کرتے ہیں یاانکے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں)دوسری طرف ہم قرآن کے مقابلے میںجوابدہ اورمدیون ہیں۔علم اصول میںکہاجاتاہے کہ اشتغال یقینی برائت یقینی چاہتاہے(یعنی جس چیز کے بارے میںیقین ہے کہ یہ ہماراوظیفہ ہے تویہ یقین حاصل کرنابھی ضروری ہے کہ ہم نے اس وظیفہ کوانجام دیدیاہے).  
آیاہم آج کے ثقافتی امورکے ذریعے برائت پیداکرسکتے ہیں؟یعنی اگرہم سے سوال کیاجائے کہ تم نے وحی کے مقابلے میں کیا کیا؟ تو کیا ہم اپنے مطالعے،تدریس وتحصیل کوپیش کرکے بری الذمہ ہوسکتے ہیں؟
ہاں!حوزوی دروس کوذمہ داری ولگن کے ساتھ پڑھاجائے لیکن اسکے ساتھ ساتھ آدھے سال یعنی گرمیوں،ماہ رمضان،محرم اوررسمی چھٹیوں میںہم تفسیرکے ایک سیٹ کامطالعہ،مباحثہ کرسکتے اورپیغام الٰہی سے زیادہ سے زیادہ آشناہوسکتے ہیں۔
کتنااچھاتھاکہ روزاول ہی سے ہم کوقرآن سے آشناکرایاجاتااور''ضَرَبَ زَیدعَمرًا''کے بجائے ''ضَرَبَ اﷲُمَثَلاً''یادکرایاجاتا؟
کیابہترتھاکچھ تشویقی انعامات اوروظیفے تفسیرکی بنیادپردیے جاتے؟کیایہ بہترنہ تھاکہ علماء وبزرگان اپناپوراوقت ان دس فیصدطلاب پرخر چ کرنے کے بجائے کہ جوفقیہ نکلتے ہیں،ہفتے میںایک دن قرآن میںغوروفکر،تدبّراوردقت میںخرچ کرتے جسکاہمارے تمام طلاب، جوان اورمعاشرہ ضرورتمندہیں؟
   ہماری مسجدوں،مدرسوں،اسکولوںمیںقرآن وتفسیرکامقام کہاںہے؟!جوافرادماہرومتخصص ہیںانسے کون استفادہ کرتاہے؟
کون ایسابیٹاہے جواپنے باپ کے خط کونہ پڑھتاہو؟مخلوق کوچاھیے اپنے خالق کی کتاب کوپڑھے اورسمجھے.بجاہے کہ ایام تحصیلی میںہم کوکام رہتاہے لیکن کیاقرآن ہماراکام نہیںہے؟
تفسیرکے جلسوںاوردروس کودوسرے تمام جلسوںاوردروس سے مقایسہ کیجئے توبعض جگہوںپرتوایک فیصدبھی نہیںہیں!
  ١۔ملاصدراصاحب سورہ واقعہ کی تفسیرکے مقدمے میںبیان کرتے ہیں:''میںنے حکماکی بہت زیادہ کتابوںکامطالعہ کیایہاںتک کہ میں گمان کرنے لگاکہ میںکچھ ہوںلیکن جب کچھ بصیرت بڑھی تواپنے کوواقعی اورحقیقی علوم سے خالی پایا.عمرکے آخری ایام میںیہ سوچاکہ قرآن اورمحمدوآل محمدعلیھم السلام کی روایات میںغوروفکرکروںاسوقت مجھے پتاچلاکہ ابتک کامیراکام بے بنیادتھااسلئے کہ میںپوری زندگی نورکے بجائے سائے میںکھڑاتھا،بہت ہی نادم ہوا،غصہ اورافسوس سے میرے دل میںشعلے بھڑک رہے تھے یہانتک کہ رحمت الٰہی نے مجھے سہارا دیا اور مجھے قرآن کے اسرارورموزسے آشنا کیااورمیںنے قرآن کی تفسیراوراسمیںتدبُّرشروع کیا،خانۂ وحی میںدق ّالباب کیا، دروازہ کھلا، حجابات ہٹے میںنے دیکھافرشتے مجھ سے کہہ رہے ہیں:''سلامّ علیکم طبتم فادخلوھاخالدین''زمر٧٣(تم پر ہماراسلام ہوتم پاک وپاکیزہ ہولہذا ہمیشہ کے لئے جنت میںداخل ہوجاؤ)میںاس وقت کہ جب اسرارقرآن کولکھناشروع کررہاہوں، اقرار کرتا ہوںکہ قرآن وہ عمیق دریا ہے جسمیںبغیرلطف الٰہی کے داخل ہوناممکن نہیں،لیکن کیاکروںمیری عمرختم ہوچکی ہے،میراجسم ناتوان،دل شکستہ،سرمایہ اور وسائل کم اور میری روح چھوٹی ہے۔
٢۔فیض کاشانی صاحب رسالۂ''انصاف''میںرقم طرازہیں:''میںنے مدتوںمتکلمین کے مجادلات ومباحثات کامطالعہ کیااورکوششیں کیںلیکن وہی بحثیںمیری جہالت کاسبب تھیں.مدتوںفلسفے کے میدان میںتعلیم وتفھّم کیااورانکی بحثوںمیںبلندپروازی کودیکھامدتوں اِدھراُدھرکی گفتگووںمیںرہا،کتابیںاوررسالے لکھے،کبھی فلاسفہ،متصوفہ اورمتکلمین کے کلام کوجمع کیا،آپس میںارتباط دیا(لیکن تمام باتوںکوقبول نہیںکرتاتھا)کسی بھی علم میںمیںنے اپنے دردکی دوانہیںپائی اورمیری پیاس نہ بجھ سکی.خوفزدہ ہوکراپنے خداکی طرف رخ کیا اوراسکے سامنے گڑگڑایایہانتک کہ خدانے قرآن وحدیث میںتعمّق وتفکرکے ذریعے میری ہدایت کی''۔
٣۔امام خمینیجنکوہم حضرت مہدی عجل اﷲتعالیٰ فرجہ الشریف کانائب مانتے ہیں،اپنی کتاب صحیفہ نورکی بیسویںجلدصفحہ٢٠پرفرماتے ہیں:'' میںسچ کہہ رہاہوںاسمیںکوئی تکلف نہیںکہ مجھے اپنی گذشتہ عمرپرافسوس ہے،اسلا م کے فرزندو!آپ اسکولوں،مدرسوں، یونیورسٹیوںکو قرآن کے اصولوںاوراسکے مختلف ابعادکی طرف متوجہ کیجئے،قرآن کی تدریس کوہرشعبہ،ہرموضوع میںمطمع نظراعلیٰ مقصد قراردیجئے.خدانخواستہ ایسانہ ہوکہ آپ بھی راقم السطورکی طرح عمرکے آخری ایام میںجب بڑھاپااورکمزوری غالب آجائے تواپنے کئے ہوئے پرپشیمان ہوںاورجوانی کے دنوںپرافسوس کریں۔
٤۔آیةاﷲوحیدخراسانی صاحب نے مسجداعظم میںاپنے درس میںکسی مناسبت پرفرمایا:آیاہم نے علم اصول وکفایہ میںزیادہ غوروفکرکیاہے یاقرآن میں...؟!۔
میںنے بزرگ علماء سے اسی طرح کے بہت سے اعترافات سنے ہیںجنکوبیان کرنے کی گنجائش نہیں.لہذاان تمام باتوںکومدنظررکھتے ہوئے ہم کوبھی چاہئے کہ قدم آگے بڑھائیں.لیکن کس طرح؟چندنمونے حاضرہیں:فرصت سے فائدہ اٹھایاجائے .ماہ مبارک رمضان بہارقرآن ہے،محرم وصفرکے ایام اورگرمیوںکی چھٹیاں،تفسیرقرآن کی ترویج اوردلوںمیںوحی کے چراغ روشن کرنے کے بہترین اورمناسب مواقع ۔
رمضان کی عظمت سب چیزوں سے بڑھکرنزول قرآن کی وجہ سے ہے:''شہر رمضان الذی اُنزل فیہ القرآن''بقرہ١٨٥ جس طرح شب قدر کی ایک اہم ترین عظمت قرآن کانازل ہونا ہے''اناانز الناہ فی لیلة قدر''قدر٢جس طرح جناب موسیٰ کووحی حاصل کرنے کے لئے اپنے جوتے اتارنا ضروری تھا ،اسی طرح ہم کو چاہئے کہ قرآن بیان کرنے کے لئے اپنے کو تیار کریں۔
فرصت سے استفادہ نہ کرنا یوم الحسرت میںحسرت کا سبب ہے جس طرح قرآن کے القاب :کریم،مجید ،عظیم اورنورہیںتو کیا ہم نے اسی طرح اس کی تکریم،تمجیداورتعظیم بھی کی ہے؟آج وہ وقت ہے کہ نئی نسل کے لاکھوں افرادتجویداور روخو انی کے سیکھنے کی طرف متوجہ ہوئے ہیںلہذاعلماء اگراس طرف سے غفلت برتیںتواس نئی نسل کے سامنے کیاجواب دیںگے؟
قرآن ہم پڑھتے ہیںکہ جنوںنے چندآیتیںسننے سے اپنے معاشرہ کودعوت دی لیکن ہم میںسے بعض کے پاس تفسیرکے کئی سیٹ موجود ہوتے ہیںلیکن اسکے باوجودمعاشرہ کوقرآن کی طرف دعوت نہیںدیتے۔
دنیائے مسیحیت،انجیل کی تفسیرکوکیسٹوںکے ذریعہ باہرسے بھیج رہی ہے لیکن ہم قرآن کی تفسیرکوگھرسے مسجدتک نہیںلے گئے ہیں .ہفتوں، مہینوںمختلف درسوںمیںاس امیدکے ساتھ بیٹھے کہ وہ دروس،قرآن سمجھنے کاذریعہ بنیںلیکن داڑھی وسرکے بال سفیدہوگئے پھربھی ان دروس کالازمی نتیجہ حاصل نہیںہوا۔
شائدمناسب ہوکہ''حاسبواقبل ان تحاسبو ا''کے پیغام کے ساتھ خود سے سوال کریں کہ ہم  نے اپنی عمر کے کتنے حصے کوقرآن میںغور فکر کرنے میں صرف کیا ہے ہمارے شہر،ہمارے علاقے میںتفسیرقرآن کے کتنے واقعی جلسے ہوتے ہیں؟ہمارے مبلغین ومقررین کی باتیں کس حدتک قرآنی اوراسکے مطالب سے ہماہنگ ہیں؟.کون ہے جوجرأت کے ساتھ یہ کہہ سکے کہ ہم نے قرآن سے متعلق اپنی ذمہ داری کو پوراکردیاہے؟قابل غوریہ ہے کہ ہم سے کہاگیاہے:''صلّ صلٰوةمودّع''ہرنمازیہ سوچ کرپڑھوکہ گویایہ تمھاری آخری نمازہے.کیا مناسب نہیںکہ ہم احتمال دیں،یہ ہمارے لئے آخری موقع ہے،لوگوںکوقرآن سے مانوس کرنے کی آخری مہلت ہے؟۔جوکچھ میںنے لکھا یہ اپنے دل کی آوازتھی.کسی سے جسارت نہیںکروںگالیکن پھربھی اگرکوئی چھوٹاپکارے توبڑوںکوتوجہ دیناچاھیے.جس طرح سے جب ھدھدنے علاقہ سے منحرف ہونے کی وجہ سے پکاراتوجناب سلیمان نے سنا۔
ہم قرآن میں پڑھتے ہیںکہ خدا وندعالم پیغمبرصلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم  کوراضی کرنا چاہتا ہے،دنیا میں بھی''فلنولینک قبلہ ترضٰھا''اورآخرت میںبھی ''ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ''توکیوںہم بھی اس پیغمبرصلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کوراضی نہ  کریںجس کوخداراضی کرناچاہتاہے؟خدانخواستہ وہ ضرورت کے دن اس جملے کے ذریعہ اپنی عدم رضایت کااعلان کردے کہ''ربّ انّ قومی اتخذواھذاالقرآن مھجورًا'' فرقان٣٠)۔
اے بزرگ علماء ،اے دین کے مبلغوجب زلیخانے مصرکی عورتوںکوجناب یوسف کادیدارکرایاتوسب نے اپنی انگلیاںکاٹ لیںاوردم بخودرہ گئیںاگرہم بھی نئی نسل کویوسف قرآن کاتعارف کرائیںتووہ بھی دوسروںسے دست بردارہوجائیںگے.قرآن کی تفسیرجب رواںبیان،قصدقربت،حسن سیرت اورکہنے والے کے عمل کے ساتھ ہوتواس وقت اپناعملی معجزہ دکھائے گی۔
قیامت میںدرجات،قرآن کے مطابق ہیں:''قرأورق''پیغمبراکرم صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم نے جنگ احدمیںجس شہیدکوجتناقرآن حفظ تھااسکی نمازپہلے پڑھی اسیطرح پیغمبراکرم صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم جنگوںمیںدیکھتے تھے کہ جس کوقرآن سے زیادہ آشنائی ہے اسی کوپرچم دیتے تھے۔ 
اس دن کی امیدکے ساتھ کہ جب قرآن ہماری فکر،قلب،قبراورقیامت میںنوراورحقیقی ثقل اکبرقرارپائے اور ہماری ہر چیزقرآن اور اہلبیت کے سائے میںہو۔
قرآن سے انس اورلگائو،افکارواخلاق واستدلالات،ارادوںاوررکھ رکھائواورمیل جول کے راستے کوبدلتااورخلائوںکوپُرکرتاہے بے شک قرآن نورہے اورمعاشرہ کواندھیرے وتاریکی سے اپنے نورکی طرف جذب کرتاہے.قرآن ذکرہے:''نحن نزّلناالذکر''اورجولوگ قرآن سے بے توجہی اورلاپرواہی برتیںوہ تلخ زندگی میںگرفتارہونگے:''ومن اعرض عن ذکری فانّ لہ معیشةضنکا''طہ١٢٤ آج ہم ایسی دنیامیںزندگی بسرکررہے ہیںجہاںفتنے اوربرائیاںشب تاریک کی طرح ہرجگہ کواپنی چپیٹ میںلئے ہوئے ہیں ایسے حالات میںقرآن واہلبیت کے سائے میںپناہ لینے کے علاوہ کوئی دوسراراستہ نہیںہے۔
یہ سطریںفریادبھی ہیںاورتجویزوآرزوبھی،ہرگزمدعی نہیںہوںلیکن جانتاہوںخداوندعالم مددکرے گا.آپنے اس تحریرکوپڑھنے کے بعدکیا فیصلہ کیاہے اورکیاارادہ ہے اورآپ کی کیارائے ہے؟انشااﷲآج ہی سے ہم شروع کریںگے۔
آرزوئیں:
١۔کاش ہم نئی نسل کے لئے ایسی تفسیرلکھیںجوانکی ضرورت کوپوراکرے۔
٢۔کاش ہرعلاقہ میںکوئی شخص ہمارے بچوںاوربزرگوںکے لئے قرآنی قصّوںکی تحلیل کرے۔
٣۔اس دن کے انتظارمیںکہ جب سادہ لیکن پرمغزتفسیر،مدارس اوریونیورسٹیوںکے رسمی دروس کاجزء قرارپائے۔
٤۔کاش ہمارے منبر،ضعیف اورادھراُدھرکی باتوںکے بجائے انوارقرآن سے مملوء ہوں۔
٥۔اس دن کی امیدمیںکہ جب تفسیرکوبھی علم سمجھیںاورقرآن کے اسرارورموزکوکشف کرکے دلوںکوجذب کریں۔
٦۔اس دن کی امیدکے ساتھ کہ جب بھی کسی طالبعلم سے پوچھاجائے کہ کیاپڑھ رہے ہوتوکہے:تفسیراورمکاسب،تفسیراورلمعہ...
ٔ٧۔اس امیدکے ساتھ کہ ہم آسمانی کتاب کااسی طرح احترام کریںجسکی وہ مستحق ہے:''ولوانّھم اقامواالتورٰةوالانجیل وماانزل الیھم''
٨۔اسدن کی امیدکے ساتھ کہ جب ؛پیسہ،مدارس،افراداورحوزوی دروس کاکچھ حصہ مفسرکی تربیت پرخرچ ہو۔
یہ نہ سوچئے کہ یہ امیدیںمحال ہیں؟کیاہم مختلف میدانوںمیںنہیںچمکے؟انشاء اﷲقرآن سے تنہائی دورکرنے میںبھی ہم چمکیںگے اورکامیاب ہونگے.لیکن دوشرطوںکے ساتھ :خداسے مدد،اسکے اولیاء سے توسل،قصدقربت اورپاک دلی کے ساتھ۔
میرے عزیزاوربزرگ بھائی؛میںایک عالم کوجانتاہوںانھوںنے مسجدالنبی ۖمیںپیغمبراکرم ۖسے توسل کے بعدحضرت سے چاہاکہ آپ کی رضایت وعدم رضایت کوجانیں.اسی نیت کے ساتھ قرآن کھولاتویہ آیت نکلی:''وقال الرسول ربّ انّ قومی اتخذوا ھٰذاالقرآن مھجورًا''فرقان٣٠اس آیت نے ان عالم کوبہت زیادہ متأثرکیا۔
 افاضل واہل منبرحضرات سے تقاضاکرتاہوںکہ انکی تقریروںکامحورقرآن ہواگرکوئی بات بیان کریںتوانھیںآیات کے سلسلے میںہو۔
تفسیرکے بیان کرنے میںچندنکات کی طرف توجہ ضروری ہے:
١۔لوگوںکی ضرورت کی طرف توجہ .  ٢۔ان آیات کوبیان کرناجنکے سلسلے میںقرآن نے تاکیدکی ہے.مثلاًمبدأومعاداورقیامت کے مناظراوراخلاقی،اجتماعی،سیاسی،گھریلومسائل کے سلسلے میںآیات.  ٣۔ایسے اقوال اورادبی وعلمی مطالب سے پرہیزجوخواص سے مخصوص ہیں.   ۔٤آیات کے پیغام کی طرف توجہ ہو.  ٥۔جلسے طولانی نہ ہوں(زیادہ سے زیادہ بیس منٹ).  ٦۔تفسیرکے جلسے دوستانہ اوربے تکلفی کے ہوں.  ٧۔اختتام پرنکات اورپیغامات کی اس طرح جمع بندی ہوکہ حدّاقل اسکے عناوین لکھنے اورمنتقل کرنے اورامتحان کے قابل ہوں.  ٨۔مخاطبین میںنئی نسل پرخصوصی توجہ ہو.  ٩۔ایسی جگہوںپرجہاںلوگ تفسیرسے آشنانہیںہوئے ہیں،وہاںقرآنی قصوںیاچھوٹے سوروںیاان آیتوںسے آغازکریںجوانکے ذہنوںسے آشنااورمأنوس ہیں.  ١٠۔کلاسزشروع کرنے سے پہلے تبلیغات وپبلسٹی ہواورہرجلسے کے بعدسامعین کی رائے معلوم کی جائے۔
بعض تجاویز:
١۔قرآن کواہمیت دینے اورعزّت بخشنے کے لئے بزرگ علماء آمادہ ہوںاورہفتہ میںایک دن کوتفسیراورقرآنی نکات کی تدریس کے لئے مخصوص کریں۔
٢۔حوزات علمیہ کے پرنسپل اورمدیرصاحبان چھٹی کے دنوںکے لئے لائحہ عمل تیارکریںتاکہ طلاب عزیزکچھ تفسیرقرآن کامطالعہ کریںاور آخرمیںامتحان لیاجائے اورتشویق ہو۔
٣۔ہرعلاقے میںخوش کلام علماء کھڑے ہوںاورنئی نسل کودعوت دیں،اورسب کوقرآن کی نعمت سے مالامال دسترخوان پربٹھائیںاور چند منٹ آیات کی تفسیرپیش کریں۔
٤۔اس وقت مدرسوںمیںتفسیرکے جودروس شروع ہوئے ہیںانشاء اﷲاورزیادہ رونق پیداکریںاورمدارس میںاس کام کے لئے ایک لائحہ عمل تیارہو۔
٥۔جوافاضل حضرات ایام تحصیل میںدرس خارج کی تقریرات لکھتے ہیںوہ ایام تعطیل میںقرآنی رسالے لکھیںتاکہ موردتحقیق وتنقیدقرار پائیںاورانکیاشاعت سے دوسرے بہرہ مندہوں۔وماتوفیقی الابااﷲ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں